• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقہ الفطر کے احكام و مسائل

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
فتاویٰ جات: فطرانہ
فتویٰ نمبر : 3105

صدقہ الفطر کے احكام و مسائل ؛
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
صدقہ فطر کے احکام و مسائل تفصیلاً بیان کریں ؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیلکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتهالحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جمہور محدثین اور فقہا کا طریقہ ہے کہ وہ زکوٰۃ کے مسائل تحریر کرنے کے بعد صدقۃ الفطر کے مسائل بھی کتاب الزکوٰۃ کے آخر میں بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس صدقہ کا تعلق رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ ہے، اس لیے ہم بھی جمہور کی اقتداء میں اب بالاختصار صدقۃ الفطر کے مسائل بیان کرتے ہیں۔

وجہ تسمیہ:
فطر کا معنی روزہ کھولنا یا روزہ ترک کرنا ہے، چونکہ یہ صدقہ رمضان المبارک کے روزے پورے کرنے کے بعد ان کے ترک پر دیا جاتا ہے، لہٰذا صدقۃ الفطر کہلاتا ہے۔

صدقۃ الفطر فرض ہے:
جمہور علماء کے نزدیک صدقۃ الفطر کا دا کرنا فرض ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی صحیح میں فرماتے ہیں:
((بَابُ فَرْضٍ صَدَقَة الْفِطْرِ وَرَأیَ اَبُو الْعَالِیَة وَعَطَائٔ وَابْنُ سِیْرِیْنَ صَدَقَة الْفِطْرِ فَرِیْضَة))
’’صدقۃ الفطر کی فرضیت کا بیان، امام ابو العالیہ، عطاء اور ابن سیرین صدقۃ الفطر کو فرض سمجھتے تھے۔‘‘
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں، امام صاحب نے ان تین ائمہ کا نام اس لیے لیا ہے کہ انہوں نے صدقۃ الفطر کی فرضیت کا بیان، امام بو العالیہ، عطاء اور ابن سیرین صدقۃ الفطر کی فرضیت کی تصریح کی ہے، ورنہ ابن المنذر نے تو اس کی فرضیت پر اجماع نقل کیا ہے، ہاں حنفیہ اسے اپنے مزعومہ قاعدے کے مطابق واجب کہتے ہیں، مالکیہ میں سے اشہب اور بعض اہل ظاہر نے اس کو مسنت مؤکدہ کہا ہے، مگر پہلا قول صحیح ہے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی فرضیت ثابت کرنے کے لیے مذکورہ بالا باب میںحضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث درج کی ہے۔
((عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة الْفِطْرِ مِنْ تََمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ عَلَی الْعَبْدِ وَالْحُرِّ وَالذَّکَرِ وَالْاُنْثٰی وَالصَّغِیْرِ وَالْکَبِیْرِ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ وَاَمَرَ بِھَا اَنْ تُؤَدّٰی قَبْلَ خُرُوْجِ النَّاسِ اِلَی الصَّلٰوة))
’’یعنی آنحضرتﷺ نے آزاد، غلام، مرد ، عورت اور ہر چھوٹے بڑے مسلمان پر ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو بطور صدقۃ الفطر ادا کرنا فرض کیا ہے، اور اسے لوگوں کے نماز کی طرف جانے سے پہلے نکالنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
اس حدیث میں آنحضرتﷺ نے صدقۃ الفطر کی فرضیت کی تصریح فرمائی ہے، اسے زکوٰۃ الفطر سے تعبیر کرنے میں بھی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہے۔

صدقۃ الفطر کن چیزوں سے دیا جائے:
جن غلہ جات کو انسان بطور خوراک استعمال کرتا ہے، ان سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتا ہے، آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عموماً جو، کھجور، منقہ اور پنیر کھاتے تھے، اس لیے آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اجناس سے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں، کہ ہم رسول اللہﷺ کے زمانہ میں عید الفطر کے دن (فی کس) کھانے کا ایک صاع دیا کرتے تھے، اور اس وقت ہمارا کھانا جو ، کھجور، منقہ اورپنیر پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ (بخاری)
ہمارے ملک میں گیہوں، چنا، جو ، مکی، باجرہ، جوار وغیرہ اجناس خوردنی ہیں، اور لوگ انہیں خوراک کے طور پر استعمال کرتے ہیں، لہٰذا ان میں جو جنس عموماً زیادہ استعمال کرتے ہیں، اس سے صدقۃ الفطر ادا کر سکتے ہیں۔

