• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

الرحیق المختوم صلح حد یبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
صلح حد یبیہ کے بعد کی فوجی سرگرمیاں

غزوۂ غابہ یا غزوہ ٔ ذی قرد :
یہ غزوہ درحقیقت بنو فزارہ کی ایک ٹکڑی کے خلاف جس نے رسول اللہﷺ کے مویشیوں پر ڈاکہ ڈالاتھا ، تعاقب سے عبارت ہے۔
حدیبیہ کے بعد اور خیبر سے پہلے یہ پہلا اور واحد غزوہ ہے جو رسول اللہﷺ کوپیش آیا۔ امام بخاری نے اس کا باب منعقد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ خیبر سے صرف تین روز پہلے پیش آیا تھا۔ اور یہی بات ا س غزوے کے خصوصی کار پرداز حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے بھی مروی ہے۔ ان کی روایت صحیح مسلم میں دیکھی جاسکتی ہے۔ جمہور اہل مغازی کہتے ہیں کہ یہ واقعہ حدیبیہ سے پہلے کا ہے لیکن جو بات صحیح میں بیان کی گئی ہے اہلِ مغازی کے بیان کے مقابل میں وہی زیادہ صحیح ہے۔1
اس غزوہ کے ہیرو حضرت سلمہ بن اکوعؓ سے جوروایات مروی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ نبیﷺ نے اپنی سواری کے اونٹ اپنے غلام رباح کے ہمراہ چرنے کے لیے بھیجے تھے۔ اور میں بھی ابو طلحہ کے گھوڑے سمیت ان کے ساتھ تھا کہ اچانک صبح دم عبد الرحمن فزاری نے اونٹوں پر چھاپہ مارا۔ اور ان سب کو ہانک لے گیا اور چرواہے کو قتل کردیا۔ میں نے کہا کہ رباح ! یہ گھوڑا لو۔ اسے ابوطلحہ تک پہنچادو۔ اور رسول اللہﷺ کو خبر کردو۔ اور خود میں نے ایک ٹیلے پر کھڑے ہوکر مدینہ کی طرف رُخ کیا۔ اور تین بار پکار لگائی : یا صَبَاحاہ !ہائے صبح کا حملہ۔ پھر حملہ آوروں کے پیچھے چل نکلا۔ ان پر تیر برساتا جاتا تھا اور یہ رجزپڑھتا جاتا تھا۔
[خذھا ] أنا ابن الأکوع والیـوم یـوم الـرضـع
''( لو )میں اکوع کا بیٹا ہوں۔ اور آج کا دن دودھ پینے والے کا دن ہے (یعنی آج پتہ لگ جائے گا کہ کس نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہے )''
سلمہ بن اکوعؓ کہتے ہیں کہ واللہ میں انھیں مسلسل تیروں سے چھلنی کرتا رہا۔ جب کوئی سوار میری طرف پلٹ کر آتا تو میں کسی درخت کی اوٹ میں بیٹھ جاتا۔ پھراسے تیر مار کر زخمی کردیتا۔ یہاں تک کہ جب یہ لوگ پہاڑ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: صحیح بخاری باب غزوۃ ذات قرد ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۳،۱۱۴، ۱۱۵فتح الباری ۷/ ۴۶۰،۴۶۱،۴۶۲، زاد المعاد ۲/۱۲۰۔ حدیبیہ سے اس غزوے کے موخرہونے پر حضرت ابو سعید خدریؓ کی ایک اور حدیث بھی دلالت کرتی ہے۔ دیکھئے: مسلم : کتاب الحج باب الترغیب فی سکنی المدینۃ والصبر علی لاوائہا حدیث نمبر ۴۷۵ (۱۳۷۴) ۲/۱۰۰۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
کے تنگ راستے میں داخل ہوئے تو میں پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اور پتھروں سے ان کی خبر لینے لگا۔ اس طرح میں نے مسلسل ان کا پیچھا کیے رکھا ، یہاں تک کہ رسول اللہﷺ کے جتنے بھی اونٹ تھے میں نے ان سب کو اپنے پیچھے کرلیا۔ اور ان لوگوں نے میرے لیے ان اونٹوں کو آزاد چھوڑدیا۔
