وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اسحاق بھائی
بہت شکریہ
کافی تفصیلی جواب دیا
میں نے نیٹ پر سرچ کیا، اس میں ایک اور نسخے کا ذکر بھی ملا، جو کہ نسخہ بغدادیہ کے نام سے ہے۔ اور یہ نسخہ امام صغانی رحمۃ اللہ نے لکھا تھا۔ امام صغانی ہمارے برصغیر سے تعلق رکھتے تھے جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی
هو الإمام العلامة رضي الدين، أبو الفضائل وأبو محمد الحسن بن محمد بن الحسن بن حيدر بن علي بن إسماعيل البغدادي القرشي العمري، الصغاني المحتد، اللهوري المولد، الفقيه، المحدث، حامل لواء اللغة في زمانه.
ولد سنة سبع وسبعين وخمسمائة (577) بلهور، بالهند،
اب یہ نہیں پتہ کہ کہ بلھور کونسی جگہ ہے، مگر ہے ہند سے
اسی طرح یہ بھی لکھا ہے
لثانية: ومنها ما جمع أصحابها فيها عدة روايات:
وأقدمها على الإطلاق نسخة أبي ذر الحافظ، حيث جمع في نسخته رواياته عن شيوخه الثلاثة المستملي والحمويي والكشميهني، وكالنسخة اليونينية، وهي من أشهر النسخ التي جمعت عدة روايات للصحيح.
إلا أن أحدا من أصحاب هذه النسخ لم يتيسر له الاطلاع على أصل الفربري الذي كان يحدث منه، اللهم إلا الحافظ الصغاني الذي اطلع على هذا الأصل وقابل عليه نسخته، ولذلك فإن نسخة الصغاني تعتبر من أعلى النسخ إسنادا وإن كان صاحبها متأخر الوفاة!!
اب جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے، یہ کہا جا رہا ہے کہ جو ابی ذر والا نسخہ تھا، وہ مستملی، حموی، کشمیھنی سے، نیز نسخہ یونینیہ سے مقابل کر کے لکھا گیا تھا
مگر بعد والوں کے پاس فربری کا نسخہ نہیں تھا سوائے امام صغانی کے جنہوں نے اصل سے تقابل کر کے اپنا نسخہ لکھا تھا
اس وجہ سے یہ زیادہ معتبر ہے
اب یہ جو کہا گیا اسی سائٹ پر
وقد وقعت النسخة إلى الحافظ ابن حجر، فاستفاد منها أيما فائدة، ونبه على فضلها، وأرشد على أهميتها، وبحق لولا الحافظ ابن حجر لم تعرف قيمة هذه النسخة، ولما اشتهرت هذه الشهرة، مع أن ابن حجر احتفل بنسخة أبي ذر، واحتشد لها، إلا أنه كما ظهر لي من شرحه أكثر اعتماداً على هاتين النسختين - نسخة أبي ذر ونسخة الصغاني - مما سواهما.
وقد ترك الحافظ في شرحه - في أماكن عدة - وصفاً دقيقاً للنسخة البغدادية، يبين هذا الذي ذكرته من أهميتها وفضلها، وهو وصف على غرار ما يفعله المحققون في زماننا من وصف النسخ المخطوطة المعتمد عليها!.
مجھے جو سمجھ آئی، وہ یہ ہے کہ یہ نسخہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پاس بھی تھا؎
نیز یہ کہ وہ دو نسخوں پر اعتبار کرتے تھے ، ایک نسخہ ابو ذر، دوسرا نسخہ صغانی
امید ہے میں صحیح سمجھا ہوں
غلط ہوں، تو تصحیح کر دیجیے گا
ویسے یہ سب پڑھنے کے بعد بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے دین کو مجفوظ رکھنے کے لیے کتنی کوششیں کیں
جبکہ ہم میں کتنی ہیں ہیں جو کہ انہیں پڑھ بھی لیں
شاید اسی وجہ سے وہ کہاں تک گئے، اور ہم کہاں رہ گئے