ہر جنس سے صدقۃ الفطر ایک صاع متعین ہے:
جس جنس سے بھی صدقۃ الفطر دیا جائے، شرعاً اس کی مقدار ایک صاع مقرر ہے، اس سے کم دینے سے صحیح طور پر صدقۃ الفطر ادا نہیں ہو گا، بعض صحابہ نے گیہوں کو گراں سمجھ کر نصف صاع دینے کا فتویٰ دیا، چونکہ انہوں نے ایسا فتویٰ اپنے اجتہاد سے دیا تھا، آنحضرتﷺ کی طرف سے ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا، اس لیے بعض دوسرے صحابہ نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا، اور صاف صاف کہہ دیا کہ ہم جس جنس سے بھی صدقہ دیں گے، پورا صاع ہی دیں گے کیونکہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں یہی دستور تھا، صحیح مسلم ص۳۱۸ ج۱ میں ہے۔
((عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیْ قَالَ کُنَّا نُخْرِجُ اِذَا کَانَ فِیْنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة اَلْفِطْرِ عَنْ کُلِّ صَغِیْرِ وَکَبِیْرِ حُرِّ اَوْ مَمْلُوْکِ صَاعًاس من طَعَامٍ اَوْ صَاعًا مِنْ اَقِطٍ او صَاعاً مِنْ بِشَعِیْرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ زَبِیْبٍ فَلَمْ نَزَلْ نُخْرِجُه حَتّٰی قَدِمَ عَلَیْنَا مُعَاوِیَة بْنُ سُفْیَانَ حَاجًا اَوْ مُعْتَببِرًا فَکَلَّمَ النَّاَ عَلَی الْمِنْبَرِ فَکَانَ فِیْمَا کَلَّمَ بِه النَّاسَ اَنْ قَالَ اِنَّیْ اَرٰی اَنَّ مُدَّیْنِ مِنْ سَمَرَائِ الشَّامِ تَعْدِلُ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ فَاَخَذ النَّاسُ بِذٰلِکَ قَالَ أَبُوْ سَعِیقدٍ فَاَمَّا اَنَا فَلَا اَزَالُ اُخْرِجُه کَمَا کُنْتُ اُخْرِجُه اَبَدًا مَّا عِشْتُ))
’’حضرت ابو سعید خدری کا بیان ہے، ہم آنحضرتﷺ کی موجودگی میں اپنے ملک کی خوراک سے جو، کجھور، منقی، جو اور پنیر وغیرہ پر مشتمل تھی، ایک صاع ہی صدقۃ الفطر ادا کیا کرتے تھے، آنحضرتﷺ کے بعد بھی ہمارا یہ معمول تھا، تاآنکہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کے لیے آئے، تو انہوں نے منبر پر خطبہ کے دوران کہا، میری رائے میں شامی گیہوں کے دو (نصف صاع قیمت میں) کھجور کے ایک صاع کے برابر ہیں، چنانچہ لوگوں نے اس پر عمل شروع کر دیا، مگر میں توجب تک زندہ ہوں، آنحضرتﷺ کے زمانہ کے دستور کے مطابق (جس جنس سے بھی دوں گا) ایک صاع ہی دوں گا۔‘‘
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ؒ
((قَالَ اَمَرَ النَّبِیُّ ﷺ بِزَکٰوة الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمَرٍ اَوْ صَاعًا مِنْ شَعِیْرٍ قَالَ عَبْدُ اللّٰہِ فَجَعَلَ النَّاسُ عِدْلَه مُدَّیْنِ مِنْ حِنْطَة))(بخاری شریف)
’’یعنی آنحضرتﷺ نے کھجور سے ایک ایک صاع صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا، حضرت عبدا للہ فرماتے ہیں، لیکن بعد میں لوگوں نے ایک صاع کے بدلے گیہوں کے دو مد (نصف صاع) دینے شروع کر دئیے۔‘‘
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک صدقۃ الفطر کی صحیھ اور شرعی مقدار خواہ وہ کسی جنس سے ادا کیا جائے، ایک صاع مقرر ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے گیہوں سے نصف صاع ادا کرنے کو لوگوں کی اپنی مرضی اورا پنی رائے سے تعبیر کیا ہے، ہاں سنن کی بعض احادیث میں ((نِصْفُ صَاعٍ مِنْ بُرٍّ یا نِصْفُ صَاعٍ مِنْ قَمْحٍ))کے الفاظ بھی آئے ہیں، لیکن یہ احادیث محدثین کے نزدیک پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتیں، لہٰذا قالب اعتبار نہیں، امام بیہقی فرماتے ہیں، آنحضرتﷺ سے ایک صاع گیہوں دینے کی احادیث بھی آئی ہیں، اور نصف صاع دینے کی بھی، مگر ان میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے۔ (سبل السلام ص ۱۹۲ ج۲ طبع مصر)

صدقۃ الفطر میں غلہ کی قیمت دینا بھی جائز ہے:
اگر کسی شخص کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کے لیے غلہ موجود نہیں ہے، جیسا کہ عموماً شہری آبادی کی حالت ہوتی ہے، تو یہ ضروری نہیں کہ وہ بازاور سے غلہ خرید کر صدقۃ الفطر ادا کرے، بلکہ سال یا سال کا اکثر حصہ جس غلہ کو وہ خوراک کے طور پر استعمال کرتا ہے، فی کس ایک صاع کے حساب سے اس کی قیمت ادا کر دے، مثلاً ایک شخص کے گھر کے چھوٹے بڑے دس افراد ہیں، اور وہ سال یا سال کا بیشتر حصہ گیہوں یا چاول استعمال کرتا ہے، تو وہ صدقۃ الفطر میں ۱۰ صاع گیہوں یا ۱۰ صاع چاول کی بازار کے نرخ کے مطابق قیمت ادا کر دے، مگر یہ بالکل غیر مناسب ہے، کہ اس کی عام خوراک تو گیہوں یا چاول ہوں، لیکن وہ صدقۃ الفطر میں معمولی قسم کا غلہ یا اس کی قیمت ادا کرے۔

کون سا صاع معتبر ہے؟
مختلف ملکوں میں جنس یا غلہ ماپنے کے لیے مختلف پیمانے استعمال ہوتے کیے جاتے ہیں، مگر صدقۃ الفطر زکوٰۃ، کفارہ وغیرہ شرعی امور میں وہی پیمانہ استعمال کیا جائے گا، جسے شارع علیہ السلام نے مقرر کیا ہے، اور جو اسلامی لٹریچر میں صاع النبیﷺ کے نام سے مشہور ہے، کتب احادیث میں بصراحت موجود ہے کہ آنحضرتﷺ کا صاع ((خَمْسَة اَوْ طَالٍ وَثُلُثُ رِطْلٍ)) یعنی پانچ آدھ سیر، اور ایک آدھ سیر کا تہائی حصہ، ہمارے وزن کے مطابق ایک صاع تقریباً دو سیر گیارہ چھٹانک کا ہوتا ہے، آنحضرتﷺ اور خلفائے راشدین کے زمانہ میں صدقۃ الفطر اور کفارہ وغیرہ میں یہی صاع استعمال ہوتا تھا، اب بھی ان شرعی امور میں اسی پیمانہ کا استعمال سنت ہے، دوسرے چھوٹے بڑے ملکی یا غیر ملکی پیمانوں کا کچھ اعتبار نہیں ہوتا۔ (نیل الاوطار طبع مصر ص ۲۵۶ ج۲)

