باذوق
رکن
- شمولیت
- فروری 16، 2011
- پیغامات
- 888
- ری ایکشن اسکور
- 4,011
- پوائنٹ
- 289
السلام علیکم۔
سوالات و جوابات سیکشن کا درج ذیل تھریڈ مطالعے سے گزرا :
شیخ البانی کا دفاع اور چند لوگوں کے الزامات
زیادہ تر اعتراضات کا انداز نہایت بچکانہ محسوس ہوتا ہے۔ کچھ اعتراضات کا جواب دیا بھی جا چکا ہے۔
سوالات و جوابات سیکشن کا درج ذیل تھریڈ مطالعے سے گزرا :
شیخ البانی کا دفاع اور چند لوگوں کے الزامات
زیادہ تر اعتراضات کا انداز نہایت بچکانہ محسوس ہوتا ہے۔ کچھ اعتراضات کا جواب دیا بھی جا چکا ہے۔
یہ عامیانہ اندازِ تحریر ہے ۔۔۔۔ اس سے بہتر تنقیدی انداز تو ڈاکٹر طاہر القادری کا رہا ہے ، جنہوں نے کہا تھا :اور اس نے کتابیں لکھنی شروع کیں، وہ ابن ماجہ سے شروع ہوا اور باقی کتابوں کی بھی تقسیم کر دی اور کہا، کہ یہ صحیح ترمذی ہے اور یہ ضعیف ترمذی ہے، یہ صحیح ابن ماجہ ہے اور یہ ضعیف ابن ماجہ ہے، اگر آپ پوری اسلامی تاریخ میں دیکھیں تو آپ کو پتا چلے گا کہ ابن ماجہ ایک کتاب ہے اور تمام احادیث اسی میں ہیں، ترمذی ایک ہی کتاب اور اس میں ساری احادیث ہیں، اگر کسی حدیث میں کہنے لائق بات ہو گی ہو گی تو محدثین اس کو اس حدیث کے footnote میں لکھ دیتے تھے، کہ اس حدیث کے بارے میں یہ کہنا ہے، وغیرہ۔
لیکن یہ شخص (البانی) آیا اور اس کتاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، اور اس کی دو مختلف جلدیں پبلش کیں، ضعیف الترمذی، صحیح الترمذی۔ جب آپ کسی بک سٹور میں جائیں گے اور یہ دونوں کتابیں دیکھیں تو آپ تو بس صحیح الترمذی خریدیں گے اور ضعیف الترمذی کو سایڈ پر ہی رکھ دیں گے۔ اور آپ صرف وہ احادیث لیں گے جن کو البانی نے صحیح کہا ہے اور آپ باقی تامام حدیثوں کو رد کر دیں گے، یہ طریقہ بالکل غلط ہے، اور یہ انکار حدیث کے مترادف ہے، کیونکہ آپ ان احادیث کا انکار کر رہیں ہیں جن کو آپ نے رد کر دیا۔
دکتور صہیب حسن حفظہ اللہ نے اس کے جواب میں لکھا تھا ۔۔۔۔ (بحوالہ : الادب المفرد للبخاری اور {علامہ البانی vs ڈاکٹر طاہر القادری})الادب المفرد کتاب کوئی ایسی غیر معروف تو ہے نہیں، تو اس کے اوپر "صحیح" لکھ دیا پہلے، "صحیح الادب المفرد" یعنی جو امام بخاری کی "الادب المفرد" تھی وہ صحیح بھی تھی ، ضعیف بھی تھی اور معروف بھی تھی، اب البانی صاحب امام بخاری کو بھی صحیح کررہے ہیں، یہ تو صحیح کرنے پہ آئيں تو ، تو ان کا مطلب ہے کہ امام بخاری بھی غلط ہیں۔
اب میں دوسری معنوں میں لے رہا ہوں کہ امام بخاری کے پاس بھی بقول ان کے ضعیف حدیثيں ہیں، اور غیر صحیح اور موضوع ہیں، تو انہوں نے کہا کہ جو امام بخاری کی صحیح حدیث تھیں وہ اس میں ہے اور جو صحیح نہیں تھی وہ سب نکال دیں، تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
جیسا کہ سب کو علم ہے کہ حضرت الامام بخاری علیہ الرحمۃ نے اپنی صحیح بخاری میں بھی "کتاب الادب" کو شامل کیا ہے۔ صحیح بخاری کی کتاب الادب ، حدیث نمبر 5625 سے شروع ہوتی ہے اور 5872 پر ختم ہوتی ہے اور یہ کل احادیث 248 ہوئیں اور اس میں 128 ابواب ہیں۔
