- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,497
- پوائنٹ
- 964
صدر زرداری پھر جیت گئے مگر ڈاکٹر قادری ۔۔۔۔ اجمل نیازی
دھرنے کا اور کیا انجام ہوتا۔ شکر ہے یہ ہوا۔ سردی میں ٹھٹھرتے بچوں عورتوں اور لوگوں کو نجات ملی۔ مگر ان باتوں کی میں نے تائید کی جو قادری صاحب کہتے رہے۔ اس پر کالم بھی لکھے۔ لوگ ذلت اور اذیت پر راضی ہیں۔ انہیں زندگی نہیں چاہئے۔ وہ شرمندگی میں خوش ہیں۔ اگر طاہرالقادری مذاکرات نہ کرتے اور ویسے ہی اپنے لوگوں کو واپس لے آتے تو کچھ نہ کچھ بات رہ جاتی۔ وہ کہتے کہ میں نے کوشش کی۔ لوگ نہیں اٹھتے تو کیا کریں۔ پھر ان کی واپسی بھی ایک لانگ مارچ بلکہ قادری مارچ ہوتی۔
انہوں نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ عمران بھی ایسا نہ کر سکا جو کچھ کہا انہوں نے کرکے دکھا دیا۔ 23 دسمبر 14 جنوری ایک بڑا جلسہ، لانگ مارچ، دھرنا بڑی بڑی باتیں اور مگر پھر انہی لوگوں سے مذاکرات جن کو انہوں نے یزید کہا۔ مذاکرات اور معاہدے سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا بلکہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ کھڑاک اچھا تھا مگر راگ رنگ؟
پہلے کہتے تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی ہے۔ آرمی اور عدالت کی بات بھی ہوئی۔ یہ طے نہ ہو سکا کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ صرف یہ پتہ چلا کہ ان کے آگے کون ہے۔ ان میں سادہ بے وقوف لوگ نعرے لگانے والے ناچنے والے جشن مناتے لوگ بے چاروں کا کام صرف تالیاں بجانا اور زندہ باد کہنا ہے۔ قادری صاحب نے یہ بھی کہا کہ اب وزیراعظم وزراءاور صدر پاکستان سابق ہو چکے ہیں۔ دوسرے دن قادری صاحب کی تقریر کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا فیصلہ بھی آ گیا۔ جس پر قادری صاحب نے اپنے لوگوں کو مبارکبادیں اور سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ اس کے بعد سندھ میں سپریم کورٹ مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ نجانے قادری صاحب کی پلاننگ کیا تھی؟ جبکہ مذاکرات میں سابق وزراءشریک تھے معاہدے پر ”سابق“ اور ”انڈر اریسٹ“ وزیراعظم راجہ صاحب نے دستخط کئے۔ اس میں چودھری شجاعت کا کردار بہت پازیٹو ہمدردانہ اور بصیرت والا تھا۔ لاہور میں بھی قادری صاحب سے مذاکرات کے لئے چودھری شجاعت، چودھری پرویز الٰہی اور ق لیگ کے ڈاکٹر رانجھا شریک تھے۔ ملک ریاض ق لیگ میں نہیں اس لئے قادری صاحب نے انہیں واپس کر دیا۔ چودھری شجاعت نے اس کے بعد کہہ دیا تھا کہ معاملہ طے ہو گیا ہے انشاءاللہ مفاہمت ہو جائے گی اور اسلام آباد میں مفاہمت ہو گئی۔ صدر زرداری مفاہمت سے پانچ سال نکال گئے۔ اب تو پانچ ہفتے رہ گئے ہیں۔ ملک صاحب ق لیگ میں شامل ہو جائیں تو ان کے لئے اچھا ہو گا۔ چودھری شجاعت کی سیاسی حکمت اور حکمت عملی پر صدر زرداری کو یقین ہے۔ ان کے ساتھ مشاہد حسین بھی تھے جو جینوئن دانشور سیاستدان ہیں۔ ایم کیو ایم کو کس نے ہدایت کی تھی کہ ڈاکٹر قادری کی حمایت کریں اور پھر رحمن ملک کو کس نے لندن بھیجا۔ لانگ مارچ میں شرکت کا حتمی فیصلہ الطاف حسین نے کیا۔ پھر ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے شرکت سے انکار کر دیا۔ مگر قادری صاحب کی ”حمایت“ جاری رہی۔ قادری صاحب نے ایم کیو ایم کی اس سیاست کا برا نہ منایا۔ یہ کس مفاہمت سے ہوا ہے کسی کا دھیان صدر زرداری کی طرف چلا جائے تو میں ذمہ دار نہیں۔