صدقۃ الفطر کن لوگوں کی طرف سے ادا کیا جائے:
صدقۃ الفطر کنبہ کے چھوٹے بڑے، مرد، عورت اور آزاد، غلام ہر فرد کی طرف سے ادا کیا جاتا ہے، ان میں شیر خوار بچوں سے لے کر شیخ فانی تک سب ہی لوگ شامل ہیں، کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے غلام، آزاد، مرد و عورت اور چھوٹے بڑے ہر فرد پر جو یا کھجور سے ایک صاع صدقہ الفطر ادا کیا کرتے تھے، ایک سال مدینہ میں کھجوریں پیدا نہ ہوئیں، تو انہوں نے اس سال جو سے صدقۃ الفطر ادا کیا۔ (بخاری شریف)
آنحضرتﷺ کے اس فرمان کے پیش نظر کنبہ کے رکن اعلیٰ کو اپنے بیوی، بچوں، غلاموں اور ان بے کس محتاجوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرنا پڑے گا، جن کے پاس کوئی مال نہیں ہے، اور ان کی خوراک کا اس نے ذمہ لے رکھا ہے۔

ملحوظ:
کھیتی باڑی، دوکان داری یا گھر کے کام کاج کے لیے رکھے ہوئے ملازم، غلاموں کے حکم میں نہیں ہیں، یہ اپنا اورا پنے بال بچوں کا صدقہ خود ادا کرین گے، آقا پر ان کا صدقہ لازم نہیں ہے۔

یتیم اور دیوانے کا صدقہ
اگر یتیم اور مجنون صاحب مال ہیں، تو ان کے مال کی زکوٰۃ اور صدقۃ الفطر ان کے مال سے ادا کیا جائے، امام بخاری فرماتے ہیں:
((وَرأیَ عَمَرُ وَعَلِیٌّ وَابْنُ عَمَرَ وَجَابَرٌ عَائِشَة وَطَاوٗسٌ وَعَطَائٌ وَابْنُ سِیْرِیْنَ اَنْ یُزَکّٰی مَالُ الْیَتِیْمَ وَقَالَ الزُّھْرِیُّ یُزَکّٰی مَالُ الْمَجْنُوْنِ))
’’یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ، جابر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، طاوس، عطاء اور ابن سیرین کا مذہب یہ ہے کہ یتیم کے مال سے زکوٰۃ دی جائے، اور امام زہری کہتے ہیں کہ دیوانے کے مال کی زکوٰۃ دی جائے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ جب ان کے مال سے زکوٰۃ دینا ضروری ہے، تو صدقۃ الفطر کا بھی یہی حکم ہے، چنانچہ ان کے مال سے صدقۃ الفطر نکالا جائے گا، ہاں اگر یہ لوگ محتاج ہیں، ان کے پاس کوئی مال نہیں، تو ان کی طرف سے صدقۃ الفطر وہ شخص ادا کرے، جس نے ان کے طعام و خوراک کا انتظام اپنے ذمہ لے رکھا ہے کیونکہ ایک حدیث میں آیا ہے، اگرچہ کمزور ہے۔
((اَدُّوْا صَدَقَة الْفِطْرِ عَمَّنْ تَمَوَّنُوْنَ)) (دارقطنی، بیہقی) (فتح الباری، سبل السلام)
’’یعنی ان لوگوں کی طرف سے صدقۃ الفطر ادا کرو جن کے اخراجات نان و نفقہ تم نے برداشت کر رکھے ہیں۔‘‘

صدقۃ الفطر نماز عید سے پہلے دیا جائے:
صدقۃ الفطر نماز عید سے پہلے ادا کرنا ضروری ہے، آنحضرتﷺ نے صحابہ کرام کو اسی کی ہدایت فرمائی ہے، اور صحابہ کرام تازندگی اسی پر کاربند رہے ہیں، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے لوگوں کے نماز کے لیے نکلنے سے پہلے صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ (بخاری شریف)
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی ا للہ عنہ سے روایت ہے:
((فَرَضَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ زَکٰوة الْفِطْرِ طُھْرَة لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفْثِ وَطُعْمَة لِلْمَسَاکِیْنِ فَمَنْ اَدَّاھَا قَبْلَ الصَّلٰوة فَہِیَ زَکٰوة مَْبُوْلَة وَمَنْ اَدَّاھَا بَعْدَ الصَّلٰوة فَہِیَ صَدَقَة مِنَ الصَّدَقَاتِ)) (ابو داود، ابن ماجہ)
’’آنحضرتﷺ نے روزہ دار کے روزہ کو بے ہودہ گوئی اور فحش کلامی سے پاک کرنے اور غرباء و مساکین کی خوراک مہیا کرنے کے لیے صدقۃ الفطر فرض کیا ہے، جو شخص نماز سے پہلے یہ صدقہ ادا کرے، اس کا صدقہ قبول ہے (اس کے لیے یہ دونوں مقصد حاصل ہو جاتے ہیں) اور جو شخص نماز کے بعد ادا کرے، تو (صدقۃ الفطر ادا نہ ہو گا بلکہ) یہ دوسرے نفلی صدقات کی طرح ایک صدقہ ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے بعد صدقۃ الفطر ادا کرنا نہ دینے کے برابر ہے، البتہ اگر کسی نے گھر کے تمام افراد کی طرف سے فی کس ایک صاع کے حساب سے غلہ یا اس کی قیمت الگ کر دی ہے، کچھ مساکین میں تقسیم کر دی ہے، اور کچھ بعض غرباء کو دینے کے لیے رکھ لی ہے، جو اس وقت وہاں موجود نہیں ہیں، تو میں کوئی مضائقہ نہیں، نماز کے بعد ادا کرے۔

