علامہ البانی رحمہ اللہ کی تحسین
اوپرتفصیل سے بتایاجاچکا ہے کہ اس روایت کے تمام طرق سخت ضعیف ہیں اور ایسی صورت میں متاخرین کے اصول کےمطابق بھی یہ روایات آپس میں مل کرحسن لغیرہ نہیں بن سکتیں ، حتی کی بعض طریق موضوع ہیں اور بعض منکر ہیں اور منکر ہمیشہ منکر ہی رہتا ہے ،لیکن اس کے باوجو د بھی علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وهي على اختلاف ألفاظها قد اتفقت على جملة المداواة هذه؛ ولذلك حسَّنْتُها[صحيح الترغيب 1 /458 حاشیہ]۔
مزید اس بات پر غور کیجئے کہ روایت مذکورہ کا مرسل ہونا ثابت شدہ ہے کیونکہ مرسل کی سند حسن بصری تک صحیح ہے ۔
اب یہی روایت جس نے بھی موصولا بیان کی ہے سب کا طریق ضعیف ہے اور ساتھ میں ثابت شدہ ارسال کے خلاف بھی ہے دریں صورت جملہ مسند روایات ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منکر بھی ہیں کیونکہ ثقہ رواۃ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اوریہ اس کے خلاف ہے۔
یہی وجہ ہے کہ :
أبو حاتم الرازي رحمه الله (المتوفى277)نے کہا:
هَذَا حديثٌ مُنكَرٌ، وإبراهيمُ لَمْ يُدْرِكْ عُبَادةَ، وعِراكٌ منكرُ الْحَدِيثِ،[علل الحديث لابن أبي حاتم 2/ 615]۔
امام بيهقي رحمه الله (المتوفى458)نے کہا:
إِنَّمَا يُعْرَفُ هَذَا الْمَتْنُ عَنِ الْحَسَنِ الْبَصْرِيِّ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْسَلًا[السنن الكبرى للبيهقي: 3/ 536]۔
امام ابن القيسراني رحمه الله (المتوفى:507)نے کہا:
والحديث منكر ، وموسى لايتابع على رواياته[ذخيرة الحفاظ لابن القيسراني: 3/ 1244]۔
امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
قلت وإنما روي هذا مرسلا [العلل المتناهية 2/ 494]۔
امام منذري رحمه الله (المتوفى656) رحمہ اللہ تو پوری صراحت کے ساتھ تمام متصل روایات اورحسن بصری کی مرسل روایت کوسامنے رکھتے ہوئے فرماتے ہیں:
رَوَاهُ أَبُو دَاوُد فِي الْمَرَاسِيل وَرَوَاهُ الطَّبَرَانِيّ وَالْبَيْهَقِيّ وَغَيرهمَا عَن جمَاعَة من الصَّحَابَة مَرْفُوعا مُتَّصِلا والمرسل أشبه[الترغيب والترهيب للمنذري: 1/ 301]۔
معلوم ہوا کہ جملہ مسند روایات منکر ہیں اور منکر ہمیشہ منکر ہوتی ہے۔
اور مرسل سخت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ خالی ازتائید ہے لہٰذا یہ حدیث ہرحال میں ضعیف ہے اسے حسن لغیرہ کہنا کسی بھی اصول سے درست نہیں ۔