اس حدیث کے بارے میں علماء حق کا کیا موقف ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
یہ حدیث صحیح بخاری شریف میں کئی مقامات پر الفاظ کے تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ ،کہیں مفصل کہیں مختصر موجود ہے ،
اوراس کے علاوہ بھی کئی کتب حدیث میں مروی ہے ۔
سند کے لحاظ سے بالکل صحیح ہے ،جیسا کہ امت کا صحیح بخاری و صحیح مسلم کے اعلی درجہ کے صحیح ہونے پر ہے ؛
اورمعنی مفہوم کے لحاظ سے بھی آسان ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عن ابن عباس رضي الله عنهما انه قال: يوم الخميس وما يوم الخميس ثم بكى حتى خضب دمعه الحصباء فقال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه يوم الخميس فقال: ائتوني بكتاب اكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده ابدا فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع فقالوا: هجر رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: دعوني فالذي انا فيه خير مما تدعوني إليه واوصى عند موته بثلاث اخرجوا المشركين من جزيرة العرب واجيزوا الوفد بنحو ما كنت اجيزهم ونسيت الثالثة وقال يعقوب بن محمد: سالت المغيرة بن عبد الرحمن عن جزيرة العرب فقال: مكة والمدينة واليمامة واليمن وقال يعقوب: والعرج اول تهامة. ‘‘
((صحیح بخاری ،حدیث نمبر: 3053 )
ہم سے قبیصہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ ان سے سلیمان احول نے ‘ ان سے سعید بن جبیر نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جمعرات کے دن ‘ اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ ‘ تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم (میرے بعد اس پر چلتے رہو تو) کبھی گمراہ نہ ہو سکو اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا ‘ اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو ‘ میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا ‘ جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔ اور یعقوب بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے مغیرہ بن عبدالرحمٰن سے جزیرہ عرب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہا مکہ ‘ مدینہ ‘ یمامہ اور یمن (کا نام جزیرہ عرب) ہے۔ اور یعقوب نے کہا کہ عرج سے تہامہ شروع ہوتا ہے (عرج مکہ اور مدینہ کے راستے میں ایک منزل کا نام ہے)۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهمَا قَالَ لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اﷲِ وَفِي الْبَیْتِ رِجَالٌ فَقَالَ النَّبِيُّ هلُمُّوا أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه فَقَالَ بَعْضُهمْ إِنَّ رَسُولَ اﷲِ قَدْ غَلَبَه الْوَجَعُ وَعِنْدَکُمُ الْقُرْآنُ حَسْبُنَا کِتَابُ اﷲِ فَاخْتَلَفَ أَهلُ الْبَیْتِ وَاخْتَصَمُوا فَمِنْهمْ مَنْ یَقُولُ قَرِّبُوا یَکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدَه وَمِنْهمْ مَنْ یَقُولُ غَیْرَ ذَلِکَ فَلَمَّا أَکْثَرُوا اللَّغْوَ وَالِاخْتِلَافَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ قُومُوا قَالَ عُبَیْدُ اﷲِ فَکَانَ یَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ إِنَّ الرَّزِیَّة کُلَّ الرَّزِیَّة مَا حَالَ بَیْنَ رَسُولِ اﷲِ وَبَیْنَ أَنْ یَکْتُبَ لَهمْ ذَلِکَ الْکِتَابَ لِاخْتِلَافِهمْ وَلَغَطِهمْ ۔
’’حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو کاشانہء رسالت میں کافی لوگ جمع تھے۔ اس وقت نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری نزدیک آجاؤ۔ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دیتا ہوں تاکہ میرے بعد تم گمراہی سے بچے رہو۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شدتِ مرض کے باعث ایسا فرما رہے ہیں۔ جبکہ قرآن کریم تمہارے پاس موجود ہے، تو ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔ پس اہل بیت نے اس خیال سے اختلاف کیا اور جھگڑنے لگے۔ بعض حضرات کہنے لگے کہ نزدیک جاکر تحریر لکھوالی جائے تاکہ ہم بعد میں گمراہی سے بچے رہیں، اور بعض حضرات نے کچھ اور رائے پیش کی۔ جب یہ بیکار اختلاف بڑھ گیا تو رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے اُٹھ جاؤ۔ عبیداللہ کا بیان ہے کہ حضرت ابن عباس فرمایا کرتے کہ یہ کتنی بڑی مصیبت آ پڑی تھی کہ بعض حضرات اختلاف اور بلند آواز گفتگو کر کے رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جس تحریر کو لکھنے کے لئے آپ فرماتے تھے، اس کے درمیان حائل ہوگئے‘‘۔