غرباء بھی صدقۃ الفطر ادا کریں:
بعض ائمہ کے نزدیک صدقۃ الفطر صرف اغنیاء پر واجب ہے، غرباء پر نہیں، اور یہ مذہب احناف کا ہے، ہدایہ میں ہے:
((صَدَقَة الْفِطْرِ وَاجِبَة عَلَی الْحُرِّ الْمُسْلِمِ اِذَا کَانَ مَالِکًا لِمَقْدَارِ نِصَابٍ فَاضِلًا عَنْ مَسْکِیْنِه وَثِیَابِه وَاَثَاثِه وَفَرَسِه وَسَلَاحِه وَعَبِیْدِہٖ))
’’یعنی صدقۃ الفطر ہر اس آزاد مسلمان پر و اجب ہے، جو مکان، پارجات، گھر کے اثاثے، گھوڑے، ہتھیاروں اور خدمت کے غلاموں کے علاوہ کسی قسم کے نصاب کا مالک ہے۔‘‘
اس کے برعکس دوسرے ائمہ اور محدثین کے نزدیک صدقۃ الفطر کے وجوب کے لیے صاحب نصاب ہونا ضروری نہیں، بلکہ صدقۃ الفطر ہر اس شخص پر واجب ہے، جس کے پاس صدقۃ الفطر کے علاوہ ایک دن اور رات کی خوراک موجود ہے، کیونکہ صدقۃ الفطر کا مقصد جس طرح شارع علیہ الصلاۃ و السلام نے یہ بیان فرمایا ہے، کہ اس سے غرباء و مساکین کے لیے خوراک مہیا ہو، اس طرح یہ بھی فرمایا ہے ، کہ اس سے روزہ لغو و رفث سے پاک و صاف وہ جائے، اور روزہ کی تطہیر امیر و غریب دونوں کے لیے ضروری ہے، نیز جن احادیث سے صدقۃ الفطر کا وجوب اور فرضیت ثابت ہوتی ہے، ان میں امیر و غریب کا کوئی امتیاز نہیں کیا گیا، بلکہ احادیث میں تو صراحۃً امیر و غریب دونوں کو صدقۃ الفطر ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ ابو داود میں ہے:
((اَمَّا غَنِیْمُّکُمْ فَیُزَکِیَّه اللّٰہُ وَاَمَّا فَقِیْرُکُمْ فَیَرَدَّ اللّٰہُ عَلَیْه اَکْثَرٌ مِمَّا اَعْطَاہُ))
’’یعنی ہر امیر و غریب مسلمان صدقۃ الفطر ادا کرے، اللہ تعالیٰ غنی کے روزوں کو لغو و رفث سے پاک کر دے گا۔ اور فقیر جتنا دے گا، اس سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس کے گھر لوٹا دے گا، (اور اس کے روزوں کی تطہیر بھی ہو جائے گی)۔‘‘
اس حدیث کے تحت امام خطابی ابو داود کی شرح معالم میں لکھتے ہیں، یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے ہے کہ اگر فقیر کے پاس صدقۃ الفطر ادا کرنے کی گنجائش ہے، تو اس پر صدقہ دینا لازم ہے، کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ فقیر جتنا دے گا، اللہ تعالیٰ اس کے گھر اس سے زیادہ لوٹا دے گا، اس میں جہاں آپ نے اسے دوسروں سے صدقہ لینے کی اجازت دی ہے، وہاں اس پر اپنی طرف سے صدقہ ادا کرنا واجب ٹھہرایا ہے، امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، کہ یہ دوسرا مسلک ہی حق اور صحیح ہے، اور نصوص شرعیہ کا یہی تقاضا ہے۔ (نیل الاوطار، طبع مصر ص ۲۵۷ جلد۴)

فتاویٰ علمائے حدیث
جلد 7 ص 59۔64
محدث فتویٰ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صدقہ فطر کے مستحق کون ہیں ؟
عن عكرمة عن ابن عباس قال:‏‏‏‏ " فرض رسول الله صلى الله عليه وسلم زكاة الفطر طهرة للصائم من اللغو والرفث وطعمة للمساكين من اداها قبل الصلاة فهي زكاة مقبولة ومن اداها بعد الصلاة فهي صدقة من الصدقات ".
(سنن ابی داود :حدیث نمبر: 1609 )
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر صائم کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔
(تخریج دارالدعوہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۷)، ( تحفة الأشراف :۶۱۳۳) (حسن)

علامہ عظیم آبادی عون المعبود میں اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’ وَفِيهِ دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْفِطْرَةَ تُصْرَفُ فِي الْمَسَاكِينِ دُونَ غَيْرِهِمْ مِنْ مَصَارِفِ الزَّكَاةِ ‘‘
یعنی اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ صدقۃ الفطر صرف مساکین ،غرباء کو دیا جائے گا ،اور زکاۃ کے دیگر شرعی مصارف کو نہ ملے گا ،،انتہی

اسلئے صرف مساکین و غرباء ۔۔وہ بھی سب سے پہلے رشتہ دار اور اپنے علاقے میں موجود مستحق لوگ،

اور امام بخاری نے صحیح البخاری میں باب منعقد کیا ہے :
باب الزكاة على الأقارب:
باب: اپنے رشتہ داروں کو زکوٰۃ دینا

وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ لَهُ أَجْرَانِ أَجْرُ الْقَرَابَةِ وَالصَّدَقَةِ.
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی تھی) اس کو دو گنا ثواب ملے گا ‘ ناطہٰ جوڑنے اور صدقے کا۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
چاول بطور صدقہ فطر ادا کرنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سوال :
بعض علماء کہتے ہیں اگر وہ اجناس موجود ہوں جن کا حدیث میں ذکر آیا ہے، تو چاول کو بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز نہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟

الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!


