کفایت اللہ
عام رکن
- شمولیت
- مارچ 14، 2011
- پیغامات
- 5,001
- ری ایکشن اسکور
- 9,806
- پوائنٹ
- 773
صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بعض مدرج الفاظ اور شوال کے روزوں سے متعلق بعض اہل علم کا اس سے استدلال
(تحریر: کفایت اللہ سنابلی)
✿ ✿ ✿امام مسلم رحمه الله (المتوفى261)نے کہا:
”حدثنا أحمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا يحيى بن سعيد، عن أبي سلمة، قال: سمعت عائشة رضي الله عنها، تقول: «كان يكون علي الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضيه إلا في شعبان، الشغل من رسول الله ﷺ، أو برسول الله ﷺ“
”ابوسلمہ نے کہا: میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فرماتی تھیں کہ مجھ پر جو رمضان کے روزے قضا ہوتے تھے تو میں ان کو قضا نہ کر سکتی تھی مگر شعبان میں اور وجہ اس کی یہ تھی کہ میں مشغول ہوتی تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (اور فرصت نہ پاتی تھی)“ [صحیح مسلم رقم 1146]
.
⟐ اس حدیث کے اخیر میں جو یہ الفاظ ہیں کہ:
”الشغل من رسول الله ﷺ، أو برسول الله ﷺ“
”اور وجہ اس کی یہ تھی کہ میں مشغول ہوتی تھی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (اور فرصت نہ پاتی تھی)“
انہیں الفاظ کے سبب بعض اہل علم نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نفلی روزے رکھتی ہی نہیں تھی ، پھر اسی بنیاد پر یہ اہل علم ان لوگوں پر رد کرتےہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث سے پتہ چلتاہے کہ رمضان کے قضاء والے روزوں سے پہلے شوال کے روزے رکھ سکتے ہیں ، چنانچہ شیخ بن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”فلا يظن بها أن تصوم النوافل، وتؤخر الفرائض، ما دامت تفطر لأجل حاجة الرسول صلى الله عليه وسلم إلى أهله، فكونها تفطر في النوافل من باب أولى“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ فرض روزوں کو مؤخر کرکے نفل روزے رکھتی تھیں ، جبکہ فرض روزے وہ اس لئے چھوڑتی تھیں کہ اللہ کے نبی ﷺ کو ان کی ضرورت پڑتی تھی ، لہٰذا وہ نفل روزوں کو بدرجہ اولی چھوڑتی ہوں گی“ [ فتاوى نور على الدرب لابن باز 16/ 445]
● عرض ہے کہ:
اس استدلال کی عمارت جن الفاظ پر کھڑی ہے وہ الفاظ اصل حدیث میں ثابت ہی نہیں ہیں نہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ سےنہ ہی ان کے کسی شاگرد کے الفاظ سے بلکہ یہ الفاظ نچلے راوی یحیی بن سعید کے ہیں جو انہوں نے اپنے گمان واندازے سےکہے ہیں ، چنانچہ صحیح بخاری میں صراحت ہے:
”قال يحيى: الشغل من النبيﷺ“
”یحییٰ نے کہا کہ یہ نبی کریم ﷺ کی خدمت میں مشغول رہنے کی وجہ سے تھا“ [صحیح البخاری ، رقم 1950]
.
● حافظ ابن حجررحمہ اللہ بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں:
”ووقع في رواية مسلم المذكورة مدرجا لم يقل فيه قال يحيى فصار كأنه من كلام عائشة أو من روى عنها“
”اورمسلم کی مذکورہ روایت میں یہ الفاظ مدرجا واقع ہوئے ہیں ان میں راوی نے یہ نہیں کہا کہ : ایسا یحیی نے کہا ہے ، جس سے ایسا لگتاہے کہ یہ کلام اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کا یا ان کے شاگرد کا ہے“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 4/ 191]
.
