• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقات کے متعلق سوال؟

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔
(2-البقرة:276)
السلام علیکم
1-میں یہ معلوم کر نا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں جس صدقہ کا ذکر ہے وہ کون سا ہے ۔ آیا وہ نفلی صدقہ ہے یا زکوٰۃ ہے۔ عام طور پر میں جو صدقہ دیتا ہوں اس کی نیت عموماً اپنی کسی پریشانی بیماری یا اپنے گھروالوں کی مشکل دور کرنے کی نیت سے دیتا ہوں کیا یہ عمل صحیح ہے اور اس آیت کے تحت آئے گا جس میں صدقہ کو بڑھانے کاذ کر ہے ؟

2-عوام میں جو عام طور پر صدقہ میں مخصوص چیزیں جیسے آٹا،انڈے گوشت وغیرہ صدقے میں دینا معمول ہے کیا یہ صحیح ہے۔
3-زکوۃکے علاوہ صدقے دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے ۔
4-اللہ کو قرض دینے کا کیا مطلب ہے ، اور کیا کسی مستحق کی مدد اس نیت سے کرنا کہ یہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں وہ ہمیں بڑھا کر لوٹائے گا صحیح ہے۔ اس سوال کا مقصد یہ ہے کہ میں نے ایک کالم میں اس عمل کے متعلق پڑھا تھا اور اس کا عنوان تھا "امیر بننے کا نسخہ "۔ یعنی اپنے کمائی میں ایک حصہ مخصوص کر دیں اور وہ کسی مستحق یا مستحقین میں تقسیم کردیں۔
مثال کے طور پر اگر میں 20000 روپے ماہانہ کماتا ہوں اور اس کا 5 فیصد میں اللہ کی راہ میں خرچ کر نا اپنے لئے لازم کر لیتا ہوں اور یہ نیت رکھتا ہوں کہ اس سے میری آمدنی میں بھی اضافہ ہوگا اور کسی کی مدد بھی ہوجائے تو کیا ایسی نیت جائز ہوگی۔
اگر دل میں یہ خیال آئے کہ کسی مہینہ ایسا نہ کیا تو مجھے مالی نقصان ہوسکتا ہے تو کیا یہ صحیح ہوگا۔

@اسحاق سلفی
@خضر حیات
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کسی ناشکرے اور گنہگار سے محبت نہیں کرتا۔
(2-البقرة:276)
السلام علیکم
1-میں یہ معلوم کر نا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں جس صدقہ کا ذکر ہے وہ کون سا ہے ۔ آیا وہ نفلی صدقہ ہے یا زکوٰۃ ہے۔
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ
محترم بھائی !
پہلے اس آیت مبارکہ کے معانی دیکھئے ،
بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله الذي له الملك والملكوت

اللہ تعالی فرماتا ہے :
يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (سورۃ البقرۃ 276)
ترجمہ :
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کی پرورش کرتا ہے۔ اور اللہ کسی ناشکرے بدعمل انسان کو پسند نہیں کرتا۔ ( سورۃ البقرۃ ۲۷۶)

اس کی تفسیر میں مفسر علامہ عبد الرحمن کیلانی فرماتے ہیں :
Eاگرچہ بنظر ظاہر سود لینے سے مال بڑھتا اور صدقہ دینے سے گھٹتا نظر آتا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی اور مال حرام بود بجائے حرام رفت، والی بات بن جاتی ہے اور صدقات دینے سے اللہ تعالیٰ ایسی جگہ سے اس کا نعم البدل عطا فرماتا ہے جس کا اسے خود بھی وہم و گمان نہیں ہوتا اور یہ ایسی حقیقت ہے جو بارہا کئی لوگوں کے تجربہ میں آچکی ہے تاہم اسے عقلی دلائل سے ثابت کیا جاسکتا ہے اور دوسری صورت کو علم معیشت کی رو سے ثابت بھی کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے جس معاشرہ میں صدقات کا نظام رائج ہوتا ہے۔ اس میں غریب طبقہ (جو عموماً ہر معاشرہ میں زیادہ ہوتا ہے) کی قوت خرید بڑھتی ہے اور دولت کی گردش کی رفتار بہت تیز ہوجاتی ہے جس سے خوشحالی پیدا ہوتی ہے اور قومی معیشت ترقی کرتی ہے اور جس معاشرہ میں سود رائج ہوتا ہے وہاں غریب طبقہ کی قوت خرید کم ہوتی ہے اور جس امیر طبقہ کی طرف دولت کو سود کھینچ کھینچ کرلے جارہا ہوتا ہے۔ اس کی تعداد قلیل ہونے کی وجہ سے دولت کی گردش کی رفتار نہایت سست ہوجاتی ہے جس سے معاشی بحران پیدا ہوتے رہتے ہیں، امیر اور غریب میں طبقاتی تقسیم بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ غریب طبقہ تنگ آکر امیروں کو لوٹنا اور مارنا شروع کردیتا ہے آقا و مزدور میں، امیر اور غریب میں ہر وقت کشیدگی کی فضا قائم رہتی ہے جس سے کئی قسم کے مہلک نتائج پیدا ہوسکتے ہیں۔ انتہی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
E اور ۔۔ صدقات سے مال بڑھنے ۔۔ کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالی آخرت میں اس صدقہ کا کئی گنا بڑھا کر اجر دیتا ہے
مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَـبْعَ سَـنَابِلَ فِيْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۭوَاللّٰهُ يُضٰعِفُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ ۭ وَاللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِيْمٌ ٢٦١؁سورۃ البقرۃ
جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں۔ اور اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے اور اللہ بڑا فراخی والا اور جاننے والا ہے ’’
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اب صدقہ اور زکاۃ کے شرعی اور لغوی مفہوم کو دیکھئے :
الزكاة لغة : النماء والريع والبركة والتطهير .
انظر : " لسان العرب " (14 / 358 ) ، " فتح القدير " ( 2 / 399 ) .

