اس کے بعد امام مسلم نے بڑے لطیف پیرائے میں اپنی ترتیب کو آگے بڑھایا۔ حدیث:357-362(137-141) تک عہد اور حلف کی اہمیت کی احادیث بیان فرمائیں اور متعلقہ مسائل کی وضاحت کی۔ اس کے بعد 362-366(142) تک بڑی ذمہ داریوں: مثلاً حکمرانوں کے عہد اور حلف کے بارے میں احادیث ذکر کیں، پھر اس عہد یا میثاق اول کے موضوع پر احادیث لائے جسے قرآن نے "الامانۃ" کہا ہے۔
حدیث:367(143) میں پہلے یہ الفاظ ہیں کہ سب سے پہلے "الامانۃ" انسانی دلوں کے اندرونی حصے میں نازل ہوئی پھر قرآن نازل ہوا اور اہل ایمان نے قرآن اور سنت کے ذریعے علم حاصل کیا، ان الفاظ میں بہت سے نکات قابل غور ہیں۔ الامانۃ وہی ہے جس کے بارے میں قرآن نے کہا:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَاَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْاِنْسَانُ ۭ اِنَّهٗ كَانَ ظَلُوْمًا جَهُوْلًا 72ۙ
ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں اور زمین پر پہاڑوں پر پیش کیا لیکن سب نے اس کے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے (مگر) انسان نے اٹھا لیا وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے ۔
الاحزاب:72
محدثین نے امانت کے معنی ایمان بیان کیے ہیں۔ ایمان کو ایک امانت ہی کے طور پر انسان کے سپرد گیا تھا، اس کی حفاظت ضروری تھی۔ قرآن مجید نے یہ بات یوں بیان کی:
وَاِذْ اَخَذَ رَبُّكَ مِنْۢ بَنِيْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُهُوْرِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَاَشْهَدَهُمْ عَلٰٓي اَنْفُسِهِمْ ۚ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ۭ قَالُوْا بَلٰي ڔ شَهِدْنَا ڔ اَنْ تَقُوْلُوْا يَوْمَ الْقِيٰمَةِ اِنَّا كُنَّا عَنْ هٰذَا غٰفِلِيْنَ
١٧٢اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَكَ اٰبَاۗؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا ذُرِّيَّةً مِّنْۢ بَعْدِهِمْ ۚ اَفَتُهْلِكُنَا بِمَا فَعَلَ الْمُبْطِلُوْنَ ١٧٣
وَكَذٰلِكَ نُفَصِّلُ الْاٰيٰتِ وَلَعَلَّهُمْ يَرْجِعُوْنَ
١٧٤
اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں۔
تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بےخبر تھے۔ یا یوں کہو کہ پہلے پہلے شرک تو ہمارے بڑوں نے کیا اور ہم ان کے بعد ان کی نسل میں ہوئے سو کیا ان غلط راہ والوں کے فعل پر تو ہم کو ہلاکت میں ڈال دے گا؟ ۔
ہم اسی طرح آیات کو صاف صاف بیان کرتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں۔
الاعراف:172-174
یہی عہد وہ فطری ایمان ہے جس پر انسان کی ولادت ہوتی ہے۔ قرآن اسے ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا ۭ لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ۭ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْـقَيِّمُ ڎ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ 30ڎ
پس آپ یک سو ہو کر اپنا چہرہ دین کی طرف متوجہ کر دیں اللہ تعالٰی کی وہ فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اس اللہ تعالٰی کے بنائے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔
الروم:30
صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ،
"ہر بچہ کی پیدائش فطرت پر ہوتی ہے"
صحیح بخاری، حدیث:1385، صحیح مسلم:6755(2658)
مسلم کی ایک اور حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
وَإِنِّى خَلَقْتُ عِبَادِى حُنَفَاءَ كُلَّهُمْ وَإِنَّهُمْ أَتَتْهُمُ الشَّيَاطِينُ فَاجْتَالَتْهُمْ عَنْ دِينِهِمْ
"میں نے اپنے تمام بندے دین حنیف کے پیروکار پیدا کیے (پھر) ان کے پاس شیاطین آئے اور انہیں ان کے دین سے پھیر دیا۔"
صحیح مسلم، حدیث:7207(2865)
بخاری اور مسلم میں ہے:
إِنَّ اللَّهَ يَقُولُ: "لِأَهْوَنِ أَهْلِ النَّارِ عَذَابًا لَوْ أَنَّ لَكَ مَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَيْءٍ كُنْتَ تَفْتَدِي بِهِ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَقَدْ سَأَلْتُكَ مَا هُوَ أَهْوَنُ مِنْ هَذَا وَأَنْتَ فِي صُلْبِ آدَمَ أَنْ لَا تُشْرِكَ بِي فَأَبَيْتَ إِلَّا الشِّرْكَ".
"اللہ تعالیٰ (قیامت کے دن) اس شخص سے پوچھے گا جسے دوزخ کا سب سے ہلکا عذاب کیا گیا ہو گا۔ اگر دنیا میں تمہاری کوئی چیز ہوتی تو کیا تو اس عذاب سے نجات پانے کے لیے اسے بدلے میں دے سکتا تھا؟ وہ شخص کہے گا کہ جی ہاں اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جب تو آدم کی پیٹھ میں تھا تو میں نے تجھ سے اس سے بھی معمولی چیز کا مطالبہ کیا تھا (روز ازل میں) کہ میرا کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرانا، لیکن (جب تو دنیا میں آیا تو) اسی شرک کا عمل اختیار کیا۔"
صحیح بخاری، حدیث:3334، صحیح مسلم، حدیث:7083(2805)
یہی وہ عہد ہے جس پر اللہ تعالیٰ انسان کو پیدا کرتا ہے۔ اگر ماں باپ اور دیگر عوامل انسان کو اس سے منحرف نہ کر دیں تو دل سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، پھر زبان گواہی دے کر اور باقی اعضاء بھی اپنے عمل سے اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
اس کے بعد باب الإِسْرَاءِ بِرَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم إِلَى السَّمَوَاتِ وَفَرْضِ الصَّلَوَاتِ میں امام مسلم حدیث:412-417 (162-164) تک وہ احادیث لائے ہیں جن میں دوبار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شقِ صدر ہونے کا تذکرہ ہے۔ پہلا واقعہ ایام طفولیت کا ہے جب آپ بنو سعد میں تھے۔ اس کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔
فَاسْتَخْرَجَ الْقَلْبَ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ عَلَقَةً فَقَالَ هَذَا حَظُّ الشَّيْطَانِ مِنْكَ ثُمَّ غَسَلَهُ فِي طَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ بِمَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ لَأَمَهُ ثُمَّ أَعَادَهُ فِي مَكَانِهِ
"جبریل علیہ السلام نے آپ ﷺکے دل کو چیرا پھر اس سے ایک لوتھڑا نکالا اور کہا ا(یہ دل کے اندر) وہ حصہ تھا جسے کے ذریعے سے شیطان اثر اندا ز ہوسکتا تھا۔پھر اس دل کو سونے کے طشت میں زمزم کے پانی سے دھویا ۔پھر اس کو جوڑا اور اپنی جگہ میں رکھا"
صحیح مسلم:412
اور معراج سے پہلے ہونے والے شقِ صدر کے بارے میں حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
فَفَرَجَ صَدْرِي ثُمَّ غَسَلَهُ مِنْ مَاءِ زَمْزَمَ ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا فَأَفْرَغَهَا فِي صَدْرِي ثُمَّ أَطْبَقَهُ ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ
" جبریل علیہ السلام نے میرا سینہ چیرا۔ پھر اس کو زمزم کے پانی سے دھویا پھر ایک سونے کا طشت لائے جو ایمان اور حکمت سے بھرا ہواتھا وہ میرے سینے میں ڈال دیا پھر سینہ جوڑ دیا (اس کو مہر کردی) پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور معراج پر لے گئے۔"
صحیح مسلم:415(163)
پہلے شقِ صدر کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ میثاق اولین کو برائی کی کوئی قوت چھیڑ ہی نہ سکے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واضح طور پر ہمیشہ اسی میثاق پر قائم رہے۔ اور دوسرے شقِ صدر کا مقصد یہ تھا کہ آپ کے قلب مبارک میں حکمت و ایمان میں مزید اضافہ کیا جائے تاکہ آپ اس عظیم ترین سفر اور اسکے مشاہدات کے لیے تیار ہوجائیں۔ یہ حدیث حقیقتِ ایمان کے بارے میں نصِ صریح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مطہر پہلے ہی ایمان سے معمور تھا، اس مرحلے میں اس میں مزید اضافہ کر دیا گیا۔ ان دونوں حدیثوں سے، کہنے والے کی اس بات کی مکمل تردید ہوجاتی ہے کہ "ایمَانِی کَاِیمانِ الاَنبِیَا "میرا ایمان انبیاء کے ایمان کی طرح ہے۔" ان فقروں کے حامی متکلمین نے ان فقروں کی تائید کے لیے جو کچھ کہا ہے اس حدیث کو سامنے رکھیں تو ان میں سے کسی بات میں کوئی وزن نہیں باقی رہتا۔