• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی رو

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں

مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ


بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمدﷲحمداکثیرا طیبا مبارکافیہ کما یحب ویرضی والصلاۃ والسلام علی نبیہ وحبیبہ المصطفیٰ المجتبیٰ وعلیٰ آلہ وصحابتہ انوار الھدٰی وبدورالدجیٰ وعلیٰ من اھتدی بھدیھم ولآثارھم اقتضیٰ وبعد۔

تمام آفاق میں’’وثیقۃ الترشید‘‘ کے بارے میں گفتگو عام ہوچکی ہے جس کو مصرکے سیکورٹی اداروں نے جیل کے اندھیروں سے برآمد کیا ہے اور اس پر درج ذیل عنوان قائم کیاہے ’’ترشیدالعمل الجہادی فی مصر والعالم‘‘مصر اور عالم کے لئے جہادی عمل سے متعلق رہنمائی۔اور اس کی نسبت شیخ امام سید عبدالقادر کی طرف کی گئی ہے اور اس کی نشر واشاعت میں انفارمیشن کے وسیع اور معروف اداروں نے معاونت کی اس کو مختلف مذاکرات ،دروس،ملاقاتوں کے ذریعہ عام کیاگیا اور اس میں جو انداز اختیارکیاگیا وہ بالکل تہمت پر مبنی ہے اگرچہ اس کو بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے مگر پھر بھی ناشر کی بے پنا کوششوں کے باوجود کہ لوگوں کو اس کے قبول کرنے میں تردد ہے مگر جب قاری اہتمام سے اس کے مضامین پڑھتا ہے اور اس میںموجود دھوکہ بازی ،ملمع سازی ،شکوک وشبہات سے بھرپور عبارات ،الزامات پر مبنی دلائل کو دیکھتاہے تومحسوس کرتا ہے کہ اس میں احکامات سے کھیل تماشا کیاگیا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرلیتا ہے کہ اس کتاب کا مقصد ان لوگوں کے ایجنڈے کی تکمیل ہے جو دین دشمن عناصر ہیں اور اسلام وجہاد پر تشنیع کرنا ان کا اصل ہدف ہے قطع نظر اس کا لکھنے والا کون ہے آیا اس نے اپنے اختیار سے لکھاہے یا اس کے سر پر کھڑے ہوکر لکھوایاگیا اور مجاہدین کو نصیحت کی گئی ہے حاصل یہی نکلتا ہے کہ مقصد صرف یہ ہے کہ جہاد کوکلی طور پر معطل کیاجائے اور طاغوت اور ان کے سرپرستوںکو خوش کیا جائے اسی بناء پر قاری یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ حقیقت میں یہ وثیقۃ التعبید یعنی غلام بنانے والی رہنمائی ہے مگر جب اس باطل اور گمراہی کو کوئی قبول نہیں کررہا اور لوگ اس سے کنارہ کشی اختیار کرنے لگے تو انہوں نے یہود کے طرز عمل پر عمل کرتے ہوئے حق کو بھی باطل میں خلط ملط کردیا تاکہ لوگوں کو حق دکھا کر باطل پر لایاجائے اور وہ اس آیت کے مصداق ٹھہرے :
وَ لَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(البقرۃ:42)
’’اور نہ حق کو باطل سے ملتبس کرو اور نہ حق کو چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔
دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
یٰٓاَہْلَ الْکِتٰبِ لِمَ تَلْبِسُوْنَ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔(آل عمران : 71)
’’اے اہل کتاب تم کیوں حق کو باطل میں خلط ملط کرتے ہو اور حق کو کیوں چھپاتے ہو حالانکہ تم جانتے ہو‘‘۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا’’باطل محض کو لوگوں پر مشتبہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ضروری ہے کہ اس میں کچھ حق کا شائبہ بھی رکھاجائے ‘‘ (مجموع الفتاویٰ:182/2)
ان ہی وجوہات کی بناء پر کہ حق کو واضح کرنا اور باطل کو بھگانا اہل علم والدِّین پر ضروری ہے خواہ وہ مجاہدین ہوں یا غیر مجاہدین سب پر لازم ہے کہ وہ ایک صف بن کر کھڑے ہوں اور باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں اور ان لوگوں کا راستہ روکیں جنہوں نے اللہ کے دین کو بے محافظ چراگاہ سمجھ کرکمزور کرنا شروع کردیا ہے اور بے کار لوگوں کے قلم دین کے واضح احکامات کے خلاف لکھنا شروع ہوگئے ہیں اور فتنہ پرور لوگوں کی عقلیں دین کے نصوص کو بدلنا شروع ہوگئی ہیں اور لوگوں کے افکار کو خراب کررہی ہیں ۔
انہی باتوں کو مدنظر رکھ کر ہم نے اس مشکل کام کا بیڑہ اٹھایا ہے کہ تاکہ اللہ کے دین کا مکمل دفاع کیا جائے اور شریعت کے خلاف کئے گئے ان اعتراضات کو دفع کیاجائے جو (وثیقۃ التعبید والتنفیذ غلام اور قیدی بنانے والی دستاویز)میں اٹھائے گئے ہیں جو ہم پر شفقت ومہربانی کرتے ہوئے مصر کے سیکورٹی ادارے نے تیار کی ہے اور ا س کے نشر واشاعت کی ذمہ داری امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو مدنظر رکھ کر اور اطلاعا ت کے اداروں نے اٹھائی جن کا کام ہی عقائد اسلام کو منہدم کرنا اور اخلاق رذیلہ کی نشر واشاعت کرنا ہے اور دین اسلام کا مذاق اڑانا ان کا شیوہ ہے چنانچہ میں اچانک بیدار ہوا اور مجاہدین کی صحیح رہنمائی کے لئے چھلانگ لگائی ہے۔
قبل اس کے کہ ہم مذکور کتاب جو کہ حقیقت میں (ترشید التعبید والتقیید غلام بنانے اور کفار کی قید میں لیجانے والی ہدایات)کہلانے کے قابل ہے چند بنیادی باتیں سمجھ لینی چاہئیں۔
پہلی بات : ہماری بحث اس کتاب کے پیش نظر ہے قطع نظر اس سے کہ نسبت شیخ عبدالقادر کی طرف صحیح ہے یا غلط یا انہوں نے کتاب کسی مجبوری کے تحت یا ارادۃً لکھی بحث کرتے وقت یہ بات پیش نظر نہیں ہے بلکہ ہمارے پیش نظر یہ ہے کہ یہ ایک عالم نے لکھی ہے جس میں غلطی وصحت دونوں کا احتمال ہوسکتاہے اس کی موافقت اور مخالفت دونوں ہوسکتی ہیں تو اگر کہیں دوران بحث ہماری طرف سے سخت انداز یا ترش کلمات استعمال ہوجائیں تو اس سے شیخ عبدالقادر کی گستاخی مقصود نہیں ہے بلکہ ایک غلط بات کی اصلاح مقصود ہے کتاب پڑھنے والے کو اس چیز کو مدنظر رکھناہوگا۔
دوسری بات: اس میں کچھ شک نہیں کہ اس کتاب کی شیخ کی طرف نسبت محتمل ہے یعنی یہ بھی ممکن ہے کہ حقیقتاً انہوں نے یہ لکھی ہو اور یہ بھی ممکن ہے ان سے زبردستی لکھوائی گئی ہو یاانہوں نے جو کچھ لکھا ہو اس میں اپنی طرف سے داخل کرکے کتاب کو کیا سے کیا بنادیا گیا ہو ۔تو دوران بحث جب ہم مثلاً یہ کہیں کہ شیخ عبدالقادر کایہ نظریہ باطل ہے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ ہم اس نظریہ کو حقیقتاً شیخ کا نظریہ سمجھ کر رد کررہے ہیں بلکہ ہماری مراد یہ ہوگی کہ اس کتاب کے مطابق جو شیخ کی طرف سے یہ بات آئی ہے تو وہ غلط ہے یا اس میں یہ کوتاہی ہے یعنی ہم کتاب کا رد لکھ رہے ہیں باقی حقیقت حال سے اللہ تعالیٰ واقف ہے کہ یہ الفاظ کس کے ہیں ۔
تیسری بات: وثیقۃ الترشید کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے ان لوگوں نے مجاہدین کے خلاف جھوٹ اور بہتان بازی کا طوفان کھڑا کیا ہے اور ساری توانائیاں اس بات پر خرچ کی ہیں کہ کسی طرح قارئین کے دل ودماغ میں مجاہدین کے خلاف غلط رائے پیدا کی جاسکے تواگر ہم کہیں ان کے الزامات کے جواب میں سخت لب ولہجہ اپنائیں تو ا س کا مقصدیہ نہیں کہ کسی خاص شخص یا جماعت کے دفاع میں ایسا کررہے ہیں بلکہ اس وجہ سے کہ جہاد ایک عظیم عبادت ہے اور عبادت کو سر انجام دینے والوں پر تنقید درحقیقت عبادت پر ہی تنقید ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس عبادت کی اہمیت کم ہوجائے لہٰذا یہ جسارت کرنے والا کیسے باشد اس کا شدت سے جواب دینا اور اس کے دلائل کا رد کرنا انتہائی ضروری امر ہے ہمارا کام دلیل سے غلط بات کا رد کرنا ہے خواہ اس کی زد میں کوئی آئے ۔ہماری معلومات کے مطابق مجاہدین ہی سب سے زیادہ اپنی ذات کاجائز ہ لیتے رہتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت غلطی پرتنقید بھی کرتے ہیں اور پھر غلطی کا احساس ہونے پر اعتراف بھی کرلیتے ہیں اور فوراً اپنی اصلاح کرلیتے ہیں لہٰذ انہیں کسی کی توجیہات وترشیدات کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔
شیخ عبدالقادر نے بعض جگہ اپنی پرانی ابحاث اور تعلیقات میں شرعی مسائل کی مخالفت بھی کی جیسا کہ شیخ ابومحمد المقدسی حفظہ اللہ نے اپنے رسالہ ’’النکت اللوامع فی تعلیقات الجامع‘‘میں اس بات کی وضاحت کی ہے اسی طرح الشیخ ابوقتادہ حفظہ اللہ نے ایک مقالہ لکھا جس کا عنوان ہے (اہل القبلۃ والمتاولون۔اہل قبلہ اور تاویل کرنے والے )اس میں انہوں نے کہا کہ کتاب ’’الجامع‘‘میں بعض شرعی غلطیاں کی گئی ہیں جن کی نشان دہی اور اس پر بحث اور رد ضروری ہے مثلاً وہ کہتے ہیں کہ : ’’ولھذی تعلم خطأ صاحب الجامع فی طلب العلم الشریف‘‘یعنی اس بات سے الجامع فی طلب العلم الشریف کے مصنف شیخ عبدالقادر بن عبدالعزیز کی غلطی واضح ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے ایک اور قسم جاری کردی ہے اور اس کو محتمل کا نام دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک شخص پر کفر اور مرتد ہونے کا حکم لگادیا گیا مگر اس میں مسلمان ہونے کا بھی احتمال ہے ۔ایسے شخص پر کفر کا حکم ظاہر کے لحاظ سے لگایا جائے گا قطعی طور پر نہیں شیخ نے یہاں بہت بڑی غلطی کھائی ہے کہ انہوں نے ایک ایسے شخص کو کافر قرار دینا جائز سمجھا جو ممکن ہے کہ باطن میں مسلمان ہو۔یہ بات اسلام میں نئی ہے سلف میں اس کا کوئی ثبوت نہیں پایا جاتا لہٰذا ان کی یہ بات دو وجوہات کی بناء پر باطل ہے :
اول۔عام قواعدکا اطلاق کرکے حکم لگادیا اور استثناء کے قانون کونظر انداز کردیا انہوں نے یہ قاعدہ استعمال کرلیا کہ بعض احکام کے لحاظ سے یہ بات ہے حالانکہ اس قسم کے قوانین میں استثناء بھی ہوتا ہے۔
دوم۔ انہوں نے ائمہ کے اقوال کو خلط ملط کردیا یعنی ائمہ کے اقوال قتال کی ایک خاص قسم کے بارے میں تھے اورانہوں نے اس کو اشخاص وافراد پر منطبق کردیا کیونکہ بعض اقوام سے اسی طرح قتال کیاجاتا ہے جیسے مرتدین سے قتال کیا جاتا ہے انکو طائفہ ردۃ یعنی مرتد ٹولہ کہاجاتا ہے مگر اس کے باوجود بعض افراد کو مرتد نہیں کہاجاسکتا کیونکہ ان میں اس حکم کے موانع موجود ہوتے ہیں لہٰذا کسی مانع (رکاوٹ)کی احتمال کی بناء پر اس کا لحاظ کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔
شیخ عبدالرحمن بن حسن بن محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ مشرک کے ساتھ رہنے یااس کی صحبت اختیار کرنے کی بناء پر کسی شخص کو کافر نہیں کہاجاسکتا بلکہ اگر کوئی شخص کفار میں رہتا ہے اور وہ اس کو زبردستی اپنے ساتھ قتال کے لئے لے کر جاتے ہیں تو اس پر کفار والاحکم قتل اور مال لینے میں لگایا جائے گا نہ کہ کفر میں ۔پس شیخ عبدالقادر نے ائمہ کے ان اقوال کو یوں بیان کردیا کہ جاہل کاحکم وہی ہے جو پوری قوم کے بارے میں ہے حالانکہ ائمہ کی مراد یہ ہے کہ چونکہ قوم پر قتل اور اخذ مال کا حکم لگایا گیا ہے توان پر بھی یہی حکم لگے گا نہ کہ کفر کا اس لئے کہ انہوں نے کفر تو کیا نہیں اور قتل اس لئے کئے جائیں گے کہ کفار کے ساتھ مسلمانوںکے خلاف قتال میں شریک ہوئے ۔اس مسئلہ کی وضاحت شیخ رحمہ اللہ نے الشیخ عبدالمجید شاذلی کی کتاب ’’حد الاسلام وحقیقۃ الایمان ‘‘پر رد کرتے ہوئے کی ہے۔
شیخ عبدالقادر کی کتاب ’’الجامع فی طلب العلم الشریف‘‘میں کئی جگہ غلطیاں کی گئی ہیں میں مختصراً بیان کروں گا اگرچہ ان کی کتاب میں جگہیں ایسی ہیں جہاں خوب بحث کی ضرورت ہے ۔
پہلی غلطی ۔ شیخ عبدالقادر نے صاحب ’’الرسالۃ اللیمانیۃ‘‘کے موالاۃ کے کے مفہوم کو سمجھنے میں غلطی کرنے پر عدم معذرت کا جو رویہ اپنایا اس میں غلو کیا ۔
دوسری غلطی۔ اسی طرح موالاۃ المشرکین کو ایک ہی قسم قرار دینے اور یہ کہ اس میں کفر اکبرکا ہی احتمال ہے ہے جیسی غلو آمیز بات کہی ۔
تیسری غلطی : بعض اسلامی جماعتوں کو یہ کہہ کر غلو کا مظاہرہ کیا کہ وہ نبی uکے متبعین میں سے نہیں ہیں۔
چوتھی غلطی ۔ بعض ان لوگوں کو جنہوں نے ان سے بعض شخصی حقوق میں مخالفت کی منافق اور گمراہ قرار دے دیا۔
پانچویں غلطی۔ بعض لوگوں نے ان سے کچھ حقوق شخصیہ میں اختلاف کیا تو ان پر یہ حکم لگادیا کہ یہ قتال کے اسی طرح مستحق ہیں جیسے مرتدین اور یہ دونوں برابر ہیں ۔
چھٹی غلطی۔ انہوں نے مجموعی طور پر ان تمام لوگوں کو جو پارلیمنٹ کے ممبر اور الیکشن لڑتے ہیں کافر قرار دیدیا۔
حالانکہ اپنے اس حکم کو مقید کرنا چاہیے تھااسی بناء پر آٹھ سال پہلے میں نے ایک ’’نظرات فی اجماع القطعی‘‘نامی کتاب تحریر کی جس میں شیخ عبدالقادر کے نظریہ پر بحث کی گئی ہے کہ تمام طاغوت اور اس کے مددگار کافر ہیں اور جوانہیں کافر نہ سمجھے وہ بھی کافر ہے میری یہ کتاب الحمد للہ طبع ہوئی اور خوب نشر ہوئی ہے ۔اور کتاب الجامع فی طلب العلم الشریف میں بہت سارے فوائد اور دقیق تحقیقات مگر ہم نے اس میں ضررساں چیزیں بھی ملاحظہ کی ہیں خاص طور پرابتدائی نوجوانوں میں فکری اضطراب اور غلو اس سے پیدا ہوا ہے خاص طور پر افراد اور جماعتوں پر حکم لگانے میں رکاوٹ پیدا ہوئی ہے اور یہ بات میں نے الاجماع القطعی کے مقدمہ میں یوں بیان کی ہے (اسی طرح ہم اس دلیل پر تعلیق کی ضرورت کو محسوس کرتے ہیں کہ ان کا اجماع قطعی کا دعویٰ تعلیق کے قابل ہے خاص طور پر اس میں جو غلطی وتجاوزات ہیں اس سے نوجوانوں میں سلبی آثار ونتائج پیدا ہوتے ہیں اور ا س کی وجہ اس کی عبارتوں کا وہ قطعی انداز ہے اور وہ اسلوب کتاب ہے جو باربار دہرایا گیا ہے جس کی آڑ میں غلو کرنے والوں کو غلو کرنے کا موقع ملا ہے اور اس سے وہ اپنے باطل خیالات ونظریات کو ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنے منحرف مذہب کی نشر واشاعت کا موقع ملا باوجود اس کے کہ ہمیں یہ یقین ہے کہ مؤلف کا یہ ارادہ ہرگز نہیں تھا یہ ان کی موافقت اور تائید نہیں کرتے عبارات کی تعمیم ،اطلاق ،سے ان لوگوں نے غلط معانی حاصل کئے اور بڑے افسوس کی بات ہے کہ انہوں نے مسئلہ کو محدود کردیا اور یہ سمجھ لیا کہ حکم صرف مرتد حکام کے معاونین پر ہے کہ ان سے دوستی یا دشمنی رکھی جائے یا نہ رکھی جائے اور اس کے علاوہ کی طرف جانے کی مجال نہیں ہے لہٰذا اس سے انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ مؤلف کا ارادہ بھی یہی تھا کہ حکم صرف حکام مرتدین کے معاونین پر ہے نہ کہ ان حکام مرتدین پر بھی ہے ۔آج ہم جو بھی تنقید کرتے ہیں یا کسی کا ردکرتے ہیں تو اس کا نہ توکوئی تاریخی سبب ہے اور نہ ہی ہم اس وجہ سے طیش میں آئے ہیں کہ وثیقۃ الترشید میں الزامات عائد کئے گئے ہیں بلکہ ہمارا طریقہ ہر ایک کے لئے یہی ہے کہ جو شخص بھی غلط بات رائج کرے گا ہم نے اس کا دلیل سے رد کرنا ہے خواہ وہ شیخ عبدالقادر ہوں یا کوئی اور ۔ولوکان اقرب قریب
پانچویں بات۔ مجاہدین بھی باقی لوگوں کی طرح انسان ہیں جو حق کی تلاش اور اس کے قیام کے لئے کوشاں ہیں اور اس میں کبھی ان سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے وہ کبھی یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہمارا ہر فعل قول غلطی سے مبرا ہے انہوں نے اپنا گھربار،وطن علاقہ چھوڑا اور مشقتیں برداشت کیں صرف اس کاصرف یہی مقصد ہے کہ اللہ کی رضا اور ا س کے دین کی مدد اور دشمنان دین کو ان کے عزائم میں ناکام بنادیا جائے ۔اس دور میں خاص طور پر جہاد کا ہر معاملے میں تعلق ہے اور اس میں مشکلات بھی زیادہ ہیں جس کی بناء پر چھوٹی بڑی تمام غلطیوں کا احتمال رہتا ہے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اب غلطیوں کااحتمال باقی نہیںرہا۔حتیٰ کہ خیرالقرون میں کئی غلطیاں سامنے آئیں حالانکہ ان کے قائدین انتہائی متقی ،پاکیزہ نفوس،اور وہ علماء تھے جو آپ eکے زمانہ میں امیر مقرر کئے گئے تھے مگر پھر بھی جو غلطیاں ان سے سرزد ہوجاتی تھیں نہ تو وہ تشنیع ،بدمزگی کا باعث بنتی تھیں اورنہ لوگ ان کی غلطیاں بڑھا چڑھا کر اس طرح بیان کرتے تھے کہ وہ ان کے لئے باعث عار بن جائیں اورانہیں حقیر بھی نہیں سمجھاجاتا تھا کہ جس سے دعوت جہاد ہی رک جائے اورنہ وہ اپنے قائدین سے علیحدگی اختیار کرتے تھے کہ ان کی موجودگی میں یہ غلطیاں کیوں سرزد ہوئیں بلکہ وہ اگر کوئی کمی بیشی دیکھتے تونصیحت سے کام لے کر دعوت جہاد کو آگے بڑھاتے اس طرح حق کا پیغام انتہائی تیزی سے آگے بڑھنے لگتا اور ان کی قیادت بھرپور طریقے سے جہاد میں مصروف ہوجاتی اور دین کے دشمنوں کو ہتک آمیز شکست سے دوچار کردیتے اس کی پہلی مثال یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے نبی ﷺنے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو نبی جذیمہ کی طرف بھیجا خالد نے انہیں اسلام کی دعوت دی میں ان لوگوں نے اس کا ’’اسلمنا‘‘کہنے کی بجائے ’’صبأناصبأنا‘‘کہہ دیا خالد tنے ان کو قتل کرنا اور قیدی بنانا شروع کردیا ہر ایک کوایک قیدی حوالے کردیا جب صبح ہوئی تو خالد رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ہر شخص اپنے قیدی کو قتل کردے تومیں نے کہا اللہ کی قسم نہ میں اور نہ ہی میرا کوئی ساتھی اپنے قیدی کو قتل کرے گا چنانچہ ہم نبی علیہ السلام کے پاس آگئے اور پورا قصہ آپ ﷺکو بیان کردیا تو آپ ﷺنے اپنے ہاتھ اٹھادیئے اور دومرتبہ کہا یا اللہ میں اس عمل سے بری ہو ں جو خالد نے کیا۔ (بخاری)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس موقعہ پر خالد اور عبدالرحمن بن عوفw کے درمیان تنازع پیدا ہوگیا حتیٰ کہ عبدالرحمن tنے یہ الزام بھی عائد کردیا کہ وہ یعنی خالد اپنے والد کا غصہ اتارنے کے لئے قتل کا حکم دے رہے ہیں تو خالد tنے کہا اللہ ان پر رحم کرے ۔چنانچہ ابن کثیر رحمہ اللہل فرماتے ہیں : کہ دونوں کا یعنی خالد اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہما کا مقصد غلط نہیں تھا مگر خالد رضی اللہ عنہ کا مقصد اسلام اور اہل اسلام کی مدد تھا اگرچہ اس معاملہ میں ان سے غلطی سرزد ہوئی کیونکہ وہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے صبأنا کہہ کر عہد اسلام کو توڑدیا ہے انہیں یہ چیز سمجھ میں نہیں آئی کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا اسی ناسمجھی میں انہوں نے ایک بہت بڑی جماعت کو قتل کردیا اورباقی سب کو قیدی بنالیا جن میں سے اکثر کو بعد میں قتل کردیامگر اس کے باوجود آپ ﷺنے خالد رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی بجائے امیر برقراررکھا اگرچہ آپ ﷺنے ان کے اس عمل سے براء ت کا اظہار کیا اور جو قتل خطأ کی دیت بنتی تھی وہ ادا کردی اسی بناء پرابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بھی معزول نہیں کیا جب انہوں نے مالک بن نویرہ کو ایام الردۃ میں قتل کردیا تھا توعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا ان کو معزول کردو کیونکہ ان کی تلوار نے خون بہایا ہے توابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے یہ تاویل پیش کردی میں اس تلوار کو نیام میں کیسے واپس کرسکتا ہوں جسے اللہ نے مشرکین کے خلاف تانا ہے۔(جاری ہے)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں

صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ


شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔اس کے باوجود آپ ﷺنے خالد رضی اللہ عنہ کوامارت سے معزول نہیں کیا بلکہ امیر برقراررکھا اورانہیں آگے رکھا کیونکہ امیرسے اگر کوئی غلطی یا گناہ ہوجاتا تو آپ ﷺاس کو اس سے رجوع کا حکم دیتے مگر ا س کی امارت برقرار رکھتے خالد رضی اللہ عنہ آپ ﷺکے حکم کے مخالف نہیں بلکہ مطیع وفرمانبردار تھے مگر آپ ضی اللہ عنہ کو دین کی وہ سمجھ نہیں تھی جو دوسروں (مثلاً عبدالرحمن رضی اللہ عنہ)کو حاصل تھی جس کی بناء پر یہ معاملہ آپ رضی اللہ عنہ پر مخفی رہ گیا ۔اور جو یہ کہا جاتا ہے کہ چونکہ خالد رضی اللہ عنہ اور مذکورہ قوم کے درمیان زمانہ جاہلیت میں عداوت ودشمنی تھی جس کی وجہ سے انہوں نے قتل کا حکم دیا اس کی حقیقت واضح ہوچکی ہے ۔
دوسری مثال۔ جریربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ایک لشکر خثعم قبیلہ کی جانب بھیجا چنانچہ لوگوں نے سجدہ میں گر کر امان طلب کی مگر جلد بازی میں لوگوں نے انہیں قتل کردیا چنانچہ آپ ﷺتک یہ بات پہنچی تو آپ ﷺنے اس کی نصف دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور کہا میں ان تمام مسلمانوں سے بری ہوں جو مشرکوں کے درمیان رہتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا ان کی دیت کیوں ؟آپ ﷺنے فرمایا :ان دونوں کی آگ دکھائی نہیں دیتی ۔(رواہ ابوداؤد والترمذی والنسائی والبہیقی وغیرھم)
بعض نے قیس بن ابی حازم عن النبی ﷺمرسلاً روایت کیا ہے امام ترمذی رحمہ اللہ العلل میں فرماتے ہیں میں نے محمد (بن اسماعیل یعنی امام بخاری رحمہ اللہ)سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا توانہوں نے کہا صحیح یہ ہے کہہ یہ قیس بن ابی حازم سے مرسل مروی ہے۔
تیسری مثال۔ اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں جہینہ قبیلہ میں حرقہ کی طرف بھیجا چنانچہ جب ہم وہاں پہنچے تو قوم اپنے پانی کے گھاٹ پر جاچکی تھی چنانچہ مجھے اور ایک انصاری ساتھی کو اس قوم کا ایک شخص مل گیا جب ہم نے اس کو گھیر لیا تو اس نے لاالٰہ الااللہ کہنا شروع کردیا تو انصاری نے اپنا ہاتھ روک لیا مگرمیں نے نیزہ مار کر اس کو قتل کردیا جب ہم مدینہ آئے تو یہ بات آپ ﷺکوبتائی گئی توآپ ﷺنے مجھے کہا کیا تم نے اسے لاالٰہ الااللہ کہنے کے باوجود قتل کردیا؟میں نے کہا یا رسول اللہ eاس نے صرف پناہ لینے کے لئے یہ کہا تھا مگر آپ ﷺاپنی بات دہراتے رہے حتیٰ کہ میں نے تمنا کی کاش میں اس دن کے بعد مسلمان ہوتا ۔(متفق علیہ)
اس حادثہ سے اسامہ رضی اللہ عنہ کو بڑی شرمندگی اٹھانی پڑی مگر ا س کے باوجود آپ ﷺنے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اس لشکر کا امیر برقراررکھا حالانکہ اس میں بہترین صحابہ رضی اللہ عنہم بھی موجود تھے نبی علیہ السلام نے اپنی وفات سے قبل اسامہ رضی اللہ عنہ کو لشکر کا جھنڈا دیا تھا جس کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خلافت سنبھالنے کے بعد برقراررکھا ۔
اس جیسی اوربہت ساری مثالیں بھی موجود ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم مسے بھی بلند درجات پر فائز ہونے کے باوجود مختلف مواقع پر غلطیاں سرزد ہوئی ہیں ان دلائل سے ہمارا مقصد صحابہ رضی اللہ عنہم کی غلطیاں تلاش کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانہ میں جہاد جیسی عبادت میں بھی غلطیاں سرزد ہوئی ہیں مگر اس کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ہم اس سے غلطیوں کے جواز تلاش کریں اور انہیں بنیاد بناکر غلطیوںکی اصلاح سے گریز کی راہیں تلاش کریں اور جہاد جیسی عبادت پر تنقید اور مجاہدین کو جاہل دھوکہ باز قرار دیں ۔
چھٹی بات۔صاحب’’ وثیقہ‘‘کے نشر کرنے والوں نے کتاب میں کئی جگہ یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ وہ یعنی (شیخ عبدالقادر )نہ تو عالم ہیں اور نہ مفتی ،مجتہد فی الشریعۃ لیکن اس کے باوجود اپنی کتاب میں جابجا احکامات شریعت پر بحث کرکے’’یجوز‘‘،لایجوز‘‘جائز ہے ،جائز نہیں ’’حلال‘‘ و’’ھذاحرام‘‘یہ حلال ہے یہ حرام ہے ‘جیسے فیصلے سرزد کئے ہیں مزید یہ کہا کہ مجاہدین کی قیادت بے وقوف ہے وغیرہ بلکہ جریدۃ الحیاۃ کے حوالہ سے انہیں فاسق غدار تک قراردے دیا(نعوذ باللہ)یہ وہ القابات ہیں جن کا مجاہدین سے دور کا بھی تعلق نہیں بلکہ یہ القابات تو ان لوگوں پر جچتے ہیں جنہوں نے وثیقۃ التعبید جیسی کتاب مدون کرکے ان لوگوں کی صف میں شمولیت اختیار کرلی جن کی عادت ہی طعن وتشنیع کرنا ہے۔
جب انہوں نے خود یہ اعتراف کیا کہ وہ عالم ،مفتی ،مجتہد نہیں ہیں پھر بھی انہوں شخص معین اور معین واقعات پر اپنی طرف سے حکم لگائے ہیں مثلا فاسق قرار دینا حالانکہ کسی معین شخص کو فاسق ،کافر اس وقت تک نہیں قرار دیا جاسکتا جب تکفسق وکفر کی شروط مکمل طور پر ثابت نہ ہوجائیں اور اسلام کے موانع واضح نہ ہوجائیں جیسا کہ امام ابن تیمیہ aنے فرمایا ہے کہ ’’مقصود یہاں یہ ہے کہ جس چیز کی قباحت اور ممانعت کتاب وسنت سے ثابت ہوجائے جیسا کہ بدعت وغیرہ جب یہ کسی معین شخص سے صادر ہو تو یہ چند صورتیں ہوسکتی ہیں پہلی یہ کہ وہ اس کو کرنے میں معذور ہے مثلاً وہ یہ بدعت کسی اجتہاد یاتقلید کی وجہ سے کررہا ہے یا اس وجہ سے کہ اس کی قدرت وہ نہیں رکھتا جیسا کہ میں نے دوسری جگہ یہ خوب ثابت کیا ہے اورمیں نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ تکفیر،تفسیق،(کسی کو فاسق وکافر قراردینا)اور اس پر آنے والی وعید یہ سب قاعدے کلیہ پر مبنی ہے لہٰذا جو وعید کتاب وسنت اور ائمہ کے نصوص سے ثابت ہوتی ہے وہ کسی معین شخص پر اس وقت تک منطبق نہیں کرسکتے جب تک وہ شروط میں نہ پائی جائیں جو ثابت اور متفق ہیں اصول اور فروع دونوں میں یہی قاعدہ ہے۔مثلاً یہ کہنا کہ فلاں شخص آخرت میں اللہ کے غضب،لعنت کا مستحق ہے یا فلاں ہمیشہ کے لئے جہنم میں جائے گا یا فلاں ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا وغیرہ یہ سب اصول وقاعدے پر مبنی باتیں ہیں یعنی شریعت نے اس کے لئے ضابطہ مقرر کردیا ہے لہٰذا اس کے بغیر کسی پر یہ حکم لگانا جائز نہیں ہے ۔(مجموع الفتاوی)
تو وہ شخص جو نہ تو عالم ہے اورنہ مفتی اورنہ مجتہد اس نے کیسے اور کس دلیل سے ان لوگوں پر تفسیق وتکفیر کے فتوے لگادیئے حالانکہ ان میں تفسیق وتکفیر کی شروط میں سے کوئی ایک شرط بھی موجود نہیں توکیا انہوں نے یہ فتوے اپنے الہامات کی وجہ سے یا اولیاء کے الہامات اور اہل تصوف کے کشف کو بنیاد بناکر تونہیں لگادئیے ؟اور یہ سمجھ لیا ہو کہ حکم لگانے کے لئے یہی دلائل کافی وافی ہیں اوریہی حجت شرعیہ ہیں خاص طور پر جب مجاہدین اور ان کی قیادت پر الزامات عائد کرنے ہوں بالفرض اگر ہم صاحب الوثیقہ (یعنی وثیقہ نامی کتاب تحریرکرنے والے )ان کی معاونت کرنے والوں کو کچھ بھی نہیں کہیں پھر بھی انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انہوں نے جومجاہدین کے خلاف یہ صف بندی کی ہے اور ان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے خائن ،غدار ،جاہل جیسے القابات سے نوازا ہے اس سے وہ جہاد کو معطل یا ختم ہرگز نہیں کرسکتے اورانہیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ یہ کام کرکے دین کی خدمت نہیں کررہے بلکہ اس جہاد کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں جس کے ذریعے وہ کفار اور ان کے معاونین مرتدین کا قلع قمع کرنے میں مصروف ہیں لہٰذا کوئی کتنی ہی ان لوگوں کے دلوں میں نفرت پیدا کردے اور بڑے بڑے الزامات عائد کردے وہ جہاد کو ختم نہیں کرسکتا کیونکہ اہل سنت والجماعت کا متفقہ اصول ہے ’’الجہاد مع کل بروفاجر‘‘جہاد نیک اورگناہ گار دونوں کے ساتھ مل کر ہوسکتا ہے اور ہماری یہ ذمہ داری اور واجب ہے کہ ہم اہل سنت والجماعت کی دعوت کو پھیلائیں اور عام کریں اور اس کو اپنے اوپر لازم کریں یہ ایسا مسئلہ ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے اورعقائد کی کتابوں میں موجود ہے اس میں صرف مبتدع(بدعتی) مخترع (اپنی طرف سے مسائل بنانے والا)ہی شک وشبہ پیدا کرسکتا ہے ۔توکیا آپ کی ان تہمتوں سے جہاد سے بے رغبتی اور حق کی عدم معاونت ثابت ہوسکتی ہے یا یہ جدید فہم جو جیل کے اندھیروں سے ابھی نکلا ہے جس نے ہماری اور سلف کی ان غلطیوں سے پردہ اٹھایا جو کہ آج تک کسی کو نہ سمجھ آسکیں یا یہ ان لوگوں نے یہ محض نیلی آنکھوں والوں کو خوش کرنے کا ایک طریقہ نکالا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان دلائل اور نصوص کے نقل کرنے کی ضرورت نہیں جس سے یہ قاعدہ ثابت ہوتا ہے (جس میں کسی کو کافر یا فاسق قرار دینے کی شرائط ہیں )اورصاحب الوثیقہ نے بھی اس قاعدہ کو اپنی کتاب ’’العمدۃ فی اعداد العدۃ‘‘میں ذکر کیا بلکہ اس کی ایک فصل قائم کی مگر یہ اس زمانہ کی بات ہے جب انہوں نے مجاہدین کے خلاف الزام تراشیاں شروع نہیں کی تھیں میں یہاں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا طویل اور مفصل بیان نقل کررہا ہوں جہاں انہوں نے اسی مسئلہ پر بحث کی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :’’اگر اتفاق ہوجائے کہ یہ لوگ کامل جہاد کررہے ہیں تو یہ انتہائی اللہ کی رضا کے مستحق ہیں کیونکہ یہ اللہ کے دین کوغالب کرنے اور اسے معاشرے میں قائم کرنے کے لئے مصروف ہیں اور یہ اللہ اور اس کے رسول کے مطیع ہیں لیکن ان جہاد کرنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہوجائیں جن میں فسق وفجور کی خصلتیں ہیں ان کی نیت میں فساد ہے اور دنیاوی اغراض ومقاصد کے تحت ان میں شامل ہوئے ہیں اور ان کے قتال کرنے کے نقصانات بنسبت ان مذکورخصلتوں کے ساتھ قتال کرنے سے زیادہ ہوں تو بھی واجب یہ ہے کہ قتال پھر بھی جاری رکھا جائے کیونکہ ان دونقصانات کے مقابلے میں ایک اور عظیم نقصان کو دفع کرنا مقصود ہے وہ یہ ہے کہ دین اسلام کے اصول میں سے ایک یہ بھی ہے جس کا لحاظ کرنا ضروری ہے کہ ’’والغزو مع کل بر وفاجر‘‘کہ غزوہ کرنا ہر فاجر اورنیک کے ساتھ مل کر ثابت ہے کیونکہ کبھی اللہ اس دین کی مدد فاجر شخص اور ایسی قوم سے کرادیتاہے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا جیسا کہ نبی uنے خود یہ بات بتائی ۔اگر آپ eفاجر امراء کی قیادت میں غزوہ سے منع کردیتے تو لازمی طور پر دوباتیں سامنے آتیں اول غزوہ ترک کردینا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا کہ کفار غالب آجاتے اور مسلمان مغلوب ہوجاتے جو فاجر امراء کی قیادت میں غزوہ کرنے کی نسبت زیادہ نقصان دہ امر ہے ثانی فاجر امراء کی قیادت میں غزوہ کی اجازت دینے میں یہ فائدہ ہے کہ اس کے ذریعہ ان سے زیادہ فاجر لوگوں کو دفع کرنے اور اکثر شرائع اسلام کی تنفیذ ہونا ممکن ہوجاتی ہے جو کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور مجبوری کی حالت میں یہ سب سے بہتر صورت ہے بلکہ خلفاء الراشدین کے بعد اکثر غزوات کی صورتحال تقریباً یہی تھی آپﷺ سے یہ الفاظ صحیح طور پر ثابت ہیں کہ ’’گھوڑے کی پیشانی میں خیر باندھ دی گئی ہے جو قیامت تک کے لئے یعنی اجر وثواب بھی اورمال غنیمت بھی‘‘یہ حدیث ایک اور روایت کی معنوی طور پر تصدیق کرتی ہے جو ابوداؤد میں ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا :’’غزوہ جاری ہے جب سے اللہ نے مجھے بھیجا اور اس وقت تک جبکہ میری امت کا آخری شخص دجال سے قتال کرے گا اس جہاد کو کسی ظالم کا ظلم اور عادل کا عدل باطل نہیں کرسکے گا‘‘۔اسی طرح آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا کہ ’’میری امت کا ایک گروہ غالب اور حق پر رہے گا لوگوں کی مخالفت قیامت تک انہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گی ‘‘اس کے علاوہ بہت سارے نصوص او ربھی ہیں کہ جن پر عمل کے سلسلے میں اہل سنت کے تمام گروہ متفق ہیں کہ جہاد خواہ فاجر امراء یانیک امراء کی قیادت میں ہو ہر صورت میں فرض ہے اس میں صرف خوارج اور رافضہ نے اختلاف کیا ہے جو کہ اہل سنت سے خارج ہیں انہوں نے نبی علیہ السلام کے اس واضح فرمان کی مخالفت کی ہے جو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا’’عنقریب ظالم ،خائن ،فاجر امراء آئینگے جو ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں او روہ میرے حوض پر نہیں آسکے گا اور جو ان کے جھوٹ کی تصدیق اور ان کے ظلم پر معاونت بھی نہ کرے گا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں او روہ میرے حوض سے سیراب ہوگا‘‘۔
جب کوئی شخص جہاد کے بارے میں نبی علیہ السلام کے فرامین سے مکمل آگاہی حاصل کرلیتا ہے کہ جہاد قیامت تک امراء کی قیادت میں جاری رہے گا اور یہ کہ آپ eنے ظالم امراء کے ظلم پر اعانت سے بھی روکا ہے توایسا شخص یہ بھی اچھی طرح جان لیتا ہے کہ درمیانہ راستہ جو کہ اسلام کا راستہ ہے کہ ان تمام لوگوں کے خلاف جہاد کیاجائے اور ان مراء جماعت کے ساتھ مل کر جو ان میں اسلام کے لحاظ سے اولیٰ ہوں جیسا کہ یہ لوگ ہیں جن کے بارے میں سوال کیاگیا ہے یعنی وہ اللہ کی نافرمانی سے بچتے ہوں اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہوں کیونکہ مخلوق کی ایسی اطاعت جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو جائز نہیں ہے کیونکہ امت کے بہترین لوگوں کا شروع سے لے کر اب تک یہی طریقہ رہا ہے اور ہم سب پر یہی واجب ہے اور یہی طریقہ صحیح ہے جبکہ حروریت اور ان کے متبعین جو کہ اپنی خود ساختہ پرہیز گاری کی بناء پر طریقہ اختیار کئے ہوئے ہیں بالکل باطل ہے کیونکہ ان کا طریقہ ان کی کم علمی پر مبنی ہے اور مرجئہ کا طریقہ غلط ہے کہ وہ مطلق امراء کی اطاعت کو ضروری سمجھتے ہیں خواہ وہ بدکردار ہی کیوں نہ ہوں طریق وسط (درمیانی راہ)وہ ہے جو ہم نے بیان کردی ہے۔(مجموع الفتاوی)
شاید صاحب ترشید ہماری بات سے موافقت کریں گے کہ جن مجاہدین اور ان کی قیادت کے بارے میں انہوںنے بات کی ہے وہ ان سے کہیں درجے اعلیٰ ہیں جن کے بارے میں امام ابن تیمیہ aسے پوچھاگیااور انہوں نے اس کا بڑا علمی اور انصاف پر مبنی جواب دیا نہ کہ حسدو بغض اور تہمت کی بناء پر امام صاحب سے ان اقوام کے بارے میں پوچھاگیا جو سرحدوں پر مقیم ہیں اور ارض اقوام پر حملے کرتے ہیں جس سے مال حاصل ہوتا ہے تو وہ اس سے شراب پیتے اور زنا کرتے ہیں توکیا ایسے لوگ اگرقتل ہوں ان کو شہید کہا جائے گا تو اس کا جواب میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یوں دیا’’الحمدللہ اگر وہ جن پر حملہ کررہے ہیں وہ کفار ہیں تو اعمال کا دارومدار نیت پر ہے کیونکہ نبی uسے پوچھا گیا ایک شخص اس لئے قتال کرتا ہے تاکہ بہادر کہا جائے ایک شخص قومی غیرت کی بناء پر لڑتا ہے ایک شخص ریاء کاری کے لئے لڑتا ہے توان میں سے مجاہد فی سبیل اللہ کون سا ہے تو آپ ﷺنے فرمایا جو شخص اس لئے لڑتا ہے تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے وہ مجاہد فی سبیل اللہ ہے لیکن اگر ان میں کوئی ایسا شخص بھی موجود ہے جو مال کے حصول کے لئے لڑتا ہے اور اللہ کی نافرمانیوں میں خرچ کردیتا ہے تو یہ فاسق اور سزا کا مستحق ہے لیکن یہ سب اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لئے لڑتے ہیں تویہ مجاہد فی سبیل اللہ کہلائیں گے اگرچہ یہ لوگ کبائر گناہوں کے مرتکب بھی کیوں نہ ہوں توان کو کبائرکے بدلہ میں گناہ اور جہاد کے بدلے میں نیکیاں ملیں گی لیکن اگر وہ مسلمانوں کے خلاف لڑتے ہوں تو پھر ان کو مفسدین فی الارض یعنی زمین پر فساد پھیلانے والے کہا جائے گا اور مزید یہ کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف لڑنے والے سمجھے جائیں گے ایسے لوگ انتہائی سخت سزا کے مستحق ہیں دنیا میں بھی آخرت میں بھی ۔واللہ اعلم ۔(مجموع الفتاوی:209/9)
یہ گمان کہ وہ مجاہدین کو ان لوگوں سے شاید اچھا سمجھیں جن کے بارے میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے فتویٰ پوچھاگیا وثیقۃ الترشید کی اس عبارت سے پیدا ہوا جب وہ مجاہدین کے بارے میں یہ کہتے ہیں ’’ان تمام باتوں کے باوجود ہمیں اس بات کا اقرار ہے کہ ہمارے مجاہدین بھائی ہر جگہ بہترین فیصلے کرتے ہیں اورعمدہ پیغام کے حامل ہیں اور ان کے بارے میں یہ صحیح نہیں ہے کہ وہ دنیاوی مفادات کے حصول میں مصروف ہیں بلکہ ان کی اکثریت اپنی جان کی قربانی اس لئے دے رہے ہیں تاکہ اسلام اور مسلمین کو غلبہ حاصل ہوجائے‘‘۔
ہم اس بات پر تمام مجاہدین سے معذرت خواہ ہیں کہ ہمیں مجبوراً ان لوگوں سے بحث کرنی پڑی جن کی بحث میں ان مجاہدین کوجو صادق اور اپنی جانوں کی قربانی دینے والے ہیں فاسق فاسد قرار دیا گیا ہے جیسا کہ مرشد کے قلم چلنے کا مقصد ہی یہی ہے مگر ہم نے بھی ان کے اس دعویٰ باطل کے باوجود اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ان تمام باتوں کو اگر بالفرض صحیح بھی تسلیم کرلیا جائے تو تب بھی فرضیت جہاد ختم نہیں ہوتی اور مجاہدین کی مدد اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے سے نہیں روکا جاسکتا اور جو اس جہاد کا انکار کرتا ہے وہ گناہ گار ہے اور اللہ کے فریضے کا انکاری ہے ۔
کیاصاحب الوثیقہ کا لکھنے والا یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ مجاہدین ان لوگوں سے زیادہ فسادی ہیں جن کی نگرانی میں یہ’’ وثیقہ‘‘ لکھاگیا؟کیا جہاد اور دشمن کے عزائم کو ناکام بنانے کے نتائج زیادہ خطرناک ہیں یاامریکہ اور اس کی سازشیں اور اس کی مصیبتیں زیاد ہ خطرناک ہیں جس نے کوئی گھر ایسا نہیں چھوڑا جہاں فساد نہ کھڑاکیا ہو؟؟
ساتویں بات: نبی علیہ السلام کی صحیح اور متواتر حدیث میں یہ فرمان موجود ہے کہ دنیا میں ایک جماعت ہمیشہ حق پر رہے گی اور حق کے لئے قتال کرتی رہے گی اور لوگوں کی مخالفت نہ انہیں نقصان اورنہ انہیں رسوا کرسکے گی یہاں تک کہ ان کاآخر ی شخص دجال کے خلاف لڑے گا اس معنی کی ایک روایت مسلم میں عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے یوں مروی ہے کہ ’’میری امت میں ایک جماعت اللہ کے احکامات کے لئے ہمیشہ لڑتی رہے گی اور دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹے گی لوگوں کی مخالفت انہیں نقصان نہیں پہنچاسکتی قیامت کے آنے تک وہ اسی طرح (لڑتے )رہیں گے‘‘۔
ان روایات سے دوخبریں معلوم ہوتی ہیں اول اس بات کی تصدیق کہ ایک جماعت ہر صورت میں باقی رہے گی اور وہ حق اور ہدایت کی راہ پر علی وجہ البصیرت گامزن رہے گی اور وہ ہمیشہ رہے گی اور ان کی اہم ترین علامت یہ ہوگی کہ وہ اللہ کے دشمنوں کے خلاف لڑتے رہیں گے علامہ علی قاری رحمہ اللہ اس حدیث کی تشریح میں کہ ’’یہ دین ہمیشہ اسی طرح قائم رہے گا کہ اس کے لئے مسلمانوں کی ایک جماعت قتال کرتی رہے گی یہاں تک کہ قیامت آجائے (مسلم)فرماتے ہیں کہ اس کا معنی یہ ہے کہ زمین کبھی بھی جہادسے خالی نہیں رہے گی اگر ایک جگہ جہاد نہیں ہورہا ہو تو دوسری جگہ ضرور ہورہا ہوگا یہاں تک کہ قیامت قائم ہوجائے گی یا قریب ہوجائے گی ۔(مرقاۃ المفاتیح:441/11)
دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ ان روایات سے تصدیق کرنا مقصود نہیں بلکہ آپ ﷺنے اس بات کی رغبت دلائی کہ ہر دور میں ایسی جماعت موجود رہنی چاہیے اور ہمیں وہ جماعت تلاش کرنی چاہیے تاکہ ان کی مدد کی جاسکے اس طرح مسلم امہ آپ ﷺکے فرمان کی تصدیق اور اس پر عملاً بھی چل سکے کیونکہ مسلمانوں کو حق اپنانے اور اہل حق کی مدد کا حکم دیا گیا ہے بلکہ ،بعض علماء صراحتاً فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں الفاظ تو خبر یہ ہیں بلکہ مراد امریہ ہے یعنی آپ ﷺنے گویا امت کو حکم دیا کہ وہ ہمیشہ جہاد میں مصروف رہے جیسا کہ علامہ علی قاری رحمہ اللہ نے فرمایا’’ہماری اس بات میں کوئی منافاۃ نہیں ہے کہ یہ صیغہ تو خبر کا ہے مراد امر ہے جیسا کہ اللہ کا یہ فرمان ۔اِنَّانِحْنُ نَزَّلنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہُ لَحَافِظُوْنَ۔بے شک ہم نے ذکر (قرآن)نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ،جبکہ ہمیں وجوبی طور پر حکم ہے کہ قرآن کریم حفظ کریں اور اس کی قراء ت کا لحاظ کریں ‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح:441/11)
اور اس کی نظیر بھی قرآن مجید میں یہ بھی ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْم۔(مائدہ:51)
’’اے ایمان والو! تم میں سے جو اپنے دین سے پلٹا تو اللہ ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کرے گا اور وہ اللہ سے محبت کریں گے مومنین کے لئے عاجزی کرنے والے اور کفا رکے لئے سخت اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوں گے یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہے دیتا ہے اور اللہ وسیع علم رکھنے والا ہے ‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب بھی کوئی قوم اپنے دین سے مرتد ہوئی اللہ تعالیٰ ایسی قوم لے آیا جن سے وہ محبت کرتا اور وہ اللہ سے محبت کرتے رہے اور وہ جہاد بھی کرتے رہے اور وہ ہی طائفہ منصورہ کہلانے کے قابل ہے یہ قیامت تک سلسلہ جاری رہے گا ۔(مجموع الفتاوی:300/18)
اسی طرح مزید فرمایاکہ یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ جب بھی کوئی قوم مرتد ہوئی اللہ نے دوسری قوم کھڑی کردی جو اللہ سے محبت کرنے والی اور اللہ ان سے محبت کرنے والاتھا اور وہ مومنین کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے اور کفار کے لئے سخت اور وہ مرتدین کے خلاف جہاد بھی کرتے رہے ارتدادکبھی اصل اسلام سے واقع ہوا جیسا کہ نصیریہ ،اسماعیلیہ فرقہ کے غالی لوگ جو اصل اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگئے اس بات پر تمام اہل سنت متفق ہیں اور کبھی ارتداد دین کے بعض حصوں سے ہوا جیسا کہ اہل بدعت روافض ہیں ۔اللہ تعالیٰ بھی ان کی جگہ ایسے لوگوں کو لاتا رہا جو اللہ کو محبوب تھے اور اللہ ان کو محبوب تھااور یہ ان مرتدوں کے خلاف جہاد بھی کرتے رہے جیسا کہ مجاہدین روافض کے خلاف جہاد ہر زمانے میں کرتے چلے آرہے ہیں کیونکہ وہ دین سے مرتد ہوچکے ہیں اور ان لوگوں کے خلاف بھی جو دین کے بعض حصوں سے مرتد ہوچکے ہیں اورہماری بھی اللہ سے یہی التجاء ہے کہ وہ ہمیں بھی ان لوگوں میں سے کردے جو اللہ سے اور اللہ ان سے محبت کرتا ہے او روہ مرتدین اوران کے متبعین کے خلاف جہاد کرتے ہیں اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف نہ کھاتے ہوں ۔(منھاج السنۃ:221/7)
اس جیسی آیات واحادیث جس میں طائفہ منصورہ اوران کی صفات کا تذکر ہ ہے ان لوگوں کے کمزور خیالات کی نفی کرتی ہیں جس کے ذریعے یہ لوگوں کے دلوں میں مختلف حیلوں اور وسیلوں سے شکوک وشبہات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ امت امتِ قتال وجہاد ہے اور دین کے غلبہ کے لئے جہاد دشمن عناصر کے خلاف ہر زمانہ میں لڑتی رہے گی پس وثیقۃ الترشید لکھنے والے پر ضروری ہے کہ وہ امت کو اس بات کی رغبت دلائے کہ وہ اس طائفہ منصورہ کو تلاش کریں اور یہ تاکید اً بیان کریں کہ وہ جماعت قطعی طور پر اب بھی موجود ہے اور ان کی مدد کرنی چاہیے ان کے ساتھ کھڑا ہوکر ان کی صفوں میں طاقت وقوت میں اضافہ کرنا چاہیے بجائے اس کے کہ ان کے خلاف مختلف پروپیگنڈے جھوٹے ہتھکنڈے استعمال کرکے ان کی قوت کو کمزور کیا جائے اور ان کے دشمنوں کو مضبوط کیا جائے اہل ترشید یہ ہے اور اگر کوئی اپنے آپ کو ناصح اور لوگوں کو نیکی کی رغبت دلانے والا سمجھتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ مجاہدین کی مدد ونصرت کے لئے کھڑاہوجائے ۔(واللہ المستعان)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں

صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ


صاحب الوثیقہ کا اصل ہدف

یہ وہ ابتدائی اوربنیادی باتیں تھیں جن کا تذکرہ انتہائی ضروری تھا مگر ان سے بھی خطرناک وہ مقاصد ہیں جو اس کتاب کے وجود میں آنے کا سبب ہیں جن پر نگاہ رکھنا ہر شخص کے لئے انتہائی ضروری ہے تاکہ جب ان کے سامنے اس جیسی کتابیں آئیں تو ا نہیںپہلے سے علم ہو کہ ان کا اصل مقصدخیر خواہی کے علاوہ کچھ اور ہے تاکہ وہ ان سے دھوکہ نہ کھاسکے اور مومن کا یہی کام ہے کہ وہ ہر وقت چوکنا رہے تاکہ دشمن کی سازش کا شکار نہ ہوجائے ۔اب ہم وثیقہ نامی کتاب کے اصل اغراض ومقاصد بیان کرتے ہیں ۔
اول ۔ اس کتاب کا اولین مقصد یہ تھا کہ کہ مجاہدین کا علمی محاصرہ گھیراؤ کیاجائے اور ان کی سمجھ پر پہرے بٹھا کر اصل مقصد سے دور کیا جائے چنانچہ انہوں نے اس کے لئے یہ بات مشہور کرنے کی کوشش کی کہ سلف صالحین نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے وہ ہمارے زمانے کے لئے نہیں تھا بلکہ اپنے زمانہ والوں کے لئے لکھا تھا جیسا کہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ میں اس بات کو صراحتاً ذکر کیا گیا ہے اور اس پوری کتاب میں سب سے خطرناک یہی بات ہے اس خطرناک بات کو بیان کرنے کے لئے انہوں نے اگرچہ مختصرعبارت استعمال کی ہے مگر نتائج کے لحاظ سے یہ بڑی خطرناک ترین بات ہے جب جہادی سلفیت کی اصطلاح عام ہوئی اور اہل اسلام نے اس بارے میں کتب تصنیف کرنی شروع کیں اور ان کے اس منہج کو خوب پذیرائی ملنا شرو ع ہوئی کہ ہماری بنیاد سلف کے اصول پر چلنا اور ان کے فرامین سے استدلال کرنا ہے اور سلف کے منہج کو مضبوطی سے تھامتے ہوئے قولاً عملاً کفار ،مرتدین ،یہود ،نصاریٰ کے خلاف جہاد بھی ہمارے منہج کا حصہ ہے تو یہ لوگوں میں پھیلنا شروع ہوگیا تو ’’وثیقہ‘‘ لکھنے والوں نے اس کا یہ توڑ نکالا زمانوں میں فرق کرکے ان دونوں زمانوں میں پردہ حائل کردیاجائے اور یہ مشہور کردیا جائے کہ سلف نے جو بھی کتابیں تحریر کی ہیں وہ سب اپنے زمانے کے لئے تھیں ہمارے زمانہ سے اس کا تعلق نہیں ہے اب حالات بدل چکے ہیں کیونکہ اس زمانے میں مسلمان دارالاسلام میں رہتے تھے ان کی اپنی حکومت تھی خلافت تھی خلیفہ بھی اپنا تھا اور کفار دارالحرب میں رہتے تھے دارالاسلام میں یہ واضح تھا کہ کون مسلمان ہے اور کون ذمی ہے جبکہ اب ایسا نہیںہے کیونکہ لوگ خلط ملط ہوچکے ہیں لہٰذا وہ یہ کہنے لگے کہ سلف کی کتابیں پڑھتے وقت ان چیزوں کو نگاہ میں رکھنا ضروری ہے ہمیں اگرچہ اس سے اختلاف نہیں ہے کہ حالات واقعی تبدیل ہوچکے ہیں پہلے دین سے تمسک اور اس پر ثابت قدمی آج سے کہیں درجہ زیادہ تھی مجاہدین ہی نہیں بلکہ عام مسلمان آج بھی یہی کوشش کرتے ہیں کہ وہی دور دوبارہ لوٹ آئے اورہمیں آج کی اس بے دینی سے نجات مل جائے مگرصاحب ’’وثیقہ‘‘ کا یہ کہنا کہ سلف کا ہمارے آج کے دور کے لئے نہیں ہے یہ کلی طور پر حقیقت پر مبنی نہیں ہے کیونکہ سلف کے فتاویٰ خاص واقعات اور خاص زمانہ سے متعلق نہیں ہیں بلکہ وہ شرعی احکامات پر مبنی ہیں اور وہ ہرزمانہ کے لئے ہیں اوراگر بعض احکام ان کے زمانہ کے ساتھ خاص بھی ہیں تو اس کی بھی انہوں نے وضاحت کردی ہے اور ہر ذی عقل سلیم اس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اس کا تعلق فلاں زمانے سے ہے اور علماء متخصصین تو اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں ہمیں یہ بھی اچھی طرح علم ہے عصر وزمانہ نبی uسے لے کر آج تک کتنا تبدیل ہوچکا ہے اور ہر صدی سابقہ صدی سے مختلف احکامات فتاویٰ اور دیگر مسائل بیان کرتی ہے اور آنے والی اس سے صدی برابر فائدہ اٹھاتی ہے ۔
شیخ عبدالقادر کے بارے میں ناشرین نے یہ نقل کیا ہے کہ وہ خود کہتے ہیں کہ ’’میں نہ تو عالم نہ مفتی اورنہ مجتہد فی الشریعت ہوں‘‘مگر اس کے باوجود ان کی سابقہ کتابیں اور’’وثیقہ‘‘ علماء سلف وخلف کے اقوال سے بھری پڑی ہیں اورانہوں نے مسائل جزئیہ اور محدود قسم کے واقعات پر ان کے اقوال سے دلائل بھی اخذ کئے ہیں اور فتویٰ بھی دیا ہے بلکہ ان کے بڑے رسائل العمدۃ اور الجامع فی طلب العلم الشریف وغیرہ میں توخودانہوں نے احکام شریعت کے ان مسائل پر بحث کی جن کاکسی خاص واقعہ سے تعلق تھا جب وہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ وہ نہ عالم ہیں اورنہ مفتی ومجتہد فی الشریعۃ پھر بھی انہوں نے ’’وثیقہ‘‘ میں یہ لکھ دیا کہ جو کچھ علمی کتابوں میں لکھاگیا ہے اس پرعمل کرنا جائز نہیں ہے سوائے ان فتاویٰ کے جو ان لوگوں نے دیئے کہ وہ شریعت کی بصیرت رکھتے ہوں اور واقع کی حقیقت جانتے ہوں ۔اب یہ ہمیں بتائیں کہ انہوں نے ’’وثیقہ‘‘ میں کسی طرح مختلف قسم کے احکامات وفتاویٰ جاری کئے اور وہ بھی گذشتہ علماء کی کتب سے نقل کرکے اگر یہ کام شیخ عبدالقادر کے لئے جائز ہوگیا کہ وہ سلف وخلف کی کتب سے اقوال نقل کرکے مسائل بیان کریں تو مجاہدین کے لئے یہ کیسے ناجائز ہوگیا کہ وہ سلف کی کتب سے استفادہ کرکے ان کے منہج پر چلتے ہوئے جہاد جیسی عظیم عبادت میں مشغول ہوں اگر یہ کام شیخ عبدالقادر کے لے حلال ہے حالانکہ بقول ان کے وہ اس کے اہل نہیں ہے تومجاہدین کے لئے بدرجہ اولیٰ جائز ہے۔ لہٰذا س کا یہ کہنا کہ سلف نے کتب اپنے زمانے کے لئے لکھی تھیں ہمارے زمانے کے لئے نہیں اوران سے احتیاط کرنی چاہیے وغیرہ بالکل باطل ہے چنانچہ ’’وثیقہ‘‘ کی ان عبارات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ لوگ دراصل مجاہدین کا سلف سے ناطہ ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ان کی کتب ،علم ،فتویٰ سے دور ہوجائیں اور یہ چاہتے ہیں کہ مجاہدین اپنے حالات کو اپنی نگاہ سے دیکھیں نہ کہ سلف صالحین کی نگاہ سے اور احکامات کے معاملہ میں بھی یہی روش اپنائیں کہ وہ ان کی خواہشات کے مطابق ہوں حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا کیونکہ ہم بہت ساری ایسی اسلامی جماعتوں کا حال دیکھ چکے ہیں حالانکہ وہ دعویٰ بھی کرتے رہے کہ ہم عصری تقاضوں اور حالات وواقعات سے گہری واقفیت رکھتے ہیں۔
فَلَمَّا زَاغُوْآ اَزَاغَ اﷲُ قُلُوْبَہُمْ وَ اﷲُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔(صف:5)
’’جب وہ ٹیڑھے ہوئے تو اللہ نے بھی ٹیڑھا کردیا ان کے دلوں کو اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
لہٰذامجاہدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس قسم کے خرافات نظریات کی طرف قطعی توجہ نہ دیں بلکہ علوم سلف کے ساتھ پختگی سے منسلک رہیں اور ہمیشہ اسی پر نظرر کھیں اور ان کی علمی روشنی سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور ان کے آثار کو اپنے لئے مشعل راہ سمجھیں خاص طور پر وہ احکام شریعہ جو ان کی کتب میں درج ہیں اور ان کی کسی خاص واقعہ یاحالت کے ساتھ تخصیص نہیں ہے بلکہ وہ قضایا کلیہ ہیں اور وہ زمانہ پر منطبق ہوتے ہوں جن کا جاننا ہر خبیر پر ضروری ہو۔

الہدف ثانی

وثیقۃ الترشید جیسی کتب کا ایک مقصد صلیبی ،صہیونی طاقتوں کو نئی زندگی فراہم کرنا اور ان کے معاونین مرتد وکفار قسم کے لوگوں کو مضبوط کرنا ہے تاکہ انہیں منظم ہوکر مسلمانوں کے خلاف صف آراء ہونے کا موقع فراہم کیاجائے کیونکہ جب مجاہدین کو اس قسم کی لغو موشگافیوں میں مصروف کردیا جائے گااور ان کو یہ باور کرادیاجائے کہ یہ بڑے اہم مسائل ہیں توان کی مکمل توجہ اس جانب ہوجائے گی اور دین دشمن عناصر ان کی اس غفلت سے بھرپور فائدہ اٹھاکر اپنے زہر آلودعزائم اوراپنی مکروہ سازشیں ان میں داخل کردیں اور اپنے قدم مضبوط کرلیں ۔مجاہدین کو چاہیے کہ وہ اس قسم کی سازشوں پر گہری نظر رکھیں خواہ وہ سازش اس ’’وثیقہ‘‘ میں ہو یا کسی اور کتاب میں او رانہیں یہ بات بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ دین کو قائم کرنے اور ظلم کے خاتمہ ،نظام عدل کے قیام کا واحد راستہ قتال فی سبیل اللہ ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے ۔
وَقَاتِلُوْہُمْ حَتّٰی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَّ یَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہٗ لِلّٰہِ فَاِنِ انْتَہَوْا فَاِنَّ اﷲَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔(انفال:39)
’’ان کے خلاف قتال کریں تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین سارا اللہ کے لئے (قائم)ہوجائے اور اگر یہ لوگ رک جائیں تو اللہ جو یہ اعمال کرتے ہیں ان کو دیکھنے والا ہے ‘‘۔
اگر فتنہ کو ختم کرنے کو کوئی طریقہ ہوتا تو لازماً اللہ اس کو واضح کردیتا یہاں فتنہ سے مراد شرک ،اللہ کے راستے سے روکنا ہے ،لہٰذا اے مجاہدین کی جماعت دین کو قائم کرنے کا یہی واحد راستہ ہے ۔لہٰذا اپنی تمام توجہات اسی جانب رکھو اور غیر ضروری کاموں سے اپنے آپ کو بچاؤ اور اپنے دشمنوں کو ایسا کوئی موقع نہ دو کہ وہ بے خوف ہوکر اپنے کفریہ عزائم کی تکمیل کرسکیں اور یہ بات بھی ذہن نشین کرلو اگر دین کی راہ میں آپ کو کچھ تکالیف ،مشکلات ،پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو آپ کے مخالفین کو بھی اسی قسم کی مشکلات کا سامنا کرتا پڑرہا ہے۔لہٰذا گھبرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے :
وَ لَا تَہِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّہُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اﷲِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَ کَانَ اﷲُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا۔(نساء:104)
’’کسی قوم کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرو (میدان جہاد میں )تمہیں کچھ مشقت اٹھانی پڑتی ہے توفریق مخالف کو بھی اسی طرح مشقتیں اٹھانی پڑتی ہیں جو اللہ کی برکات کی تم امید کرتے ہو وہ ایسا نہیں کرتے اور اللہ علم وحکمت والا ہے ‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا:
اِنْ یَمْسَسْکُمْ قَرْحٌ فَقَدْ مَسَّ الْقَوْمَ قَرْحٌ مِّثْلُہٗ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْنَ النَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اﷲُ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا وَ یَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَآئَ وَ اﷲُ لَا یُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ۔(آل عمران :140)
’’اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اس جیسی تکلیف فریق مخالف کو بھی پہنچ چکی ہے یہ ایام ہم گردش دیتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان تاکہ اللہ جان لے ان لوگوں کوجو ایمان لائے اور اپنے ایمان کی عملی شہادت دی اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا ‘‘۔

الہدف ثالث

ان لوگوں کا تیسرا اور خطرناک ہدف یہ ہے کہ وہ مجاہدین کو ڈاکو چور،خواہش پرست ،جھوٹے ،دھوکہ باز ،خائن لوگوں کی صورت میں پیش کریں اور یہ کہ مجاہدین ہر طرح سے دین واخلاق سے عاری لوگ ہیں اورکوئی علم نہ انہیں ہدایت دیتا ہے اور نہ کوئی عقل انہیں ضابطہ سکھاتی ہے اور نہ یہ دین کی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور ان کا مقصد حقیقی صرف لوگوں کا خون بہانا ہے جس کے لئے یہ کوشاں ہیں اس کے لئے نہ وہ کسی حرمت کا لحاظ کرتے ہیں اور نہ وہ کسی عہد کا لحاظ کرتے ہیں حتی کہ صاحب’’وثیقہ‘‘ نے تو ان کواس لئے کہ یہ لوگوں کوان کے رنگ،جنس وغیرہ کے لحاظ سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔
جو اس ’’وثیقہ‘‘ کا مطالعہ کرتاہے اس کے دل میں یہ چیز چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے لازمی آجاتی ہے اور وہ اس کے مطالعہ کے بعد ان تمام لوگوں کے خلاف اپنے دل میں نفرت محسوس کرتا ہے جن کاجہاد اور مجاہدین سے کسی قسم کا تھوڑا سا بھی تعلق ہو او رمجاہدین کے ہر عمل کو وہ اسی نگاہ سے دیکھتا ہے خواہ وہ کتنا ہی اچھا عمل ہو اور مطالعہ کرنے والے کو یہ ذرہ برابر احساس نہیں ہوتا کہ یہ تمام باتیں اس صاحب ’’وثیقہ‘‘ کی خود ساختہ اور خرافات پر مبنی ہیں اور اس کتاب کا اصل ہدف یہی کہ کسی طرح لوگوں کو مجاہدین سے اتنا متنفر کردیاجائے وہ ان کے قریب آنے سے گریز کریں اور لوگ ان کے ساتھ تعاون ونصرت چھوڑ دیں اور ان سے اس قدر کراہیت کریں کہ لوگ الٹا ان کے خلاف کھڑے ہوجائیں جیسا کہ ہمارے سامنے عراق کی مثال موجود ہے کہ وہاں یہی طریقہ اختیار کیا گیا ہے ۔صاحب ’’وثیقہ‘‘ الترشید کا یہی ہدف ہے کہ جہاد کی اس تحریک کو ختم کیا جائے لیکن یہ ممکن نہیں ہے وہ اس میں کامیاب نہیں ہوسکتے کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے ویمکرون ویمکراﷲ واﷲ خیر الماکرین۔’’یہ سازشیں کررہے ہیں اور اللہ ان کے خلاف تدبیریں کررہا ہے اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے‘‘۔

الہدف رابع

صاحب ’’وثیقہ‘‘ کاچوتھاٹارگٹ یہ ہے کہ لوگوں کو یہ باور کرایا جائے کہ امت اسلامیہ پر جو حالات درپیش ہیں وہ اس کو حقیقت کے طور پر قبول کریں اور ان کا اعتراف کرنا ضروری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ امت اس طرز زندگی کو دل کی گہرائی سے قبول کرلے اور ان کی کوشش ہے کہ یہ بات دل میں راسخ کردی جائے کہ ان حالات سے نکلنے کا آج کوئی طریقہ وعلاج نہیں ہے لہٰذا ان خیال میں ان حالات کی تبدیلی کے لئے سوچ وبچار کرنا عبث بے کار ہے لہٰذا اس کو حقیقت کے طور پر قبول کرلیا جائے اور اس کے انکار کی کسی کے اندرجراء ت نہیں ہونی چاہیے یہ سوچ دراصل عالمی لادین آزاد خیال طرز زندگی کی طرف پہلا قدم ہے اور ان کا مقصد یہ بھی ہے کہ نظریۂ الولاء والبراء (مومنین سے دوستی کفار سے دشمنی)کی جگہ امت میں وطنیت کی سوچ کو فروغ دیا جائے اور امت سے مرتدوں کی شریعت اور ان کیخود ساختہ نظام کا اعتراف کرایا جائے تاکہ وہ اپنے ان خودساختہ قوانین کے ذریعے مسلمانوں پر حکومت کرتے رہیں اور اپنے یہ قوانین اپنی آگ ولوہے کے بل بوتے پر نافذ کریں اور ان کی فوج اور سیکورٹی کے ادارے اورذرائع ابلاغ کے کتے مسلط ہوجائیں اور جو ان قوانین کی مخالفت کرے اس سے زبردستی ان پر عمل کرایااور جو ان قوانین کی مخالفت کے ساتھ ساتھ ان کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے ان کی جڑیں کاٹ دیں تاکہ کوئی تبدیلی کا سوچ بھی نہ سکے ۔

الہدف خامس

امریکہ کا حقیقی چہرہ چھپا کر اس کی جگہ انہیں ایک عدل پسند اور مساوات قائم کرنے والی قوم کے طور پر امت کے سامنے پیش کیا جائے اور یہ بات ذہن نشین کرائی جائے کہ امریکہ اور اہل مغرب سب سے زیاہ حقوق انسانی کے علمبردار ،مظلوم کو انصاف فراہم کرنے والے لوگ ہیں اور وہ ہمارے لئے قیادت اور امانت داری میں مثال ہیں کہ ہم انہیں اپنے لئے نمونہ بناکر ان کے نقش قدم پر چل پڑیں اور صاحب ’’وثیقہ‘‘ کی مکمل کوشش ہے کہ مغربی تہذیب کی خرابیاں اور برائیاں امت کی نگاہوں سے اوجھل رہیں اورصاحب ’’وثیقہ‘‘ کی بھرپور کوشش ہے کہ مغرب کے ان جرائم پر پردہ ڈال دیا جائے جو روزانہ وہاں وقوع پذیر ہوتے ہیں جن کو سن کر انسانی معاشرہ حیرت زدہ رہ جائے مثلاوہاں قتل غارت گری عام ہے خاندان کے خاندان یک لخت ختم کردیئے جاتے ہیں عزتیں لوٹنا عام ہے چوری ڈکیتی کی وارداتیں اسی طرح ہیں جس طرح باقی دنیا وغیرہ میں اس صاحب ’’وثیقہ‘‘ کی کوشش یہ ہے کہ مجاہدین کا بدترین نقشہ کھینچا جائے اور اہل مغرب کے ان کفار اور سرکش لوگوں کانقشہ لوگوں کے سامنے بھلی صورت میں پیش کیا جائے ۔

الہدف سادس

چھٹا ہدف یہ ہے کہ اس میں کسی قسم کے شک وشبہ والی بات نہیں کہ مجاہدین کی قیادت کے بارے میں لوگوں کے دلوں میں بڑی عزت واحترام ہے خاص طور پر ان کی بہترین عادات واطوار کی وجہ سے کیونکہ وہ انتہائی بردبار واقع ہوئے ہیں اور انہوں نے امت کے جن دشمنوں کی نشان دہی کی وہ ہمیشہ سچی واقع ہوئی ان کے قول وفعل میں ہمیشہ یکسانیت پائی گئی ہے اور وہ جن خطرات کو محسوس کرتے ہیں ہمیشہ سچے ثابت ہوئے جہاں ان کے ساتھی لشکر والے قربانیاں پیش کرتے ہیں وہیں ان کی قیادت بھی اپنی جان ومال کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرتی بلکہ وہ ہمیشہ اس معاملے میں سب سے آگے رہتے ہیں ۔اس صاحب ’’وثیقہ‘‘ کی کوشش ہے کہ کسی طرح ان لوگوں کے دلوں سے ان کا یہ احترام واعتماد نکالاجائے خاص طور پر مجاہدین کو ان کی قیادت سے کسی طرح متنفر کیاجائے اور اللہ نے مجاہدینکو جہاد اور صبر کرنے پر جو اجر ومقام اور عزت دی اسے لوگوں کے دلوں سے نکالاجائے ہم مجاہدین کے بارے میں اچھاگمان ہی رکھتے ہیں اگرچہ’’لانزکی علی اﷲ احدا‘‘ ان لوگوںنے اس کے لئے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ دوطرح ہے پہلا یہ ہے کہ کسی طرح ان کی کوئی چھوٹی سی غلطی پکڑی جائے پھر اس کو لوگوںکے سامنے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کی نگاہوں میں انہیں گرایاجائے جیساکہ وثیقۃالتعبید (غلام بنانے والی تحریر)نے مجاہدین کی جو تصویر کشی کی وہ یہ ہے کہ گویا یہ معرکوں سے فرار ہونے والے اور اپنے ماں باپ بیویوں کو چھوڑے ہوئے ہیں اور فاسق ،جھوٹے ،فسادی، جاہل لوگ ہیں اور ان کامقصود اصلی صرف اپنا تسلط قائم کرنا اور شہرت وناموری ہے ۔
دوسرا طریقہ یہ اختیار کیا کہ مجاہدین کی قیادت پر کسی قسم کی تنقید نہ کی جائے بلکہ انہیں غلطیاں کرنے دی جائیں ان پرنگاہ رکھی جائے اور کوئی ایسا کام سرزد ہوجائے جس کو بنیاد بنا کر انہیں دفاعی پوزیشن پرکھڑا کردیا جائے اگر یہ پلاننگ کامیاب نہ ہوئی تو صاحب’’وثیقہ‘‘ کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات تو پیدا کئے جارہے ہیں ۔

الہدف السابع

ساتواں ٹارگٹ یہ ہے لوگوں کے سامنے یہ بات رکھی جائے کہ امت پر جتنی مشکلات ومصائب آج ہیں ان تمام کا سبب مجاہدین ہیں اور یہ امت کو ہلاکت کی طرف دھکیل رہے ہیں اور ان کا جہاد سوائے بربادی اور فساد کے کوئی نتیجہ نہیں دے رہا اور اگر یہ مجاہدین جابر اورنکمی حکومتوں کو پریشان نہ کررہے ہوتے تو آج امت پریہ کڑا وقت نہ آتا اورانہوں نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بھی بٹھانے کی کوشش کی ہے کہ مجاہدین کی سرگرمیوں سے قبل امت امن وامان میں تھی گویا وثیقۃ التعبیدلوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانا چاہتی ہے کہ ترک جہاد وہجرت ،عزلت (کفار سے علیحدہ رہنا )اور کتمان ایمان (ایمان چھپانا)لوگوںکی ترقی وعزت کا سبب ہے اور ان تمام پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ذریعہ ہے جس میں آج پوری امت مبتلاء ہے ۔اور اس کے برعکس جہادی سرگرمیاں جاری رکھنا ،مرتد حکومت کو تبدیل کرنے کی کوششیں کرنا ،متکبر لوگوں سے ملک کا قبضہ چھڑانا ،اور ایسے لوگوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموارکرناتاکہ کوئی اپنے تکبراور ظلم کی بنیاد پر حکومت اورملک پر قبضہ برقرارنہ رکھ سکے وغیرہ یہ ایسے امور بتائے گئے ہیں جس کی وجہ سے امت پریشانیوں میں مبتلا ہوتی ہے تاکہ ایسے توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والوں کو کھل کر اپنے مکروہ عزائم کو پورا کرنے کا موقع مل سکے اور ان کے خلاف کوئی آواز نہ اٹھاسکے چنانچہ ان کی یہی کوشش ہے کہ کسی طرح مجاہدین کی ظلم وزیادتی کی داستانیں سنا کر اور جیل کی سختیاں بتاکر اور زندگی کے خاتمے کی دھمکیاں دے کر خاموش کردیاجائے اور ان ظالم حکومتوں اور ان کے سرپرستوں کو آزادی سے کام کرنے کاموقع مل سکے اس مقام پرنبی علیہ السلام کے دوفرامین نقل کرنا ضروری سمجھتا ہوں آپﷺ نے فرمایا:
’’قریب ہے کہ تمہارے خلاف قومیں ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جس طرح لوگ کھانے کی دعوت دیتے ہیں ۔ہم نے کہا یارسول اللہ کیا اس دن ہم تھوڑے ہوں گے جس کی وجہ سے یہ ہوگا؟آپﷺنے فرمایا:اس دن تم بہت زیادہ ہوگے لیکن تمہاری حیثیت اس دن پانی پر آنے والے کوڑے کرکٹ کی طرح ہوگی تمہاری ہیبت دشمن کے دل سے نکل گئی ہوگی اور تمہارے دل میں الوہن پیدا ہوجائے گا۔ صحابہ نے کہا :الوہن کیا ہوگا۔آپ eنے فرمایا:زندگی کی محبت ،موت کی کراہیت آپ eنے ارشاد فرمایا جب تم عینہ بیع کرنے لگو اور گائے کی دم پکڑلو اور زراعت کو پسند کرنے لگو اور جہاد چھوڑ دوگے تو تم پر اللہ ذلت مسلط کردے گا وہ اس وقت تک رہے گی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ‘‘۔
یہ دونوں حدیثیں آج کے مسلمانوں کی حالت بیان کررہی ہیں کہ انہیں دنیا محبوب ہے موت سے نفرت ہے جہاد ترک کردیا جس کے نتیجے میں اللہ نے کافر امتیں مسلط کردیں ہیں جو انہیں ذلت ورسوائی سے دوچار کررہی ہیں اور اس کا سب سے بڑا سبب ترک جہاد ہی ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْل، اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔(توبۃ:39-38)
’’اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ جب تمہیں کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو تو تم زمین پر بوجھل ہوجاتے ہو کیا تم نے حیات آخرت کے مقابلہ میں حیات دنیا کو پسند کرلیا ہے توحیات دنیا کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں تھوڑا ہے اگر تم نہ نکلے تو وہ تمہیں المناک عذاب دے گا اور تمہاری جگہ ایسی قوم لے آئے گا جو تمہارے علاوہ ہوگی او رتم ان کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکوگے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
آیت میں جس عذاب الیم کا تذکرہ ہے اس سے مراد ذلت اور قوموں کا ایک دوسرے کو دعوت دینا مراد ہے جس کا حدیث میں ذکر ہے اور اس سے نجات کی واحد راہ دین اور جہاد کی طرف رجوع ہے جس کا پہلی حدیث میں تذکرہ ہے اور یہ حدیث قرآن مجید کی اس آیت کے عین مطابق ہے جیسا کہ فرمایا:
وَقَاتِلُوْا المُشْرِکِیْنَ کَافَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَافَّۃً وَاعْلَمُوْا أنَّ اﷲَ مَعَ المُتَّقِیْنَ۔ وقول اﷲ تعالیٰ : وَقَاتِلُوْھُمْ حتَّی لَا تَکُوْنَ فِتْنَۃٌ وَیَکُوْنَ الدِّیْنُ کُلُّہُ لِلّٰہِ۔
’’تم مشرکین کے خلاف سب مل کر قتال کرو جس طرح وہ سب مل کر تمہارے خلاف قتال کرتے ہیں اور جان لو اللہ متقین کے ساتھ ہے ۔اور مزید فرماتا ہے :اور تم ان کے خلاف قتال کرو تاکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورا اللہ کے لئے ثابت ہوجائے ‘‘۔
یہ تمام اہداف جو ذکر کئے گئے ہیں ان کا واحد مقصد یہ ہے کہ مجاہدین کا خارجی طور پر محاصرہ کیاجائے اور داخلی طور پر روکا جائے اور ان میں اختلافات پیداکئے جائیں اور ان کے عزائم کو کمزور کیا جائے ،اور باہمی اتحاد کو جو ان کا سب سے بڑا رابطے کا ذریعہ ہے اس کو ختم کیا جائے اور ان کے مقاصد کو ناکام بنایا جائے ان میں کسی طرح کمزوری پیدا کی جائے ،او ران پر زمین تنگ کردی جائے تاکہ ملک میں طاغوتی حکومت کو مضبوط سے مضبوط تر کردیاجائے تاکہ جہالت پر مبنی معاشرہ قائم رہے جس سے اللہ اور مسلمانوں کے دشمن خوب فائدہ اٹھا کر اپنی من مانیاں کرسکیں مگر رب کا یہ فرمان حقیقت پر مبنی ہے :
اِنَّ رَبَّکَ لَبِالْمِرْصَادِ۔(فجر:14)
’’بے شک تیرا رب گھات میں ہے‘‘۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں

صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ


’’وثیقہ‘‘ میں بیان کئے گئے شرعی مسائل کا ایک جائزہ

مرشد (خودساختہ ہدایت دینے والا )اپنے ’’وثیقہ‘‘ میں کہتا ہے :’’جب خلافت عثمانیہ انیسویں صدی کے اختتام پر کمزور پڑگئی توبہت سارے مسلمان ممالک کو یورپی حکومتوں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور انہیں تقسیم کردیا اور کمزور کرنا شروع کردیا ان کے مال ودولت کو لوٹ لیا اور صنعتی ترقیاں روک دیں لوگوں کو مختلف انداز سے جدائیاں پیدا کیں اور ایسے حالات پیدا کئے جس سے غربت میں اضافہ ہوااور مزید یورپ نے اپنی ثقافت رائج کردی اور فوج کشی کرکے اپنے قوانین نافذ کردیئے پھر ان یورپی حکومتوں نے یہودیوں کے لئے ایک نئی مملکت عالم اسلام کے دل میں قائم کردی تاکہ مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کیا جائے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ سب مسلمانوں کے گناہوں کی وجہ سے ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ ۔’’تمہیں جو کچھ بھی پہنچتا ہے توتمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے ‘‘(شوری:30)۔اور ان کی یہ دشمنانہ کاروائیاں جاری رہیں تنزلی کی نوبت انتہائی شدید ہوگئی یہاں تک کہ اللہ کے اس قول کا مصداق بن گئی ۔وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ’’آپ سے یہود اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کی ملت کی اتباع شروع نہ کردیں ‘‘(بقرہ:120)ان حالات کو دیکھ کر بعض اسلامی جماعتوں نے اپنے ملک کی قابض حکومتوں کے خلاف یا بڑی حکومت کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر تصادم کی راہ اپنالی تاکہ اسلام کی عظمت بلند کی جاسکے ۔مختلف علاقوں میں تصادم پھیل گیا اور اس تصادم میں بہت سارے شریعت کے مخالفین بھی شامل ہوگئے (انتہی)
اس میں شک نہیں کہ جس دور سے امت مسلمہ گزررہی ہے یہ اس کا مختصر سا بیان ہے اور اس میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ چند بڑے ممالک نے مسلمان شہروں پر قبضہ کرلیا اور خلافت عثمانیہ کے وارث بنے یہاں انہوں نے اپنے قوانین لاگو کئے اور ان ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور یہاں کی تمام دولت لوٹ لی اور ایک یہودی ریاست قائم کرکے اس کی پشت پناہی بھی کی اور اس کی سیاسی ،اقتصادی عسکری مدد بھی کی مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ حکومتیں ڈکٹیٹر حکومتوں کی پشت پناہی اور ان کی حمایت کرتی رہی ہیں اور ان کومضبوط کرنے میں لگی رہیں تاکہ ان کے ذریعے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرسکیں آج اسلامی ممالک کا یہی حال ہے اگر یہ کہا جائے توبے جانہیں ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک پر ان لوگوں کا قبضہ ہے کہیں زبردستی قبضہ اور کہیں ان کی مرضی سے اگرچہ وہاں ظاہری طور پر حکومتیں مقامی ہیں مگر حقیقت میں اصل حکومت ان یورپی ممالک کی ہی ہیں اور مقامی حکومتوں کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ یہ ان کی انتہائی ذلیل طریقے سے آلہ کار ہیں وہ یورپی ممالک ان کی مدد صرف اس وجہ سے کررہی ہیں کہ وہ ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان لوگوں نے پہلے ہمارے ممالک پر عسکری قبضہ کیا پھر ان کو ایسے لوگوں کے قبضہ میں دے دیا جو ان کے ایجنٹ بن کر ان کے ایجنڈے پر کام کرسکیں کیونکہ اس طرح وہ جتنا کام کرسکتے تھے اتنا اپنے قبضے سے ناممکن تھا لہٰذا آج یہ دعویٰ کرنا کہ ہم آزاد ممالک ہیں یہ محض دھوکہ بازی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسے لوگ ہم پر مسلط کردیئے جن کے نام کا حصہ حسن ،حسنی ،حسین ،عبداللہ یا زین العابدین جیسے الفاظ ہوں یا باقاعدہ مغرب کے نصرانی نیلی آنکھوں والے مسلط کردیئے ان ہی وجوہات کی بناء پر مجاہدین نے ان کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا ہے تاکہ ملک کو ایسے قبضہ گروپ لوگوں سے نجات دلائی جائے۔
ایسی صور ت میں قاری کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہم کم سے کم بھی تبصرہ کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ آج ہمارے ملکوں پر حقیقی قبضہ یورپ کا ہے اور ان ہی لوگوں کے قوانین ،ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور ان کی پالیسیوں کے نتائج ان کی سوچ سے بھی زیادہ نکل رہے ہیں دین خداوندی ان کی سیاست کی بیخ کنی کرتا ہے اور عقائد اسلامیہ ان کی اخلاقی برائیوں کو رد کرتا ہے اسلامی اخلاق ان کی برائیوں کو واضح کرتا ہے ان کے قوانین کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی دولت پر قبضہ کیاجائے یہی وجہ ہے کفر کے آئمہ اپنے خودساختہ نظام کو ان ممالک میں رائج کرنے اور اس کی پشت پناہی میں اپنی قوت لگارہے ہیں خاص طور پر خودساختہ آزادی اور جمہوری نظام کو رائج کرنے میں ۔اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ان کے مددگاروں کے ہاتھوں پریشانیاں اٹھارہے ہیں ،پورے ملک میں کفارکے چھوڑے ہوئے لوگ سیاست چمکا رہے ہیں تاکہ کفارکی سازشو ں کی تکمیل کریں اور مسلمانوں کی نوجوان نسل ان کی فرمانبرداری پر لگی ہوئی ہے او رکفار کی تہذیب وتمدن دل میں جگہ کررہی ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا کامیابی سمجھاجارہاہے جبکہ مرتد آئمہ اور ان معاونین بلاچوں چراں اور شریعت کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر کفا رکی جانب سے جو مطالبہ آتاہے پورا کئے جارہے ہیں اگر اس کے نتیجہ میں قوم کتنا ہی نقصان برداشت کرے ۔اب مجھے بتاؤ کیا جب مغربی استعمار کے بحری جہاز سمندروں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور اس کے طیارے فضاؤں میں گردش کررہے ہیں اور ان کے ٹینک صحراؤں میں گھوم رہے ہیں تو کیا یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر واپس جائیں گے حالانکہ ان کے مکر وفریب سے ایک لمحہ برابر بھی بے خوفی محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلمانوں پر ذلتیں رسوائیاں مسلط کرنے میں کوئی دقیقہ بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں ہیں خاص طور پر جبکہ ان کی پشت پر ایک یہودی حکومت جس کو عرف عام میں قابض ڈکٹیٹر حکومت کہاجاتا ہے مگر انتہائی افسوس ہے کہ ان حالات کو دیکھنے کے باوجود بھی لوگ مخالفت کریں تو اس کا کیا علاج ہونا چاہیے ؟ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ آج مسلمانوں پر جو ان کے دشمنوں کو زبردستی مسلط کردیاگیاہے ان کے شہروں میں جو تفرقہ بازی عام کردی گئی ہے اور ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیںا س سے وہ رب کی شریعت سے محروم ہوچکے ہیں تو اس کا سبب ان کے گناہ او ران کے اعمال ہیں مگر ان کے لئے علاج تجویز کرنے والے اس بات سے آگے نہیں بڑھتے کہ اصل مرض کیا ہے صرف وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب مسلمانوں کے گناہ ہیں مثلاً سود ،زنا، بے پردگی ،شراب نوشی ،موسیقی ،وغیرہ مگرکسی کے دل میں ذرہ برابر یہ خیال نہیں آتا کہ ان گناہوں سے بھی خطرناک چیز ہے جو ان تمام پریشانیوں کا اصلی سبب ہے اور وہ ترک جہاد ہے انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ ترک جہاد کو مشکلات وپریشانیوں کا سبب نہیںسمجھتے مگر بہت سے لوگ ان تمام پریشانیوں کا حل جہاد فی سبیل اللہ ہی میں تلاش کرتے ہیں اوربیان کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْل، اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔(توبۃ:39-38)
’’اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوگیا ہے جب تم کو کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو توزمین پر بوجھل ہوجاتے ہو کیا تم نے حیات دنیاکو حیات آخرت کے مقابلے میں پسند کرلیا ہے پس حیاتِ دنیا حیاتِ آخرت کے مقابلے میں تھوڑی ہے اگر تم نہ نکلے تو وہ تم کو المناک عذاب دے گا تم اس کو کچھ تکلیف نہ دے سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
امام ابن العربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس آیت میں دومسئلے بیان ہوئے ہیں :
پہلا مسئلہ اس میں شدید ڈانٹ اور سخت وعید ان کے لئے بیان ہوئی ہے جو جہاد کے لئے نہیں نکلتے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جب امر ایسے واقع ہو کہ اس کا اقتضاء زیادہ نہ ہو تو صرف امر مراد ہوگا اس کے ترک پر عذاب کا حکم نہیں لگایاجائے گا ایسی صورت میں عذاب کا حکم جب لگے گا جب کہ اس پر عذاب خبر کی صورت میں بیان کیا گیا ہو جیساکہ کوئی کہے ان لم تفعل کذا عذبتک اگر تم نے یہ کام نہ کیا تومیں سزا دوں گا جیسا کہ آیت میں بھی اسی طرح وارد ہوا ہے لہٰذا جہاد کے لئے نکلنا اس آیت سے واجب ٹھہرتا ہے تاکہ کفار سے لڑا جائے اور اللہ کاکلمہ بلند ہوجائے ۔
دوسرا مسئلہ عذاب کی وہ نوعیت بیان ہوئی ہے ابن عباس tنے فرمایا عذاب سے مراد بارش کا رکناہے اگر ان کا قول صحیح ہے تو وہ زیاد جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ قول کہاں سے لیا ہے ورنہ عذاب الیم دنیا میں یہ ہے کہ دشمن ان پر غالب آجائے گا اور آخرت میں جہنم ہے اورمزید یہ کہ تمہارے علاوہ لوگ تمہارے بدلے آجائیں گے جیسا اللہ نے بھی کہا ہے :’’وان تتولوا‘‘اگر تم منہ پھیروگے توتمہارے بدلے دوسری قوم آجائے گی ۔(احکام القرآن:286/6)
علامہ طاہر بن عاشوررحمہ اللہ فرماتے ہیں:دنیاوی سزائیں ایسی مصیبت ہے کہ جس سے کامیابی کے ذارئع مہمل ہوجاتے ہیں خاص کررسولﷺکی نصیحتوں سے فائدہ اٹھانا جیسا کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواحدوالے دن نقصان ہوا تھا۔اس کا مقصدان کو خبردارکرنا تھا کہ اگریہ لوگ دشمن سے جنگ کے لئے نہیں نکلیں گے تو دشمن ان پر حملہ کرکے ان کو جڑسے اکھاڑدے گا۔اوراﷲتعالیٰ ان کی جگہ کوئی اورقوم لے آئے گا ۔(التحریر والتنویر:301/4)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے جس عذاب الیم کا ذکرکیا ہے اور اس بات کا ذکرحدیث میں بھی ہے کہ قومیں ہم پر حملہ آورہوں گی اورایک دوسری کو اس طرح ہمارے خلاف اکھٹی کریں گی جس طرح کھانے کے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔آج یہی حال ہے کہ جہاد ترک کردیاگیا ہے دشمن کو چھوڑدیاگیا ہے اور قوم سستی اور بے توجہی کی طرف مائل ہے اورآرام اور سکون پرقناعت کرچکی ہے۔دنیامیںمشغول ہوگئی ہے اوردنیا کو اپنا سب سے بڑامقصدبنارکھا ہے۔اﷲتعالیٰ کسی پرظلم نہیں کرتا مگریہ خوداپنے پرظلم کرتے ہیں۔
نبی ﷺنے فرمایا :’’جب تم عینہ بیع کرنے لگو او رگائے کی دم پکڑ لوگے اور زراعت پر خوش ہوجاؤ گے جہا دکو چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت مسلط کردے گا جو تم سے دورنہیں ہوگی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ‘‘۔(ابوداؤد عن ابن عمررضی اللہ عنہما)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’قریب ہے قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے کھانے کی دعوت دی جاتی ہے توکسی نے پوچھا کیا ہم اس دن تھوڑے ہوں گے آپ ﷺنے فرمایا:تم بہت زیادہ ہوگے لیکن پانی پر آنے والے کوڑا کرکٹ کی طرح ہوگے اللہ دشمن کے دل سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں الوہن پیدا کردے گا توکسی نے پوچھا الوہن کیا ہے تو آپ ﷺنے فرمایادنیا کی محبت اور موت کی کراہیت ۔(ابوداؤد ، البھیقی فی شعب الایمان)
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :’’جب کوئی قوم جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ ان میں عذاب عام کردیتا ہے ‘‘۔(طبرانی وحسنہ الالبانی)
جب امت دنیا کو ترجیح دینے لگے اور اسے دین سے زیادہ اہم سمجھنے لگے اور تمام توجہ حصول دنیا پر لگادے تویہ اللہ کے عذاب وناراضگی کا سبب ہے اور جولوگ جہاد کو تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں اور جہاد پر معاونت کرتے ہیں تو یہ اللہ اور اس کے رسول اور شریعت سے محبت کی سب سے بڑی اورواضح دلیل ہے آپ نے آیات کو پڑھ کر اندازہ لگایا ہوگا کہ جب اللہ نے جہاد کے لئے نکلنے کاحکم دیا توزمین پر بوجھل بننے اور دنیا کو جہاد پر ترجیح دینے سے اللہ نے متنبہ فرمایا اور یہ بھی واضح کردیا کہ دوہی باتیں ہیں یا توجہاد ،ایثار ،قربانی اور اللہ سے جو بیعت کی ہے اس کی وفاداری ہے یا پھر اس کے علاوہ دھوکہ ،رسوائی، بخیلی ،بزدلی جس کے نتیجے میں عذاب ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِاقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔(توبۃ:24)
’’کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ ،بھائی ،بیویاں ،خاندان ،اور وہ مال جسے تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے نقصان پر تم ڈرتے ہو اور وہ گھرجنہیں تم پسند کرتے ہو اللہ اور ا س کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوگئے تو تم انتظار کرو یہاں تک اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
علامہ خازن رحمہ اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دنیا میں ان تمام چیزوں سے ایک فاصلہ پر رہنا ضروری ہے جو دین میں نقصان کا ذریعہ بنتی ہیں تاکہ دین محفوظ رہے اور یہ بات بھی بتائی گئی ہے دنیاوی مفادات کو ترجیح دینا عذاب کے آنے کا سبب ہے اوراس میں یہ بات بھی واضح ہوئی جب دنیاوی اور دینی مفادات کا ٹکراؤہو تو دینی مصالح کو ترجیح دینا مسلمانوں پر واجب ہے ‘‘۔(لباب التاویل فی معانی التنزیل : 242/3)
توجو شخص امت کی بیماریاں بتائے اور جہاد کو ہماری بیماری کا سبب نہ بتائے اور جہاد کی اہمیت کو کم کرے تو ایسے شخص کی مثال یوں ہے جیسے ایک شخص انتہائی پیاس کے عالم میں جارہا ہے انتہائی شدید گرمی کاموسم ہے سورج آگ برسارہا ہے پانی اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہے مگر اس میں اس تک پہنچنے کی استطاعت نہیں سوائے اس کے کہ کوئی سہارا دے کر لے جائے ایسے میںکوئی شخص اسے آکریہ نصیحت شروع کردے کہ تمہیں یہ پیاس اس وجہ سے لگی ہے کہ تم نے سایہ چھوڑ کر اس سورج کی دھوپ میں چلنا شروع کردیا ا ب نصیحت کرنے والے کی یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ پیاس کے اسباب میں سے ایک سبب سورج اور اس کی حدت بھی ہے مگر یہ کہنا کہ اگر اور کسی ٹھنڈی جگہ چلاجاتا تو اس کی پیاس زائل ہوجاتی تویہ غلط ہے حالانکہ کوئی عقل مند انسان کسی کو اس حالت میں دیکھ کر فوراً پانی کی طرف رہنمائی کرتا تاکہ اس کی پیاس بجھ جائے اس کے بعد وہ نصیحت کرتا کہ وہ کس طرح باقی پیاس کے اسباب سے بچے ۔
آج امت کا جہاد کے ساتھ یہی حال ہے حالانکہ امت کو زبوں حالی سے بچانے کا واحد راستہ جہاد کا راستہ ہے اگر ہم نے اس کو ترک کردیا توہم اپنے مقاصد کے حصول سے انتہائی دور ہوجائیں گے کیونکہ ہماری ذمہ داری میں دین کی اقامت شامل ہے اور یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرہ سے ہر قسم کے شرک کا خاتمہ کیا جائے خاص طور پر شرکیہ نظام کا اور معاشرہ سے ایسے تمام طواغیت کا خاتمہ کیا جائے جو ہمارے اور رب کی عبادت میں حائل ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ تمام مصائب خواہ وہ ہماری جانوں میں ہوں یا اہل وعیال میں یا مالوں میں ان کی اصل وجہ ہماری معصیت اور بداعمالیاں ہیں جیسا کہ فرمایا:
وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ۔
(شوری:30)
’’تمہیں جو مصیبت پہنچنے والی پہنچتی ہے توجو تمہارے ہاتھ نے کمایااور و ہ درگزرکردیتا ہے بہت سے کاموں سے ‘‘ ۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔’’اے لوگو تمہیں دنیا میں جو مصیبت پہنچتی ہے چاہے تمہاری جانوں میں یا مالوں میں تو اس وجہ سے کہ تمہارے ہاتھوں نے جو کمایا یعنی وہ اللہ کی طر ف سے تمہارے اعمال کی سزا ہے اور اللہ تمہارے بہت سے جرائم سے درگزر فرمادیتا ہے اور اس کی سزا نہیں دیتا ‘‘۔(تفسیر طبری : 538/12)
یہ ایک عام قضیہ اور حقیقت مسلمہ ہے مگر جہاد ایسی عبادت ہے جس کے ترک پر فوراً اللہ کی طرف سے سزاملنا شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ بہت ساری آیات واحادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ ترک جہاد پر توبہ واستغفار سے معافی مل جاتی ہے جس طرح باقی گناہوں کی معافی توبہ سے مل جاتی ہے اور اس مسئلہ کو دیگر جرائم سے خلط ملط کردیا گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جہاد چھوڑنے پر اس کی سزا ذلت کی صورت میں شروع ہوجاتی ہے اس کا واحد حل جہاد کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ زبانی توبہ کرنا ۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔(توبۃ:39)
اگر تم جہا دکو نہ نکلے تو اللہ تم کو المناک عذاب دے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم لے آئے گا او رتم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکوگے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ترک جہاد کے علاوہ باقی گناہوں کوکم اہمیت دیتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ شریعت ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے او روہ ایک جسم کی مانند ہے جس کی قوت ایک دوسرے سے مل کر بڑھتی اورکمزور ہوتی ہے اور ہم پر اللہ کی رحمتیں اورمدد اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت کرنے پر نازل ہوں گی اورپھراللہ ہماری طرف سے ہمارا دفاع بھی کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوا اﷲَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ۔(محمد:7)
’’اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تواللہ تمہاری مدد کرے گا اور ثابت قدمی عطاکرے گا ‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا:
اِنَّ اﷲَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا اِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ۔(حج:38)
’’بے شک اللہ دفاع کرتا ہے مومنین کی طرف سے بے شک اللہ بہت زیادہ خائن اور انکاری کو ناپسند کرتا ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں جہاد کی اجازت والی آیت اس آیت کے بعد مذکور ہوئی ہے شاید واللہ اعلم اس میںیہ حکمت ہوکہ اللہ کی طرف سے مومنین کی مدافعت جہاد سے ساقط ہوجاتی ہے یعنی جہاد تمام مسلمانوں کی تکلیفوں مشکلات سے نکلنے کا سبب ہے لہٰذا اب وہ خود اپنا دفاع جہاد سے کرسکتے ہیں تو اس آیت میں اللہ پر توکل کا بھی بیان ہے اور اسباب کو استعمال کرنے کا جواز بھی ہے جیسا کہ فرمایا:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اﷲَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ۔(حج:39)
’’اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ‘‘۔
سید قطب رحمہ اللہ نے بھی اس کی بہترین تفسیر بیان کی ہے جس کا مجھے بعد میں علم ہوا چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’جب اللہ نے مومنین کے دفاع کی ذمہ داری لے لی تو وہ دشمن سے حتمی طور پر محفوظ ہوگئے پھر ان کو قتال کی کیوں اجازت دی اورجہاد کیوں فرض کیا جس میں قتل بھی ہوتے ہیں زخمی بھی اور بڑی مشقتیں اٹھانی پرتی ہیں قربانی دینی پڑتی ہیں جبکہ وہ تمام فوائد ونتائج انہیں بغیر قتال کے حاصل ہورہے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی حکمت بالغہ یہ ہے کہ جو ہمیں اپنی سوچ و فکر سے حاصل ہوئی ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس دین کے حاملین سست وکمزور نہ ہوں جو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اللہ کی مدد کا انتظار کرتے رہیں اور وہ انہیں بغیر محنت کے حاصل ہوتی رہے اور وہ صرف نماز پڑھتے رہیں یا زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرتے رہیں اور زیادہ یہ کہ جب کوئی مصیبت آجائے یا دشمن حملہ آور ہو جائے تو اللہ سے دعائیں مانگتے رہیں اگر نماز پڑھنا تلاوت کرنا دعائیں مانگنا بھی ضروری ہے لیکن یہ صرف عبادات انہیں دین قائم کرنے کا اہل نہیں بناتی ہیں یہ تو زاد راہ کی حیثیت رکھتی ہیں مگر وہ اسلحہ جس سے دشمن کے خلاف معرکہ میں کام لیاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ دشمن کے مقابلے کیلئے وہی ہتھیار استعمال کریں جو وہ آپ کے خلاف استعمال کررہا ہے اور اضافی قوت کے طور پر تقویٰ ،ایمان اور اللہ پر مکمل اعتماد کا ہتھیار استعمال کریں تو پھر اللہ کی مشیت بھی یہی ہے کہ اللہ ان مومنین کا دفاع کرے گا جوان طریقوں پر چلیں گے ‘‘۔(فی ظلال القرآن : 199/5)
میں تمام مجاہدین کو نصیحت کرتاہوں بلکہ تمام مسلمانوں کو کہ وہ سید قطب رحمہ اللہ کی تحریروں کی طرف رجوع کریں کیونکہ ان کی تحریر میں ایسے موتی او رخزانے ہیں جو ہر شخص کی ضرورت ہے ۔اس کی نظیر سورۃ انفال میں موجود ہے کہ اللہ نے مومنین کو دشمن کے خلاف قوت میں تیاری کا حکم دیا اس سے قبل آیت یوں ہے:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا اِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ۔(انفال:59)
’’اور نہ خیال کریں کفار جو سبقت لے گئے ہیں کہ وہ عاجز نہیں کیے جائیں گے ‘‘۔
تاکہ وہ ان اسباب کو حاصل کرنے میں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے کوئی کسر نہ چھوڑیں اور صرف اس بات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں کہ ہمیں اللہ کی اس بات کی قدرت کا علم ہے کہ وہ کفار سے انتقام لینے پر قادر ہے ۔
علامہ الطاہر بن عاشوررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اس لئے کہ اللہ کا یہ فرمان ’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘کفار کی کمزوری کی نشان دہی کررہا ہے اس کے بعد اللہ نے ان کے خلاف تیاری کا حکم دیا تاکہ مسلمان یہ نہ سمجھ لیں کہ مشرکین توہمارے سامنے مغلوب ہوچکے ہیں اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ دشمن کے مقابلے میں تیاری کرنا یہ ایک سبب ہے جس کی وجہ سے دشمن اللہ اور اس کے رسول کو عاجز نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے مومنین کو ظاہر اور باطنی طور دونوں اسباب مہیا کردیئے ۔(التحریر والتنویر:183/6)
غو رکرو کہ ترشید نے کس طرح جہاد کے مجرم حکام کے خلاف لڑنے کو (الصدام مع السلطات الحاکمہ)کا نام دیا اور یہ کہ وہ یہ سب جہادکے نام پر کرتے رہے ہیں اور کہا ((بعض اسلامی جماعتوں نے اس چیز میں عافیت جانی کہ ان حکومتوں یا ان کی پشت پناہ بڑی حکومتوں سے اور ان کی رعایا کے خلاف تصادم جہاد کے نام پر اختیار کیا جائے اور لوگوں کو یہ تاثر دیاجائے کہ یہ ہم اسلام کی سربلندی کے لئے کررہے ہیں اور تصادم پھیل گیا ))سمجھ نہیں آتی کہ مصنف لفظ جہاد سے کیوں راہ فرار اختیار کرنا چاہتاہے کہیں اس کو ڈکٹیٹر حکومت کی طرف سے یا خاص جگہ سے ڈکٹیشن تونہیں مل رہی ہے کہ وہ مجاہدین سے شرعی اصطلاحات علیحدہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان اصطلاحات کا لوگوں کے دلوں میں ایک خاص اثر پڑتا ہے جیسا کہ لفظ جہاد ،لفظ احلال جیسے الفاظ ان کی بجائے ’’الصدام‘‘لفظ استعمال کرنا شروع کردیا ان کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ان کے نزدیک یہ لفظ زیادہ مناسب قرار پایا ہے ۔
مرشد اپنے ’’وثیقہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’تصادم اورٹکراؤ مختلف شہر وں میں پھیل گیا اور اس میں شریعت کے خلاف کتنے ہی سارے امور شامل ہوگئے مثال کے طو رپر جنس کی بنیاد پر قتل ،رنگ کی وجہ سے قتل ،بالوں کا رنگ دیکھ کر قتل ،مذہب کی بنیاد پر قتل اورکئی ایسے مسلمانوں کا قتل جن کا قتل جائز نہیں تھااور کئی غیر مسلموں کا قتل وغیرہ اور قتل کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور معصوم لوگوں کے مال کو ناجائز طریقے سے حلال بنانے کے لئے اور مملکت میں تخریب کاری پھیلانے کے لئے کسی مسئلہ کو آڑ بناکر اس سے غلط استدلال کیا گیا ہے اور وہ تمام کام کئے گئے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب تھے جیسا کہ خون بہانا لوگوں کے مال کو ضائع کرنا وغیرہ اور ان کے تدارک کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا چانچہ یہی دنیا اور آخرت کی رسوائی کا سبب بن گیا ۔(انتہی)
’’وثیقہ‘‘ کی اس عبارت کو جس میں یہ تہمتیں باندھی گئی ہیں جو بھی پڑھے گا وہ اس چیز کی حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ یہ جماعت اور اس کے اصحاب مجرمین قاتلوں چوروں اور مفسدین کی ایک جماعت تھی جو حرمت وحلت کا خیال نہیں رکھتی تھی اور نہ حدوں کی حفاظت کرتی تھی اورنہ کسی رکاوٹ کا خیال کرتی تھی تو ان کا قرآن کی آیت کے مصداق اورکیا حکم ہوسکتا ہے :
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(مائدۃ:33)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو قتل کردیا جائے یا سولی دیدی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے سے خلاف کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کردیا جائے ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے‘‘۔
مرشد کہتا ہے کہ :’’وانتشرت الصدامات‘‘ تصادم بڑھ گیا ‘‘یعنی وہ قابض ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف جدوجہد کو جہاد کہنے کو تیار نہیں حالانکہ انہوں نے خود یہ کہا کہ اس تصادم میں کچھ غیر شرعی امور بھی شامل ہوگئے اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں تصادم پر اعتراض نہیں بلکہ غیر شرعی امور کے شامل ہونے پر اعتراض ہے ڈکٹیٹروں کے خلاف تصادم غیر شرعی امرنہیں ہے تو ان کا شرعی نام جہاد کیوں نہیں استعمال کیا تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرتے اور ا س میں اپنا حصہ ملاتے مگر انہوں نے ایسانہیں کیا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس قلم سے یہ سب لکھا گیا ہے وہ قلم شرعی اصطلاحات سے ناواقف ہے اور صاحب قلم کا نفس بھی شرعی اصطلاحات سے ناواقف ہے کیونکہ برتن میں جوکچھ ہوتا ہے وہی اس سے گرتا ہے۔رہی بات ان تہمتوں کی جن سے صاحب ال’’وثیقہ‘‘ والوں نے اوراق کالے کردیئے توان تہمتوں کے سب سے زیادہ یہ خود مستحق قرار پاتے ہیں اور یہ بات کسی دلیل کی محتاج بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ ایسی حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کاش اس بات کی وضاحت کردی ہوتی کہ وہ لوگ جنسیات کی بنیاد پر قتل کرتے تھے حالانکہ اسلامی نظریات رکھنے والے لوگ تو انسانی جان کا احترام ،توقیر کرتے ہیں اور اس کے خون بہانے کو مکمل طور پر حرام سمجھتے ہیں توشاید صاحب ’’وثیقہ‘‘ یہ تاثر دینا چاہتاہے کہ مجاہدین ان لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں جن کا تعلق معروف مذاہب سے تھا مثلاً حنفی ،مالکی ،شافعی، حنبلی وغیرہم حالانکہ یہ بات ہر لحاظ سے غلط ہے کہ مجاہدین مسلمانوں کا مذہب معروفہ کی بنیاد پر قتل جائز سمجھتے تھے اگرصاحب’’وثیقہ‘‘ کا مقصد یہی تاثر دینا نہ ہوتا تو وہ اپنی اس بات کو واضح کرکے بیان کرتا لیکن چونکہ اس کا مقصد صرف مجاہدین کو بدنام کرنا تھا لہٰذا بات بھی مبہم رکھی ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے یہ کہاکہ ’’یہ لوگ انہیں بھی قتل کرنا جائز سمجھتے تھے جن کا قتل ناجائز تھا چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اور یہ لوگوں کے مال کو لوٹنے کیلئے غلط استدلال کرتے تھے وغیرہ‘‘حالانکہ یہ سب باطل تہمتیں جو انہوں نے خود تراشی ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کے جواب میں ہم صرف یہی کہتے ہیں ’’ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین‘‘اگر تم سچے ہو تودلیل لاؤ۔کسی بات کو دلیل سے بیان کرنا اور ہے اور بلا دلیل صفحات کالے کرنا آسان ہے۔
مرشد کہتا ہے:’’ اس ’’وثیقہ‘‘ کو پڑھنے والے جب ان مجاہدین کی غیر شرعی حرکتوں کو دیکھ کر اپنی عدم رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اس ’’وثیقہ‘‘ کی طرف توجہ کرتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کے نتائج اچھے نہیں ہیں اور’’وثیقہ‘‘ میں بیان کردہ ضوابط کو وہ اپنے لئے اہم قرار دیتے ہیں اور غیر مسلموں کے لئے بیان کئے گئے اصولوں کو بھی ضروری سمجھتے ہیں او روہ سمجھتے ہیں اگرہم نے ان اصولوں کی پابندی نہ کی توہم بھی ان غیر شرعی باتوں میں لگ جائیں گے جس میں یہ مجاہدین لگ چکے ہیں جن کے پاس نہ دین ہے اور نہ دنیا ‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے بقول لوگ ان کی غیر شرعی حرکتوں سے اتفاق نہیں کرتے توپہلے آپ ان کی غیر شرعی غلطیاں ثابت کریں آیا یہ غلطیاں ان میںواقعتا موجود بھی تھیں یا محض ان پر الزام تراشی ہے اور یہ کہنا کہ انہوں نے نہ دین قائم کیا نہ دنیا باقی رہی یہ صرف نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کا ایک حیلہ ہے اور یہ کہنا کہ ترشید میں اصول ضابطے بیان کئے گئے ہیں جبکہ ان کی حیثیت دھوکہ بازی کے سوا کچھ بھی نہیں تاکہ جہاد اور مجاہدین ختم ہوجائیں او روہ لوگ جو حقیقت میں سرکش اور جرائم پیشہ لوگ ہیں باقی رہیں تاکہ وہ کھل کر معاشرہ میں فسادپھیلاسکیں اور ترشید انہیں اس لئے سہار افراہم کررہا ہے تاکہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں اورانہیں کوئی روکنے والا نہ ہو اللہ نے سچ کہا :
وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْن،اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ ٰلکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۔(بقرۃ:12)
’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ فساد فی الارض نہ کرو تووہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرتے ہیں خبردار یہی لوگ فسادی ہیں مگر یہ شعور نہیں رکھتے ‘‘۔
اللہ کی قسم اگر آج جہاد نہ ہورہا ہوتا اورنہ مجاہدین ہوتے جنہوں نے دین کی خاطر اپنا خون بہادیا ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں تو یہ ’’وثیقہ‘‘ نامی کتاب وجود میں نہ آتی اورنہ ہی انہیں ان میں امت کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتا نہ ان کی نصیحت کی باتیں سامنے آتی ،یہ ساری تکلیف انہیں جہاد سے پیدا ہورہی ہے ۔جسے روکنے کے لئے انہوں نے اپنے تمام وسائل خیر خواہی کے نام پر ضائع کرناشروع کردیئے ۔ قوم کی یہ اجتماعی قبریں جس کے داخلی وخارجی راستے کئی سالوں سے مسدود ہوچکے تھے لوگ تاریکیوں میں زندگی گزاررہے تھے ان کی نمازیں زندگی سے عاری تھیں اس وقت جب پورا معاشرہ قبر کی تاریکیوں میں پہنچ چکا تھا نہ کسی کو ترشید کا خیال آیا مگر جب فرعون اور اس کے لشکر کو اپنا اقتدار جاتا نظر آیا تو پھر اسے بچانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیئے جیسا کہ انہوں نے مجاہدین کے خلاف شروع کردیا مگر جب انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ان کی مجرمانہ سیاست مجاہدین کو نقصان نہیں پہنچاسکتی تو انہوں نے اپنی اجتماعی قبر سے اس صاحب’’وثیقہ‘‘ کے ذریعے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
اگر مجاہدین کی کاوشوں کا نتیجہ مسلمانوں کی غلامی میں توسیع کی صورت میں نکلتا پھرتوبات بنتی تھی مگر معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ مجاہدین کے جہاد اور صبر سے بفضل اللہ نتیجہ لوگوں کے خیال سے بھی بڑھ کر حاصل ہوا ہے اور ا س حقیقت کا دشمنوں نے بھی نہ چاہتے ہوئے اعتراف کیا ہے اور یہ حقیقت صرف ان لوگوں سے اوجھل رہی جو اقامت دین کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور جن کا رویہ معاندانہ ہے اسی قسم کے لوگ دینی معاملات میں دھوکہ دہی کا ذریعہ بنتے ہیں مجاہدین نے جو اقامت دین کا فریضہ ادا کیا ہے اس کی تفصیل کا اگرچہ یہ موقع نہیں ہے مختصراً یوں کہہ دینا کافی ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ۔
(انفال:24)
’’اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرو جب وہ تمہیں دعوت دیں اس لئے کہ وہ تمہیں حیات نو عطا فرماتے ہیں ‘‘۔
جیسا کہ بعض سلف نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں جنگ کے لئے بلائیں جس میں تمہارے لئے ذلت سے عزت کی طرف جانے کا راستہ ہے اور کمزوری سے طاقت کی طرف اور اس سے اللہ تمہیں دشمن کے قہر سے حفاظت عطا فرماتا ہے ۔(تفسیر طبری:465/13)
مگر ان چند خدمات کا ذکرمناسب ہے جو مجاہدین نے بطور اقامت دین انجام دیں اور دین کو زندہ کردیا جسے اہل مشرق اور اہل مغرب نے لوگوں کے دلوں سے نکال دیاتھا سوائے ان چند لوگوں کے جن پر اللہ کی رحمت ہوئی وہ خدمات درج ذیل ہیں :
اول۔فریضۂ جہاد قولاً ،عملاً زندہ کیا او رلوگوں کو اس کی حقیقت سمجھائی اور یہ بات واضح کی کہ امت مسلمہ ظالموں ،سرکشوں سے اور ان کے احکامات سے صرف جہاد ہی کے ذریعے نجات پاسکتے ہیں انہوں نے اس حق پر مبنی پیغام کو لوگوں تک پہنچایا اگرچہ ناقص صور ت میں کیونکہ معاملہ آسان نہیں تھا بلکہ اس کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں جس کا علم صرف اللہ کو ہے مگر آج اللہ کے فضل اور مجاہدین کی قربانیوں کی بدولت جہاد کے احکام جو دفن کردیئے گئے تھے لوگوں کے سامنے آچکے ہیں فتاویٰ ،بحث ،تقریر ،مناظرہ کی صورت میں اور آج جبکہ یہ اپنی اصلی صورت میں جلوہ گر ہے تویہ صاحب’’وثیقہ‘‘ کسی بھی لحاظ سے اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
ثانی۔ دوسری خدمت جو مجاہدین نے سرانجام دی وہ یہ ہے کہ انہوں نے طاغوت مجرمین کو رسواکرکے رکھ دیا اور وہ جو لوگوں کو دھوکہ دیتے تھے کھول کر رکھ دیا اور ان کی اسلام دشمنی اور کفا رسے دوستی جیسی حرکات لوگوں کے سامنے واضح کی ہیں اور لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ جس طرح باقی کفار کے خلاف جہاد ضروری ہے ان کے خلاف بھی ضروری ہے اور یہ کہ ان کی ہم وطن ہم قوم اور ہم نام ہونے کے باوجود قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں چنانچہ ہر انصاف کرنے والا سمجھ لیتا ہے کہ ان حکام اور لوگوں میں بڑی دوریاں پیدا ہوچکی ہیں کیونکہ انہوں نے قوم کو رسوا کرنے اور شکست سے دوچار کرنے کو مدد وفتح کا نام دے دیا ہے اور یہ قوم سے انتقام لینے پر تلے ہوئے ہیں قوم سے ان کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قوم ان کی کرپشن ،جھوٹ ،دھوکہ دہی ،جھوٹے وعدے اور اسلام دشمنی سے واقف ہوچکی ہے ۔یہ تبدیلی زندگی کے مختلف شعبوں میں آچکی ہے اگرچہ اس کا تناسب ہر ملک میں جداجدا ہے بلکہ ایک ملک میں بھی مختلف تناسب ہے مگر یہ تبدیلی عام ہوچکی ہے چنانچہ طاغوت کو حقیقی خطرہ نظر آنے لگا ہے جو ان کو خوفزدہ کررہا ہے چنانچہ یہ ان کی عوامی مقبولیت کم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان سے علیحدگی اور دوری اختیار کرنے لگے ہیں چنانچہ ان کے امریکی سردار ان کا حقیقی متبادل تلاش کرنے لگے ہیں جن میں یہ دوباتیں جمع ہوں پہلی کہ قوم ان سے راضی ہو اور یہ ان کے مطالبات حقوق دیتے رہیں اور مغربی کفار کی آواز پر لبیک کہتے رہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے قیمتی وسائل ومعدنیات خصوصاً پٹرول وغیرہ اسی طرح لوٹتے رہیں ۔
ثالث۔ مجاہدین کی تیسری خدمت یہ ہے کہ انہوں نے الولاء والبراء (دوستی دشمنی)کا عقیدہ لوگوں میں راسخ کیا فریضہ جہاد سے اس عقیدہ کا سب سے زیادہ احیاء ہوا ہے کیونکہ یہ اسلامی عقائد میں اہم ترین عقیدہ بلکہ ایمان کی تکمیل کا باعث ہے اور اسی سے زمین پر تمکن حاصل ہوتا ہے جیسا کہ نبی uنے ارشاد فرمایا:’’جس نے اللہ کیلئے محبت کی اور اللہ کیلئے غصہ کیا اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے منع کیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ‘‘(ابوداؤد،طبرانی وغیرھما عن ابی امامۃ t)۔
رابع۔چوتھی صورت یہ ہے کہ انہوں نے مغربی کفار ممالک کی دعوت کی حقیقت لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے کہ ان کی آزادی ،مساوات مذہبی رواداری وغیرہ کی اصل حقیقت آشکارہ کی اور قرآن کی بیان کردہ رہنمائی بھی لوگوں کو بتائی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآء مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ، ہٰٓاَنْتُمْ اُوْلَآء تُحِبُّوْنَہُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ وَ اِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ ٰامَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۔(آل عمران:120-118)
’’اے ایمان والو! تم ایمان والوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی دوست نہ بنانا وہ تمہاری تباہی میں کوئی کسرنہیں چھوڑیں گے وہ چاہتے ہیں کہ تم تکلیف میں مبتلا ہو ان کی عداوت ان کی زبان سے بھی ظاہر ہوچکی ہے جو ان کے سینے میں پوشیدہ ہے وہ زیادہ ہے ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کردیں اگر تم عقل مند ہو ۔تم توانہیں چاہتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں رکھتے تم پوری کتاب کو مانتے ہو یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرارکرتے ہیں لیکن تنہائی میں غصہ کی وجہ سے انگلیاں چباتے ہیں کہدو اپنے غصہ میں مرجاؤ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے اگر تمہیں بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں تم اگر صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمہیں نقصان نہ دے گا اللہ نے ان کے اعمال کا احاطہ کررکھاہے ‘‘۔
انہوں نے اپنی بری زبانوں اور ہاتھوں کو پھیلادیا اور ا ن کی حکومتوں نے بے وقوفوں کو دین اسلام سے استہزاء اور دھوکہ دینے کی سند عطاء کردی اور اپنے طے کردہ بدترین اصول کے حصول کو مقصد بنالیا ان کی دھوکہ بازیاں بڑھ گئی تھیں او رلوگ اسلام کے بارے میں جو کہتے رہیں کوئی حکومت ان کو نہ روکتی تھی چاہے وہ اسلام کے کتنے مقدس اصول اور چیزوں کو پامال کردیں یہ توجہاد کی برکت سے اس چیز کا خاتمہ ممکن ہوا ہے یہ وہ حقیقت ہے جو لوگوں کو اب معلوم ہوئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ پر ڈٹ جانا اور سبیل المومنین کو سبیل المجرمین سے ممتاز حیثیت میں بیان کرنا ہی امت کی کامیابی کی راہ ہے ۔مجاہدین کی کاوشوں سے ہی یہ بات لوگوں کے سامنے واضح ہوئی کہ کفار اور دین دشمن لوگوں کی دشمنی نہ تو زمین کی وجہ سے ہے اورنہ مال اور سیاست کی وجہ سے ہے بلکہ ان کی دشمنی دین کی بناء پر ہے جس سے ان مجرمین نے لوگوں کو ایک زمانہ طویل سے غفلت او ردھوکہ میں رکھا کیونکہ وہ ان کی حقیقت کو نہ سمجھتے تھے بلکہ وہ اپنے جمہوری ڈیموکریسی نظام سے دھوکہ دیتے رہے جب ان طاغوتی قوتوں کو مکمل یقین ہوگیا کہ ہم نے ان لوگوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے تواپنے خودساختہ قوانین آہستہ آہستہ نافذ کرناشروع کردیئے اور ان کی آزادی فکر آہستہ آہستہ چھین لی پھر واضح طور پر اسلام دشمنی شروع کردی اور ایسے قوانین لاگو کئے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنا قیدی بنالیا اور جو دعوت دینے والوں کو قیدخانوں میں ڈال دیا ان کی یہ اسلام دشمنی ہر شخص کو سمجھ میں آگئی سوائے ان لوگوں کے جو انتہائی بے وقوف بے عقل ناسمجھ لوگ ہیں۔
خامس۔ پانچویں خدمت مجاہدین نے اپنے مضبوط عقیدے اور عمل سے بڑی بڑی سلطنتوں کے غرور خاک میں ملادیئے تب لوگوں کو پتہ لگا کہ یہ تو ریت کی دیوار تھی یہ امریکہ کل تک اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اہل مشرق اور اہل مغرب دم ہلاتے پھرتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ایسی قوت ہے جس کو زیر نہیں کیا جاسکتا مگر اب جبکہ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اس کی معیشت بظاہر مضبوط ہے مگر اس کی حیثیت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ آج کمزور ممالک نے بھی امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں کل تک اس کی فوج دنیا کی طاقت ور ترین سمجھی جاتی تھی مگر آج وہ جن ممالک میں داخل ہوئی وہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی پھررہی ہے مگر راستہ نہیں مل رہا مجاہدین کی کاوشوں سے آج امریکہ اورمغربی ممالک اس حالت کو پہنچے ہیں جہاں مجاہدین کی کاوشیں ہیں وہاں امریکہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے خود بھی تباہی وبربادی کے گڑھے میں گرپڑا ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تباہی کا حصہ دار بنادیاہے۔
سادس۔ چھٹی خدمت یہ ہے کہ مجاہدین نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کردی ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت وقوت ہے جس کے سامنے کھڑے ہونے کی کسی میں جراء ت نہیں ہے چاہے وہ بظاہر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ نظر آرہا ہو اور وہ ایمان کی اور یقین کی طاقت ہے اور یہ کہ اللہ ان کے ساتھ ہے کیونکہ تاریخ یہ ثابت کرچکی ہے کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتوں نے اپنے سے بڑی جماعتوں کو اپنے صبر اور ایمان کے ذریعے شکست سے دوچار کردیا یہی چیز آج مجاہدین نے ثابت کردی کہ میدان جہاد میں مدمقابل بڑی بڑی طاقتیں تھیں اور اس کے مقابلے میں مجاہدین کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود دشمن کے دانت کھٹے کردیئے اورمیدان بد ر کی یاد تازہ کردی جس میں اللہ نے یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ دین اللہ کا دین ہے اور اللہ کی مدد صرف مادی اسباب کے ساتھ ضروری نہیں ہے جیسا کہ فرمایا:
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(آل عمران :123)
’’اللہ نے تمہاری بدر میں مدد کی جبکہ تم کمزور تھے اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن سکو‘‘۔
اللہ کے دین کے دشمن کل بھی مادی وسائل پر اعتماد کرتے تھے آج بھی اسی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگر مجاہدین کا اعتماد ایمان اور صبر پر رہا ہے اور آج بھی کررہے ہیں جو کہ ان نام نہاد سلطنتوں میں مفقود ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدبیر وتوفیق سے ہی ممکن ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ.(انفال:8)
’’تاکہ اللہ حق کو سچ ثابت کردے اور باطل کو باطل ثابت کردے اگرچہ مجرمین اس سے کراہیت کریں‘‘۔
ساتویں۔ خدمت یہ ہے کہ انہوں نے جہاں کفار ومشرکین کو بدترین شکست سے دوچار کیا ساتھ ساتھ منافقین اور ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مختلف بیماریاں ہیں کو بھی ذلت ورسوائی سے دوچار کیا قرآن نے ایسے منافقین کی مختلف صفات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شکوک وشبہات پیداکرتے رہتے ہیں مجاہدین نے زندیقوں کے چہرے سے بھی نقاب اتاردی ہے جس سے وہ اب لوگوں کے سامنے بے نقاب ہوگئے ہیں وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں مصروف تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی بے نقاب ہوگئے جو سنی سنائی باتیں آگے نقل کرکے شبہات پیدا کررہے تھے چنانچہ جہاد کی یہی توخاصیت ہے کہ وہ منافقین اور مسلمانوں میں تمیز کرتا ہے جب جہاد کا علم بلند ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کون لبیک کہتا ہے او رکون معذرتیں پیش کرتا ہے اور ایسی جگہوں میں پناہ تلاش کرتاہے جہاں ان جیسے ہی لوگ ہوتے ہیں لہٰذا آج کے منافقین بھی قدیم منافقین کی زبان بول رہے ہیں جیساکہ اللہ واضح فرماتا ہے :
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا،وَاِذْ قَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ یٰٓاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَ مَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۔(احزاب:13)
’’اور جب منافقین کہہ رہے تھے اور وہ لوگ بھی جن کے دلوںمیں مرض ہے ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا ہے وہ دھوکہ ہے اورجب ان میں سے ایک جماعت نے کہا اے مدینہ والو تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے چلو واپس لوٹ جاؤ اور ان کی ایک جماعت اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں تھے لیکن ان کا پختہ ارادہ بھاگنے کا تھا‘‘۔
اور آج بھی آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو بظاہر تو نصیحت کرتے نظر آئیں گے مگر حقیقت میں وہ لوگوں کی ہمت توڑنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ۔نہ نکلو گرمی میں(توبہ:81)‘‘ان کی عادتیں قرآن میں بیان کردہ منافقین کی عادات کے عین مطابق ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَاِذَا جَآء الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اﷲُ اَعْمَالَہُمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرًا۔(احزاب:19)
’’تمہاری مدد میں بخیل ہیں پھر جب خوف کا موقع آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جمادیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں یہ ایمان لائے ہی نہیں ہیں اللہ نے ان کے تمام اعمال نابود کردیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے‘‘۔
آج بھی اسی قسم کے لوگ ظاہر ہوچکے ہیں اور لوگوں نے بھی ان کے خطرات محسوس کرنا شروع کردیئے ہیں اللہ ہم سب کو ان کے مکر وفریب تمام قسم کے شر وفساد اور گمراہی سے محفوظ رکھے ۔یہ وہ چند خدمات ہیں جو مجاہدین نے انجام دی ہیں اور اسی سے دین کی اقامت اور مضبوطی ممکن ہے اگر یہ جہادی کوششیں نہ ہوتی تو یہ سب ناممکن تھا اگر مسلمان’’وثیقۃ الترشید‘‘میں بیان کئے گئے قواعد وضوابط پر عمل کرناشروع کردیتے اور اپنے آپ کواسی میں مقید کرلیتے اور جہاد کی بجائے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے اور کمزور ثقافت کو جدید مفہوم دے کر اپنا لیتے تو اسلام پر ایسی مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوجاتیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر ’’وثیقۃ الترشید‘‘لکھنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی اس کو پھیلانے کا کسی میں شوق پیدا ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں یہ لوگ بڑے امن وامان سے رہ رہے ہوتے کیونکہ کوئی چیز ان کی زندگی میں رکاوٹ پیدا نہ کررہی ہوتی اور نہ ان کے غاصبانہ حکومت کو ہلارہا ہوتا لہٰذا انہیں جب کوئی پریشانی ہورہی ہوتی تو ’’وثیقۃ الترشید‘‘ جیسی نشہ آور چیزوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی مگر مجاہدین کی کوششوں نے امت میں برائیوں کے خلاف ہلچل مچادی جس کی وجہ سے ان کی پریشانیاں بڑھ گئیں جس کی بناء پر یہ نشہ کرنا پڑا۔
اقامت دین کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کردی جائے اگرچہ یہ اقامت دین کا تتمہ کہلائے گا مگر اقامت دین کے لئے کی جانے والی کوشش اور ہر عمل جو اس مقصد کے لئے کیاجائے وہ اقامت دین کا ہی حصہ کہلائے گا بلکہ کسی بھی عمل کا احیاء جس کا تعلق شریعت سے ہو یا جس کا شریعت نے حکم دیا ہو اور جس کے کرنے پر اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہو وہ بھی اقامت دین میں شمار کیا جائے گا اسی وجہ سے اقامت دین کا سب سے عظیم کام توحید کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ تمام انبیاء ورسل کی یہی دعوت تھی جیسا کہ ارشاد ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ اَﷲُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآء وَ یَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ۔(شوریٰ:13)
’’اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ وحی ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ ،عیسیٰ (o)کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلارہے ہیں وہ تو مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے ‘‘۔
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ‘‘یعنی تمہیں حکم دیاہے کہ تم دین کے تمام احکامات اصول ،فروع قائم کرو اور اس کی اقامت کے لئے جدوجہد کرو اورنیکی تقویٰ کے کام پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ وزیادتی پر تعاون نہ کرو’’ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ‘‘یعنی تاکہ تمہیں اصول دین اور اس کے فروع پر اتفاق حاصل ہوجائے اور مسائل میں تفرقہ بازی سے گریز کرو تاکہ تم ایک دوسرے کے دشمن نہ بن جاؤ اصل دین پر اتفاق کے بعد۔اور دین ہر اجتماع اور عدم تفریق کی مختلف قسمیں ہیں پہلی وہ جس کا شارع نے اجتماع کا حکم دیا جیسا کہ حج ،عید ین کے اجتماعات پانچ نمازوں کا اجتماع ،جہاد کا اجتماع وغیرہ یہ وہ عبادات ہیں جن میں جمع ہوئے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔(تفسیر السعدی:754/1)
قال المرشدصاحب ’’وثیقہ‘‘ کہتا ہے:’’مخالفت کے مختلف درجات ہیں پس جو اپنی خواہش کو اپنے رب کے حکم پر مقدم کرلے چھوٹے معاملات میں تو ایسا شخص مرتکب صغیرہ (چھوٹے گناہوں کا مرتکب) کہلائے گا جن کو عصیان کہا جاتا ہے ۔اور جو اپنی خواہش بڑے معاملات میں اپنے رب کے حکم پر مقدم کرے تو یہ مرتکب کبیرہ کہلائے گا جس کو (فسق)کہا جاتا ہے اور جو اپنی خواہش عظیم معاملات میں اپنے رب کے حکم پر مقدم کرے تو یہ کفر ہے ‘‘۔
اگرچہ یہ اجمالی کلام ہے اور اس میں تفصیل سے شرعی دلائل کی ضرورت ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ واقعی اللہ کے احکامات کی مخالفت کے مختلف درجات ہیں مگر یہ مجرم حکومتیں کس درجہ میں شامل ہیں جنہوں نے اللہ کی شریعت کی مخالفت میں حد کردی اجمالاً اور تفصیلاً بھی ۔جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان ڈکٹیٹر حکومتوں نے ’’وثیقہ‘‘ کو شائع صرف اس لئے کرایا تاکہ مجاہدین جو حق کی دعوت دیتے ہیں ان کو باندھا جاسکے اور انہوں نے شریعت کے اصول ،فروع کو توڑا اور دین کی مدد کرنے والوں کوسزائیں دیں اور دعوت دین کی تمام راہیں بند کرنے کی کوشش کی اور اپنی خواہشات کو رب تعالیٰ کے احکامات پر مقدم سمجھتے ہوئے اس کی تکمیل کی تمام معاملات میں یہی طرز اپنایا خواہشات میں سیاست رائے میں غرض چھوٹے معاملات میں اور بڑے معاملات میں بھی رب کی نافرمانی کی تو ان کایہ طرز عمل کیا انہیں کفر میں مبتلا نہیں کررہا اور اب یہ ڈکٹیٹر حکومت کہلانے کے ساتھ ساتھ کافر اور مرتد حکومت نہیں کہلائے گی؟؟ خاص طور پر جبکہ انہوں نے لوگوں کو غیر شرعی امور کی اطاعت پر مجبور کردیا ہے اور لوگوں کو غیر اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کردی ہے اور وہ دین جس کی طرف وہ دعوت دے رہے ہیں یہ ہیں ڈیموکریسی جمہوریت ،وطنیت ،قومیت،لادینی سیکولر نظام جس نے بھی ان کی مخالفت کی کوشش کی ان کے خلاف جنگ شروع کردی اور جن لوگوں نے ان کی دعوت قبول نہ کی انہیں دھتکار دیا خاص طور پر مصری حکومت جو دراصل فرعون کے وارث ہیں اورانہوں نے ان ہی کے طرز وانداز کو اپنایا اور اس کو مضبوط کیا اور یہ کفر اور دین کے خلاف جنگ کرنے میں تمام حکومتوں سے آگے بڑھ گئی ہے اور اپنے احکامات کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دینے ،شریعت محمدی کی مخالفت میں ،مومنین کو تکالیف پہنچانے میں سب سے آگے ہے صاحب’’وثیقہ‘‘ نے جو شیخ الاسلام کے قول سے اشتہاد کیا ہے وہ قول سب سے زیادہ مصری حکومت پر منطبق ہوتا ہے وہ یہ قول ہے ’’یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ اس پر مسلمانوں کے دین کا اور مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جو دین اسلام کو چھوڑ کر اور دین اختیار کرتا ہے یا کوئی کسی کو دین اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے یا شریعت محمدیہ کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع کرتا ہے تو وہ کافر ہے او رو ہ اس طرح کافر ہے جیسے کوئی کتاب کے بعض حصے پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے ‘‘۔(مجموع الفتاوی:524/28)
یہ مصری حکومت اور اس کے علاوہ شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرنے والی حکومتیں مرشد کے اس قول کے بموجب کہ (شریعت کے مطابق فیصلے کرنا تمام مسلمانوں پر ایمان کے تقاضوں کے مطابق واجب ہے اس کے ترک پر گناہ گار ہے اور اس کا ایمان ختم ہوجاتا ہے ،لہٰذا یہ حکومت بھی گناہ گارہے اور اس کا ایمان ختم ہوچکا ہے۔اگرچہ صاحب ترشید اپنی دوسری کتاب ’’الجامع فی طلب العلم الشریف‘‘میں وہ یہ اقرار کرچکے ہیں کہ کسی ایک فیصلے میں بھی اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر غیر اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا کفر ہے ۔ اس حکومت نے مکمل طو ر پر شریعت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اپنی رائے ۔اور کم عقلی کی اتباع کی اور لوگوں کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ شریعت سے دور رہیں اور باطل نظام کی اتباع کریں اور اس حکومت کی فوج نے بھی حکومت کا اس معاملے میں مکمل ساتھ دیا ان کے نشر واشاعت کے اداروں نے اس چیز کو قابل تحسین قرار دیکر اس کی دعوت دینی شروع کردی اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو ان کے سیکورٹی اداروں نے کچل دینے کی پالیسی اپنائی آج کوئی مسلمان کسی بھی ملک یا شہر میں جس کے بارے میں وہ گمان کرتا ہے کہ یہ اسلامی ملک ہے اپنے وہ حقوق حاصل نہیں کرسکتا جو اسے شریعت نے دیئے ہیں اور اگر ظلم ہوجائے تو شریعت کے مطابق انصاف کو سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ اسے لوگوں کے خودساختہ قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب چاہے حقوق ملیں یا کچھ ملیں یا بالکل نہ مل سکیں یہ سب سے بڑا شر ہے اوربڑا فساد ہے او ریہی سب سے بڑی مصیبت ہے اور اس طاغوت حکومت ،فوج ،ان کے قوانین اور ان کے اداروں نے لوگوں کے دین اور دنیا کا بہت خوب نقصان کیا ہے اسی وجہ سے شیخ عبدالقادر نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ زندہ طاغوت مردہ طاغوتوں سے زیادہ خطرناک ہیں او رمزید کہامیں نے جس بات پر تنبیہ کی ہے اس کی اہمیت یہ ہے کہ زندہ طاغوتوں کافساد لوگوں کے دین کو برباد کردے کبھی انہیں مرتد کرکے کبھی دین سے بے رغبت کرکے اورکبھی مکر اوردھوکے سے یہ وہ فساد ہے کہ مردہ طاغوت کے بارے میں یہ خطرہ نہیں ہوتا۔لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل علم ودین کہلواتے ہیں اور مذہب سلف کے اپنے آپ کو پیروکار سمجھتے ہیں او راپنے قلم کو مردہ طاغوتوں کے خلاف لکھنے میں مصروف کررکھا ہے مگر زندہ طاغوت کے بارے میں خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہو کہ ایک طرف تو وہ مردہ طاغوت کے خلاف لکھنے میں مصروف ہیںدوسری طرف خود کفریہ جمہوری نظام اور قوانین کے مطابق زندگی بس کررہے ہیں اور اس کافرانہ نظام سے تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اس کی خرابیوں سے صرفِ نظر کیاہوا ہے یہ عجیب دوہرا معیار ہے اللہ فرماتا ہے :
وَ اِذْ یَعِدُکُمُ اﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ وَ یُرِیْدُ اﷲُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ.(انفال:7)
’’اور(اے مسلمانوں!وہ وقت یاد کرو)جب اﷲتم دوجماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتاتھا کہ وہ تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ بے لڑے تمہیں مل جائے اور اﷲچاہتا ہے کہ حق کواپنی باتوں سے ثابت کردے اورکافروں کی جڑکاٹ دے ‘‘
اس پر غور کرو توبعض ان اسباب کے بارے میں ہمیں علم ہوجائے گا جن کی وجہ سے آج ہم تکلیف ومشقت میں مبتلا ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آج ہمارا دین وعلم محفوظ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی ہمارا دین محفوظ ہے مگر جو اس باطل نظام کو قبول کرچکا ہو اور اس پر راضی ہو تو اس کو کیا کہیں گے اور جو اس طاغوت پرشریعت کا اطلاق کرے اس کو کیا نام دیا جائے گااگر کوئی جہاد کے بارے میں بات کرتا ہے تو یہ فلسطین اور افغانستان کے جہاد کی باتیں تو کرتے ہیں جبکہ مرتد حاکموں کے خلاف کیے جانے والاجہاد فلسطین اور افغان جہاد سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہود بھی دشمن ہیں اور یہ بھی دین کے دشمن ہیں جو مسلمان ممالک میں گھس آئے ہیں مگر مرتد حکام کے خلاف جہاد دووجوہات کی بناء پر یہود کے خلاف جہاد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ قریب ہیں اور مرتد ہیں اور یہ دواسباب ایسے ہیں کہ پہلے ان کے خلاف جہاد کیا جائے جیسا کہ یہ بات بھی واضح ہے کہ جو افغانستان اور فلسطین میں جہاد کررہے ہیں ان کو ہیرو اور شہید کہا جاتا ہے اور ان پر مال ودولت کی بارش کردی جاتی ہے اور کوئی اگر ان کے علاوہ جگہوں پر جہادکرے تو وہ مجرم اورغدار شریعت کا مخالف قرار دیا جاتا ہے ۔(العمدۃ فی اعداد العدۃ : 354)
میں کہتا ہوں :بلکہ آج جو لوگ افغانستان اور فلسطین میں قتل ہورہے ہیں وہ بھی شہید کا لقب نہیں پارہے بلکہ انہیں مجرمین اور غداروں کے زمرہ میں شامل کیا جارہاہے اورانہیں شریعت کامخالف قرار گردانا جاتا ہے وہ شریعت جس کو امریکا نے وضع کیاہے اور جس کی وہ دعوت دے رہا ہے اور جس کی پشت پناہی ڈکٹیٹر طاغوت عرب ممالک کررہے ہیں کتنی عاجزی کے دن آچکے ہیں ؟
مرشد کہتا ہے کہ :’’یہ جلیل القدر مقام جہاد کا مقام ہے بے شک مسلمان کی اپنے رب کے لئے عبودیت محقق ہوتی ہے جب وہ اپنے رب کی مراد اپنی مراد پر مقدم کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ مسلمان پہچان کرے ان واجبات کی جو اس پر اللہ نے اس وقت واجب کئے اور اپنی استطاعت کے مطابق تو وہ جتنا اس کے مطابق چلے گا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا اور جس سے عاجز رہے گا اس کا گناہ اس سے ساقط رہے گا ‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ آج مسلمان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اللہ کے واجبات کی پہچان کرے مگر حکم جہاد کی پہچان کو نہ تو ہم نوافل قرار دے سکتے ہیں اور نہ اعمال کی تکمیل کا ذریعہ بلکہ اس کی حیثیت آج واجبات میں سب سے زیادہ واجب کی ہے کیونکہ اس زمانے میں جہاد فرض ہوچکا ہے جیسا کہ ساری امت کے تمام علماء نے یہی فتویٰ دیا ہے جہاد کی پہچان اور اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور حکم جہاد کی نشر واشاعت اوراس کی لوگوں کو تاکید کرنا اس کو زندہ کرنے کا علماً وعملاً پہلا قدم ہے اور یہی اولی الالباب والنہی علماء صادقین کی اہم ترین ذمہ داری ہے جو اللہ کے پیغام کو پہنچارہے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتے اگرچہ یہ آسان معاملہ نہیں ہے اورنہ ہی یہ معمولی کام ہے کیونکہ سب سے پہلے ان کا پالا ان کفر کے آئمہ اور مرتد حکام سے اور ان کے معانین سے پڑے گا اور ان کے اعصاب جتنے جہاد جیسی عبادت سے لرزتے ہیں اتنے کسی اور سے نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جہادسے سب سے پہلے ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا پھر دوسروں کا ہوگا جیسا کہ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔‘‘(ابوداؤد ،ترمذی،ابن ماجہ)
بلکہ جن لوگوں نے آپ ﷺکے سامنے جہاد میں جانے سے عذر پیش کیا تو آپ ﷺنے ا نکے لئے یہ شرط عائد کی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں جس شخص پر جہاد بالنفس اور جہاد بالمال ساقط ہوجاتا ہے تواس پر جہاد باللسان (زبانی جہاد)واجب رہتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآء وَ لَا عَلَی الْمَرْضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَ اﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(توبۃ:91)
’’کمزور بیماروں اور ان لوگوں پر جو خرچ کرنے کے لئے مال نہیںپاتے کوئی حرج نہیں جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں محسنین کے خلاف کوئی (عیب کی )راہ نہیں ہے اور اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’:نصیحت کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ اگر کوئی فساد کی نیت سے پیچھے رہتا ہے تو اس کی مذمت ہوجائے اور یہ نصیحت اللہ سے مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلائی گئی اور آپس میں اصلاح اور ان تمام کاموں کی جس سے دین میں استقامت آتی ہے‘‘ ۔(زادالمسیر:218/3)
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ان لوگو ں پر کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں یعنی وہ اپنے ایمان میں سچے رہیں اور نیت یہ رکھیں اگر قدرت ہوئی توجہاد ضرور کریں گے مگر جس چیز کی قدرت رکھتے ہیں یعنی لوگوں کو جہاد کی رغبت دلانا تو وہ کرتے رہیں گے ‘‘۔(تفسیر السعدی:347/1)
انس tسے روایت ہے کہ نبی uنے فرمایا:’’مشرکین کے خلاف اپنے مال ،جان،زبانوں سے جہاد کرو‘‘۔(احمد،ابوداؤد،نسائی،حاکم)
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدہ نونیہ میں فرمایا۔’’یہ دین کی مددکرنا فرض اور لازم ہے نہ کہ فرض کفایہ بلکہ تمام لوگوں پر ورنہ اگر عاجز آجائے تو زبان سے اور اگر اس سے بھی اماموں کو جہاد پر متوجہ کرے اور دل سے دعا کرے ‘‘۔
شیخ عبدالقادر بن عبدالعزیز نے اپنی کتاب العمدۃ میں ان لوگوں کے لئے جو جہاد میں جانے سے معذور ہیں ان کے لئے جہاد کی سات ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں آخر میں انہوں نے فرمایا’’ان صورتوں میں تم نے دیکھا کہ ان لوگوں کے لئے جو جہاد میں جانے سے معذور ہیں ایسی صورتیں ہیں جس سے جہاد کو فائدہ پہنچتا ہے مثلاً دعاکرنا،مال خرچ کرنا ،لوگوں کو جہاد کی دعوت دینا اور مومنین کو قتال کی رغبت دلانا ،مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا ،یہ تمام چیزیں واجب ہیں ان لوگوں پر جو عذر کی بناء پر جہاد میں جانے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کے حرج کو مشروط اٹھالیاگیا جیسا کہ اللہ فرماتا ہے’’ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ‘‘جب وہ نصیحت کریں اللہ اور اس کے رسول کے لئے محسنین کے خلاف کوئی سبیل نہیں ‘‘۔
مسلمانوں پر آج سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی مراد پر اللہ کی مراد کو مقدم سمجھے وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جہاد کی رغبت دلائے اور جہاد کی دعوت دے اور مجاہدین کے لئے دعاکرے اور جہاد کی ادائیگی کرے اپنے مال،زبان ،اپنی جان کے ذریعے اپنی استطاعت کے مطابق اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس سے جہادشرعی اسباب کی بناء پر ساقط ہوگیا ہے پھر بھی وہ جہاد کے میدانوں میں چلاجاتا ہے تو اس کو اس کی خلوص نیت پر اجر ضرور ملے گا اگر وہ مجاہدین پر بوجھ نہ بنے دین نے جس چیز کی معذور سے نفی کی ہے وہ گناہ اور حرج کی ہے مگرمرتبہ اور فضیلت حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔مگر اس صاحب ال’’وثیقہ‘‘ نے یہ مہم چلانی شروع کردی کہ مسلمان جہادی فریضہ کی ادائیگی سے معذور ہیں اور وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ بڑا پر مشقت کام ہے اگر وہ اسے نصیحت سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ یہ نصیحتیں قوم کوبزدل بنارہی ہیں بلکہ رسوائی کاباعث بن رہی ہیں اور اس کے ذریعے باطل کو حق میں خلط ملط کیا جارہا ہے ۔عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا شخص تھے اگرچہ وہ جہاد میں جانے سے معذور تھے پھر بھی جہاد کے لئے نکلتے تھے قادسیہ والے دن جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ شہادت حاصل ہوجائے مگر انہوں نے اپنے عذر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے جہاد کی طرف نکلنے کو ترجیح دی اور صحابہ میں سے کسی نے ان کے اس عمل پر ہرگز نہیں ٹوکا بلکہ ان کے اس عمل کو ان کی فضیلت میں بیان کیا حالانکہ جہاد ان کے لئے فرض کفایہ تھا مگر انہوں نے پھر بھی عذر کے باوجود جہاد میں شمولیت کو ترجیح دی کیونکہ وہ اس کی افضیلت واہمیت سے واقف تھے ۔ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے ۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت ’’لایستوی القاعدون من المومنین والمجاھدون فی سبیل اﷲ‘‘یعنی بیٹھے مومنین میں اور جہادمیں جانے والے برابر نہیں ہیں۔ اتریں تو عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے کہا یا اللہ میرے عذر پر آیت نازل فرمادے تو اللہ نے یہ الفاظ نازل کئے غیر اولی الضررسوائے ان لوگوں کے جن کو کوئی تکلیف ہے ۔میں نے درمیانی راہ نکالی چنانچہ وہ غزوات میں شریک ہوتے اور کہتے کہ مجھے عَلَم (جھنڈا)پکڑا دو میں نابینا ہوں اور میں فرار ہونے کی استطاعت نہیں رکھتا اور مجھے دونوں لشکروں کے درمیان کھڑا کردو۔(الطبقات الکبری)
رازی اس آیت مذکورہ کی تفسیرمیں کہتے ہیں :’’مراد یہ ہے کہ ان کے لئے جہاد سے پیچھے رہنا جائز ہے اور کسی آیت میں یہ نہیں ہے کہ ان پر نکلنا حرام تھا اگر کوئی ان میں سے مجاہدین کی مدد کے لئے نکلا سامان کی حفاظت کے لئے یا اس لئے کہ ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوبشرطیکہ وہ مجاہدین کے اوپروبال اور بوجھ نہ بن جائے تو یہ عمل اس کے لئے اطاعت گزاری کا سبب اورمقبولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔(تفسیر رازی:119/8)
لہٰذا مرشد کا یہ کہنا کہ’’اس کے لئے ثواب ہے جتنا وہ اس پر قائم رہے گا اور اس سے عاجزی کا گناہ ساقط ہوجائے گا‘‘۔
گناہ ساقط ہونے کا کہنا خاص طور پرجہا د کے لئے درست نہیں ہے کیونکہ عاجزی کبھی کوتاہی سستی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں گناہ ساقط نہیں ہوگا جیسا کہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ نے اس جانب اشارہ تک نہیں کیا کیونکہ اس کا مقصد فرضیت جہاد کی اہمیت کو کم کرنا تھا حالانکہ صحیح بات یہ تھی جو ان کو کہنی چاہیے تھی کہ اس کا گناہ اس کی عاجزی کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اپنی عاجزی کو زائل کرنے کی کوشش کرتا رہے یا یہ عاجزی سستی کوتاہی کے نتیجے میں نہ ہو لیکن اگر کوئی یہ دیکھتاہے کہ مسلمانوں کے گھر چھینے جارہے ہیں احکام شریعت معطل کیے جارہے ہیں اور کفار کی جیلیں مسلمانوں سے بھری جارہی ہیں اور مسلمان خواتین کی عزت رات دن کھلم کھلا پاما ل کی جارہی ہیں مسلمانوں کامال لوٹا جارہا ہے اورمسلمانوں کے دشمنوں کو مضبوط کیا جارہاہے او رپھر بھی وہ شخص دنیاوی امور میں مشغول رہے گویا اسلامی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے بعد وہ ٹیک لگاکر کہے ہم تو عاجز ہیں کمزور ہیں ہم پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ہم پر جہاد میں حصہ نہ لینے پر کوئی حرج نہیں ہے اور وہ کوئی حقیقی جدوجہد بھی نہ کرے تاکہ اس کی عاجزی دور ہوجائے اور وہ کمزوری نکل جائے تو یہ نفاق کی علامات ہیں گناہوں کے ساقط ہونے کی علامات واسباب نہیں ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّ ٰلکِنْ کَرِہَ اﷲُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ۔(توبۃ:46)
’’اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ نے بھی ان کے جانے کو ناپسند کیاانہیں بزدل کردیا اور کہا گیا بیٹھ جاؤ بیٹھنے والوں کے ساتھ ‘‘۔
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اللہ فرمارہاہے کہ منافقین میں سے جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی حالت سے ظاہر ہورہاہے کہ ان کانکلنے کا ارادہ تھاہی نہیں اور انہوں نے جو عذر پیش کیا وہ باطل تھا کیونکہ عذر تب مقبول ہوتا ہے جب وہ تمام کوششیں کرے مگرکسی شرعی مانع کی بناء پر نہ نکل سکے مگر ان منافقین کا اگر نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کی تیاری کرتے اور وہ ممکنہ اسباب تیار کرتے مگر چونکہ انہوں نے یہ کچھ نہیں کیا توپتہ چلا ان کا نکلنے کا ارادہ تھا ہی نہیں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ نہ تو اس نے غزوہ کیا اورنہ اس نے دل میں اس کاارادہ کیا تو ایسا شخص نفاق کے ایک شعبہ پر مرا‘‘۔(احمد،مسلم،ابوداؤد، نسائی)
دل میں جہاد کے خیال وارادہ سے مقصود یہ نہیں کہ اچانک جہاد کا سوچ لیا یا کچھ لوگوں کے سامنے خواہش کا اظہارکردیا مقصد یہ ہے کہ اگر دل میں خیال آیا تو اس کی تیاری بھی شروع کردی اس کے لئے تگ ودو شروع کردی تواس زجر سے بچ سکتا ہے او رمنافقین میں شامل ہونے سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے جہاد کا پختہ عزم نہیں کیا اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ یہ کہے اے کاش میں مجاہد ہوتا ۔یہ بھی کہا گیا کہ اس کا معنی ہے کہ اس نے نکلنے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ اس کی علامات اس میں ظاہر نہیں ہوئیں او رعلامات تیاری ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے’’وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃ‘‘اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کی کچھ تیاری کرتے ۔اور اس قول کی تائید آپ eکے اس فرمان ’’مات علی شعبۃ من النفاق‘‘سے بھی ہوتی ہے یعنی نفاق کی ایک قسم پر مرا یعنی یہ منافقین کے مشابہ ہوگیا کیونکہ وہ بھی جہاد سے پیچھے رہے اور جو جن کی مشابہت کرتا ہے اس کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے ‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح : 346/7)
لہٰذا جہاد کی تیاری کرنا ہر صورت میں ضروری اور واجب ہے عاجزی کے وقت فرضیت کی سقوط کا حکم بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے پس جو واجب چیز جس چیز سے مکمل ہوتی ہو تووہ چیز بھی واجب ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے اس کا مستقل حکم دیا ہے :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ ٰاخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اَﷲُ یَعْلَمُہُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.(انفال:60)
’’اوران کے لئے جتنی تمہاری استطاعت ہے تیاری کرو یعنی قوت کی اور گھوڑے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کوخوف زدہ کرسکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جانتا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا‘‘۔
آج مسلمانوں پر دشمن کا تسلط کا بڑھنا اور مسلمانوں کا ذلت میں پڑنا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس عبادت کو چھوڑدیا اور اس واجب سے غفلت اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی ہیبت ختم ہوگئی ان کی طاقت کمزور پڑگئی اور آج یہ کمزوری پر قانع ہوکر بیٹھ گئے او رمسلمانوں کی اکثریت نے یہ سمجھ لیا کہ تمام مشکلات ختم ہوگئیں ہیں اور بعض لوگ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں ان میں اصحاب ’’وثیقہ‘‘ بھی شامل ہیں جو مسلمانوں میں ایسی تہذیب رائج کرنا چاہتے ہیں جو انتہائی کمزور ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے ایسی دوائیں تجویز کررہے ہیں جن کو استعمال کرکے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ۔’’اگرچہ ان لوگوں کو ولی بنانا جو اس کے اہل نہیں ہیں ضرورت کے وقت جائز ہے جبکہ اس میں زیادہ صالحیت ہوتو ایسی صورت میں اصلاح احوال کی سعی کرنا واجب ہوتی ہے جب تک امور ولایت اور امارات لوگوں میں مکمل ہوجائیں جیسا کہ تنگی کی حالت میں بھی دین کے احکامات پورے کرنا ضروری ہوتے ہیں اگر اس کی یہ حالت ہے کہ اس سے اس قدر مطلوب ہے جس قدر وہ قدرت رکھتا ہے اور جس طرح جہاد کے لئے اپنی قوت بڑھانا گھوڑوں کو تیار رکھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ عاجزی کی وجہ سے نہ کرنے پر گناہ ساقط ہواس لئے کہ اگر کوئی واجب جس چیز سے مکمل ہوتی ہے وہ بھی واجب ہوتی ہے بخلاف حج کی استطاعت حاصل کرنا اس لئے کہ یہ وہ امورہیں جن کا حصول ہی واجب ہے‘‘۔(مجموع الفتاوی : 259/28)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
علامہ سعدی فرماتے ہیں کہ ۔’’(اَعِدُّوْا)یعنی تم اپنے کفار دشمنوں کے خلاف تیاری کرو جو تمہیں ہلاک کرنے اور تمہارے دین کو باطل کرنے میں کوشاں ہیں (مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ)یعنی ہر اس طرح سے تیاری کرو جس کی تم قدرت رکھتے ہو یعنی طاقت عقلی ،بدنی اور اسلحہ کی تمام اقسام کے لحاظ سے تیاری کرو اس میں ہر قسم کے اسلحہ سازی کی صنعت اور ٹیکنالوجی کا حصول شامل ہے مثلاً ہر قسم کا اسلحہ بنانا دفاعی آلات تیار کرنا ،گولہ بارود بنانا ،مختلف گنیں تیار کرنا ہوائی اور بحری جہاز تیار کرنا قلعے ،خندقیں دفاعی آلات کے ساتھ ساتھ ایسی سیاست اختیار کرنا جس سے مسلم امہ آگے بڑھے اور دشمن کے شر اور فساد سے دفاع ہوجائے ۔اسی بناء پر نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’الا ان القوۃ الرمی‘‘خبردار طاقت تیر اندازی میں ہے اور اسی میں اس سواریوں کا انتظام اور تیاری بھی شامل ہے جس کی قتال میں ضرورت پڑتی ہے اسی بناء پر اللہ فرماتا ہے (وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ )اور گھوڑے تیار کرنا جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوف زدہ کرسکویہ علت اس زمانے میں موجود ہے یعنی دشمن کو ڈرانا خوف زدہ کرنا اور حکم کا دارومدار علت پر ہے لہٰذا جس چیز سے دشمن جتنا خوف زدہ ہوسکتا ہے اس کا حصول اتنا ہی ضروری ہے اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب ہمارے پاس اس کی صنعت وٹیکنالوجی ہوگی لہٰذا اس کا سیکھنا اور ٹیکنالوجی کا حصول بھی واجب ہے کیونکہ یہ مقصد کے حصول کا ذریعہ ہے ‘‘۔(تفسیر عدی:324/1)
بلکہ شیخ عبدالقادر بن عبدالعزیز نے خود کہا کہ یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہاد کا قیام کیسے ممکن ہے جبکہ آج ہم انتہائی کمزور اور قوت متفرق ہے اور تدبیر کی قلت ہے تواس کا جواب اللہ کے اس فرمان میں موجودہے :
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔(انفال:46)
’’اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور آپس میں تنازع نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا نکل جائے گی (لہٰذا )صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔
اور اس فرمان میں بھی :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃ۔
’’(کفار)کے خلاف قدر استطاعت قوت تیار کرو‘‘۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ۔’جس طرح جہاد کے لئے اپنی قوت اور گھوڑے تیار کرنا ضروری ہے عاجزی کے وقت کیونکہ جو واجب کے حصول کا ذریعہ ہے وہ بھی واجب ہے چنانچہ سابقہ سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاد کو قائم کرنے کے لئے اس کی تیاری ضروری ہے اور اس تیاری کو اللہ نے مومن اور منافق میں فرق قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا:
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّ ٰلکِنْ کَرِہَ اﷲُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ۔(توبۃ:46)
’’اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کے لئے کچھ نہ کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ نے ان کے جانے کو ناپسند کیا اور انہیں بزدل بوجھل کردیا اور کہا گیا بیٹھ جاؤ بیٹھنے والوں کے ساتھ ‘‘۔(العمدۃ فی اعداد العدۃ:5)
ان تمام باتوں کا مقصد یہ ہے کہ آج جتنے لوگ بھی جہاد جیسی عبادت کو قائم کرنے سے عاجز ہیں یا تو ان کا عذر شرعی ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے ۔توایسے لوگوں کے لئے جن کے پاس عذر شرعی ہے ضروری ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کریں تاکہ اس عبادت نہ کرنے پر گناہ ساقط ہوجائے یا لوگوں کی سستی وکاہلی عدم دلچسپی کی بناء پر اس فریضہ کی ادائیگی نہیں ہورہی تو ایسے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اس عاجزی کو دور کرنے کے لئے جدوجہد کریں تاکہ پوری امت سے ذلت ورسوائی دور ہوسکے تاکہ گناہ بھی دو رہوجائے اگر مسلمانوں میں سے کوئی ایک شخص اس فریضہ کو ادا کرنے کھڑا ہوجائے جو اس پر واجب ہے یعنی ان امور کو ادا کرنے کے لئے جس کا تعلق امور جہاد سے ہے یعنی لوگوں کوجہاد کی رغبت دلانا ،جہاد کے لئے تیار کرنا ،جہادیوں کی مدد کرنا اور کفار کوقتل کرنا اور لوگوں کو اس کی دعوت دینا مجاہد قیدیوں کی حفاظت کرنااورمہاجرین کی مدد کرنا کفار کو رسوا کرنا وغیرہ توپھر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امت آج عاجز ہے جب ایک شخص یہ کام کرسکتا ہے تو پوری امت بدرجہ اولیٰ کرسکتی ہے کیونکہ آج عاجزی کا دعویٰ کرکے جہاد کے اسقاط کا حکم لگانا باطل ہے لہٰذا اے اللہ کے بندو فیصلہ کرو آپ کن کے ساتھ ہو کیا ان لوگوں کے ساتھ جو فرض کی ادائیگی کے لئے جدوجہد کررہے ہیں یا ان لوگوں کے ساتھ جنہوں نے ذلت کو قبول کرلیا ہے؟لہٰذا ایسا جواب تلاش کرو جس کادنیا وآخرت دونوں میں فائدہ ہو اور کسی ایسے شخص کے قول پر اعتماد نہ کرو جو یہ کہتا ہو’’فلہ ثواب ما قام الخ‘‘ا س کو اس قدر ثواب ملے گا جتنا وہ عمل کرے گا اور ساقط ہوجائے گا گناہ عاجزی کا ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں

صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ


علم اور جہاد

جہاں بہت سارے معاملات میں اپنی طرف سے خلط ملط خیالات داخل کردیئے گئے وہاں یہ بات بھی عوام میں مشہور کردی گئی ہے کہ جہاد اور علم دونوں ایک دوسرے سے جدا امور ہیں جہاں جہاد ہوگا وہاں علم نہیں ہوگا اور جہاں علم ہوگا وہاں جہاد نہیں ہوگا۔افسوس کا مقام ہے کہ اس وہم اور غلط سوچ کی وجہ سے بہت سے علماء جہاد سے دور ہوگئے ورنہ علم جہاد ہمیشہ علماء کے ہاتھ میں رہا ہے مگر آج فرض عین اور فرض کفایہ کی بحث نے جہاد کو بھی متاثر کردیا ہے جبکہ نبی علیہ السلام خود بنفسہ جہا د کے لئے نکلے تھے اور آپ ﷺے پیچھے پیچھے اجلاء کبار علماء وصحابہ yہوا کرتے تھے اور آپ کی قیادت میں جہادجیسی عبادت کی ادائیگی فرماتے تھے اور آپ eسے علم اور فقہ فی الدین بھی حاصل کرتے رہتے تھے انہیں دینی تعلیم کے حصول سے کسی چیزنے روکا نہیں یہ سلسلہ خلفاء راشدین کے دور تک چلتا رہا ان کے زمانے میں بھی قراء کرام جہادی لشکر کے امیر مقرر ہوا کرتے تھے چنانچہ وہ جہاد بھی کرتے اور لوگوں کو جہا دکی رغبت بھی دلاتے اور لوگوں کو تعلیم بھی دیا کرتے تھے مگر انہیں کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں آیا کہ علم کی نشرواشاعت اور جہاد میں تعارض اور تناقض (اختلاف)ہے یہی وجہ ہے کہ ان میں سے کسی ایک نے بھی اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کا بہانہ بناکر جہاد سے دوری نہیں اختیا رکی حالانکہ ان کے زمانے میں جہاد فرض کفایہ تھا مگر علماء امت جہاد کے لئے نکلنے کے بڑے حریص تھے کہیں ان پر وعید شدید صادق نہ آجائے ابوطلحہ tنے سورۃ براء ت پڑھی جب وہ اس آیت پر پہنچے ( اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ۔(توبۃ:41))تم ہلکے ہو اور ثقیل ہو نکلو اور جہاد کرو اپنے مالوں اور جان سے اللہ کی راہ میں ۔توکہنے لگے میرا خیال ہے کہ ہمارارب نوجوانوں اور بوڑھوں کو جہاد کے لئے نکلنے کا حکم دے رہا ہے اے میرے بیٹومیری تیاری کردو تو ان کے بیٹوں نے کہا یرحمک اللہ آپ نے نبی علیہ السلام کے ساتھ غزوہ کیاہے ان کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پھر عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جہاد میں حصہ لیا آج ہم آپ کی طرف سے جہاد میں حصہ لے رہے ہیں مگر انہوں نے انکار کردیا سمند ر میں سوار ہوئے فوت ہوگئے لوگوں کو دفن کرنے کے لئے نو دن بعد جزیرہ ملا نو دنوں تک ان کی نعش خراب نہیں ہوئی نویں دن ان کی تدفین ہوئی ۔(ابن کثیر:156/4)
ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ جلیل القدر صحابی ہیں یمامہ والے دن جبکہ لڑائی کی آگ شدت پکڑ گئی تو آواز لگاتے ہیں (اے اہل قرآن قرآن کو اپنے عمل سے مزین کرو)اور تاریخ اس بات سے بھری پڑی ہے کہ علما ء نے جہاد میں کتنی خدمات سرانجام دی ہیں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا:
لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَ اَنْزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَ الْمِیزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَ اَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِیَعْلَمَ اﷲُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَ رُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ اِنَّ اﷲَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ۔(حدید:25)
’’ہم نے اپنے رسول واضح احکامات دے کر بھیجے ان کے ساتھ کتاب اور میزان بھیجا تاکہ لوگ عدل سے زندگی بسر کرسکیں اور ہم نے لوہا نازل کیا اس میں سختی شدید قسم کی ہے اور لوگوں کے فائدے ہیں تاکہ اللہ جان لے کہ کون اس کی اور اس کے رسولوں کی مدد کرتا ہے غیب کے ساتھ بے شک اللہ قوی اور غالب ہے‘‘۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ۔ ’’دین اسلام یہ ہے کہ تلوار کتاب کے تابع ہوجب کتاب وسنت کا علم ظاہر ہوجاتا ہے اور تلوار اس کے تابع ہوجائے تو اسلام قائم ہوجاتا ہے‘‘۔(مجموع الفتاویٰ : 393/20)
اسی طرح فرمایاکہ :’’دین بغیر کتاب اور میزان اور لوہے کے قائم نہیںہوسکتا کتاب رہنمائی کرتی ہے لوہا اس کی مدد کرتا ہے پس کتاب سے علم اور دین قائم ہوتا ہے او رمیزان سے مالی حقوق وغیرہ حاصل ہوتے ہیں اور لوہے سے کفار منافقین پر حد قائم ہوتی ہے‘‘۔(مجموع الفتاویٰ : 36/35)
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ۔’’اس مقام پر اللہ نے حدیداور کتاب کو جمع کردیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دوچیزوں سے اللہ اپنے دین کی مدد کرتا ہے اپنے کلمہ کو کتاب کے ذریعے بلند کرتا ہے کیونکہ اس میں دلائل ہیں اور تلوار مددگار ہے اللہ کے حکم سے اور ان دونوں کے ذریعے ہی انصاف قائم ہوتا ہے اور یہی شریعت کا مقصد ہے‘‘۔(تفسیر سعدی : 842/1)
اس سے قبل بھی امت پر ایسا زمانہ کئی بار آیا ہے جب ان کی حالت بد سے بدتر ہوئی ان کی مرکزیت ختم ہوئی ذلت کے گڑھوں میں گرے مگر ایسا کبھی بھی نہیں ہوا کہ یہ سوچ بیدار ہوئی ہوکہ علماء اور جہادمیں دوریاں پیدا ہوئی ہوں بلکہ علماء نے اس میدان میں بھرپور حصہ لیا اور خوب داد شجاعت پائی میدان جہاد کی خاک کو اپنی زینت بنایا بلکہ وہ ہمیشہ میدان جہاد کا ہر اول دستہ ثابت ہوئے یہی وجہ تھی کہ لوگوں نے ان کی سچائی اور خلوص نیت پر کبھی شک وشبہ کا اظہار نہیں کیا اور ان کی اس عمل پسندی کی وجہ سے ان کی نصیحت میں بڑا اثر تھا عموماً توعلماء ہی جہاد کی قیادت کرتے تھے مگر دوسروں کے تحت بھی جہاد کو اپنے لئے سعادت سمجھ کر کیا وہ ہمیشہ میدان جہاد میں بھی اور اس کے علاوہ بھی جہاد کی رغبت دلانے میں مستعد رہے یہی وجہ ہے لوگ ان میں اللہ کے اس فرمان کی عملی جھلک دیکھتے تھے :
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا بِاﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَ.(حجرات:15)
’’بے شک مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان (کے ساتھ ساتھ)شک نہیں کرتے اور اپنے مالوں ،جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہیں یہی سچے لوگ ہیں‘‘۔
مگر آج ہمارے زمانہ جس قدر فتنوں اور فاسد کو لئے ہوئے ہے اس کی مثال نہیں ملتی مگر اس کے ساتھ ساتھ علماء کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں کہ وہ لوگوں کو راہ راست دکھانے کے ساتھ ساتھ دین سکھائیں برائیوں سے روکیںمعروف کا حکم دیں او رامت کی قیادت کریں اس لئے کہ اب بزدلی ،سستی کاہلی اور لوگوں سے علیحدگی کا وقت نہیں ہے بلکہ حالات کا تقاضہ ہے کہ علماء آگے بڑھیں اور امت کومشکلات سے نکالیں ۔ان حالات میں جہادی جماعتیں اپنی وسعت کے مطابق طلباء وعلماء کو فتنوں کی گھاٹیوں میں جانے سے روک رہی ہیں اور انہیں جہاد جیسی واجب عبادت کی طرف متوجہ کررہی ہیں اور اپنے قیمتی وقت کا کوئی لمحہ بھی علماء کو جہاد کی رغبت دلانے میں ملتا ہے تو فوراً لگاتے ہیں اور مجاہدین کو جہاد کی رغبت دلانے اور ان کی اصلاح کے لئے بھی علماء کے فتاویٰ نصائح پیش کرتے ہیں کیونکہ مجاہدین نے یہ بات کبھی بھی ذہن میں نہیں آنے دی کہ علم اور جہاد دونوں الگ چیزیں ہیں بلکہ وہ اسے ایک دوسرے کے ساتھ لازم سمجھتے ہیں ساتھ ساتھ وہ یہ بھی تنبیہ کرتے رہتے ہیں کہ جہاد کرنے والے اگر علم سے کنارہ کشی اختیار کرلیں گے تویہ ان کی غلطی ہوگی لہٰذا جہاد کے ساتھ علم کو بھی اہمیت دیتے ہیں یہ نہیں کہ علماء اگر جہاد نہ کریں توہم ملامت کریں او رمجاہدین اگر علم سے دور رہیں توان پر کوئی ملامت نہ کریں بلکہ دونوں واجبات کی ضرورت کا احساس دلاتے ہیں ۔
یہ جہادی جماعتیں امت کے نوجوانوں پر مشتمل جماعت ہے جن پر اللہ نے جہاد کا احیاء آسان کردیا ہے اور وہ لوگوں کو جہاد کی رغبت دلارہے ہیں یہ مقصد نہیں کہ یہ باقی امت سے کٹ کر ایک علیحدہ جماعت کی شکل اختیار کرے وہ تو تمام لوگوں کو اس بات کی رات دن تبلیغ کرتے ہیں کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد شروع کریں اور مجاہدین کا ساتھ دیں ۔ہمار اموقف تو یہ ہے کہ کوئی بھی جماعت جو اقامت دین کا فریضہ انجام دینا چاہتی ہے اسے سب سے پہلے اسلام کی اہمیت کا ادراک کرنا ہوگا اور اس بات کو ذہن نشین کرنا ہوگا کہ اقامت دین کے لئے علم کی کس قدر ضرورت ہے کیونکہ مجاہدین کے لئے بھی ہم اسی چیز کی اہمیت کو واضح کرتے رہتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مجاہدین کی قیادت ہمیشہ علماء پر زور دیتی ہے کہ وہ مجاہدین کی قیادت سنبھالیں جہاد میں ساتھ نکلیں تاکہ ہر موقع پر ان کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ اس ضرورت کو پورا کریں اور یہ بات بھی گوش گزار کرتے رہتے ہیں کہ وہ دور بیٹھ کر جہاد کی رغبت دلانے کی بجائے قریب آکر یہ فریضہ سر انجام دیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم نے فتوے دیدیے یہ کافی ہیں کیونکہ مسائل کو اپنے ذہن سے سمجھنے میں بھی بڑی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں مگر جب علماء مجاہدین کے ساتھ ہوں گے تو یہ ان سے رہنمائی حاصل کرتے رہیں گے اور ہر قسم کی غلطی سے محفوظ رہیں گے حدیث میں آتا ہے کہ: ’’خبر اور معائنہ برابر نہیں ہیں بے شک اللہ نے موسیٰ علیہ السلام کو ان کی قوم کی حرکت کہ انہوں نے بچھڑے کو معبود بنالیا کی خبردی توانہوں نے الواح (تختیاں )نہیں پھینکیں مگر جب انہوں نے خود آکر قوم کا معائنہ کیا تو تختیاں پھینک دیں چنانچہ وہ ٹوٹ گئیں ‘‘۔(احمد،حاکم)
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے علم ،تجربہ اور باخبر رہنے کے بارے میں میں فرمایا:’’جہادی امور میں اہل دین کااعتبار کرنا ضروری ہے کیونکہ انہیں یہ خبر ہوتی ہے کہ اہل دین کس چیز پر ہیں بخلاف دنیا داروں کے کیونکہ ان میں دین ظاہری طور پر ہوتا ہے لہٰذا ان کی رائے نہ لی جائے اورنہ ان لوگوں کی جنہیں دنیا کے بارے میں خبر نہ ہو‘‘۔(الفتاویٰ الکبری : 609/4)
اور قرآن مجید میں اسی چیز کی وضاحت کی گئی ہے کہ علماء کی اہم ترین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ مجاہدین کو علم سمجھائیں تاکہ جہاد اور علم میں تعطل نہ آئے مجاہدین دین کے دفاع اور اس کی نشرواشاعت کا اور مسلمان ممالک کی حفاظت کافریضہ انجام دیں اور علماء مجاہدین کو دین سمجھانے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کا فریضہ انجام دیں یعنی ایسے فتوے ایسی تعلیم عام کریں جس سے لوگوں میں جہاد او رمجاہدین کی مدد کا جذبہ پیدا ہو لہٰذا جو یہ سمجھتا ہے کہ علم اور جہاد اور مجاہدین کی مدد کاجذبہ پیدا ہو ۔لہٰذا جو یہ سمجھتا ہے کہ علم اور جہاد میں باہمی تناقض ہے اور ایک کا دوسرے سے تعلق نہیں وہ شخص دین سے ناواقف ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے :
وَ مَا کَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا کَآفَّۃً فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ کُلِّ فِرْقَۃٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَۃٌ لِّیَتَفَقَّہُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَہُمْ اِذَا رَجَعُوْآ اِلَیْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُوْنَ۔ (توبۃ:122)
’’مومنین کے لئے یہ اچھانہیں کہ وہ سب جہاد کے لئے نکل جائیں (بلکہ)ایسا کیوں نہ ہو کہ ہرجماعت میں سے کچھ لوگ دین کو سمجھیں اور اپنی قوم کو ڈرائیں جب وہ لوٹ آئیں اپنی قوم کے پاس تاکہ وہ بچتے رہیں ‘‘۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ۔’’یہ آیت جہاد میں نکلنے اوربیٹھنے کے حکم پر مشتمل ہے اور اس میں مشترکہ طور پر یہ حکم بھی ہے کہ جہاد اور علم دونوں اہم ہیں لہٰذا نکلنے والے اہل جہاد ہیں اور بیٹھنے والے اہل علم ہیں دین علم جہاد دونوں سے مکمل ہوتا ہے جب ایک جماعت جہاد میں مصروف ہوجائے اور پھر جب مجاہدین جہاد سے لوٹ آئیں تویہ علماء انہیں دین سکھائیں تو علم اور جہاد کی مصلحت حاصل ہوجاتی ہے یہی معنی سب سے زیادہ سمجھ میں آنے والاہے‘‘۔(التحریر والتنویر : 404/6)
اور جب جہاد فرض عین ہوجائے جیسا کہ آج ہوچکا ہے تواہل علم کی سب سے اہم ذمہ داری مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلانا اور انہیں جہاد کے لئے نکلنے پر تیار کرنا مجاہدین کی تائید کرنا اور عام لوگوں کو ان کی اعانت اور ان کے لئے دعاکرنا وغیرہ کی رغبت دلانی ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ یہ کہ مجاہدین کی اچھائیاں لوگوں پر واضح کریں تاکہ لوگوں کی ہمت بلند ہو اور کفا ر کے عزائم خاک میں مل جائیں اور لوگوں کے سامنے یہ بات لانا بھی علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کفار ہمارے خلاف کیا سازشیں کررہے ہیں اور ان سے محفوظ رہنے کے لئے ہمیں کیا تدبیراختیار کرنی چاہیے تاکہ جہاد اور اہل علم ایک ہی لڑی میں پرودیئے جائیں اور ان دونوں کی جدوجہد سے مقصد حقیقی کو حاصل کرلیاجائے کیونکہ جہاد اور علم کا یہی تعلق اصلی ہے مگر جیسا کہ بعض لوگ جہالت کی بناء پر یا عمداً ان دونوں کے تعلق وتواصل کو توڑنا چاہتے ہیں تو ان کے عزائم اسلام اور اہل اسلام کو نقصان پہنچانے کا باعث ہیں کیونکہ وہ لوگوں کے دماغ میں یہ بات ڈال رہے ہیں کہ مجاہدین علماء اور علم کے خلاف ہیں او رمجاہدین کی صفیں علماء سے خالی ہیں حالانکہ حقیقت اس کے خلاف ہے’’ وثیقۃ الترشید‘‘ کاحاصل یہی ہے کہ مجاہدین علماء کے خلاف ہیں اور وہ اہل علم سے عداوت رکھتے ہیں وغیرہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ چاہتے ہیں کہ مجاہدین جب کسی عالم سے فتویٰ حاصل کریں تو اس کا نام لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں کہ یہ فلاں عالم کا فتویٰ ہے تاکہ ان کا پروپیگنڈہ کہ مجاہدین علماء سے فتویٰ نہیں لیتے اور خود ہی فتوے بناتے ہیں صحیح ثابت ہوسکے اوران کے دل مطمئن ہوجائیں کہ ہم نے عوام میں جومشہور کیا وہ صحیح ہے اورصاحب ’’وثیقہ‘‘ کو اصل تکلیف یہی ہے کہ مجاہدین علماء کے فتاویٰ ان کے نام سے مشہور کررہے ہیں ۔یہاں ہم صاحب’’وثیقہ‘‘ کی اس دھوکہ بازی کی طرف اشارہ کرناضروری سمجھتے ہیں جو اس نے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے اور بہت دور کی کوڑی لے کر آئے مگر پھر بھی اپنی بات ثابت نہیں کرسکے اولاً مرشد نے کہا (تکلیف کا دارومدار عقل علم قدرت پر ہے لہٰذا علم سے قبل تکلیف (کسی حکم کا مکلف بنانا)صحیح نہیں ہے فقہ کا قاعدہ بھی اسی پر مبنی ہے کہ عقلاء کے لئے نص سے پہلے افعال کا حکم دینا صحیح نہیں ہے پس علم ہی کے ساتھ تکلیف دی جاسکتی ہے یعنی خطاب شرعی ممکن ہے یعنی شرعی دلیل علم کے ساتھ قائم ہوسکتی ہے توصحیح بات یہ ہے کہ تکلیف نہیں دی جائے گی علم سے قبل خطاب پہنچانے کے ساتھ ۔تاکہ خطاب پہنچانا ۔یہ کلام وہم ڈالتا ہے کہ علم بلوغ الخطاب سے علیحدہ ہے اور اس میں وہم پیدا ہوتا ہے کہ تکلیف جس علم پر موقوف ہے اس سے علم تفصیلی مراد ہے حالانکہ علم تفصیلی تکلیف کے آثار میں سے ہے اس کا معنی یہ ہے کہ علم بھی واجب ہوگاجب تکلیف کا وجود ہوگا یہ شیخ عبدالقادرکے کلام میں واضح ہے انہوں نے اپنی کتاب (الجامع فی طلب العلم الشریف)میں کہا ہے کہ (اداء کی اہلیت ،تکلیف کی اہلیت ہے ۔اس سے مراد ہے کہ فرد کی صلاحیت اس کے اقوال افعال شرعی طور پر معتبر ہوں گے یعنی یہ مکلف ہوگا کہ ان کے افعال واقوال لئے جائیں گے ۔

اس اہلیت کی شرائط

ادراک۔ پہنچانے ،عقل اور خطاب کی تکلیف کے بارے میں علم کا ہونا۔
تکلیف نماز مثلاً یہ ہے کہ اس کے واجب ہونے کاحکم کسی کو پہنچ جانا تاکہ اس سے اس کی ادائیگی کا مطالبہ اور اس کے ترک پر مواخذہ کیاجائے اس وجوب تکلیف اور حصولِ تکلیف پر وجوب تعلیم مرتب ہوتا ہے تاکہ وہ اسے صحیح طور پر ادا کرسکے اس سے فرائض بھی اقسام علم میں شامل ہوجاتے ہیں۔لہٰذا مواخذہ جوکہ اثر تکلیف اور اس کی فرع ہے تمام معاملات میں شرعی امور میں شمار کیاجائے گا اور یہ خطاب شرعی اور حجت قائم ہونے کے بعد حاصل ہوتا ہے اور علم سے مقصود بھی یہی ہے کہ اس سے تکلیف (کسی حکم کا مکلف ہونا)حاصل ہو اور اس کے مقابلے میں لفظ ’’جہل‘‘آتاہے جواس کی موجودگی میں منفی ہوتا ہے اور یہ تمام تب ہوگا جب یہ جہل کمی کا نتیجہ ہو ساتھ ساتھ اس کے ازالہ کا امکان بھی ہو اسی بناء پر ان کفار کا قتل جن کو اسلام کی دعوت نہیں پہنچی حرام ہے کیونکہ ان پر حجت قائم نہیں ہوئی اور مجرد دعوت کا پہنچنا ان کے خون اور اموال کو حلال کردیتا ہے اسی لئے نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد(ﷺ)کی جان ہے میری دعوت سن کر جو بھی ایمان نہ لائے چاہے یہودی ہو یا نصرانی پھر اس حالت میں مرگیا تووہ جہنمی ہے ‘‘۔(احمد،مسلم عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ )
مقام جہاد میں کسی مسلمان کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ یہ جان لے کہ اللہ نے اس پرعبادت جہاد فرض کی ہے تاکہ وہ اس کو ادا کرے اور اسے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کے ترک پر کیا گناہ ملے گا اس تکلیف کے آثار میں مجاہد کے لئے علم کی دوقسمیں بنیں گی ایک علم عینی دوسری علم کفائی اور اس علم کا عبادتِ جہاد کی اصل تکلیف سے کوئی تعلق نہیں یہ معاملہ بالکل واضح ہے الحمدﷲ۔
یہاں صاحب ’’وثیقہ‘‘ کے کاتب نے یہ کہہ کر ایک اور چھلانگ لگائی کہ شرع کا علم سے مراد وہ راستہ ہے جس کے ذریعے انسان کو اللہ کی مراد معلوم ہوتی ہے اور اس تک پہنچنے کا ذریعہ یہ ہے کہ علم شریعت سیکھاجائے پس کسی بھی معاملے میں شریعت کا حکم جانے بغیر اس کو کرناجائز نہیں ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
فَسْئَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔(الانبیاء:7)
’’پوچھوتم اہل ذکر سے اگرتم نہیں جانتے ہو ‘‘۔
حدیث میں ہے ’’علم کا طلب کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے‘‘ صاحب ’’وثیقہ‘‘ اس چھلانگ سے وہ یہ غلط فہمی پھیلاناچاہتے ہیںکہ جس علم سے تکلیف حاصل ہوتی ہے وہ شریعت کا علم تفصیلی حاصل ہونے پر موقوف ہے لہٰذا شریعت کے تفصیلی علم کے بغیر کوئی مسلمان نہ توجہاد کا مکلف ہے اورنہ ترکِ جہاد پر ملامت کے قابل ہے۔یہی وہ دھوکہ بازی ہے جو اس کتاب میں دینے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ شیخ عبدالقادر نے اپنی کتاب العمدۃ میں اس پر خود رد کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:’’جہاد نہیں ہے مگر طلب علم کے بعد،اگر چہ اس عبارت میں حق بھی ہے اورباطل بھی کیونکہ سلف میں سے کسی نے بھی یہ نہیںکہا کہ جہاد کی فرضیت اور حصول تکلیف طلب علم پر موقوف ہے اور اس عبادت کی ادائیگی کے لئے اس کی تفصیلات کا جاننا ضروری ہے بلکہ نبی uتو جو شخص اسلام قبول کرنا چاہتا ان سے بھی جہاد اور صدقہ کی بیعت لیا کرتے تھے کتنے ہی صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسلام قبول کرتے ہی جہاد میں حصہ لیا بلکہ کچھ تواسلام قبول کرتے ہی جہاد میں شریک ہوئے اور فوراً شہید ہوگئے آپ ﷺنے ان کو جہاد کی تفصیلی تعلیم کا حکم نہیں دیا لہٰذا جو شرط بھی کتاب میں نہیں ہے وہ باطل ہے اگرچہ سو شرطیں ہی کیوں نہ ہوں اللہ کے فیصلے زیادہ حق رکھتے ہیں اور اللہ کی شرط زیادہ پختہ ہیں( متفق علیہ) ۔اور جس چیز نے شکوک وشبہات کو پیدا کیا وہ یہ ہے کہ یہ کلام علم کے بارے میں کلام کا تسلسل ہے یعنی وہ اس بارے میں بحث کررہے تھے کہ علم سے تکلیف حاصل ہوتی ہے اور اس کی کیفیت بھی کہ جہاد واجب ہے یا نہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں مقام جہاد میں طلب علم کا جوب بھی اس پر مرتب ہوتا ہے اور یہی صاحب ’’وثیقہ‘‘ کا موضوع بھی ہے‘‘۔
جب پڑھنے والا یہ عبارت پڑھتا ہے تو وہ محسوس کرتاہے کہ شرط تکلیف طلب علم ہے اورباقی عبارتیں پڑھ کر وہ یہ سمجھتاہے کہ شرط تکلیف یہ ہے کہ احکام کی تفصیلی معلومات حاصل کی جائیں اس کا حاصل یہ نکلتا ہے کہ انسان جہاد کا مکلف نہیں ہے اورنہ ہی ترک جہاد پر اس کا مواخذہ ہوگا بغیر علم حاصل کئے ۔
حالانکہ ہم سب کو جہاد کی شرائط معلوم ہیں فقہاء کی کتب موجود ہیں مگر ہمیں کہیں یہ شرط نہیں مل سکی کہ طلب علم جہاد کی شرط ہے ۔چنانچہ ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’جہاد کی سات شرائط ہیں :
1 اسلام ۔
2 بلوغت۔
3 عقل۔
4 آزاد ہونا۔
5 مرد ہونا۔
6 نقصان سے محفوظ ہونا۔
7 خرچ کاہونا۔(المغنی : 412/20)
شیخ عبدالقادر خود کہتے ہیں کہ سابقہ بحث سے پتہ چلا کہ علم وجوب جہاد کی شرط میں داخل نہیں ہے اگر کوئی طلب علم میں کوتاہی کرتا ہے تویہ جہاد کے لئے مانع نہیں ہے اور حق کا متلاشی تکبر نہ کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ علم شرعی جہاد کے لئے شرط نہیں ہے یہ اکیلے ابن قدامہ رحمہ اللہ کا قول نہیں ہے ۔
مرشد نے کہا :’’جہادی جماعتوں کے وہ افراد جو شریعت کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے ان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کتب سلف میں موجود مطلق احکامات کو آج کے دور پر منطبق کریں شرعی نصوص (کتاب وسنت )اگر ثابت ہوں تو اس میں تبدیلی نہیں ہوگی مگر اس میں حالات کے مطابق تبدیلی کا اختیار ہے اور اس کا ادراک صرف شریعت سے باخبر انسان کرسکتا ہے‘‘۔انتہی
صاحب ’’وثیقہ‘‘ کی یہ عبارت جہاد کے سیاق وسباق کے تحت درج کی گئی ہے مگر جو قاعدہ انہوں نے ذکرکیاہے یہ صرف مجاہدین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ انہوں نے تمام مسلمانوں کو قید لگانی چاہیے تھی کہ کوئی بھی شخص اللہ کے دین کے بارے میں بغیر علم کے گفتگو نہ کرے ۔مگر ہم یہاںصاحب ’’وثیقہ‘‘ سے ایک سوال ضرور کریں گے کہ ’’وثیقہ‘‘ کے مرشدنے جب یہ اقرار کیا کہ وہ نہ تومفتی ہے نہ مجتہد نہ عالم تو اس اقرار کے بعدبھی وہ اس بات کے اہل قرار پاتے ہیں کہ شرعی احکامات پر گفتگو کریں اور اگر وہ گفتگو کے اپنے آپ کو اہل سمجھتے ہیں توکسی بنیاد پر اہلیت ثابت ہوئی جبکہ وہ عالم مجتہد نہیں ہیں حالانکہ اگر ہم ’’وثیقہ‘‘ پر نظر ڈالتے ہیں توکتنے ہی مقامات پر انہوں نے سلف کی کتابوں کے مطابق احکامات کو آج کے دور پر منطبق کئے ہیں اور جزئی احکامات اور فتاویٰ کو دلیل بنایا آج کے مسائل کے لئے ۔اور اگر ہم ان کی سابقہ کتب کی طرف رجوع کریں تودسیوں ایسے شرعی مسائل پر جن کا تعلق آج کے مسائل سے ہے انہوں نے اس پر جائز ناجائز کا حکم صادر کیا اور کہا یہ جائز ہے یا ناجائز فلاں عمل کفر فلاں غیر کفر ہے یہ تمام مسائل کتب سلف سے استخراج کئے حالانکہ اللہ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ،کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اﷲِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۔(صف:3-2)
’’اے ایمان والو !تم کیوں کہتے ہو جو تم نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بات ازروئے گناہ بہت بڑی کہ تم وہ بات کہو جو تم نہ کرو‘‘۔
یہ بات کسے معلوم نہیں کہ شیخ عبدالقادر نے ان لوگوں کے بارے میں جو اللہ کے حکم کو نہیں مانتے کتنی لمبی ابحاث کرکے یہ ثابت کیا کہ جو اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر اپنے خودساختہ قوانین کی اتباع کرتے ہیں ان کا کیا حکم ہے اور اس کے لئے انہوں نے علماء سلف کے متعدد اقوال پیش کرکے مسئلہ کی وضاحت کی ۔کیا شیخ عبدالقادر نے اپنے دور کے طاغوت اور ان کے مددگاروں اورآج کے ان کے معاونین کے بارے میں حکم تحریر نہیں کیا؟؟اورانہوں نے ان کا حکم ان الفاظ سے تحریر کیا ’’ ان طاغوتوں سے مراد ان مرتد حاکموں کے معاونین ہیں جو آج کل مختلف اسلامی ممالک میں ایسے فیصلے کررہے ہیں جو اللہ کے فیصلوں کے خلاف ہیں اور وہ بھی مراد ہیں جو ان کی مدد کرتے ہیں ان کی حمایت کرتے ہیں اور مسلمان مجاہدین ان حکمرانوں کو یہاں سے نکالنا چاہتے ہیں تو یہ الٹا مجاہدین کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ معاونین بھی مراد ہیں جو ان کی اپنی گفتگو کے ذریعے حمایت کرتے ہیں اور ان کے لئے اسلحہ سے قتال تک کرنے کھڑے ہوجاتے ہیں چنانچہ یہی لوگ ان کفار مرتدحاکموں کے دوام کا سبب ہیں لہٰذا ان طاغوتی حکمرانوں کے معاونین کے لئے وہی حکم ہے جو ان حکام کے بارے میں حکم ہے یعنی یہ بھی ان کی طرح مرتد ہی ہیں ‘‘۔(الجامع فی طلب العلم الشریف : 673)
ان کی یہ تقریر بھی کتب سلف سے ماخو ذ ہے حالانکہ انہوں نے یہ احکامات اپنے زمانہ کے لئے تحریر کئے تھے مگر انہوں نے آج کے زمانہ پر منطبق کیاہے جب خودایک کام کریں توجائز دوسرا کرے توناجائز(یاللعجب)شیخ عبدالقادر نے جمہوریت پر بھی بحث کی حالانکہ یہ بالکل آج کے مسائل میں سے ہے چنانچہ انہوں نے اس کا حکم ان الفاظ میں تحریر کیا کہ :’’جمہوری نظام کفر اکبر ہے اور اس کا حکم وہی ہے جو دیگر خودساختہ احکامات کا ہے کیونکہ یہ دین اسلام کے خلاف ایک نظام وضع کیا گیا ہے او ر اس میں شرک فی الربوبیہ ہے لہٰذا سیاسی پارٹیوں کا بننا پارلیمنٹ کا وجود میں لانا انتخابات کی اکھاڑ پچھاڑ وغیرہ یہ سب کفر اکبر ہے جس کا آج کے لوگ ارتکاب کررہے ہیں اور اس کو مزین کرکے لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں یا اس پر راضی ہیں اگر اس میں حصہ نہ بھی لے رہے ہوں کیونکہ یہ سب جمہوریت کے وسائل ہیں اور جمہوریت کفار کا دین ہے اور وہ لوگ جو دین اسلام کو چھوڑ کر جمہوری دین کو اختیار کربیٹھے ہیں ان کے وسائل دھوکہ نہ دیدیں اگرچہ یہ لوگ ہزار ہزار رکعتیں نماز پڑھتے رہیں مگر وہ کافر ہی ہیں‘‘ ۔اس حکم کے لئے بھی انہوں نے سلف کی کتابوں سے استفادہ کیا اور ان کے مطلق نصوص کو آج کے مسائل پر منطبق کرکے حکم لگایا بلکہ انہوں نے اپنی کتاب کے مقدمے میں لکھا ہے ’’اس کتاب میں بہت سے ایسے مسائل پر گفتگو کی ہے جن سے آج مسلمانوںکا واسطہ پڑتا ہے اللہ کے حکم سے اس بارے میں صحیح اورحق بات واضح کی گئی ہے مثلاً اتباع وتقلید ،جہل اور اس کا عذر،تکفیر اور اس کے ضابطے ،جمہوریت کا حکم اور اس کا اسلوب ،غیر اللہ کے مطابق فیصلے کرنے والوں کے بارے میں شرعی حکم،احکام الدیار اور عوام الناس کا حکم ،سیاست شرعیہ اور موجودہ دور کی تحریفات ،حجاب نقاب کا مسئلہ، اس کے علاوہ اوربہت سارے ایسے احکامات جن کا جاننا آج انتہائی ضروری ہے اس کی فہرست پڑھ کر اس کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے ‘‘۔اسی طرح مزیدلکھتے ہیں :’’میں نے اپنی اس کتاب میں جو منہج اختیار کیاوہ یہ ہے کہ میں کوئی بات ایسی ذکر نہیں کروں گا جس پر کتاب وسنت سے دلیل نہ ہو یا سلف کاقول نہ ہو اور اس کی حتی الامکان کوشش کی گئی ہے‘‘۔(الجامع : 185)
اتنے سارے مسائل جو انہوں نے اپنی کتاب ’’الجامع‘‘اور ’’العمدۃ‘‘میں ذکر کیئے اور ان تمام مسائل میں ان کا دراومدار علماء سلف کے اقوال پر ہے اور ان کا تعلق آج کے مسائل سے ہے اور وہ مسائل مطلق تھے کیونکہ انہوں نے خود کہا ہے کہ سلف نے ہمارے زمانے کے لئے یہ کتب تحریر نہیں کی مگر انہوں نے ان کو آج کے دور پر منطبق کیا حالانکہ خود کو علماء، مجتہدین مفتیان میں شمار بھی نہیں کرتے پھر بھی ان کے تحریر کردہ مسائل آج کے زمانے پر لاگو کررہے ہیں تو یہ ان کے لئے کیسے جائز ہوگیا ۔نظر تویہی آتا ہے کہ یہ چونکہ ڈکٹیٹر شپ کی پیداوار ہیں اور وہ یہی سبق پڑھاتے ہیں کہ شرعی احکامات اور عقلی احکامات کو دیوار پر دے مارو مگر ڈکٹیٹروں کی مخالفت نہ ہو۔اگرچہ ہم یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ شیخ عبدالقادر کو ان لوگوں سے چھٹکارا دلائے وہ عالم مفتی اور شرعی احکامات سے واقفیت رکھنے والے ہیں اور مجاہدین نے ان کی اب تک کی کتابوں سے خوب فائدہ اٹھایا ہے اگرچہ ہم انہیں معصوم نہیں سمجھتے لہٰذا کہتے ہیں ان کی حق باتیں لی جاسکتی ہیں اور جوحق کے خلاف ہیں رد کی جائیں گی لہٰذا ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ انہیں ظلمتوں کی جیل سے انہیںجلد آزادی عطا فرمائے اورانہیں ظالموں اور اللہ کے مجرموں کی قید سے رہائی نصیب فرمائے ۔آمین
مرشد نے لکھا :’’علماء سلف نے اپنے زمانے کے لئے کتابیں لکھیں تھیں ہمارے زمانہ کے لئے نہیں اس زمانہ میں مسلمانوں کے لئے دارالاسلام ،خلافت ،خلیفہ موجود تھا جبکہ یہ تمیز موجود تھی کہ کون مسلمان ہے کون کافر ،کیونکہ مسلمان دارالاسلام میں اور کافر دارالحرب میں رہتے تھے اور دارالاسلام میں مسلمان اورذمی میں امتیازتھا مگر آج یہ سب کچھ مفقود ہے کیونکہ آج لوگ خلط ملط ہوچکے ہیں لہٰذا کتب سلف پڑھتے وقت ان حالات کو جوکہ تبدیلی اور تغیر پذیر ہیں کا لحاظ کرنا ضروری ہے اور لوگوں پر حکم لگاتے وقت اس کا لحاظ ضروری ہے‘‘۔
یہ کہنا کہ سلف نے اپنے زمانہ کے لحاظ سے کتب تحریر کی تھیں مطلق طور پر صحیح نہیں ہے کیونکہ سلف کی تمام کتابیں اپنے زمانہ کے لئے نہیں تھیں ۔مجھے خدشہ ہے کہ اس فقرہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ اس سے لوگوں کو سلف سے کاٹنا چاہتے ہیں اور اس کی ابتداء انہوں نے اس طرح سے کی ہے کیونکہ سلف نے جوجہاد کے مسائل لکھے ہیں وہ مستقل مسائل شمار ہوتے ہیں یعنی ہر زمانہ کے لئے لہٰذا ان کا اطلاق آج کے زمانہ پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح سلف کے زمانہ میں ہوتا تھا سلف کا یہ ہرگز مقصد نہیں تھا کہ صرف آج کے مسائل حل کئے جائیں اورآئندہ آنے والے لوگ اس سے فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ انہوں نے ایسا طرز اختیار کیا جس سے تمام زمانہ کے لوگ مستفید ہوسکیں ۔
مرشد نے لکھا:’’نااہل لوگوں کو نااہل لوگوں کی قیادت کرنا جائز نہیں ہے کہ وہ تصادم کرنے میں جہاد کے نام سے گھس جائیں خون ومال کے معاملے میں انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے‘‘۔
رہی بات خون اورمعالی معاملات میں احتیاط کی تو اس میں کسی قسم کا شک شبہ نہیں ہے اورمجاہدین کو باقاعدہ اس کی بڑی تاکید کی جاتی ہے اور جو فتوے ،ابحاث ،دروس انہیں دیئے جاتے ہیں اس بات کے گواہ ہیں مگر مجاہدین کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ لٹیرے ہیں اور سب لوگوں کو قتل کرتے ہیں خواہ اس کا قتل جائز ہویاناجائز یہ سب جھوٹ افتراء ہے اور یہ سب صلیبی پروپیگنڈہ ہے۔ لہٰذا جو اس کااعتبار کرتا ہے وہ صلیبی سازش کا شکار ہوگیا مگر صورتحال یہ ہوگئی کہ آج جبکہ مجاہدین نے جہاد کا احیاء کیا اور جہادی مسائل علمی اورعملی اعتبار سے عام کئے حالانکہ موجودہ زمانہ اس سے بہت دور ہوچکا تھا لوگوں نے اس کا انکار شروع کردیا اور اس بات کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ جہاد ہماری مشکلات کاحل ہے اور جن لوگوں نے سلف کی کتب سے جہادی مسائل بیان کئے ان پر طعن وتشنیع کے تیر برسادئیے ان پر مختلف الزامات عائد کرنا شروع کردیئے مثلاً ان کو جاہل ،جلدباز،خون بہانے والے ،تک قرا ر دیدیا اور مجاہدین کو ایک بھیانک صورت میں پیش کرناشروع کردیا تاکہ لوگ جب مجاہدین سے نفرت کریں گے تو جہاد سے خودبخود دور ہوجائیں گے جیسا کہ ایک شاعر نے کہا ؎
اگر انہیں بھلائی معلوم ہوئی تو اس کو مخفی رکھا
اگر شر کے بارے میں علم ہوگیا تو اس کو پھیلادیا
اور اگر کچھ بھی علم نہ ہوا تو جھوٹ باندھنا شروع کردیا​
اسی طرح کا ایک اور شعر ہے کہ :
اگر وہ میرے متعلق شک وشبہ کے بارے میں سنتے ہیں خوشی سے اسے پھیلادیتے ہیں
اور اگر وہ کوئی خیر کی بات سنتے ہیں تو اس کو دفن کردیتے ہیں
جب صحابہ رضی اللہ عنہم کومتنبہ کیا تو آج کے مجاہدین جو کہ ایمان میں زیادہ نہیںتوانہیں زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَ لَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ لَہُمْ وَ اﷲُ عَلِیْمٌم بِالظّٰلِمِیْنَ۔(توبۃ:47)
’’اگریہ تم میں مل کر نکلتے بھی توتمہارے لئے سوائے فساد کے اور کوئی چیز نہ بڑھاتے بلکہ تمہارے درمیان خوب گھوڑے دوڑاتے اور تم میں فتنہ ڈالنے کے تلاش میں رہتے ان کے ماننے والے خود تم میں موجود ہیں اور اللہ ان ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔
علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’(وَ فِیْکُمْ سَمّٰعُوْنَ)کامطلب ہے کہ مسلمانوں کی جماعت میں ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو منافقین کی باتوں کو سن کر ان کا یقین کرلیں اوریہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہ منافقین ہوں جو مسلمانوں میں گھس آئے ہوں۔یہ جملہ اس بات کی تنبیہ کررہا ہے کہ منافقین کی فتنہ کی خواہش شدید خطرہ والی ہے کیونکہ مسلمانوں میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوسکتے ہیں جو ان کی بات کو سچ سمجھ بیٹھیں اوران کی سازشوں کا شکار ہوجائیں ‘‘۔(التحریر والتنویر : 300/6)
علامہ ابن قیم aفرماتے ہیں کہ ’’جب قرآن حکیم کے حاملین میں بھی منافقین داخل ہوگئے تھے اور ان کی باتیں کچھ لوگ سچ سمجھنے لگ گئے توصحابہ yکے علاوہ لوگوں کا کیا حال ہوگا جب منافقین ان کے خلاف پروپیگنڈہ کریں گے کیونکہ ہر دور میں منافقین موجود رہے ہیں اور ان کی باتیں سچ سمجھنے والے بھی کیونکہ وہ ان کی باتیں بغیر غوروفکر کے سچ سمجھ لیتے ہیں ‘‘۔(الصواعق المرسلۃ : 1404/4)
مرشد کا یہ فرمانا کہ :’’نااہل کے لئے نااہل لوگوں کی قیادت عدم اہلیت کے وقت جائز نہیں ہے کہ وہ تصادم میں جہاد کے نام سے لڑیں‘‘۔
اس بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کی نااہلی سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت کرنی چاہیے تھی خاص طور جب انہوں نے عالم ،مجتہد،مفتی نہ ہونے کے باوجود ایک شرعی حکم ’’لایجوز‘‘استعمال کی ہے محض ناشرین کتاب کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے اب نااہلی کاجائزہ لیتے ہیں کیونکہ اس کی مختلف صورتیں ممکن ہیں پہلی علمی نااہلی دوسری عسکری نااہلی تیسری اخلاقی نااہلی چوتھی تجربہ اور معلومات کی نااہلی وغیرہ تو ان کی کون سی نااہلی مرا د ہے مگر چونکہ انہوں نے یہ بات اس جملہ کے بعد کہی ہے کہ خون اور مال کے معاملے میں بہت احتیاط ضروری ہے تومعلوم ہوتا ہے ان کی مراد نااہلی سے علمی نااہلی مرادہے کیونکہ ناحق اور حق میں تمیز کرنا علم شرعی سے ہی ممکن ہے لہٰذا ان کایہ کہنا کہ نااہلی کی بنیاد پر قیادت کرنا جائز نہیں ہے دووجوہات کی بناء پر غلط ہے:
پہلی وجہ۔ ایک شخص کے پاس علم شرعی کی توکمی ہے مگر عسکری اور جنگی معاملات میں بہت معلومات ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنی عسکری ذمہ داریاں احسن انداز سے نبھاسکتا ہے اور وہ اس کااہل کہلائے گا اگرچہ اس کی علمی استعداد نہیں ہے لیکن اگر اس سے کوئی علمی سوال کیا جائے یا کوئی ایسی صورت پیدا ہوجائے تو اہل علم سے رجوع کرنا ضروری ہے اللہ کے اس قول کامطلب بھی یہی ہے:فَسْئَلُوْآ اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۔(نحل:43) ’’تم اہل ذکر سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ‘‘چنانچہ ابن خویز منداد aکہتے ہیں کہ :’’ذمہ دار حضرات کے لئے ضروری ہے کہ وہ علماء سے مشاورت کرتے رہیں ان امور میں جن میں انہیں علم نہ ہو خاص طور پر جب کوئی دینی مشکل پیش آجائے یا جنگی معاملات میں لشکر کے متعلق یا لوگوں کی مصلحت کے متعلق یا وزراء عمال وغیرہ سے شہری مصلحتوں سے متعلق یا شہری عمارات سے متعلق ‘‘۔(تفسیر القرطبی : 250/4)
ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’شوریٰ کا شریعت کے قواعد اور احکامات کی پختگی سے گہرا تعلق ہے لہٰذا جو علماء سے مشورہ نہیں کرتا اس کو معزول کرناضروری ہے اس میں علماء کااختلاف نہیں ہے‘‘۔(المحرر الوجیز : 35/2)
جب امام کے متعلق یہ فیصلہ ہے توعام حکام امراء اور لیڈروں کو توبدرجہ اولیٰ یہ حکم ہے کہ اہل علم ودین سے مشاورت کریں کیونکہ ان کا علم کم ہوتا ہے اور شرعی امور میں ان کی اہلیت ناقص ہوتی ہے یا معدوم مگر اضطرارکی اس کیفیت میں ان کی لیڈری جائز ہے مگر ان کے اس نقص کو دوسری صلاحتیوں سے پورا کیا جانا چاہیے ۔چنانچہ شیخ الاسلام aفرماتے ہیں کہ ’’غیر اہل کو تولیت دی جاسکتی ہے ضرورت کے وقت جبکہ اس سے اصلح کوئی صلاحیت موجود ہو تو اصلاح احوال کی سعی کرناواجب ہوتا ہے تاکہ لوگوں میں امور ولایات اور امارات کی استعداد کامل طور پر پیدا ہوجائے ‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ : 14)
بلکہ امامت عظمیٰ میں بھی یہی طرزاختیار کیاجائے گا تاکہ نظام میں خلل واقع نہ ہو اور امام نہ ہونے کی وجہ سے اہم ترین معاملات بند نہ ہوجائیں بلکہ چند نقائص کو نظر انداز کرکے قبول کرلیاجائے گا تاکہ جتنا ہوسکے وہ مقاصد پورے ہوتے رہیں جو ضروری ہیں مثلاً دنیاوی اور دینی امور وغیرہ کی حفاظت لیکن اس کے ساتھ ساتھ علماء کی طرف رجوع لازم رہے گا تاکہ شریعت کے احکامات سے دوری نہ رہ سکے چنانچہ امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ بات گزرچکی ہے کہ امامت کے لئے یہ شرط ہے کہ کوئی اپنے اندر مجتہدین والی صفات پیداکرے لیکن اگر ہم ایسا شخص نہیں پاتے جو دین کے اعتبار سے امامت کا حق دار ہو مگر وہ دیگر معاملات میں با صلاحیت ہے اور استقلال مضبوطی سے ان امور کو انجام دے سکتا ہے تو ایسے شخص کو منصب دیا جاسکتا ہے جو امور دنیاودین سے متعلق ہو اور اس کے احکامات نافذ ہوں گے اسی طرح جس طرح اس امام کے نافذ ہوں گے جس کی صفات بیان ہوچکے اور آئمہ دین اس کی رہنمائی کرتے رہیں گے ان تمام مشکل امور میں جو واقع پذیر ہوتے رہیں گے اور جن کا تعلق احکام شرع سے ہو ۔علم اگرچہ عقلاً امامت کے لئے شرط ہے لیکن اس شرط کا حامل شخص نہ ملے توقابل آدمی کو امامت کا منصب سونپا جائے گا عہدہ خالی نہیںچھوڑا جائے گا تاکہ ملک و شہر کو مختلف مشکلات سے محفوظ رکھاجاسکے‘‘۔(غیاث الامم : 276)
اس کتاب میں اور بھی بہت ساری ایسی ہدایات ہیں جو آج کی اس امت اوراس دور سے بڑی مطابقت رکھتی ہیں اگر طوالت کا خدشہ پیش نظر نہ ہوتاتو میں وہ نقل کردیتا ۔
دوسری وجہ۔ جس کی وجہ سے ان کا نااہلی کو بنیاد بناکر قیادت کو ناجائز قرار دینا غلط ہے وہ یہ ہے کہ نااہلی کی قیادت زیادہ نقصان د ہ نہیں ہے بنسبت اس کے کہ قیادت ہی موجودنہ ہو کیونکہ قاعدہ یہ ہے کہ ضررشدید خفیف ضررسے زائل ہوجاتا ہے اور یہ بھی اصول ہے کہہ شریعت مصالح کی تثبیت اور تکمیل کے لئے اور مفاسد کو معطل کرنے کے لئے آئی ہے لہٰذا جب دومفاسد کا تعارض آئے گا تودیکھاجائے گا کہ بڑا کون سا ہے تو پھر دوباتیں ہوں گی یا تودونوں کوہٹادیں گے لیکن اگر اس کی استطاعت نہ ہو تومفاسد کو کم کرنے کی کوشش کی جائے گی وہ اسی طرح ممکن ہے کہ بڑے مفاسد کی بجائے چھوٹے کواختیار کرلیاجائے ۔(تلقیح الافہام الکلیۃ بشرح القواعد الفقھیۃ : 17/3)
اسی بناء پر اگرچہ قانون یہ ہے کہ منصب ولایت پر ایک شخص فائز ہو مگر اضطراری کیفیت میں جب کہ کوئی ایسا شخص نہ ہو جس میں اہلیت کی جامع صفات ہوں توایسے لوگ مل کر ایسے منصب کو چلائیں گے جن کے ملنے سے وہ کمی پوری ہوجائے اور انتظام بہتر طور پر چل سکے جیسا کہ شیخ الاسلام aنے فرمایاکہ: ’’اسی طرح جنگی امارت بھی جب بھی جنگ میں امیر مقرر کیاجائے اہل علم ودین کے مشورہ سے تودونوں مصلحتوں کا لحاظ رکھاجائے گا اس طرح باقی مناصب ولایات میں بھی اگر ایک شخص میں تمام صفات موجود نہ ہوں تو متعدد افراد کو ایک منصب دیاجاسکتا ہے لہٰذا زیادہ مصالح کو ترجیح حاصل ہوگی یا متعدد والی ہوں گے یہ اسی صورت میں ہوگا جب ایک شخص میں کامل صفات نہ ہوں‘‘۔(السیاسۃ الشرعیۃ:13)
امام الحرمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’اہم ترین معاملات میں ضروری ہے کہ تجربہ کار لوگ سرانجام دیں اور دین کاحکم ہی اولیت کا حامل ہوگالیکن اگر عسکری معاملات میں کسی دیندار آدمی کی بجائے کوئی فاسق آدمی ہے اور عسکری قیادت اس کو سونپنا ضروری ہے تو پھر اس کی امارت کی اتباع کی جائے گی یہ اطاعت حالت مجبوری میں ہوگی نہ کہ خوش دلی سے لیکن اگر کوئی فاسق جو شراب نوشی کرتا ہو یا دیگر گناہوں کا مرتکب ہو مگر ہم اس کو اسلام کے دفاع پرحریص پاتے ہیں اور دینی معاملات میں نہایت چست پاتے ہیں اور وہ حکومت کا اہل بھی ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا شخص موجود نہیں جس میں اہلیت کے ساتھ اس سے زیادہ دینداری ہو تومیرے نزدیک ظاہر یہی ہے کہ عہدہ اس کو سونپ دینا مناسب ہے کیونکہ ملکی معاملہ ایسا ہے کہ ایک دن کے لئے بھی یہ عہدہ خالی نہیں چھوڑاجاسکتا‘‘۔(غیاث الامم : 277)
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
میں کہتا ہوں۔جب ملک کوبغیر والی ایک دن بھی چھوڑنا مناسب نہیں ہے تو جب آپ نے ان ملکوں کو کفار فاجروں طاغوت ظالموں کے حوالہ کردیا؟؟اور برائیوں کے دروازے کھول دیئے غیر مسلم اقوام قبضہ کررہی ہیں تاکہ ان ممالک اسلامیہ میں یہودی نصرانی ملحدین داخل ہوجائیں اور وہ آکر یہاں سے مسلمانوں کے عقائد ،اخلاقیات شرعی احکامات کو ختم کردیں اور دین کے ساتھ ساتھ ان کی دنیا مال ومتاع حرث ونسل سب کچھ برباد کردیں ۔آپ کے خیال میں یہ بہتر ہیں یا وہ لوگ جو وطن کی محبت کے ساتھ ساتھ دین کی محبت سے بھی سرشار ہیں اور ان کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کی محبت بھی ہے؟
کیا اب بھی ان کو نااہل کہہ کر ان لوگوں کے تسلط کا تسلط قبول کیاجائے گا جن کا کام ہی فساد ہے؟اور جن کے دلوں میں ہماری دولت کی محبت ہے۔اسی طرح منصب قضاء (عدالت کا عہدہ)کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ بڑااہم عہدہ ہے چنانچہ علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ ایک شخص عالم فاسق ہے دوسرا جاہل دین دار ہے دونوں میں سے کون زیادہ اس منصب کا اہل ہے لہٰذا اکثر علما ء نے یہی کہا ہے کہ جاہل دین دار زیادہ لائق ہے ۔جیسا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے نے فرمایاکہ :’’بعض علماء سے پوچھاگیا کہ منصب قضاء کے لئے سوائے ایک عالم فاسق اور جاہل دین دار کے کوئی شخص نہ پایاجائے تویہ عہدہ کس کو سونپا جائے توعلماء نے کہا اگر دین کی حاجت زیادہ ہے فساد کے غلبہ کی وجہ سے توصاحب دین کو یہ منصب دیا جائے لیکن اگر علم کی زیادہ ضرورت ہے تو عالم کو ترجیح دی جائے اور اکثر علماء دین دار کو ترجیح دیتے ہیں ‘‘۔ (السیاسۃ الشرعیۃ:13)
امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اگر اس قسم کی صورتحال پیداہوجائے کہ حاکم وقت جج کے عہدے کے لئے کوئی ایسا شخص نہیں پارہا جس میں وہ شرائط جو اس کے لئے ضروری ہیں موجود ہوں تو وہ ایسے شخص کو قاضی نامزد کرے جو ان شرائط سے عاری ہو کیونکہ شہر یا ملک کو بغیر جج کے ایک دن بھی چھوڑنا مناسب نہیں ہے‘‘۔(اعلام الموقعین: 196/4)
لہٰذا مطلقاً یہ کہنا کہ نااہل کی قیادت درست نہیں یہ قول خود غیر درست ثابت ہوگیا لہٰذا احکامات کو جب بھی بیان کیا جائے اس کی مکمل تفصیل بیان کرنی چاہیے کہ کن حالات میں جائز ہے کن حالات میں ناجائز ہے اور جو مسئلہ جس سے متعلق ہو اس کو بھی واضح کرنا چاہیے تاکہ خاص مسئلہ کو عمومی بیان کردیاجائے اور صرف اس لئے کہ قابض حکومتوں کو سہارا دیدیاجائے تاکہ وہ اپنا کھیل خوب کھل کر کھیل سکیں اور معاشرے میں فساد کا بازار گرم کرسکیں اور عدل وانصاف معاشرے سے ناپید کردیں شواہد یہی بتاتے ہیں کہ ان کی مرضی یہی ہے ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے اس مسئلہ میں بڑی لمبی بحث کی ہے میں نے کچھ حصہ پہلے نقل کردیا ہے چنانچہ مسئلہ کی اہمیت کے پیش نظر دوبارہ نقل کررہا ہوں ۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
’’اگر آپ اس لئے قتال کررہے ہیں کہ اکثر اللہ کی رضا اور اسلام کا غلبہ اور اقامت دین ہوجائے رسول کی اطاعت ہوجائے مگر ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو فاسق فاجر ہیں ان کی نیت فسادہے کہ وہ صرف ذاتی مفادات یا حکومت حاصل کرنے کے لئے لڑرہے ہیں اور ترک قتال کے مفاسد ان لوگوں کے ساتھ مل کر قتال کرنے سے زیادہ ہیں توواجب یہ ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ مل کر قتال کیاجائے تاکہ دوفسادوں میں سے بڑے کو دفع کردیاجائے کیونکہ دین اسلام کا قاعدہ اور اصول بھی ہے کہ دوفسادوں میں بڑے کو دفع کیا جائے۔اسی بناء پر اہل سنت والجماعت کا یہ اصول رہا ہے کہ ’’الغزومع کل بروفاجر‘‘غزوہ فاجر اور نیک سب کے ساتھ مل کر کیا جاسکتا ہے۔اللہ تعالیٰ اس دین کی مدد فاجر شخص سے بھی کردیتا ہے جیسا کہ نبی uنے خود بتایا ہے کیونکہ اگر فاجر امراء کے تحت غزوہ سے منع کردیاجاتا تو دوباتیں سامنے آتیں پہلی بات یہ کہ غزوہ ترک ہونے سے دشمن غالب آجاتے جو کہ اس سے زیادہ خطرناک بات تھی لیکن فاجرکے ساتھ غزوہ کرنے سے دوفاجر میں ایک کو دفع کرنا میسر آگیا اور اکثر شرائع اسلام قائم ہوگئیں اگرچہ جمیع شرائع توقائم نہیں ہوسکیں مگر اس صورت میں یہی بہتر ہے بلکہ خلفاء راشدین کے بعد اکثر غزوے اسی طرح واقع ہوئے جب انسان نبی علیہ السلام کے فرامین پر علمی لحاظ سے غور کرتا ہے کہ آپ نے قیامت تک کے لئے جہاد کا حکم دیااور ظالموں کے ظلم سے روکا توہر انسان یہ سمجھ لیتا ہے کہ درمیانی راہ یہ ہے کہ ان لوگوں کے خلاف جہاد کیا جائے جوجہاد کے مستحق ہیں جیسا کہ یہ لوگ ہیں اور جہاد ہر قسم کے امیر کے ساتھ مل کر کیا جائے اورایسی جماعت کے ساتھ مل کرکیا جائے جو ان سے اسلام میں اولیٰ ہوں بشرط کہ جہاد کی یہی صورت ممکن ہو اور اجتناب کیا جائے ان لوگوں سے جو اللہ کی نافرمانی میںان کے خلاف لڑتے ہیں بلکہ ان کی اطاعت کی جائے اللہ کی اطاعت میں اور ان کی اطاعت نہ کی جائے اللہ کی معصیت میں اس لئے کہ مخلوق کی اطاعت اللہ کی نافرمانی میں جائز نہیں ہے ہر زمانہ میں یہی طریقہ بہترین امت کا رہا ہے اور ہرمکلف پر یہی طریقہ واجب ہے یہ طریقہ ہی حروریہ اور مرجئہ کے درمیان کا راستہ ہے کیونکہ پہلا فرقہ اور اس کے متبعین فاسد ورع کے حاملین ہیں کیونکہ ان کے پاس علم نہیں ہے اور دوسرے امراء کی مطلق اطاعت کے قائل ہیں چاہے وہ فاجر فاسق کیوں نہ ہوں ‘‘۔(مجموع الفتاوی : 507-506/28)
اس کے قریب قریب یہ قول ہے ’’جہاد ان لوگوں کے ماتحت ہوسکتا ہے جن کے ہاتھ میںحکومت اور اختیارات ہیں اگر ان کے ساتھ مل کر جہادنہ کیا گیا تو نیک اہل خیر حضرات جہاد نہیں کریں گے توجہاد سے دین دار لوگوں کا عزم کم ہوجائے گا یا تو جہاد معطل ہوجائے گا یا اکیلے فاجر رہ جائیں گے اس سے کفار کا غلبہ ہوجائے گا یا فجار کا ظہور واقع ہوگا کیونکہ دین اس کے خلاف قتال کا حکم دیتا ہے۔یہ رائے سب سے زیادہ فاسد ہے کیونکہ اس کا کہنے والا جس چیز کو اپنے ورع وپرہیز گاری کی بناء پر ظلم سمجھ رہا ہے یہ بات کہہ کر اس سے زیادہ فاسد چیز کی طرف چلاگیابعض ولاۃ الامور سے ظلم کفار کے غلبہ کے مقابلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے؟بلکہ ان سے زیادہ ظالم کے مقابلے میں ؟لہٰذا جو ظلم میں اقل ہے اس سے تعاون کیا جانا چاہیے زیادہ ظالم کے مقابلے میں کیونکہ شریعت کی بنیاد مصالح کا حصول اورتکمیل مصالح اور تعطیل مفاسد (فساد والی چیز کو ختم کرنا)او رمفاسد کو حتی الامکان کم کرنا ہے اور دو خیر میں زیادہ خیر اور دوشرچیزوں میں زیادہ شر کی پہچان کرانا شریعت کا مقصود ہے تاکہ مزاحمت کی صور ت میں دوبہترین میں سے زیادہ بہتر کو آگے اور دوشر میں زیادہ شر کو دفع کیا جاسکے ۔یہ بات سب کو معلوم ہے کہ کفار ،مرتدوں اورخوارج کا شر وفساد ظالم کے شر سے زیادہ خطرناک ہے اگر وہ مسلمانوں پر ظلم نہ کرتے ہوں اور قتال کرنے والا ان پر ظلم کرنا چاہتا ہوتو یہ زیادتی ہے او رزیادتی پر تعاون نہیں کیا جاسکتا ۔(منھاج السنۃ النبویۃ : 118/6)
جو لوگ اہل علم کی اس گفتگو سے واقفیت رکھتے ہیں جو وہ کفار کے مسلمان ممالک پر قبضہ کے بارے میں کرتے ہیں تو انہیں تب احساس ہوتا ہے کہ علماء اس بات پر کس قدر پریشان ہیں اور اس معاملے کے خطرات کو وہ کتنا بڑا خطرہ بلکہ وہ اس کو ام المصائب (تمام مسائل کی جڑ)قرار دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ اس کے سامنے باقی مفاسد او رمضار کو آسان سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک کفار کا مسلم ممالک پر قبضہ یہ سب سے بڑا نقصان اور فساد کا ذریعہ ہے امام الحرمین نے ایک تاریخی واقعہ کی طرف اشارہ کرکے اسی کے تناظر میں آج کے حالات پر روشنی ڈالی ہے کہ الپ ارسلان اور روم کے بادشاہ کے درمیان کیا واقعہ پیش آیا چنانچہ وہ فرماتے ہیں آج امت پر جو خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں وہ حقیقی خطرات ہیں کیونکہ اگر آج کفار مسلمان ملکوں پر قبضہ کرلیتے ہیں تو وہ نہ صرف قبضہ کریں گے بلکہ وہ مسلمانوں کو غلام بنالیں گے مسلمان بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں رہے گی ان کی چادر عصمت کو داگدار کردیں گے مساجد منہدم کردی جائیں گی تمام شعائر اسلام ختم کردیئے جائیں گے یہ جماعتیں اذانیں سب بند ہوجائیں گی ناقوس اور صلیب کا ہر طرف چرچا ہوگاسارا اسلامی خطہ کفر سے بھر جائے گا اور قابضوں کی طرف وہ لوگ مائل ہوں گے جو گند سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے بلکہ مرتد عن الدین تو ایسی صورت میں جو لوگ اللہ کے دین کے دفاع کے لئے دل کی گہرائیوں سے کھڑے ہوجائیں گے آپ کا ان کے بارے میں کیاخیال ہوگا جو صرف اللہ کے لئے اپنی جانوں کو خطرات میں ڈال کر ان قبضہ گروپ کے خلاف لڑرہے ہوں اور رات دن ایک کررکھتے ہوں اور موت کے پروں پر سوار ہو کر کفار کے سمندر پر اڑتے ہوں نہ ان میں کفا ر کا رعب اثر کرتا ہونہ وہ ان کی دولت سے مرعو ب ہوتے ہوں نہ وہ ان کی تکالیف زخموں مشکلات کی پرواہ کرتے ہوں آخر اللہ ان کو فتح عطا فرمادے تو مسلمانوں کے لئے یہ زیادہ بہتر لوگ ہیں یا وہ جو ان کی آزادی سلب کرلیں اور انہیں دین سے دور کردیں ؟؟(غیاث الامم : 255-254)
لہٰذا ہم اسی لئے کہتے ہیں کہ چاہے اصلی کفار کا غلبہ ہو یا مرتدین کا غلبہ ہو ہمیں چاہیے کہ اس کے خلاف ابھی سے جدوجہد کریں تاکہ مسلمان ممالک پر ان کے نقصانات نہ پڑیں بلکہ وہ ان کے تمام قسم کے فساد سے محفوظ ہوجائیں ہمیں اس کے لئے اپنا مال خرچ کرنا پڑے اپنی جان دینی پڑے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے جب تک ہمارا ہدف ہمیں حاصل نہ ہوجائے اوروہ یہ ہے کہ مسلمان ممالک کو دشمنوں اور ان کے ایجنٹوں سے صاف کردیا جائے اس معاملے میں شیخ عبدالقادر نے تو انتہاء کردی چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ :’’جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ مسلمان آج جہاد سے بے جو بے رغبت ہوگئے اگرچہ بعض اسلامی جماعتیں اس کو کر بھی رہی ہیں تویہ بے رغبتی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ خیانت ہے اور اس کے دین کے ساتھ بھی خیانت ہے اور وہ دین کے ضائع کرنے کے مترادف ہے‘‘۔(العمدۃ:355)
آج مسلمانوں پر جتنی مشکلات ومصائب آپڑی ہیں ان کو ہوئے مجاہدین کی بعض غلطیاں (اگر وہ صحیح ہیں )کوئی معنی نہیں رکھتی کیونکہ مسلمان ممالک پر آج کفار قبضہ اور تسلط اختیار کرتے جارہے ہیں اور اس کے جو مضر اثرات ہیں مجاہدین کی مبینہ غلطیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک ہیں کیونکہ آج مسلمان ملکوں میں شریعت اسلام کو روکا جارہا ہے اولیاء اللہ کو بندکیا جارہا ہے لوگوں کی تربیت الحاد وکفر کی طرف لے جارہی ہے اور واضح طور پر اللہ کی آیات کا مذاق اڑایا جارہا ہے جیل کے دروازے صرف ان لوگوں کے لئے کھول دیئے گئے ہیں جو اصلاح کی بات کرتا ہے ۔مگر آج لوگ جس طرز زندگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں اس کی خرابیاں اور اس کے نقصانات کااس وجہ سے ادراک نہیں کررہے کہ شرعی نظام اور شرعی حکومت قائم نہیں ہے اور لوگ جو تھوڑابہت اسلام آج باقی ہے وہ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں کہ ہماری نجات کے لئے یہی قدر کافی ہے یہی وجہ ہے کہ مکمل اسلام پر عمل کرنے والے آج اپنے علاقوں میں اجنبی بن کر رہ گئے ہیں اور ان میںسب سے زیادہ اجنبی آپ کو مجاہدین نظر آئیں گے لیکن وہ اس جہادی فریضہ اور احکامات اسلامیہ کو زندہ کرنے کی بھرپور جدوجہد کررہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ امت کو درپیش مشکلات سے نکالنے کا یہی واحدحل ہے اور اس کو حاصل کرنے کے لئے کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کررہے ۔
مرشد لکھتا ہے کہ :’’میں نے بعض ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو نماز اور طہارت کے مسائل کے بارے میں صحیح جواب دینے سے عاجز ہیں مگر خون بہانے اور مال لوٹنے کے بارے میں فتوے دے رہے ہوتے ہیں کیایہ اسلام میں جائز ہے؟‘‘۔
اس میں شک نہیں ہے کہ دین کے بارے میں بغیر علم گفتگو کرنا بہت بڑا منکر عمل ہے بلکہ شدید ترین حرام عمل ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاﷲِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔(اعراف:33)
’’کہہ دیجئے میرے رب نے فواحش ظاہری اورباطنی دونوں کو اور گناہوں کو ،زیادتیوں کو (ناحق)شرک کو جس کے لئے اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور اللہ کے بارے میں بغیر علم گفتگو کرنے کو حرام کردیا ہے‘‘۔
اور یہ شیطان کے راستوں میں سے ہے :
اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓء وَ الْفَحْشَآء وَ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اﷲِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ (بقرۃ:169)
’’بے شک شیطان تمہیں حکم دیتا ہے برائی فحشاء کا اور یہ کہ تم اللہ کے بارے میں وہ کہو جو تم نہیں جانتے ‘‘۔
اس میں توکوئی شک شبہ ہے ہی نہیں لہٰذاصاحب’’وثیقہ‘‘ کو مجاہدین پر یہ تشنیع کرنے کی ضرورت کیوں پیش آگئی ؟؟اگر وہ اس سے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عموماً تمام مجاہدین ایسے ہوتے ہیں تو یہ ان کا محض افتراء اور جھوٹ ہے حالانکہ شیخ عبدالقادر نے کئی سال مجاہدین کی صفوں میں (عالم مفتی مجتہد نہ ہونے کے باوجود)فتوے دئیے تالیفات کی تعلیم دیتے رہے اگر وہ اپنے اوپر تنقید کریں تو زیادہ اولیٰ ہے لیکن اگر وہ اپنے آپ کو اس کا اہل سمجھتے ہیں تو آج وہ دوسرے کو اس کام کا نااہل کیوں قرار دے رہے ہیں ۔لیکن اگر ان کی مراد یہ ہے کہ اس قسم کے بعض امور مجاہدین سے سرزد ہوجاتے ہیں توان کو ان کی تعیین کرکے بات کرنی چاہیے نہ کہ عمومی بات کردی جائے حالانکہ اس قسم کے واقعات توہرجگہ ہرزمانہ میں ہوتے رہتے ہیں لہٰذا صرف جہاد کے بارے میں یہ طریقہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے بلکہ جس معاملے میں یہ ہو اس کی گرفت کی جائے ۔جابر tسے روایت ہے کہ ہم ایک سفر میں نکلے ایک شخص کو ہم میں سے پتھر لگ گیا جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا اس کو احتلام ہوا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کیا میرے لئے تیمم کی رخصت ہے توانہوں نے کہا ہم تیرے لئے تیمم کی رخصت نہیں پاتے کیونکہ تم پانی کی قدرت رکھتے ہو چنانچہ اس نے غسل کیا اور وہ فوت ہوگیاجب ہم نبی eکے پاس واپس آئے تو آپ eکو اس واقعہ کی خبر دی گئی تو آپ ﷺنے فرمایاانہوں نے اس کومارڈالا اللہ انہیں مارڈالے اگر وہ جانتے نہیں تھے توکسی سے پوچھ لیتے کیونکہ ناواقفیت کا حل سوال کرنا ہے ۔(ابوداؤد)
یہ واقعہ زمانہ نبوت اور نزول وحی کے وقت کا ہے تو اگر آج کوئی ایسا واقعہ ہوگیا ہے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے حالانکہ ہم مجاہدین کو خوب تاکید کرتے ہیں کہ وہ اس گناہ سے دور رہاکریں کیونکہ مجاہدین حق کی معرفت کے بڑے شوقین ہیں اور حق کی پہچان کے لئے اہل علم سے فتوے طلب کرتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جہاد کی جزئیات تک پر کتابیں بحوث فتوے موجود ہیں ۔
حق جماعت (جس میں مجاہدین بھی شامل ہیں )ہمیشہ ایسے اہل علم سے نہ توخالی رہی ہے اورنہ رہے گی جوان کی غفلت اور جہالت پر تنبیہ کرتے رہتے ہیں نبی uکے اس قول کے مصداق ’’ایک جماعت میری امت کی ہمیشہ حق پر رہے گی اور غالب رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری مسیح الدجال سے قتال کرے گا ‘‘۔(احمد ،مسلم ،حاکم)
کیا وہ جماعت حق پر بغیر حق کے رہے گی اور حق بغیر علم وفہم کے ہوگاجہاں تک ہم نے مشاہدہ کیاہے مجاہدین کی قیادت اور امراء عمومی طور پر اہل تقویٰ لوگوں پر مشتمل ہے اور وہ ایسے نہیں ہیں کہ وہ مسائل میں بغیر فقہ اور اللہ کے بارے میں بغیر علم کے گفتگو کریں بلکہ وہ تومسائل میں ہمیشہ اہل علم کے فتووں کو ترجیح دیتے ہیں جو علمی اعتبار سے انتہائی راسخ ہوں خواہ ان کاتعلق مجاہدین کی جماعتوں سے ہوں یا نہ ہو۔اس کی مثالیں بھری پڑی ہیں لوگوں میں یہ بات بہت مشہور ہے اور ہم نے خود اس کا مشاہدہ کیا ہے(والحمدللہ)
مرشد نے لکھا:’’اس زمانے میں یہ بات بڑی عام ہوگئی ہے کہ ایک شخص کسی معاملے کو اچھا سمجھ کر یا حماقت سے کرتاہے پھر اس کی کتاب وسنت سے دلیل تلاش کرتا پھرتا ہے تاکہ اپنی حماقت کو چھپاسکے اور ملامت کو دور کرسکے اور یہ عادت افراد اورجماعتوں میں موجود ہے وہ ان دلائل کو لے کر غلط مفہوم اخذ کرکے شارع کی مراد کو غلط جگہ منطبق کرتے ہیں ‘‘۔
کتنے ہی مسائل توہم ایسے دکھاسکتے ہیں کہ صاحب’’وثیقہ‘‘ نے اسی طرح بیان کئے ہیں کہ شارع کی مراد کچھ اور ہے او رانہوں نے کسی اور جگہ منطبق کئے حالانکہ اپنی سابقہ کتب میں ان ہی مسائل کو دوسری جگہ منطبق کیا ان میں سب سے زیادہ واضح مسئلہ والدین سے جہاد کے لئے اجازت لینے کا مسئلہ ہے جس پر ان شاء اللہ کلام کریں گے ۔
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
قیدی کو قیادت نہیں دی جاسکتی