● امام ابن قيم رحمه الله (المتوفى751) فرماتے ہیں:
”هذه اللفظة مدرجة في الحديث من كلام يحيى بن سعيد قد بين ذلك البخاري في صحيحه“
”یہ الفاظ حدیث میں مدرج ہیں اور یہ یحیی بن سعید کا قول ہے ، اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں بیان کردیا ہے“ [عون المعبود مع حاشية ابن القيم: 7/ 24]
.
● صاحب تحفۃ عبدالرحمن ممبارکپوری رحمہ اللہ فرماتے ہین:
”وهذه الزيادة مدرجة من قول يحيى بن سعيد الأنصاري كما بينه الحافظ في الفتح“
”اور یہ اضافہ مدرج ہے جو یحیی بن سعید انصاری کا قول ہے جیساکہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے فتح الباری میں بیان کیا ہے“[تحفة الأحوذي 3/ 415]
.
● علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”وهى عند البخارى من قول يحيى بن سعيد , فهى مدرجة“
”اور بخاری میں ہے کہ یہ یحیی بن سعید کا قول ہے اس لئے یہ الفاظ مدرج ہیں“[إرواء الغليل 4/ 98]
.
● واضح رہے امام مسلم رحمہ اللہ اس بات سے غافل نہیں ہیں کہ یہ الفاظ مدرج ہیں بلکہ انہوں نے خود اس روایت کے بعد دیگر روایات نقل کرتے ہوئے ان الفاظ کے ادراج کو بہت اچھی طرح واضح کردیا ہے چنانچہ امام مسلم رحمہ اللہ مدرج والی روایت کے فورا بعد کہتے ہیں:
”وحدثنيه محمد بن رافع، حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، حدثني يحيى بن سعيد، بهذا الإسناد، وقال: فظننت أن ذلك لمكانها من النبي ﷺ يحيى يقوله. وحدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الوهاب، ح وحدثنا عمرو الناقد، حدثنا سفيان، كلاهما عن يحيى بهذا الإسناد، ولم يذكرا في الحديث الشغل برسول الله ﷺ“
”اور محمدبن رافع نے ہم کو اور ان کو عبدالرزاق نے اور ان کو ابن جریج نے اور ان کو یحیی بن سعید نے اسی سند سے بیان کیا اور اس میں یحیی بن سعید کے الفاظ ہیں: ”میراگمان ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی وجہ سے ایسا کرتی تھی“ ، یہ یحی بن سعید ہی کا قول ہے ۔ اور ہم کو محمدبن مثنی نے اوران کو عبدالوھاب نے ، نیز ہم کو عمروالناقد نے اور ان کو سفیان نے بیان کیا، دونوں کو یحیی بن سعید نے اسی سند سے یہ روایت بیان کیا «اور ان دونوں کی روایت میں نبی ﷺ کے ساتھ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی مشغولیت والے الفاظ نہیں ہیں»“ [صحيح مسلم 3/ 803]
ملاحظہ فرمائیں !
کہ کتنے واضح لفظوں میں امام مسلم رحمہ اللہ نے وضاحت فرمادی ہے کہ مشغولیت والے الفاظ اصل حدیث کا حصہ نہیں ہیں بلکہ امام یحیی بن سعید کا اپنا گمان ہے جیساکہ ان کا یہ صراحتا بیان بھی امام مسلم نے نقل فرمادیا ہے۔
اور صحیح مسلم کی یہ اہم خوبی ہے کہ اس میں امام مسلم رحمہ اللہ علل وشذوذ وادراج وغیرہ کی طرف بھی اشارہ کردیتے ہیں جیساکہ انہوں نے مقدمہ میں صراحت بھی کی ہے۔
.
● حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے مزید تفصیل پیش کرتے ہوئے ان الفاظ کو مدرج ثابت کرنے کے بعد آخرمیں کہا:
”وفي الحديث دلالة على جواز تأخير قضاء رمضان مطلقا سواء كان لعذر أو لغير عذر لأن الزيادة كما بيناه مدرجة فلو لم تكن مدرجة لكان الجواز مقيدا بالضرورة“
”اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ رمضان کے قضاء روزوں میں تاخیر کرنا مطلقا جائز ہے چاہے کوئی عذر ہو یا نہ ہو ، کیونکہ مشغولیت والے الفاظ کا اضافہ مدرج ہے جیساکہ ہم نے بیان کردیا ہے ، اور اگر یہ الفاظ مدرج نہ ہوتے تو قضاء روزوں میں تاخیر کا مطلقا جواز نہ ہوتا بلکہ اسے ضرورت کے ساتھ مقید کیا جاتا“ [فتح الباري لابن حجر، ط المعرفة: 4/ 191]
.
معلوم ہوا کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے تاخیر قضاء کو عذر سے مقید کرنا درست نہیں ہے۔
.
❀ اور رہی یہ روایت:
”عن عبد الله البهي، عن عائشة قالت: «ما كنت أقضي ما يكون علي من رمضان إلا في شعبان، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم“
”عبداللہ البہی روایت کرتے ہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں رمضان کے قضاء روزے شعبان میں ہی مکمل کرتی تھی یہاں تک کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی“ [سنن الترمذي ت شاكر ، رقم 783]
تو یہ سیاق اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوسرے شاگرد ابو سلمہ کے بیان کے خلاف ہے جوکہ کتب ستہ کے ثقہ شاگرد اور بہت بڑے امام ہیں ، جبکہ عبداللہ البھی کو امام ابوحاتم نے مضطرب الحدیث کہا ہے [علل الحديث لابن أبي حاتم 2/ 48]
مزید یہ کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے عبداللہ البھی کے سماع میں اختلاف ہے ، امام احمد، امام ابن مھدی، امام دارقطنی اور امام ابن ابی حاتم سماع کے قائل نہیں ہیں ،[مسائل أحمد رواية أبي داود السجستاني: ص: 454 ، المراسيل لابن أبي حاتم ت الخضري: ص: 115، الإلزامات والتتبع للدارقطني، ت دار الآثار: ص: 560، علل الحديث لابن أبي حاتم 2/ 48]
امام بخاری نے تاریخ میں سماع ذکر کیا ہے مگر تاریخ میں ان کے منہج کے مطابق ہر جگہ ان کا اثبات سماع مقصود نہیں ہوتا ، قدرے تفصیل ہماری یزید والی کتاب میں ہے، البتہ متعدد محدثین نے اس طریق پر صحت کا فیصلہ کیا ہے، واللہ اعلم۔
نیز روایت کے الفاظ میں عہد رسالت میں وفات رسول تک ایک فعل کی حکایت ہے جس سے نبی ﷺکے اقرار کی دلیل لینا مقصود ہے اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بعد میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کا عمل بدل گیا ہو اور اگر بدل بھی گیا ہو تو یہ ایک اختیاری معاملہ ہوسکتا ہے یہ اس بات کی صریح دلیل نہیں کہ عہد رسالت والا معاملہ کسی عذر ہی کی بناپر تھا ۔
.
❀ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل کسی عذر کی بنا پر تھا ، لہٰذا اس بنیاد پر یہ استدلال کرنا بھی غلط ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا اس دوران دیگر نفلی روزے بھی نہیں رکھتی تھی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”لأن عائشة أخبرت أنها كانت تقضي رمضان في شعبان, ويبعد أن لا تكون تطوعت بيوم, مع أن النبي ﷺ كان يصوم حتى يقال: لا يفطر, ويفطر حتى يقال: لا يصوم, وكان يصوم يوم عرفة وعاشوراء, وكان يكثر صوم الاثنين والخميس, وكان يصوم ثلاثة أيام من كل شهر“
”کیونکہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہا ہے کہ وہ شعبان میں رمضان کی قضاء کرتی تھیں ، اور یہ بات بہت بعید ہے کہ انہوں نے اس سے پہلے کسی دن بھی نفلی روزہ نہیں رکھا ، جبکہ اللہ کے نبی ﷺ کثرت سے نفلی روزے رکھتے تھے ، یہاں تک کہ کہاجاتا کہ اب آپ روزہ رکھنا بند ہی نہیں کریں گے ، اور جب روزہ رکھنا بند کردیتے تو کہا جاتا اب آپ روزہ نہیں رکھیں گے ، نیز آپ ﷺ عرفہ اور عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے ، پیر اور جمعرات کا روزہ رکھتے تھے ، اور ہر ماہ میں تین دن کا روزہ رکھتے تھے“[شرح العمدة لابن تيمية كتاب الصيام 1/ 358]
اور ایک زبردست دلیل یہ بھی ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس دوران نفل روزے رکھنا ثابت بھی ہے چنانچہ قاسم بن محمد کہتے ہیں:
”أن عائشة أم المؤمنين كانت تصوم يوم عرفة“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ کے دن کا روزہ رکھتی تھیں“ [موطأ مالك ت عبد الباقي ، رقم 133 وإسناده صحيح]
بلکہ بعض روایات سے اشارہ ملتاہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ کے علاوہ دیگر نفلی روزے بھی رکھتی تھیں چنانچہ:
امام ابن أبي شيبة رحمه الله (المتوفى235)نے کہا:
”حدثنا غندر، عن شعبة، عن أبي قيس، عن هزيل، عن مسروق، عن عائشة قالت: ما من السنة يوم أحب إلي أن أصومه من يوم عرفة“
”اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پورے سال میں عرفہ کے دن سے زیادہ پسندیدہ کوئی اوردن نہیں ہے جس میں میں روزہ رکھوں“ [مصنف ابن أبي شيبة، ت الشثري: 6/ 110وإسناده صحيح وأخرجه علي بن الجعد في مسنده رقم 527 ، والطبري في تهذيب الآثار (1/ 365) والبيهقي في شعب الإيمان (5/ 315) من طرق عن شعبه به]
اس روایت سے اشارہ ملتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف عرفہ کا روزہ رکھتی تھیں ، بلکہ دیگر نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتی تھیں ، اور یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا عرفہ وغیرہ کا روزہ وفات رسول کے بعد رکھتی تھی کیونکہ وہ اس دن کے روزے کو سب سے زیادہ محبوب بتارہی ہیں پھر کیسے ممکن ہے کہ اس محبوب روزے کو عہد رسالت میں ترک کرتی ہوں ۔
لہٰذا ان روایات سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا رمضان کے قضاء والے روزے کو شعبان تک مؤخر کرتی تھی لیکن اس دوران وہ دیگر نفلی روزے رکھتی تھی ، بلکہ بعید نہیں رمضان کے قضاء روزوں میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہو کہ وہ اس دوران نفلی روزے رکھتی تھی کیونکہ ان میں تاخیر کی گنجائش نہ تھی اس طرح قضاء والے روزے مؤخر ہوتے جاتے بالآخر شعبان میں ان کی بھی قضاء کرلیتیں ، واللہ اعلم۔
.
❀ خلاصہ کلام یہ کہ:
اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی خدمت کے سبب رمضان کے قضاء روزوں کو مکمل نہیں کرپاتی تھی ، لہٰذا اس بنیاد پر یہ کہنا بھی درست نہیں کہ وہ اس دوران دیگر نفلی روزے نہیں رکھتی تھی۔ لہٰذا جو اہل علم اماں عائشہ رضی اللہ عنہ کے اس طرزعمل سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ قضاء روزوں سے پہلے نفلی روزے رکھے جاسکتے ہیں مثلا شوال کے روزے ، تو یہ استدلال درست ہے ، واللہ اعلم۔