• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صورتِ خورشید جیتے ہیں!

جاءالحق

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 12، 2011
پیغامات
48
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
56
صورتِ خورشید جیتے ہیں!​

محترمہ عامرہ احسان​

شیخ اسامہ بن لادنؒ .... احیائے اسلام، احیائے خلافت، احیائے جہاد فی سبیل اللہ کا آفتابِ جہاں تاب ہمارے افق سے غروب ہو کر افقِ جاوداں پر طلوع ہوگیا! اقبالؒ کے اشعار کو انسانی پیکر میں ڈھلتا دیکھنا ہو تو عشق ِ بلاخیز کے قافلہ ٔ سخت جاں کا سرخیل دیکھئے۔انگشت بدندان دیکھئے! تما م اشعار اس قَامت پر راست (فِٹ ) آئیں گے اور کم و بیش اس قافلے کے ہر سپاہی پر۔!
خاکی و نوری نہاد بندۂ مولی صفات
ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بے نیاز
اسکی امیدیں قلیل اسکے مقاصد جلیل
اس کی ادا دلفریب اسکی نگہ دل نواز
نرم دمِ گفتگو گرم دمِ جستجو
رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاک باز​
وہ جس کی زبان سے قرآن و حدیث بہتے شفاف چشموں اور پھوٹتے جھرنوں کا حُسن اور نرمی لئے ہوئے جس کی آواز پر پہرے بٹھائے گئے تھے جاتے ہوئے بلند آہنگ ضربِ کلیمی کا پیغام دے گیا!
ہزار چشمہ ترے سنگِ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کے ضربِ کلیم پیدا کر
جابجا اسامہ بن لادنؒ کی ’طلسماتی شخصیت ‘ کے تذکرے رہے۔ ایسی شخصیت جو اپنے گرد اسرار کا ایک ہالہ لیئے ہوئے ہے۔ آخر کیوں نہ ہو۔ وہ وہی تو تھے:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی​
ڈالروں‘ ریالوں‘پاؤنڈوں سے چندھیائی عبدالدینار و عبدالدرھم نما انسانوں کی آنکھیں اُس شخص کو دیکھ کر حیرت سے دنگ کیوں نہ ہوں جس کے قدموں تلے دنیا رُلتی رہی اور اُس نے اُسے جوتے کی نوک پر رکھا ہو۔سیدنا عثمان غنیؓ اور سیدنا عبدالرحمان بن عوفؓ کے راستے کے راہی۔ ساری دولت تمام اسباب و وسائل جنت خریدنے میں لگادیے۔
1979ءمیں جب یکایک افغانستان کے پہاڑوں سے اُحد کے پہاڑوں جیسی جنت کی خوشبو پھوٹنے لگی۔ حضرت انسؓ بن نضر کے وارث نوجوان دیوانہ وار اس خوشبو کی طرف لپکے۔ روسی ٹینکوں،‘ توپوں سے اُگلتے شعلے، راکٹوں میزائیلوں کی گھن گرج اس موسیقی کا ذوق رکھنے والوں کو کھینچ لائے۔

صدائیں کرب و بلا کی گھاٹی سے گھن گرج کی جو آرہی ہیں
یہ نغمہ ٔ حور جنتاں ہے یہ ساز تم کو بلا رہا ہے
محاذ تم کو بلا رہا ہے!

ہر وہ پاکیزہ نوجوان جس کی قوتِ شاّمہ ‘ باربی کیو‘ نسوانی خوشبوؤں کے پیچھے لپکتے شل نہ ہوئی تھی جس نے اپنے کانوں کو پاپ اور راک موسیقی سے بچا بچا کر رکھا تھا وہ لپکا شوقِ جہاد، شوقِ شہادت کی دیوانگی میں لپکا۔ انہی قدسی نفوس میں سے ایک نوجوان اسامہؒ بن لادن تھے۔ وہ جو منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوا تھا اس سے عظیم تر تجارت کا سوداگر بن کر نکلا۔ ہل ادلکم علی تجارة....(الصف) لوگ دنیا کے دُکھوں عذابوں سے بچنے کے لئے قطرے برابر دنیا میں ٹائی ٹینک (Titanic) بھر مال مہیا کرتے ہیں(پوری امت مسلمہ الا ما شاءاللہ ۔۔۔ اسی دیوانگی میں گرفتار ہے) اور آخرت کے سمندر میں اترنے کےلئے کاغذ کی ناؤ بھی پاس نہیں ہوتی! شیخ اسامہؒ کے قبیلے کے لوگوں نے موت میں زندگی تلاش کی۔ ۲ مئی کو انہوں نے زندگی پا لی جس کے تعاقب کا طویل سفر انہوں نے افغانستان کے پہاڑوں چٹانوں، برف پوش وادیوں، غاروں سے شروع کیا۔ ان کے روئیں روئیں نے اس راہ کی صعوبتیں اپنی جان پر لیں۔ اس کی راہ میں ہجرت گھروں سے نکالا جانا (شہریت سے محرومی) اس راہ کی آبلہ پائی کے دُکھ اور تکلیفیں، اپنوں کی بے وفائیاں، مار ہائے آستین مسلمانوں کا ڈسنا، وہ معالج جو اپنے مریض کے ہتڑ کھاتا جاتا ہے اور علاج سے ہاتھ نہیں اُٹھاتا۔ دورِ اول کو زندہ کرنے میں جو لازوال بے مثال قربانیاں شیخ اسامہؒ نے دیں وہ احیائے جہاد کے باب کے زرّیں اوراق ہیں۔ ہر سنت کا احیاءانہوں نے کیا۔ ان کے خاندان ‘ بیویوں ‘ بچوں نے بھی کیا۔ جہاد ِ افغانستانِ اول تو آسان تھا۔ ساری دنیا ہمنوا تھی۔ روس کافر تھا ۔ مجاہدین تو خالص تھے۔ (پشت پناہی کے لئے میدان میں بعد ازاں اترنے والے اداکاروں نے جہاد کے ثمرات لوٹنے کی کوشش کی۔) جب ثمراتِ جہاد امارت اسلامیہ افغانستان کا روپ دھار گئے تو کافروں منافقوں کی سٹی گم ہونے لگی۔ خلافت اسلامیہ کا احیاء’امن عالم‘ کےلئے بہت بڑے خطرے کی علامت تھا! اصل امتحان کا وقت اب تھا۔ شجرہ طیبہ پر بہار آنے کے امکانات روشن ہوئے تو دنیا لرز اُٹھی۔ جہاد ِ افغانستان دوئم کا منظر عجب تھا۔ وہی افغانستان تھا۔ جنت کی خوشبو تیز تر تھی۔ لیکن سفر ہلکا اور فائدہ سہل الحصول نہ تھا! (عرضاً قریباً وسفراً قاصداً....)ساری دنیا چھٹ گئی۔ جہاں سے طیارے بھر بھر کے مجاہدین کے آتے تھے، جس مسلم دنیا میں ترغیبات ِ جہاد کے خطبے جاری ہوتے تھے، وہاں جہا د بحکمِ امریکہ دہشت گردی قرار پاگیا۔ مجاہدین کے لئے دعا کرنا، قنوت نازلہ پڑھنا مسلم دنیا کی مساجد میں ممنوعات میں سے ہوگیا۔ وہ تاریک، ہیبت ناک رات جب امارت اسلامیہ کے ذبیحے کے لئے امریکی فوجیں افغانستان میں اتریں۔ امت پر چھا جانے والی طویل سیاہ رات میں پہلے سے ریکارڈ شدہ پیغام ِ زندگی، پیغامِ انقلاب، پیغام جہاد کس کا تھا....؟
پہاڑوں کے سنگلاخ پس منظر میں آہنی عزم رکھنے والے شیخ اسامہؒ اپنے ساتھی کے ساتھ کفر کی مہیب قوتوں کے ساتھ ٹکرا جانے کا حوصلہ دے رہے تھے۔ گزشتہ دس سالوں میں امت پر چھائے سناٹے میں پوری دنیا کفر کو للکارنے والی وہ ایک بے خوف آواز کس کی تھی؟ جب مسلم ممالک کی قیادت دور دور تک ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو لئے ویٹی کن اور چرچ آف انگلینڈ کی مسیحی خلافت کی صلیبی فوجوں کے شانہ بشانہ ’ مسلمانوں ‘ ہی کا شکار کھیل رہی تھی۔ (دہشت گردی ۔ جہاد کا دوسرا نام تھا۔ دہشت گرد ’ مجاہد‘ ہی تھا)۔ ایسے میں ظالم، بدمعاش، عیاش، خونخوار درندوں کے اُس غول کا جوافغانستان اور عراق پر پوری دنیا کا موجود اسلحہ لے کرٹوٹ پڑا تھا، مقابل کون آیا۔؟ ابو مصعب زرقاویؒ کون تھا۔؟ اسامہ بن لادن ؒ کون تھا۔؟پوری دنیا کو مطلوب دہشت گرد۔؟ عراق اور افغانستان میں اتنی بھاری بھرکم عسکری شان و شوکت والی قوتوں کو شکست فاش کس نے دی۔؟ اس ملین ڈالر سوال کا جواب کوئی نہیں دیتا۔ نہ کوئی میڈیا۔ نہ کوئی سیاست دان ۔ نہ دانشور۔ نہ عالم۔! یہ وہ جہاد ہے جس میں ایک نئی نرالی نسبت قائم ہوئی ہے۔ وہ ایک اور دس کی بھی نہیں ۔ ایک اور ۳۳ (جنگ مؤتہ) کی بھی نہیں ۔ وہ مٹھی بھر طالبان اور مجاہدین صورتِ ابابیل ہاتھیوں کے لشکر کا بھوسہ بنانے والے ہیں ! ملّا عمر کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا مجاہدین کا سرخیل۔ اسامہؒ بن لادن۔!
حضرت مصعبؓ بن عمیر کی سنت پر عیش و راحت تج کر نکلنے والا، حضرت خبیبؓ کی طرح گھِر کر شہید کیا گیا۔ وہ (خبیبؓ) بلیع الارض تھے۔ صحابہؓ جب ان کا جسد خاکی مشرکین کی دست برد سے نکال لے جانے کو آئے تو زمین حیرت انگیز طور پر انہیں نگل گئی ۔ اسامہؒ ’بلیع البحر‘ ہوگئے۔ آفتاب سمندر میں ہی ڈوبا کرتا ہے۔! انہوں نے قومیت ‘ عربیت‘ جمہوریت پہ لڑتے جان نہیں دی۔ انہوں نے معرکہءبدر الثانی میں حیاتِ جاوداں پائی ہے۔
میڈیا نے مسلم دنیا کو گمراہ کرنے، شہادت سے گرم ہوتے لہو کو سرد کرنے کو ابھی بہت غلغلے اٹھانے ہیں ۔ جھوٹ کے طومار باندھنے ہیں۔ عین اسی پیرائے میں جس کی منظر کشی قرآن نے کر رکھی ہے۔ ’ ان میں سے تو جسے بھی اپنی آواز سے بہکا سکے بہکا لے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھا لا۔ ‘ (بنی اسرائیل۔64) لہٰذا بلیسی میڈیا من مانی منتخب تصاویر من گھڑت بیانات، آواز کی گھن گرج، اینکرز کے لاؤ لشکر (یاد کیجئے عراق پر حملے سے قبل اسی ’آواز‘ کے واویلے۔ بعد ازاں مکمل جھوٹ ثابت ہوا) دجل و فریب، منہ میں الفاظ ڈال کر سیاق و سباق کی ہیرا پھیری (لال مسجد، سوات آپریشن کی تیاری میں میڈیا کی یلغار۔ ویڈیو سوات کا جھوٹا پلندہ ) یہ سب ہوگا۔ شروع ہوچکا ۔ ’ اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری کے درمیان پیسے پر تنازعہ، جھگڑا‘.... سبحان اللہ ! عبادالدینار‘ اور عبادالدراھم کو چہار جانب پیسہ ہی پیسہ اور جھگڑا ہی جھگڑا نظر آتا ہے۔ ہر آئینے میں اپنی ہی صورت دکھتی ہے! لہٰذا اب جھوٹ اور ڈس انفارمیشن کے نئے طومار بندھنے کو ہیں۔ قرآن کھول لیجئے۔ ٹیلی ویژن کے دہانے بند کردیجئے۔ یہ وقت سجدوں کی طوالت اور اللہ کا دامن تھام لینے کا ہے۔ امت اُس دور میں داخل ہوگئی ہے جب فیصلہ کن جنگیں شروع ہونے کو ہیں۔ سبھی کچھ داؤ پر لگے گا۔ صرف اقصیٰ نہیں۔ صرف ایٹمی پاکستان نہیں۔حرمین شریفین بھی۔ اللہ کو طیب و خبیث کو تو الگ کرنا ہی ہے۔ چھلنیاں لگ چکیں۔ شارٹ لسٹنگ ہورہی ہے۔ اپنے مقام کا تعین کرنا ہے۔ ایمان وکفر، کعبہ و کلیسا میں سے یعنی دنیا و آخرت میں سے انتخاب کرنا ہوگا۔ آخرت کوچ کرچکی اور آرہی ہے۔ دنیا کوچ کرچکی اور جارہی ہے۔اپنی قوتیں، صلاحیتیں، اموال اسباب تیار کرلیجئے۔ قطرے کے طلبگار ہیں (دنیا)۔؟ یا سمندر کے۔؟(آخرت!)
تاہم دنیائے کفر شیخ اسامہؒ کی شہادت پر زیادہ بغلیں نہ بجائے ۔ اُسے یہ یاد ہوگا (کیونکہ گورا مسلمانوں سے زیادہ قرآن اور تاریخ پڑھتا ہے!) کہ نبی ﷺ کے وصال سے بڑا کوئی غم مسلمانوں پر نہیں ٹوٹ سکتا تھا۔ جس دن سینے میں دل ہانڈیوں کی طرح پک رہے تھے ۔ وقتی طور پر شدت ِ غم سے مسلمان ہوش کھو بیٹھے تھے لیکن پھرتمہارے رومی اجداد نے دانتوں تلے انگلی دبا کر یہ دیکھا کہ انہیں دو خبریں اکٹھی ملیں ۔ وصال نبویﷺ اور لشکر اسامہ بن زیدؓ کی شام کی طرف رومیوں سے جنگ کےلئے روانگی! اور رومی مقابلے پر آنے کی ہمت نہ کرسکے۔ لشکر اسامہ ؓ غنیمتوں سے لدا سلامتی سے لوٹا! سیدنا ابوبکرؓ کے انتقال پر اسی طرح سیدنا عمرؓ نے فوری لشکرِ مثنیٰؓ عراق روانہ کر دیا تھا۔ ہمارے قافلے شہادتوں ‘ رحلتوں سے رُکا نہیں کرتے ۔ تیز تر ہو جاتے ہیں۔ شیخ اسامہؒ کے لشکر بھی تھمے نہیں رُکے نہیں۔ افغانستان کا ہر مجاہد کفر کےلئے موت کا پیغام ہے۔ اور اب تو یہ موت عین ان کے درمیان (افغان پائلٹ کی صورت ) یوں پھوٹتی ہے کہ ہوش لینے نہیں ملتے۔ شیخ اسامہؒ نے جہاد فی سبیل اللہ کو جس طرح منظم کردیا وہ رواں دواں ہے۔ وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل....محمد ﷺ صرف رسول ہی ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول ہوچکے ہیں کیا اگر ان کا انتقال ہو جائے یا یہ شہید کردیئے جائیں تو تم اسلام سے الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ اور جو کوئی پھر جائے اپنی ایڑیوں پر تو ہرگز اللہ کا کچھ نہیں بگاڑے گا‘ عن قریب اللہ شکرگزاروں کو نیک بدلہ دے گا بغیراللہ کے حکم کے کوئی جاندار نہیں مرسکتا‘ مقرر شدہ وقت لکھا ہوا ہے۔(آل عمران ۔ 144۔145)
ہماراقرآنی میڈیا ہمیں لمحہ لمحہ رہنمائی دیتا ہے۔ جس دن کی تمنا میں وہ جئے وہ لمحہ اللہ کے حکم سے آن پہنچا۔ خدائی کے لہجے میں ’ امریکہ کرتا ہے جو کچھ چاہتا ہے‘ کا دعویٰ کرنے والا اوباما.... 12 سال سرپٹختے رہے وہ اور اس کے حواری؟ سارے سیٹلائیٹ، پوری سی آئی اے، اللہ کے مقرر شدہ وقت سے پہلے ’فعالٌ لما یرید‘ (عیاذًا باللہ) کیوں نہ بن پائی! اب شیخ ؒ جس دنیا میں ہیں وہاں ہمارے تمہارے اینکر پرسنز اور گماشتوں سے پوچھ کر مقام کا تعین نہیں ہوتا۔ وہ استقبال (انشاءاللہ ۔ نحن نحسبہ کذلک واللہ حسیبہ ولانزکی علی اللہ احدا) ہمارے دل کی آنکھیں دیکھ رہی ہیں۔ ’ اے نفس مطمئنہ لوٹ چل اپنے رب کی طرف اس طرح کہ تو اس سے راضی اور وہ تجھ سے خوش۔ بس داخل ہو جا میرے خاص بندوں میں اور جا جنت میں‘
اللہ نے مومن کے لئے پوری روئے زمین مسجد بنادی ۔ اسے عملاً مسجد بنانا ہمارے ذمے تھا۔ یہی شیخؒ کا مشن تھا!
الا لہ الخلق والامر.... ان الحکم الا للہ.... ھوالذی ارسل رسولہ بالھدیٰ۔ حتیٰ لا تکون فتنة۔۔۔۔ حتیٰ یعطوا الجزیة عن یدوھم صاغرون۔۔۔ ان آیات پر دنیا کو قائم کرنے کےلئے جینے والے اور اسی پر جان دینے والے سے بڑھ کر بھی کوئی خوش نصیبی ان گھور اندھیروں میں ممکن ہے۔؟ فالذین ھاجروا و اخرجوا من دیارھم و اوذوا فی سبیلی کا حرف حرف جن پر صادق آتا ہو اُن سے بڑا ہیرو (وھن کی ماری اس امت کو) نصیب ہوا ہے۔؟
اب ایمان کا کمزور ترین درجہ ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ شیخ اسامہؒ کے خاندان کا تحفظ ہمارا فریضہ ٔ اولین ہے۔ عرب کی نازو نعم میں پلی شہزادیاں جنہوں نے مصعبؓ بن عمیر کے نقش قدم پر چلنے والے شوہر کا ساتھ دینے کےلئے ۔ حضرت عمرؒبن عبدالعزیز کی شہزادی بیوی حضرت فاطمہؒ کا سا کردار اپنایا۔ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔
حضرت بریرہ ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔’ مجاہدین کی عورتوں کی حرمت جہاد سے پیچھے رہنے والوں کےلئے ایسی ہے جیسی ان کی ماؤں کی حرمت۔ اور جو شخص جہاد سے پیچھے رہ کر مجاہدین کے اہل و عیال کی خبر گیری کرے اور پھر اس میں خیانت کرے تو وہ قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کے عمل سے جو چاہے گا لے لے گا۔ پس تمہارا کیا خیال ہے؟ (مسلم)
اسامہؒ بن لادن شہادت کے بعد امریکہ کےلئے اور بھی خطرناک ہوچکے ۔ ایبٹ آباد‘ اسامہ آباد اور بلال ٹاؤن بن لادن ٹاؤن بننے کو ہے۔مقامِ شہادت۔ مقامِ عقیدت بننے چلا ہے۔ مارے خوف کے جسدِ خاکی سمندر میں بہا دیا۔ گھر مسمار کرنے گرا دینے کو ہیں! مگر جو دلوں میں گھر کر جائے ‘ دماغوں میں بس جائے اس کا کیا علاج ہو۔؟ تاہم عقیدتوں کا عملی اظہار مشن سے وابستگی اور خاندان کے تحفظ کے ذریعے کیجئے۔

ابابیلیں ہیں ہم بس اس قدر ہی فرض ہے ہم پر
کوئی پتھر کوئی کنکر
ذرا ان ہاتھیوں کے لشکروں پر پھینک دیں اور پھر
افق کے پار جا پہنچیں جہاں ساروں کو جانا ہے
ہمیں لیکن محض زخمِ جگر اپنا دکھانا ہے
پھر اس کے بعد کی دنیا کا ہر منظر سہانا ہے​
 
Top