• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صفي الدين الهندي کا ابن تیمیہ کے ساتھ مناظرہ

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,717
ری ایکشن اسکور
430
پوائنٹ
197
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اس مناظرہ کی کیا حقیقت ہے ؟


کیا اس مناظرہ کے بعد امام بن تیمیہ رحمتہ اللہ کے تلامذہ کو قید میں ڈال دیا گیا تھا؟


فاجتمعوا يوم الجمعة بعد الصلاة ثاني عشر الشهر المذكور وحضر الشيخ صفي الدين الهندي وتكلم مع الشيخ تقي الدين كلاما كثيرا ولكن ساقيته لاطمت بحرا ثم اصطلحوا على ان يكون الشيخ كمال الدين بن الزملكاني هو الذي يحاققه من غير مسامحة

۔۔صفی الدین کی چھوٹی نہر نے ابن تیمیہ جیسے سمندر سے مقابلہ کی کوشش کی۔۔

البدایہ 14/52



مگر یہی مناظرہ طبقات الشافعية الكبری ترجمہ صفي الدين الهندي میں بالکل مختلف طریقہ سے ہے اور ابن تیمیہ کی تنقیص ہے

ولما وقع من ابْن تيمية في المسأله الحموية ما وقع , وعقد له المجلس بدار السعادة ، بين يدي الأمير تنكز , وجمعت العلماء أشاروا بأن الشيخ الهندي يحضر , فحضر , وكان الهندي طويل النفس في التقرير ، إذا شرع في وجه يقرره لا يدع شبهة , ولا اعتراضا إلا قد أشار إليه في التقرير , بحيث لا يتم التقرير , إلا وقد بعد على المعترض مقاومته , فلما شرع يقرر أخذ ابْن تيمية يعجل عليه على عادته , ويخرج من شيء إلى شيء ، فقال له الهندي : ما أراك يابْن تيمية إلا كالعصفور ، حيث أردت أن أقبضه من مكان فر إلى مكان آخر.

وكان الأمير تنكز يعظم الهندي , ويعتقده.

وكان الهندي شيخ الحاضرين كلهم , فكلهم صدر عن رأيه , وحبس ابْن تيمية بسبب تلك المسألة , وهي التي تضمنت قوله بالجهة , ونودي عليه في البلد وعلى أصحابه , وعزلوا من وظائفهم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

اس مناظرہ کی کیا حقیقت ہے ؟
کیا اس مناظرہ کے بعد امام بن تیمیہ رحمتہ اللہ کے تلامذہ کو قید میں ڈال دیا گیا تھا؟
فاجتمعوا يوم الجمعة بعد الصلاة ثاني عشر الشهر المذكور وحضر الشيخ صفي الدين الهندي وتكلم مع الشيخ تقي الدين كلاما كثيرا ولكن ساقيته لاطمت بحرا ثم اصطلحوا على ان يكون الشيخ كمال الدين بن الزملكاني هو الذي يحاققه من غير مسامحة
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی
یہ ایک طویل داستان ہے ، جو اس وقت کے روایتی بدعتی علماء اور شیخ الاسلام کے درمیان ہونے والی کشمکش کا ایک پہلو
جس سے شیخ الاسلام کی امامت و استقامت روز روشن کی طرح جھلکتی ہے ، مختصراً واقعہ یہ ہے کہ :
705؁ھ کو امام ابن تیمیہؒ کا عقیدہ پر مشہور رسالہ " العقیدۃ الواسطیہ " منظر عام پر آیا تو اہل بدعت کے ایوانوں میں
غصہ اور پریشانی چھاگئی ،( اس وقت امام صاحب کی عمر شریف 44 سال رہی ہوگی )
اور تصوف کے ماروں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ امام ابن تیمیہ کے عقائد وخیالات کی جانچ کی جائے ،
جس کیلئے سرکاری حکم علماء کی مجالس و مناظرے منعقد کئے گئے ،

دو مجالس میں بدعتیوں کا کوئی عالم امام کے دلائل کے سامنے نہ ٹھہر سکا کسی سے کوئی جواب نہ بن پایا ،تو
شیخ صفی الدین الھندی کو مقابلہ کیلئے لائے گئے ، جواپنے دور کے بڑے متکلم اور اصولی مناظر سمجھے جاتے تھے،
شیخ صفی الدین ایک ھندوستانی تھے ، دہلی میں 644؁ ھ کو پیدا ہوئے ، 667؁ ھ دہلی سے یمن چلے گئے ،
اور ازاں بعد مکہ ، مدینہ ، مصر کا سفر کرکے 687؁ ھ کو دمشق اقامت پذیر ہوگئے ،
خیر جب امام ابن تیمیہ سے مناظرہ کیلئے کوئی دوسرا نہ ٹھہر سکا تو شیخ صفی آئے ،
اور علم کلام کی جھاگ اٹھانے لگے ، لیکن قرآن و سنت کے نور کے سامنے کلامی مباحث کا کیا کام ،
اور منظر یہ بنا جو امام ابن کثیر نے نقل کیا کہ :
وحضر الشيخ صفي الدين الهندي وتكلم مع الشيخ تقي الدين كلاما كثيرا ولكن ساقيته لاطمت بحرا ۔۔۔۔
شیخ صفی الدین کے علم کا چھوٹا سا نالہ شیخ الاسلام کے علم کے سمندر کا کہاں تک مقابلہ کرتا ،
اسی لئے ابن کثیر آگے لکھتے ہیں :

