• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفائی ستھرائی اور وضو کے بعد نماز کا اہتمام باعث ِ دخولِ جنت ہے

شمولیت
جنوری 23، 2018
پیغامات
28
ری ایکشن اسکور
6
پوائنٹ
52
پاکی و صفائی کا خیال اور ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز ادا کرنا جنت میں جانے کا سبب

از:عبد السلام بن صلاح الدین مدنی

داعی اسلامک دعوہ سینٹر میسان ،سعودی عرب

یہ کون نہیں جانتا ہے کہ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی،ستھرائی اور نظافت و نفاست انسان کے وقار و شرف کی آئینہ دار ہے جبکہ گندگی انسان کی عزت و عظمت کی بد ترین دشمن ہے؛صفائی ستھرائی کی بنیاد پر ایک انسان دوسرے انسان کے نزدیک محبوب و مقبول بن جاتا ہے جبکہ گندگی پسند انسان قابل نفرت قرار پاتا ہے ۔

ہم جس دین کے ماننے والے ہیں , اس نے جہاں انسان کو کفر و شرک کی نجاستوں سے پاک کر کے عزت و رفعت عطا کی ہے وہیں ظاہری طہارت، صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کی اعلیٰ تعلیمات کے ذریعے انسانیت کا وقار بلند کیا ہے، بدن کی پاکیزگی ہو یا لباس کی ستھرائی، ظاہری ہَیئت کی عمدگی ہو یا طور طریقے کی اچھائی، مکان اور ساز و سامان کی بہتری ہو یا سواری کی دھلائی الغرض ہر چیز کو صاف ستھرا اور جاذبِ نظر رکھنے کی دینِ اسلام میں تعلیم اور ترغیب دی گئی ہے۔

موجودہ دور میں ہم مسلمانوں کی جس طرح شناخت بنتی جا رہی ہے ؛انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے دیکھنے میں یہ آتا ہے بلکہ انتہائی کمتر درجے کی شناخت بنتی جا رہی ہے کہ جہاں مسلمان ہیں وہاں گندگی اور عچدم صفائی زیادہ ہے؛ہمارے یہاں پاکی صفائی پر توجہ نہیں دی جاتی ہے، جو لوگ مذہب اسلام سے ناآشنا ہوتے ہیں وہ عام طور پر یہی سمجھتے ہیں کہ اس مذہب میں صفائی ستھرائی کے بارے میں کوئی تعلیم نہیں ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمانوں نے ان کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے، ہماری شناخت بھی یہی ہوگئی ہے کہ اگر کوئی محلہ، یامحلے کی گلیاں اور نالیاں گندگیوں سے اٹی پڑی ہیں، جہاں گندگیاں بھری پڑی ہوں اور معلوم نہ ہو کہ یہ محلہ کن لوگوں کی ہے تو یقین کرلینا چاہئے کہ یہ مسلمانوں کا محلہ اور انہیں کی بستی ہے کیونکہ ان کے علاوہ کوئی اور قوم اس طرح گندگیوں میں رہنا پسند نہیں کرتی ہے۔

اس طرح سے یہ پیغام جاتا ہے کہ مذہب اسلام میں صفائی ستھرائی کا کوئی اصول و ضوابط نہیں ہیں ، اور غیروں کے ذہن و دماغ میں یہ بات گھر کرتی ہے کہ یہی اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی تصویر ہے۔

جب کہ ایسا بالکل نہیں ہے کہ مذہب اسلام میں صفائی و ستھرائی کا کوئی نظم و نسق نہیں ہے بلکہ مذہب اسلام میں تو طہارت و نفاست کو وہ حیثیت حاصل ہے کہ اس کے بغیر اسلام کا تصور نہیں کیا جاسکتا، اللہ تعالی اپنے ان بندوں سے بے انتہا محبت کرتا ہے جو پاک صاف رہتے ہیں ارشاد باری تعالی ہے:(ان الله يحب التوابين ويحب المتطهرين)[البقرة:222][ترجمہ ٔ آیت:بے شک اللہ تعالی خوب توبہ کرنے والوں اور خوب پاک رہنے والوں کو پسند کرتے ہیں]؛اسی صفائی ستھرائی کی وجہ سے اللہ تعالے نے قبا والوں کی تعریف فرمائی تھی جیسا کہ ارشاد ربانی ہے:( فِيهِ رِجَالٌ يُحِبُّونَ أَن يَتَطَهَّرُوا ۚ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُطَّهِّرِينَ)[سورہ ٔ التوبہ:108][ترجمہ :اس میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو صفائی ستھرائی پسند کرتے ہیں اور اللہ تعالی صفائی ستھرائی والوں کو پسند فرماتا ہے]