لیکن میں نے پھر بھی ان کا پیچھا جاری رکھا۔ اور ان پر تیر برساتارہا یہاں تک کہ بوجھ کم کرنے کے لیے انہوں نے تیس سے زیادہ چادریں اور تیس سے زیادہ نیزے پھینک دیئے۔ وہ لوگ جو کچھ بھی پھینکتے تھے میں اس پر (بطور نشان ) تھوڑے سے پتھر ڈال دیتا تھا تاکہ رسول اللہﷺ اور ان کے رفقاء پہچان لیں (کہ یہ دشمن سے چھینا ہوا مال ہے۔ ) اس کے بعد وہ لوگ ایک گھاٹی کے تنگ موڑ پر بیٹھ کر دوپہر کا کھانا کھانے لگے۔ میں بھی ایک چوٹی پر جابیٹھا۔ یہ دیکھ کر ان کے چار آدمی پہاڑ پر چڑھ کر میری طرف آئے (جب اتنے قریب آگئے کہ بات سن سکیں تو ) میں نے کہا: تم لوگ مجھے پہچانتے ہو؟ میں سلمہ بن اکوعؓ ہوں ، تم میں سے جس کسی کو دوڑاؤں گا بے دھڑک پالوں گا اور جوکوئی مجھے دوڑائے گا ہرگزنہ پاسکے گا۔ میری یہ بات سن کر چاروں واپس چلے گئے۔ اور میں اپنی جگہ جمارہا۔ یہاں تک کہ میں نے رسول اللہﷺ کے سواروں کو دیکھا کہ درختوں کے درمیان سے چلے آرہے ہیں۔ سب سے آگے اخرم تھے۔ ان کے پیچھے ابو قتادہ ، اور ان کے پیچھے مقداد بن اسود۔ (محاذ پر پہنچ کر ) عبدالرحمن اور حضرت اخرم میں ٹکر ہوئی۔ حضرت اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کردیا لیکن عبد الرحمن نے نیزہ مار کر حضرت اخرم کو قتل کردیا۔ اور ان کے گھوڑے پر جاپلٹا مگر اتنے میں حضرت قتادہؓ ، عبدالرحمن کے سر پر جاپہنچے اور اسے نیزہ مار کرزخمی کردیا۔ بقیہ حملہ آور پیٹھ پھیر کر بھاگے۔ اور ہم نے انھیں کھدیڑنا شروع کیا۔ میں اپنے پاؤں پر اچھلتا ہوا دوڑ رہا تھا۔ سورج ڈوبنے سے کچھ پہلے ان لوگوں نے اپنا رخ ایک گھاٹی کی طرف موڑا جس میں ذی قرد نام کا ایک چشمہ تھا۔ یہ لوگ پیاسے تھے اور وہاں پانی پینا چاہتے تھے لیکن میں نے انھیں چشمے سے پرے ہی رکھا اور وہ ایک قطرہ بھی نہ چکھ سکے۔ رسول اللہﷺ اور شہسوار صحابہ دن ڈوبنے کے بعد میرے پاس پہنچے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ ! یہ سب پیاسے تھے۔ اگرآپ مجھے سو آدمی دے دیں تو میں ان کے جانور بھی چھین لوں۔ اور ان کی گردنیں پکڑ کر حاضر خدمت بھی کردوں۔ آپ نے فرمایا : اکوع کے بیٹے! تم قابوپاگئے ہو تو اب ذرا نرمی برتو۔ پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اس وقت بنو غطفان میں ان کی مہمان نوازی کی جارہی ہے۔
(اس غزوے پر ) رسول اللہﷺ نے تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سب سے بہتر شہسوار ابو قتادہ اور سب سے بہتر پیادہ سلمہ ہیں۔ اور آپ نے مجھے دو حصے دیے۔ ایک پیادہ کا حصہ اور ایک شہسوار کا حصہ۔ اور مدینہ واپس ہوتے ہوئے مجھے (یہ شرف بخشا کہ ) اپنی عضباء نامی اونٹنی پر اپنے پیچھے سوار فرمالیا۔
ا س غزوے کے دوران رسول اللہﷺ نے مدینہ کاانتظام حضرت ابن اُمِ مکتوم کو سونپا تھا۔ اور اس غزوے کا پرچم حضرت مقداد بن عمروؓ کو عطافرمایا تھا۔1
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 سابقہ مآخذ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
غزوہ ٔ خیبر اور غزوۂ وادی القریٰ

(محرم ۷ھ )​
خیبر ، مدینہ کے شمال میں ایک سو ستر کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا۔ یہاں قلعے بھی تھے اور کھیتیاں بھی۔ اب یہ ایک بستی رہ گئی ہے۔ اس کی آب وہوا قدرے غیر صحت مند ہے۔
غزوے کا سبب:
جب رسول اللہﷺ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں جنگِ احزاب کے تین بازوؤں میں سب سے مضبوط بازو (قریش ) کی طرف سے پوری طرح مطمئن اور مامون ہوگئے تو آپ نے چاہا کہ بقیہ دوبازوؤں -یہود اور قبائل نجد-سے بھی حساب کتاب چکا لیں۔ تاکہ ہرجانب سے مکمل امن وسلامتی حاصل ہوجائے۔ اور پورے علاقے میں سکون کا دور دورہ ہو۔ اور مسلمان ایک پیہم خون ریز کشمکش سے نجات پاکر اللہ کی پیغام رسانی اور اس کی دعوت کے لیے فارغ ہوجائیں۔
