- شمولیت
- اگست 25، 2014
- پیغامات
- 6,372
- ری ایکشن اسکور
- 2,589
- پوائنٹ
- 791
صدقۂ فطر، روزے کا کفارہ
* * * *فضیلۃ الشیخ محمد منیر قمر۔الخبر* * * *
رمضان المبارک اور روزے کے احکام ومسائل میں سے ایک ’’صدقۂ فطر‘‘ بھی ہے جسے زکوٰۃ الفطر،فطرانہ اور فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ صدقہ فطر جمہور ائمہ وفقہاء کے نزدیک فرض ہے۔احناف کے نزدیک واجب جبکہ فرض یا واجب دونوں میں صرف معمولی لفظی و اعتقادی فرق ہے ورنہ عملاً دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔
اس صدقہ کی مشروعیت وفرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے چنانچہ سورۃ الاعلیٰ کی آیت14اور 15میں ارشادِ الٰہی ہے:(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15) ’’فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا اور پھر نماز پڑھی۔‘‘
اس آیت میں جو لفظ’’ تزکّٰی‘‘ ہے اس سے مرادزکوٰۃ الفطرادا کرنا ہے ،
جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺسے اس آیت کے بارے پوچھا گیاتو آپ ﷺنے فرمایا: ’’یہ آیت صدقۂ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘
صدقۂ فطر کی فرضیت کی دلیل حدیث شریف میں بھی موجود ہے ،
بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’ اللہ کے رسول ﷺنے صدقۂ فطر فرض کیا ہے۔‘‘ اس صدقۂ فطر کی ادائیگی میں حکمت کیا ہے؟
اس سلسلہ میں ابوداؤد شریف میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم ﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا تاکہ روزہ دار سے روزہ کی حالت میں جو کوئی فضول ونازیبا بات سرزد ہوگئی ہو وہ اُس سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح سے) کھانا میسر آجائے۔‘‘ زکوٰۃ الفطر کی اس حکمت پر غور فرمائیں اور اندازہ کریں کہ ہمارے رسولِ رحمتﷺکو غربا ومساکین کا کتنا خیال رہتا تھا۔
اس فطرانہ کیساتھ ہی دوسری سالانہ زکوٰۃ اور دیگر نفلی صدقات وخیرات کو ملا کر دیکھیں کہ دین اسلام نے اس صفحۂ ہستی سے غربت وافلاس کے خاتمے کے ضامن حل پیش کئے ہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام وہ نظامِ حیات ہے جس نے کسی بھی موقع پر غریب کو نظر انداز نہیں کیا ۔
اگر مسلمان اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں تو آج بھی یہ چرخِ کہن سال وہ نظارہ دیکھ سکتا ہے جو صدیو ں پہلے چشم ِفلاک نے دیکھا کہ لوگ زکوٰۃکا مال ہاتھ میں لئے پھرتے مگر اُسے قبول کرنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔خوشحالی کے ضامن اِس اسلا می نظامِ معیشت کا ایک چھوٹا سا حصہ یہ صدقہ فطر بھی ہے جسکی حکمت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ روزے دار کی کوتاہیوں سے طہارت کیساتھ ساتھ فقراء ومساکین کیلیٔ اچھے کھانے کا انتظام ہوجائے اور وہ بھی عام مسلمانوں کی عید کی خوشیوں میں شرکت کرسکیں۔ صدقۂ فطر صرف انہی لوگوں پر واجب نہیں جنہوں نے روزے رکھے ہوں بلکہ جمہورائمہ کے نزدیک یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ،مرد ہو یا عورت،آزاد ہو یا غلام جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے : ’’نبی ﷺ نے کھجور کا ایک صاع صدقۂ فطرکے طور پر ہر غلام وآزاد،مرد وزن اور چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔‘‘