اسلام میں صفائی کے معاملے پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ طہارت کے نام پر فقہ اسلامی میں پورا ایک باب موجود ہے۔ انسان کی صحت اور تندرستی کے لیے صفائی کو بنیادی شرط قرار دیا گیا ہے۔ جو لوگ صفائی کے اصول پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہ ہمیشہ صحت مندوتوانا رہتے ہیں۔ صاف ستھرا رہنے والے شخص کی عزت ووقار میں اضافہ ہوتا ہے اور ہر کوئی اسے پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ لوگ اس کے ساتھ بیٹھنے اوربات چیت کرنے کو پسند کرتے ہیں۔ جو شخص پراگندہ ہو، صفائی ستھرائی کا خیال نہ کرتا ہو تو ایسے شخص سے ہر کوئی نفرت کرتا ہے اور اس سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی طرح صفائی پسند انسان بہت ساری بیماریوں سے محفوظ ومامون رہتا ہے اور ہمیشہ چاق وچوبند نظر آتا ہے، سستی اورکاہلی اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتی ،اس لیے وہ اپنا ہر کام جوش وجذبہ اور لگن سے کرتا ہے۔ صفائی جہاں انسان کو صاف ستھرا رکھتی ہے وہیں برے خیالات اور وسوسوں سے نجات دلاتی ہے اورصفائی سے آدمی کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام نے اس پر کافی زور دیا ہے,نبی ٔ کریمﷺ نے بھی اس بھر پور تعلیم دی ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی دی ہے اور تاکید بھی فرمائی ہے ۔

وضو و طہارت اسی صفائی و ستھرائی کا ایک مظہر ہے جس کے بارے میں نبی ٔ کریمﷺ نے کئی احادیث میں اس پر زور دیا اور یہ واضح فرما دیا کہ وضو کے بغیر نماز کا کوئی تصور نہیں ہے ,فرمایا:( لا يَقْبَلُ اللَّهُ صَلاةَ أحَدِكُمْ إذا أحْدَثَ حتّى يَتَوَضَّأَ)[صحيح بخاری: 6954][ترجمہ ٔ حدیث: ”اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی ایسے شخص کی نماز قبول نہیں کرتا ہے جو محدث(بے وضو) ہو جائے یہاں تک کہ وہ وضو کرلے“ ]

بندہ ٔ مؤمن کے لیے کس قدر شرف و سعادت کی بات ہے کہ جب جب وضو کرے ,دو رکعت نماز ادا کرلے ,اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے ,چند احادیث ملاحظہ فرمائیں:

(1)حضرت عقبہ بن عامر ۔رضی اللہ عنہ۔فرماتے ہیں:( ما مِن أحَدٍ يتوضَّأُ فيُحسنُ الوضوءَ ويصلِّي رَكعَتينِ يُقبِلُ بقلبِه ووجهِهِ عليهِما إلَّا وجبَت لَه الجنَّةُ)[صحیح مسلم:234,صحیح ابو داؤد:906,نسائی:151][ترجمہ ٔ حدیث:کوئی بھی جب وضو کرتا ہے اور اچھے طریقے سے وضو کرتا ہے اور اور اپنے دل و چہرے کی توجہ کے ساتھ دو رکعتیں ادا کرتا ہے تو اس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے]

(2)حضرت ابو ہریرہ۔رضی اللہ عنہ۔فرماتے ہیں کہ ایک بار رسول اللہ ﷺ نے حضرت بلال ۔رضی اللہ عنہ۔ سے فجر کے وقت پوچھا:( يا بلالُ، حدِّثْني بأرْجَى عملٍ عَمِلتَه في الإسلامِ؛ فإنِّي سمعتُ دُفَّ نَعْلَيك بين يَديَّ في الجَنَّة؟ قال: ما عملتُ عملًا أرْجَى عندي: أَنِّي لم أتطهَّرْ طُهورًا، في ساعةِ ليلٍ أو نَهار، إلَّا صليتُ بذلك الطُّهورِ ما كُتِبَ لي أنْ أُصلِّي)[صحیح بخاری:1149,صحیح مسلم:2458][ترجمہ ٔ حدیث: بلال! مجھے وہ عمل بتلاؤ جو تم نے اسلام (کی حالت ) میں کیا ہو، جس کے فائدے کی تمہیں سب سے زیادہ امید ہو، کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے۔‘‘ کہا: بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کی: میں نے اسلام میں کوئی ایسا عمل نہیں کیا جس کے فائدے کی مجھے اس سے زیادہ امید ہو کہ میں دن رات کی کسی گھڑی مکمل وضو نہیں کرتا مگر اس وضو کے ساتھ میں اتنی (رکعت) نماز پڑھتا ہوں جتنی اللہ نے میرے لیے لکھی ہوتی ہے]

اللہ اکبر! یہ اسلام کی خصوصیت ہے کہ ایک حبشی فرد ِ مؤمن کی وہ شان ہے کہ ایک عمل (جسے ہم انتہائی معمولی عمل سمجھتے ہیں)کی وجہ سے جنت میں آں رضی اللہ عنہ کے جوتے کی آواز سنی جا رہی ہے ,بھلا ایسا کوئی مذہب اس دنیا کے اندر موجود ہے ؟

(3)حضرت عثمان بن عفان ۔رضی اللہ عنہ۔ فرماتے ہیں:( مَن توضَّأ نحوَ وُضوئِي هذا، ثم قام فرَكَع رَكعتينِ لا يُحدِّثُ فيهما نفْسَه، غُفِرَ له ما تَقدَّم من ذنبِه)[صحیح بخاری:159,صحیح مسلم:226][ترجمہ ٔ حدیث:جس نے مجھ جیسا وضو کیا پھر کھڑے ہوکر دو رکعات نماز ادا کی تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں ]
 
Top