• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری میں کتاب الادب اور الادب المفرد للبخاری

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
السلام علیکم۔
سوالات و جوابات سیکشن کا درج ذیل تھریڈ مطالعے سے گزرا :
شیخ البانی کا دفاع اور چند لوگوں کے الزامات

زیادہ تر اعتراضات کا انداز نہایت بچکانہ محسوس ہوتا ہے۔ کچھ اعتراضات کا جواب دیا بھی جا چکا ہے۔
اور اس نے کتابیں لکھنی شروع کیں، وہ ابن ماجہ سے شروع ہوا اور باقی کتابوں کی بھی تقسیم کر دی اور کہا، کہ یہ صحیح ترمذی ہے اور یہ ضعیف ترمذی ہے، یہ صحیح ابن ماجہ ہے اور یہ ضعیف ابن ماجہ ہے، اگر آپ پوری اسلامی تاریخ میں دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ابن ماجہ ایک کتاب ہے اور تمام احادیث اسی میں ہیں، ترمذی ایک ہی کتاب اور اس میں ساری احادیث ہیں، اگر کسی حدیث میں کہنے لائق بات ہو گی ہو گی تو محدثین اس کو اس حدیث کے footnote میں لکھ دیتے تھے، کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا ہے، وغیرہ۔

لیکن یہ شخص (البانی) آیا اور اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اور اس کی دو مختلف جلدیں پبلش کیں، ضعیف الترمذی، صحیح الترمذی۔ جب آپ کسی بک سٹور میں جائیں گے اور یہ دونوں کتابیں دیکھیں تو آپ تو بس صحیح الترمذی خریدیں گے اور ضعیف الترمذی کو سایڈ پر ہی رکھ دیں گے۔ اور آپ صرف وہ احادیث لیں گے جن کو البانی نے صحیح کہا ہے اور آپ باقی تامام حدیثوں کو رد کر دیں گے، یہ طریقہ بالکل غلط ہے، اور یہ انکار حدیث کے مترادف ہے، کیونکہ آپ ان احادیث کا انکار کر رہیں ہیں جن کو آپ نے رد کر دیا۔
یہ عامیانہ اندازِ تحریر ہے ۔۔۔۔ اس سے بہتر تنقیدی انداز تو ڈاکٹر طاہر القادری کا رہا ہے ، جنہوں نے کہا تھا :
الادب المفرد کتاب کوئی ایسی غیر معروف تو ہے نہیں، تو اس کے اوپر "صحیح" لکھ دیا پہلے، "صحیح الادب المفرد" یعنی جو امام بخاری کی "الادب المفرد" تھی وہ صحیح بھی تھی ، ضعیف بھی تھی اور معروف بھی تھی، اب البانی صاحب امام بخاری کو بھی صحیح کررہے ہیں، یہ تو صحیح کرنے پہ آئيں تو ، تو ان کا مطلب ہے کہ امام بخاری بھی غلط ہیں۔
اب میں دوسری معنوں میں لے رہا ہوں کہ امام بخاری کے پاس بھی بقول ان کے ضعیف حدیثيں ہیں، اور غیر صحیح اور موضوع ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جو امام بخاری کی صحیح حدیث تھیں وہ اس میں ہے اور جو صحیح نہیں تھی وہ سب نکال دیں، تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
دکتور صہیب حسن حفظہ اللہ نے اس کے جواب میں لکھا تھا ۔۔۔۔ (بحوالہ : الادب المفرد للبخاری اور {علامہ البانی vs ڈاکٹر طاہر القادری})

جیسا کہ سب کو علم ہے کہ حضرت الامام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح بخاری میں بھی "کتاب الادب" کو شامل کیا ہے۔ صحیح بخاری کی کتاب الادب ، حدیث نمبر 5625 سے شروع ہوتی ہے اور 5872 پر ختم ہوتی ہے اور یہ کل احادیث 248 ہوئیں اور اس میں 128 ابواب ہیں۔

