• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صحیح بخاری کے نسخہ جات

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
السلام علیکم

عربی ویب سائٹ پر ایک سوال کا جواب دیکھا جس میں مجھے کافی پریشانی کا سامنہ کرنا پڑا

https://islamqa.info/ar/193912

جتنا مجھے سمجھ آیا وہ یہ ہے کہ صحیح بخاری کا سب سے اچھا نسخہ فربری کا ہے جن سے کافی لوگوں نے لیا ہے
تاہم میری سمجھ غلط ہو سکتی ہے
اس لیے
میرا سوال یہ ہے کہ صحیح بخاری کے کل کتنے نسخے ہیں؟ اور ان میں سب سے معتبر کونسا ہے؟
اور آج کل جو پرنٹ ہو رہا ہے، وہ کس نسخے کی نقل ہے؟
کیا فربری کا نسخہ آج بھی موجود ہے؟

شکریہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
فی الحال آپ کو علامہ حافظ عبد المنان نورپوری رحمہ اللہ کی ’’مرآۃ البخاری ‘‘ سے صحیح بخاری کے مختلف نسخوں کا مختصر تعارف کرواتے ہیں ،
درج ذیل تحریر کو فورم کے معزز رکن جناب ’’ آزاد ‘‘ نے یونیکوڈ کی صورت دی ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ عبد المنان نورپوریؒ صاحب لکھتے ہیں ::
کتاب بخاری کے نسخے:

بیان کیا جاتا ہے کہ امام بخاری سے الجامع الصحیح المسند کو نوے ہزار آدمیوں نے سنا ہے۔ مگر جو نسخے ہم تک بسند متصل ان کے شاگردوں کی وساطت سے پہنچتے ہیں، وہ چار ہیں۔
نسخہ اول ؛ حافظ فربری کا نسخہ:
ان کا نام ابوعبداللہ محمد بن یوسف بن مطر بن صالح بن بشر فربری ہے۔ 320 ہجری میں فوت ہوئے۔ انہوں نے کتاب بخاری کو امام بخاری سے دو مرتبہ سنا ہے، ایک مرتبہ بخارا میں اور دوسری مرتبہ فربر میں سنا۔ فربر میں امام بخاری سے 248ھ میں الجامع الصحیح کو سنا۔ اور 252ھ میں بخارا میں سنا۔ فربری والا نسخہ باقی تینوں نسخوں سے زیادہ شہرت یافتہ ہے۔ فربری سے آگے اس نسخہ کو نقل کرنے والے نو افراد ہیں۔ ان نو آدمیوں میں سے تین ابواسحاق ابراہیم بن احمد مستملی، ابومحمدعبداللہ بن احمد سرخسی اور ابوالہیثم محمد بن مکی کشمہینی مشہور ہیں۔ ان تینوں کے آگے بیان کرنے والے بزرگ ابوذر عبداللہ بن احمد ہروی ہیں۔ اس نسخہ کا نام نسخہ ابی ذر ہے۔ فربری سے اس نسخہ کو نقل کرنے والے 9 آدمی ہیں۔ ان سے آگے اس نسخہ کو سترہ آدمی نقل کرتے ہیں۔ اگر شاگردوں کے لحاظ سے نسخوں کا اعتبار کیا جائے تو فربری والا نسخہ سب سے زیادہ معتبر ہے۔ فربری کے شاگردوں کے شاگردوں کے سترہ نسخے ہوجائیں گے۔ ان سترہ میں سے ابوذر والا نسخہ زیادہ قابل اعتبار ہے۔

نسخہ ثانیہ؛ حافظ نسفی کا نسخہ:
ان کا نام ابراہیم بن معقل بن حجاج نسفی ہے۔ یہ امام بخاری کے شاگرد ہیں ۔ 294ھ میں فوت ہوئے۔ انہوں نے جامع بخاری کو امام بخاری سے براہ راست سنا ہے۔ ابوعلی جیانی اپنی کتاب ’’تقیید المہمل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حافظ نسفی نے ساری کتاب امام بخاری سے نہیں سنی ، چند اوراق رہ گئے تھے۔ وہ اوراق امام بخاری سے اجازۃ نقل کرتے ہیں۔ اس طرح یہ معمولی سا نقص رہ گیا۔ فربری نے تمام کتاب امام بخاری سے سنی ہے تو فربری کا نسخہ زیادہ عمدہ ہے۔ابراہیم بن معقل کے متعلق مشہور ہے کہ یہ بزرگ حنفی تھے۔ ان کے آگے ہمیں یہ نسخہ صرف ایک شاگرد کے واسطہ سے پہنچ رہا ہے۔ اس کے برعکس فربری سے آگے نو آدمی نقل کرتے ہیں۔ اس وجہ سے حافظ نسفی کے اس نسخہ کو وہ شہرت حاصل نہ ہوسکی جو نسخہ فربری کو ہوئی۔

(۳) نسخہ ثالثہ؛ حافظ نسوی کا نسخہ:
ان کا نام حماد بن شاکر نسوی ہے۔ انہوں نے کتاب بخاری کو امام بخاری سے براہ راست سنا ہے۔ لیکن کچھ مقامات کی سماعت ان سے بھی رہ گئی۔ ان کی وفات تقریباً 290ھ میں ہوئی۔ ان کے متعلق بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بزرگ حنفی تھے۔ ان سے آگے اس نسخہ کو بیان کرنے والا صرف ایک شخص ہے۔ تو فربری کے نسخہ کی نسبت حماد بن شاکر کے نسخہ کو بھی وہ شہرت حاصل نہ ہوسکی جو نسخہ فربری کو حاصل ہوئی۔

(۴) نسخہ رابعہ؛ حافظ بزدوی کا نسخہ:
ان کا نام ابوطلحہ منصور بھی محمد بن علی بن قرینہ بزدوی ہے۔ حافظ بزدوی 329ھ میں فوت ہوئے۔ امام بخاری کے شاگردوں میں سے آخر میں فوت ہونے والے شاگردوں میں شامل ہیں۔ ان کے نسخہ کو بھی نقل کرنے والا ایک ہی شخص ہے۔ اس وجہ سے اس نسخہ کو بھی وہ شہرت حاصل نہ ہوسکی جو نسخہ فربری کو حاصل ہوئی۔
 
Last edited:

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اسحاق بھائی

بہت شکریہ

کافی تفصیلی جواب دیا

میں نے نیٹ پر سرچ کیا، اس میں ایک اور نسخے کا ذکر بھی ملا، جو کہ نسخہ بغدادیہ کے نام سے ہے۔ اور یہ نسخہ امام صغانی رحمۃ اللہ نے لکھا تھا۔ امام صغانی ہمارے برصغیر سے تعلق رکھتے تھے جس سے مجھے بڑی خوشی ہوئی

هو الإمام العلامة رضي الدين، أبو الفضائل وأبو محمد الحسن بن محمد بن الحسن بن حيدر بن علي بن إسماعيل البغدادي القرشي العمري، الصغاني المحتد، اللهوري المولد، الفقيه، المحدث، حامل لواء اللغة في زمانه.

ولد سنة سبع وسبعين وخمسمائة (577) بلهور، بالهند،


اب یہ نہیں پتہ کہ کہ بلھور کونسی جگہ ہے، مگر ہے ہند سے

اسی طرح یہ بھی لکھا ہے

لثانية: ومنها ما جمع أصحابها فيها عدة روايات:
وأقدمها على الإطلاق نسخة أبي ذر الحافظ، حيث جمع في نسخته رواياته عن شيوخه الثلاثة المستملي والحمويي والكشميهني، وكالنسخة اليونينية، وهي من أشهر النسخ التي جمعت عدة روايات للصحيح.

إلا أن أحدا من أصحاب هذه النسخ لم يتيسر له الاطلاع على أصل الفربري الذي كان يحدث منه، اللهم إلا الحافظ الصغاني الذي اطلع على هذا الأصل وقابل عليه نسخته، ولذلك فإن نسخة الصغاني تعتبر من أعلى النسخ إسنادا وإن كان صاحبها متأخر الوفاة!!




اب جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے، یہ کہا جا رہا ہے کہ جو ابی ذر والا نسخہ تھا، وہ مستملی، حموی، کشمیھنی سے، نیز نسخہ یونینیہ سے مقابل کر کے لکھا گیا تھا
مگر بعد والوں کے پاس فربری کا نسخہ نہیں تھا سوائے امام صغانی کے جنہوں نے اصل سے تقابل کر کے اپنا نسخہ لکھا تھا
اس وجہ سے یہ زیادہ معتبر ہے

اب یہ جو کہا گیا اسی سائٹ پر

وقد وقعت النسخة إلى الحافظ ابن حجر، فاستفاد منها أيما فائدة، ونبه على فضلها، وأرشد على أهميتها، وبحق لولا الحافظ ابن حجر لم تعرف قيمة هذه النسخة، ولما اشتهرت هذه الشهرة، مع أن ابن حجر احتفل بنسخة أبي ذر، واحتشد لها، إلا أنه كما ظهر لي من شرحه أكثر اعتماداً على هاتين النسختين - نسخة أبي ذر ونسخة الصغاني - مما سواهما.

وقد ترك الحافظ في شرحه - في أماكن عدة - وصفاً دقيقاً للنسخة البغدادية، يبين هذا الذي ذكرته من أهميتها وفضلها، وهو وصف على غرار ما يفعله المحققون في زماننا من وصف النسخ المخطوطة المعتمد عليها!.



مجھے جو سمجھ آئی، وہ یہ ہے کہ یہ نسخہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے پاس بھی تھا؎
نیز یہ کہ وہ دو نسخوں پر اعتبار کرتے تھے ، ایک نسخہ ابو ذر، دوسرا نسخہ صغانی

امید ہے میں صحیح سمجھا ہوں
غلط ہوں، تو تصحیح کر دیجیے گا

ویسے یہ سب پڑھنے کے بعد بندہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ہمارے اسلاف نے دین کو مجفوظ رکھنے کے لیے کتنی کوششیں کیں
جبکہ ہم میں کتنی ہیں ہیں جو کہ انہیں پڑھ بھی لیں

شاید اسی وجہ سے وہ کہاں تک گئے، اور ہم کہاں رہ گئے
 

قاضی786

رکن
شمولیت
فروری 06، 2014
پیغامات
146
ری ایکشن اسکور
70
پوائنٹ
75
اسحاق بھائی اس سوال کا جواب بھی دے دیں

آج کل جو پرنٹ ہو رہا ہے، وہ کس نسخے کی نقل ہے؟

کیوں کہ میں نے مختلف صحیح بخاری کے مقدمے دیکھے کہ شاید کسی نے لکھا ہو، مگر نہیں مل سکا

شکریہ
 
Top