- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
صحیح بخاری میں کچھ اہل بدعت کی بھی روایات موجود ہیں ، اس حوالے سے بہت سارے لوگ اعتراض کرتے رہتے ہیں ، اور ان کے جوابات بھی دے جاتے ہیں ، کتابوں کے اندر تو یہ سب کچھ موجود ہے ہی ، البتہ نیٹ پر اور بالخصوص محدث فورم پر اس حوالے سے مستقل تھریڈز موجود ہیں ، علماء کے ایک دو مجموعات میں آج درج ذیل سوال دہرایا گیا :
’ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ بخاری ہیں جنھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمان بن ملجم کی تعریف کرنے والے عمران بن حطان الخارجی سے (صحیح بخاری ) میں روایت لی ہے اور حالانکہ یہ شخص بدعت کے بڑے داعیوں میں سے تھا۔
اختصار علوم الحدیث// ص 95// طبع بیروت
اربابِ علم سے تبصرے کی درخواست ہے۔ ‘
بدعتی کی روایت کا حکم :
عمران بن حطان کی روایت کی صحیح بخاری کے اندر کیا نوعیت ہے ، اس پر گفتگو سے پہلے میں بدعتی کی روایت کے متعلق عموما اور پھر بدعتی کی روایت کے متعلق امام بخاری کے منہج کے حوالے سے اپنی ایک پرانی تحریر کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں ۔
کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی رواۃ خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ، یا خارجیت ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی شیعہ یا خارجی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے ۔
ایسی صورت میں نہ تو بدعتی کی روایت پر مطلقا رد کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے رد ہونے کا خدشہ ہے ۔
اور نہ ہی سب بدعتیوں کی روایات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ بہت ساری بدعات سنت کے نام پر امت کا بیڑا غرق کردیں گی ۔
اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے
١۔ صادق اللہجۃ ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا جائز نہ سمجھتا ہو۔
٢۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
٣۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
امام بخاری کا اہل بدعت کی روایات لینے میں منہج :
رہا صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی جو مذکورہ شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔
چنانچہ محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں امام بخاری کے معیار کا کھوج لگایا ہے جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ (منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
اس مختصر تمہید کے بعد ، اب میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اقتباس کا (جو سوال میں نقل ہوا ہے )سیاق نقل کرناچاہتا ہوں ۔
امام ابن الصلاح نے بدعتی کی روایت کے متعلق علماء کے مختلف اقوال بیان کیے ہیں ، جن میں ایک یہ بھی ہے ، کہ بدعت کی طرف داعی اور غیر داعی میں فرق کیا جائے گا ( جیسا کہ اوپر گزرا ) امام ابن کثیر عمران بن خطان الخارجی کی مثال بیان کرکے گویا اس قاعدے کا نقض کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قاعدہ کلی نہیں ہے ۔ بلکہ اگر ائمہ کرام کو قرائن و شواہد سے روایت کے درست ہونے کا یقین ہوجائے تو وہ ایسے راویوں کی روایات لے لیا کرتے تھے ۔
عمران بن حطان اور اس کی روایت کی حیثیت :