زكاۃ كى لغوى تعريف:
النماء والريع، و البركۃ، والتطھير.
نمو، اور بڑھنا اور زيادہ ہونا، بركت، اور پاكيزگى ہے.
ديكھيں: لسان العرب ( 14 / 358 ) فتح القدير ( 2 / 399 ).
اور صدقہ کا لغوی معنی :

والصدقة لغة : مأخوذة من الصدق ؛ إذ هي دليل على صدق مخرجها في إيمانه (انظر : " فتح القدير " ( 2 / 399 )
یعنی صدقہ صدق اور سچائى سے ماخوذ ہے، كيونكہ يہ صدقہ كرنے والے كے ايمان كى سچائى اور صدق كى دليل ہے.
ديكھيں: فتح القدير ( 2 / 399 )

اور لفظ صدقہ کبھی زکاۃ کی جگہ بھی استعمال کیا جاتا ہے ، جیسا کہ ذیل کی آیت میں دیکھئے :
خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَهُمْ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (103سورۃ التوبہ)
(اے نبی مکرم ! ) آپ ان کے اموال سے صدقہ وصول کیجئے اور اس صدقہ کے ذریعہ ان (کے اموال) کو پاک کیجئے اور ان (کے نفوس) کا تزکیہ کیجئے، پھر ان کے لئے دعا بھی کیجئے۔ بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لئے تسکین کا باعث ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا ہے
توضیح :
( خذ )کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صدقہ سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکوٰۃ ہے )

علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب تفسیر احسن البیان میں اس آیہ کے تحت لکھتے ہیں :

یہ حکم عام ہے۔ صدقے سے مراد فرضی صدقہ یعنی زکٰوۃ بھی ہوسکتی ہے اور نفلی صدقہ بھی ۔
جناب نبی اکرم ﷺ کو کہا جا رہا ہے کہ اس کے ذریعے سے آپ مسلمانوں کو تطہیر اور ان کا تزکیہ فرما دیں۔ جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ زکٰوۃ و صدقات انسان کے اخلاق و کردار کی طہارت و پاکیزگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ علاوہ ازیں صدقے کو صدقہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ یہ اس بات کی دلالت کرتا ہے کہ خرچ کرنے والا اپنے دعوائے ایمان میں صادق ہے۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لہذا آیت :
اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے
میں صدقہ سے مراد صدقہ و زکاۃ دونوں ہی ہوسکتے ہیں ، یعنی جس طرح فرضی زکاۃ کی ادائیگی سے مال و جائیداد میں بڑھوتی ہوتی ہے
اسی طرح نفلی صدقات سے بھی اموال و احوال میں برکت حاصل ہوتی ہے ،
جیسا کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ، وَلاَ يَقْبَلُ اللَّهُ إِلَّا الطَّيِّبَ، وَإِنَّ اللَّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يُرَبِّيهَا لِصَاحِبِهِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ، حَتَّى تَكُونَ مِثْلَ الجَبَلِ» (صحیح البخاری ،حدیث نمبر ۱۴۱۰ )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ صرف حلال کمائی کے صدقہ کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے ہاتھ سے قبول کرتا ہے پھر صدقہ کرنے والے کے فائدے کے لیے اس میں زیادتی کرتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کوئی اپنے جانور کے بچے کو کھلا پلا کر بڑھاتا ہے تاآنکہ اس کا صدقہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عام طور پر میں جو صدقہ دیتا ہوں اس کی نیت عموماً اپنی کسی پریشانی بیماری یا اپنے گھروالوں کی مشکل دور کرنے کی نیت سے دیتا ہوں کیا یہ عمل صحیح ہے اور اس آیت کے تحت آئے گا جس میں صدقہ کو بڑھانے کاذ کر ہے ؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہ بات صحیح ہے کہ ایمان ، صدقہ ہویا کوئی اور نیکی بھلائی کا کام اس سے پریشانی اور مشکلات ٹلتی ہیں ،
اور آسانیاں نصیب ہوتی ہیں ،
---------------------
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرَى آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ وَلَكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْنَاهُمْ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ (سورۃ الاعراف 96)
ترجمہ:
اور اگر بستیوں کے باشندے ایمان لائیں اور گناہ سے بچتے رہیں تو یقیناً ہم کھول دیں ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں، لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے پکڑا ان کو بسبب اس کمائی کے جو وہ کرتے تھے ‘‘۔
یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا کہ ایمان وتقویٰ ایسی چیز ہے کہ جس بستی کے لوگ اسے اپنالیں تو ان پر اللہ تعالیٰ آسمان و زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے یعنی حسب ضرورت انہیں آسمان سے بارش مہیا فرماتا ہے اور زمین اس سے سیراب ہو کر خوب پیداوار دیتی جس سے خوش حالی و فروانی ان کا مقدر بن جاتی ہے لیکن اس کے برعکس تکذیب اور کفر کا راستہ اختیار کرنے پر قومیں اللہ کے عذاب کی مستحق ٹھہر جاتی ہیں، پھر پتہ نہیں ہوتا کہ شب و روز کی کس گھڑی میں عذاب آجائے اور ہنستی کھیلتی بستیوں کو آن واحد میں کھنڈرات بنا کر رکھ دیے اس لئے اللہ کی ان تدبیروں سے بےخوف نہیں ہونا چاہیئے۔ ( تفسیر احسن البیان)

اور دوسرے مقام پر فی سبیل اللہ خرچ کرنے اور بخل اپنانے کے ضمن میں ارشاد ربانی ہے :

بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى}:
باب: (سورۃ واللیل میں)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس نے (اللہ کے راستے میں) دیا اور اس کا خوف اختیار کیا اور اچھائیوں کی (یعنی اسلام کی) تصدیق کی تو ہم اس کے لیے آسانی کی جگہ یعنی جنت آسان کر دیں گے۔ لیکن جس نے بخل کیا اور بے پروائی برتی اور اچھائیوں (یعنی اسلام کو) جھٹلایا تو اسے ہم دشواریوں میں (یعنی دوزخ میں) پھنسا دیں گے۔‘‘
اور سچے اہل ایمان کی صفات عالیہ بتاتے ہوئے فرمایا :

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا (8) إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (9) إِنَّا نَخَافُ مِنْ رَبِّنَا يَوْمًا عَبُوسًا قَمْطَرِيرًا (10)
ترجمہ:

اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں کھانا کھلاتے ہیں مسکین یتیم اور قیدیوں کو۔
( اور ساتھ کہتے ہیں ) ہم تمہیں صرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لئے کھلاتے ہیں نہ تم سے بدلہ چاہتے ہیں نہ شکرگزاری۔
ہم تو اپنے پروردگار سے اس دن کا خوف کرتے ( ہوئے یہ عمل بجالا تے ہیں )جو اداسی اور سختی والا ہوگا۔
اور جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے :

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا مِنْ يَوْمٍ يُصْبِحُ العِبَادُ فِيهِ، إِلَّا مَلَكَانِ يَنْزِلاَنِ، فَيَقُولُ أَحَدُهُمَا: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُنْفِقًا خَلَفًا، وَيَقُولُ الآخَرُ: اللَّهُمَّ أَعْطِ مُمْسِكًا تَلَفًا "
(صحیح بخاری و صحیح مسلم )
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ جب بندے صبح کو اٹھتے ہیں تو دو فرشتے آسمان سے نہ اترتے ہوں۔ ایک فرشتہ تو یہ کہتا ہے کہ اے اللہ! خرچ کرنے والے کو اس کا بدلہ دے۔ اور دوسرا کہتا ہے کہ اے اللہ! «ممسك» اور بخیل کے مال کو تلف کر دے
اور حدیث شریف میں ارشاد ہے :
( إن الصدقة لتطفئ غضب الرب وتدفع ميتة السوء )
سیدنا انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ رب کے غصے کو بجھا دیتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے
.
أخرجه الترمذي في ( الجامع الصحيح ج 3 ص 52 رقم 664 ) في باب الزكاة (الجزء رقم : 3، الصفحة رقم: 232)