تو اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ سارا پروگرام صدر زرداری کا تھا۔ اس کے پیچھے جو مقصد تھا وہ بھی سامنے آ گیا ہے اور ابھی سامنے آئے گا۔ اس سارے معاملے میں صدر زرداری کامیاب رہے۔ رحمن ملک کو خواہ مخواہ ہمارے تجزیہ کار تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے پیچھے ہدایت کار صدر زرداری ہیں۔ قمرالزمان کائرہ نے اپنے مزاج اور شخصیت کے خلاف قادری صاحب کی نقلیں اتارنے کی اداکاری بھی ہدایت کار کے اشارے پر کی پھر مذاکرات کے لئے بھی چلے گئے اور قادری صاحب کو جپھیاں ڈالیں۔ وہ یہاں بھی غیر سنجیدہ رہے۔ چودھری شجاعت نے چیف جسٹس پاکستان کو جپھی ڈالنے کا مشورہ جنرل مشرف کو دیا تھا مگر وہ بدقسمت اور ضدی تھا۔
صدر زرداری پاکستانی سیاست میں پہلے کی طرح جیت گئے مگر ہارے طاہرالقادری بھی نہیں۔ وہ 27 جنوری کو واپس کینیڈا جا رہے ہیں۔ اصل خوشی وہاں منائیں گے۔ ایک بات میں عرض کر دوں کہ کچھ لوگوں کے مطابق دھرنے میں شامل سردی منانے والے لوگ عورتیں اور بچے ہار گئے۔ میرے خیال میں وہ بھی نہیں ہارے۔ وہ مذاکرات اور معاہدے کے اعلان پر جشن مناتے رہے، ناچتے رہے، عورتیں بھی خوشی کا اظہار کرتی رہیں۔ دھرنے میں شامل خواتین و حضرات اور بچے فتح کا جشن مناتے ہوئے وی (V) کا نشان بناتے ہوئے ناحتے گاتے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ وہ ہارے تو نہیں جیت گئے ہیں؟ عوام کے نصیب میں ہمیشہ یہی جیت ہوتی ہے تو پھر جو پاکستان میں عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ پھر تو اس کی شکایت کیا ہے۔ عمران خان، نواز شریف، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، منور حسن کے جلسہ عام بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ بی بی کی برسی پر صدر زرداری کا جلسہ بھی بڑا ہوتا ہے تو پھر لوگوں کو سیاستدانوں حکمرانوں سے تکلیف کیا ہے؟ یہی سیاستدان پھر آ جائیں گے۔ لوٹ مار اور عیش و عشرت کریں گے۔ عوام پہلے کی طرح ذلیل و خوار ہوں گے۔ اللہ اللہ خیر سلیٰ۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے چیخ پرائی تے احمق نچے۔ چیخ ایک ہی ہے دولہا بدل جاتا ہے۔
یہ جو معاہدہ ہوا ہے اس پر کون عمل کرے گا؟ ایک بہت بڑا معاہدہ میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ کیا اس پر عمل ہوا۔ میثاق جمہوریت کو مذاق جمہوریت کہا گیا۔ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن والے مذاکرات کو مذاق رات کہا گیا۔
مذاق رات میں اپوزیشن کو ملا لیا جاتا تو کمال ہو جاتا۔ یہ مذاق صدر زرداری نے نواز شریف سے بہت کیا ہے۔ عمران اپنے ساتھ مذاق کرنے میں خود کفیل ہے۔ اس نے قادری صاحب کی حمایت کی جیسے پاکستانی حکمران اور سیاستدان کشمیری حریت پسندوں کی ”اخلاقی حمایت“ کرتے ہیں۔ اس سارے ہنگامے میں سب سے زیادہ نقصان عمران خان کا ہوا ہے۔ وہ اگر تھوڑی سی جرات کرتا اور لانگ مارچ میں شامل ہو جاتا۔ صرف دھرنے میں بیٹھ کر لوگوں سے خطاب ہی کر لیتا تو ساری کہانی بدل جاتی۔ اس طرز انتخاب میں عمران کے ارادے پھٹے ہوئے لبادے بن جائیں گے۔ اس تار تار اور داغدار لباس کے ساتھ وہ کوئے یار میں تو جا سکتا ہے کوئے سیاست میں جا کے کیا کرے گا۔ تحریک انصاف میں کون ہے جو کوئے یار اور کوئے سیاست کو ایک گھر کی طرح بنا دے۔
صدر زرداری پھر جیت گئے مگر ڈاکٹر قادری | NAWAIWAQT
دھرنے کا اور کیا انجام ہوتا۔ شکر ہے یہ ہوا۔ سردی میں ٹھٹھرتے بچوں عورتوں اور لوگوں کو نجات ملی۔ مگر ان باتوں کی میں نے تائید کی جو قادری صاحب کہتے رہے۔ اس پر کالم بھی لکھے۔ لوگ ذلت اور اذیت پر راضی ہیں۔ انہیں زندگی نہیں چاہئے۔ وہ شرمندگی میں خوش ہیں۔ اگر طاہرالقادری مذاکرات نہ کرتے اور ویسے ہی اپنے لوگوں کو واپس لے آتے تو کچھ نہ کچھ بات رہ جاتی۔ وہ کہتے کہ میں نے کوشش کی۔ لوگ نہیں اٹھتے تو کیا کریں۔ پھر ان کی واپسی بھی ایک لانگ مارچ بلکہ قادری مارچ ہوتی۔
انہوں نے ایک تہلکہ مچا دیا۔ عمران بھی ایسا نہ کر سکا جو کچھ کہا انہوں نے کرکے دکھا دیا۔ 23 دسمبر 14 جنوری ایک بڑا جلسہ، لانگ مارچ، دھرنا بڑی بڑی باتیں اور مگر پھر انہی لوگوں سے مذاکرات جن کو انہوں نے یزید کہا۔ مذاکرات اور معاہدے سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا بلکہ ٹھیک ٹھاک تھا۔ کھڑاک اچھا تھا مگر راگ رنگ؟
پہلے کہتے تھے کہ یہ اسٹیبلشمنٹ کی کارروائی ہے۔ آرمی اور عدالت کی بات بھی ہوئی۔ یہ طے نہ ہو سکا کہ ان کے پیچھے کون ہے۔ صرف یہ پتہ چلا کہ ان کے آگے کون ہے۔ ان میں سادہ بے وقوف لوگ نعرے لگانے والے ناچنے والے جشن مناتے لوگ بے چاروں کا کام صرف تالیاں بجانا اور زندہ باد کہنا ہے۔ قادری صاحب نے یہ بھی کہا کہ اب وزیراعظم وزراءاور صدر پاکستان سابق ہو چکے ہیں۔ دوسرے دن قادری صاحب کی تقریر کے دوران وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی گرفتاری کا فیصلہ بھی آ گیا۔ جس پر قادری صاحب نے اپنے لوگوں کو مبارکبادیں اور سپریم کورٹ زندہ باد کے نعرے لگوائے۔ اس کے بعد سندھ میں سپریم کورٹ مردہ باد کے نعرے بھی لگائے گئے۔ نجانے قادری صاحب کی پلاننگ کیا تھی؟ جبکہ مذاکرات میں سابق وزراءشریک تھے معاہدے پر ”سابق“ اور ”انڈر اریسٹ“ وزیراعظم راجہ صاحب نے دستخط کئے۔ اس میں چودھری شجاعت کا کردار بہت پازیٹو ہمدردانہ اور بصیرت والا تھا۔ لاہور میں بھی قادری صاحب سے مذاکرات کے لئے چودھری شجاعت، چودھری پرویز الٰہی اور ق لیگ کے ڈاکٹر رانجھا شریک تھے۔ ملک ریاض ق لیگ میں نہیں اس لئے قادری صاحب نے انہیں واپس کر دیا۔ چودھری شجاعت نے اس کے بعد کہہ دیا تھا کہ معاملہ طے ہو گیا ہے انشاءاللہ مفاہمت ہو جائے گی اور اسلام آباد میں مفاہمت ہو گئی۔ صدر زرداری مفاہمت سے پانچ سال نکال گئے۔ اب تو پانچ ہفتے رہ گئے ہیں۔ ملک صاحب ق لیگ میں شامل ہو جائیں تو ان کے لئے اچھا ہو گا۔ چودھری شجاعت کی سیاسی حکمت اور حکمت عملی پر صدر زرداری کو یقین ہے۔ ان کے ساتھ مشاہد حسین بھی تھے جو جینوئن دانشور سیاستدان ہیں۔ ایم کیو ایم کو کس نے ہدایت کی تھی کہ ڈاکٹر قادری کی حمایت کریں اور پھر رحمن ملک کو کس نے لندن بھیجا۔ لانگ مارچ میں شرکت کا حتمی فیصلہ الطاف حسین نے کیا۔ پھر ایم کیو ایم کے فاروق ستار نے شرکت سے انکار کر دیا۔ مگر قادری صاحب کی ”حمایت“ جاری رہی۔ قادری صاحب نے ایم کیو ایم کی اس سیاست کا برا نہ منایا۔ یہ کس مفاہمت سے ہوا ہے کسی کا دھیان صدر زرداری کی طرف چلا جائے تو میں ذمہ دار نہیں۔