بعض علماء کہتے ہیں کہ جب تک یہ پانچ اجناس گندم، کھجور، جو، کشمکش اور پنیر موجود ہوں، تو دیگر اجناس سے صدقہ فطر ادا کرنا جائز نہیں لیکن یہ قول ان علماء کے قول کے بالکل خلاف ہے جو یہ کہتے ہیں کہ صدقہ فطر ان اجناس کے علاوہ دیگر اجناس سے حتیٰ کہ نقدی کی صورت میں بھی ادا کرنا جائز ہے، گویا اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ صحیح قول یہ ہے کہ صدقہ فطر ہر اس جنس سے ادا کرنا جائز ہے جو آدمیوں کے کھانے کے کام آتی ہو جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

«کُنَّا نُخْرِجهاُ علی عَهْدِ النبی ِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍٍ وَکَانَ طَعَامَنَا التمرو الشَّعِيرُ وَالزَّبِيبُ وَالْأَقِطُ» صحيح البخاری، الزکاة، باب الصدقة قبل العبد، ح: ۱۵۱۰۔
’’ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں کھانے کی اشیاء میں ایک صاع بطور صدقہ فطر ادا کیا کرتے تھے۔ اس وقت ہمارا کھانا کھجورجو، کشمکش، اورپنیر تھا۔‘‘

راوی نے یہاں گندم کا ذکر نہیں کیا اور مجھے نہیں معلوم کہ کسی صحیح صریح حدیث میں صدقہ فطر کے ضمن میں گندم کا بھی ذکر آیا ہو لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صدقہ فطر میں گندم دینا بھی جائز ہے، پھر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:

«فَرَضَ رَسُولُ اللّٰهِ زَکَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاکِيْنِ» سنن ابن ماجه، الزکاة، باب صدقة الفطر، ح: ۱۸۳۷ وسنن ابی داود، الزکاة، باب زکاة الفطر، ح: ۱۶۰۹۔
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کو فرض قرار دیا ہے جو روزہ دار کو بے ہودہ باتوں اور فحش کاموں سے پاک کر دیتا ہے اور مسکینوں کے لیے کھانا ہے۔‘‘

لہٰذا صحیح بات یہ ہے کہ جو بھی آدمیوں کا کھانا ہو، اسے بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے، خواہ وہ ان پانچ اجناس سے نہ بھی ہو، جن کو فقہاء نے بیان کیا ہے، کیونکہ یہ اجناس جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، ان میں سے صرف چار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں لوگوں کے کھانے کے طور پر استعمال ہوتی تھیں، لہٰذا چاول کو بطور صدقہ فطر ادا کرنا جائز ہے بلکہ میری رائے میں عہد حاضر میں چاول کو بطور صدقہ فطر دیناافضل ہے کیونکہ یہ کم خرچ کھانا ہے اورلوگوں کے ہاں زیادہ پسندیدہ ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حالات مختلف ہو سکتے ہیں، کچھ بادیہ نشین لوگوں کے ہاں کھجور زیادہ پسندیدہ ہو سکتی ہے، اس صورت میں انسان انہیں کھجور دے اور دوسری جگہ کچھ لوگوں کے ہاں کشمش زیادہ پسندیدہ ہو سکتی ہے، وہاں پر انہیں کشمش دی جائے، اسی طرح پنیر اور دیگر چیزوں کی بابت کیا جا سکتا ہے۔ پس ہر قوم کے نزدیک افضل چیز وہ ہوگی، جو ان کے لیے زیادہ منفعت بخش ہو۔

وباللہ التوفیق
فتاویٰ ارکان اسلام
زکوٰۃ کے مسائل

محدث فتویٰ
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
720159144237.jpg


سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر کا مقصد روزہ دار کو لغو اور بیہودہ باتوں سے پاک کرنے کے لیے اور مسکینوں کے کھانے کے لیے فرض کیا ہے، لہٰذا جو اسے (عید کی) نماز سے پہلے ادا کرے گا تو یہ مقبول صدقہ ہو گا اور جو اسے نماز کے بعد ادا کرے گا تو وہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہو گا۔
( سنن ابن ماجہ/الزکاة ۲۱ (۱۸۲۷)، ( تحفة الأشراف :۶۱۳۳) (اسنادہ حسن)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
الحمد لله رب العالمين و الصلاة والسلام على سيد المرسلين
"زكاة الفطر فرضها الله جل وعلا على لسان رسوله محمد صلى الله عليه وسلم على الرجال والنساء والصغير والكبير والحر والمملوك ، وأمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تؤدى قبل خروج الناس إلى صلاة العيد ، فالذي لا يجد حوله فقراء يلزمه أن يقدمها إلى فقراء آخرين في القرى المجاورة ويسارع إلى إخراجها قبل صلاة العيد ، وليس له تأخيرها إلى ما بعد صلاة العيد ؛ لأن هذا خلاف ما أمر النبي صلى الله عليه وسلم .
وقد أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن تؤدى قبل خروج الناس ، وقال : (مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنْ الصَّدَقَاتِ) ، فالواجب عليك أيها السائل أن تُعنى بهذا الأمر وأن تخرجها قبل صلاة العيد ولو قبل العيد بيوم أو يومين أو ثلاثة ، لا بأس في اليوم الثامن والعشرين والتاسع والعشرين والثلاثين .
وكان ابن عمر رضي الله عنهما يخرجها قبل العيد بيومين وربما أخرجها قبل العيد بثلاثة أيام رضي الله عنه ، وهكذا الصحابة .
والمقصود : أنه لا حرج في أن يبدأ إخراجها من اليوم الثامن والعشرين ويستمر إلى صلاة العيد ، فليس لك أن تؤخرها إلى ما بعد الصلاة ، وإذا كان مكانك ليس فيه فقراء فاطلب الفقراء في مكان آخر ولو بالسفر" انتهى .
سماحة الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله

"فتاوى نور على الدرب" (2/1209) .