وقال الترمذي : حديث حسن غريب من هذا الوجه
وأخرجه ابن حبان في ( صحيحه ج 8 ص 104 رقم 3309 ). وأخرجه الطبراني في ( المعجم الكبير تحت رقم 8014، 1018 ) وقال: إسناده حسن. كما أخرجه في ( المعجم الأوسط برقم 943، 3450 ). وأخرجه أيضًا في ( المعجم الصغير ج 1 ص 255 ) وأورده البغوي في ( شرح السنة ج 5 ص133 رقم 1634 ). وأورده الهيثمي في ( مجمع الزوائد ج 3 ص115 ) وقال: إسناده حسن. وأورده المنذري في ( الترغيب والترهيب ج 2 ص 31 ) من طريق معاوية بن حيدة وقال فيه: صدقة بن عبد الله السمين ولا بأس به في الشواهد.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ان نصوص سے یہ بات واضح ہے کہ صدقات اور دیگر کار خیر انجام دینے سے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھلتے ہیں ،
اور رب کی رضا حاصل ہوتی ہے ، سخی لوگ فرشتوں کی دعاء کے مستحق قرار پاتے ہیں ،
۔۔ یہ اس معاملہ کا دوسرا رخ ہے ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلا رخ ۔۔۔۔
لیکن یاد رہے :
مومن کا ہر نیک عمل اصل میں اللہ تعالی کیلئے ہوتا ہے ، یعنی مومن ہر نیک عمل اللہ کی خوشنودی کیلئے اس کی اطاعت سمجھ کر اور اسے اس عبادت کا مستحق جان کر ادا کرتا ہے ، محض دنیاوی اغراض و مقاصد کے حصول کیلئے نیکی نہیں کرتا ،
کیونکہ صرف دنیاوی اغراض کیلئے نیک عمل تو شرک کے زمرہ میں آئے گا،
خود اللہ تعالی فرماتا ہے :
{مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لا يُبْخَسُونَ أُولَئِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَبَاطِلٌ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ} [سورة هود آية: 15-16]
جو کوئی حیات دنیا اور اس کی زینت کا طالب ہے ہم اسے دنیا میں اس کے اعمال کا پورا بدلہ دیں گے ‘ اور اس میں انہیں نقصان نہ ہوگا
یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ حصہ نہیں۔ جو کچھ انہوں نے دنیا میں بنایا وہ برباد ہوجائے گا اور جو عمل کرتے رہے وہ بھی بےسود ہوں گے،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ حافظ صلاح الدین یوسف صاحب تفسیر احسن البیان میں لکھتے ہیں :
ان دو آیات کے بارے میں بعض کا خیال ہے اس میں اہل ریا کار کا ذکر ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں اور بعض کے نزدیک طالبان دنیا کا ذکر ہے۔ کیونکہ دنیادار بھی بعض اچھے عمل کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کی جزا انھیں دنیا میں دے دیتا ہے، آخرت میں ان کے لئے سوائے عذاب کے اور کچھ نہیں ہوگا۔انتہی
اور ان آیات کی تفسیر میں علامہ ابو السعود لکھتے ہیں :

وإدخالُ كان عليه للدِلالة على استمرارها منهم بحيث لا يكادون يريدون الآخِرةَ أصلاً ۔۔۔)

یہاں فعل پر۔۔ کان ۔۔ لانے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ آخرت کی کامیابی و نجات عمل کرنے والے کا مقصد و غرض سرے سے ہو ہی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان مذکورہ آیات کے ضمن میں علامہ عبدالرحمن کیلانی فرماتے ہیں :