بخاری، الصحیح، رقم الحدیث : 4432
یہاں چند باتیں قابل غور ہیں رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مرض وفات میں جمعرات کے دن کاغذ و قلم مانگا اس کے بعد پانچویں دن یعنی بروز سوموار آپ کی وفات ہوئی۔ اگر یہ تحریر لکھنا ضروری ہوتا تو اتنے وقفہ میں کسی بھی وقت لکھ سکتے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا۔
آپ نے کاغذ قلم اہل بیت سے مانگا تھا تو وہ لاتے، اس میں شور و غل کی صورت نبی کریم کی بیماری کے پیش نظر ہوئی ۔لیکن اگر لکھوانے کی حالت تھی ،اور قلم اور سیاہی موجود یا میسر تھی تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا پیش کرتیں، ازواج مطہرات پیش کرتیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ یا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاتے۔ ان میں سے بعض حضرات نے قلم کاغذ لانے کی بجائے اونچی آواز میں بولنا شروع کر دیا، جس سے سرکار صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناراض ہو کر فرمایا ’’اٹھ کر چلے جاؤ‘‘۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ہمیں اللہ کی کتاب کافی ہے، حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف دینا مناسب نہیں۔ لوگ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر برستے ہیں کہ انہوں نے رکاوٹ کیوں ڈالی؟ جواب یہ ہے کہ گھر والے یعنی حضرت علی، حضرت عباس، سیدہ فاطمہ یا امہات المؤمنین میں سے کوئی قلم کاغذ لے آتا پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا کوئی اور مزاحمت کرتا تو اس کے خلاف فرد جرم عائد کرتے۔ نہ اہل خانہ قلم کاغذ لائے، نہ کسی نے رکاوٹ ڈالی پھر الزام کیسا؟ کسی بھی گھر کا بزرگ ترین یا عام فرد شدید بیمار ہو مرض موت میں کسی چیز کا مطالبہ کرے مثلاً پانی پلاؤ!۔ دوائی لاؤ! فلاں کو بلاؤ! کھانا کھلاؤ! ہسپتال لے جاؤ! ڈاکٹر کو بلاؤ! وغیرہ تو یہ مطالبہ بیمار پرسی کرنیوالوں سے نہیں اہل خانہ سے ہوتا ہے گھر والے عمل کریں، یا نہ کریں ان پر منحصر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا لکھوانا چاہتے تھے؟
عَنْ سُلَیْمَانَ الْأَحْوَلِ عَنْ سَعِیدِ بْنِ جُبَیْرٍ قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ یَوْمُ الْخَمِیسِ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ ثُمَّ بَکَی حَتَّی بَلَّ دَمْعُه الْحَصَی فَقُلْتُ یَا ابْنَ عَبَّاسٍ وَمَا یَوْمُ الْخَمِیسِ قَالَ اشْتَدَّ بِرَسُولِ اﷲِ وَجَعُه فَقَالَ ائْتُونِي أَکْتُبْ لَکُمْ کِتَابًا لَا تَضِلُّوا بَعْدِي فَتَنَازَعُوا وَمَا یَنْبَغِي عِنْدَ نَبِیٍّ تَنَازُعٌ وَقَالُوا مَا شَأْنُه أَهجَرَ اسْتَفْهمُوه قَالَ دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِیه خَیْرٌ أُوصِیکُمْ بِثَلَاثٍ أَخْرِجُوا الْمُشْرِکِینَ مِنْ جَزِیرَة الْعَرَبِ وَأَجِیزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا کُنْتُ أُجِیزُهمْ قَالَ وَسَکَتَ عَنْ الثَّالِثَة أَوْ قَالَها فَأُنْسِیتُها ۔
’’سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے بیان کیا کہ جمعرات کا دن بھی کس قدر ہولناک دن تھا، جمعرات کا دن! پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس قدر روئے کہ ان کے آنسوؤں سے کنکریاں تر ہوگئیں۔ میں نے کہا اے ابن عباس! جمعرات کے دن کیا واقعہ ہوا تھا؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے کہا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا درد زیادہ ہوگیا تھا۔ آپ نے فرمایا قلم اور کاغذ لاؤ، میں تم کو ایسی چیز لکھ دوں جس کے بعد تم گمراہ نہیں ہوگے (قلم اور کاغذ کے متعلق) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم آپس میں اختلاف کرنے لگے، اور نبی کے پاس اختلاف مناسب نہیں تھا۔ صحابہ نے کہا کیا سبب ہے؟ کیا آپ الوداع ہورہے ہیں؟ آپ سے پوچھو! آپ نے فرمایا: مجھے چھوڑ دو، میں جس حال میں ہوں وہ بہتر ہے۔ میں تم کو تین چیزوں کی وصیت کر رہا ہوں، مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دو، وفود کی اس طرح عزت کیا کرو جس طرح میں عزت کرتا ہوں، تیسری بات سے حضرت ابن عباس خاموش ہوگئے یا انہوں نے بیان کی تھی اور میں بھول گیا‘‘۔