دوسری طرف امام بخاری نے جب کتاب "الادب المفرد" تحریر کی تو اس میں "ادب" سے متعلق 1322 احادیث (بحوالہ "الادب المفرد" نسخہ فواد الباقی) جمع فرمائیں۔
اب سوچنے کی بات ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے "صحیح بخاری" میں 248 احادیث بیان کی ہیں تو اپنی کتاب "الادب المفرد" میں 1322 احادیث کیوں بیان کی ہیں؟
سادہ سی حقیقت صرف اتنی ہے کہ : امام بخاری نے جو کتاب "الادب المفرد" مرتب کی تو اس میں انہوں نے ادب کے بارے میں ہر قسم کی احادیث تحریر کردیں جس میں صحیح ، حسن اور حسن سے کم درجے کی احادیث بھی شامل تھیں لیکن چونکہ صحیح بخاری میں ان کا معیار بہت اونچا تھا اس لیے اس میں وہی احادیث شامل کی گئیں جو سند کے اعتبار سے اعلیٰ پایہ کی تھیں-
یہ بات ڈاکٹر قادری صاحب کے علم میں نہیں آئی اور انہوں نے کتاب "الادب المفرد" کی ساری احادیث کو صحیح بخاری کے درجے پر رکھ دیا۔ حالانکہ اگر صحیح بخاری کی "کتاب الادب" پر وہ ایک لمحہ کے لیے بھی غور کرلیتے تو فوراً فرق معلوم ہوجاتا۔
ڈاکٹر طاہر القادری نے جس اصل "الادب المفرد" کی بات کی ہے ، گمان اغلب ہے کہ وہ فواد الباقی ہی کی مرتب کردہ ہوگی کیونکہ یہی نسخہ ان دنوں رائج ہے اور اسی میں جملہ احادیث کی تعداد 1322 بیان ہوئی ہے۔
حیرت تو یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف کی نظر علامہ البانی کی صرف "صحیح الادب المفرد" پر ہی کیوں پڑی؟ "ضعیف الادب المفرد" پر کیوں نہیں پڑی؟
تنقید کا مسلمہ طریق کار یہ ہے کہ پہلے کسی شخص کے پورے کام کا جائزہ لیا جائے اور اس سے مکمل واقفیت حاصل کر کے ہی تنقید کی جائے۔ علمی دیانت کا تقاضا یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب "ضعیف الادب المفرد" پر تبصرہ بھی ارشاد فرما دیتے تاکہ ان کا موقف سامنے آ جاتا۔
علامہ البانی نے 215 احادیث کو "الادب المفرد" سے نکالا نہیں بلکہ اسے "ضعیف الادب المفرد" میں شامل کیا۔
ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے علامہ البانی رحمۃ اللہ پر "اخراج" کا جو الزام لگایا ہے ۔۔۔ اگر اس تھیوری کو بنیاد بنایا جائے تو ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ اس ہی طرح امام بخاری کی ذات پر بھی یہی الزام لاگو ہو سکتا ہے کیونکہ :
صحیح بخاری کی کتاب الادب میں صرف 248 احادیث ہیں جبکہ "الادب المفرد" میں امام بخاری نے 1322 احادیث جمع کی ہیں ، حالانکہ موضوع تو وہی "ادب" کا ہے۔ اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تھیوری کو یہاں بھی اپلائی کیا جائے تو پھر "اخراج" کا یہی الزام امام بخاری کی ذات پر بھی کیونکر نہ لگے گا ؟!
ڈاکٹر صاحب نے شائد ضعیف الادب المفرد پر نگاہ نہیں دوڑائی کہ البانی رحمۃ اللہ نے وہ حدیثيں نکال باہر نہیں کیں بلکہ ان پر ایک اور کتاب ترتیب دی ہے !!
اب انصاف پسند قارئین اندازہ لگائیں کہ نکال باہر کرنے اور الگ ترتیب دینے میں کتنا فرق ہے؟!