ذیل میں عمران بن حطان کے متعلق حافظ ابن حجر کی عبارت ہدی الساری سے نقل کرتا ہوں ، تاکہ اس کی حیثیت اور صحیح بخاری میں اس کی روایت کی حیثیت واضح ہوجائے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
خ د س عمران بن حطان السدوسي الشاعر المشهور كان يرى رأي الخوارج قال أبو العباس المبرد كان عمران رأس القعدية من الصفرية وخطيبهم وشاعرهم انتهى والقعدية قوم من الخوارج كانوا يقولون بقولهم ولا يرون الخروج بل يزينونه وكان عمران داعية إلى مذهبه وهو الذي رثى عبد الرحمن بن ملجم قاتل علي بتلك الأبيات السائرة وقد وثقه العجلي وقال قتادة كان لا يتهم في الحديث وقال أبو داود ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج ثم ذكر عمران هذا وغيره وقال يعقوب بن شيبة أدرك جماعة من الصحابة وصار في آخر أمره إلى أن رأى رأي الخوارج وقال العقيلي حدث عن عائشة ولم يتبين سماعه منها قلت لم يخرج له البخاري سوى حديث واحد من رواية يحيى بن أبي كثير عنه قال سألت عائشة عن الحرير فقالت ائت بن عباس فسأله فقال ائت بن عمر فسأله فقال حدثني أبو حفص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إنما يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة انتهى وهذا الحديث إنما أخرجه البخاري في المتابعات فللحديث عنده طرق غير هذه من رواية عمر وغيره وقد رواه مسلم من طريق أخرى عن بن عمرو وغيره وقد رواه مسلم من طريق أخرى عن بن عمر نحوه ورأيت بعض الأئمة يزعم أن البخاري إنما أخرج له ما حمل عنه قبل أن يرى رأي الخوارج وليس ذلك الإعتذار بقوي لأن يحيى بن أبي كثير إنما سمع منه باليمامة في حال هروبه من الحجاج وكان الحجاج يطلبه ليقتله لرأيه رأي الخوارج وقصته في ذلك مشهورة مبسوطة في الكامل للمبرد وفي غيره على أن أبا زكريا الموصلي حكى في تاريخ الموصل عن غيره أن عمران هذا رجع في آخر عمره عن رأي الخوارج فإن صح ذلك كان عذرا جيدا وإلا فلا يضر التخريج عمن هذا سبيله في المتابعات والله أعلم۔
فتح الباري لابن حجر (1/ 432)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس طویل اقتباس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ عمران بن حطان خارجی سوچ رکھنے والا تھا ، عملا خارجی نہیں تھا ( اصطلاح میں ایسے لوگوں کو خوارج قعدیہ کہا جاتا ہے )
2۔ خارجی مذہب کی طرف دعوت دینے والا ، بلکہ ان کا مایہ ناز خطیب اور شاعر تھا ۔
3۔ خارجی لوگ جھوٹ بولنا جائز نہیں سمجھتے تھے ، چنانچہ امام ابو داود فرماتے ہیں کہ روایت حدیث کے حوالے سے اہل بدعت میں خارجی لوگ سب سے بہترین ہیں ، اس میں اضافہ یہ کرلیں کہ امام قتادہ نے عمران بن حطان کے حوالے سے بالخصوص حدیث میں درست ہونے کی شہادت دی ہے ( کان لا یتہم فی الحدیث ) ۔
بلکہ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے صراحت سے فرماتے ہیں :
وإنما أخرج له البخاري على قاعدته في تخريج أحاديث المبتدع إذا كان صادق اللهجة متدينا
فتح الباري لابن حجر (10/ 290)
یعنی بخاری نے اس کی صداقت و دیانت کے سبب اس کی روایت کو لیا ہے ۔
4۔ صحیح بخاری میں ان کی صرف ایک روایت ہے ، جو کہ ریشم پہننے سے ممانعت کے متعلق ہے ، گویا اس حدیث کا بھی خوارج کی بدعت کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ ( اس راوی کی نقض صور سے متعلق ایک اور روایت بھی ہے ، بہر صورت اس کا بھی اس کی بدعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں)
