نمازِ حاجت كا ذكر چار احادیث میں ملتا ہے، جن میں سے دو احادیث تو موضوع اور من گھڑت ہیں۔ اور ان دو حدیثوں میں سے ایك میں بارہ اور دوسرى حدیث میں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تیسرى حدیث بھى بہت زیادہ ضعیف ہے، اور چوتھى حدیث بھى ضعیف ہے اور ان دونوں حدیثوں میں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے۔
ان چار احادیث میں دو تو سرے سے موضوع ، منگھڑت ہیں ،اسلئے ان کا ذکر ہی نہیں کرتے ،
تیسری اور چوتھی جو ضعیف ہیں وہ درج ذیل ہیں ؛
سیدنا عبد اللّٰہ بن ابواوفى بیان كرتے ہیں كہ رسولِ كریم ﷺ نے فرمایا:
''جس كسى كو بھى اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ كى جانب یا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوكرے اور دو ركعت ادا كر كے اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كر كے نبى ﷺ پر درود پڑھے اور پھر یہ كلمات كہے:
لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِینَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لاَ تَدَعْ لِى ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ وَلاَ حَاجَةً هِىَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَیتَهَا یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ‘‘
(جامع ترمذى :479قال الالباني: ضعيف جدا ؛ سنن ابن ماجہ :1384)
''اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ پاک ہےجوعرش عظیم كا پروردگارہے، سب تعریفات و حمد اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تجھ سے تیرى رحمت واجب کرنے والے اُمور طلب كرتا ہوں، اور تیری بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، میرے سب گناہ معاف كر دے، اور میرے سارے غم و پریشانیاں دور فرما، اور تیرى رضا وخوشنودى كا ،جو بھى حاجت و ضرورت ہے ،وہ پورى فرما اے ارحم الراحمین!''
امام ترمذى اس حدیث كے متعلق كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور اس كى سند پر كلام كیا گیا ہے۔اور علامہ البانى نے اسے ضعیف الترغیب : 416 میں ذكر كیا اور اسے ضعیف جدّاً قرار دیا ہے۔
4. چوتھى حدیث یہ ہےکہ حضرت انس بیان كرتے ہیں كہ نبى كریم ﷺ نے فرمایا:
(يا علي! ألا أعلمك دعاءً إذا أصابك غم أو هم تدعو به ربك؛ فيستجاب لك بإذن الله، ويفرج عنك؛ توضأ وصل ركعتين، [واحمد الله، وأثن عليه، وصل على نبيك، واستغفر لنفسك وللمؤمنين والمؤمنات، ثم قل:
اللهم! أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، لا إله إلا الله العلي العظيم، لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب السماوات السبع ورب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، اللهم! كاشف الغم، مفرج الهم، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما! فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها، رحمةً تغنيني بها عن رحمة من سواك] )
((سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ : 5287)
ترجمہ :
''اے على! كیا میں تجھے ایك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پریشانى ہو تو اپنے ربّ سے دعا كرو تو اللّٰہ كے حكم سے یہ دعا قبول ہو اور تیرى پریشانى و غم دور ہو جائے ؟
وضو كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كرنے كے بعد اپنے نبى ﷺ پر درود پڑھو اور اپنے لیے اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں كے لیے بخشش كى دعا كر كے یہ كلمات ادا كرو:
اللهم أنت تحكم بین عبادك فیما كانوا فیه یختلفون لا إله إلا الله العلي العظیم لا إله إلا الله الحلیم الكریم سبحان الله ربّ السماوات السبع وربّ العرش العظیم الحمد لله رب العالمین اللهم كاشف الغم مفرج الهمّ مجیب دعوة المضطرین إذا دعوك رحمن الدنیا والآخرة ورحیمهما فارحمنی في حاجتی هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنینی بها عن رحمة من سواك7
''اے اللّٰہ تو اپنے بندوں كے مابین فیصلہ كرنے والا ہے جس میں وہ اختلاف كرتے ہیں، اللّٰہ على وعظیم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، آسمان و زمین اور عرش عظیم كا مالك اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ پاك ہے، سب تعریفات اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے غموں كو دور كرنے والے، اور پریشانیوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنیا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحیم، میرى اس حاجت و ضرورت میں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ایسى رحمت فرما جو مجھے تیرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے۔''
علامہ البانى نے اسے الترغیب : 417 میں ضعیف قرار دیا اور كہا ہےکہ اس كى سند مُظلم یعنی اندھیرى ہے، نیز اس میں ایسے رُواۃ ہیں جو معروف نہیں ۔
خلاصہ یہ ہوا كہ اس نماز كے متعلق كوئى حدیث صحیح نہیں، اس لیے مسلمان شخص كے لیے یہ نماز ادا كرنا مشروع نہیں، بلكہ اس كے مقابلہ میں جو صحیح احادیث میں نمازیں اور دعائیں اور اذكار ثابت ہیں وہى كافى ہیں۔
دوم:سوال كرنے والى محترمہ كا یہ كہنا كہ میں نے اس كا تجربہ كیا ہے اور اسے فائدہ مند پایا ہے۔ اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ایسى بات كر چكے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اس طرح كے اقوال اور تجربات سے شریعت ثابت نہیں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہیں ہو جاتا۔
علامہ شوكانى كہتے ہیں:
وَأَقُول السّنة لَا تثبت بِمُجَرَّد التجربة وَلَا يخرج بهَا الْفَاعِل للشَّيْء مُعْتَقدًا أَنه سنة عَن كَونه مبتدعا وَقبُول الدُّعَاء لَا يدل على أَن سَبَب الْقبُول ثَابت عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد يُجيب الله الدُّعَاء من غير توسل بِسنة وَهُوَ أرْحم الرَّاحِمِينَ وَقد تكون الإستجابة استدراجا
''صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعا كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبوليّت كا سبب رسولِ كريم ?سے ثابت ہے? بعض اوقات اللّ?ہ تعالى? تو سنّت كے علاوہ كسى اور چيز كے عمل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللّہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت استدراج ہوتى ہے ''
يعني غلطي کے باوجود اللہ جل شانہ عطا کرتا ہے تاکہ بدعتي کي رسي دراز کرے( تحفۃ الذاكرين )
اور شیخ صالح الفوزان ﷾ كہتے ہیں:
'' اور جو یہ ذكر كیا گیا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، اور فلان نے بھى تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، یہ سب اس حدیث كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو یہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گیا یا جو وارد ہوا ہے اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، كیونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضا و قدر سے ہوا ہو، یا پھر فاعل كے لیے ابتلا و امتحان ہو، تو كسى چیز كا ہو جانا اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا۔''
9
نمازِ حاجت کے متعلق ایک اور فتویٰ
سوال: میرا سوال نماز حاجت كے متعلق ہے۔ یہ كتنى بار ادا كرنى چاہیے، اور اس كى ادائیگی كب ممكن ہے؟ كیا نمازِ حاجت اس وقت ادا كى جائے جس میں دعا كى قبولیت متوقع ہو ؟
جواب: مسلمان كے لیے مشروع یہ ہے كہ وہ اللّٰہ تعالى كى عبادت اس طرح كرے جو اللّٰہ تعالى نے كتاب اللّٰہ میں مشروع كى ہے، اور نبى كریم ﷺ سے ثابت ہے، اور اس لیے بھى كہ عبادت توقیفی ہوتى ہے، جس میں كوئى كمى و بیشى نہیں ہو سكتى۔ اور اس لیے كسى بھى عبادت كے متعلق نہیں كہا جا سكتا كہ یہ عبادت مشروع ہے، لیكن جب صحیح دلیل ہو تو مشروع كہا جا سكتا ہے۔جسے نماز حاجت كے نام سے موسوم كیا جاتا ہے، ہمارے علم كے مطابق یہ ضعیف اور منكر قسم كى احادیث میں وارد ہے، جن احادیث سے كوئى حجت اور دلیل نہیں لى جا سكتى، اور نہ ہى عمل كرنے كے لیے ان احادیث كو دلیل بنایا جا سكتا ہے۔
10
نماز حاجت كے متعلق حدیث یہ ہے جوعبد اللّٰہ بن ابى اوفى اسلمى بیان كرتے ہیں:
''ہمارے پاس رسول ﷺ آئے اور فرمانے لگے:جس كسى كو اللّٰہ تعالىٰ یا كسى مخلوق كے سامنے ضرورت اور حاجت ہو تو وہ شخص وضو كر كے دو ركعت ادا كرے اور پھر یہ كہے: لا إِلَهَ إِلا الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِینَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ أَسْأَلُكَ أَلا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلا غَفَرْتَهُ وَلا هَمًّا إِلا فَرَّجْتَهُ وَلا حَاجَةً هِی لَكَ رِضًا إِلا قَضَیتَهَا لِي
11
''اللّٰہ تعالىٰ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، وہ حلیم و كریم ہے، اللّٰہ تعالىٰ پاك ہے، جو عرشِ عظیم كا رب ہے۔ سب تعریفات اللّٰہ ربّ العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تیرى رحمت كو واجب کرنے والى اشیا كا طالب ہوں اور تیرى مغفرت كا، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى۔ اے اللّٰہ میں تجھ سے سوال كرتا ہوں كہ میرے سارے گناہ معاف كر دے، اور سارے غم اور پریشانیاں دور كر دے، اور جس حاجت میں تیرى رضا ہے وہ میرے لیے پورى كر دے۔پھر دنیاوى اور آخرت كے معاملات سے جو چاہے سوال كرے، اسے دیا جائے گا۔''
امام ترمذى كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس كى سند میں كلام ہے کیونکہ فائد بن عبد الرحمٰن کی حدیث میں ضعف بیان كیا جاتا ہے اور علامہ البانى كہتے ہیں کہ یہ ضعیف جدا ہے۔امام حاكم كہتے ہیں: فائد بن عبد الرحمٰن نے ابو اَوفى سے موضوع احادیث روایت كى ہیں۔
12
صاحب 'السنن و المبتدعات' نے فائد بن عبد الرحمٰن كے متعلق امام ترمذى كا كلام نقل كرنے كے بعد كہا ہے:
''اور امام احمد كا كہنا ہے كہ یہ متروك ہے اور ابن العربى نے اسے ضعیف كہا ہے۔اور اُن كا كہنا ہے:آپ كو اس حدیث میں جو گفتگوہے ،اس كا علم ہو چكا ہے، اس لیے آپ كے لیے افضل ، بہتر اور سلیم یہى ہے كہ آپ رات كے آخرى پہر اور اذان اور اقامت كے درمیان اور نمازوں میں سلام سے قبل اور جمعہ كے روز دعا كریں كیونكہ یہ دعا كى قبولیت كے اوقات ہیں، اور اسى طرح روزہ افطار كرنے كے وقت۔اور پھر آپ كے پروردگار جل شانہ كا فرمان ہے:''تم مجھ سے دعا كرو میں تمہارى دعا قبول كروں گا۔'' اور ایك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالىٰ ہے:
''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال كریں تو اُنہیں كہہ دیں یقیناً میں قریب ہوں، دعا كرنے والے كى دعا كو قبول كرتا ہوں جب وہ مجھے پكارتا ہے۔''
اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا:
''اور اللّٰہ كے لیے اچھے اچھے نام ہیں، تم اسے ان ناموں سے پكارو۔''
13
حوالہ جات
6. جامع ترمذى :479قال الالبانی: ضعیف جدا ؛ سنن ابن ماجہ :1384
7. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 5287
8. تحفۃ الذاكرین :140
9. المنتقى من فتاوى شیخ فوزان :1؍46
10. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء :8؍162
11. سنن ابن ماجہ :1384
12. مشكوٰۃ المصابیح :1؍417
13. كتاب السنن والمبتدعات ازشقیرى :124