کلیم حیدر
ناظم خاص
- شمولیت
- فروری 14، 2011
- پیغامات
- 9,747
- ری ایکشن اسکور
- 26,381
- پوائنٹ
- 995
صوفیت کی ایک اصطلاح ’’ابدال‘‘ کی حقیقت !
استاذ محترم علامہ غلام مصطفٰے ظہیر امن پوری حفظہ اللہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ابدال کے بارے میں کچھ ثابت نہیں، جیسا کہ حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (٥٠٨۔ ٥٩٧ھ) فرماتے ہیں :شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦١١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :ولیس فی ہذہ الأحادیث شیء صحیح ۔ (الموضوعات لابن الجوزی : ٣/١٥٢)
''ان احادیث میں سے کوئی بھی ثابت نہیں۔''
نیز فرماتے ہیں :تکلّم بہ بعض السلف ، ویروی فیہ عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم حدیث ضعیف ۔ (مجموع الفتاوی : ٤/٣٩٤)
''اس بارے میں بعض پرانے بزرگوں نے بات کی ہے۔ اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک غیرثابت حدیث مروی ہے۔''
شیخ الاسلام ثانی ، عالم ربانی ، حافظ ابن القیم رحمہ اللہ (٦٩١۔٧٥١ھ) فرماتے ہیں:الأشبہ أنّہ لیس من کلام النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١١/٤٤١)
''درست بات یہی ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہے۔''
اتنی سی وضاحت کے بعد ابدال کے متعلق مروی احادیث پر مختصر تبصرہ پیشِ خدمت ہے:أحادیث الأبدال والأقطاب والأغواث والنقباء والنجباء والأوتاد کلّہما باطلۃ علی رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ۔ (المنار المنیف لابن القیم : ص ١٣٦)
''ابدال ، اقطاب ، اغواث، نقباء ، نجباء اور اوتاد کے بارے میں تمام کی تمام احادیث خود گھڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمے لگائی گئی ہیں۔''