حدیث نمبر 16 :
محمد بن علی بن جعفر ابوبکر الکتانی الصوفی کہتے ہیں:
النقباء ثلاث مأۃ ، والنجباء سبعون ، والبدلاء أربعون ، والأخیار سبعۃ ، والعمد أربعۃ ، والغوث واحد ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
''نقباء تین سو ہیں، نجباء ستر ہیں ، ابدال چالیس ہیں ، اخیار سات ، قطب چار اور غوث ایک ہے۔ــ''
تبصرہ :
یہ جھوٹی کہانی ہے ، اس کو گھڑنے والا شخص علی بن عبداللہ بن الحسن بن جہضم الہمدانی ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
متّہم بوضع الحدیث ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ٣/١٤٢)
''یہ حدیث گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔''
نیز فرماتے ہیں :
لیس بثقۃ ، بل متّہم ، یأتی بمصائب ۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٧/٢٧٦)
''یہ ثقہ نہیں بلکہ متہم راوی ہے جو کہ جھوٹ طوفان بیان کرتا ہے۔''
نیز یہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ، نہ قول صحابی ہے نہ قول تابعی ۔یہ باطل و ضعیف قول آگے یوں ہے :
فمسکن النقباء المغرب ، ومسکن النجباء مصر ، ومسکن الأبدال الشام ، والأخیار سیّاحون فی الأرض، والعمد فی زوایا الأرض ، ومسکن الغوث مکّۃ ، فإذا عرضت الحاجۃ من أمر العامّۃ ابتہل فیہا النقباء ، ثمّ النجباء ، ثمّ الأبدال ، ثمّ الأخیار ، ثمّ العمد ، ثمّ أجیبوا ، وإلّا ابتہل الغوث ، فلا یتمّ مسألتہ حتّی تجاب دعوتہ ۔(تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
''نقباء کا مسکن مغرب ، نجباء کا مصر ، ابدال کا شام ہے۔ اخیار سیّاح (گھومنے پھرنے والے)ہوتے ہیں۔ قطب زمین کے گوشوں میں ہوتے ہیں۔ جب مخلوق کو عمومی مصیبت آ جائے تو دعا کے لیے نقباء ہاتھ پھیلاتے ہیں ، اگر قبول نہ ہو تو نجباء ، پھر اخیار ، پھر قطب ، اگر پھر بھی قبول نہ ہو تو غوث دُعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے حتی کہ اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔''
یہ کتانی کے قول کا بقیہ حصہ ہے جس کے راوی کے متعلق آپ جان چکے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکذا کلّ حدیث یروی عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی عدّۃ الأولیاء والأبدال والنقباء والنجباء والأوتاد والأقطاب ، مثل أربعۃ أو سبعۃ أو اثنی عشر أو أربعین أو سبعین أو ثلاثمائۃ وثلاثۃ عشر أو القطب الواحد ، فلیس فی ذلک شیء صحیح عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ولم ینطق السلف بشیء من ہذہ الألفاظ إلا بلفظ الأبدال ۔۔۔ (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان لابن تیمیۃ : ١٠١)
''اسی طرح ہر وہ روایت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اولیاء ، ابدال ، نقباء ، نجباء ، اوتاد اور اقطاب کی تعداد مثلا چار ، سات ، بارہ، چالیس ، ستر ، تین سو ، تیرہ یا ایک قطب کے بارے میں بیان کی گئی ہے، ان میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں نہ ان الفاظ میں سے سلف نے کوئی لفظ بولا ہے ، سوائے ابدال کے لفظ کے۔۔۔''
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ستکون فتنۃ یحصل الناس منہا کما یحصل الذہب فی المعدن ، فلا تسبّوا أہل الشام ، وسبّوا ظلمتہم ، فإنّ فیہم الأبدال، وسیرسل اللّٰہ إلیہم سیبا من السماء فیغرقہم ، حتّی لو قاتلتہم الثعالب غلبتہم، ثمّ یبعث اللّٰہ عند ذلک رجلا من عترۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی اثنی عشر ألفا إن قلّوا وخمسۃ عشر ألفا إن کثروا ، إمارتہم أو علامتہم أمت أمت علی ثلاث رایات ، یقاتلہم أہل سبع رایات ، لیس من صاحب رایۃ إلّا و ہو یطمع بالملک ، فیقتتلون و یہزمون ، ثمّ یظہر الہاشمیّ ، فیردّ اللّٰہ إلی الناس إلفتہم ونعمتہم ، فیکونون علی ذلک حتّی یخرج الدجّال۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٩٦، ح : ٨٦٥٨، وسندہ، صحیحٌ)
''عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میںکندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمت أمت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔''
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ''صحیح الاسناد'' اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''صحیح'' قرار دیاہے۔
ابدال کی تعریف و تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)فرماتے ہیں :
فسّروہ بمعان ، منہا : أنّہم أبدال الأنبیاء ، ومنہا : أنّہ کلّما مات منہم رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ، ومنہا : أنّہم أبدلوا السیّأات من أخلاقہم وأعمالہم وعقائدہم بحسنات ، وہذہ الصفات لا تختصّ بأربعین ، ولا بأقلّ ، ولا بأکثر ، ولا تحصر بأہل بقیّۃ من الأرض ۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١١/٤٤٢)
''علمائے کرام نے اس کی کئی تفسیریں کی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء کے بدل ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے اخلاق ، اعمال اور عقائد سے برائیوں کو نکال کر ان کی جگہ نیکیوں کو دے دی ہے۔ یہ صفات چالیس یا کم و بیش کے ساتھ خاص نہیں نہ باقی زمین والوں سے ان کو بند کیا گیا ہے۔''