5۔ حافظ ابن حجر کے مطابق اس روایت کے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کئی ایک متابعات و شواہد موجود ہیں ، گویا یہ بھی اس کی روایت کے درست ہونے کا ایک اضافی قرینہ ہے ۔
6۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران بن حطان آخری عمر میں خارجیت سے توبہ کر چکے تھے ، اگر یہ بات درست ہو تو اعتراض سرے سے ختم ہوجاتا ہے ۔
عمران بن حطان سے متعلق بالا تفصیل سے نہ صرف یہ کہ امام بخاری سے اعتراض رفع ہوجاتا ہے ، بلکہ یہ بات روز روشن کی طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ سرسری قواعد کی پیروی کرنے کی بجائے انتہائی دقت اور تتبع کے ساتھ روایات صحیح بخاری میں درج کیا کرتےتھے ۔ مکھن سے بال نکالنا آسان ہوگا لیکن محدثین نے جس طرح سچ اور جھوٹ کو پہچانا اور واضح کیا ہے ، تاریخ بیک وقت اس الہامی اور منطقی ’ منہج تحقیق ‘ کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالی ان محدثین کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چل کر قرآن وسنت کی خدمت کی توفیق عطا کرے ۔
’ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ یہ بخاری ہیں جنھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قاتل عبدالرحمان بن ملجم کی تعریف کرنے والے عمران بن حطان الخارجی سے (صحیح بخاری ) میں روایت لی ہے اور حالانکہ یہ شخص بدعت کے بڑے داعیوں میں سے تھا۔
اختصار علوم الحدیث// ص 95// طبع بیروت
اربابِ علم سے تبصرے کی درخواست ہے۔ ‘
بدعتی کی روایت کا حکم :
عمران بن حطان کی روایت کی صحیح بخاری کے اندر کیا نوعیت ہے ، اس پر گفتگو سے پہلے میں بدعتی کی روایت کے متعلق عموما اور پھر بدعتی کی روایت کے متعلق امام بخاری کے منہج کے حوالے سے اپنی ایک پرانی تحریر کو یہاں نقل کرنا چاہتا ہوں ۔
کسی بھی راوی کے مقبول ہونے کے لیے دو بنیادی شرطیں ہیں :
١۔ اس کا حافظہ قابل اعتماد ہو
٢۔ صاحب عدالت ہو ۔
ہمارا زیر بحث مسئلہ دوسری شرط سے متعلق ہے ۔ کیونکہ عدالت کی شرط سے بدعتی رواۃ خارج ہوجاتے ہیں ۔ اور تشیع یا رفض ، یا خارجیت ایک بدعت ہے لہذا اصل یہ ہے کہ کسی بھی شیعہ یا خارجی کی روایت کو قبول نہیں کیا جائے گا چاہے وہ حفظ و ضبط کا پہاڑ ہی کیوں نہ ہو ۔
لیکن بات صرف یہیں پر ختم نہیں ہوتی کیونکہ مبتدعہ کی بہت ساری اقسام ہیں مختلف اصناف ہیں کچھ ایسے ہیں جن کی بدعت ان کی روایت پر اثر انداز نہیں ہوتی یا وہ کسی بدعت صغری میں مبتلا ہوتے ہیں اور ساتھ ساتھ وہ نیک صادق اللہجہ اور دین دار ہوتے ہیں جبکہ کچھ رواۃ اس کے بر عکس ہوتے ہیں اور جھوٹ بولنا اور تقیہ کرنا ان کے نزدیک جزو ایمان ہے ۔
ایسی صورت میں نہ تو بدعتی کی روایت پر مطلقا رد کا حکم لگایا جا سکتا ہے کیونکہ بہت ساری احادیث صحیحہ کے رد ہونے کا خدشہ ہے ۔
اور نہ ہی سب بدعتیوں کی روایات کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ بہت ساری بدعات سنت کے نام پر امت کا بیڑا غرق کردیں گی ۔
اس لیے محدثین نے اس سلسلے میں کچھ شروط ذکر کیں کہ کن کن بدعتیوں کی روایات کن کن حالات میں قبول ہوں گی (علوم الحدیث لابن الصلاح اور اس کے متعلقات میں تفصیل ملاحظہ کی جا سکتی ہے )اس سلسلے میں جو راحج مذہب اس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ بدعتی کی روایت چند شرائط کے ساتھ مقبول ہے
١۔ صادق اللہجۃ ہونا چاہیے ۔ جھوٹ بولنا جائز نہ سمجھتا ہو۔
٢۔ بدعت مکفرہ میں مبتلا نہ ہو ۔
٣۔ بدعت کی طرف دعوت نہ دیتا ہو ۔