دوسری طرف امام بخاری نے جب کتاب "الادب المفرد" تحریر کی تو اس میں "ادب" سے متعلق 1322 احادیث (بحوالہ "الادب المفرد" نسخہ فواد الباقی) جمع فرمائیں۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح بخاری" میں 248 احادیث بیان کی ہیں تو اپنی کتاب "الادب المفرد" میں 1322 احادیث کیوں بیان کی ہیں؟
سادہ سی حقیقت صرف اتنی ہے کہ : امام بخاری نے جو کتاب "الادب المفرد" مرتب کی تو اس میں انہوں نے ادب کے بارے میں ہر قسم کی احادیث تحریر کردیں جس میں صحیح ، حسن اور حسن سے کم درجے کی احادیث بھی شامل تھیں لیکن چونکہ صحیح بخاری میں ان کا معیار بہت اونچا تھا اس لیے اس میں وہی احادیث شامل کی گئیں جو سند کے اعتبار سے اعلیٰ پایہ کی تھیں-
یہ بات ڈاکٹر قادری صاحب کے علم میں نہیں آئی اور انہوں نے کتاب "الادب المفرد" کی ساری احادیث کو صحیح بخاری کے درجے پر رکھ دیا۔ حالانکہ اگر صحیح بخاری کی "کتاب الادب" پر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غور کرلیتے تو فوراً فرق معلوم ہوجاتا۔

ڈاکٹر طاہر القادری نے جس اصل "الادب المفرد" کی بات کی ہے ، گمان اغلب ہے کہ وہ فواد الباقی ہی کی مرتب کردہ ہوگی کیونکہ یہی نسخہ ان دنوں رائج ہے اور اسی میں جملہ احادیث کی تعداد 1322 بیان ہوئی ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی نظر علامہ البانی کی صرف "صحیح الادب المفرد" پر ہی کیوں پڑی؟ "ضعیف الادب المفرد" پر کیوں نہیں پڑی؟
تنقید کا مسلمہ طریق کار یہ ہے کہ پہلے کسی شخص کے پورے کام کا جائزہ لیا جائے اور اس سے مکمل واقفیت حاصل کر کے ہی تنقید کی جائے۔ علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب "ضعیف الادب المفرد" پر تبصرہ بھی ارشاد فرما دیتے تاکہ ان کا موقف سامنے آ جاتا۔
علامہ البانی نے 215 احادیث کو "الادب المفرد" سے نکالا نہیں بلکہ اسے "ضعیف الادب المفرد" میں شامل کیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے علامہ البانی رحمۃ اللہ پر "اخراج" کا جو الزام لگایا ہے ۔۔۔ اگر اس تھیوری کو بنیاد بنایا جائے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس ہی طرح امام بخاری کی ذات پر بھی یہی الزام لاگو ہو سکتا ہے کیونکہ :
صحیح بخاری کی کتاب الادب میں صرف 248 احادیث ہیں جبکہ "الادب المفرد" میں امام بخاری نے 1322 احادیث جمع کی ہیں ، حالانکہ موضوع تو وہی "ادب" کا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تھیوری کو یہاں بھی اپلائی کیا جائے تو پھر "اخراج" کا یہی الزام امام بخاری کی ذات پر بھی کیونکر نہ لگے گا ؟!

ڈاکٹر صاحب نے شائد ضعیف الادب المفرد پر نگاہ نہیں دوڑائی کہ البانی رحمۃ اللہ نے وہ حدیثيں نکال باہر نہیں کیں بلکہ ان پر ایک اور کتاب ترتیب دی ہے !!

اب انصاف پسند قارئین اندازہ لگائیں کہ نکال باہر کرنے اور الگ ترتیب دینے میں کتنا فرق ہے؟!
علامہ البانی نے امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک کا نام "صحیح الادب المفرد" اور دوسری کا نام "ضعیف الادب المفرد" رکھا کہ عام مسلمانوں کو پتہ چلے کہ صحیح احادیث اور ضعیف احادیث کون کون سی ہیں؟
جیسے کہ خود امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کے "کتاب الادب" میں 1322 احادیث کے بجائے صرف 248 احادیث پر ہی انحصار کیا۔

تو اس سے پتہ چل گیا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ نے امام بخاری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی کتاب "الادب المفرد" پہ تخریج کرکے دو حصوں میں تقسیم کیا نہ کہ اخراج کیا۔

جیسے مثال کے طور پر ایک استاذ ایک ہی کلاس کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے تو اس کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اتنے شاگردوں کا اخراج کیا بلکہ اسے یہ کہا جائے گا کہ انہوں نے آسانی پیدا کرنے کے لیے ایک ہی کلاس کی دو کلاسیں بنادیں۔

آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔

ہم لوگ علامہ البانی صاحب کے اندھے مقلد نہیں ہیں۔ البانی صاحب نے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، وہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے خیال میں صحیح احادیث ہیں تو محدثین کے معیار کے مطابق انہیں صحیح ثابت کر دیں اور علمی انداز میں البانی صاحب کی غلطی واضح کردیں۔ ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ذرہ برابر ججھک محسوس نہ ہو گی۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ہم بلا کسی تعصب کے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان احادیث کے بارے میں البانی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی تحقیق ہی درست ہے۔
اعتراض منجانب ڈاکٹر طاہر القادری :
تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
صحیح بخاری اور صحیح مسلم نامی کتب احادیث میں دونوں ائمہ محترمین نے خود کہا ہے کہ ہم نے صرف صحیح احادیث جمع کی ہیں۔
باقی جو دیگر سنن کی کتابیں ہیں جیسے سنن ابی داؤد یا سنن نسائی یا سنن ابن ماجہ ۔۔۔ تو ان کتب کے متعلقہ مولفین نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس میں ہر حدیث صحیح ہے۔
امام ترمذی تو خود لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث حسن ہے یا یہ حدیث ضعیف ہے۔

مزید یہ کہ ۔۔۔
امام بخاری نے بھی اپنی کتاب " الادب المفرد" کے بارے میں یہ دعوی قطعاً نہیں کیا کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں ہے !!

اسی طرح امام حاکم نے 373ھ بعد چوتھی صدی میں حدیثيں جمع کیں اور اپنی کتاب ترتیب دی جس کا نام ہے " المستدرک الصحیحین"۔
یعنی وہ حدیثيں جو ان کے خیال میں صحیح تھیں لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیحین میں درج نہیں کیں۔
پھر امام ذھبی نے ان کی کتاب پر حاشیہ لکھا، اور تقریبا ایک تہائی احادیث کے بارے میں امام حاکم سےاختلاف کرتے ہوئے انہیں یا تو ضعیف قرار دیا یا موضوع !

اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر کسی محدث نے حدیثوں کی سند بیان کردی تو وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے بعد میں اگر کوئی دوسرا محدث آئے اور اس سند میں کسی ضعف کی کوئی نشاندھی کرے تو یہ " الدین نصیحۃ" کے بالکل مطابق ہے جیسے علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ جو البانی رحمۃ اللہ سے بہت پہلے کے جید محدث تھے انہوں نے "تفسیر ابن کثیر" اور "مسند امام احمد" پر تخریج کی مگر مکمل نہ کرسکے اور وفات پا گئے اس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر اور مسند احمد سے لاتعداد ضعیف احادیث کی نشاندہی کی تھی۔

اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والا محدث ایک پرانے محدث پر برتری قائم کررہا ہے
بلکہ علمی و اصولی حقیقت یہ ہے کہ :
ایک محدث نے حدیثوں کی سندیں جمع کرکے بہت بڑا کام کیا ہےتو دوسرے نے اس پر حکم لگا کر بھی ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور دونوں بری الذمہ ہیں۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
5,001
ری ایکشن اسکور
9,806
پوائنٹ
773
یہ عامیانہ اندازِ تحریر ہے ۔۔۔۔ اس سے بہتر تنقیدی انداز تو ڈاکٹر طاہر القادری کا رہا ہے ، جنہوں نے کہا تھا :
ڈاکٹرطاہر قادری صاحب کا اندازتو ایک عامی سے بھی بدترہے بس سمجھنے کی بات ہے ، اس بات پر غورکریں کہ ڈاکٹرطاہرقادری نے علامہ البانی پرتنقیدکے لئے ان کی سلسلہ تصحیح تضعیف میں سے بالخصوص’’صحیح الادب المفرد‘‘ کا انتخاب کیوں کیا؟؟؟
یہ بہت اہم سوال ہے اوراس کاجواب طاہرقادری کی مکاری اور مغالطہ بازی کوواضح کرتاہے، غورکریں کہ کیا علامہ البانی رحمہ اللہ نے تصحیح وتضعیف کا یہ کام صرف امام بخاری کی کتاب الادب المفرد ہی کے ساتھ کیا ہے؟؟؟
ہرگزنہیں بلکہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے تو یہ کام دوسرے درجہ کی کتب احادیث یعنی سنن کے ساتھ بھی کیا ہے ، ان میں سے ہرکتاب کی احادیث کو صحیح اورضعیف کے اعتبارسے دوالگ حصوں میں رکھ دیاہے۔
اب طاہرقادری کو اگرتنقید ہی کرنا تھا تو علامہ البانی کی کتاب صحیح سنن نسائی کا انتخاب کرتا، صحیح سنن ابوداؤدکا انتخاب کرتا ، صحیح ابن ماجہ کا انتخاب کرتا ، بلکہ اس سے بہتر تھا کہ صحیح الترمذی کا انتخاب کرتا کیونکہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بہت سی احادیث پر صحت وحسن کا حکم لگایا ہے اورعلامہ البانی رحمہ اللہ نے اسے ٍضعیف الترمذی میں نقل کیاہے؟
یہ سب دوسرے درجہ کی احادیث اورالادب المفرد کی بنسبت ان کے دفاع کی زیادہ ضرورت ہے لیکن طاہرقادری نے ایسا نہیں کیا کیوں ؟؟؟؟
تو اصل بات یہ کہ طاہرقادری عوام کے بھولے پن سے فائدہ اٹھا کر انہیں مغالطہ دینا چاہتاہے ،’’صحیح الادب المفرد‘‘ کے انتخاب میں اس کا دومقصد ہے:

اول: امام بخاری رحمہ اللہ کی مقبولیت اوران کی جلالت علمی مسلمانوں کے بیچ مسلم ہے اب اگریہ دکھا دیا جائے کہ اتنے بڑے امام حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے نہیں بخشا تو دیگرائمہ ان کی تنقید سے کہاں بچ سکتے ہیں۔
دوم : عوام امام بخاری رحمہ اللہ کے نام سے ایک ہی کتاب سے واقف ہیں اوروہ ہے ’’صحیح بخاری‘‘ ، طاہرقادری کا مقصد یہ ہے کہ عوام کو یہ مغالطہ دیا جائے کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری پر تنقیدکیاہے ۔
اوروہ اپنے مقصد میں کافی حدتک کامیاب ہے چنانچہ میرے پا س ان گنت لوگ طاہر قادری کی یہ ویڈیو لے کر یہ کہتے ہوئے آئے کہ کیا علامہ البانی رحمہ اللہ نے بخاری شریف کی حدیثوں کوضعیف کہہ کربخاری سے انہیں نکال دیاہے۔۔۔۔
پھرہم نے انہیں بتایا کہ’’صحیح الادب المفرد‘‘ یہ الگ کتاب ہے نیزیہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ جس طرح کا کام الادب المفرد پر کیا ہے بجنسہ یہی کام سنن اربعہ پر بھی کیا ہے پھر کیا وجہ ہے ڈاکڑطاہرقادری نے دفاع حدیث کے لئے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق السنن کا انتخاب نہیں کیا؟؟؟

یہ تو بات ہوئی ڈاکٹر طاہر کی مکاری اورمغالطہ بازی پر اب آئیے اصل اعتراض کا جواب سنئے :
اعتراض یہ کہ علامہ البانی رحمہ اللہ نے الادب المفرد سے بعض احادیث کو نکال دیا ہے، اس اعتراض کا بہت سے اہل علم نے جواب دیا ہے لیکن ایک اہم نکتہ سب نے نظرانداز کردیا ہے وہ کہ کیا: ’’صحیح الادب المفرد‘‘ امام بخاری کی کتاب ہے ؟؟؟
اب تک بہت سارے اہل علم نے امام بخاری کی تصنیفات کو گنایا ہے کیا کسی نے اس فہرست میں ’’صحیح الادب المفرد‘‘ کا نام بھی پیش کیاہے؟؟؟
عوام کو معلوم ہونا چاہئے کہ صحیح الادب المفرد یہ امام بخاری کی کتاب ہے ہی نہیں تو پھر اس میں کمی بیشی کا الزام ہی مردود ہے۔
یہ الزام اس وقت درست ہوتا جب علامہ البانی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کی اصل کتاب ’’الادب المفرد‘‘ کی طباعت کی ہوتی اوراس کے بعد اس میں کمی بیشی کردیا ہوتا، جیسا کہ احناف کیا کرتے ہیں مثلا امام حبان کی کتاب ’’المجروحین‘‘ کی طباعت کی اور کتاب سے وہ حصہ اڑا دیا جس میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر جرح تھی، ایسا حنفی طرزعمل اختیار کیا جائے تو اسے اصل کتاب میں کمی بیشی کہتے ہیں ۔
لیکن اگرایک محدث کسی دوسرے محدث کی کتاب پر اپنی معلومات پیش کرنا چاہتاہے تو یہ ایک الگ کتاب ہوتی ہے، مثلا امام منذری رحمہ اللہ کی کتاب ہے ’’الترغیب والترہیب‘‘ اب اس پر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور اس کا اختصار کرتے ہوئے اس سے بہت سی ضعیف احادیث کو نکال دیاہے ، تو کیا یہ کہاجائے گا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے امام منذری رحمہ اللہ کی کتاب سے بہت سی احادیث کو نکال دیاہے ؟؟؟
نیز علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الادب المفرد میں جن احادیث کو داخل نہیں کیا ہے انہیں اس کتاب کے دوسرے حصہ ’’ضعیف الادب المفرد‘‘ میں رکھا ہے لیکن حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے تو ’’الترغیب ‘‘ سے جن احادیث کو نکالا ہے انہیں سرے سے نکال ہی دیا ہے ان کا الگ سے ذکر نہیں کیا ہے ، اب حافظ ابن حجررحمہ اللہ کے بارے میں کیا خیال ہے؟

ترغیب کی مثال جانے دیجئے خود صحیح بخاری کی مثال دیکھیں ، امام زبیدی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا اختصار کیا ہے اورمکررات کو حذف کردیاہے اب کیا یہ کہنا درست ہوگا کہ امام زبیدی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری سے نصف سے زائد احادث نکا ل دی ہیں ؟
اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی شرح لکھی اورصحیح بخاری کی تشریح میں احادیث کا ایک بہت بڑا ذخیرہ جمع کردیا ہے تو کیا یہ کہنا درست ہے کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں بہت سی احادیث کا اضافہ کردیاہے؟

دراصل امام زبیدی رحمہ اللہ نے صحیح بخاری کا جواختصارکیا ہے یہ امام بخاری کی تصنیف نہیں بلکہ امام زبیدی رحمہ اللہ کی تصنیف ہے، اسی طرح حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے صحیح بخاری کی جوشرح لکھی ہے یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی تصنیف نہیں بلکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ کی اپنی تصنیف ہے اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امام بخاری کی اصل کتاب میں حذف واضافہ کیا گیا ہے ، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ محدثین نے صحیح بخاری پر اپنی خدمات پیش کی ہیں کسی نے اس کی شرح کی ، کسی نے اس کا اختصار کیا ، کسی نے اس کی ثلاثیات کو یکجا کیا ، کسی نے اس کی معلق روایات کو لیکر الگ سے کتاب لکھی ہے وغیرہ وغیرہ، اوریہ ساری کتابیں امام بخاری کے علاوہ دیگرلوگوں کی تسلیم کی جاتی ہیں اوران میں تبدیلی آجانے سے یہ نہیں کہا جاتا کہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اصل کتاب صحیح بخاری میں تبدیلی کردی گئی ہے ۔
یہی معاملہ ’’الادب المفرد‘‘ کا بھی ہے یہ امام بخاری رحمہ اللہ کی کتاب ہے اس میں کسی نے کوئی تبدیلی نہیں کی ہے البتہ بعض اہل علم نے اس کتاب پر اپنی خدمات پیش کی ہیں مثلا کسی نے اس کی شرح لکھا ہے اورتشریح میں کچھ اوراحادیث وغیرہ ذکرکیا ہے لیکن اس سے شارح پر یہ الزام ہرگز نہیں لگایا جاسکتا کہ اس نے اس کتاب میں اضافہ کردیا ہے۔
اسی طرح علامہ البانی رحمہ اللہ نے بھی اس کتاب پر اپنی خدمات پیش کی ہیں اوراس میں موجود صحیح وضعیف احادیث پر دوحصوں میں کتاب لکھی ہے یہ علامہ البانی رحمہ اللہ کی اپنی کتاب ہے ، اورایک مصنف اپنی کتاب کو جس طرح چاہے ترتیب دے اس کے اس طرزپر اعتراض کرنا یا تو بہت بڑی حماقت ہے یا پھر بدترین قسم کی مکاری اورمغالطہ بازی ہے۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
بہت خوب کفایت اللہ بھائی! بہت عمدہ!
ایک دقیق بات کو سمجھانا کافی مشکل ہوتا ہے، لیکن بسا اوقات کسی آسان بات اور واضح بات کو سمجھانا اس سے بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے۔ یہ فن کوئی آپ سے سیکھے!مدرس مصنف اور عام مصنف میں عموما یہی فرق ہوتا ہے۔
ما شاء اللہ!
اللہ تعالیٰ آپ کے علم وعمل میں اضافہ فرمائیں! اور اپنے دین کی خدمت کیلئے قبول فرمالیں!
 

شاکر

تکنیکی ناظم
رکن انتظامیہ
شمولیت
جنوری 08، 2011
پیغامات
6,595
ری ایکشن اسکور
21,397
پوائنٹ
891
جزاک اللہ باذوق بھائی اور کفایت اللہ بھائی۔
میرے خیال میں تو سوالات و جوابات میں موجود جس طویل مضمون پر جواب مانگا گیا ہے اسے بھی یہیں منتقل کر دینا چاہئے۔ تاکہ علامہ البانی رحمہ اللہ پر لگائے گئے اس الزام کے علاوہ دیگر الزامات کا غبار بھی صاف کیا جا سکے۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
تمام شیوخ سے میرے گذارش ہے کہ ایک اور اعتراض کا جواب دے دیں تو بڑی مہربانی ہو گی، وہ اعتراض یہ ہے کہ علامہ البانی کا کوئی استاد نہیں تھا، انہوں نے سارا علم صرف کتابوں سے ہی لیا ہے یعنی "Self-Study" کر کے، بغیر کسی عالم کے پاس گئے۔ اور یہ کہ ان کے پاس اپنی کوئی اسناد نہیں تھی، جیسا کہ اس طویل پوسٹ میں بتایا گیا ہے۔

اگر یہ جواب دے دیں تو میں سارے جوابات اکٹھے کر کے خود ان لوگوں کو ایک ویڈیو کی شکل میں دوں گا، کیونکہ انہوں نے بھی یہ الزامات ایک ویڈیو میں لگائے ہیں۔ اور چونکہ یہ ویڈیو انگریزی میں تھی، اس لیے اس کا جواب بھی انگریزی میں ہی دوں گا۔ یہ لوگ اس ویڈیو کے زریعے نا جانے کتنے لوگوں کو اب تک گمراہ کر چکے ہیں۔ اس لیے جواب کی اشد ضرارت ہے۔

جزاک اللہ خیراً
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,137
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا محترم شیخ. بہت اچھی طرح سے سمجھایا
 

وجاہت

رکن
شمولیت
مئی 03، 2016
پیغامات
421
ری ایکشن اسکور
44
پوائنٹ
45
میں سارے جوابات اکٹھے کر کے خود ان لوگوں کو ایک ویڈیو کی شکل میں دوں گا، کیونکہ انہوں نے بھی یہ الزامات ایک ویڈیو میں لگائے ہیں۔ اور چونکہ یہ ویڈیو انگریزی میں تھی، اس لیے اس کا جواب بھی انگریزی میں ہی دوں گا۔ یہ لوگ اس ویڈیو کے زریعے نا جانے کتنے لوگوں کو اب تک گمراہ کر چکے ہیں۔ اس لیے جواب کی اشد ضرارت ہے۔

جزاک اللہ خیراً
آپ نے ویڈیو جواب دیے ہیں یا نہیں - اگر دیے ہیں تو اس جواب کا لنک دے دیں پلیز - آپ کی ویڈیو کا شدت سے انتظار ہے -
 

عبدالمنان

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 04، 2015
پیغامات
735
ری ایکشن اسکور
178
پوائنٹ
123
تمام شیوخ سے میرے گذارش ہے کہ ایک اور اعتراض کا جواب دے دیں تو بڑی مہربانی ہو گی، وہ اعتراض یہ ہے کہ علامہ البانی کا کوئی استاد نہیں تھا، انہوں نے سارا علم صرف کتابوں سے ہی لیا ہے یعنی "Self-Study" کر کے، بغیر کسی عالم کے پاس گئے۔ اور یہ کہ ان کے پاس اپنی کوئی اسناد نہیں تھی، جیسا کہ اس طویل پوسٹ میں بتایا گیا ہے۔

اگر یہ جواب دے دیں تو میں سارے جوابات اکٹھے کر کے خود ان لوگوں کو ایک ویڈیو کی شکل میں دوں گا، کیونکہ انہوں نے بھی یہ الزامات ایک ویڈیو میں لگائے ہیں۔ اور چونکہ یہ ویڈیو انگریزی میں تھی، اس لیے اس کا جواب بھی انگریزی میں ہی دوں گا۔ یہ لوگ اس ویڈیو کے زریعے نا جانے کتنے لوگوں کو اب تک گمراہ کر چکے ہیں۔ اس لیے جواب کی اشد ضرارت ہے۔

جزاک اللہ خیراً

Does Shaykh Al Albani (Rahimahullaah) have Ijaza?

20 Points Regarding Shaykh al-Albaanee by Abu Hudhayfah

السَّـــــــلاَمُ عَلَيــْــكُم وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكـَـاتُه

[1] Shaykh Al–Albani has Ijaza in hadith from the late Allamah Shaykh Muhammad Raghib at-Tabaagh with whom he studied hadith sciences, gaining authority to transmit from him. The Shaykh himself refers to this Ijaza in Mukhtasar al-Uluw (p.72) and in Tahdir as-Sajid (p.63). He has a further Ijaza from Shaykh Bahjatul Baitaar(through whom his isnad stretches back to Imam Ahmad). These are mentioned in the book Hayat Al–Albani(the Life of Al–Albani) by Muhammad ash-Shaibaani. This sort of Ijaza is given only to those who have excelled in hadith and can be trusted to accurately convey a hadith. A copy of the Ijaza is in the possession of his student, Ali Hassan al-Halabi. So it is not correct to say that the Shaykh is self-taught from books, without authority and without Ijaza.

Whilst we are on the subject, I think it would not be out of place here to mention a few snippets from Shaykh Al–Albani‘s life and career to further emphasise his great standing in the field of hadith science as well as the respect shown to him by other scholars. One cannot really do the subject justice in one or two brief emails, however, I hope the readers will find this information both encouraging and interesting:

[1] Shaykh Al–Albani was born in 1914 in Ashkodera, the former capital of Albania.

[2] His first shaykh was his father, Nuh Najjatee, who himself had completed Shariah studies in Istanbul, returning to Albania as one of its Hanafi scholars. Under his father’s guidance, Shaykh Al–Albani studied Qur’an, tajwid, Arabic language as well as Hanafi fiqh.

[3] He further studied Hanafi fiqh and Arabic language under Shaykh Sa’eed al-Burhan.

[4] He would attend the lectures of Imam Abdul-Fattaah and Shaykh Tawfiq al-Barzah.

[5] The Shaykh met the late hadith master, Imaam Ahmad Shakir, with whom he participated in knowledge based discussions on hadith and its research.

[6] He met the late Indian hadith scholar, Shaykh Abdul-Samad Sharf ad-Deen, who himself had referenced the hadith to the first volume of An-Nasa’ee’s Sunan al-Kubra as well as Al-Mizzi’s monumental Tuhfatul-Ashraf, and they continued to exchange letters on matters of knowledge. In one such letter, Shaykh Abdul-Samad expressed his belief that Shaykh Al–Albani was the greatest hadith scholar of the time.

[7] In recognition of his knowledge of hadith, he was commissioned as far back as 1955 by the Faculty of Shariah at Damascus University to carry out detailed analysis and research into hadith related to buying and selling and other business related transactions.

[8] Shaykh Al–Albani began his formal work in the field of hadith by transcribing Al-Hafidh al-Iraqi’s monumental Al-Mughni ‘an Hamlil Asfar, being a study of the various hadith and narrations contained in Al-Ghazali’s famous Ihya Ulum ad-Din. This work alone contains some 5000 hadith.

[9] The Shaykh was famous for attending the Zahiriyyah library in Damascus, and was eventually given his own set of keys due to his frequent and lengthy study there. On one such occasion, an important folio was missing from a manuscript in use by the Shaykh and this led Shaykh Al–Albani to painstakingly catalogue all the hadith manuscripts in the library in an endeavour to locate the missing folio. Consequently, he gained in-depth knowledge of 1000s of hadith manuscripts, something that was attested to years later by Dr. Muhammad Mustafa Azami in the introduction to Studies in Early Hadith Literature where he said: ‘I wish to express my gratitude to Shaikh Nasir al-Din al–Albani, who placed his extensive knowledge of rare manuscripts at my disposal.’

[10] Shaykh Al–Albani would sometimes mention his extreme poverty during his early life. He said he would be reduced to picking up scraps of paper from the street, often discarded wedding cards, and use them to write his hadith notes on. Often, he would purchase scrap paper in bulk from the rubbish dump and take it home to use.

[11] He would correspond with numerous scholars, particularly those from India and Pakistan, discussing matters related to hadith and the religion in general, including Shaykh Muhammad Zamzami from Morocco and Ubaydullah Rahman, the author of Mirqat al-Mafatih Sharh Mushkila al-Masabih.

[12] His skill in hadith is attested to by a host of qualified scholars, past and present, including Dr. Amin al-Misri, head of Islamic Studies at Madinah University who considered himself to be one of the Shaykh’s students; also Dr. Subhi as-Salah, former head of Hadith Sciences at the University of Damascus; Dr. Ahmad al-Asaal, head of Islamic Studies at Riyadh University; the late Pakistani hadith scholar, Allamah Badiudeen Shah as-Sindee; Shaykh Muhammad Tayyib Awkeej, former head of Tafsir and Hadith at the University of Ankarah in Turkey; not to mention the likes of Shaykh Ibn Baz, Ibn al-Uthaymeen, Shaykh Muqbil ibn Hadee and many others in later times.

[13] After a number of his works appeared in print, the Shaykh was chosen to teach hadith at the new Islamic University of Madinah for three years from 1381 to 1383H where he was also a member of University board. After this he returned to his former studies and work in the Zahiriyyah library. His love for Madinah University is evidenced by the fact that he bequeathed his entire personal library to the University.

[14] He would hold study circles twice a week whilst in Damascus which were attended by numerous students and university lecturers. In this way, the Shaykh completed instruction in the following classical and modern works:

Fathul-Majid of Abdur-Rahman ibn Husain ibn Muhamamd ibn Abdul-Wahhab
Rawdah an-Nadiyah of Siddiq Hasan Khan
Minhaj al-Islamiyyah of Muhammad Asad
Usul al-Fiqh of Al-Khallal
Mustalah at-Tarikh of Asad Rustum
Al-Halal wa al-Haram fil-Islam of Yusuf al-Qardawi
Fiqh as-Sunnah of Sayyid Sabiq
Bath al-Hathith of Ahmad Shakir
At-Targhib wa at-Tarhib of Al-Hafidh al-Mundhiri
Riyadh as-Saliheen on Imam an-Nawawi
Al-Imam fi Ahadith al-Ahqam of Ibn Daqeeq al-Eid

[15] After carrying out an analysis of the hadith in Ibn Khuzaymah’s Sahih, the Indian hadith scholar, Muhamamd Mustafa Azami (head of Hadith Science in Makkah), chose Shaykh Al–Albani to verify and re-check his analysis and the work is currently published in 4 volumes containing both their comments. This is an indication of the level of trust placed in Shaykh Al–Albani‘s hadith ability by other scholars.

[16] In their edition of the well known hadith compilation, Mishkat al-Masabih, the Maktaba al-Islamee publishing house requested Shaykh Al–Albani to edit the work before publication.The publisher wrote in the introduction: ‘We requested that the great hadith scholar, Shaykh Muhammad Nasir ad-Deen al–Albani, should help us in the checking of Mishkat and take responsibility for adding footnotes for any ahadith needing them, and researching and reproducing their sources and authenticity where needed, and correcting any deficiences’

[17] The Shaykhs printed works, mainly in the field of hadith and its sciences, number some 112 books. I personally have 17 of these books and these alone run into 45 volumes! He left behind him in manuscript form at least a further 70 works.

[18] It is recorded on one occasion (and this incident is available on two tape cassettes – his students were in the habit of recording his teaching sessions), that a man visited Shaykh Al–Albani in his home in Jordan claiming to be a prophet! How would we have reacted when faced with such a situation? Shaykh Al–Albani sat the man down and discussed his claims at length (as I said, covering two tape cassettes) and in the end the visitor made tawba from his claim and all present, including the Shaykh, were overcome with tears. In fact, how often is Shaykh Al–Albani heard on tape bursting into tears when speaking about Allah, His Messenger and the affairs of the Muslims?

[19] On another occasion (and I was told this by a Shaykh who was present in the gathering) he was visited by three men all claiming that Shaykh Al–Albani was a kafir. When it came time to pray they refused to pray behind him, saying it is not possible for a kafir to lead the prayer. The Shaykh accepted this, saying that in his eyes the three of them were Muslims so one of them should lead the prayer. Afterwards, they discussed their differences at length and when it came time for the following prayer, all three men insisted on praying behind ShaykhAl–Albani!

[20] During the course of his life the Shaykh has researched and commented on over 30,000 individual chains of transmission (isnad) for countless hadith, having spent 60 years in the study of the books of the Sunnah and being in the company of, and in contact with, its scholars.

Abu Hudhayfah
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,581
پوائنٹ
384
نا جانے کہاں کہاں سے آپ لوگ پوسٹس کھود کر نکال لیتے ہیں۔ 2011 کی شروعات کی پوسٹ ہے، اب یہ مسئلہ پرانا ہو چکا ہے۔ میں نے تو اس پر کتاب لکھ لی ہے اب، ابتسامہ!
خیر ایک بھائی نے اسے ویڈیو میں تبدیل کرنا تھا لیکن مجھے اس کا علم نہیں کہ ہوئی یا نہیں۔
 
Top