غبی کامعنی ہی آپ کو معلوم نہیں ہے ۔ندوی صاحب آپ حضرات کی ترجمہ کی لیاقت پر غلط شبہ تونہیں کرتے۔
غباوت کا لازم جہالت ہے اوریہاں پر جہالت ہی مراد ہے۔ ویسے امام شاطبی نے بھی خود کومقلد کہاہے ۔اب پتہ نہیں موجوہ غیرمقلدین کی نگاہ میں وہ جاہل ہیں یاعالم ہیں۔
سٹ پٹانے اوربوکھلانے کی بات درست ہے لیکن صرف آپ کے تعلق سے۔ امام ابوحنیفہ کا ذکر خیر زبردستی آپ لے آئے ہیں۔ جوعبارت البانی کی پیش کی ہے اس میں بھی واضح ہے کہ امام مسلم کے جملہ کا تذکرہ بعد میں آتاہے لیکن ہمارے مہربان بھلاکسی موضوع میں امام ابوحنیفہ کا تذکرہ بھول جائیں یہ کیسے ممکن ہے۔
کیاجھوٹ بولناگناہ کبیرہ نہیں ہے؟اس کے باوجود امام ابن قطان ان کو صالحین کہہ رہے ہیں حالانکہ جوعادی جھوٹاہوتاہے وہ بھلاصالحین ہوسکتاہے؟اس سامنے کی بات کوبھی دیکھنے اورسمجھنے کی جن کی صلاحیت اورلیاقت نہ ہو ۔ توپھران سے مزید کیاامید کی جاسکتی ہے۔
شاید آپ جیسے غبی حضرات کے پیش نظر ہی امام مسلم نے یہ بھی واضح کردیاکہ ان کے اس جملہ کا مطلب کیاہے۔
صوفیاء حضرات نیک اورانتہائی دیندار تھے ان کی دینداری کی سند توخود آپ نے بھی ذکر کیاہے۔
: إن عباد بن كثير من تعرف حاله (يعني في الصلاح والتقوى) وإذا حدث جاء بأمر عظيم، فترى أن أقول للناس: لا تأخذوا عنه؟ قال: سفيان: بلى، قال عبد الله: فكنت إذا كنت في مجلس ذكر فيه عباد أثنيت عليه في دينه، وأقول: لا تأخذوا عنه.
جھوٹ کو گناہ کبیرہ سمجھتے تھے اوردانستہ حضورپاک پر جھوٹ بھی نہیں بولتے تھے۔
بات یہ تھی کہ ایک تو وہ خود انتہائی نیک ہوتے تھے لہذا دوسروں کو بھی اپنے جیساسمجھ کر ان کی بات پر اعتماد کرلیتے تھے تحقیق حال نہیں کرتے تھے لہذا ہرایک سے روایت قبول کرلیتے تھے۔ دوسرے وہ محدثین کی طرح حفظ حدیث اورمذاکرہ کا اہتمام نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے غیردانستہ طورپر روایت بیان کرنے میں غلطی کرجاتے تھے۔ یہاں پر بھی امام مسلم کے لفظ
يقول يجري الكذب على لسانهم، ولا يتعمدون الكذب سے غلطی ہی مراد ہے جیساکہ پورے سیاق وسباق میں دیکھاجاسکتاہے۔
اوراسی بناء پر امام مسلم نے بھی ان کا تزکیہ بیان کیاکہ وہ دانستہ طورپر غلطی نہیں کرتے ہیں۔
تو کیا صوفیاء جھوٹ نہیں بولتے
جودانستہ جھوٹ بولے اس کو آپ صالحین میں کیسے شمار کرسکتے ہیں۔
یاپھر یہ مان لیں کہ امام مسلم نے جو تفسیر کی ہے وہی غلط ہے۔ وہ ابن قطان کےقول کامقصد نہیں سمجھ سکے۔