• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صدقہ رَدِّ بلا کا ذریعہ ہے

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ والہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ پوشیدہ صدقہ خدائے تعالیٰ کے غضب کو فرو کرتا ہے اور ظاہراً صدقہ دوزخ کی آگ کے لئے سپر کا کام دے گا‘ صدقہ بری موت سے بچاتا اور بلا کو ٹالتا‘ اور عمر زیادہ کرتا ہے اور فرمایا: صدقہ مال کو کم نہیں کرتا۔ الصدقة في السر تطفئ غضب الرب- مستدرک علی الصحیحین،حدیث نمبر:6491
جبکہ ایک حدیث (سند یاد نہیں) کا مفہوم ہے کہ صدقہ تقدیر کو نہیں ٹالتا بلکہ صدقہ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کنجوس کے مال میں سے پیسے نکلواتا ہے۔

اہل علم سے رہنمائی درکار ہے کہ کہ آیا صدقہ بلا کو ٹالتا، بُری موت سے بچاتا اور عمر میں اضافہ کرتا ہے یا صدقہ تقدیر (ہونی)کو نہیں ٹال سکتا۔

نوٹ: یہاں صدقہ کی اہمیت، فضیلت اور ثواب وغیرہ پر سوال کرنا مقصود نہیں ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
دعا، صدقہ اور صلہ رحمی اور نیکی وغیرہ ایسے اعمال ہیں کہ جن کے بارے احادیث میں ہمیں ملتا ہے کہ وہ قضا کو ٹال دیتے ہیں یا رزق میں اضافہ کا سبب بنتے ہیں یا بری موت سے بچاتے ہیں یا برائیوں کو ختم کرتے ہیں یا اللہ کے غضب کو ختم کر دیتے ہیں وغیرہ ذلک۔ بعض اعمال کی بدولت قضا و قدر و لوٹانے کا مطلب یہی ہے کہ اس کی تقدیر میں یہ لکھا تھا کہ وہ یہ دعا کرے گا یا صدقہ کرے گا تو اس کی فلاں مصیبت ٹل جائے گی یا فلاں آزمائش سے بچا لیا جائے گا۔ یعنی دعا، نیکی، صلہ رحمی اور صدقہ بھی تقدیر میں سے ہے۔
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
سوال نمبر 40: کیا تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے یا بدل بھی سکتا ہے؟
جواب: نہیں، تقدیر قطعاً ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ ہو سکے۔ تقدیر کی درج ذیل تین اقسام ہیں : O تقدیر مبرم حقیقی Oتقدیر مبرم غیر حقیقی Oتقدیر معلق

پہلی قسم تقدیر مبرم حقیقی ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ خداوند میں عرض کے باوجود اﷲتعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍO هود، 11 : 76
’’(فرشتوں نے کہا) اے ابراھیم! اس بات سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکم (عذاب) آ چکا ہے اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔

دوسری قسم تقدیر مبرم غیر حقیقی ہے جس کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے : 1. لَا يُرَدُّ الْقَضَاءِ إِلاَّ الدُّعَاءَ.
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139 ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘
تیسری اور آخری قسم قضائے معلق کی ہے جس تک اکثر اولیاء، صلحاء اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ہو یا اولیاء کرام کی دعاؤں سے، والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے ہو۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے، نیت اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا : يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِO الرعد : 13، 39
’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تعظیم کا سجدہ نہ کیا اور اس وجہ سے وہ کافر ہو گیا لیکن اس بدبخت شیطان نے اللہ سے دعا کی : قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO الحجر، 15 : 36
’’اس نے کہا اے پروردگار! پس تو مجھے اس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔‘‘
اللہ نے اسے کھلی چھٹی دے دی اگر اللہ شیطان مردود کی دعا قبول کر کے اس کی تقدیر بدل سکتا ہے تو یقیناً اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے بھی تقدیر بدل سکتا ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283 ’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طاعون جیسا مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔
لہٰذا آیت مبارکہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ خداوند تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے علم کے مطابق موقع بہ موقع تقدیر میں رد و بدل کرتا رہتا ہے اور یہ رد و بدل قضائے معلق کی صورت میں ہوتا ہے لیکن جو خدا کے علم میں آخری فیصلہ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔

حوالہ
فتویٰ آن لائن - کیا تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے یا بدل بھی سکتا ہے؟

اس فتویٰ پر تبصرہ درکار ہے
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حدیث شریف کے الفاظ ہیں:
" إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللَّهُ الْقَلَمُ فَقَالَ لَهُ : اكْتُبْ فَقَالَ : وَمَا أَكْتُبُ ؟ قَالَ : اكْتُبِ الْقَدَرَ فَجَرَى فِي تِلْكَ السَّاعَةِ بِمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ " .
اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا: لکھو، اس نے کہا: کیا لکھوں، اللہ تعالی نے کہا: تقدیر لکھ دو، اس نے اس گھڑی سے لے کر قیامت تک واقعات کو لکھ دیا۔ بعض روایات میں الفاظ ہیں کہ اللہ تعالی نے کہا کہ وہ لکھو جو ہونے والا ہے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ جو کچھ ہونا ہے، وہ لکھا ہوا ہے۔ اور یہ لکھا ہوا ہونا اللہ کی صفت علم کا ظہور ہے۔ یعنی قلم نے وہی لکھا جو اللہ کے علم میں ہونے والا تھا۔ قلم بذات خود عالم نہیں ہے۔ اس نے اللہ کے علم سے لکھا یا تقدیر مرتب کی تو تقدیر الہی کا پہلا درجہ علم ربانی ہے۔
اگر تو تقدیر مبرم حقیقی اور غیر حقیقی کی تقسیم کو مانا جائے تو یہ ماننا پڑے گا کہ کچھ ایسا بھی ہونے والا تھا جو نہیں لکھا گیا تھا۔ یا جو لکھا گیا ہے اس کے خلاف ہو رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں میں اللہ سبحانہ و تعالی کی صفت علم اور صفت کمال کا نقص لازم آتا ہے۔
 
Top