دنیا میں نیک اعمال بجالانے والے کافروں کو اخروی عذاب کیوں ہوگا ؟
(سورۃ ھود ، آیت نمبر ١٥ اور ١٦ )کے مخاطب صرف کافر نہیں بلکہ اس میں مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں جو قانون بیان کیا گیا ہے وہ سب پر ایک جیسا لاگو ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو نیکی کا کام صرف دنیا کے حصول کے لیے کیا جائے گا اس کا پورا پورا ثمرہ اللہ تعالیٰ اسے دنیا میں دے دیتے ہیں مگر آخرت میں اس کا کچھ اجر نہ ہوگا بلکہ اسے دوزخ کا عذاب بھی ہوگا یہاں ہم اس کی چند مثالیں پیش کریں گے مثلاً ایک کافر اپنے کاروبار میں جھوٹ ' فریب اور دغا بازی سے پرہیز کرتا ہے اور دیانت داری سے کام لیتا ہے تو اس کا ثمرہ یہ ہے کہ اس کے کاروبار کو فروغ حاصل ہو تو وہ یقینا حاصل ہوگا اور اگر یہی کام ایک مسلمان کرتا ہے اور جھوٹ ' فریب اور دغابازی سے اس لئے پرہیز کرتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے تو اس کی تجارت کو بھی فروغ حاصل ہوگا آخرت میں اللہ کی فرمانبرداری کا اجر بھی ملے گا ،
اس کی مثال یہ ہے کہ ایک صحابی نے اپنا گھر بناتے وقت مسجد کی طرف کھڑکی رکھی۔ آپ نے اسے پوچھا کہ یہ کھڑکی یہاں کس خیال سے رکھی ہے ؟ اس نے عرض کیا اس لیے کہ ہوا کی آمدورفت رہے۔ آپ نے فرمایا : اگر تم یہ نیت کرلیتے کہ ادھر سے اذان کی آواز آئے گی تو تمہیں اس کا ثواب بھی مل جاتا اور ہوا کی آمد و رفت تو بہرحال ہونا ہی تھی۔
اس کی دوسری مثال مسلم کی وہ حدیث ہے جو ریا کاری کے باب سے متعلق ہے کہ قیامت کے دن ایک ریا کار اور دنیا دار عالم کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس پر اپنا احسان جتلاتے ہوئے پوچھے گا کہ تم نے دنیا میں کیا نیک عمل کیا ؟ وہ کہے گا میں نے تیری خاطرخود دین کا علم سیکھا اور لوگوں کو سکھلاتا رہا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا جھوٹ کہتے ہو تم نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ تمہیں بڑا عالم کہا جائے وہ دنیا میں تمہیں کہا جاچکا اور تم اپنے کام کا پورا بدلہ لے چکے اب میرے پاس تمہارے لیے کوئی اجر نہیں پھر فرشتوں کو حکم دیا جائے گا کہ اسے دوزخ میں پھینک دیا جائے۔ اسی طرح ریا کار سخی اور مجاہد سے بھی یہی سوال و جواب اور یہی سلوک ہوگا۔ ( مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ مَنْ قَاتَلَ للرَّ یَاءِ وَالسُّمْعَۃِ اِسْتَحَقَّ النَّارَ )
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک کافر اس دنیا میں پاکیزہ زندگی گزارتا ہے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اپنا کاروبار دیانت داری سے کرتا ہے اسلام دشمن سرگرمیوں میں بھی حصہ نہیں لیتا تو یہ تو سمجھ میں آتا ہے کہ اسے دنیا میں اس کے نیک کاموں کا ثمرہ مل جائے اور آخرت میں کچھ نہ ملے مگر دوزخ کا عذاب کس جرم کی پاداش میں ہوگا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سزا کے لیے بنیادی جرم ہی دوسرا ہے اور وہ ہے اللہ کی طرف سے اتمام حجت کے بعد اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان نہ لانا ایسے شخص کو نہ کسی کام میں اللہ کی رضا مطلوب ہوتی ہے نہ ہی وہ اللہ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتا ہے نہ حدود اللہ کا خیال رکھ سکتا ہے بلکہ ایک ایمان لانے والے اور نہ لانے والے دونوں کی زندگی کی راہیں ہی جداجدا ہوجاتی ہیں آگ کا عذاب اسے ان دوسرے جرائم کی پاداش میں ہوگا۔
کفار مکہ ایک یہ حجت بھی پیش کیا کرتے تھے کہ ہم مسافروں کو کھانا کھلاتے ہیں یتیموں کی پرورش کرتے ہیں، بھوکوں کی خبرگیری کرتے ہیں راستوں پر کنوئیں کھدواتے ہیں سایہ دار درخت لگاتے ہیں اور بھی بہت سے نیک کام کرتے ہیں جن کا مقبول ہونا بھی ثابت ہے کہ ایسے ہی کاموں کی وجہ سے ہم دنیا میں پھلتے پھولتے ہیں اولاد اور مال میں برکت اور امن اور تندرستی نصیب ہوتی ہے تو ہمیں یہی بات کافی ہے اس کے بعد قرآن کے اتباع کی ضرورت بھی کیا رہ جاتی ہے ؟ اس آیت میں اللہ نے کافروں کی اسی حجت کا جواب دیا ہے ان نیک کاموں کا ہم فی الواقع انھیں دنیا میں اچھا بدلہ دے دیتے ہیں۔ رہا آخرت کا معاملہ تو نہ آخرت پر ان کا اعتقاد ہے اور نہ ہی آخرت میں بدلہ لینے کی غرض سے یہ کام کرتے ہیں۔ لہذا انھیں ان کاموں کا آخرت میں کچھ بدلہ نہیں ملے گا اور عذاب اس وجہ سے ہوگا کہ وہ آخرت کے منکر ہیں۔ تفسیر تیسیر القرآن


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسی مضمون کو قرآن مجید کی سورة بنی اسرائیل ( آیات ١٨، ٢١ ) میں یوں بیان فرمایا کہ :

(مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهُ فِيهَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِيدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهُ جَهَنَّمَ يَصْلَاهَا مَذْمُومًا مَدْحُورًا (18) وَمَنْ أَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَئِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا (19) كُلًّا نُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ مَحْظُورًا (20) انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَلَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجَاتٍ وَأَكْبَرُ تَفْضِيلًا (21)۔ الاسراء :18 تا 21)
جو شخص دنیا چاہتا ہے تو ہم جس شخص کو اور جتنا چاہیں ، دنیا میں ہی دے دیتے ہیں پھر ہم نے جہنم اس کے مقدر کردی ہے جس میں وہ بدحال اور دھتکارا ہوا بن کر داخل ہوگا۔
(18)
اور جو شخص آخرت کا ارادہ کرے اور اس کے لئے اپنی مقدور بھر کوشش بھی کرے اور مومن بھی ہو تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر کی جائے گی۔ (19)
ہم ہر طرح کے لوگوں کی مدد کرتے ہیں خواہ یہ ہوں یا وہ ہوں اور یہ بات آپ کے پروردگار کا عطیہ ہے اور آپ کے پروردگار کا یہ عطیہ (کسی پر) بند نہیں۔ (20)
اس کی تفسیر میں مفسر علامہ عبد الرحمن کیلانی فرماتے ہیں :
کوئی دوسرے کا رزق روک نہیں سکتا :۔ کیونکہ دنیوی مال و دولت اللہ کی بخشش ہے۔ جو اس دنیادار کو بھی ملتی ہے جو صرف اسی کے لیے کوشاں رہتا ہے اور آخرت کے طلبگار کو بھی ملتی ہے جتنی اس کے مقدر میں ہوتی ہے۔ دنیا کے طلبگار کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ آخرت کے طلبگار کی روزی بند کردے اور نہ ہی آخرت کے طلبگار کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ دنیا کے طلب گار کی روزی بند کردے۔ یہ زمین اور دوسرے ذرائع پیداوار تو اللہ نے پہلے سے ہی پیدا کردیئے ہیں جن سے ہر شخص خواہ وہ دنیا کا طلبگار ہو یا آخرت کا اپنے ارادہ اور اپنی بساط کے مطابق یکساں فائدہ اٹھا سکتا ہے مگر اسے ملتا اتنا ہی ہے جتنا اس کے مقدر میں ہو۔