٤۔ اس کی روایت میں کوئی ایسی چیز نہ ہو جس سے اس کے بدعتی مذہب کی تائید ہو رہی ہو ۔
یہ موٹی موٹی شرائط ہیں جن کی موجودگی میں کسی بدعتی کی روایت کو قبول کیا جائے گا ۔ لیکن ایک بات ذہن میں رکھیں چونکہ یہ دو جمع دو برابر چار حساب کے قواعد نہیں لہذا بعض جگہوں پر محدثین نے ان قواعد سے اختلاف بھی کیا ہے مطلب کئی جگہوں پر ان شرائط سے تساہل کیا ہے اور بعض مقامات پرتشدد بھی کیا ہے اور یہ سب کچھ دلائل و قرائن کے ساتھ تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ یہ خواہشات نفس کی پیروی ہے ۔
امام بخاری کا اہل بدعت کی روایات لینے میں منہج :
رہا صحیح بخاری میں شیعہ و دیگر بدعتیوں کی روایات تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ موجود ہیں بلکہ بعض ایسے بدعتی بھی جو مذکورہ شرائط پر پورے نہیں اترتے لیکن پھر بھی ان کی روایات کو نقل کیا گیا ہے ۔
چنانچہ محدثین نے امام بخاری کی صحیح کا تتبع کر کے بدعتی کے بارے میں ان کا موقف سمجھنے کی کوشش کی ہے اور اس سلسلے میں امام بخاری کے معیار کا کھوج لگایا ہے جو کہ درج ذیل نقاط میں بیان کیا جا سکتا ہے :
١۔ بدعت مکفرہ والا راوی کوئی نہیں ہے ۔
٢۔ اکثر ان میں سے غیر داعی ہیں کچھ ایسے ہیں جو داعی تھے لیکن پھر توبہ کر چکے تھے ۔
٣۔ اکثر روایات متابعات و شواہد میں ہیں ۔
٤۔ بعض ایسے ہیں جن کا بدعتی ہونا ہی ثابت نہیں ۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں باحث أبو بکر الکافی کا رسالہ (منہج الإمام البخاری فی تصحیح الأحادیث و تعلیلہا ص ١٠٥ خاصۃ )
اس مختصر تمہید کے بعد ، اب میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کے اقتباس کا (جو سوال میں نقل ہوا ہے )سیاق نقل کرناچاہتا ہوں ۔
امام ابن الصلاح نے بدعتی کی روایت کے متعلق علماء کے مختلف اقوال بیان کیے ہیں ، جن میں ایک یہ بھی ہے ، کہ بدعت کی طرف داعی اور غیر داعی میں فرق کیا جائے گا ( جیسا کہ اوپر گزرا ) امام ابن کثیر عمران بن خطان الخارجی کی مثال بیان کرکے گویا اس قاعدے کا نقض کرنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قاعدہ کلی نہیں ہے ۔ بلکہ اگر ائمہ کرام کو قرائن و شواہد سے روایت کے درست ہونے کا یقین ہوجائے تو وہ ایسے راویوں کی روایات لے لیا کرتے تھے ۔
عمران بن حطان اور اس کی روایت کی حیثیت :
ذیل میں عمران بن حطان کے متعلق حافظ ابن حجر کی عبارت ہدی الساری سے نقل کرتا ہوں ، تاکہ اس کی حیثیت اور صحیح بخاری میں اس کی روایت کی حیثیت واضح ہوجائے ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
خ د س عمران بن حطان السدوسي الشاعر المشهور كان يرى رأي الخوارج قال أبو العباس المبرد كان عمران رأس القعدية من الصفرية وخطيبهم وشاعرهم انتهى والقعدية قوم من الخوارج كانوا يقولون بقولهم ولا يرون الخروج بل يزينونه وكان عمران داعية إلى مذهبه وهو الذي رثى عبد الرحمن بن ملجم قاتل علي بتلك الأبيات السائرة وقد وثقه العجلي وقال قتادة كان لا يتهم في الحديث وقال أبو داود ليس في أهل الأهواء أصح حديثا من الخوارج ثم ذكر عمران هذا وغيره وقال يعقوب بن شيبة أدرك جماعة من الصحابة وصار في آخر أمره إلى أن رأى رأي الخوارج وقال العقيلي حدث عن عائشة ولم يتبين سماعه منها قلت لم يخرج له البخاري سوى حديث واحد من رواية يحيى بن أبي كثير عنه قال سألت عائشة عن الحرير فقالت ائت بن عباس فسأله فقال ائت بن عمر فسأله فقال حدثني أبو حفص أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إنما يلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة انتهى وهذا الحديث إنما أخرجه البخاري في المتابعات فللحديث عنده طرق غير هذه من رواية عمر وغيره وقد رواه مسلم من طريق أخرى عن بن عمرو وغيره وقد رواه مسلم من طريق أخرى عن بن عمر نحوه ورأيت بعض الأئمة يزعم أن البخاري إنما أخرج له ما حمل عنه قبل أن يرى رأي الخوارج وليس ذلك الإعتذار بقوي لأن يحيى بن أبي كثير إنما سمع منه باليمامة في حال هروبه من الحجاج وكان الحجاج يطلبه ليقتله لرأيه رأي الخوارج وقصته في ذلك مشهورة مبسوطة في الكامل للمبرد وفي غيره على أن أبا زكريا الموصلي حكى في تاريخ الموصل عن غيره أن عمران هذا رجع في آخر عمره عن رأي الخوارج فإن صح ذلك كان عذرا جيدا وإلا فلا يضر التخريج عمن هذا سبيله في المتابعات والله أعلم۔
فتح الباري لابن حجر (1/ 432)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اس طویل اقتباس سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ عمران بن حطان خارجی سوچ رکھنے والا تھا ، عملا خارجی نہیں تھا ( اصطلاح میں ایسے لوگوں کو خوارج قعدیہ کہا جاتا ہے )
2۔ خارجی مذہب کی طرف دعوت دینے والا ، بلکہ ان کا مایہ ناز خطیب اور شاعر تھا ۔
3۔ خارجی لوگ جھوٹ بولنا جائز نہیں سمجھتے تھے ، چنانچہ امام ابو داود فرماتے ہیں کہ روایت حدیث کے حوالے سے اہل بدعت میں خارجی لوگ سب سے بہترین ہیں ، اس میں اضافہ یہ کرلیں کہ امام قتادہ نے عمران بن حطان کے حوالے سے بالخصوص حدیث میں درست ہونے کی شہادت دی ہے ( کان لا یتہم فی الحدیث ) ۔
بلکہ حافظ ابن حجر اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے صراحت سے فرماتے ہیں :
وإنما أخرج له البخاري على قاعدته في تخريج أحاديث المبتدع إذا كان صادق اللهجة متدينا
فتح الباري لابن حجر (10/ 290)
یعنی بخاری نے اس کی صداقت و دیانت کے سبب اس کی روایت کو لیا ہے ۔
4۔ صحیح بخاری میں ان کی صرف ایک روایت ہے ، جو کہ ریشم پہننے سے ممانعت کے متعلق ہے ، گویا اس حدیث کا بھی خوارج کی بدعت کے ساتھ سرے سے کوئی تعلق نہیں ۔ ( اس راوی کی نقض صور سے متعلق ایک اور روایت بھی ہے ، بہر صورت اس کا بھی اس کی بدعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں)
5۔ حافظ ابن حجر کے مطابق اس روایت کے صحیح بخاری و صحیح مسلم میں کئی ایک متابعات و شواہد موجود ہیں ، گویا یہ بھی اس کی روایت کے درست ہونے کا ایک اضافی قرینہ ہے ۔
6۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عمران بن حطان آخری عمر میں خارجیت سے توبہ کر چکے تھے ، اگر یہ بات درست ہو تو اعتراض سرے سے ختم ہوجاتا ہے ۔
عمران بن حطان سے متعلق بالا تفصیل سے نہ صرف یہ کہ امام بخاری سے اعتراض رفع ہوجاتا ہے ، بلکہ یہ بات روز روشن کی طرح نمایاں ہوجاتی ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ سرسری قواعد کی پیروی کرنے کی بجائے انتہائی دقت اور تتبع کے ساتھ روایات صحیح بخاری میں درج کیا کرتےتھے ۔ مکھن سے بال نکالنا آسان ہوگا لیکن محدثین نے جس طرح سچ اور جھوٹ کو پہچانا اور واضح کیا ہے ، تاریخ بیک وقت اس الہامی اور منطقی ’ منہج تحقیق ‘ کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ اللہ تعالی ان محدثین کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چل کر قرآن وسنت کی خدمت کی توفیق عطا کرے ۔
Last edited: