اسلام ڈیفینڈر
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 18، 2012
- پیغامات
- 368
- ری ایکشن اسکور
- 1,006
- پوائنٹ
- 97
بعض لوگ سرسری طور پر احادیث کے مطالعہ کے بعد جب انہیں حدیث کے صحیح معنی آشکارا نہیں ہوتے تو وہ جھٹ سے اسے قرآن مجید کیخلاف یادو صحیح احادیثوں کو متصادم قرار دے کر باطل ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں جو کہ جہالت اور انکار حدیث کی سازش میں ہاتھ بٹانے کے مترادف ہے ، صحیح مسلم کے بارے میں خود امام مسلم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
لیس کل شییٔ عندی وضعتہ ھھنا انما وضعت ھھنا ما أجمعوالیہ
(صحیح مسلم باب اتشھد فی الصلاۃ)
''میں صحیح مسلم میں ہر وہ حدیث نہیں لکھتا جو میرے نزدیک صحیح ہے مسلم میں تو صرف وہ احادیث لکھی ہے جس پر اجماع ہوچکا ہے ۔''
غور فرمائیں صحیح مسلم کی تمام تر صحیح احادیث پر امت کا اجماع ہے اور صحابہ سے لے کر آج تک بڑے بڑے احادیث کے فن میں ماہر گزرے اور وہ صحیح مسلم کی احادیث پر عمل کرتے رہے اور اسے حق سمجھتے رہے لیکن آج سینکڑوں سال بعد ایک شخص کو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ حدیث صحیح نہیں اور وہ اس کا خوب اعلان کرتا پھرتا ہے غور کیجئے آج سے قبل جو بھی ان احادیث کو صحیح مانتے تھے کیا وہ سب گمراہ تھے ؟ یا ان کو وہ بات سمجھ میں نہ آئی آج ایسے شخص کو سمجھ میں آگئی جو عربی متن پڑھنے کے بھی قابل نہیں ۔
قارئین کرام !
یہ سب کچھ ذہنوں کی افتراعات ہیں بخاری ومسلم میں جو مرفوع اور متصل احادیث ہیں ان کا رسول اللہ ﷺ کی احادیث ہونے میں کسی کو کوئی اختلاف نہیں اب ہم یہاں مسلم کی وہ روایات نقل کئے دیتے ہیں جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ متصادم ٹہراکر رد کردیا گیا ۔امام مسلم کتاب المساقات میں حدیث ذکر فرماتے ہیں :
''عن اسامۃ بن زیدرضی اللہ عنہ ان رسول اللہ ﷺ قال : لا رباً فیما کان یداً بید'' (صحیح مسلم، ج4ص219کتاب البیوع)
''اسامہ بن زیدرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :ربا (سود) نہیں ہے نقداز نقد میں۔''
مذکورہ حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ نقد از نقد میں سود نہیں ہوتا لیکن اس کے خلاف دوسری حدیث جو کہ صحیح
مسلم کتاب البیوع المساقات والمزارعات میں نقل فرمائی گئی ہے :
''عن ابی سعیدرضی اللہ عنہ یقول جاء بلالرضی اللہ عنہ بتمر برنی فقال لہ رسول اللہ من این ھذا؟۔۔۔۔'' (صحیح مسلم ج4ص215)
''ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدنا بلالرضی اللہ عنہ برنی (میں ایک عمدہ قسم کی )کھجور لے کر آئے۔جناب رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا یہ کہاں سے لائے بلالرضی اللہ عنہ نے کہا میرے پاس خراب قسم کی کھجور تھی تو دو صاع اس کو دے کر میں نے ایک صاع اس کا آپ کے کھانے کیلئے خریدا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا افسوس یہ تو عین سود ہے ایسا مت کر لیکن جب تو کھجور خریدنا چاہے تو اپنی کھجور بیچ ڈال پھر اس کی قیمت کے بدلے دوسری کھجور خریدلے۔''
پہلی حدیث سے بظاہر معلوم ہوا کہ نقد از نقد سود نہیں ۔ لیکن دوسری حدیث جو بلال t سے مروی ہے وہ یہ ثابت کررہی ہے کہ بلال t نے نقد ہی سودا کیا مگر رسول اللہ ﷺ نے اسے عین سود قرار دیا لہٰذا ان دونوں احادیث میں سے کس حدیث کو سچا مانا جائے گا کونسی حدیث کو عمل کے قابل سمجھا جائے گا۔
جواب : اگر سرسری طور پر قرآن مجید کا بھی مطالعہ کیا جائے تو وہاں بھی اس طرح کے اعتراضات کے انبار لگ جائیں گے اسی لئے قرآن مجید نے اعلان فرمایا کہ:
'' اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ۔ '' (النحل آیت 43)
لہٰذا اپنی اٹکل کے گھوڑے دوڑانے سے بہتر یہی ہے کہ اہل فن کی تصریحات اور ان کے علم سے فوائد حاصل کئے جائیں ۔
قارئین کرام !
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے بلکہ دونوں صحیح اور اپنی جگہ درست ہیں کیونکہ ان دونوں احادیث کا تعلق اپنے موقع اور محل کے ساتھ ہے ۔ وہ حدیث جس میں مذکورہے کہ نقد از نقد سود نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ جنس مختلف ہوں اگر جنس میں تبدیلی ہوگی تو سود کی شکل بن سکتی ہے جیساکہ بلال t کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کیونکہ ایک اور حدیث موجود ہے جو ان دونوں احادیث کا مقام اور محل کو اپنی جگہ صحیح ثابت کرتی ہے ۔ اور وہ حدیث ان دونوں کے تعارض کو دور کرتی ہے ۔''عن ابی ھریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ التمر بالتمر، الحنطۃ بالحنطۃ،والشعیر بالشعیر، والملح بالملح ،مثلا بمثل، یدا بید،فمن ذادأواستذادفقد أربی، الا مااختلف ألوانہ۔''
(صحیح مسلم کتاب المساقات رقم الحدیث 1588(
''سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بیچو کھجور کو کھجور کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے برابر برابرنقد از نقد پھر جو کوئی زیادہ دے یا زیادہ لے تو سود ہوگیا مگر جب قسم بدل جائے (تو زیادہ اور کمی درست ہے )۔''
غور فرمائیں
بلال رضی اللہ عنہ کی حدیث اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کے مخالف ہر گز نہیں کیونکہ بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع گھٹیا کھجور دے کر ایک صاع اچھی کھجور خریدی لہٰذا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث نے یہ واضح کردیا کہ نقد از نقد میں قسم کی تبدیلی نہیں ہے تو زیادہ دے کر کم چیز خریدنا عین سود ہے اور بلالرضی اللہ عنہ نے بھی زیادہ کھجور دے کر کم کھجور خریدا اسی تبدیلی کیلئے رسول اللہ ﷺ نے اسے عین سود قرار دیا ، اگر بلال رضی اللہ عنہ جنس کی تبدیلی کے ساتھ سودا کرتے مثلا گیہوں کے بدلے نمک یا جوکے بدلے گیہوں خریدتے تو سود نہ ہوتا یہی مراد ہے ان دونوں احادیث کی لہٰذا ان میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں ہے ۔ اب ان دونوں احادیث میں بخوبی تطبیق قائم ہوگئی اور کسی قسم کا کوئی تعارض باقی نہ رہا اس کے باوجود اگر کوئی تعارض پیش کرے اور وہ یہ کہے کہ مجھ پر الہام ہوا ہے تو یہ الہامی بشر نہ ہوگا بلکہ یہ الہامی گرگٹ تو ضرور ہوسکتا ہے ۔کیونکہ حدیث صحیحہ دین کا اساسہ ہے اس کے خلاف الہام نہیں بلکہ وسوسات ہوا کرتے ہیں جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں۔ مزید سنیے:صحیح مسلم کی ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''۔۔فاذااختلف ھذہ الاصناف فبیعوا کیف شئتم اذا کان یدا بید۔''
''جب قسم بدل جائے (مثلا گیہوں جو کے بدلے) تو جس طرح چاہے بیچو(کم وبیش) پر نقد ہونا ضرور ہے ۔''
اب اس حدیث نے نقد از نقد سود نہیں ہے کو واضح کردیا کہ جنس میں تبدیلی ہو اور نقد سودا ہو تو سود نہیں ہے اگر قسم ایک ہے اور کمی بیشی ہے تو عین سود ہے ۔
تمام گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ جس حدیث میں یہ ارشاد ہوا ہے کہ نقد از نقد سود نہیں اس سے مراد جب جنس مختلف ہوں اور بلال t کی حدیث جس میں نقد از نقد ہی سودا ہوا تھا تو وہ سودا س لئے قرار دیا گیا کہ وہ جنس ایک ہی تھی کیونکہ ابوہریرہ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہما کی حدیث نے خلاصہ کردیا اگر جنس ایک ہی ہوتو اسکی کمی بیشی ربا سود ہوا کرتی ہے ۔
اب ہم اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کریں گے۔
یہ قائدہ مسلمہ ہے کہ ایک قرآن مجید کی آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے اور ایک حدیث دوسری حدیث کی تفسیر کرتی ہے اس بنیادی قاعدہ سے ایک پہلی جماعت کا طالب علم بھی واقف ہے ، بظاہر کسی حدیث کو دیکھ کر اگر دوسری حدیث سے متعارض معلوم ہوتی ہے تو وہ ضروری نہیں کہ واقعتا ہی وہ تعارض ہو کیونکہ اس قسم کا ظاہری تعارض تو قرآن مجید میں بھی موجود ہے کہ دو آیات بظاہر ایک دوسرے کے خلاف دکھائی دیتی ہیں۔ مگر تیسری آیت ان دونوں کے تعارض کو رفع کرتی ہے ۔مثلا ًاللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ فَاَمَّا الَّذِیْنَ شَقُوْا فَفِی النَّارِ لَھُمْ فِیْھَا زَفِیْرٌ وَّشَھِیْقٌ﮹ﺫ خٰلِدِیْنَ فِیْھَا مَا دَامَتِ السَّمٰوٰتُ وَالْاَرْضُ اِلَّا مَا شَا۬ئَ رَبُّکَﺚ اِنَّ رَبَّکَ فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُ﮺﴾
(ھود :106,107)
''لیکن جو بدبخت ہوئے وہ دوزخ میں ہونگے وہاں چیخیں گے چلائیں گے وہ وہیں ہمیشہ رہیں گے جب تک آسمان اور زمین برقرار ہیں۔''
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کے برقراری تک کافروں کو دوزخ میں رہنے کا اعلان فرمایا ، مگر دوسری آیت ان جہنمیوں کے بارے میں کچھ اور اعلان کرتی نظر آرہی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَکَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَآ اُولٰ۬ئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِﺆ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَﭶﺟ﴾ (البقرة: ۳۹)
''اور جو انکار کرکے ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ جہنمی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اس میں رہیں گے ۔''
سورۃ البقرۃ کی آیت اس مئلہ پر دلالت کرتی ہے کہ جہنمی لوگ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے وہ کافر جہنم سے کبھی بھی نہ نکل پائیں گے ،مگر سورۃ ھود کی آیت ان جہنمی لوگوں کو ہمیشہ کا عذاب نہیں بلکہ آسمان وزمین کے قائم رہنے تک عذاب کی وعید سنارہی ہے ، بظاہر ان دونوں آیات میں تعارض موجود ہے ، اور اگر کوئی مستشرق بھی اس معترض کی طرح یہ رٹ لگائے اور یہ رٹہ لگاتا جائے کہ میں چیلنج کرتا ہوں تمام علماء کو کہ وہ ان دونوں آیات کے تعرض کو دور کریں ، جب علماء جواب دیں تو وہ کہے کہ میں نہ مانوں میرے نزدیک تو تعارض ہے۔۔۔۔تو بتائیے اب کس طرح اس مستشرق کو سمجھایا جائے ؟ حالانکہ دونوں آیات میں جو بظاہر تعارض ہے اس تعارض کو تیسری آیت رفع کرتی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ یَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَیْرَ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰتُ وَبَرَزُوْا لِلہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِﭿ﴾ (ابراہیم: ۴۸)
''جس دن زمین اس زمین کے سوا اور ہی بدل دی جائے اور آسمان بھی اور سب کے سب اللہ واحد غلبے والے کے روبرو ہوں گے ۔''
سورۃ ابراہیم کی آیت مبارکہ نے ان دونوں آیات کے تعارض کو رفع کردیا کہ قیامت کے وقت ان آسمانوں اور زمینوں کو تبدیل کردیا جائے گا یعنی سورۃ ھود میں جس آسمان اور زمین کا ذکر کیا گیا ہے وہ دنیاوی نہیں بلکہ وہ آسمان اور زمین ہونگے جن کو دائمی اللہ تعالیٰ برقرار رکھے گا اسی بات کو قرآن مجید کے شارح سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے سمجھایا (جن کی حدیث میں معترض کو تعارض جابجا نظر آتا ہے) جن کو قرآن کی تبیان تفسیر اور اس کے خلاصہ کے منصب پر اللہ تعالیٰ نے خود فائزفرمایا آپ ﷺ کی حدیث ہے :
امی عائشہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ جب آسمان وزمین بدل دئیے جائیں گے تو لوگ اس دن کہاں ہونگے؟ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا''صراط پر'' یعنی پل صراط پر۔ (صحیح مسلم ، صفۃ القیامۃ(
قارئین کرام !
آپ نے پڑھا اور سمجھا کہ بظاہر دونوں آیات میں تعارض تھا مگر تیسری آیت نے ان دونوں آیات میں مناسبت اور تطبیق مہیہّ فرمادی ۔بعین اسی طرح سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ نقد ازنقد میں سود نہیں ہے اور دوسری حدیث کہ بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع برنی کھجور دے کر جو گھٹیا تھیں ایک صاع اچھی کھجور خریدلی آپ ﷺ نے فرمایا عین سود ہے حالانکہ یہ سودابھی نقد ہورہا ہے۔ بظاہر ان دونوں احادیث میں تعارض موجود ہے جس طرح قرآن مجید میں بظاہر تعارض تھا ۔ مگر تیسری حدیث نے اس تعارض کو دور فرمادیا ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
''بیچو کھجور کو کھجور کے بدلے اور گیہوں کو گیہوں کے بدلے اور جو کو جو کے بدلے برابر برابرنقد از نقد پھر جو کوئی زیادہ لے تو سود ہوگیا مگر جب قسم بدل جائے (مثلا کھجور گیہوں کے بدلے جو نمک کے بدلے وغیرہ ۔ تو زیادہ اور کم درست ہے )۔''
اس تیسری حدیث نے واضح کیا کہ جب جنس ایک ہو یعنی کھجور کھجور کے بدلے جو جو کے بدلے اور اس میں کمی بیشی ہوگی تو وہ سود ہوگا اور اگر جنس تبدیل ہوگی تو کمی بیشی جائز ہے نقد پر لہٰذا واضح ہوا کہ جس حدیث میں یہ فرمایا گیا کہ نقد میں سود نہیں اس سے مراد وہ تجارت ہے جو جنس کی تبدیلی کے ساتھ ہوگی اور بلال t والی حدیث اس پر دال ہے کہ اگر جنس مختلف نہ ہوں تو کمی بیشی نقد میں بھی سود ہوگی۔
اس نکتہ کو بھی یاد رکھا جائے جس حدیث میں یہ ذکر ہے کہ سود ادھار میں ہے اس حدیث کا ایک اور حصہ بھی ہے جس میں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اس حدیث کا تعلق اجناس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے، اور اس کا تعلق ہر گز ایک جنس والی حدیث سے نہیں ہے۔ (جیسے بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث) کیونکہ نبی ﷺ سے سوال کیا گیا ہے ''گیہوں کو جو اور سونے کو چاندی کے بدلے بیچنا کیسا ہے؟'' (یعنی مختلف اجناس ہوں) تو آپ ﷺ نے فرمایا ''لا ربا الا فی النسیة'' سود ادھار میں ہے ۔ دیکھیے امام سرخسی کی (المبسوط، ج۱۲) اب اس حدیث سے بایں طور پر واضح ہوگیا کہ سود ادھار میں ہے کا تعلق جنس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے۔ اب اسےزبردستی بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث سے متصادم ٹھہرا کر اسے رد کر دینا یہ صرف نفس کی اتباع اور اپنے مذموم عقائد کی آبیاری ہی ہے۔
یہ ہے جواب ان احادیث کا جنہیں معترض سمجھنے سے قاصر رہے یا وہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے اللہ بہتر جانتا ہے دلوں کے حالات کو ہم تو یہی کہیں گے:
ان کنت تدری فتلک مصیبة
وان کنت لا تدری فالمصیبة اعظم
دو معروف صحابی سیدنا ابن عمر t اور سیدنا ابن عباسt بھی ابتداء میں اس بات کے قائل تھے کہ نقد سودے میں سود نہیں ہوا کرتا ۔ مگر جب ان تک حدیث پہنچی توانہوں نے اپنے موقف سے رجوع فرمالیا ،امام مسلم ذکر فرماتے ہیں :
''عن ابی نضرۃ قال سئلت ابن عمر وابن عباس عن الصرّف فلم یریا بہ بأساً فانی لقاعد عند أبی سعید الخدری t فسألتہ عن الصّرف فقال ماذاد فھو رباً فانکرت ذالک لقو لھما فقال الا أحدثک الا ما سمعت من رسول اللہ ﷺ جاء صاحب نخلۃ بصاعٍ من تمر طیّب وکان تمر النبی ﷺ ھذا اللّون فقال لہ النبی ﷺ انّی لک ھذا؟ قال انطلقت بصاعین۔۔۔۔''
)رواہ مسلم کتاب المساقات رقم الحدیث ۴۰۶۳)
''ابونضرہ سے روایت ہے کہ میں نے ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا صرف کے بارے میں (یعنی سونے چاندی کی بیع کو سونے چاندی کے بدلے یعنی ایک ہی جنس ہو)انہوں نے اس بیع میں کوئی قباحت نہیں دیکھی (اگرچہ کمی بیشی ہو بشرطیکہ نقد از نقدہو)پھر میں بیٹھا تھا ابو سعید رضی اللہ عنہ کے پاس ان سے میں نے پوچھا صرف کو۔ انہوں نے فرمایا کہ جو زیادہ ہو وہ ربا ہے ۔ میں نے اس کا انکار کیا بوجہ ابن عمر اور ابن عباس کے کہنے پر ۔ ابو سعید t نے فرمایا میں تجھ سے نہیں بیان کرونگا مگر جو سنامیں نے رسول اللہ ﷺ سے آ پ ﷺ کے پاس ایک کھجور والا ایک صاع عمدہ کھجور لے کر گیا (یہ اسی حدیث سے ملتا جلتا مفہوم ہے جس کا معترض نے انکار کیا ہے جوبلال t کے حوالے سے مسلم شریف میں نقل کیا گیا ہے )اور رسول اللہ ﷺ کی کھجور اس قسم کی تھی تب رسول اللہ ﷺ نے پوچھا یہ کھجور کہاں سے لایا وہ بولا میں دو صاع کھجور لے کر گیا اور اس کے بدلے ایک صاع اس کھجور کو خریدا۔ کیونکہ اس کا نرخ بازار میں ایسا ہی ہے اور اس کا نرخ ایسا ہے ۔آپ ﷺ نے فرمایا خرابی ہو تیری ، سود دیا تونے ۔جب تو ایسا کرنا چاہے تو اپنی کھجور کسی اور شے کے بدلے بیچ ڈال پھر اس شے کے بدلے جو کھجور تو چاہے خرید لے ۔ ابو سعید رضی اللہ نے کہا تو کھجور جب کھجور کے بدلے دی جائے تو اس میں سود ہو تو چاندی جب چاندی کے بدلے دی جائے (کم زیادتی کے ساتھ ) تو اس میں سود ضرور ہوگا) اگرچہ نقد از نقد ہو) ابونصرہ نے فرمایا کہ پھر میں ابن عمر t کے پاس آیا تو اس کے بعد انہوں نے بھی منع کیا (کہ اگر جنس ایک ہی ہے اور اس میں کمی زیادتی ہے چاہے وہ نقد پر ہو تو وہ جائز نہیں) اور میں ابن عباس t کے پاس نہیں گیا۔ لیکن مجھ سے ابوالصھباء نے حدیث بیان کی انہوں نے ابن عباس t سے پوچھا مکّے میں تو آپ نے بھی اس بیع کو مکروہ جانا۔ (یعنی ابن عمرt کی طرح ابن عباس t نے بھی اپنے موقف کو حدیث ملتے ہی تبدیل کردیا)۔''
بلکہ امام حاکم ؒ نے المستدرک الحاکم میں یہاں تک حدیث کا اضافہ کیا ہےکہ:
''انہ رجع عن ذالک لما ذکر لہ ابو سعید حدیث الذی فی الباب واستغفر اللہ وکان ینھیٰ عنہ اشد۔''
''جب ابو سعید رضی اللہ عنہ کی حدیث (ابن عباسرضی اللہ عنہ) تک پہنچی توآپ نے اللہ سے استغفار کیا اور (اپنے سابقہ موقف سے) سختی سے روکتے۔''
امام حازمی نے مزید نقل فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ارشاد فرمایا:
''کان ذالک برائیی وھذا ابو سعید الخدری یحدثنی عن رسول اللہ ﷺ فترکت راٴییی الی حدیث رسول اللہ ﷺ'' (نیل الاوطار، ج۵، ص۲۵۰)
''ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ(نقد از نقد سودے پر سود نہیں ہوتا جب ایک جنس ہو) یہ میری رائے تھی اور ابو سعید نے ہمیں حدیث رسول ﷺ بیان فرمائی ہے اور میں اپنی رائے کو ترک کرتا ہوں، رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے لیے۔''
امام عبدالرزاق رحمہ اللہ نے زیاد رحمہ اللہ کا قول نقل کیا ہےجو ابن عباس کے غلام تھے۔ آپ نے فرمایا :
''فرجع عن الصرف قبل ان یموت بسبعین یوماً''(مصنف عبدالرزاق، رقم:۱۴۵۴۸)
''ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیع صرف سے اپنے انتقال سے ستر (۷۰) روز قبل رجوع فرمایا۔ ''
امام طبرانی نے معجم الکبیر میں فرمایا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیع صرف کے معاملے میں اللہ تعالیٰ سے بخشش طلب کرتے اور فرماتے ''استغفراللہ واتوب الیہ من الصرف''۔
ڈاکٹر واھبة الذھیلی حفظہ اللہ نے فرمایا کہ اسامہ والی حدیث کہ ''سود ادھار میں ہے'' اور وہ حدیث جو ایک جنس کے ساتھ ہو اور کمی بیشی ہو سود ہے۔ ان دونوں احادیث پر سود کے حکم پر تابعین کا اجماع ہے۔ (الفقة الاسلامیة، ج۵، ص۳۷۳)
اس حدیث سے واضح طور پر صحابہ کا اپنے موقف سے رجوع کرنا ثابت ہوگیا الحمد للہ کیونکہ صحابہ کا موقف صحیح حدیث ہوا کرتا ہے یہ لوگ حدیث کے مقابلے میں قیاس یا ایک صحابی حدیث کے مقابلے میں کسی دوسرے صحابی یاشخص کی بات کو قبول نہیں کرتے تھے بلکہ حدیث ملنے پر تمام قیاسات کو ترک کرکے حدیث کو قبول فرماتے اور اس کے مطابق عمل کرتے ۔
قارئین کرام غور فرمائیے
جس حدیث پر معترض نے چیلنج کیا اس موقف سے صحابہ کرام نے رجوع کرلیا تھا اور وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ عبادہ بن صامت ابوسعید الخدری اور ابوہریرۃ رضی اللہ عنہم کی احادیث کو قبول فرمایا۔بہت خوبصورت بات کہی امام نووی رحمہ اللہ نے آپ فرماتے ہیں:
''معنی ماذکرہ أولاً من ابن عمرt وابن عباسt: أنھما کانا یعتقد أنہ لاربا فیما کان یداً بید،وأنہ یجوز بیع درھم بردھمین،ودینار بدنیارین۔۔۔۔وکان معتمدھما حدیث أسامۃ بن زید''انما الربافی النسیئۃ'' ثم رجع ابن عمروابن عباس عن ذالک حین بلغھما حدیث ابی سعید ، کما ذکرہ مسلم من رجوعھما صریحاً وھذہ الاحادیث التی ذکرھا مسلم تدل علی أن ابن عمروابن عباس لم یکن بلغھما حدیث النھی عن التفاضل فی غیر النسیئۃ فلما بلغھما رجعاالیہ۔'' (الدیباج ،ج۴ص۱۳۶)
''پہلے ابن عمر اور ابن عباس کا یہ مذہب تھا کہ جب نقد از نقد بیع ہو تو کمی بیشی ربا نہیں ہوتا۔ اگر چہ ایک ہی جنس ہو اور جائز رکھتے تھے ایک ہی درھم کی بیع کو دو درہم کے بدلے اور ایک دینار کی دو دینار کے بدلے اور ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور کے بدلے اور اسی طرح گیہوں اور تمام ربوی اجناس میں وہ کم وبیش بیچنا جائز رکھتے تھے ۔ بشرطیکہ دست بدست ہو اور جو ادھار ہو وہ ربا ہوگا پھر ان دونوں صحابہ نے رجوع کرلیا کیونکہ ممانعت والی حدیث ان تک نہیں پہنچی تھی جب پہنچ گئی تو دونوں صحابہ کرام t نے اپنے موقف سے رجوع فرمالیا۔''
ان احادیث اور اقتباسات سے یہ بات مترشح ہوئی ہے کہ ابن عمر اور ابن عباس یہ دونوں کبار صحابہ رضی اللہ عنہما نے اپنے موقف کو تبدیل کیا ۔ابن عباس t قرآن مجید کے بہت بڑے عالم تھے اور آپ ﷺ نے انہیں قرآن کے علم کی دعا دی تھی اور یہ دعا قبول ہوئی جس کی پاداش میں آپ صحابہ میں بہت بڑے مفسر قرآن مشہور ہوئے ۔ لیکن اس کے باوجود جب حدیث آئی تو آپ t نے یہ نہیں کیا جیساکہ معترض نے اعتراض کیا کہ پورے قرآن میں نقد میں سود کا کوئی ذکر نہیں ہے ، بلکہ ابن عباس جو مفسر قرآن اور عالم قرآن تھے آپ نے فوراً حدیث کی طرف رجوع کیا اور اپنے موقف کو تبدیل فرمایا۔کیونکہ وہ بخوبی جانتے تھے کہ قرآن کی صحیح منشاء اور تعبیر حدیث رسول ﷺ میں ہی ذم ہے ۔
نوٹ:
ہم آگے معترض کو قرآن مجید کی آیت کے بارے میں بھی جواب دیں گے ۔ ان شاء اللہیہ اس بات کی مبین دلیل ہے کہ صحیح احادیث کی طرف رجوع کرنا ایمانداری کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کیونکہ اگر معترض اپنے موقف کو تبدیل نہ کرے گا تو وہ یہ ثابت کررہا ہے کہ ''ابن عباس، ابن عمر، عبادہ بن صامت، ابوہریرہ ، بلال ، ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہم یہ سب غلط موقف پر تھے جوکہ سراسر زیادتی ہے کیونکہ صحابہ کرام نے واضح فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے جب صحابی گواہی دے رہا ہے کہ میں نے نبی ﷺ سے سنا ہے تو وہ واضح کررہا ہے کہ وہ حدیث رسول ہی ہے اور آپ بخوبی جانتے ہیں صحابہ کرام t حدیث پر اپنی جانوں کو نچھاور فرمایا کرتے تھے۔اور خصوصاً جب وہ حدیث بیان کرتے تو وہی الفاظ یا مفہوم بیان کرتے جو انہوں نے نبی کریم ﷺ سے سنا۔
اب ہم آتے ہیں معترض کی اس دلیل کی طرف جو کہ انہوں نے
u ابوہریرۃ
v ابوسعید
w ابن عباس
x ابن عمر
y عبادہ بن صامت
z عمر رضی اللہ عنہم
کی احادیث کے رد میں پیش کی ہے ۔
معترض اپنے موقف ''کہ سود نقد میں نہیں ہے '' کو ثابت کرنے کیلئے ایک حدیث کو پیش کرتے ہیں (یہاں اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ معترض نے جو حدیث اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے پیش کی ہے وہ بھی مسلم کی ہے اور جو رد کررہا ہے وہ بھی صحیح مسلم کی ہی ہے بس بات اتنی سی ہے کہ جو حدیث ان کے ذہن میں آگئی وہ صحیح اور جو ان کے ذہن اور مؤقف کے خلاف ہوگی وہ متعارض ہوگی یعنی پرکھنے کا توازن اور معیار ان کی ناقص عقل ٹھہری۔۔۔حالانکہ حدیث کو پرکھنے کا فن اسماء الرجال بھی ہے اس فن کے مطابق بھی دونوں احادیث سند کے اعتبار سے بے غبار اور قوی الاسناد ہیں ۔معترض لکھتا ہے :
عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا '' میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ آپ منع کرتے تھے سونے کو سونے کے بدلے اور نمک کو نمک کے بدلے مگر برابر برابر نقد پھر جس نے زیادہ دیا یا زیادہ لیا تو ربا ہوگیا '' یہ سن کر لوگوں نے جو لیا تھا پھیر دیا ۔ معاویہ t کو یہ خبر پہنچی وہ خطبہ پڑھنے لگے کھڑے ہوکر ''کیا حال ہے لوگوں کا؟ جناب رسول اللہ ﷺ سے وہ حدیثیں روایت کرتے ہیں جن کو ہم نے نہیں سنا اور ہم آپ کے پاس حاضر رہے اور آپ کی صحبت میں رہے ۔ پھر عبادہt کھڑے ہوئے اور قصہ بیان کیا بعد اس کے کہا ہم تو وہ حدیث ضرور ہی بیان کریں گے جو رسول اللہ ﷺ سے سنی اگرچہ معاویہ t کو برا معلوم ہو یا یوں کہا ۔ اگرچہ معاویہ رضی اللہ عنہ کی ذلت ہو میں پرواہ نہیں کرتا۔
اس حدیث کو امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح مسلم کتاب المساقات میں ذکر فرمایا ہے ، معترض اس حدیث سے اپنا موقف ثابت کرنا چاہ رہا ہے کہ عبادۃ بن صامت رضی اللہ نے جو حدیث بیان کی (کہ نقد میں بھی سود ہوسکتا ہے ) اس کے خلاف انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا قول نقل فرمایا اور ان کے قول کو حدیث سمجھ کر فیصلہ کن قراردیا اور جو صحابی صراحتًا کہہ رہے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا اور معترض اس کو قبول کرنے سے رک رہے ہیں کیونکہ یہ حدیث جو رسول اللہ ﷺ سے عبادۃ بن صامت نے سنی رد ہوگئی اس لئے کہ معترض کے موقف کے خلاف ہے اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جو بات کہہ رہے ہیں وہ حدیث نہیں بیان کررہے مگر ان کا قول ہے اور وہ مقبول ٹھہرا کیوں کہ وہ معترض کے موقف کی تائید میں ہے ۔ اگر ہم حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
''مابال رجال یتحدّثون عن رسول اللہﷺاحادیث قد کنا نشھدہ ونصحبہ فلم نسمعھا منہ۔''
یعنی کیا حال ہے لوگوں کا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے احادیث بیان کرتے ہیں ہم نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی لیکن ہم نے یہ حدیث آپ ﷺ سے نہیں سنی ۔
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمان کہ ہم نے یہ حدیث نہیں سنی تو معلوم ہوا کہ یہ حدیث جس کا ذکر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کررہے ہیں یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کے علم میں نہ تھی چنانچہ یہ قاعدہ مسلمہ ہے کہ ہر حدیث کا علم ہر صحابی کو نہ ہوا اور نہ ہی ہر حدیث کا ادراک ہر صحابی کو ہو سکا۔ ایک مشہور حدیث کہ دیت میں تمام انگلیاں برابر ہیں۔ یہ حدیث معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کی اپنی امارت کے وقت پہنچی، اس سے قبل ان کو اس حدیث کا علم نہ تھا۔ (دیکھیےفتوی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ، ج۲، ص۴۳۶)
حتی کہ کبار صحابہ، خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، اصحاب بدر،اصحاب احد تک بھی تمام احادیث کا پہنچنا ثابت نہیں۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے، مزید دلائل کے لیے اعلام الموقعین ، ج۴، صفحہ ۱۹ کا مطالعہ مفید رہے گا۔ لہٰذا اسی طریقےے سے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تک بھی یہ حدیث نہیں پہنچی تھی، اس لیے وہ اس کا انکار کر رہے تھے۔
چیلنج:
میرا تمام معترضین کو چیلنج ہے کہ وہ امیر معاویہ کے اس قول کو حدیث ہونا ثابت کردیں کیونکہ معترض یہی ثابت کررہا ہے کہ یہ حدیث ہے جیساکہ اس نے اپنے خط یا اقتباسات میں تحریر کیا ہے (یاد رکھا جائے جن صحابہ نے یہ روایت کیا ہے کہ ربا نہیں ہے نقد میں اس حدیث کا تعلق اجناس کی تبدیلی کے ساتھ مشروط ہے ۔ اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی گفتگو کا تعلق ایک ہی جنس پر سودے کے ساتھ ہے ۔ ایک ہی جنس میں اگر کمی بیشی ہوگی یہ سود ہوگا اور اس کو سود نہ قرار دینے پر کوئی حدیث نہیں اسی لئے معاویہ رضی اللہ عنہ دلیل مہیّا نہ کرسکے اور ہمارا چیلنج بھی اسی مسئلے کیساتھ خاص ہے کہ امیر معاویہ سے وہ حدیث ثابت کریں کہ ایک جنس میں اگر بیع ہو نقد از نقد تو کمی بیشی ہر گز سود نہیں ہوتی۔)ہم یہ بات بہت رسوخ سے کہہ رہے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کوئی حدیث نقل نہیں کی بلکہ وہ ان کی ایک رائے تھی جوکہ حدیث نامعلوم ہونے کی واضح دلیل ہے ، کئی ایسے صحابہ کرام موجود ہیں جنہیں کئی مسائل کا علم یا احادیث کا علم نہ ہوسکا اور بعد میں ان تک احادیث کو پہنچایا گیا اور انہوں نے رجوع کیا۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
جو اس بات کا اعتقاد رکھے کہ ہر صحیح حدیث ہر ائمہ یا معیّن امام تک پہنچی تو وہ فحش اور قبیح غلطی کر رہا ہے۔ (رفع الاعلام، ص۲۳۸)
میرے خیال سے معترض اس بات سے بھی ناواقف ہونگے کیونکہ یہ علم حدیث سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے میرا ایمان یہ ہے کہ حدیث رسول اللہ ﷺ کے خلاف کسی امتی ، حتی کہ بڑی سے بڑی ہستی کی بھی بات نہیں مانی جائے گی بلکہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی اتباع لازمی ہوگی ۔ اور آ پ کے فیصلے کا نفاذ ہوگا ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
﴿ فَلَا وَرَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَا یَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَیُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاﮐ ﴾ (النساء: ۶۵)
''سو قسم ہے تیرے پروردگار کی ! یہ ایمان دار نہیں ہوسکتے جب تک تمام آپس کے اختلاف میں آپ کو حاکم نہ مان لیں پھر جو فیصلہ آپ ان میں کردیں ان سے اپنے دل میں کسی طرح کی تنگی اور ناخوشی نہ پائیں اور فرمانبرداری کے ساتھ قبول کرلیں۔''
آیت مذکورہ نے یہ واضح کیا کہ فیصلہ رسول اللہ ﷺ کا ہی چلے گا اور جو آپ کے فیصلے سے رو گردانی کرتا ہے وہ اپنے ایمان کی خیر منائے ۔
ہمیں تمام اقوال پر رسول اللہ ﷺ ہی کے اقوال کو ترجیح دینی ہوگی اب ہم یہ واضح کریں گے کہ سیدنا امیر معاویہ t عدم حدیث کی وجہ سے آپ نے لوگوں کو خطبہ ارشاد فرمایا کیونکہ عبادہ بن صامت حدیث بیان کررہے تھے اگر معاویہ t کے پاس اپنے موقف کی حدیث ہوتی تو وہ اپنے موقف کی تائید کے لئے حدیث کا سہارا لازمی لیتے یا حدیث پیش کرتے ۔ مذکورہ مسئلے میں عبادہ بن صامت t کا قول واضح ہے کہ وہ حدیث رسول ﷺ بیان فرمارہے تھے اور امیر معاویہ حدیث نہیں بلکہ اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے ۔
جی وہ اپنی رائے کا اظہار کررہے تھے اور یہ تمام مسلمان جانتے ہیں کہ حدیث کے مقابلے میں کسی کی بھی رائے قبول نہ ہوگی بلکہ رائے کو چھوڑدیا جائے گا اور حدیث رسول اللہ ﷺ پر عمل کیا جائے گا یہی رسالت کا حق ہے۔
قبیصہ فرماتے ہیں :
''اللہ کے رسول ﷺ کے صحابی سیدنا عبادہ بن صامت انصاری رضی اللہ عنہ نے جو (بیعت عقبہ میں ) انصار کے نمائندے تھے ، سیدنا معاویہرضی اللہ عنہ کی معیت میں روم کے علاقے میں جہاد کیا۔ (وہاں ) انہوں نے دیکھا کہ لوگوں نے سونے کی ڈلیوں کے بدلے دیناروں کا اور چاندی کی ڈلیوں کے بدلے درہموں کا لین دین کررہے ہیں ۔ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگو! تم سود کھارہے ہو ، میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا''سونے کو سونے کے بدلے نہ بیچو مگر برابر برابر نہ اس میں زیادتی ہو اور نہ ادھار'' سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ابو الولید میرے خیال میں سود وہی ہے جو ادھا ہو۔''
حضرت عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں آپ کو اللہ کے رسول ﷺ کا فرمان سناتاہوں اور آپ مجھے اپنی رائے بتاتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ مجھے (اس جہاد سے سلامت) واپس لے گیا تو میں اس علاقے میں نہیں رہوں گا جہاں مجھ پر آپ رضی اللہ عنہ کی حکومت ہو۔ جب وہ جہاد سے واپس ہوئے (تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ شام جانے کے بجائے ) مدینہ جا پہنچے ، حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا ابو الولید آپ یہاں کیوں تشریف لائے؟ حضرت عبادۃ رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کیا اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہنے کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ بھی بیان فرمادیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ابو الولید اپنے علاقے میں واپس چلے جائیے اللہ برا کرے اس علاقے کا جس میں آپ اور آپ جیسے افراد نہ ہوں اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ کر بھیجا عبادہ رضی اللہ عنہ پر آپ کی کوئی حکومت نہیں اور عبادہ نے جو کچھ کہا ہے (یعنی جو حدیث نقل کی ہے ) لوگوں سے اسی کے مطابق عمل کراؤ،کیونکہ (شریعت) کا حکم یہی ہے۔
نوٹ:
خط کشیدہ الفاظ قابل غور ہیں۔مذکورہ حدیث نے واضح کردیا کہ امیر معاویہ t کی یہ صرف رائے تھی اگر وہ اپنی رائے سے بات نہ کرتے تو فرماتے کہ میرے پاس بھی حدیث رسول ﷺ ہے میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا مگر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یہ سننا کہ یہ آپ کی رائے ہے اور پھر اس کے بعد آپ کا خاموش ہونا مبین دلیل ہے کہ امیر معاویہرضی اللہ عنہکے پاس اپنے موقف کی کوئی دلیل نہ تھی ۔۔۔اور حدیث کے آخر ی الفاظ جس میں عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگوں کو اسی کے مطابق عمل کراؤ جو عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نے حدیث سنائی ہے اور یہی (شریعت ) کا حکم ہے لہٰذا اب عمررضی اللہ عنہ نے بھی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے موقف کے اتباع کرنے والے ہوگئے کیونکہ عبادۃ رضی اللہ عنہ کے پاس واضح حدیث رسول ﷺ موجود تھی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس دلیل نہ تھی وہ صرف اپنی رائے کا اظہار فرمارہے تھے ۔[1]u
اب فیصلہ قارئین آپ کیجئے کہ حدیث رسول ﷺ پر ایمان لائیں کہ معترضین کی طرح قیاس و آراء پر کیوں کہ دین قرآن وصحیح حدیث کا نام ہے آراؤں اور قیاسوں کا نام نہیں ہے۔
الحمد للہ ہم نے یہ ثابت کردیا کہ معترضین نے دھڑلے سے جس موقف پر مباھلہ کا اعلان کیا ہے وہ موقف ہی رائے پر قائم ہے ۔
معترض سو مرتبہ ہمارے پیش کردا دلائیل کو پڑھیں اور ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرح حدیث قبول کرنے والا بنے خاما خاہی حدیث کے خلاف قیاس اور اٹکل کے گھوڑے نہ دوڑائے ان کو اس فعل پر شہرت ضرور ملے گی مگر اللہ کی ولایت نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ولایت صرف نبی کریم ﷺ کی بات کو قبول کرنے میں اور آپ ﷺ کی اتباع میں ہی ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
''اے نبی ﷺ فرمادیں کہ تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو اللہ بھی تم سے محبت کرے گا ۔ (آل عمران:۳۱)
قارئین کرام کئی صحابہ ایسے ہیں جن تک احادیث نہ پہنچیں بظاہر ان کا فتوی حدیث کے مطابق نہ ہوتا مگر جوں ہی حدیث کے علم کا انہیں ادراک ہوتا وہ فوراً بغیرکسی چوں چراکے اپنے موقف سے رجوع کرتے ۔ ایک قائدہ یہاں ذکر کرتا چلوں کہ اگر کوئی صحابی یہ کہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے فلاں حدیث نہیں سنی اور اسی مسئلہ میں دوسرے صحابی یہ کہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے حدیث سنی ہے تو بات اس صحابی کی مانی جائے گی جو یہ کہتا ہے کہ میں نے سنی ہے کیونکہ جس صحابی نے انکار کیا تو وہ ایک عذر ہے کیونکہ انہوں نے نبی ﷺ سے نہیں سنا ۔لہٰذا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث نہیں سنی جس کا علم عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس تھا مگر عبادہ بن صامت نے نبی کریم ﷺ سے اس حدیث کو سنا تو بات اب ان کی قبول کی جائے گی کیونکہ علم ان کے پاس ہے ۔ اور صحابہ نبی کریم ﷺ کے پاس چوبیس گھنٹے ساتھ نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ بات تو واضح ہے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہر وقت نبی کریمﷺ کے ساتھ نہیں ہوتے تھے کیونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ معاش اور گھریلو مصروفیات بھی ہوا کرتی تھیں یہی وجہ ہے کہ ہر حدیث ہر صحابی تک نہیں پہنچتی ۔ میرے خیال سے معترض چاشت کی نماز کے تو قائل ہونگے ؟ اگر ان کو اس میں کوئی تعارض نظر نہ آیا ہوگا تو ۔۔۔۔مگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
''ما صلی رسول اللہ ﷺ الضحٰی قط فی حضر ولا سفر''(صحیح البخاری، ج۱، ص۱۹۷)
''میں رسول اللہ ﷺ کو صلاة الضحٰی (چاشت) کی نماز کبھی بھی پڑھتے نہیں دیکھا۔''
اب اگر معترض کو یہ کہا جائے کہ آپ چاشت کی نماز کے اگر قائل ہیں تو امی عائشہ رضی اللہ عنہم نے تو کبھی بھی نبی کریم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا لہٰذا چاشت کی نماز درست نہیں اور میں مباہلہ کا اعلان کرتا ہوں وغیرہ وغیرہ تو کیا یہ بات درست ہوگی؟؟
ہر گز نہیں کیوں کہ دانائی حکمت کی یہی سب سے بڑی دلیل اور تقاضا ہے کہ شریعی دلائل پر غور کیا جائے کیونکہ عدم ذکر سے عدم شئی لازم نہیں آتا۔
بالکل اسی طرح سے امی عائشہ رضی اللہ عنہ کے علم نہ ہونے کی وجہ سے چاشت کی نماز کا نہ ہونا ثابت نہ ہوگا کیونکہ جو انہوں نے دیکھا سو وہ بیان کردیا اور جو دوسرے صحابہ نے دیکھا تو انہوں نے بیان کردیا ۔ام ھانی رضی اللہ عنہا نے چاشت کی نماز کا ذکر فرمایا۔ کیونکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کو پڑھتے دیکھا۔ صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ ام ھانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ ﷺ ان کے گھر تشریف لائے اور آپ ﷺ نے غسل فرمایا اور پھر آٹھ رکعت (چاشت) کی نماز پڑھی۔ (صحیح بخاری، کتاب التھجد، رقم:۱۱۷۶)
لہٰذا ام ھانی نے نبی کریم ﷺ کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا سو انہوں نے اس حدیث کو آگے پہنچا دیا۔
اب ہم یہاں مزید وضاحت کیلئے چند مثالیں پیش کرتے ہیں جو کہ اس بات کی دلیل ہے کہ کئی احادیث کئی صحابہ کے علم میں موجود نہ تھیں ان کے علم نہ ہونے کی وجہ سے حدیث کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑا۔مثلا:
u فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور عمار رضی اللہ عنہ کا تییم کے بارے میں واقعہ معروف ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا ۔ اگر میں جنبی ہوجاؤں اور پانی نہ پاؤں تو کیاکروں ؟ انہوں نے فرمایا ایسی صورت میں نماز نہ پڑھو۔ حضرت عماررضی اللہ عنہ نے فرمایا امیر المومنین کیا آپ کو یاد نہیں میں اور آپ سفر میں تھے ہمیں غسل کی ضرورت پڑی پانی تھا ، آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا۔ پھر نماز پڑھ لی۔ جب رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے تو یہ سارا ماجرہ کہہ دیا ۔ آپ ﷺ نے فرمایا تمہارے لئے یہی کافی تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارتا پھر ان پر پھونک مارکر اپنے چہرے اور ہاتھوں پر مل لیتا ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے مزید یاد نہیں ۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم کتاب التییم رقم ۳۳۸)
v سیدنا ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ پر دادی کی میراث والی حدیث نہیں پہنچی یہاں تک کہ انہیں مغیرہ بن شعبہ نے یہ حدیث سنائی ۔ (موطأ امام مالک ۵۱۳/۲)
w عمر t کو انگلیوں کی دیت کی حدیث معلوم نہ تھی یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ کی وفات کے بعد انہیں ال عمروبن حزم کی کتاب سے دلیل ملی کہ نبی ﷺ نے فرمایا تمام انگلیاں دیت کے اعتبار سے یکساں ہیں ۔ (سنن البیھقی ج۸ص۹۳)
x عمررضی اللہ عنہ کے پاس یہ حدیث موجود نہ تھی کہ کسی کے گھر جاؤ تو تین مرتبہ اجازت چاہو حتی کہ انکو ابو موسی نے اس حدیث کی خبر دی۔ (صحیح بخاری رقم ۷۳۵۳)
y طلاق ثلاثۃ کے بعد عورت کا اپنے خاوند جس سے طلاق ہوئی اس کے گھر میں نہ اس کی عدت ہے اور نہ ہی اس کے خاوند پر عورت کا نفقہ اور سکنی ہے یہ حدیث عمررضی اللہ عنہ کو معلوم نہ تھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہ نے انہیں خبر دی ۔ (صحیح مسلم رقم ۱۵۵۰)
ایسے انگنت مسائل موجود ہیں جن کا علم صحابہ کو نہ تھا مگر نبی کریم ﷺ کے دور مبارک میں یا آپ کے بعد صحابہ کو دوسرے صحابی کے ذریعے احادیث کا ادراک ہوا بعین یہی بات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر صادر آتی ہے کہ آپ کو اس حدیث کا علم نہ تھا جس کا علم عبادۃ بن صامت t کو تھا یہ قاعدہ اہل اصولین کے نزدیک متفقہ ہے کہ اگر ایک صحابی کسی مسئلہ میں انکار کرتا ہے اور دوسرا صحابی اقرار کرتا ہے تو بات ان صحابی کی مانی جائے گی جو اثبات میں بیان کرتے ہیں کیونکہ جو صحابی انکار کررہے ہیں انہیں اس حدیث کا علم نہ ہوسکا اور جن صحابی کو اس کا علم ہوگیا تو انہوں نے اسے بیان کردیا۔[2]v
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ان جلیل وقدر صحابہ میں شمار ہوتے تھے جو رسول اللہ ﷺ سے بہت قریب اور آپ کے جانشین تھے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات یاد رکھیں کہ اگر وہ کوئی حدیث بیان کرتے تو وہ نبی کریم ﷺ سے سنی ہوتی تو وہ لازماً اس کا حوالہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے اور اگر ان کی رائے ہوتی تو معاویہ رضی اللہ عنہ خاموشی اختیار کرتے جیساکہ عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے سامنے خاموشی اختیار کی کیونکہ وہاں آپ کی رائے تھی اور جہاں آپ کی رائے نہ ہوتی تو وہاں واضح کردیتے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے مثلا:
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جب کچھ لوگوں کو عصر کی نماز کے بعد دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فوراً انکا ردّ کیا اورفرمایا:
''ہم نے رسول اللہ ﷺ کی صحبت اختیار کی ہے اور ہم نے یہ نماز پڑھتے ہوئے نبی کریم ﷺ کو نہیں دیکھا بلکہ عصر کے بعد آپ ﷺ نے ان دو رکعتوں کو پڑھنے سے روکا ہے ۔ (صحیح البخاری کتاب المناقب رقم ۳۷۶۶)
اب ذرا غور کیجئے معاویہ رضی اللہ عنہ کے ان الفاظ پر جو آپ کی رائے تھی اور وہ الفاظ جو آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنے تھے۔
معاویہ رضی اللہ عنہ کی رائے کے الفاظ:
''ہم نے نبی ﷺ کی صحبت پائی اور ہم نے یہ حدیث نبی ﷺ سے نہیں سنی۔''
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو فرمایاتھاکہ آپ اپنی رائے مجھے بتاتے ہیں اور میں حدیث۔۔۔۔۔
وہ الفاظ جو معاویہ رضی اللہ عنہ نے بالمشافہ نبی ﷺ سے سنے ہم نے نبی ﷺ کی صحبت پائی اور آپ ﷺ نے ان دو رکعتوں کو پڑھنے سے منع کیا۔
غور کیجئے جس طرح عصر کے بعد کی دو رکعتوں کے بارے میں معاویہ رضی اللہ عنہ نے ممانعت کی حدیث کا ذکر فرمایا اگر عبادۃ بن صامت کے مقابلے میں ان کے پاس حدیث ہوتی تو وہ بیان کرتے کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو منع کرتے ہوئے سنا۔۔۔۔جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا موقف رائے پر مبنی تھا اور سیدنا عبادۃ رضی اللہ عنہ کا موقف قوی اور حدیث پر مبنی تھا اسی لئے عمررضی اللہ عنہ نے عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ کے موقف کو نافذ کروایا اور اسے شریعت قراردیا۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کا کہنا کہ ہم نے نبی ﷺ کو یہ فعل کرتے ہوئے نہیں دیکھا تو قاعدہ یاد رکھنا چاہئیےکہ ہر حدیث کا ادراک ہر صحابی کو نہیں ہوا اس کی ایک طویل فہرست موجود ہے یہاں استیعاب مقصود نہیں پچھلے اوراق میں میں نے چند نظائر قارئین کی خدمت میں گوش گوار کئے ہیں۔
الحمد للہ ہم نے دلائل اور براہین سے ثابت کردیا کہ صحیح مسلم کی جن تین احادیث صحیحہ کے بارے میں معترض نے اعتراضات کئے اور زبردستی ان احادیث کو معارض ہونا ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہم ان احادیث میں تطبیق اصولوں اور ضوابط کی روشنی میں پیش کردیتے ہیں ۔
ہمارا چیلنج یاد رکھیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قول کو حدیث پر ترجیح دی گئی ہے امیر معاویہ t کے قول کو مرفوع حدیث ہونا ثابت کریں ورنہ اپنے خود ساختہ قول سے رجوع کریں۔
معترض نے قرآن مجید کے بارے میں لکھا ہے کہ قرآن میں نقد میں سود کا کوئی ذکر نہیں ۔ قرآن کی روشنی میں بھی حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ صحیح ثابت ہوتے ہیں ۔
ماشاء اللہ معترض نے کیا فہم قرآن پایا ہے جن کو رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کے علم کی دعا دی وہ تو عبادۃ بن صامتt والی حدیث کو قبول کرتے ہیں اور ان کی زبان سے یہ نہ نکلا کہ یہ حدیث قرآن کیخلاف ہے ، لیکن معترض کا فہم قرآن اتنا زبردست ہے کہ جو بات صحابی رسولﷺ کو سمجھ میں نہ آئی وہ انہیں گھر بیٹھے سمجھ میں آگئی۔ایسا لگتا ہے کہ معترض اگر صحابہ کے دور میں ہوتا تو وہاں بھی مباہلہ کا چیلنج دیتا۔۔۔۔
محترم قارئین قرآن مجید میں کئی آیات ایسی ہیں جو ذکر کی گئی ہیں لیکن اس کی تشریح اور خلاصہ نبی کریم ﷺ کا ہی منصب تھا اور اس منصب پر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو فائز کیا تھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَﭻ﴾
(النحل: ۴۴)
''یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگوں کی جانب جو نازل فرمایا گیا آپ اس کے مطالب اور مفاہیم بیان کردیں۔''
یہاں ''تبیان'' سے مراد وضاحت ہے جس سے مراد قرآن مجید کی آیات کو آپ ﷺ واضح کرینگے۔یہ وہ منصب ہے جسے اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو عطا فرمایا۔
معترض کا یہ کہنا کہ قرآن شریف کی آیتوں (سورۃ بقرۃ آیت نمبر۲۷۸،۲۷۹-۲۸۰) میں صرف اور صرف ادھار والے سود کا ذکر ہے جب کہ پورے قرآن مجید میں سود کا کوئی ذکر نہیں ۔
ان کے اس اعتراض سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حلال ، حرام،نماز کا طریقہ ، لین دین کے جملہ مسائل سب کچھ قرآن سے ہی اخذ کئے ہیں اسی لئے یہ قرآن سے سود کے تمام مسائل کو اخذ کرنا چاہتے ہیں۔میں معترض کو وہی کہوں گا جو کہ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو کہا کہ جب اسے حدیث بیان کی گئی تو اس نے کہا :
''ان اللہ یقول فی کتابہ کذا و کذا''
کہ اللہ تعالیٰ اپنی کتاب میں تو اس اس طرح فرماتا ہے ۔ تو جواباً سعید رضی اللہ عنہ نے فرمایا غصے کی حالت میں :
''الا اراک تعرض فی حدیث رسول اللہ کان اعلم بکتاب اللہ منک''
(ذم الکلام للھروی، ج۲، ص۲۵۹)
کہ میں تمہیں حدیث رسول پیش کرتا ہوں اور رسول اللہ ﷺ تم سے بہت زیادہ قرآن کو جاننے والے تھے۔
لہٰذا محترم قارئین! قرآن مجید میں ان گنت ایسے مسائل ہیں جس کے بارے میں صرف اشارہ موجود ہے قرآن میں باقی مکمل تفصیل حدیث ہی کرتی ہے ۔
امام الحرمین الجوینی رحمہ اللہ نے بہت خوبصورت بات کہی آپ فرماتے ہیں:
''قد نص اللہ تعالیٰ تحریم الربا وتوعد علیہ، ولکن ذکرالربا، مجملاً فی القرآن، والتغیر محال علی بیان رسول اللہﷺ''
(نھایة المطلب فی درایة المذھب، ج۵، ص۶۴)
''اللہ تعالیٰ نے سود کے اور اس کی وعید پر نص ثابت کی ہے اور یقیناً قرآن میں سود کا ذکر اجمالاً ذکر کیا گیا ہے اور اس کی تفصیل رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں صرف چار اشیاء کو ہی حرام قرار دیا ہے ، مردار ، بہتا خون ، خنزیر کا گوشت اور غیر اللہ کے نام پر ذبح کیا ہوا جانور اور یہ اعلان کردیا گیا کہ
﴿ قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُھ۫ٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَةً اَوْ دَمًا مَّسْفُوْحًا ۔۔۔۔۔ﯠ ﴾ (الانعام: ۱۴۵)
'' آپ ﷺ کہہ دیجئے کہ جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے مگر یہ کہ وہ مردار ہویا کہ بہتا ہوا خون ۔۔۔۔''
مندرجہ بالاآیت میں صرف چار اشیاء کے علاوہ نبی پر کسی چیز کو حرام نہیں قرار دیا گیا یعنی ان چار اشیاء کے علاوہ سب کچھ حلال ہے ۔
اب معترض سے سوال یہ ہوگا کہ :
کتا ، ریچھ، سانپ، بچھو، لومڑی،شیر،چیتا،چوہا کیا یہ جانور حلال ہیں یا حرام ؟
قرآنی بیان سے تو یہ حلال ہیں کیونکہ چار اشیاء کے علاوہ کسی چیز کو قرآن نے حرام نہیں قرار دیا اگر آپ کہیں گے کہ یہ حرام ہیں تو پھر وہ حدیث جس میں حرام کردہ چیزوں کی ایک فہرست ہے وہ (معترض کے قاعدہ کے مطابق) قرآن سے متعارض ہوگی اور غیر مقبول ہوگی۔۔(کیونکہ معترض نے قرآن سے یہ نتیجہ اخذکیا ہے کہ قرآن میں ادھار پر سودکا ذکر ہے نقد پر سود کا ذکر نہیں ہے اسی لئے قرآن پر زیادتی مقبول نہیں، بعین اسی طرح قرآنی بیان سے صرف چار اشیاء ہی حرام ہیں اگر حدیث چار کے علاوہ اور اشیاء کو بھی حرام قراردے رہی ہے تو وہ بھی زیادتی ہوگی جو قبول نہ ہوگا۔ اور اگر یہاں حدیث قبول ہوگی تو کن قواعد و ضوابط کی صورت میں؟ اگر یہاں قواعد و ضوابط پر عمل ہوگا تو سود والی آیت کی تشریح کے لیے حدیث رسول ﷺ کیوں مقبول نہ ہوگی؟؟ اب ہم باقی حرام چیزوں کو کس کھاتے میں ڈالیں گے؟؟یا پھر نئی اصطلاحات کو وجود دیں گے؟؟))اور اہل علم کوایک نئے فتوے سے روشناس کروائیں گے فیصلہ آپ کے اختیار میں ہے اور اگر آپ حرام کی طرف جائیں تو سمجھ لیں قرآن اجمالاً ذکر کرتا ہے اور حدیث اس کی تشریح کرتی ہے اسی طرح سورۃ بقرۃ میں سود کا حکم اجمالاً ذکر کیا گیا ہے اور اس کی مختلف انواع پر سنت نے بحث کی ہے اور یہی منصب حدیث کو قرآن نے دیا ہے ۔
لطیفہ:ایک منکرین حدیث سے گفتگو ہوئی اس نے کہا کہ قرآن میں گدھے کی حرمت کا ذکر موجود ہے کہ وہ حرام ہے۔ ہم نے کہا کہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ گدھا حرام ہے دلیل کے طور پر منکرین حدیث نے آیت پیش کی کہ
﴿مثل الذین حمّلو التوراۃ ثم لم یحملوھا کمثل الحمار یحمل اسفارا بئس مثل القوم الذین کذبوا بآیات اللہ﴾
ترجمہ: ''جن لوگوں کو تورات کا حامل بنایا گیا تھا پھر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھایا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر کتابیں لدی ہوئی ہوں ۔''
منکر حدیث نے کہا گدھا رجس ہے اسی لئے کفار کے لئے اس کی مثال دی گئی ۔
ہم کہتے ہیں کہ اگر اس کی حرام ہونے کی دلیل یہی ہے (کیونکہ حدیث تو ان کے نزدیک قرآن سے ٹکراتی ہے اس لئے مقبول نہیں) تو پھر بھیڑ، بکری، گائے، سارے چوپائے بھی حرام ہیں۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کافروں کیلئے فرمایا:
﴿اولئٰک کاالانعام بل ھم أضل﴾
''یہ لوگ تو چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ اس بھی زیادہ گمراہ ۔''
تو اللہ تعالیٰ نے کافروں کیلئے چوپایوں کی مثال دی تو اب ان کے قاعدے کے مطابق چوپائے بھی حرام کیوں کہ کافر رجس اور نجس ہے ۔
ذرا سوچئے حدیث قرآن مجید کا خلاصہ بیان کرتی ہے اگر اسے چھوڑدیں گے تو جگہ جگہ پر ایسی مضحکہ خیز غلطیاں کرینگے جن سے قرآن فہمی نہیں بلکہ شک و شبھات کی آبیاری ہوگی۔۔۔
لہٰذا ایسی کئی آیات ہیں جن میں اجمالا ذکر موجود ہیں مگر حدیث نے اسکا خلاصہ اورتفصیل ذکر فرمائی ہے کیونکہ جس سورۃ بقرۃ کی آیت سے معترض حدیث کو ردّ کرنے کی جستجو کررہا ہے وہ حدیث ہر گز قرآن کے خلاف نہیں بلکہ قرآن کے احکامات کی تفصیل ہے ۔ اگر قرآن مجید میں بقول معترض کے صرف ادھار والے سود کا ذکر ہے تو اگر حدیث نے نقد سود کا ذکر دکردیا تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑا؟؟
اوریہ کوئی تناقص نہیں ہے اور نہ ہی آج تک کسی اہل علم نے اس حدیث کو تعارض سمجھا قرآن مجید کی آیت سے بلکہ ایسی تو ان گنت مثالیں موجود ہیں جس کی تفصیل حدیث بتلاتی ہے مثلاً اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں کا ذکر فرمایا جن سے آپ نکاح نہیں کرسکتے وہ خواتین آپ کی محرمات میں سے ہیں اللہ تعالیٰ نے جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام قراردیا ہے وہ یہ عورتیں ہیں۔
uتمہاری مائیںvتمہاری لڑکیاںwتمہاری بہنیںx تمہاری پھوپھیاںy تمہاری خالائیںzبھائی کی لڑکیاں{بہن کی لڑکیاں|تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا}تمہاری دودھ شریک بہنیں~تمہاری ساس تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیاں جو تمہاری گود میں ہے۔تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو۔ہاں اگر تم نے ان سے جماع نہ کیا ہو تو تم پر کوئی گناہ نہیںاور تمہاری صلبی سگے بیٹوں کی بیویاںاور تمہارا دو بہنوں کا جمع کرنا۔ (النساء :۲۳)
مذکورہ فہرست میں جو قرآن مجید سے ماخوذ ہے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام عورتیں جن کا ذکر گزرچکا ہے حرام ہیں ان خواتین کے علاوہ باقی سب خواتین حلال ہیں لیکن اللہ کے رسول ﷺ نے بھتیجی،پھوپھی، بھانجی اور خالہ کو ایک مرد کے نکاح میں جمع کرنے کو حرام قرار دیا ہے ۔ اب اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ قرآن مجید میں صاف طور پر جن عورتوں سے نکاح کی ممانعت کی گئی ہے اس فہرست میں یہ مذکور نہیں ہے کہ بھتیجی پھوپھی بھانجی اور خالہ کا نکاح بیک وقت ایک آدمی سے حرام ہے حالانکہ اس مسئلہ پر کسی کو کوئی اختلاف نہیں ہے اوریہ حدیث قرآن کی مذکورہ حرام کی ہوئی عورتوں میں مزید اضافہ کرتی ہے ۔ اب بتائیں کیا یہ حدیث قرآن مجید کے خلاف ہے؟ کیا اس پر عمل کیا جائے گا؟؟؟
اگر یہ بھی تعارض لگتا ہے تو آپ تحریری طور پر ہمیں یہ لکھ کر ارسال کریں گے کہ بھتیجی اور پھوپھی، بھانجی اور خالہ کا ایک وقت میں ایک آدمی کے نکاح میں آنا درست ہے اور اگر آپ کا اس حدیث پر عمل ہے تو صحیح مسلم کی حدیث پر عمل کرنے میں کونسی چیز آپ کو مانع ہے ۔
اگر اسی طرح سے غور کیا جائے سورۃ البقرۃ میں جو اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ''واحل اللہ البیع وحرم الربا'' اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام ۔
اس آیت میں بیع اور ربا کو خواہ عام کہا جائے یا مجمل قرار دیا جائے لیکن اس کی جزئیات اور صورتوں کو بیان نہیں کیا گیا ۔ بیع کے معنی خرید وفروخت اور ربا کے معنی بڑھوتری کے ہیں یہ امر ظاہر ہے کہ جس طرح ہر قسم کی خرید وفروخت جائز نہیں اسی طرح ہر قسم کی بڑھوتری ناجائز نہیں۔اسی طرح اللہ تعالیٰ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
﴿یا ایھاالذین آمنولاتأکلو الرّبوا اضعافا مضاعفۃ﴾
''اے ایمان والو یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو ۔''
بظاہر آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سود کی زائد وہ مقدار حرام ہے جو کہ زائد اور کثیر ہوگی کم مقدار حرام نہیں لیکن اس کی پوری کیفیت حدیث سے معلوم ہوتی ہے۔
اسی طرح سے قرآن مجید میں لین دین کے مسائل کا ذکر موجود ہے سورۃ بقرۃ میں لین دین کے مسائل کو تفصیلا ذکر کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۔
﴿واشھدوا اذا تبایعتم﴾ (البقرۃ :۲۸۲)
''اور خرید وفروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو۔''
آیت مبارکہ کا عموم اس چیز کا متقاضی ہے کہ ہر لین دین میں گواہوں کو مقرر کیا جائے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی چیز اور بڑی سے بڑی چیز کو لینے اور دینے کیلئے گواہ مقرر کئے جائیں؟ کپڑے کی دکان پر جب رمضان کے مہینے میں خصوصا جب چاند رات ہوتو کیا اس جگہ ممکن ہے ہر خرید وفروخت پر گواہ مقرر کیے جائیں۔
آخر آیت کے عموم کو کون خاص کرے گا کون ہمیں اس کا خلاصہ بتائے گالازمی امر ہے کہ وہ ذات ہی ان آیات کے بارے میں وضاحت کرے گی جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تبین کے منصب پر گامزن فرمایا ہے اور وہ ذات آخری نبی محمد ﷺ ہیں.
الحمدللہ یہ بات واضح ہے کہ ہم نے معترض کے اشکال کو علمی بحث کے ذریعے ان کے جوابات مہیّا کر دیئے ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ یہ بھی ہم کہتے چلیں کہ رسول اللہ ﷺ نے جس حدیث میں نقد از نقد سودے کو سود قرار دیا ہے ، وہ سودا دراصل ایک جنس کے ساتھ کمی بیشی پرمبنی تھا۔
دو صاع یا تین صاع کھجور دے کر ایک صاع کھجور لے لی اس بیع میں واضح کمی بیشی اور ناپ تول میں کمی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حدیث جو معترض کو قرآن کے خلاف نظر آئی وہ حدیث بھی الحمدللہ قرآن مجید کے بعین مطابق ہے۔ [3]w
غور فرمایئے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ اَوْفُوا الْکَیْلَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَﰄﺆ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِﰅﺆ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَا۬ءَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَﰆﺆ ﴾ (الشعراء:۱۸۱۔۱۸۳)
''ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو، اور سیدھی صحیح ترازو سے تولہ کرو۔لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو، بےباکی کے ساتھ زمین پر فساد نہ مچاؤ۔''
اس آیت میں ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور ترازو انصاف کے ساتھ قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یاد رکھا جائے کہ بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث میں واضح ناپ تول کا فقدان تھا ۔ دو صاع گھٹیا کھجور کے بدلے ایک صاع اچھی کھجور کا سودا کیا گیا۔ مزید اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿ وَیٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِکْیَالَ وَالْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَا۬ءَھُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَﮤ ﴾ (ھود: ۸۵)
''اے میری قوم ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو۔ لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد اور خرابی نہ مچاؤ۔''
مندرجہ بالا آیت میں بھی انصاف کے ساتھ ناپ کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چیزیں کم دینے سے روکا گیا ہے۔ واضح رہے کہ بلال رضی اللہ عنہ نے دو صاع کھجور گھٹیا دے کر ایک صاع اچھی کھجور لی ۔ اس سودے میں ناپ تول کی کمی واضح ہے اسی علت سے بچنے کے لیے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ اپنی کھجوریں آپ بیچ ڈالتے پھر اس کے پیسوں سے اچھی کھجور خریدتے تاکہ ناپ اور تول میں کمی واقع نہ ہو۔ تیسری آیت :
﴿ وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَﭐﺫ الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَﭑﺘ وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَﭒﺚ ﴾ (مطففین: ۱۔۳)
''بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی، جب لوگوں سے ناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں۔''
اس آیت مبارکہ سے بھی بلال رضی اللہ عہ والی حدیث کی تائید ہوتی ہے ۔ بلال رضی اللہ عنہ سے جو دو صاع کھجوریں لی گئیں وہ زیادہ لی گئیں اور جب دیا گیا تو ناپ تول میں واضح کمی کر دی گئی۔ دو صاع کی جگہ ایک صاع۔
ذہن میں یہ بات آ سکتی ہے کہ وہ کھجوریں جو بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تھیں وہ گھٹیا تھی اس لیے دو صاع کی جگہ ایک صاع دیا گیا تو یاد رہے کہ قرآن مجید کی روشنی میں مطلق طور پر کمی بیشی حرام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام کاسانی نے ان آیات کی رو سے بلال رضی اللہ عنہ والی بیع کو حرام قرار دیا ہے۔ دیکھیے(بدائع الصنائع للکاسانی، ج۴، ص۴۰۲)
یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث جسے (بیع الفضل) کہا جاتا ہے اس کو ربا (سود) قرار دیا ہے۔ موسوعة الفقھیة جو کہ کی سینکڑوں کبار علماء کی تالیف ہے ان سب نے اس موسوعة میں ''بیع الفضل '' بلال رضی اللہ عنہ والی حدیث نے دو صاع گھٹیا کھجور دے کر ایک صاع اچھی کھجور خرید لی نقد از نقد کو سود (ربا) میں داخل کیا ہے۔ اور بیع الفضل اور بیع النسیئة دونوں کو ربا کے باب میں لا کر سود کا حکم لگایا ہے(الموسوعة الفقھیة، ج۲۲، ص۵۷)۔ ان دلائل و براہین سے واضح ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث مبارک میں کسی قسم کا کوئی تعارض نہیں بلکہ ہر حدیث اپنے محل اور مناسبت کو واضح کرتی ہے۔
اس مختصر سی گفتگو میں ہم نے یہ ثابت کیا ہے کہ جس طرح ان آیات کی تفسیر اور صحیح منشاء رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے ذریعے ہی ممکن ہے بعین اسی طرح سے سود والی آیت کی بھی وہی تشریح معتبر ہوگی جو محمد رسول اللہ ﷺ نے کی ہے ۔
اس کے علاوہ ذہنی ، سوچ ، قیاسات ، اٹکل ، میرے خیال سے یہ ایسا ،تمہارے خیال سے وہ ایسا یہ سب بیکار اور فضولیات ہیں ہمیں تو قرآن مجید کی معارفت بھی ہمارے رسول ﷺ کے ہی ذریعے نصیب ہوئی۔ لہٰذا سلف وصالحین کا یہی متفقہ منھج تھا کہ قرآن مجید کی وہی تفسیر سب سے صحیح ہوگی جو رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی۔اور حدیث رسول ﷺ کے خلاف قیاس اور اپنی رائے سب گمراہی کی دلیل ہے۔
اول آنکس کاین قیاس کہا نمود
پیش انوار خدا ابلیس بود[4]x
آخری کلمہ
محترم قارئین! ہم نے قرآن و حدیث اور اصول احادیث کے ذریعے سے معترض کے اعتراضات کے جوابات تحریر کیے ہیں اور مسلم شریف کی حدیث کے بارے میں جو صحیح تحقیق تھی ہم نے پیش کر دی ہے۔ اب اگر کوئی عنداللہ ماجور ہونا چاہے تو وہ یہی رستہ اپنائے جو قرآن و صحیح حدیث کا اور جو مؤمنین کا رستہ ہے ۔ ہمارے دیئے گئے دلائل کا رد صرف قرآن و صحیح حدیث کے دلائل اور محدثین کے اصول کے مطابق ہوگا۔ ذاتی رائے ، قیاس ،میں نہ مانوں ، میرے خیال سے، یہ تمام چیزیں ہمارے نزدیک کوئی حیثیت نہیں رکھتیں۔ حدیث کی صحت اور ضعف کے لیے بھی محدثین ہی کی تصریحات معتبر ہوں گی۔ اور انہیں کی جمہور رائے کو قبول کیا جائے گا۔ یہی اصول ہے جس روشنی میں ہم نے قارئین کے سامنے تحقیقات پیش کی ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے بندوں کو جہنم سے بچائے اور قرآن و حدیث جیسے پاکیزہ رستہ پر چلائے۔ اس کتاب میں جو بھی غلطیاں اور کوتاہیاں ہیں وہ مجھ حقیر اور ناچیز کی طرف سے ہیں اور جو خوبیاں ہیں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں۔
وما علینا الا البلاغ المبین
انا احقر من العباد
محمد حسین میمن
خادم (حدیث رسول ﷺ(
فہرست
نبی کریم ﷺ کی پیشن گویاں جو من اور عن پوری ہوئیں (محمد حسین میمن) Error! Bookmark not defined.
علامہ وحید الزماں کا مسلکی اتار چڑھا ؤ Error! Bookmark not defined.
حدیث اور جدید سائنس Error! Bookmark not defined.
توضیح الاحکام Error! Bookmark not defined.
دور حاضر میں الیکٹرونکس کے نقصانات Error! Bookmark not defined.
u امیر معاویہ t کبار صحابہ اور کاتبین وحی میں شمار تھے ہم سب کا فرض بنتا ہے کہ تمام صحابہ کی توقیر اور عزت کریں اور صحابہ کے لئے کسی قسم کی خلش دل میں پیدا نہ کریں کیونکہ یہ وہ پاکیزہ جماعت تھی جن سے اللہ تعالیٰ راضی ہوچکا ہے امیر معاویہ t حدیث کا رد کرنے والے نہ تھے یہ واقعہ عبادہ t کے ساتھ ان کا اس لئے پیش آیا کہ اس وقت معاویہ t کے پاس حدیث موجود نہ تھی اگر آپ کے پاس حدیث موجود ہوتی تو آپ کبھی بھی اپنی رائے کو مقدم نہ کرتے بلکہ حدیث رسول ﷺ کو مقدم رکھتے لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت اونچے اور عظیم ہیں ان کیلئے رائے کے دانے کے برابر بھی دل میں خرابی پیدا کرنا ایمان سے ہاتھ دھوبیٹھنے کے متراد ف ہے (محمد حسین میمن(
vاس مسئلے کے تفصیلی ادراک کے لیے الاستاذ ڈاکٹر عبدالکریم بن علی کی کتاب ''مخالفة الصحابی للحدیث النبوی الشریف'' کا مطالعہ بے حد مفید رہے گا۔ جس کو مکتبة الرشد للریاض نے شائع کیا ہے۔اور خطیب بغدادی کی کتاب ''الفقیہ والمتفقہ'' بھی اس مسئلہ پر بہترین کتاب ہے۔ جسے مکتبہ دار ابن الجوزی نے شائع کیا ہے۔
w یہ کوئی قاعدہ نہیں ہے کہ جو حدیث قرآن کے مطابق ہوگی وہی مقبول ہوگی بلکہ ہر وہ حدیث جس کی صحت ثابت ہو جائے وہ قرآن مجید کی تشریح اور خلاصہ ہی ہوتی ہے۔ ہم نے یہاں صرف معترض کو سمجھانے کے لیے یہ بات کہی ہے ورنہ سلف میں یہ قاعدہ مشہور ہے کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں ہے جو رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ شرط لگاتی ہو کہ جو بات نبی کریم ﷺ کی بظاہر قرآن کے مطابق ہو تو اسے لے لینی چاہیے اور جو اس کے خلاف بظاہر دکھائی دے تو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔ بلکہ قرآن مجید میں حدیث پر عمل کرنے کا حکم مطلق دیا گیا ہے۔ یہاں موقع نہیں ہے ورنہ ان گنت دلائل اس کے موجود ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے۔ (الرسالہ امام شافعی)(الاحکام فی اصول الاحکام لابن حزم)
x سب سے پہلے جس نے انوار خدا کے سامنے قیاس پیش کیا وہ ابلیس تھا ۔