مسلم، الصحیح، 3: 1257، الرقم: 1637، دار احیاء التراث العربی، بیروت
اور کیا لکھوانا چاہتے تھے؟
عَنْ یَحْیَی بْنِ سَعِیدٍ قَالَ سَمِعْتُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ قَالَ قَالَتْ عَائِشَة وَا رَأْسَه فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ ذَاکِ لَوْ کَانَ وَأَنَا حَيٌّ فَأَسْتَغْفِرَ لَکِ وَأَدْعُوَ لَکِ فَقَالَتْ عَائِشَة وَا ثُکْلِیَه وَاﷲِ إِنِّي لَأَظُنُّکَ تُحِبُّ مَوْتِي وَلَوْ کَانَ ذَاکَ لَظَلِلْتَ آخِرَ یَوْمِکَ مُعَرِّسًا بِبَعْضِ أَزْوَاجِکَ فَقَالَ النَّبِيُّ بَلْ أَنَا وَا رَأْسَه لَقَدْ همَمْتُ أَوْ أَرَدْتُ أَنْ أُرْسِلَ إِلَی أَبِي بَکْرٍ وَابْنِه وَأَعْهدَ أَنْ یَقُولَ الْقَائِلُونَ أَوْ یَتَمَنَّی الْمُتَمَنُّونَ ثُمَّ قُلْتُ یَأْبَی اﷲُ وَیَدْفَعُ الْمُؤْمِنُونَ أَوْ یَدْفَعُ اﷲُ وَیَأْبَی الْمُؤْمِنُونَ
’’قاسم بن محمد کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہما نے کہا: ہائے سر پھٹا تو رسول اﷲ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ کاش! میری زندگی میں ایسا ہوجاتا تو میں تمہارے لیے استغفار کرتا اور دعا مانگتا۔ حضرت عائشہ عرض گزار ہوئیں : ہائے مصیبت! خدا کی قسم! کیا میں گمان کروں کہ آپ میری موت چاہتے ہیں، اور اگر ایسا ہوگیا تو آپ دوسرا دن اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس گزاریں گے۔ اسی پر حضورنبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بلکہ میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے۔ لہٰذا میرا فیصلہ ہوا یا میں نے ارادہ کیا کہ ابو بکر اور ان کے صاحبزادے کو بلا بھیجوں اور ان سے عہدِ خلافت لوں ورنہ کہنے والے جو چاہیں کہیں گے اور خواہش کرنے والے خواہش کریں گے۔ پھر میں نے کہا (کہ اس کی ضرورت نہیں کیونکہ) اﷲتعالیٰ اس کے خلاف نہیں چاہتا اور مسلمان اس کی مخالفت کو ہٹا دیں گے یا اﷲ مخالف کو ہٹا دے گا اور مسلمان کسی دوسرے کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔
بخاری، الصحیح، 5: 2145، الرقم: 5342
خلاصہ کلام:
رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری بیماری میں قلم کاغذ منگوائے۔ حاضرین میں سے بعض نے لانے کو کہا بعض نے اس وقت لانا مناسب نہ سمجھا اس بحث مباحثہ میں آوازیں بلند ہوئیں سرکار نے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیکر سب کو خاموش کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہمیں کتاب اللہ (القرآن اور سنت) کافی ہے، بعض صحابہ مثلاً حضرت عباس رضی اللہ عنہ پر یہ طرز عمل بہت ناگوار گزرا مگر قلم کاغذ کسی نے پیش نہیں کیا۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت آپ کو تکلیف دینے کو مناسب نہ سمجھا گیا اس کے بعد پانچ دن حضورصلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم حیات رہے مگر دوبارہ قلم کاغذ نہ مانگا جس کا مطلب ہے کہ تحریر ضروری نہ تھی جو فرمانا تھا آخر وقت تک فرماتے رہے۔ امت نے اس کو سنا سمجھا اور اس پر عمل کیا۔ اگر یہ تحریر لازمی ہوتی تو حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے نبی ہیں کسی کے ماننے یا انکار کی پرواہ کئے بغیر لکھوا سکتے تھے۔ کسی کی مجال تھی کہ رکاوٹ ڈالتا؟ جب ساری دنیا مخالف اور دشمن تھی، اس وقت تو پیارے نبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کی مخالفت کی پرواہ نہ کی اب تو سارے جان قربان کرنے والے فدائی تھے، کس کی جرات تھی کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارادے میں حائل ہوتا؟
یہ ہے حدیث قرطاس کا پس منظر اور مفہوم۔