ثم اصطلحوا على أن يكون الشيخ كمال الدين بن الزملكاني هو الذي يحاققه من غير مسامحة، فتناظرا في ذلك، وشكر الناس من فضائل الشيخ كمال الدين بن الزملكاني وجودة ذهنه وحسن بحثه حيث قاوم ابن تيمية في البحث، وتكلم معه، ثم انفصل الحال على قبول العقيدة، وعاد الشيخ إلى منزله معظما مكرما، وبلغني أن العامة حملوا له الشمع من باب النصر إلى القصاعين على جاري عادتهم في أمثال هذه الأشياء،
کی ( شیخ صفی کے ناکام ہونے پر ) سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اب امام ابن تیمیہ سے علامہ کمال الدین زملکانی ہی بحث کریں گے ،
پھر زملکانی نے امام صاحب سے مناظرہ کیا ، اور لوگوں نے شیخ کمال الدین کے علمی کمال اور ذہانت اور اچھی طرز گفتگو کا اعتراف کیا ،
اور قبول عقیدہ پر مجلس کا اختتام ہوا ، اور امام ابن تیمیہ ؒ اپنی رہائش پر بڑی عزت و شان کے ساتھ واپس لوٹے ،
لوگوں نے امام صاحب کیلئے باب نصر سے امام صاحب کے محلہ قصاعین تک شمعیں اٹھائی ہوئی تھیں ، جیسا ایسے مواقع پر وہاں ہوتا ہے ،") انتہی
علامہ ابن کثیر ؒ کے بیان سے دو باتیں واضح ہیں :
ایک یہ کہ مناظرہ میں امام صاحب کی فتح ہوئی
دوسری یہ کہ اس خوشی میں لوگ امام صاحب کو بڑے اہتمام اور شان گھر تک لائے ،(یہ واقعہ 12 رجب 705؁ ھ کا ہے )
لہذا اس مناظرہ کے نتیجے میں گرفتاری نہیں ہوئی ،
البتہ اس کے کچھ عرصہ بعد ( شعبان کے آخر میں ) بدعتی صوفیوں کے ساتھ مباحث و مناظرے ہوئے
ان مجالس میں بھی امام صاحب غالب رہے ،
لیکن ایک بدعتی پیر جو خلیفہ وقت کا مرشد بھی تھا اس کی مہم جوئی کے امن عامہ کامسئلہ بنایا گیا
اور مجبوراً حکومت نے امام صاحب کو حراست میں لے لیا ۔

(ان سطور کیلئے تاریخ ابن کثیر کے علاوہ مدراس یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی کے سابق ریڈر
محمد یوسف کوکن عمری کی کتاب
(امام ابن تیمیہؒ ) سے مدد لی گئی ہے ،جو 1959؁ ء کو پہلی مرتبہ شائع ہوئی )
 
Last edited:

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
264
پوائنٹ
142
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم بھائی
یہ ایک طویل داستان ہے ، جو اس وقت کے روایتی بدعتی علماء اور شیخ الاسلام کے درمیان ہونے والی کشمکش کا ایک پہلو
جس سے شیخ الاسلام کی امامت و استقامت روز روشن کی طرح جھلکتی ہے ، مختصراً واقعہ یہ ہے کہ :
705؁ھ کو امام ابن تیمیہؒ کا عقیدہ پر مشہور رسالہ " العقیدۃ الواسطیہ " منظر عام پر آیا تو اہل بدعت کے ایوانوں میں
غصہ اور پریشانی چھاگئی ،( اس وقت امام کی عمر شریف 44 سال رہی ہوگی )
اور تصوف کے ماروں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ امام ابن تیمیہ کے عقائد وخیالات کی جانچ کی جائے ،
جس کیلئے سرکاری حکم علماء کی مجالس و مناظرے منعقد کئے گئے ،
دو مجالس میں بدعتیوں کا کوئی عالم امام کے دلائل کے سامنے نہ ٹھہر سکا کسی سے کوئی جواب نہ بن پایا ،تو
شیخ صفی الدین الھندی کو مقابلہ کیلئے لائے گئے ، جواپنے دور کے بڑے متکلم اور اصولی مناظر سمجھے جاتے تھے،
شیخ صفی الدین ایک ھندوستانی تھے ، دہلی میں 644؁ ھ کو پیدا ہوئے ، 667؁ ھ دہلی سے یمن چلے گئے ،
اور ازاں بعد مکہ ، مدینہ ، مصر کا سفر کرکے 687؁ ھ کو دمشق اقامت پذیر ہوگئے ،
خیر جب امام ابن تیمیہ سے مناظرہ کیلئے کوئی دوسرا نہ ٹھہر سکا تو شیخ صفی آئے ،
اور علم کلام کی جھاگ اٹھانے لگے ، لیکن قرآن و سنت کے نور کے سامنے کلامی مباحث کا کیا کام ،
اور منظر یہ بنا جو امام ابن کثیر نے نقل کیا کہ :
وحضر الشيخ صفي الدين الهندي وتكلم مع الشيخ تقي الدين كلاما كثيرا ولكن ساقيته لاطمت بحرا ۔۔۔۔
شیخ صفی الدین کے علم کی چھوٹی سا نالہ شیخ الاسلام کے علم کے سمندر کا کہاں تک مقابلہ کرتا ،
اسی لئے ابن کثیر آگے لکھتے ہیں :

ثم اصطلحوا على أن يكون الشيخ كمال الدين بن الزملكاني هو الذي يحاققه من غير مسامحة، فتناظرا في ذلك، وشكر الناس من فضائل الشيخ كمال الدين بن الزملكاني وجودة ذهنه وحسن بحثه حيث قاوم ابن تيمية في البحث، وتكلم معه، ثم انفصل الحال على قبول العقيدة، وعاد الشيخ إلى منزله معظما مكرما، وبلغني أن العامة حملوا له الشمع من باب النصر إلى القصاعين على جاري عادتهم في أمثال هذه الأشياء،
کی ( شیخ صفی کے ناکام ہونے پر ) سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ اب امام ابن تیمیہ سے علامہ کمال الدین زملکانی ہی بحث کریں گے ،
پھر زملکانی نے امام صاحب سے مناظرہ کیا ، اور لوگوں نے شیخ کمال الدین کے علمی کمال اور ذہانت اور اچھی طرز گفتگو کا اعتراف کیا ،
اور قبول عقیدہ پر مجلس کا اختتام ہوا ، اور امام ابن تیمیہ ؒ اپنی رہائش پر بڑی عزت و شان کے ساتھ واپس لوٹے ،
لوگوں نے امام صاحب کیلئے باب نصر سے امام صاحب کے محلہ قصاعین تک شمعیں اٹھائی ہوئی تھیں ، جیسا ایسے مواقع پر وہاں ہوتا ہے ،") انتہی
علامہ ابن کثیر ؒ کے بیان سے دو باتیں واضح ہیں :
ایک یہ کہ مناظرہ میں امام صاحب کی فتح ہوئی
دوسری یہ کہ اس خوشی میں لوگ امام صاحب کو بڑے اہتمام اور شان گھر تک لائے ،(یہ واقعہ 12 رجب 705؁ ھ کا ہے )
لہذا اس مناظرہ کے نتیجے میں گرفتاری نہیں ہوئی ،
البتہ اس کے کچھ عرصہ بعد ( شعبان کے آخر میں ) بدعتی صوفیوں کے ساتھ مباحث و مناظرے ہوئے
ان مجالس میں بھی امام صاحب غالب رہے ،
لیکن ایک بدعتی پیر جو خلیفہ وقت کا مرشد بھی تھا اس کی مہم جوئی کے امن عامہ کامسئلہ بنایا گیا
اور مجبوراً حکومت نے امام صاحب کو حراست میں لے لیا ۔
جزاک اللہ خیراً شیخ محترم
اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے اور دین کی خدمت کرواتا رہے آمین
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
ان سطور کیلئے مدراس یونیورسٹی کے شعبہ اردو و فارسی کے سابق ریڈر
محمد یوسف کوکن عمری کی کتاب سے مدد لی گئی ہے ،جو 1959؁ ء کو پہلی مرتبہ شائع ہوئی۔
اس یونیورسٹی اور صاحب کتاب کا تعارف انڈیا کا کوئی بھائی کروادے ،
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جزاک اللہ خیراً شیخ محترم
اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ کرے اور دین کی خدمت کرواتا رہے آمین
بہت شکریہ
اللہ کریم آپ کو بھی جزاءِ خیر سے نوازے ۔اور ہمارے درمیان دینی اخوت و محبت کا رشتہ قائم رکھے ۔
آمین یا رب العالمین
 
Top