حدیث کی دو اعلیٰ ترین کتابوں صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت ابوسعید ؓ کا ارشاد ہے: ’’ ہم ایک صاع کھانا یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش(خشک انگور یا منقہ) صدقہ فطر میں دیا کرتے تھے۔‘‘ صدقۂ فطر نکالنے کا حکم چونکہ عام ہے اسلئے اسمیں تمام مسلمان برابر ہیں چاہے کوئی مالدار ہویا فقیر لہٰذا تنگدست کو بھی صدقہ نکالنا چاہئے۔ امام شعبیؒ،عطاءؒ ،ابن سیرینؒ،زہریؒ،عبداللہ بن مبارکؒ،امام مالکؒ،شافعیؒ اوراحمد بن حنبلؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓسے بھی ایک روایت ہے کہ تنگدست بھی صدقہ دے۔مالکیہ کے نزدیک تو قرضہ لیکر بھی صدقہ دینا چاہئے اور حنبلی وشافعی فقہاء کے نزدیک اگر کسی کے پاس(عیدکے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو تو اسکے لئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔
امام ابوحنیفہؒ نے اُس شخص کیلئے صدقہ ضروری قراردیا ہے جسکے پاس زکوٰۃ نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے52 تولے چاندی(یا اسکی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہوالبتہ متاخرین احناف کے نزدیک بھی ساڑھے 50تولے چاندی (نصاب زکوٰۃ) کی مالیات سے زائد گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر صدقہ فطر واجب ہے، چاہے اس پر زکوٰۃ فرض نہ بھی ہوئی ہو ،
لیکن دوسرے تمام ائمہ وفقہاء کے نزدیک صدقہ فطرکیلئے کسی کا صاحبِ نصاب ہونا اسلئے ضروری نہیں کہ یہ صدقہ ایک بدنی صدقہ ہے،مال کا صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں تو گویا مال کے صدقہ یا سالانہ زکوٰۃکیلئے تو نصاب شرط ہے مگر اس صدقہ فطرکیلئے نصاب کی شرط ضروری نہیں لہٰذا ہر کسی کیلئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ صدقۂ فطر کے سلسلہ میں ہم نے بخاری ومسلم کی جو احادیث آپ کے سامنے رکھی ہیں اُن میں 5 اشیاء سے صدقہ نکالنے کا ذکر تھا جن میں کھانا،جَو،کھجور،پنیر اورکشمش شامل ہیں جبکہ بخاری ومسلم وغیرہ میں ہی یہ بھی مذکور ہے کہ جب حضرت امیر معاویہ ؓ کا دورِ خلافت آیا تو گندم عام ہوگئی تو انہوں نے کہا’’ مجھے لگتا ہے اِس (گندم) کا ایک مُد(دیگر اشیاء مثلاً کھجور وغیرہ کے) 2مُدوں کے برابر ہے‘‘لہٰذا گندم کیساتھ ملکر غلوں کی تعداد6 ہوگئی۔
بعض روایات میں آٹے اور ستوؤں کا ذکر بھی ملتا ہے۔بخاری ومسلم وغیرہ میں جو لفظ’’طعام ‘‘یعنی کھانا ہے اِس لفظ کے عموم کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیشمار ائمہ وفقہاء،محدثین وعلما ء اور مفتیانِ کرام نے لکھا ہے کہ افضل تو یہی ہے کہ ان مذکورۂ اولیٰ 6 چیزوں سے ہی صدقہ نکالا جائے کیونکہ یہ نصوصِ صحیحہ سے ثابت ہیں البتہ اگر کسی علاقے کی غذاء ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتو اُس سے بھی صدقۂ فطر ادا کرسکتے ہیں لہٰذا جن علاقوں میں چاول،چنا،جوار،مکئی،باجرہ،ماش،مٹر،انجیر اور خشک توت وغیرہ بطورِ غذااستعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اشیاء سے بھی فطرانہ نکال سکتے ہیں۔
بخاری ومسلم کی جو احادیث ہم نے بیان کی ہیں اُن میں ذکر ہے کہ فطرانہ تمام چھوٹے بڑے، مذکر ومؤنث اور آزاد وغلام مسلمان پر فرض ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام اپنا صدقہ خود نکالے مگر مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے: ’’(مالک پر) اپنے غلام کی زکوٰۃ نکالنا ضروری نہیں سوائے صدقہ فطر کے۔‘‘ اس سے معلوم ہوگیا کہ غلام کا صدقۂ فطر اُسکا مالک نکالے گا اور جمہور اہل ِ علم کا یہی مسلک ہے اور اُنہی احادیث میں’’من المسلمین‘‘کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ صدقہ صرف مسلمانوں پر ہے۔ اگر کسی کا غلام یا بیوی اہلِ کتاب کافر ہوتو اُن کی طرف سے صدقہ نہیں دیا جائیگا اور اس پر تمام مذاہب ِ اہلِ سنت کا اتفاق ہے البتہ اگر کوئی شخص وجوب کے نظریہ سے نہیںمحض نفلی طور پر غیر مسلم بیوی یا خادم کی طرف سے صدقہ فطرنکال دے تو کوئی مانع نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے خادموں کودیا کرتے تھے اور یہی حکم ان خادموں کا بھی ہے جو گھروں میں کام کرنے والے ہیں کہ اُن کی طرف سے گھر والا صدقہ ادا کرے گا۔وہ مسلمان ہے تو واجب ہے اور اگر غیر مسلم ہے تو مالک کو اختیار ہے۔ وہ بچہ جو عید کی رات پیدا ہوجائے جسے چاندرات بھی کہا جاتا ہے، اُسکے بارے میں ائمہ کے2فریق ہیں۔امام ثوریؒ، احمدؒ، اسحاق ؒ، قولِ جدید میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالک ؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا واجب نہیں جبکہ اما م ابوحنیفہؒ،لیثؒ،قولِ قدیم میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالکؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فریقِ اول کے نزدیک فطرانے کے وجوب کا وقت رمضان کے آخری دن کا غروبِ آفتاب ہے جبکہ فریقِ ثانی کے نزدیک وقتِ وجوب یومِ عید کا طلوعِ فجر ہے۔بہر حال اگر کسی کے یہاں ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو فطرانہ ادا کردینے میں ہی احتیاط ہے۔
وجوباً نہ سہی نفلی ہی ہو جائے گا اور ا ختلاف سے بھی نکل جائے گا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ فطرانے کی مقدار کتنی ہے؟ تو اس سلسلہ میں بخاری ومسلم کی احادیث میں ایک صاع کا ذکر ہے اور گندم کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں البتہ بعض مرسل روایات اور صحابہ کرام ؓکے ارشادات سے باقی اشیاء کی نسبت گندم کا نصف صاع ہونا ملتا ہے لیکن امام مالکؒ،شافعیؒ،احمدؒ،اسحاقؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک بخاری ومسلم میں مذکور لفظ’’ طعام‘‘ میں ہی گندم بھی آجاتی ہے اور طعام سے ایک صاع فطرانہ صحیح احادیث میں ثابت ہے لہٰذا گندم کا بھی ایک صاع ہی نکالنا ضروری ہے البتہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک گندم کانصف صاع بھی کافی ہے اور اُن کا استدلال جن روایات سے ہے محدثین نے انکی اسناد پر تنقید کی ہے لہٰذا دیگر ائمہ انہیں قابلِ حجت نہیں مانتے۔بہرحال یہ ائمہ اور اہلِ علم کا ایک علمی اختلاف ہے اور ہمارے لئے اِس اختلاف سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ مقدار کو لے لیں جس سے یقینااجروثواب میں بھی اضافہ ہوگا اور کم مقدار اُس میں آہی جائیگی۔
امام محمد بن علی شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں اور برصغیر کے معروف محدّث علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے تحفہ الاحوذی شرح ترمذی میں ایک صاع کو ہی راجح اور زیادہ قرین احتیاط قراردیا ہے۔ غلے کی تمام اقسام سے صدقۂ فطرادا کیا جاسکتا ہے اور جائز ہے لیکن کس چیز کا صدقہ نکالنا افضل ہے؟ اس سلسلہ میں ائمہ کرام ؒ کی مختلف آراء ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک ہر اُس چیز سے صدقہ نکالنا افضل ہے جو سب سے قیمتی اور مہنگی ہو۔امام شافعی ؒکے نزدیک گندم سے صدقہ فطر نکالنا افضل ہے(چاہے وہ دوسری اشیاء سے مہنگی ہویا سستی)اور امام مالکؒ وامام احمد ؒکے نزدیک کھجور کا صدقہ نکالنا سب سے افضل ہے۔یہ اختلافِ رائے صرف فضیلت میں ہے ،جو از وعدمِ جواز میں نہیں بلکہ تمام ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس چیز سے بھی صدقۂ فطر نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کب کی جائے؟
اس سلسلہ میں بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’(نبی ﷺنے صدقہ فطر کے بارے میں)حکم فرمایا کہ لوگوں کے نمازِ عید کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔‘‘ ابوداؤد،ابن ماجہ اور دارقطنی میں ہے: ’’جس نے عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کیا تو یہ قبول ہونے والی زکوٰۃ ہے اور جس نے یہ صدقہ نماز کے بعد ادا کیا تو وہ محض صدقوں میںسے ایک صدقہ ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ فطرانہ نماز سے پہلے ہی ادا کرنا ضروری ہے ۔
اور ائمہ اربعہ سمیت جمہور کے نزدیک عید کے بعد فطرانہ ادا کرنا اگرچہ صحیح ہے لیکن مکروہ ہے اور علامہ ابن حزم ؒکے نزدیک فطرانہ عید سے قبل ادا کرنا واجب اوربعد میں ادا کرنا حرام ہے اور امام شوکانی ؒنے بھی اِسی مسلک کی تائید کی ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے: ’’صحابہ کرامؓ عیدالفطر سے ایک یا 2دن قبل ہی صدقہ فطر ادا کردیا کرتے تھے۔‘‘
امام بخاری ؒ کے نزدیک عید سے ایک2 دن قبل صدقہ جمع کرنا جائز ہے، فقراء کو دینا جائز نہیں اور حضرت ابنِ عمر ؓ کی روایت میں جو الفاظ ہیں کہ صحابہ کرام ؓ عید سے 2 ایک دن پہلے صدقہ دیدیا کرتے تھے اسکے بارے میں انکا کہنا ہے کہ لوگ پیشگی صدقہ جمع کروادیا کرتے تھے، فقراء کو نہیں دیتے تھے۔ایسا ہی ابنِ عمر ؓ کی مؤطا امام مالک والی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدقۂ فطر اجتماعی طور پر ادا کرکے ایک جگہ جمع کرنا ہی مسنون طریقہ ہے اور زیادہ مفیدمطلب بھی ہے تاکہ جمع شدہ کل فطرانے سے مستحقین کو انکے حسبِ ضرورت دیا جاسکے اور انفرادی طور پر صدقہ نکالنے میں اس بات کا احتمال وامکان بھی رہتا ہے کہ کسی محتاج کے پاس تو بہت سارا صدقہ جمع ہوجائے اور کوئی بالکل ہی محروم رہ جائے۔ بہترین طریقہ فطرانہ کی اجتماعی ادائیگی ہے اور ایک جگہ جمع شدہ غلے اور نقدی کومتعلقہ افراد پہلے تو ان مستحقین میں تقسیم کردیں جو مقامی ہیں اور اگر مقامی فقراء سے کچھ بچ جائے تو وہ دیگر مصارف کیلئے بھی بھیجا جاسکتا ہے جیسے غریب ممالک کے دینی مدارس،غریب افراد یا دیگرمحتاجین ہیںکیونکہ ضرورت کی شکل میں مقامی فقراء کو صدقۂ فطر وزکوٰۃ دینے کی افضلیت مسلّم ہونے کیساتھ ساتھ تمام ائمہ وفقہا اور اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر اہلِ بلد اموالِ زکوٰۃ وصدقات سے مستغنی ہوجائیں تو پھر دوسرے علاقوں یا ملکوں میں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اجتماعی شکل میں زکوٰۃ وصدقات ادا کردینے پر،ادا کرنے والے فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اُن افراد کی ذمہ داری ہے کہ حقیقی مستحق افراد کو تلاش کرکے وہ اموال صرف کردیں اور انفرادی ادائیگی کی شکل میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ فطرانہ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو تلاش کرے اور مستحق لوگوں تک پہنچائے، محض آسانی کی خاطر عادی اور پیشہ ور قسم کے گداگروں کو صدقہ تھما دینا مناسب نہیں کیونکہ دانہ گلِ گلزار تبھی بنتا ہے جب اُسے خاک میں پھینکا جائے اور اگر پتھریلی وبنجر زمین میں ڈال کر کونپلوں کا انتظار کیا جائے تو یہ ایک حماقت تو ہوسکتی ہے دانشمندی نہیں۔
* * * *فضیلۃ الشیخ محمد منیر قمر۔الخبر* * * *
رمضان المبارک اور روزے کے احکام ومسائل میں سے ایک ’’صدقۂ فطر‘‘ بھی ہے جسے زکوٰۃ الفطر،فطرانہ اور فطرہ بھی کہا جاتا ہے۔ صدقہ فطر جمہور ائمہ وفقہاء کے نزدیک فرض ہے۔احناف کے نزدیک واجب جبکہ فرض یا واجب دونوں میں صرف معمولی لفظی و اعتقادی فرق ہے ورنہ عملاً دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں۔
اس صدقہ کی مشروعیت وفرضیت قرآن و سنت سے ثابت ہے چنانچہ سورۃ الاعلیٰ کی آیت14اور 15میں ارشادِ الٰہی ہے:(قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (14) وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى (15) ’’فلاح پاگیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی اور اپنے رب کا نام یاد کیا اور پھر نماز پڑھی۔‘‘
اس آیت میں جو لفظ’’ تزکّٰی‘‘ ہے اس سے مرادزکوٰۃ الفطرادا کرنا ہے ،
جیسا کہ صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺسے اس آیت کے بارے پوچھا گیاتو آپ ﷺنے فرمایا: ’’یہ آیت صدقۂ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔‘‘
صدقۂ فطر کی فرضیت کی دلیل حدیث شریف میں بھی موجود ہے ،
بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’ اللہ کے رسول ﷺنے صدقۂ فطر فرض کیا ہے۔‘‘ اس صدقۂ فطر کی ادائیگی میں حکمت کیا ہے؟
اس سلسلہ میں ابوداؤد شریف میں ایک حدیث حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے: ’’نبی اکرم ﷺ نے صدقۂ فطر فرض فرمایا تاکہ روزہ دار سے روزہ کی حالت میں جو کوئی فضول ونازیبا بات سرزد ہوگئی ہو وہ اُس سے پاک ہوجائے اور مسکینوں کو(کم از کم عید کے روز خوب اچھی طرح سے) کھانا میسر آجائے۔‘‘ زکوٰۃ الفطر کی اس حکمت پر غور فرمائیں اور اندازہ کریں کہ ہمارے رسولِ رحمتﷺکو غربا ومساکین کا کتنا خیال رہتا تھا۔
اس فطرانہ کیساتھ ہی دوسری سالانہ زکوٰۃ اور دیگر نفلی صدقات وخیرات کو ملا کر دیکھیں کہ دین اسلام نے اس صفحۂ ہستی سے غربت وافلاس کے خاتمے کے ضامن حل پیش کئے ہیں اور یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسلام وہ نظامِ حیات ہے جس نے کسی بھی موقع پر غریب کو نظر انداز نہیں کیا ۔
اگر مسلمان اسلامی نظامِ معیشت کو سمجھنے اور اپنانے کی کوشش کریں تو آج بھی یہ چرخِ کہن سال وہ نظارہ دیکھ سکتا ہے جو صدیو ں پہلے چشم ِفلاک نے دیکھا کہ لوگ زکوٰۃکا مال ہاتھ میں لئے پھرتے مگر اُسے قبول کرنے والا کوئی نظر نہ آتا تھا۔خوشحالی کے ضامن اِس اسلا می نظامِ معیشت کا ایک چھوٹا سا حصہ یہ صدقہ فطر بھی ہے جسکی حکمت ہی یہ بتائی گئی ہے کہ روزے دار کی کوتاہیوں سے طہارت کیساتھ ساتھ فقراء ومساکین کیلیٔ اچھے کھانے کا انتظام ہوجائے اور وہ بھی عام مسلمانوں کی عید کی خوشیوں میں شرکت کرسکیں۔ صدقۂ فطر صرف انہی لوگوں پر واجب نہیں جنہوں نے روزے رکھے ہوں بلکہ جمہورائمہ کے نزدیک یہ تمام مسلمانوں پر واجب ہے۔ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا ،مرد ہو یا عورت،آزاد ہو یا غلام جیسا کہ بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے : ’’نبی ﷺ نے کھجور کا ایک صاع صدقۂ فطرکے طور پر ہر غلام وآزاد،مرد وزن اور چھوٹے بڑے مسلمان پر فرض کیا ہے۔‘‘
حدیث کی دو اعلیٰ ترین کتابوں صحیح بخاری وصحیح مسلم میں حضرت ابوسعید ؓ کا ارشاد ہے: ’’ ہم ایک صاع کھانا یا ایک صاع جَو یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع کشمش(خشک انگور یا منقہ) صدقہ فطر میں دیا کرتے تھے۔‘‘ صدقۂ فطر نکالنے کا حکم چونکہ عام ہے اسلئے اسمیں تمام مسلمان برابر ہیں چاہے کوئی مالدار ہویا فقیر لہٰذا تنگدست کو بھی صدقہ نکالنا چاہئے۔ امام شعبیؒ،عطاءؒ ،ابن سیرینؒ،زہریؒ،عبداللہ بن مبارکؒ،امام مالکؒ،شافعیؒ اوراحمد بن حنبلؒ وغیرہ کا یہی مسلک ہے اور مسند امام احمد میں حضرت ابوہریرہ ؓسے بھی ایک روایت ہے کہ تنگدست بھی صدقہ دے۔مالکیہ کے نزدیک تو قرضہ لیکر بھی صدقہ دینا چاہئے اور حنبلی وشافعی فقہاء کے نزدیک اگر کسی کے پاس(عیدکے) ایک دن اور رات کی خوراک سے فاضل غلہ موجود ہو تو اسکے لئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔
امام ابوحنیفہؒ نے اُس شخص کیلئے صدقہ ضروری قراردیا ہے جسکے پاس زکوٰۃ نکالنے کا نصاب یعنی ساڑھے52 تولے چاندی(یا اسکی موجودہ قیمت کے برابر رقم) موجود ہوالبتہ متاخرین احناف کے نزدیک بھی ساڑھے 50تولے چاندی (نصاب زکوٰۃ) کی مالیات سے زائد گھریلو سامان رکھنے والے مسلمان پر صدقہ فطر واجب ہے، چاہے اس پر زکوٰۃ فرض نہ بھی ہوئی ہو ،
لیکن دوسرے تمام ائمہ وفقہاء کے نزدیک صدقہ فطرکیلئے کسی کا صاحبِ نصاب ہونا اسلئے ضروری نہیں کہ یہ صدقہ ایک بدنی صدقہ ہے،مال کا صدقہ یعنی زکوٰۃ نہیں تو گویا مال کے صدقہ یا سالانہ زکوٰۃکیلئے تو نصاب شرط ہے مگر اس صدقہ فطرکیلئے نصاب کی شرط ضروری نہیں لہٰذا ہر کسی کیلئے صدقہ فطر ادا کرنا ضروری ہے۔ صدقۂ فطر کے سلسلہ میں ہم نے بخاری ومسلم کی جو احادیث آپ کے سامنے رکھی ہیں اُن میں 5 اشیاء سے صدقہ نکالنے کا ذکر تھا جن میں کھانا،جَو،کھجور،پنیر اورکشمش شامل ہیں جبکہ بخاری ومسلم وغیرہ میں ہی یہ بھی مذکور ہے کہ جب حضرت امیر معاویہ ؓ کا دورِ خلافت آیا تو گندم عام ہوگئی تو انہوں نے کہا’’ مجھے لگتا ہے اِس (گندم) کا ایک مُد(دیگر اشیاء مثلاً کھجور وغیرہ کے) 2مُدوں کے برابر ہے‘‘لہٰذا گندم کیساتھ ملکر غلوں کی تعداد6 ہوگئی۔
بعض روایات میں آٹے اور ستوؤں کا ذکر بھی ملتا ہے۔بخاری ومسلم وغیرہ میں جو لفظ’’طعام ‘‘یعنی کھانا ہے اِس لفظ کے عموم کو پیش نظر رکھتے ہوئے بیشمار ائمہ وفقہاء،محدثین وعلما ء اور مفتیانِ کرام نے لکھا ہے کہ افضل تو یہی ہے کہ ان مذکورۂ اولیٰ 6 چیزوں سے ہی صدقہ نکالا جائے کیونکہ یہ نصوصِ صحیحہ سے ثابت ہیں البتہ اگر کسی علاقے کی غذاء ان چیزوں کے علاوہ کوئی اور چیز ہوتو اُس سے بھی صدقۂ فطر ادا کرسکتے ہیں لہٰذا جن علاقوں میں چاول،چنا،جوار،مکئی،باجرہ،ماش،مٹر،انجیر اور خشک توت وغیرہ بطورِ غذااستعمال ہوتے ہوں تو وہاں کے لوگ ان اشیاء سے بھی فطرانہ نکال سکتے ہیں۔
بخاری ومسلم کی جو احادیث ہم نے بیان کی ہیں اُن میں ذکر ہے کہ فطرانہ تمام چھوٹے بڑے، مذکر ومؤنث اور آزاد وغلام مسلمان پر فرض ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ غلام اپنا صدقہ خود نکالے مگر مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے: ’’(مالک پر) اپنے غلام کی زکوٰۃ نکالنا ضروری نہیں سوائے صدقہ فطر کے۔‘‘ اس سے معلوم ہوگیا کہ غلام کا صدقۂ فطر اُسکا مالک نکالے گا اور جمہور اہل ِ علم کا یہی مسلک ہے اور اُنہی احادیث میں’’من المسلمین‘‘کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ صدقہ صرف مسلمانوں پر ہے۔ اگر کسی کا غلام یا بیوی اہلِ کتاب کافر ہوتو اُن کی طرف سے صدقہ نہیں دیا جائیگا اور اس پر تمام مذاہب ِ اہلِ سنت کا اتفاق ہے البتہ اگر کوئی شخص وجوب کے نظریہ سے نہیںمحض نفلی طور پر غیر مسلم بیوی یا خادم کی طرف سے صدقہ فطرنکال دے تو کوئی مانع نہیں کیونکہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اپنے خادموں کودیا کرتے تھے اور یہی حکم ان خادموں کا بھی ہے جو گھروں میں کام کرنے والے ہیں کہ اُن کی طرف سے گھر والا صدقہ ادا کرے گا۔وہ مسلمان ہے تو واجب ہے اور اگر غیر مسلم ہے تو مالک کو اختیار ہے۔ وہ بچہ جو عید کی رات پیدا ہوجائے جسے چاندرات بھی کہا جاتا ہے، اُسکے بارے میں ائمہ کے2فریق ہیں۔امام ثوریؒ، احمدؒ، اسحاق ؒ، قولِ جدید میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالک ؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا واجب نہیں جبکہ اما م ابوحنیفہؒ،لیثؒ،قولِ قدیم میں امام شافعیؒ اور ایک روایت میں امام مالکؒکے نزدیک اُس بچے کا فطرانہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔اس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ فریقِ اول کے نزدیک فطرانے کے وجوب کا وقت رمضان کے آخری دن کا غروبِ آفتاب ہے جبکہ فریقِ ثانی کے نزدیک وقتِ وجوب یومِ عید کا طلوعِ فجر ہے۔بہر حال اگر کسی کے یہاں ایسی صورتِ حال پیدا ہوجائے تو فطرانہ ادا کردینے میں ہی احتیاط ہے۔
وجوباً نہ سہی نفلی ہی ہو جائے گا اور ا ختلاف سے بھی نکل جائے گا۔ اب رہا یہ مسئلہ کہ فطرانے کی مقدار کتنی ہے؟ تو اس سلسلہ میں بخاری ومسلم کی احادیث میں ایک صاع کا ذکر ہے اور گندم کے بارے میں نبی ﷺ سے کوئی صحیح حدیث ثابت نہیں البتہ بعض مرسل روایات اور صحابہ کرام ؓکے ارشادات سے باقی اشیاء کی نسبت گندم کا نصف صاع ہونا ملتا ہے لیکن امام مالکؒ،شافعیؒ،احمدؒ،اسحاقؒ اور بعض دوسرے ائمہ کے نزدیک بخاری ومسلم میں مذکور لفظ’’ طعام‘‘ میں ہی گندم بھی آجاتی ہے اور طعام سے ایک صاع فطرانہ صحیح احادیث میں ثابت ہے لہٰذا گندم کا بھی ایک صاع ہی نکالنا ضروری ہے البتہ امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک گندم کانصف صاع بھی کافی ہے اور اُن کا استدلال جن روایات سے ہے محدثین نے انکی اسناد پر تنقید کی ہے لہٰذا دیگر ائمہ انہیں قابلِ حجت نہیں مانتے۔بہرحال یہ ائمہ اور اہلِ علم کا ایک علمی اختلاف ہے اور ہمارے لئے اِس اختلاف سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ زیادہ مقدار کو لے لیں جس سے یقینااجروثواب میں بھی اضافہ ہوگا اور کم مقدار اُس میں آہی جائیگی۔
امام محمد بن علی شوکانیؒ نے نیل الاوطار میں اور برصغیر کے معروف محدّث علامہ عبدالرحمن مبارکپوریؒ نے تحفہ الاحوذی شرح ترمذی میں ایک صاع کو ہی راجح اور زیادہ قرین احتیاط قراردیا ہے۔ غلے کی تمام اقسام سے صدقۂ فطرادا کیا جاسکتا ہے اور جائز ہے لیکن کس چیز کا صدقہ نکالنا افضل ہے؟ اس سلسلہ میں ائمہ کرام ؒ کی مختلف آراء ہیں۔امام ابوحنیفہ ؒکے نزدیک ہر اُس چیز سے صدقہ نکالنا افضل ہے جو سب سے قیمتی اور مہنگی ہو۔امام شافعی ؒکے نزدیک گندم سے صدقہ فطر نکالنا افضل ہے(چاہے وہ دوسری اشیاء سے مہنگی ہویا سستی)اور امام مالکؒ وامام احمد ؒکے نزدیک کھجور کا صدقہ نکالنا سب سے افضل ہے۔یہ اختلافِ رائے صرف فضیلت میں ہے ،جو از وعدمِ جواز میں نہیں بلکہ تمام ائمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ جس چیز سے بھی صدقۂ فطر نکالنا چاہے نکال سکتا ہے۔
صدقۂ فطر کی ادائیگی کب کی جائے؟
اس سلسلہ میں بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے: ’’(نبی ﷺنے صدقہ فطر کے بارے میں)حکم فرمایا کہ لوگوں کے نمازِ عید کی طرف نکلنے سے پہلے پہلے ادا کردیا جائے۔‘‘ ابوداؤد،ابن ماجہ اور دارقطنی میں ہے: ’’جس نے عید کی نماز سے قبل فطرانہ ادا کیا تو یہ قبول ہونے والی زکوٰۃ ہے اور جس نے یہ صدقہ نماز کے بعد ادا کیا تو وہ محض صدقوں میںسے ایک صدقہ ہے۔‘‘ اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ فطرانہ نماز سے پہلے ہی ادا کرنا ضروری ہے ۔
اور ائمہ اربعہ سمیت جمہور کے نزدیک عید کے بعد فطرانہ ادا کرنا اگرچہ صحیح ہے لیکن مکروہ ہے اور علامہ ابن حزم ؒکے نزدیک فطرانہ عید سے قبل ادا کرنا واجب اوربعد میں ادا کرنا حرام ہے اور امام شوکانی ؒنے بھی اِسی مسلک کی تائید کی ہے۔ بخاری شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے: ’’صحابہ کرامؓ عیدالفطر سے ایک یا 2دن قبل ہی صدقہ فطر ادا کردیا کرتے تھے۔‘‘
امام بخاری ؒ کے نزدیک عید سے ایک2 دن قبل صدقہ جمع کرنا جائز ہے، فقراء کو دینا جائز نہیں اور حضرت ابنِ عمر ؓ کی روایت میں جو الفاظ ہیں کہ صحابہ کرام ؓ عید سے 2 ایک دن پہلے صدقہ دیدیا کرتے تھے اسکے بارے میں انکا کہنا ہے کہ لوگ پیشگی صدقہ جمع کروادیا کرتے تھے، فقراء کو نہیں دیتے تھے۔ایسا ہی ابنِ عمر ؓ کی مؤطا امام مالک والی روایت سے بھی معلوم ہوتا ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدقۂ فطر اجتماعی طور پر ادا کرکے ایک جگہ جمع کرنا ہی مسنون طریقہ ہے اور زیادہ مفیدمطلب بھی ہے تاکہ جمع شدہ کل فطرانے سے مستحقین کو انکے حسبِ ضرورت دیا جاسکے اور انفرادی طور پر صدقہ نکالنے میں اس بات کا احتمال وامکان بھی رہتا ہے کہ کسی محتاج کے پاس تو بہت سارا صدقہ جمع ہوجائے اور کوئی بالکل ہی محروم رہ جائے۔ بہترین طریقہ فطرانہ کی اجتماعی ادائیگی ہے اور ایک جگہ جمع شدہ غلے اور نقدی کومتعلقہ افراد پہلے تو ان مستحقین میں تقسیم کردیں جو مقامی ہیں اور اگر مقامی فقراء سے کچھ بچ جائے تو وہ دیگر مصارف کیلئے بھی بھیجا جاسکتا ہے جیسے غریب ممالک کے دینی مدارس،غریب افراد یا دیگرمحتاجین ہیںکیونکہ ضرورت کی شکل میں مقامی فقراء کو صدقۂ فطر وزکوٰۃ دینے کی افضلیت مسلّم ہونے کیساتھ ساتھ تمام ائمہ وفقہا اور اہلِ علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر اہلِ بلد اموالِ زکوٰۃ وصدقات سے مستغنی ہوجائیں تو پھر دوسرے علاقوں یا ملکوں میں بھی بھیجا جاسکتا ہے۔ اجتماعی شکل میں زکوٰۃ وصدقات ادا کردینے پر،ادا کرنے والے فریضہ کی ادائیگی سے سبکدوش ہوگئے۔ اب اُن افراد کی ذمہ داری ہے کہ حقیقی مستحق افراد کو تلاش کرکے وہ اموال صرف کردیں اور انفرادی ادائیگی کی شکل میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ فطرانہ کی ادائیگی میں فقراء ومساکین کو تلاش کرے اور مستحق لوگوں تک پہنچائے، محض آسانی کی خاطر عادی اور پیشہ ور قسم کے گداگروں کو صدقہ تھما دینا مناسب نہیں کیونکہ دانہ گلِ گلزار تبھی بنتا ہے جب اُسے خاک میں پھینکا جائے اور اگر پتھریلی وبنجر زمین میں ڈال کر کونپلوں کا انتظار کیا جائے تو یہ ایک حماقت تو ہوسکتی ہے دانشمندی نہیں۔
Last edited: