• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صوفیت کی ایک اصطلاح ’’ابدال‘‘ کی حقیقت !

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر 10:
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لن تخلو الأرض مثل إبراہیم خلیل الرحمن ، بہم تغاثون ، وبہم ترزقون ، وبہم تمطرون ۔ (کتاب المجروحین لابن حبان : ٢/٦١، ت : ٦٠٥)
''زمین خالی نہ رہے گی ایسے لوگوں سے جو مثل ابراہیم خلیل الرحمن uکے ہوں گے۔ ان کے سبب سے تمہیں رزق دیا جائے گا اور بارش برسائی جائے گی۔''
تبصرہ :
یہ گھڑنتل ہے ۔ اس کو ایجاد کرنے والا راوی عبد الرحمن بن مرزوق بن عوف ہے۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں :
یضع الحدیث ، لا یحلّ ذکرہ إلّا علی سبیل القدح فیہ ۔
''یہ حدیث گھڑنے کا کام کرتا تھا۔ جرح کے بغیر اس کا ذکر جائز نہیں۔''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر11 :
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّ أبدال أمّتی لم یدخلوا الجنّۃ بالأعمال ، ولکن إنّما دخلوا برحمۃ اللّٰہ وسخاوۃ النفس وسلامۃ الصدر ۔۔۔(شعب الایمان للبیہقی : ١٠٨٩٣)
''میری امت کے ابدال اپنے اعمال کے سبب سے جنت میں داخل نہ ہوں گے بلکہ اللہ کی رحمت سے ، نفسوں کی سخاوت سے اور سینوں کی سلامتی سے داخل ہوں گے۔۔۔''
تبصرہ :
اس کی سند سخت ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1۔اس کے راوی صالح بن بشیر المری ابوبشر البصری کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ ''ضعیف'' راوی ہے۔(تقریب التھذیب لابن حجر : ٢٨٤٤)
2۔اس میں حسن بصری رحمہ اللہ کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر 12 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
البدلاء أربعون ، اثنان وعشرون بالشام وثمانیۃ عشر بالعراق ، کلّما مات منہم واحد بدّل اللّٰہ مکانہ آخر ، فإذا جاء الأمر قبضوا کلّہم ، فعند ذلک تقوم الساعۃ ۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی : ٥/٢٢٠،٢٢١)
''ابدال چالیس ہیں،بائیس شام میں ہوتے ہیں اور اٹھارہ عراق میں۔ ان میں سے جو فوت ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دیتا ہے اور جب اللہ کا حکم آئے گا تو سب فوت ہو جائیں گے۔ اسی وقت قیامت آئے گی۔''
تبصرہ :
یہ خود ساختہ روایت ہے۔ اس کا راوی العلاء بن زید ثقفی وضّاع (اپنی طرف سے حدیثیں گھڑنے والا)ہے۔ خود امام ابن عدی رحمہ اللہ نے اسے ''منکر الحدیث'' قرار دیا ہے۔ کبار ائمہ محدثین نے اسے ''متروک'' کہا ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر 13 :
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لن تخلو الأرض من أربعین رجلا مثل خلیل الرحمن ، فبہم یسقون ، وبہم ینصرون ، ما مات منہم أحد إلّا أبدل اللّٰہ مکانہ آخر ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی : ٤/٢٤٧، ح : ٤١٠١)
''چالیس مرد جو مثل خلیل اللہ کے ہیں ، ان سے زمین کبھی خالی نہ ہو گی۔ ان کی وجہ سے تمہیں بارش اور تمہیں مدد دی جائے گی۔ جب ان سے کوئی فوت ہو ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرا بدل دے گا۔''
تبصرہ :
اس کی سند ''ضعیف'' ہے کیونکہ :
1، 2، 3۔اس میں عبد الوہاب بن عطاء الخفاف ، اس کا استاذ سعید بن ابی عروبہ اور اس کا استاذ قتادہ تینوں ہی ''مدلس'' ہیں اور وہ ''عن'' سے روایت کر رہے ہیں۔ سماع کی تصریح ثابت نہیں، لہٰذا روایت سخت''ضعیف'' ہے۔
4۔اسحاق بن زریق کی توثیق بھی معلوم نہیں ہو سکی۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر 14 :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
لا یزال أربعون رجلا من أمّتی ، قلوبہم علی قلب إبراہیم علیہ السلام ، یدفع اللّٰہ بہم عن أھل الأرض ، یقال لہم : الأبدال۔۔۔(المعجم الکبیر للطبرانی : ١٠/١٨١، ح : ١٠٣٩٠، حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ٤/١٧٢،١٧٣)
''میری امت میں چالیس مرد ہمیشہ ایسے رہیں گے جن کے قلوب (دل) قلب ابراہیمu کی مانند ہوں گے۔ ان کی وجہ سے اہل زمین سے تکالیف دور کی جائیں گی۔ ان کو ابدال کہا جاتا ہے۔''
تبصرہ :
اس کی سند کئی وجوہ سے ''ضعیف'' ہے :
1۔اس میں اعمش راوی کی ''تدلیس''ہے۔
2۔ثابت بن عیاش الاحدب راوی غیر معروف ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں اسے نہیں جانتا۔(مجمع الزوائد : ١٠/٦٣)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر15 :
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّ للّٰہ عزّ وجلّ فی الخلق ثلاثمائۃ قلوبہم علی قلب آدم علیہ السلام ، وللّٰہ تعالیٰ فی الخلق أربعون قلوبہم علی قلب موسیٰ ، وللّٰہ فی الخلق سبعۃ قلوبہم علی قلب إبراہیم ، وللّٰہ تعالیٰ فی الخلق خمسۃ قلوبہم علی قلب جبرائیل ، وللّٰہ فی الخلق ثلاثۃ قلوبہم علی قلب میکائیل ، وللّٰہ فی الخلق واحد قلبہ علی قلب إسرافیل ۔ (حلیۃ الاولیاء لابی نعیم الاصبہانی : ١/٨،٩)
''اللہ تعالیٰ کے تین سو بندے مخلوق میں جن کے دل سیدنا آدم﷤کے دل کی مانند ہیں، چالیس ایسے ہیں جن کے دل موسیٰ﷤کے دل کی مانند ہیں، سات ایسے ہیں جن کے دل سیدنا ابراہیم﷤ کے دل کی مانند ہیں، پانچ ایسے ہیں جن کے دل جبرائیل﷤ کے دل پر ہیں، تین ایسے ہیں جن کے دل میکائیل کے قلب پر ہیں اور ایک ایسا بندہ ہے جس کا دل اسرافیل﷤ کے دل پر ہے۔''
تبصرہ :
یہ روایت جھوٹ کا پلندا ہے۔حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
ہو کذب ، فقاتل اللّٰہ من وضع ہذا الإفک ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ٣/٥٠)
''یہ جھوٹ ہے۔ اللہ تعالیٰ یہ جھوٹ اختراع کرنے والے کو تباہ و برباد کرے۔''
نیز فرماتے ہیں :
أتّہمہ بہ أو عثمان ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ٢/٦٠٨)
''میں اس جھوٹ کا خالق اس (عبد الرحیم بن یحییٰ الآدمی) کو یا عثمان (بن عمارہ) کو سمجھتا ہوں۔''
حافظ ذہبی رحمہ اللہ متردّد ہیں کہ اس حدیث کو عبدا لرحیم بن یحییٰ الآدمی نے گھڑا ہے یا عثمان بن عمارہ نے۔ یہ دونوں حضرات نامعلوم و مجہول ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ کارستانی ان دونوں میں سے ایک کی ہے۔
اس روایت میں ابراہیم نخعی کی ''تدلیس'' بھی موجود ہے۔
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
حدیث نمبر 16 :
محمد بن علی بن جعفر ابوبکر الکتانی الصوفی کہتے ہیں:
النقباء ثلاث مأۃ ، والنجباء سبعون ، والبدلاء أربعون ، والأخیار سبعۃ ، والعمد أربعۃ ، والغوث واحد ۔ (تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
''نقباء تین سو ہیں، نجباء ستر ہیں ، ابدال چالیس ہیں ، اخیار سات ، قطب چار اور غوث ایک ہے۔ــ''
تبصرہ :
یہ جھوٹی کہانی ہے ، اس کو گھڑنے والا شخص علی بن عبداللہ بن الحسن بن جہضم الہمدانی ہے۔ اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
متّہم بوضع الحدیث ۔ (میزان الاعتدال للذہبی : ٣/١٤٢)
''یہ حدیث گھڑنے کے ساتھ متہم ہے۔''
نیز فرماتے ہیں :
لیس بثقۃ ، بل متّہم ، یأتی بمصائب ۔(سیر اعلام النبلاء للذہبی : ١٧/٢٧٦)
''یہ ثقہ نہیں بلکہ متہم راوی ہے جو کہ جھوٹ طوفان بیان کرتا ہے۔''
نیز یہ نہ قرآن ہے نہ حدیث ، نہ قول صحابی ہے نہ قول تابعی ۔یہ باطل و ضعیف قول آگے یوں ہے :
فمسکن النقباء المغرب ، ومسکن النجباء مصر ، ومسکن الأبدال الشام ، والأخیار سیّاحون فی الأرض، والعمد فی زوایا الأرض ، ومسکن الغوث مکّۃ ، فإذا عرضت الحاجۃ من أمر العامّۃ ابتہل فیہا النقباء ، ثمّ النجباء ، ثمّ الأبدال ، ثمّ الأخیار ، ثمّ العمد ، ثمّ أجیبوا ، وإلّا ابتہل الغوث ، فلا یتمّ مسألتہ حتّی تجاب دعوتہ ۔(تاریخ بغداد للخطیب : ٣/٧٥)
''نقباء کا مسکن مغرب ، نجباء کا مصر ، ابدال کا شام ہے۔ اخیار سیّاح (گھومنے پھرنے والے)ہوتے ہیں۔ قطب زمین کے گوشوں میں ہوتے ہیں۔ جب مخلوق کو عمومی مصیبت آ جائے تو دعا کے لیے نقباء ہاتھ پھیلاتے ہیں ، اگر قبول نہ ہو تو نجباء ، پھر اخیار ، پھر قطب ، اگر پھر بھی قبول نہ ہو تو غوث دُعا کے لیے ہاتھ پھیلاتا ہے حتی کہ اس کی دعا قبول ہو جاتی ہے۔''
یہ کتانی کے قول کا بقیہ حصہ ہے جس کے راوی کے متعلق آپ جان چکے ہیں۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ) فرماتے ہیں :
وکذا کلّ حدیث یروی عن النبیّ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی عدّۃ الأولیاء والأبدال والنقباء والنجباء والأوتاد والأقطاب ، مثل أربعۃ أو سبعۃ أو اثنی عشر أو أربعین أو سبعین أو ثلاثمائۃ وثلاثۃ عشر أو القطب الواحد ، فلیس فی ذلک شیء صحیح عن النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ، ولم ینطق السلف بشیء من ہذہ الألفاظ إلا بلفظ الأبدال ۔۔۔ (الفرقان بین اولیاء الرحمن واولیاء الشیطان لابن تیمیۃ : ١٠١)
''اسی طرح ہر وہ روایت جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اولیاء ، ابدال ، نقباء ، نجباء ، اوتاد اور اقطاب کی تعداد مثلا چار ، سات ، بارہ، چالیس ، ستر ، تین سو ، تیرہ یا ایک قطب کے بارے میں بیان کی گئی ہے، ان میں سے کوئی بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں نہ ان الفاظ میں سے سلف نے کوئی لفظ بولا ہے ، سوائے ابدال کے لفظ کے۔۔۔''
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
ستکون فتنۃ یحصل الناس منہا کما یحصل الذہب فی المعدن ، فلا تسبّوا أہل الشام ، وسبّوا ظلمتہم ، فإنّ فیہم الأبدال، وسیرسل اللّٰہ إلیہم سیبا من السماء فیغرقہم ، حتّی لو قاتلتہم الثعالب غلبتہم، ثمّ یبعث اللّٰہ عند ذلک رجلا من عترۃ رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فی اثنی عشر ألفا إن قلّوا وخمسۃ عشر ألفا إن کثروا ، إمارتہم أو علامتہم أمت أمت علی ثلاث رایات ، یقاتلہم أہل سبع رایات ، لیس من صاحب رایۃ إلّا و ہو یطمع بالملک ، فیقتتلون و یہزمون ، ثمّ یظہر الہاشمیّ ، فیردّ اللّٰہ إلی الناس إلفتہم ونعمتہم ، فیکونون علی ذلک حتّی یخرج الدجّال۔(المستدرک علی الصحیحین للحاکم : ٤/٥٩٦، ح : ٨٦٥٨، وسندہ، صحیحٌ)
''عنقریب فتنہ نمودار ہو گا۔ لوگ اس سے ایسے کندن بن کر نکلیں گے جیسے سونا بھٹی میںکندن بنتا ہے۔ تم اہل شام کو بُرا بھلا نہ کہو بلکہ ان پر ظلم کرنے والوں کو بُرا بھلا کہو کیونکہ اہل شام میں ابدال ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ ان پر آسمان سے بارش نازل کرے گا اور ان کو غرق کر دے گا۔اگر لومڑیوں جیسے مکار لوگ بھی ان سے لڑیں گے تو وہ ان پر غالب آ جائیں گے۔پھر اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے ایک شخص کو کم از کم بارہ ہزار اور زیادہ سے زیادہ پندرہ ہزار لوگوں میں بھیجے گا۔ ان کی علامت أمت أمت ہو گی ۔ وہ تین جھنڈوں پر ہوں گے۔ ان سے سات جھنڈوں والے لڑائی کریں گے۔ہر جھنڈے والا بادشاہت کا طمع کرتا ہو گا۔ وہ لڑیں گے اور شکست کھائیں گے، پھر ہاشمی غالب آ جائے گا اور اللہ تعالیٰ لوگوں کی طرف ان کی الفت اور محبت و مودّت لوٹا دے گا۔ وہ دجّال کے نکلنے تک یونہی رہیں گے۔''
اس روایت کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ''صحیح الاسناد'' اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ''صحیح'' قرار دیاہے۔
ابدال کی تعریف و تفسیر میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٦٦١۔٧٢٨ھ)فرماتے ہیں :
فسّروہ بمعان ، منہا : أنّہم أبدال الأنبیاء ، ومنہا : أنّہ کلّما مات منہم رجل أبدل اللّٰہ مکانہ رجلا ، ومنہا : أنّہم أبدلوا السیّأات من أخلاقہم وأعمالہم وعقائدہم بحسنات ، وہذہ الصفات لا تختصّ بأربعین ، ولا بأقلّ ، ولا بأکثر ، ولا تحصر بأہل بقیّۃ من الأرض ۔ (مجموع الفتاوی لابن تیمیۃ : ١١/٤٤٢)
''علمائے کرام نے اس کی کئی تفسیریں کی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ وہ انبیاء کے بدل ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں سے جب کوئی فوت ہوتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے شخص کو کھڑا کر دیتے ہیں۔ ایک یہ کہ انہوں نے اپنے اخلاق ، اعمال اور عقائد سے برائیوں کو نکال کر ان کی جگہ نیکیوں کو دے دی ہے۔ یہ صفات چالیس یا کم و بیش کے ساتھ خاص نہیں نہ باقی زمین والوں سے ان کو بند کیا گیا ہے۔''
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,747
ری ایکشن اسکور
26,381
پوائنٹ
995
لمحہ فکریہ :
''حاجی کفایت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں : اعلیٰ حضرت (احمد رضا خان بریلوی) بنارس تشریف لے گئے۔ایک دن دوپہر کو ایک جگہ دعوت تھی۔ میں ہمراہ تھا، واپسی میں تانگے والے سے فرمایا: اس طرف فلاں مندر کے سامنے سے ہوتے ہوئے چل۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اعلیٰ حضرت بنارس کب تشریف لائے اور کیسے یہاں کی گلیوں سے واقف ہوئے اور اس مندر کا نام کب سنا؟ اسی حیرت میں تھا کہ تانگہ مندر کے سامنے پہنچا، دیکھا کہ ایک سادھو مندر سے نکلا اور تانگہ کی طرف دوڑا۔ آپ نے تانگہ رُکوا دیا۔ اس نے اعلیٰ حضرت کو ادب سے سلام کیا اور کان میں کچھ باتیں ہوئیں جو میری سمجھ سے باہر تھیں، پھر وہ سادھو مندر میں چلا گیا، ادھر تانگہ بھی چل پڑا، تب میں نے عرض کی : حضور ! یہ کون تھا؟ فرمایا : ابدالِ وقت۔ عرض کی : مندر میں ؟ فرمایا : آم کھائیے ، پتے نہ گنیے۔''(اعلی حضرت ، اعلی سیرت از محمد رضا الحسن قادری بریلوی : ص ١٣٤)
بشکریہ اردومجلس
 
Top