الحمد للہ:

"فطرانہ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہر مرد، عورت، چھوٹے، بڑے، آزاد، اور غلام پر فرض کیا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسکے بارے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ لوگوں کے نماز کیلئے نکلنے سے قبل ادا کیا جائے، چنانچہ جس شخص کو اپنے اردگرد فقراء نہیں ملتے تو وہ کسی قریبی دوسری آبادی کے فقراء کو پہنچا دے، اور نماز عید سے قبل ادا کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ عید کی نماز کے بعد تک فطرانہ مؤخر کرنے کی اجازت نہیں ہے؛ اس لئے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مخالف ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ لوگوں کے عید نماز کیلئے نکلنے سے قبل ادا کرنے کا حکم دیا ہے، اور فرمایا:

(جس شخص نے نماز سے قبل فطرانہ ادا کردیا تو یہ مقبول فطرانہ ہے، اور جس نے نماز کے بعد ادا کیا تو یہ عام صدقات میں سے ایک صدقہ ہوگا)

اس لئے زکاۃ الفطر ادا کرنے والے کیلئے ضروری ہے کہ عید نماز سے قبل ادا کرنے کا اہتمام کرے، چاہے عید سے ایک ، دو ، یا تین دن پہلے ہی ادا کردے، چنانچہ اٹھائیس، انتیس یا تیس تاریخ کو فطرانہ ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما فطرانہ عید کے دن سے دو دن قبل ادا کیا کرتے تھے، اور بسا اوقات عید سے تین دن قبل بھی ادا کر دیتے تھے، اسی طرح دیگر صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔

مقصد یہ ہے کہ : اٹھائیس تاریخ سے انسان فطرانہ اداکرنا شروع کر کےعید کی نماز تک جاری رہ سکتا ہے، لیکن آپکے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ آپ عید کی نماز کے بعد تک فطرانہ مؤخر کریں، اور اگر آپکے علاقے میں فقراء نہیں ہیں تو کسی اور جگہ جاکر فقراء تلاش کریں، چاہے اس کے لئے سفر ہی کیوں نہ کرناپڑے"انتہی

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ .

فتاوى نور على الدرب" (2/1209)
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
زکاة فطر کے مسائل


اعداد: عبدالہادی عبدالخالق مدنی

زکاة فطر کی فرضیت :

ماہ رمضان مکمل ہونے پرصلاة عید کی ادائیگی سے قبل ہرمسلمان پر زکاة فطر کی ادائیگی فرض ہے ۔صوم رمضان کی فرضیت کے سال ہی ٢ھ میں اس کی مشروعیت ہوئی۔
بہت سارے مسلمان زکاة فطر کی ادائیگی میں غفلت ولاپرواہی سے کام لیتے ہیں جو یقیناً انتہائی افسوسناک حرکت ہے۔

زکاة فطر کا حکم:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر مسلمان پرخواہ چھوٹا ہو یا بڑا ، مرد ہو یا عورت، آزاد ہویا غلام زکاة فطر کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے ۔

«فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلاَةِ»([1])
سیدنا عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کا فطرہ ایک صاع کھجوریا ایک صاع جو، ہر آزاد وغلام، مردو عورت ، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر فرض قرار دیا ہے۔ نیز آپ نے حکم دیا کہ عید کے لئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے اسے ادا کر دیا جائے ۔

٭٭٭ ہرمسلمان کو اپنی طرف سے اور اپنے بیوی بچوں اور ان تمام لوگوں کی طرف سے جن کا نان ونفقہ اس پر لازم ہے زکاة فطر ادا کرنا چاہئے۔

زکاة فطر کی حکمت :

زکاۃ فطر میں بہت سی دینی واخلاقی اور اجتماعی حکمتیں ہیں، چند کا ہم مختصر طور پر ذکر کررہے ہیں۔

١۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی میں اﷲ کی نعمت کے شکریہ کا اظہار ہے کہ اس نے رمضان کے صیام وقیام کی تکمیل کی توفیق بخشی اور اس مہینہ میں نیک اعمال کرنے کی سہولت عطا فرمائی۔

٢۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے حالت صوم میں صادر ہوجانے والی کوتاہیوں، خامیوں، کمیوں، لغویات،نقائص اور گناہ کے کاموں سے پاکی ہوجاتی ہے۔

٣۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی فقراء اور مساکین کے ساتھ بہتر سلوک اور نیک رویہ کا مظہر ہے۔

٤۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے سخاوت وفیاضی اور ہمدردی وغمخواری کے بلند ترین اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔

٥۔ زکاۃ فطر کی ادائیگی سے عید کے پر مسرت موقعہ پر غریبوں، محتاجوں اور ضرورت مندوں کو بھیک مانگنے کی ذلت سے محفوظ رکھا جاتا ہے تاکہ وہ بھی امیروں اور دولت مندوں کے دوش بدوش عید کی خوشیوں میں شریک ہوسکیں اور عید سب کی عید ہو۔