(تیسیر القرآن )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اس لئے صدقہ ہو یا کوئی اور دوسرانیک عمل ۔۔ یا کسی برائی سے پرہیز
ہر دو صورتوں میں عمل کرنے والے کا مقصد اولین رب کی رضا ،اور آخرت کی کامیابی ہو ، ہاں ضمناً اسکے شعور میں اس عمل کے فوری ثمرات بھی ہوں تو مضائقہ نہیں ۔۔۔ لیکن صرف دنیاوی مقاصد اور مادی ضروریات ۔۔ عمل کا مقصد ۔۔ نہ بنیں ،
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
2-عوام میں جو عام طور پر صدقہ میں مخصوص چیزیں جیسے آٹا،انڈے گوشت وغیرہ صدقے میں دینا معمول ہے کیا یہ صحیح ہے۔
صدقہ میں مخصوص اشیاء دینا شرعاً ثابت نہیں ،
ہاں پسندیدہ اور بہترین چیز صدقہ و خیرات میں اخلاص سے دینا چاہیئے ،
جیسا کہ خود اللہ تعالی کا ارشاد ہے :
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ 92؀
تم اس وقت تک اصل نیکی حاصل نہ کرسکو گے جب تک وہ چیزیں اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب ہو۔ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو گے اللہ اسے خوب جانتا ہے ‘‘
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
3-زکوۃکے علاوہ صدقے دینے کا مسنون طریقہ کیا ہے ۔
نفلی صدقات کے بے شمار طریقے ہیں ،
کھانا کھلانا ، نقدی دینا ، کسی کی کوئی بھی ضرورت پوری کرنا ، کسی کے کام آنا۔وغیرہ وغیرہ
عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اتَّقُوا النَّارَ» ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاح، ثُمَّ قَالَ: «اتَّقُوا النَّارَ» ثُمَّ أَعْرَضَ وَأَشَاحَ ثَلاَثًا، حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ يَنْظُرُ إِلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: «اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ»
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہنم سے بچو، پھر آپ نے چہرہ پھیر لیا، پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو اور پھر اس کے بعد چہرہ مبارک پھیر لیا، پھر فرمایا جہنم سے بچو۔ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کیا۔ ہم نے اس سے یہ خیال کیا کہ آپ جہنم دیکھ رہے ہیں۔ پھر فرمایا کہ جہنم سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ ہو سکے
اور جسے یہ بھی نہ ملے تو اسے (لوگوں میں) کسی اچھی بات کہنے کے ذریعہ سے ہی (جہنم سے) بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔(متفق علیہ )
اور رحمۃ للعالمین ﷺ کا ارشاد ہے :
البراء بن عازب رضي الله عنه قال: جاء أعرابي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله! علمني عملاً يدخلني الجنة, قال: ((إن كنت أقْصَرْتَ الخطبة لقد أعْرضت المسألة: أعتق النّسمة، وفُكَّ الرقبة، فإن لم تُطِق ذلك، فأطعم الجائع، وأسْقِ الظمآن))
سیدنا براء بن عازب سے مروی ہے کہ :
ایک اعرابی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ، اور عرض کی کہ مجھے ایسا عمل بتائیے جو میرے جنت جانے کا سبب بن جائے ،فرمایا تو مختصر بات کی لیکن (اپنی سب سے بڑی غرض ) پیش کردی ،
غلام انسان کو ، اور گرفتار کی گردن آزاد کر، اگر تم میں اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھانا کھلادو پیاسے کو پانی پلادو، ۔ ( أحمد في المسند، 4/ 299، وابن حبان، 375، والبيهقي في السنن الكبرى، 10/ 273، وصححه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب )
اور مسند احمد میں یہ روایت اس طرح ہے کہ​
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلِّمْنِي عَمَلًا يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ فَقَالَ لَئِنْ كُنْتَ أَقْصَرْتَ الْخُطْبَةَ لَقَدْ أَعْرَضْتَ الْمَسْأَلَةَ أَعْتِقْ النَّسَمَةَ وَفُكَّ الرَّقَبَةَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَلَيْسَتَا بِوَاحِدَةٍ قَالَ لَا إِنَّ عِتْقَ النَّسَمَةِ أَنْ تَفَرَّدَ بِعِتْقِهَا وَفَكَّ الرَّقَبَةِ أَنْ تُعِينَ فِي عِتْقِهَا وَالْمِنْحَةُ الْوَكُوفُ وَالْفَيْءُ عَلَى ذِي الرَّحِمِ الظَّالِمِ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ فَأَطْعِمْ الْجَائِعَ وَاسْقِ الظَّمْآنَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنْ الْمُنْكَرِ فَإِنْ لَمْ تُطِقْ ذَلِكَ فَكُفَّ لِسَانَكَ إِلَّا مِنْ الْخَيْرِ۔
ترجمہ :
حضرت براء (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسا عمل بتادیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرادے ؟
نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بات تو تم نے مختصر کہی ہے لیکن سوال بڑا لمبا چوڑا پوچھا ہے عتق نسمہ اور فک رقبہ کیا کرو اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ دونوں چیزیں ایک ہی نہیں ہیں ؟ (کیونکہ دونوں کا معنی غلام آزاد کرنا ہے ' ) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا نہیں عتق نسمہ سے مراد یہ ہے کہ تم اکیلے پورا غلام آزاد کردو اور فک رقبہ سے مراد یہ ہے کہ غلام کی آزادی میں تم اس کی مدد کرو اس طرح قریبی رشتہ دار پر جو ظالم ہو، احسان اور مہربانی کرو، اگر تم میں اس کی طاقت نہ ہو تو بھوکے کو کھانا کھلادو پیاسے کو پانی پلادو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، اگر یہ بھی نہ کرسکو تو اپنی زبان کو خیر کے علاوہ بند کرکے رکھو۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں فرمایا:
عمر بن الخطاب، يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي الأعمال أفضل؟ قال: «إدخالك السرور على مؤمن أشبعت جوعته، أو كسوت عريه، أو قضيت له حاجة»
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا :
کون سے اعمال افضل ہیں ؟
آپ ﷺ نے فرمایا : مومن کو خوش کرنا ، بھوکے کو کھانا کھلانا ، کسی کے پاس پہننے کے کپڑے نہ ہوں تو کپڑے دینا ، کسی کی کوئی بھی حاجت و ضرورت پوری کرنا ،
الطبراني في المعجم الأوسط (مجمع البحرين)، برقم 1455، وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب،
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
746
ری ایکشن اسکور
129
پوائنٹ
108
جزاک اللہ
اللہ آپ کے علم نافع میں مزید اضافہ کرے ۔ آپ نے نہایت تفصیل سے جواب دیا۔
صرف پوائنٹ نمبر 4 کے بارے کچھ مختصرا کچھ بتادیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اللہ کو قرض دینے کا کیا مطلب ہے ، اور کیا کسی مستحق کی مدد اس نیت سے کرنا کہ یہ اللہ کو قرض دے رہے ہیں وہ ہمیں بڑھا کر لوٹائے گا صحیح ہے۔
مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (سورۃ البقرۃ ۲۴۵ )
اور کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے کہ اللہ اس کو کئی گنا بڑھا کر واپس کر دے ‘‘
قرض حسن ۔۔۔۔۔۔ اللہ کی راہ میں جو مال خرچ کیا جائے اسے اللہ تعالیٰ کو قرض دینے سے تعبیر کیا گیا ہے یہ نہایت بلیغ انداز بیان ہے جس سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ تم جو کچھ اللہ کے راستے میں خرچ کرو گے وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں محفوظ رہے گا اور جزا کے دن وہ اسے گھاٹے کا نہیں بلکہ بھر پور نفع کا ہے " قرض حسن " سے مراد ایسا قرض ہے جو خلوص اور فراخدلی کے ساتھ محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر دیا جائے اور اپنی محبوب اور پاکیزہ کمائی میں سے دیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ تفسیر تیسیر القرآن میں اس آیہ کے ذیل میں لکھتے ہیں :
قرض حسنہ سے مراد ایسا قرضہ ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے فقراء اوراقربا و مساکین کو دیا جائے اور ادائیگی کے لیے انہیں تنگ نہ کیا جائے، نہ ہی قرضہ دینے کے بعد انہیں جتلایا جائے اور نہ ہی ان سے کسی قسم کی بیگار لی جائے اور اگر مقروض فی الواقعہ تنگ دست اور ادائیگی سے معذور ہو تو اسے معاف ہی کردیا جائے اور اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مفہوم اس سے وسیع ہے۔ جس میں انفاق فی سبیل اللہ کی تمام صورتیں آجاتی ہیں اور اس میں جہاد کی تیاری پر خرچ کرنا اور مجاہدین کی مالی امداد بھی شامل ہے اور مضمون کی مناسبت سے یہاں یہی صورت درست معلوم ہوتی ہے۔ ایسے قرضہ کو اللہ تعالیٰ سات سو گنا تک بلکہ اس سے بھی زیادہ تک بڑھا دیتے ہیں اور اس بڑھوتی کا انحصار دو باتوں پر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ خالصتاً اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے لیے خرچ کیا جائے اور دوسرے یہ کہ دل کی پوری خوشی کے ساتھ دیا جائے۔ نیز ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی بتلا دیا کہ خرچ کرنے سے تمہیں مال میں کمی آجانے سے نہ ڈرنا چاہیے۔ کیونکہ مال میں کمی بیشی ہونا تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے اور قرآن میں ہی ایک دوسرے مقام پر (٣٤ : ٣٩) فرمایا کہ جو کچھ تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے اللہ تمہیں اس کا نعم البدل عطا کر دے گا۔ انتہی

مشہور عربی مفسر علامہعبد الرحمن بن ناصر السعدي (المتوفى: 1376هـ) فرماتے ہیں
قال العلامة السعدي رحمه الله في القرض الحسن: ((وهي النفقة الطيبة، التي تكون خالصة لوجه الله، موافقة لمرضاة الله، من مال حلال طيب، طَيِّبةً به نفسه، وهذا من كرم الله تعالى حيث سماه قرضاً، والمال ماله، والعبد عبده، ووعد بالمضاعفة عليه أضعافاً كثيرة، وهو الكريم
الوهاب، وتلك المضاعفة محلها وموضعها يوم القيامة، يوم كلّ يتبيَّن فقره ويحتاج إلى أقل شيء من الجزاء الحسن))

(تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان )
یعنی :
" قرض حسن " سے مراد ایسا قرض ہے جو خلوص اور فراخدلی کے ساتھ محض اللہ کی رضا جوئی کی خاطر دیا جائے اور اپنی محبوب اور پاکیزہ کمائی میں سے دیا جائے۔ اور یہ محض اللہ کا فضل و کرم ہے کہ وہ اس فی سبیل اللہ خرچ کو قرض حسن کہہ رہا ہے جبکہ یہ مال بھی اسی کا ہے
اور دینے والا اسی کا بندہ ہے ، اور یہ اسکی کریمی اور لا محدود عطا ہے کہ وہ اس خرچ کے بدلہ کئی گنا بڑھا کر عطا فرمانے کا وعدہ فرمارہا ہے
اور کئی گنا بڑا اجر روز محشر عطا کیا جائے جبکہ ہر کوئی چھوٹی سے چھوٹی جزاء خیر کا محتاج ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Last edited:
Top