چونکہ خیبر سازشوں اور دسیسہ کاریوں کا گڑھ ، فوجی انگیخت کا مرکز اور لڑانے بھڑانے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی کان تھا۔ اس لیے سب سے پہلے یہی مقام مسلمانوں کی نگہِ التفات کا مستحق تھا۔
رہا یہ سوال کہ خیبر واقعتاً ایسا تھا یا نہیں تواس سلسلے میں ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اہل ِ خیبر ہی تھے جو جنگ ِ خندق میں مشرکین کے تمام گروہوں کو مسلمانوں پر چڑھالائے تھے۔ پھر یہی تھے جنہوں نے بنو قریظہ کو غدر وخیانت پر آمادہ کیا تھا۔ نیز یہی تھے جنہوں نے اسلامی معاشرے کے پانچویں کالم منافقین سے اور جنگِ احزاب کے تیسرے بازو - بنو غطفان اور بدوؤں - سے رابطہ پیہم کر رکھا تھا اور خود بھی جنگ کی تیاریاں کررہے تھے۔ اور اپنی ا ن کارروائیوں کے ذریعے مسلمانوں کو آزمائشوں میں ڈال رکھا تھا۔ یہاں تک کہ نبیﷺ کو بھی شہید کرنے کا پروگرام بنالیا تھا۔ اور ان حالات سے مجبور ہوکر مسلمانوں کو بار بارفوجی مہمیں بھیجنی پڑی تھیں۔ اور ان دسیسہ کاروں اور سازشیوں کے سربراہوں مثلاً:''سلام بن ابی الحقیق اور اسیر بن زارم ''کا صفایا کرنا پڑا تھا۔ لیکن ان یہود کے تئیں مسلمانوں کا فرض درحقیقت اس سے بھی کہیں بڑاتھا۔ البتہ مسلمانوں نے اس فرض کی ادائیگی میں قدرے تاخیر سے کام لیا تھا کہ ابھی ایک قوت - یعنی قریش- جو ان یہود سے زیادہ بڑی ،طاقتور،جنگجو اورسرکش تھی۔ مسلمانوں کے مد مقابل تھی۔ اس لیے مسلمان اسے نظر انداز کر کے یہود کا رُخ نہیں کرسکتے تھے۔ لیکن جو نہی قریش کے ساتھ اس محاذآرائی کا خاتمہ ہوا ان مجرم یہودیوں کے محاسبہ کے لیے فضا صاف ہوگئی اور ان کا یوم الحساب قریب آگیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
خیبر کو روانگی:
ابن اسحاق کا بیان ہے کہ رسول اللہﷺ نے حدیبیہ سے واپس آکر ذی الحجہ کا پورا مہینہ اور محرم کے چند دن مدینے میں قیام فرمایا۔ پھر محرم کے باقی ماندہ ایام میں خیبر کے لیے روانہ ہوگئے۔
مفسرین کا بیان ہے کہ خیبر اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا جوا س نے اپنے ارشاد کے ذریعہ فرمایا تھا :
وَعَدَكُمُ اللَّـهُ مَغَانِمَ كَثِيرَ‌ةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِ (۴۸: ۲۰)
''اللہ نے تم سے بہت سے اموال ِ غنیمت کا وعدہ کیا ہے جسے تم حاصل کرو گے تو اس کو تمہارے لیے فوری طور پر عطاکردیا۔''
''جس کو فوری طور پر ادا کردیا ''اس سے مراد صلح حدیبیہ ہے اور ''بہت سے اموال ِ غنیمت '' سے مراد خیبر ہے۔
اسلامی لشکر کی تعداد:
چونکہ منافقین اور کمزور ایمان کے لوگ سفر حدیبیہ میں رسول اللہﷺ کی رفاقت اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھروںمیں بیٹھ رہے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کو ان کے بارے میں حکم دیتے ہوئے فرمایا :
سَيَقُولُ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرُ‌ونَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِ‌يدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّـهِ ۚ قُل لَّن تَتَّبِعُونَا كَذَٰلِكُمْ قَالَ اللَّـهُ مِن قَبْلُ ۖ فَسَيَقُولُونَ بَلْ تَحْسُدُونَنَا ۚ بَلْ كَانُوا لَا يَفْقَهُونَ إِلَّا قَلِيلًا (۴۸: ۱۵)
''جب تم اموال غنیمت حاصل کرنے کے لیے جانے لگو گے تو یہ پیچھے چھوڑ ے گئے لوگ کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنے ساتھ چلنے دو۔ یہ چاہتے ہیں کہ اللہ کی بات بدل دیں۔ ان سے کہہ دینا کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے۔ اللہ نے پہلے ہی سے یہ بات کہہ دی ہے (اس پر) یہ لوگ کہیں گے کہ (نہیں) بلکہ تم لوگ ہم سے حسد کرتے ہو۔ (حالانکہ حقیقت یہ ہے ) کہ یہ لوگ کم ہی سمجھتے ہیں۔''
چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے خیبر کی روانگی کا ارادہ فرمایا تو اعلان فرمادیا کہ آپ کے ساتھ صرف وہی آدمی روانہ ہوسکتا ہے جسے واقعۃ ً جہاد کی رغبت اور خواہش ہے۔ اس اعلان کے نتیجہ میں آپ کے ساتھ صرف وہی لوگ جاسکے جنہوں نے حدیبیہ میں درخت کے نیچے بیعت ِ رضوان کی تھی۔ اور ان کی تعداد صرف چودہ سو تھی۔
اس غزوے کے دوران مدینہ کا انتظام حضرت سباع بن عرفطہ غفاری کو ــ--- اور ابن اسحاق کے بقول --- نمیلہ بن عبداللہ لیثی کو سونپا گیا تھا۔ محققین کے نزدیک پہلی بات زیادہ صحیح ہے۔1
اسی موقع پر حضرت ابوہریرہؓ بھی مسلمان ہوکر مدینہ تشریف لائے تھے۔ اس وقت حضرت سباع بن عرفطہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 دیکھئے: فتح الباری ۷/۴۶۵ ، زاد المعاد ۲/۱۳۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
فجر کی نماز پڑھا رہے تھے۔ نماز سے فارغ ہوئے تو حضرت ابو ہریرہؓ ان کی خدمت میں پہنچے۔ انہوں نے توشہ فراہم کردیا۔ اور حضرت ابو ہریرہؓ خدمت نبویﷺ میں حاضری کے لیے خیبر کی جانب چل پڑے۔ جب خدمت نبوی میں پہنچے تو (خیبر فتح ہوچکاتھا ) رسول اللہﷺ نے مسلمانوں سے گفتگو کر کے حضرت ابو ہریرہ اور ان کے رفقاء کو بھی مال غنیمت میں شریک کر لیا۔
یہود کے لیے منافقین کی سرگرمیاں :
اس موقع پر یہود کی حمایت میں منافقین نے بھی خاصی تگ ودو کی۔ چنانچہ راس المنافقین عبد اللہ بن ابی نے یہود ِ خیبر کو یہ پیغام بھیجا کہ اب محمدﷺ نے تمہار ا رُخ کیا ہے۔ لہٰذا چوکنا ہو جاؤ ،تیاری کرلو۔ اوردیکھو !ڈرنا نہیں۔ کیونکہ تمہاری تعداد اور تمہارا سازوسامان زیادہ ہے۔ اور محمدﷺ کے رفقاء بہت تھوڑے اور تہی دست ہیں۔ اور ان کے پاس ہتھیار بھی بس تھوڑے ہی سے ہیں۔
جب اہل خیبر کو اس کا علم ہو ا تو انہوں نے کنانہ بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس کو حصولِ مدد کے لیے بنو غطفان کے پاس روانہ کیا۔ کیونکہ وہ خیبر کے یہودیوں کے حلیف اور مسلمانوں کے خلاف ان کے مدد گار تھے۔ یہود نے یہ پیشکش بھی کی کہ اگر انہیں مسلمانوں پر غلبہ حاصل ہوگیا تو خیبر کی نصف پیداوار انہیں دی جائے گی۔
خیبر کا راستہ:
رسول اللہﷺ نے خیبر جاتے ہوئے۔ جبل عِصْر کو عبور کیا - عِصْر کے عین کو زیر ہے اور ص ساکن ہے۔ اور کہا جاتاہے کہ دونو ں پر زبر ہے - پھر وادیٔ صہباء سے گذرے۔ اس کے بعد ایک اور وادی میں پہنچے جس کا نام رجیع ہے۔ (مگر یہ وہ رجیع نہیں جہاں عضل وقارہ کی غداری سے بنو لحیان کے ہاتھو ں آٹھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شہادت اور حضرت زید وخبیب رضی اللہ عنہما کی گرفتاری اور پھر مکہ میں شہادت کا واقعہ پیش آیا تھا )
رجیع سے بنو غطفان کی آبادی صرف ایک دن اور ایک رات کی دوری پر واقع تھی اور بنو غطفان نے تیار ہوکر یہود کی اِمداد کے لیے خیبر کی راہ لے لی تھی۔ لیکن اثنائِ راہ میں انھیں اپنے پیچھے کچھ شور وشغب سنائی پڑا تو انہوں نے سمجھا کہ مسلمانوں نے ان کے بال بچوں اور مویشیوں پر حملہ کردیا ہے اس لیے وہ واپس پلٹ کر آگئے اور خیبر کو مسلمانوں کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
اس کے بعدرسول اللہﷺ نے ان دونوںماہرین ِ راہ کو بلایا جو لشکر کو راستہ بتانے پر مامور تھے ان میں سے ایک کا نام حسیل تھا - ان دونو ں سے آپ نے ایسا مناسب ترین راستہ معلوم کرنا چاہا جسے اختیار کر کے خیبر میں شمال کی جانب سے یعنی مدینہ کے بجائے شام کی جانب سے داخل ہوسکیں۔ تاکہ اس حکمت ِ عملی کے ذریعے ایک طرف تو یہود کے شام بھاگنے کا راستہ بند کردیں۔ اور دوسری طرف بنو غطفان اور یہود کے درمیان حائل ہوکر ان کی طرف سے کسی مدد کی رسائی کے امکانات ختم کردیں۔
ایک راہنمانے کہا: اے اللہ کے رسول ! میں آپ کو ایسے راستے سے لے چلوں گا۔ چنانچہ وہ آگے آگے چلا۔ ایک مقام پر پہنچ کر جہاں متعدد راستے پھوٹتے تھے عرض کیا: یا رسول اللہ ! ان سب راستوں سے آپ منزل مقصود تک پہنچ سکتے ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا کہ وہ ہرایک کا نام بتائے۔ اس نے بتایا کہ ایک کام حَزن (سخت اور کھردرا) ہے۔ آپﷺ نے اس پر چلنا منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا : دوسرے کانام شاش (تفرق واضطراب والا) ہے۔ آپ نے اسے بھی منظور نہ کیا۔ اس نے بتایا: تیسرے کانام حاطب (لکڑہارا ) ہے آپ نے اس پر بھی چلنے سے انکار کردیا۔ حُسَیْل نے کہا : اب ایک ہی راستہ باقی رہ گیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا : اس کا نام کیا ہے ؟ حُسیل نے کہا: مرحب۔ نبیﷺ نے اسی پر چلنا پسند فرمایا۔
راستے کے بعض واقعات :
۔ حضرت سلمہ بن اکوعؓ کا بیان ہے کہ ہم لوگ نبیﷺ کے ہمراہ خیبر روانہ ہوئے۔ رات میں سفر طے ہورہا تھا۔ ایک آدمی نے عامر سے کہا : اے عامر ! کیوں نہ ہمیں اپنے کچھ نوادرات سناؤ -عامر شاعر تھے - سواری سے اترے اور قوم کی حدی خوانی کرنے لگے۔ اشعار یہ تھے:

اللہم لولا أنت ما اہتدینا ولا تصدقنا ولا صلینـا​
فـاغفر فداء لک ما اتقینا وثبت الأقدام إن لاقینا​
وألقیــن سکینــۃ علینــا إنــا إذا صیح بنـا أبینـا​
وبالصیـاح عولـوا علینـــا​

''اے اللہ ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت نہ پاتے۔ نہ صدقہ کرتے نہ نماز پڑھتے۔ ہم تجھ پر قربان ! تو ہمیں بخش دے۔ جب تک ہم تقویٰ اختیار کریں۔ اور اگر ہم ٹکرائیں تو ہمیں ثابت قدم رکھ۔ اور ہم پر سکینت نازل فرما۔ جب ہمیں للکارا جاتا ہے تو ہم اکڑجاتے ہیں، اور للکار میں ہم پر لوگوں نے اعتماد کیا ہے۔''
رسول اللہﷺ نے فرمایا: یہ کون حدی خوان ہے ؟ لوگوں نے کہا: عامر بن اکوع۔ آپﷺ نے فرمایا : اللہ اس پر رحم کرے۔ قوم کے ایک آدمی نے کہا : اب تو (ان کی شہادت ) واجب ہوگئی۔ آپ نے ان کے وجود سے ہمیں بہرہ ورکیوں نہ فرمایا۔1
صحابہ کرام کو معلوم تھا کہ( جنگ کے موقع پر )رسول اللہﷺ کسی انسان کے لیے خصوصیت سے دعائے مغفرت کریں تو وہ شہید ہوجاتا ہے۔2اور یہی واقعہ جنگِ خیبر میں (حضرت عامر کے ساتھ ) پیش آیا۔ (اسی لیے
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳ صحیح مسلم باب غزوۃ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵
2 صحیح مسلم ۲/۱۱۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
انہوں نے یہ عرض کی تھی کہ کیوں نہ ان کے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی گئی کہ ان کے وجود سے ہم مزید بہرہ ور ہوتے)
خیبر کے بالکل قریب وادی ٔ صہباء میں آپﷺ نے عصر کی نماز پڑھی۔ پھر توشے منگوائے تو صرف ستو لایا گیا۔ آپﷺ کے حکم سے سانا گیا۔ پھر آپﷺ نے کھایا اور صحابہ نے بھی کھایا۔ اس کے بعد آپﷺ مغرب کے لیے اُٹھے تو صرف کلی کی۔ صحابہ نے بھی کلی کی۔ پھر آپﷺ نے نماز پڑھی اوروضو نہیں فرمایا۔1 (پچھلے ہی وضو پر اکتفا کیا۔ )پھر آپﷺ نے عشاء کی نماز ادا فرمائی۔2
نیز جب آپﷺ خیبر کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ شہر دکھائی پڑنے لگا تو آپﷺ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ۔ لشکر ٹھہر گیا۔ اور آپﷺ نے یہ دعا فرمائی :
(( اللہم رب السماوات السبع وما أظللن، ورب الأرضین السبع وما أقللن، ورب الشیاطین وما أضللن فإنا نسألک خیر ہذہ القریۃ وخیر أہلہا وخیر ما فیہا، ونعوذ بک من شر ہذہ القریۃ وشر أہلہا وشر ما فیہا ۔))
''اے اللہ ! ساتوں آسما ن ، اور جن پروہ سایہ فگن ہیں ، ان کے پروردگار ! اور ساتوں زمین ، اور جن کو وہ اٹھائے ہوئے ہیں ، ان کے پروردگار ! اور شیاطین ، اور جن کو انہوں نے گمراہ کیا ، ان کے پروردگار! ہم تجھ سے اس بستی کی بھلائی ، اس کے باشندوں کی بھلائی اور اس میں جو کچھ ہے اس کی بھلائی کا سوال کرتے ہیں۔ اور اس بستی کے شر سے ، اس کے باشندوں کے شر سے ، اور اس میں جو کچھ ہے اس کے شر سے تیری پناہ مانگتے ہیں۔'' 3
اسلامی لشکر خیبر کے دامن میں:
مسلمانوں نے آخری رات جس کی صبح جنگ شروع ہوئی خیبر کے قریب گذاری لیکن یہودیو ں کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ نبیﷺ کا دستور تھا کہ جب رات کے وقت کسی قوم کے پاس پہنچتے تو صبح ہوئے بغیر ان کے قریب نہ جاتے۔ چنانچہ اس رات جب صبح ہوئی تو آپﷺ نے غلس (اندھیرے ) میں فجر کی نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد مسلمان سوار ہوکر خیبر کی طرف بڑھے۔ ادھر اہل خیبر بے خبری میں اپنے پھاوڑے اور کھانچی وغیرہ لے کر اپنی کھیتی باڑی کے لیے نکلے تو اچانک لشکر دیکھ کر چیختے ہوئے شہر کی طرف بھاگے کہ اللہ کی قسم! محمد لشکر سمیت آگئے ہیں۔
نبیﷺ نے (یہ منظر دیکھ کر ) فرمایا:اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ اللہ اکبر ! خیبر تباہ ہوا۔ جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترپڑتے ہیں تو ان ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بُری ہوجاتی ہے۔4
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 ایضا، صحیح بخاری ۲/۶۰۳
2 مغازی الواقدی (غزوہ خیبر ص ۱۱۲)
3 ابن ہشام ۲/۳۲۹
4 صحیح بخاری : باب غزوہ خیبر ۲/۶۰۳ ، ۶۰۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
خیبر کے قلعے :
خیبر کی آبادی دو منطقوں میں بٹی ہوئی تھی۔ ایک منطقے میں حسب ذیل پانچ قلعے تھے:
حصن ناعم
حصن صعب بن معاذ
حصن قلعہ زبیر
حصن ابی
حصن نزار
ان میں سے مشہور تین قلعوں پر مشتمل علاقہ نطاۃ کہلاتا تھا۔ اور بقیہ دوقلعوں پر مشتمل علاقہ شق کے نام سے مشہور تھا۔ خیبر کی آبادی کا دوسرا منطقہ کَتیبَہ کہلاتا تھا۔ اس میں صرف تین قلعے تھے :
حصن قموص (یہ قبیلہ بنو نضیر کے خاندان ابو الحقیق کا قلعہ تھا۔ )
حصن وطیح
حصن سلالم
ان آٹھ قلعوں کے علاوہ خیبر میں مزید قلعے اور گڑھیاں بھی تھیں، مگر وہ چھوٹی تھیں اور قوت وحفاظت میں ان قلعوں کے ہم پلہ نہ تھیں۔
جہاں تک جنگ کا تعلق ہے تو وہ صرف پہلے منطقے میں ہوئی۔ دوسرے منطقے کے تینوں قلعے لڑنیوالوں کی کثرت کے باوجود جنگ کے بغیر ہی مسلمانوں کے حوالے کردیے گئے۔
لشکر کا پڑاؤ :
نبیﷺ نے لشکر کے پڑاؤ کے لیے ایک جگہ کا انتخاب فرمایا۔ اس پر حباب بن منذرؓ نے آکر عرض کیا یارسول اللہ ! یہ بتلایئے کہ اس مقام پر اللہ نے آپ کو پڑاؤ ڈالنے کا حکم دیا ہے یایہ محض آپ کی جنگی تدبیر اور رائے ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں یہ محض ایک رائے اور تدبیر ہے۔ انہوں نے کہا: اے اللہ کے رسول ! یہ مقام قلعہ ٔنطاۃ سے بہت ہی قریب ہے اور خیبر کے سارے جنگ جو افراد اسی قلعے میں ہیں۔ انہیں ہمارے حالات کا پورا پورا علم رہے گا اور ہمیں ان کے حالات کی خبر نہ ہوگی۔ ان کے تیر ہم تک پہنچ جائیں گے۔ اور ہمارے تیر ان تک نہ پہنچ سکیں گے۔ ہم ان کے شبخون سے بھی محفوظ نہ رہیں گے۔ پھر یہ مقام کھجوروں کے درمیا ن ہے۔ پستی میں واقع ہے۔ اور یہاں کی زمین بھی وبائی ہے۔ اس لیے مناسب ہوگا کہ آپ کسی ایسی جگہ پڑاؤ ڈالنے کا حکم فرمائیں جو ان مفاسد سے خالی ہو۔ اور ہم اسی جگہ منتقل ہوکر پڑاؤ ڈالیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : تم نے جورائے دی بالکل درست ہے۔ اس کے بعد آپ دوسری جگہ منتقل ہوگئے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
جنگ کی تیاری اور فتح کی بشارت:
جس رات خیبر کی حدود میں رسول اللہﷺ داخل ہوئے فرمایا : میں کل جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اور جس سے اللہ اور اس کے رسول محبت کرتے ہیں۔ صبح ہوئی تو صحابہ کرام نبیﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ہر ایک یہی آرزو باندھے اور آس لگائے تھا کہ جھنڈا اسے مل جائے گا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے کہا: یارسول اللہ ! ان کی تو آنکھ آئی ہوئی ہے۔1 فرمایا : انہیں بلالاؤ۔ وہ لائے گئے۔ رسول اللہﷺ نے ان کی آنکھوں میں لعاب ِ دہن لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ شفایاب ہوگئے، گویا انہیں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں۔ پھر انہیں جھنڈا عطافرمایا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ! میں ان سے اس وقت تک لڑوں کہ وہ ہمارے جیسے ہوجائیں۔ آپ نے فرمایا : اطمینان سے جاؤ یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترو۔ پھر انہیں اسلام کی دعوت دو۔ اور اسلام میں اللہ کے جو حقوق ان پر واجب ہوتے ہیں ان سے آگاہ کرو۔ واللہ تمہارے ذریعہ اللہ تعالیٰ ایک آدمی کوبھی ہدایت دے دے تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔2
معرکے کا آغاز اور قلعہ ناعم کی فتح :
بہرحال یہود نے جب لشکر دیکھا تو سیدھے شہر میں بھاگے اور اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے۔ اور یہ بالکل فطری بات تھی کہ جنگ گے لیے تیارہوجائیں مسلمانوں نے سب سے پہلے قلعہ ناعم پر حملہ کیا۔ کیونکہ یہ قلعہ اپنے محلِ وقوع کی نزاکت اور اسٹراٹیجی کے لحاظ سے یہود کی پہلی دفاعی لائن کی حیثیت رکھتا تھا۔ اور یہی قلعہ مَرْحب نامی اس شہ زور اور جانبازیہودی کا قلعہ تھا جسے ایک ہزار مردوں کے برابرمانا جاتا تھا۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ مسلمانوں کی فوج لے کر اس قلعے کے سامنے پہنچے اور یہود کو اسلام کی دعوت دی۔ تو انہوں نے یہ دعوت مسترد کردی۔ اور اپنے بادشاہ مرحب کی کمان میں مسلمانوں کے مد مقابل آکھڑے ہوئے۔ میدان جنگ میں اتر کر پہلے مرحب نے دعوتِ مبارزت دی جس کی کیفیت سلمہ بن اکوعؓ نے یوں بیان کی ہے کہ جب ہم لوگ خیبر پہنچے تو ان کا بادشاہ مرحب اپنی تلوار لے کر نازوتکبر کے ساتھ اَٹْھلاتا اور یہ کہتا ہو نمودار ہوا :

قد علمت خیبر أنی مرحب​
شاکی السلاح بطل مجرب​
إذا الحروب أقبلت تلہب​

خیبر کو معلوم ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار پوش ، بہادر اور تجربہ کار ! جب جنگ وپیکار شعلہ زن ہو۔
اس کے مقابل میرے چچا عامر نمودار ہوئے اور فرمایا:
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 اسی بیماری کی وجہ سے پہلے پہل آپ پیچھے رہ گئے تھے، پھر لشکر سے جاملے۔
2 صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۵ ، ۶۰۶ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خیبر کے ایک قلعے کی فتح میں متعدد کوششوں کی ناکامی کے بعد حضرت علی کو جھنڈا دیا گیا تھا لیکن محققین کے نزدیک راجح وہی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207

قد علمت خیبر أنی عامر​
شاکی السلاح بطل مغامر​

''خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہو ں۔ ہتھیار پوش ، شہ زور اور جنگجو۔ ''
پھر دونوں نے ایک دوسرے پر وار کیا۔ مرحب کی تلوار میرے چچا عامر کے ڈھال میں جاچبھی۔ اور عامر نے اسے نیچے سے مارنا چاہا۔ لیکن ان کی تلوار چھوٹی تھی۔ انہوں نے یہودی کی پنڈلی پر وار کیا تو تلوار کا سرا پلٹ کر ان کے گھٹنے پر آلگا۔ اور بالآخر اسی زخم سے ان کی موت واقع ہوگئی۔ نبیﷺ نے اپنی دو انگلیاں اکٹھا کرکے ان کے بارے میں فرمایا کہ ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ وہ بڑے جانباز مجاہد تھے۔ کم ہی ان جیسا کوئی عرب رُوئے زمین پر چلا ہوگا۔1
بہرحال حضرت عامر کے زخمی ہوجانے کے بعد مرحب کے مقابلے کے لیے حضرت علیؓ تشریف لے گئے۔ حضرت سلمہ بن اکوع کا بیان ہے کہ اس وقت حضرت علیؓ نے یہ اشعار کہے:

أنا الذي سمتني أمي حیدرہ کلیث غابات کریہ المنظرہ​
أوفیہم بالصاع کیل السندرہ​

''میں وہ شخص ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر ( شیر) رکھا ہے۔ جنگل کے شیر کی طرح خوفناک، میں انہیں صاع کے بدلے نیزے کی ناپ پوری کروں گا۔''
اس کے بعد مرحب کے سر پر ایسی تلوار ماری کہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ پھر حضرت علیؓ ہی کے ہاتھوں فتح حاصل ہوئی۔2
جنگ کے دوران حضرت علیؓ یہود کے قلعہ کے قریب پہنچے تو ایک یہودی نے قلعہ کی چوٹی سے جھانک کرکہا : تم کون ہو ؟ حضرت علیؓ نے کہا : میں علی بن ابی طالب ہوں۔ یہودی نے کہا: اس کتاب کی قسم جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی ! تم لوگ بلند ہو ئے۔ اس کے بعد مرحب کا بھائی یاسر یہ کہتے ہوئے نکلا کہ کون ہے جو میرا مقابلہ کرے گا۔ اس کے اس چیلنج پر حضرت زبیرؓ میدان اترے۔ اس پر ان کی ماں حضرت صفیہ ؓ نے کہا : یارسول اللہ ! کیا میرا بیٹا قتل کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا:نہیں ! بلکہ تمہارا بیٹا اسے قتل کرے گا۔ چنانچہ حضرت زبیرؓ نے یاسر کو قتل کردیا۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 صحیح مسلم ، باب غزوۂ خیبر ۲/۱۲۲ باب غزوہ ذی قرد وغیرہا ۲/۱۱۵ صحیح بخاری باب غزوۂ خیبر ۲/۶۰۳
2 مرحب کے قاتل کے بارے میں مآخذ کے اندر بڑا اختلاف ہے۔ اور اس میں بھی سخت اختلاف ہے کس دن وہ مارا گیا اور کس دن یہ قلعہ فتح ہوا۔ صحیحین کی روایت کے سیاق میں بھی کسی قدر اس اختلاف کی علامت موجود ہے۔ ہم نے اوپر جو ترتیب ذکر کی ہے وہ صحیح بخاری کی روایت کے سیاق کو ترجیح دیتے ہوئے قائم کی گئی ہے۔
 
Top