٭٭٭عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.([2])

سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاة فطر کو صائم (روزہ دار ) کی لغو اور بیہودہ باتوں سے پاکی کے لئے اور مسکینوں کی خوراک کے لئے مقرر فرمایا۔ جس نے اسے صلاة عید سے پہلے ادا کیا تو اس کی زکاة مقبول ہے اور جس نے صلاة عید کے بعد ادا کیا تو وہ (زکاۃ فطر نہیں بلکہ) عام صدقوں کی طرح ایک صدقہ ہوگا۔

زکاة فطر میں کون سی جنس نکالنی چاہئے ؟ :

٭٭ زکاة فطر ان اجناس میں سے ہونا چاہئے جو انسانوں کی خوراک ہیں مثلا گیہوں ، جو ، کھجور، کشمش ، پنیر، چاول ، مکئی یا کوئی دیگر چیز جو انسانوں کی خوراک مانی جاتی ہے ۔

سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «كُنَّا نُخْرِجُ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ طَعَامٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ أَقِطٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ زَبِيبٍ»([3]) ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک صاع غلہ (کھانا)صدقۂ فطر نکالا کرتے تھے اور ان دنوں ہمارا غلہ (کھانا) جو،کشمش ، پنیر اور کھجور تھا۔

معلوم ہوا کہ:
١۔ جانوروں کا چارہ فطرہ میں نکالنا درست نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرہ مسکینوں کی خوراک کے لئے فرض کیا ہے نہ کہ چوپایوں کی خوراک کے لئے۔

٢۔آدمیوں کی خوراک کے علاوہ کپڑے، فرش، برتن اور سازوسامان وغیرہ بھی فطرہ میں نکالنا صحیح نہیں کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے غلہ میں متعین کیا ہے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ حدود سے تجاوزنہیں کیا جائے گا۔

٣۔ غلہ کی قیمت نکالنا بھی درست نہیں کیونکہ :

Œ۔یہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔

۔ قیمت نکالنا عمل صحابہ کے بھی خلاف ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم ایک صاع غلہ ہی نکالا کرتے تھے۔

Ž۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر مختلف اجناس میں متعین کیا ہے جن کی قیمتیں غالباً مختلف ہوتی ہیں ، اگر قیمت کا اعتبار ہوتا تو کسی ایک جنس کا ایک صاع واجب ہوتا اور دوسرے اجناس سے اس کی قیمت کے مطابق مقدار واجب ہوتی ۔

۔قیمت نکالنے سے فطرہ کی حقیقت ختم ہوجاتی ہے کیونکہ وہ ایک ظاہری شعار ہے جسے سب جانتے ہیں جبکہ قیمت نکالنے کی شکل میں وہ ایک مخفی صدقہ ہوجاتا ہے جسے صرف دینے اور لینے والے ہی جانتے ہیں([4])۔

زکاة فطر کب واجب ہوتا ہے؟ :

٭٭٭٭٭عید کی رات سورج ڈوبنے کے وقت صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے ۔اگر کوئی شحص غروب سے پہلے خواہ چند منٹ ہی پہلے انتقال کرجائے تو اس پر صدقۂ فطر واجب نہیں ،اور اگر غروب کے بعد انتقال ہوا خواہ چند ہی منٹ بعد تو صدقۂفطر نکالنا واجب ہے ۔اسی طرح اگر غروب سے پہلے بچہ کی پیدائش ہوئی تو اس کی طرف سے فطرہ نکالنا واجب ہے اور اگر غروب کے بعد پیدائش ہوئی تو واجب نہیں ۔

زکاة فطر ادا کرنے کا وقت :

٭فطرہ ادا کرنے کے دو اوقات ہیں ایک فضیلت کا وقت اور ایک جواز کا وقت ۔

فضیلت کا وقت عید کے دن صلاة عید سے پہلے کا ہے۔ لہذا افضل یہ ہے کہ عید کے دن صلاۃ عید سے پہلے زکاۃ فطر غریب کو دیا جائے۔

صحیح بخاری میں عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاة عید کے لئے لوگوں کے نکلنے سے پہلے زکاۃ فطر ادا کردینے کا حکم دیا۔ عن ابن عمر رضي الله عنهما : أن النبي صلى الله عليه و سلم أمر بزكاة الفطر قبل خروج الناس إلى الصلاة([5])۔

جواز کا وقت عید سے ایک یا دو دن پہلے کا ہے۔ لہذا ایک مسلمان کے لئے یہ جائز ہے کہ ایک یا دودن پہلے ہی زکاۃ فطر غریب کو پہنچادے۔ لیکن یاد رہے کہ اس سے پہلے اگر فطرہ دے دیا گیا تو ادا نہ ہوگا۔ اگر کسی نے اٹھائیس رمضان سے پہلے ہی فطرہ ادا کردیا تو قبل از وقت ادائیگی کی بنا پر فطرہ ادا نہ ہوگا، دوبارہ ادا کرنا پڑے گا۔

صحیح بخاری میں نافع رحمہ اﷲ سے روایت ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ چھوٹے اور بڑے سب کی طرف سے فطرہ نکالتے تھے یہاں تک کہ وہ میرے بیٹوں کی طرف سے بھی دے دیتے تھے۔ فطرہ ان لوگوں کو دیتے تھے جو اسے قبول کیا کرتے تھے نیز اسے عید الفطر سے ایک دن یا دو دن پہلے دے دیا جاتا تھا ۔ يقول نافع رحمه الله: فكان ابن عمر يعطي عن الصغير والكبير حتى إن كان يعطي عن بني . وكان ابن عمر رضي الله عنهما يعطيها الذين يقبلونها وكانوا يعطون قبل الفطر بيوم أو يومين([6])۔

