سوال نمبر 40: کیا تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے یا بدل بھی سکتا ہے؟
جواب: نہیں، تقدیر قطعاً ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ ہو سکے۔ تقدیر کی درج ذیل تین اقسام ہیں : O تقدیر مبرم حقیقی Oتقدیر مبرم غیر حقیقی Oتقدیر معلق
پہلی قسم تقدیر مبرم حقیقی ہے۔ یہ آخری فیصلہ ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ کے حکم سے لوح محفوظ پر لکھ دیا جاتا ہے اور اس میں تبدیلی نا ممکن ہے اسی لیے جب فرشتے قوم لوط علیہ السلام پر عذاب کا حکم لے کر آئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بارگاہ خداوند میں عرض کے باوجود اﷲتعالیٰ نے عذاب نازل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا :
يَا إِبْرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ وَإِنَّهُمْ آتِيهِمْ عَذَابٌ غَيْرُ مَرْدُودٍO هود، 11 : 76
’’(فرشتوں نے کہا) اے ابراھیم! اس بات سے درگزر کیجئے، بیشک اب تو آپ کے رب کا حکم (عذاب) آ چکا ہے اور انہیں عذاب پہنچنے ہی والا ہے جو پلٹایا نہیں جا سکتا۔‘‘ چونکہ یہ عذاب قضائے مبرم حقیقی تھا اس لیے نہ ٹل سکا۔
دوسری قسم تقدیر مبرم غیر حقیقی ہے جس کی نسبت احادیث میں ارشاد ہوتا ہے :
1. لَا يُرَدُّ الْقَضَاءِ إِلاَّ الدُّعَاءَ.
ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب القدر، باب ماجاء لا يرد القدر إلا الدعاء، رقم : 2139 ’’صرف دعا ہی قضا کو ٹالتی ہے۔‘‘
تیسری اور آخری قسم قضائے معلق کی ہے جس تک اکثر اولیاء، صلحاء اور نیک بندوں کی رسائی ہو سکتی ہے، خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی عطا سے ہو یا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سے ہو یا اولیاء کرام کی دعاؤں سے، والدین کی خدمت سے یا صدقہ و خیرات سے ہو۔ اﷲتعالیٰ کی طرف سے بھی یہ وعدہ ہے کہ اگر کوئی بندہ چاہے تو ہم اس کے بدلنے والے ارادے، نیت اور دعا کے ساتھ ہی اس کی تقدیر بھی بدل دیں گے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا :
يَمْحُو اللّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِO الرعد : 13، 39
’’اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوح محفوظ) ہے۔‘‘
ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کے سامنے تعظیم کا سجدہ نہ کیا اور اس وجہ سے وہ کافر ہو گیا لیکن اس بدبخت شیطان نے اللہ سے دعا کی :
قَالَ رَبِّ فَأَنظِرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَO الحجر، 15 : 36
’’اس نے کہا اے پروردگار! پس تو مجھے اس دن تک مہلت دے دے (جس دن) لوگ (دوبارہ) اٹھائے جائیں گے۔‘‘
اللہ نے اسے کھلی چھٹی دے دی اگر اللہ شیطان مردود کی دعا قبول کر کے اس کی تقدیر بدل سکتا ہے تو یقیناً اپنے نیک بندوں کی دعاؤں سے بھی تقدیر بدل سکتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی اور اس زمانے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی شام کے سفر پر تھے۔ وباء کی وجہ سے انہوں نے وہاں سے نکلنے میں جلدی کی تو حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
أتَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اﷲِ ’’کیا آپ تقدیر سے بھاگتے ہیں۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب دیا
أفِرُّ مِنْ قَضَاء اﷲ اِلٰی قَدْرِ اﷲِ. ابن سعد، الطبقات الکبريٰ، 3 : 283 ’’میں اﷲ کی قضا سے اس کی قدر کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر طاعون جیسا مرض کسی علاقے میں وبا کی صورت میں پھیل جائے اور میں کسی دوسرے علاقے میں پہنچ کر اس مرض سے بچ جاؤں تو میرا بچ جانا خدا کی تقدیر یعنی علم میں ہوگا۔
لہٰذا آیت مبارکہ اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ثابت ہوگیا کہ
خداوند تعالیٰ جب چاہتا ہے اپنے علم کے مطابق موقع بہ موقع تقدیر میں رد و بدل کرتا رہتا ہے اور یہ رد و بدل قضائے معلق کی صورت میں ہوتا ہے لیکن جو خدا کے علم میں آخری فیصلہ ہوتا ہے وہی ہو کر رہتا ہے۔
حوالہ
فتویٰ آن لائن - کیا تقدیر کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے یا بدل بھی سکتا ہے؟
اس فتویٰ پر تبصرہ درکار ہے