تو اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ سارا پروگرام صدر زرداری کا تھا۔ اس کے پیچھے جو مقصد تھا وہ بھی سامنے آ گیا ہے اور ابھی سامنے آئے گا۔ اس سارے معاملے میں صدر زرداری کامیاب رہے۔ رحمن ملک کو خواہ مخواہ ہمارے تجزیہ کار تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان کے پیچھے ہدایت کار صدر زرداری ہیں۔ قمرالزمان کائرہ نے اپنے مزاج اور شخصیت کے خلاف قادری صاحب کی نقلیں اتارنے کی اداکاری بھی ہدایت کار کے اشارے پر کی پھر مذاکرات کے لئے بھی چلے گئے اور قادری صاحب کو جپھیاں ڈالیں۔ وہ یہاں بھی غیر سنجیدہ رہے۔ چودھری شجاعت نے چیف جسٹس پاکستان کو جپھی ڈالنے کا مشورہ جنرل مشرف کو دیا تھا مگر وہ بدقسمت اور ضدی تھا۔
صدر زرداری پاکستانی سیاست میں پہلے کی طرح جیت گئے مگر ہارے طاہرالقادری بھی نہیں۔ وہ 27 جنوری کو واپس کینیڈا جا رہے ہیں۔ اصل خوشی وہاں منائیں گے۔ ایک بات میں عرض کر دوں کہ کچھ لوگوں کے مطابق دھرنے میں شامل سردی منانے والے لوگ عورتیں اور بچے ہار گئے۔ میرے خیال میں وہ بھی نہیں ہارے۔ وہ مذاکرات اور معاہدے کے اعلان پر جشن مناتے رہے، ناچتے رہے، عورتیں بھی خوشی کا اظہار کرتی رہیں۔ دھرنے میں شامل خواتین و حضرات اور بچے فتح کا جشن مناتے ہوئے وی (V) کا نشان بناتے ہوئے ناحتے گاتے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ وہ ہارے تو نہیں جیت گئے ہیں؟ عوام کے نصیب میں ہمیشہ یہی جیت ہوتی ہے تو پھر جو پاکستان میں عوام کے ساتھ ہو رہا ہے وہ ٹھیک ہے۔ پھر تو اس کی شکایت کیا ہے۔ عمران خان، نواز شریف، الطاف حسین، مولانا فضل الرحمن، اسفند یار ولی، منور حسن کے جلسہ عام بڑے بڑے ہوتے ہیں۔ بی بی کی برسی پر صدر زرداری کا جلسہ بھی بڑا ہوتا ہے تو پھر لوگوں کو سیاستدانوں حکمرانوں سے تکلیف کیا ہے؟ یہی سیاستدان پھر آ جائیں گے۔ لوٹ مار اور عیش و عشرت کریں گے۔ عوام پہلے کی طرح ذلیل و خوار ہوں گے۔ اللہ اللہ خیر سلیٰ۔ پنجابی کی ایک ضرب المثل ہے چیخ پرائی تے احمق نچے۔ چیخ ایک ہی ہے دولہا بدل جاتا ہے۔
یہ جو معاہدہ ہوا ہے اس پر کون عمل کرے گا؟ ایک بہت بڑا معاہدہ میثاق جمہوریت ہوا تھا۔ کیا اس پر عمل ہوا۔ میثاق جمہوریت کو مذاق جمہوریت کہا گیا۔ اسلام آباد لانگ مارچ ڈیکلریشن والے مذاکرات کو مذاق رات کہا گیا۔
مذاق رات میں اپوزیشن کو ملا لیا جاتا تو کمال ہو جاتا۔ یہ مذاق صدر زرداری نے نواز شریف سے بہت کیا ہے۔ عمران اپنے ساتھ مذاق کرنے میں خود کفیل ہے۔ اس نے قادری صاحب کی حمایت کی جیسے پاکستانی حکمران اور سیاستدان کشمیری حریت پسندوں کی ”اخلاقی حمایت“ کرتے ہیں۔ اس سارے ہنگامے میں سب سے زیادہ نقصان عمران خان کا ہوا ہے۔ وہ اگر تھوڑی سی جرات کرتا اور لانگ مارچ میں شامل ہو جاتا۔ صرف دھرنے میں بیٹھ کر لوگوں سے خطاب ہی کر لیتا تو ساری کہانی بدل جاتی۔ اس طرز انتخاب میں عمران کے ارادے پھٹے ہوئے لبادے بن جائیں گے۔ اس تار تار اور داغدار لباس کے ساتھ وہ کوئے یار میں تو جا سکتا ہے کوئے سیاست میں جا کے کیا کرے گا۔ تحریک انصاف میں کون ہے جو کوئے یار اور کوئے سیاست کو ایک گھر کی طرح بنا دے۔
صدر زرداری پھر جیت گئے مگر ڈاکٹر قادری | NAWAIWAQT