جس طرح فطرہ قبل از وقت دینا جائز نہیں اسی طرح فطرہ کی ادائیگی میں کسی عذر کے بغیر صلاة عید پڑھ لینے تک تاخیر بھی جائز نہیں، اگر کسی نے دانستہ طور پر موخر کردیا تو قبول نہ ہوگا البتہ اگر کوئی شرعی عذر ہے تو حرج نہیں۔

زکاة فطر کی مقدار :

ہرفرد کی طرف سے ایک صاع غلہ صدقۂ فطر کی مقدار ہے۔ ایک صاع غلہ کا وزن اچھے گیہوں سے تقریباً ڈھائی کیلو گرام ہوتا ہے ۔ معلوم رہے کہ صاع ناپنے کا ایک پیمانہ ہے، ناپنے والی چیز کو جب وزن میں تبدیل کیا جائے گا تو مختلف چیزوں کا وزن اور بسا اوقات ایک ہی چیز کا وزن اس کی کیفیت بدل جانے سے مختلف ہوجاتا ہے۔ اسی لئے بطور احتیاط غریبوں کا خیال رکھتے ہوئے اگر کوئی تین کیلو غلہ ادا کردے تو زیادہ بہتر ہے۔

٭٭٭اگر کسی کے پاس وزن کرنے کا کوئی آلہ موجود نہ ہو تو متوسط آدمی کے ہاتھ سے چار لپ [چُلو] دے دینے سے ایک آدمی کی طرف سے فطرہ ادا ہوجائے گا۔

زکاة فطر کا مصرف اور اس کے حقدار :

زکاۃ فطر کے حقدار صرف فقراء اور مساکین ہیں، زکاة کے بقیہ آٹھوں مصارف میں اسے خرچ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض کیا لغو اور بیہودگی سے صائم کی پاکی کے لئے اور مسکینوں کی خوراک کے لئے۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلاَةِ فَهِىَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلاَةِ فَهِىَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ.([7])

لہذا مسجد یا مدرسہ یا اسلامی مراکز میں صدقۂ فطر دینا درست نہیں ۔ ہاں! ایسی جمعیت میں فطرہ دے سکتے ہیں جو اسے غریبوں اور مسکینوں میں خرچ کرنے کا انتظام کرتی ہو اور اسے اصل حقداروں تک پہنچاتی ہو۔

فطرہ ایک سے زیادہ فقیروں میں بھی تقسیم کیا جا سکتا ہے اور یہ بھی جائز ہے کہ کئی فطرے ایک ہی فقیر کو دے دئے جائیں ۔

٭٭٭نوٹ : کچھ لوگوں کی عادت ہے کہ فقراء و مساکین کے بجائے رشتہ داروں ، پڑوسیوں یا باہمی تبادلہ کے طور پر یاہر سال چند متعین خاندانوں ہی کوزکاة فطر دیا کرتے ہیں اور ان کی مالی پوزیشن پر غور نہیں کرتے کہ وہ زکاة کے حقدار ہیں بھی یا نہیں ۔ ظاہر ہے کہ اگر مذکورہ لوگ غریب ومسکین نہیں ہیں تو وہ نہ ہی فطرہ لینے کے حقدار ہیں اور نہ ہی ان کو فطرہ دیا جانا درست ہے۔

اﷲ تعالی ہر مسلمان کو صدقۂ فطر کی درست ادائیگی اور صحیح مصرف میں اسے خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

زکاة فطر دینے کی جگہ :

مسلمان جہاں پر عید کرے وہیں کے فقیروں کو اپنا فطرہ دے دے خواہ وہ اس کا وطن ہو یا وہاں عارضی طور پر مقیم ہو اور اگر کسی دوسری جگہ یا دوسری بستی کے فقیروں کو پہنچادے تو بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ اصل جواز ہے اور دوسری جگہ بھیجنے سے روکنے والی کوئی دلیل موجود نہیں ۔

اللہ تعالی ہم سب کو خوش دلی کے ساتھ زکاۃ فطر کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حواشی:
([1])أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب فرض صدقة الفطر رقم 1432۔ أخرجه مسلم في الزكاة باب زكاة الفطر على المسلمين من التمر والشعير رقم 984۔

([2]) رواه أبو داود وابن ماجه والحاكم وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/ 263) رقم: 1085 -

([3])أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب صدقة الفطر صاع من طعام رقم 1435۔

([4]) ایک صاحب کہنے لگے کہ اسلام تو ریاکاری سے روکتا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ زکاۃ فطر کا غلہ کھلے عام تقسیم کرنا چاہئے تاکہ دنیا دیکھے کہ مسلمان عید فطر سے پہلے غریبوں میں غلہ تقسیم کرتے ہیں کیونکہ یہ دین کا ایک شعار ہے ، میں نے جواب دیا کہ جناب عالی ! کھلے عام کوئی کام کرنے سے ریاکاری لازم نہیں ہے، آپ کو صلاۃ کی باجماعت ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے، قربانی آپ ساری دنیا کے سامنے کرتے ہیں، حج آپ ساری دنیا کے سامنے کرتے ہیں، تو کیا یہ ساری عبادات ریاکاری سے پاک نہیں رہتیں، ریاکاری کا تعلق دل سے ہے، اگر کوئی شخص کھلے عام کوئی عبادت کرے اور دکھاوا مقصود نہ ہو تو ریاکاری ہرگز نہ ہوگی۔

([5])أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب الصدقة قبل العيد رقم 1438۔

([6])أخرجه البخاري في أبواب صدقة الفطر باب صدقة الفطر على الحر والمملوك رقم 1440 ۔

([7]) رواه أبو داود وابن ماجه والحاكم وحسنه الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/ 263) رقم: 1085 -
 
Top