علامہ البانی نے امام بخاری کی کتاب "الادب المفرد" کو دو حصوں میں تقسیم کیا اور ایک کا نام "صحیح الادب المفرد" اور دوسری کا نام "ضعیف الادب المفرد" رکھا کہ عام مسلمانوں کو پتہ چلے کہ صحیح احادیث اور ضعیف احادیث کون کون سی ہیں؟
جیسے کہ خود امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری کے "کتاب الادب" میں 1322 احادیث کے بجائے صرف 248 احادیث پر ہی انحصار کیا۔
تو اس سے پتہ چل گیا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ نے امام بخاری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی کتاب "الادب المفرد" پہ تخریج کرکے دو حصوں میں تقسیم کیا نہ کہ اخراج کیا۔
جیسے مثال کے طور پر ایک استاذ ایک ہی کلاس کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے تو اس کو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انہوں نے اتنے شاگردوں کا اخراج کیا بلکہ اسے یہ کہا جائے گا کہ انہوں نے آسانی پیدا کرنے کے لیے ایک ہی کلاس کی دو کلاسیں بنادیں۔
آخری بات یہ کہ ۔۔۔۔۔
ہم لوگ علامہ البانی صاحب کے اندھے مقلد نہیں ہیں۔ البانی صاحب نے جن احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے، وہ اگر ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے خیال میں صحیح احادیث ہیں تو محدثین کے معیار کے مطابق انہیں صحیح ثابت کر دیں اور علمی انداز میں البانی صاحب کی غلطی واضح کردیں۔ ہمیں اپنی رائے سے رجوع کرنے میں ذرہ برابر ججھک محسوس نہ ہو گی۔ اگر وہ ایسا نہ کر سکیں تو ہم بلا کسی تعصب کے یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ ان احادیث کے بارے میں البانی صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) کی تحقیق ہی درست ہے۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم نامی کتب احادیث میں دونوں ائمہ محترمین نے خود کہا ہے کہ ہم نے صرف صحیح احادیث جمع کی ہیں۔اعتراض منجانب ڈاکٹر طاہر القادری :
تو یہ امام بخاری کےاستاذ بن گئے، یہ امام بخاری کے شیخ ہوئے، اگر آج امام بخاری حیات ہوتے تو خدا جانے ان پہ کیا گذرتی!
باقی جو دیگر سنن کی کتابیں ہیں جیسے سنن ابی داؤد یا سنن نسائی یا سنن ابن ماجہ ۔۔۔ تو ان کتب کے متعلقہ مولفین نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس میں ہر حدیث صحیح ہے۔
امام ترمذی تو خود لکھتے ہیں کہ : یہ حدیث حسن ہے یا یہ حدیث ضعیف ہے۔
مزید یہ کہ ۔۔۔
امام بخاری نے بھی اپنی کتاب " الادب المفرد" کے بارے میں یہ دعوی قطعاً نہیں کیا کہ اس میں کوئی حدیث ضعیف نہیں ہے !!
اسی طرح امام حاکم نے 373ھ بعد چوتھی صدی میں حدیثيں جمع کیں اور اپنی کتاب ترتیب دی جس کا نام ہے " المستدرک الصحیحین"۔
یعنی وہ حدیثيں جو ان کے خیال میں صحیح تھیں لیکن امام بخاری اور امام مسلم نے اپنی صحیحین میں درج نہیں کیں۔
پھر امام ذھبی نے ان کی کتاب پر حاشیہ لکھا، اور تقریبا ایک تہائی احادیث کے بارے میں امام حاکم سےاختلاف کرتے ہوئے انہیں یا تو ضعیف قرار دیا یا موضوع !
اس لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ اگر کسی محدث نے حدیثوں کی سند بیان کردی تو وہ بری الذمہ ہوجاتا ہے بعد میں اگر کوئی دوسرا محدث آئے اور اس سند میں کسی ضعف کی کوئی نشاندھی کرے تو یہ " الدین نصیحۃ" کے بالکل مطابق ہے جیسے علامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ جو البانی رحمۃ اللہ سے بہت پہلے کے جید محدث تھے انہوں نے "تفسیر ابن کثیر" اور "مسند امام احمد" پر تخریج کی مگر مکمل نہ کرسکے اور وفات پا گئے اس میں انہوں نے تفسیر ابن کثیر اور مسند احمد سے لاتعداد ضعیف احادیث کی نشاندہی کی تھی۔
اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں آنے والا محدث ایک پرانے محدث پر برتری قائم کررہا ہے
بلکہ علمی و اصولی حقیقت یہ ہے کہ :
ایک محدث نے حدیثوں کی سندیں جمع کرکے بہت بڑا کام کیا ہےتو دوسرے نے اس پر حکم لگا کر بھی ایک بہت بڑا کام کیا ہے اور دونوں بری الذمہ ہیں۔