مرشد نے کہا :’’اوّلاً میں کہتاہوں کہ یہ عبارت کہ (قیدی کی امارت جائزنہیں )مطلق صحیح نہیں ہے الاحکام السلطانیہ کے اصحاب الماوردی اور ابویعلیٰ نے ذکرکیا ہے کہ اگر مسلمانوں کا امام دشمن کی قید میں چلاجائے تو اس کی امامت باقی رہے گی اس کو امامت سے علیحدہ اس وقت تک نہیں کیاجائے گا جب تک اس کی خلاصی سے مایوس نہ ہوجائیں ‘‘۔
اوّلاً تویہ ہے کہ کس نے کہا ہے کہ یہ عبارت (لاولایۃ للأسیر)مطلق ہے جس کو دیکھ کر فوراً کاتب کو امام الماوردی اورابویعلیٰ کا سہارا لے کر باطل کرنا پڑا۔اور اس عبارت کو انہوں نے شبہ کیسے قرار دیدیا؟اور پھر’’وثیقہ‘‘لکھنے سے قبل ہی اس کا رد کرنے کی جستجو شروع کردی تاکہ اپنے افکار کو ثابت کرسکیں اور اس قول سے جو چیز سامنے آتی ہے ہرممکن طریقے سے اس کو رد کرسکیں اسی وجہ سے مرشد نے میرا قول نقل کرنے کے بعد کہا کہ ’’جن لوگوں نے یہ مسئلہ اٹھایاہے ان لوگوں کو خود اس بات میں شبہ ہے کہ مجبور شخص کا اقرار غیر صحیح ہے اور اس کا اثر مرتب نہیں ہوتا‘‘۔
ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہہ صاحب’’وثیقہ‘‘ اس لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تاکہ صلیب کے علم برداروں کا ایجنڈہ مکمل کیا جائے اور جن کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ذلیل ورسوا کیاجائے لہٰذا اگرالمرشد (جو کہ خود اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے)اپنے ایمان کو بھی گواہ بناکر لے آئے کہ ہم اس ڈکٹیٹر حکومت سے بری ہیں اور یہ کہ یہ صاحب’’وثیقہ‘‘ ہم نے حکومت کے کہنے پر نہیں لکھا (حالانکہ اس میں انہیں کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کی گئی ہے)توہم پھر بھی ان کی تصدیق نہیں کریں گے اس کی چند وجوہات ہیں :
پہلی وجہ : شیخ عبدالقادر ایک لمبی مدت مجاہدین میں رہے ہیں اس وقت ان کا قلم وقرطاس ان کے ہاتھ کا فرماں بردار تھا یعنی وہ لکھنے میں آزاد تھے اس وقت ان کو واضح نصیحت اور واضح تنقید کی کوئی ممانعت نہیں تھی وہ تھی اصل ترشید ورہنمائی لیکن اب جو انہوں نے وثیقۃ الترشیدکے نام سے لکھنا شروع کیا ہے جس میں انہوں نے تمام مجاہدین پر یا اکثر پر تنقید کی ہے توکیا وجہ ہے جب وہ آزاد تھے تو تنقید نہیں کی مگر جب و ہ آج اسلام کے سب سے بڑے دشمن مصر کی قید میں ہیں تو تنقید کررہے ہیں؟؟
اگرچہ ہم اس بات سے ہرگز انکار نہیں کرتے کہ بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو انہوں نے صاحب ’’وثیقہ‘‘ سے پہلے بھی اپنی کتب میں بیان کئے تھے جیسے مسئلہ تاشیرۃ ہے مگر اس کتاب میں ایسی چھلانگ لگائی ہے کہ اپنے لکھے ہوئے مسئلوں کے خلاف بہت کچھ لکھ ڈالا ہے بلکہ ایسے مسائل ثابت کردیئے ہیں پہلے وہ خود ان کا رد کرتے تھے بلکہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا تو اس کے رد میں لمبی بحثیں کرتے تھے ۔چنانچہ جب ان دونوں چیزوں کو دیکھاجاتا ہے کہ پہلے کیا تھے اور اب جبکہ وہ مصری حکومت کی قید میں ہیں جہاں حکومت کی نگرانی میں لکھوایاجاتا ہے اور ایک ایک حرف ان کی منشاء کے مطابق لکھاجاتا ہے توحقیقت حال کھل کر سامنے آجاتی ہے اورصاحب’’وثیقہ‘‘ کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے اور یہ کہ اس کا فائدہ کس کو ہورہاہے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے اور ہمیں یہ بات بھی مکمل طور پر سمجھ آجاتی ہے کہ قیدی (لاولایۃ لہ)کو اختیارات حاصل ہوتے ۔
دوسری وجہ: یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مصری حکومت خاص طور پر اور دیگر عرب حکومتیں عموماً اسلام کے خلاف واضح طورپر لڑنے میں مصروف ہیں اور اسلام کی طرف دعوت دینے والوں اور اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں پر ان لوگوں نے زمین تنگ کردی ہے کہ جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ۔اور ان پٹھوحکومتوں نے اپنے آلہ کاروں کی مدد کے لئے تمام وسائل استعمال کرنا شروع کردیئے چاہے اس کا انجام کتنا ہی برانکلے آج کے واقعات اس حقیقت کی نقاب کشائی کررہے ہیں اور آنے والا ہر لمحہ اسی بات کی غمازی کررہا ہے۔جب ان حکومتوں کی حقیقت حال یہ ہے توہمیں اچھی طرح طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وثیقۃ الترشید( جس کا موضوع ہے جہادی عمل کے لئے مصر اور پورے عالم کے لئے رہنمائی)کا اصل غرض ومقصود کیا ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تو دومتناقض چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ جہاد اوراسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف جہاد کی رہنمائی کررہے ہیں لہٰذا آپ سمجھ لیں کہ وہ کیا رہنمائی کریں گے ؟چونکہ ان کے دماغ میںخاص طور پر کاتب صاحب ال’’وثیقہ‘‘ کے دفاع میں جہاد کا یہ مفہوم موجود ہے کہ جہاد کفار کے خلاف اس لئے قتال کرنے کانام تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے اوران لوگوں اور مرتد حاکموں کے خلاف اور ان کا ساتھ دینے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف قتال کرنے کا نام ہے لہٰذا صاحب ’’وثیقہ‘‘ اب جہاد کے اس مفہوم کو دراصل یہ معنی دینا چاہتا ہے کہ ایسا جہاد جو مصری حکومت کی مرضی سے ہو اور تمام عالم کفار کی مرضی سے وہ جہاد صحیح ہے ۔اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ مصری حکومت نہیں چاہتی کہ ان کی جیلوں سے ان کے مرضی وعلم کے خلاف کوئی چیز نکلے لہٰذا جیل سے برآمد شدہ صاحب’’وثیقہ‘‘ ہی اصل رہنمائی کرے گا اور مجاہدین کے دو تمنائیں اسی سے پوری ہوسکتی ہیں حصول ثواب اور ڈکٹیٹر حکومت کو گرا کر اسلامی حکومت کا قیام۔
اگر اس ڈکٹیٹر حکومت کی یہی مرضی ہے توپھر وہ مجاہدین کے خلاف اپنی سختیاں بند کیوں نہیں کردیتی ان کے خون قوت کی حفاطت کیوں نہیں کرتی اورحکومت مجاہدین کے سپرد کیوں نہیں کردیتی تاکہ صحیح اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور ان کا مقصد پورا ہوجائے جیل میں لکھی گئی وہ وثیقۃ الترشیدجس میں مسئلہ (لا ولایۃ لأسر)پر فضول حواشی لکھ کر وقت ضائع کیاگیا اس کی بھی تمنا پوری ہوجائے ۔
تیسری وجہ : اگر کلام اس حد تک ہوتا کہ یہ شبہ غلط ہے کہ شیخ عبدالقادر کا کلام ایسے ولی کاکلام نہیں ہے جو امر اورنہی کا اختیار نہیں رکھتا تواس کے رد کے لئے یہی عبارت کافی تھی کہ (میں نے کسی کی ولایت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں کسی کے لئے لازم سمجھتاہوں کہ اس کی اطاعت کی جائے اور سناجائے قیادت میں سے اس کا کوئی وجود نہیں ہے میں توصرف ایک ناصح ہوں اور علم کا ناقل ہوں)مگر اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لمبی بحث کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی حالانکہ شبہ رفع کرنے کے لیے یہی عبارت کافی تھی خاص طور پر جبکہ تقریباً تمام مجاہدین یہ جانتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر نہ توکبھی کسی جماعت کے امیر مقرر ہوئے اورنہ کوئی ایسی بات ہوئی پھر بھی تاکیداً اس کی تردید کرنا یہ تحصیل حاصل ہے ہمیں جو چیز سمجھ آرہی ہے کہ یہ مسئلہ اس موقع پر اور مقام پر کیوں اٹھایا جارہا ہے اسی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کو (لاولایۃ لأسیر)اسیر کی ولایت جائزنہیں اس طرح اٹھانا اور اس کے لئے جدوجہد کرنا خود شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے ۔اگر اس مسئلہ سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ان لوگوں کے متعلق بات ہے جو جیلوں کے وثیقے تسلیم نہیں کرتے مگر اصل مقصد ایسے شخص کی ولایت ثابت کرنا مقصود ہے جس کو قید کرلیاگیا اور اپنے سابقہ نظریات سے رجوع کرلیا تاکہ اس کی ولایت ثابت کرکے اس کے متبعین پر اس کی اطاعت لازم کردی جائے خواہ وہ شخص مصر میں ہو دنیاکے کسی بھی حصے میں خاص طور پر جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیاکہ تمام ممالک اب اسینہجپر چل رہے ہیں چنانچہ صاحب ’’وثیقہ‘‘ یہی بات باور کرانا چاہتا ہے کہ (لا ولایۃ لأسیر)کا اطلاق ہر قیدی پر نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کوئی شخص جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر سابقہ نظریات سے رجوع کرے کوئی امر یا نہی کرے تو اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حق سے انحراف کے بعد احکام بھی قبول کے جائیں ۔وثیقۃ الترشید مجاہدین کو کہتی ہے کہ یہ عبارت (لا ولایۃ لأسیر)مطلق مراد نہیں لی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ کوئی اسیر اپنی ولایت پر باقی رہے اور وہ امر ونہی کرتا رہے لہٰذا ان کی جماعت اورمتبعین پر ضروری ہوگا کہ وہ اس کی اطاعت کریں ۔
چوتھی وجہ: اگر ولایت الاسیر مطلق نفی نہیں کی جاتی تو اس کایہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اسیر کی طرف سے جو بھی بات آئے اور ہر اسیر کی بات کو قبول کرلیاجائے بغیر کسی استثناء کے اوربغیر مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلکہ مصالح امور کا خیال رکھاجائے گا اور حالات واقعات دیکھ کر فیصلہ کیاجائے گا اب رہی مثال وثیقۃ الترشید کی تواگرچہ قید کی سختی کی وجہ سے یہ نہ بھی لکھی گئی ہو پھر بھی شبہات سے خالی اس لئے نہیںہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیاگیا وہ سب ان کی سابقہ کتب کے خلاف ہے اور یہ بات شواہد قطعیہ سے ثابت ہوچکی ہے لہٰذا جو شخص قید کی حالت میں کچھ لکھ رہا ہے اور آزادی کی حالت میں کچھ اور دونوں ایک دوسرے کے مناقض باتیں ہیں اور خاص طور قید کی حالت میں لکھی گئی باتیں شرع کے خلاف ہیں تو ان کاکیسے اعتبار کیا جاسکتاہے اسی وجہ سے جناب عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’آدمی اپنے نفس کا اس وقت امین نہیں ہوتا جب وہ قید میں ہو یا باندھ دیا گیا ہو یا اس کو تکلیف دی جارہی ہو‘‘۔
ہمارے کلام (لا ولایۃ لأسیر)کا تعلق ایسی ولایت سے جس میں وہ امر ونہی کرتا ہو یعنی اس کے احکامات نافذ ہوتے ہوں اس کی اطاعت ہوتی ہو نہ کہ ایسا کوئی مسلمان شخص جو قید کرلیاگیا ہو اس کا کلام منقول ہوتا ہو مگر اس کی حیثیت امر ونہی کی نہ ہو تو وہ اس عبارت سے مراد نہیں ہے۔مگر یوسف علیہ السلام کی دعوت جو انہوں نے جیل میں دی وہ کچھ اور چیزہے اورصاحب ’’وثیقہ‘‘ کی روش کچھ اور ہے بلکہ عبث ہے مرشد نے یوسف علیہ السلامکے واقعہ سے استدلال کیاہے کہ انہوں نے جیل میں وعظ کیا تھا کیا ان کاجیل میں وعظ کرنا حق کو چھوڑنے کی دلیل بن سکتی ہے؟
یہی حال ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام سرخسی رحمہ اللہ کا ہے یہ دونوں بھی جیل میں تھے حالانکہ ان کا اس مقام پر ذکر اور دلیل پکڑنا دھوکہ بازی ہے کیونکہ یہ بات کسی نے بھی نہیں کی کہ جو کچھ بھی جیلوں میں آئے گا وہ مردود ہوگابلکہ میں نے توصاحب’’وثیقہ‘‘ کے صدور سے کئی ماہ قبل اس بات کی تصریح کی تھی کہ ’’ممکن ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنی نظر کے مطابق طریقہ صحیحہ کا خلاصہ پیش کرسکوں اس خطرناک قضیہ میں جو نقاط میں واقع ہوا ہے پہلایہ کہ قیدی بھائی جن کی طرف رجعت کی نسبت کردی گئی وہ زبردستی وقہر کی حالت میں ہیں لہٰذا ان سے زبردستی اقوال نقل کرائے جارہے ہیں اور ان پر سختی کرکے ایسا منہج تیار کرایاگیاہے جس کو دیکھ کر ایک ادنیٰ فہم رکھنے والا شخص بھی جان لیتا ہے کہ اس منہج کا شرعی دلائل سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہے لہٰذا ان جدید افکار سے توقف اختیارکرنا ضروری ہے کیونکہ یہ افکار جدید ہونے کے ساتھ مطروحہ بھی ہیں یعنی قبول ہونے کے قابل نہیں ہیں صرف مخصوص لوگوں کے خیال سے مطابقت رکھتے ہیں اور یہ توقف اس وقت تک اختیار نہ کیاجائے گا جب تک وہ آزاد ہو کر اس کی وضاحت نہیں کردیتے اور وہ بااختیار ہوکر اس کی وضاحت کریں ۔
جب شریعت نے کلمہ کفرکہنے تک کی رخصت دی بحالت اکراہ بشرطیکہ ایمان موجود ہو اور دل اس پرمطمئن ہو تو جو کفر کم درجے کی باتیںہیں ان کی تو بدرجہ اولیٰ رخصت ہے کہ اگر وہ بحالت جبر کردی جائیں ان کی پکڑ نہیں ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَٰلکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم۔(النحل:106)
’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا مگر الَّا وہ شخص جو مجبور کردیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو مگر جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ان پر اللہ کا غضب ہے اورعذاب عظیم ہے‘‘۔
دوسری بات: جو لوگ ان رجعت پسندوں کے معاملے کو دلیل بناکر کہتے ہیں کہ یہ بھی توتمہارے بھائی ہیں لہٰذا تم بھی ان جیسا طرزعمل اختیار کرو تو اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ کسی کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا اور چیز ہے اور ان تجربوں کو بنیاد بناکر فیصلہ کرنا اور اس کو قولِ فیصل قرار دینا اور چیز ہے لہٰذا ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے اختلاف دور کرنے اور حکم قول فیصل کی حیثیت صرف کتاب وسنت کو حاصل ہے ان ہی دونوں کے ذریعے بندوں کے اقوال واعمال وزن کئے جاتے ہیں اور لوگوں کے تنازعات اسی سے حل کئے جاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۔(نساء:59)
’’اے ایمان والو اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو اگرتم میں تنازع ہوجائے کسی چیز میں بھی تو اس کولوٹادو اللہ اور اس رسول کی طرف اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ اور آخرت کے دن پر یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور احسن ہے انجام کے لحاظ سے‘‘۔
لہٰذا حق سے رجوع کرنا باطل کواختیار کرنے والوں کے تجربہ کو حجت شرعیہ بنانا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم اختلافی صورت میں ان کی طرف رجوع کریں اور یہ درست نہیں ہے کہ کوئی اگرہمیں کہے کہ تم جس مسلک ومنہج کو اختیارکئے ہوئے ہو اور اس پرمُصر ہو تمہارے فلاں فلاں ساتھی تو اس سے رجوع کرچکے ہیں حالانکہ وہ اہل علم اور دیگر معاملات میں تم سے آگے ہیں توہم ان کو یہ جواب دیتے ہیں کہ بے شک وہ علم میں ہم سے زیادہ ہیں مگر وہ ایسے مقدس نہیں ہیں کہ ان کے اقوال پر تنقید اعتراض نہیں ہوسکتے ہوں لہٰذا ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ شرعی اور اعتبار سے اور دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کے قول کو شریعت کی میزان میں تولیں کیونکہ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتی اور ان کے اعمال واقوال کو دلائل کی عدالت میں لاکر فیصلہ کرائیں لہٰذا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا اور حق کا وباطل کا فیصلہ ہوجائے گا کہ کون سی فکر صحیح او رکون سی غلط ہے مگر کسی کے تجارب کو مطلق قول تسلیم وقبول کرلینا بغیر کتاب وسنت پر پیش کئے یہ گمراہی کا سبب ہے اور ایسے شخص کا دین محفوظ رہنا مشکل ہے اور کسی طالب حق کے لئے یہ قطعاً جائزنہیں ہے۔
بعینہ یہی معاملہ ہمارا وثیقۃ الترشید کے ساتھ بحث ومناقشہ کے موقع پر ہوتا ہے حالانکہ ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ صرف مجاہدین کے خلاف اور جہاد میں تحریف کرنے کے لئے لکھی گئی ہے اور سب سے بڑا مقصد یہ کہ زبردستی مسلط شدہ حکمرانوں کی حکمرانی باقی رہے اور وہ خوب فائدے اٹھاتے رہیں اور یہ بات وقتاً فوقتاً ہم اپنے مناقشات اور بحوث میں ذکر کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے حقیقت حال اوجھل نہ ہوجائے اور طویل مناقشات کی وجہ سے اصل صورتحال غائب نہ ہوجائے لہٰذا کہاں صاحب ال’’وثیقہ‘‘ کی دین میں تحریفات اورکہاں مجاہدین کی وہ کاوشیں جس کے ذریعے انہوں نے ان کی مجرمانہ سرگرمیاں بے نقاب کیں کہاں یہ لوگ اورکہاں یوسف علیہ السلام کی نصیحت جو انہوں نے جیل میں لوگوں کو کیں یا ابن تیمیہ اور سرخسیH کی جدوجہد؟؟یوسف uنے جو جیل میں دعوت دی اس میں انہوں نے ایک کلمہ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس سے بادشاہ کی حمایت جھلکتی ہو یا اس کے دین کی حمایت ہوتی ہو بلکہ جو دعوت دی وہ مکمل طور پر اس کے دین کے خلاف تھی کیونکہ آپ نے کہا :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:40-39)
’’اے جیل کے ساتھیو! کیا مختلف رب بہتر ہوتے ہیں یا ایک اللہ زبردست جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے مقابلے میں وہ تونام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء نے رکھ لئے ہیں اللہ نے اس بارے میں کوئی دلیل نہیں نازل کی حکم اللہ کا چلتا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ تم نہ عبادت کرو مگر اسی کی یہی دین ہے جو قائم رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔
لہٰذا جیل میں یوسف علیہ السلام کی دعوت تو صرف توحیدکی اور دین قیم کی دعوت تھی نہ کہ ارباب اختیار اور ان کے پیروکاروں کے مفادات کی ۔جیسا کہ امام ابن جریر aنے کہا ہے کہ :’’آپ کا یہ فرمان (ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ)اس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں جس چیز کی تمہیں دعوت دے رہاہوں وہ یہ ہے کہ تم ماسویٰ اللہ سے بیزار ہوجاؤ یعنی بتوں سے اور خالصتاً واحد القہار کی عبادت اختیار کرو کیونکہ یہی قائم رہنے والا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے اور یہی وہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے ‘‘۔(تفسیر طبری :106/16)
استاذ سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’یوسف علیہ السلام نے دین کی علامات کو پختہ کردیا اپنے ان تھوڑے سے کلمات منیرہ سے اور دین کے عقائد واضح کردیئے اور شرک ،جاہلیت اور طاغوت کی بنیادیں شدید ہلاکر رکھ دیں‘‘۔(فی ظلال القرآن : 311/4)
یوسف uکی یہ دعوت کسی ڈکٹیٹر حکمران کے تحت نہیں تھی اورنہ کسی حکمران نے اس کی ترویج کی اورنہ کسی حکمران کے کہنے پردی بلکہ یہ دعوت توان کی مصلحتوں کے بھی خلاف تھی لہٰذایہ کہاں اور وہ کہاں ؟؟بلکہ جب آپ علیہ السلام کو جیل سے آزادی کی خوشخبری دی گئی تو آپ علیہ السلامنے انکار کردیا تھا جب تک سب کو یہ علم نہ ہوجائے کہ وہ الزام سے بری ہیں جو ان پر عائد کیا گیاتھا جیساکہ اللہ فرماتا ہے:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَمَّا جَآئَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْئَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ. (یوسف:50)
’’اور کہابادشاہ نے اس کو میرے پاس لاؤ جب قاصد ان کے پاس آیا تو آپ علیہ السلام نے کہا تم اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ اور اس سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے بے شک میرا رب ان کے مکروفریب سے واقف ہے‘‘۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اللہ فرماتا ہے کہ بادشاہ نے کہا ان لوگوں کو جو اس کے پاس تھے میرے پاس یوسف uکو لاؤ یعنی اس کو جیل سے نکالو میرے پاس حاضر کرو جب قاصد یوسف علیہ السلامکے پاس آیا اور اس نے حکم دیا کہ وہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوجائیں توفوراً انہوں نے منع کردیا اس وقت تک کہ ان کی مکمل براء ت ظاہر ہوجائے یہ ان کے صبر ،عقل مندی ،کامل ذہانت کی دلیل ہے۔(تفسیر السعدی:400/1)
اور نبی علیہ السلام نے ان کے اس صبر کو آپعلیہ السلام کے مناقب میں یوں بیان کیا ’’اگر میں جیل میں ہوتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے تومیں بلانے والے کی دعوت قبول کرلیتا ‘‘۔(متفق علیہ)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’آپ علیہ السلام کی مدح میں حدیث وارد ہوئی ہے جو آپ کے فضل وشرف پر اور علو مرتبت وصبر پر دلالت کرتی ہے ‘‘پھر آپ رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی ۔(تفسیر ابن کثیر:393/4)
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اس حدیث کا مطلب کہ اگر میں اتنی لمبی مدت جیل میں رہتا جتنی یوسف علیہ السلام رہے اور پھر بلانے والا آتا تومیں فوراً قبول کرلیتا یہ ہے کہ اس بات کوقبول کرنے میں جلد بازی کرتا آپeنے یوسف uکے صبر کو واضح کیاہے کہ انہوں نے نکلنے میں جلدی نہیںکی اور آپ eنے اپنے بارے میں جو بات کہی وہ بطور تواضح کہی ہے اور تواضح سے کسی بڑے میں کمی واقع ہونے کی بجائے اس کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے بعض نے کہا کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ eنے فرمایا’’ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دینا ‘‘بعض نے کہا ہے کہ آپ کی یہ بات اس وقت کی ہے جب آپ ﷺکو یہ معلوم نہ تھا کہ آپ eتمام انبیاء سے افضل ہیں ‘‘۔(فتح الباری:413/6)
لہٰذا بحث اس میں نہیں تھی کہ جیل سے جو کچھ بھی ٓئے اس کو رد کیاجائے گا بلکہ بات اس میں تھی کہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ چونکہ جیل میں لکھی گئی ہے اور چونکہ یہ حکمرانوں اور ان کے صلیبی علم بردار سرپرستوں کے حکم اور منشاء کے مطابق لکھی گئی ہے لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جو شخص جیل میں ہو اور اس کی سختیوں میں ہووہ اس کی مرضی کے مطابق ہی چلتا ہے لہٰذا ہم یہی کہیں گے کہ یہ کتاب بھی ان طاغوتی قوتوں کے اشارے اورحکم پر لکھی گئی ہے اور مقصود یہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو جہاد کے راستے روکے جائیں اور مجاہدین کو اپنے عظیم مقاصد سے ہٹاکر ان مقاصد پر لگادیاجائے جوصاحب ’’وثیقہ‘‘ کا ہدف ہے اس طرح مجاہدین سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور یہ طاغوتی قوتیں اور اس زمانہ کا’’ قیصر ‘‘امن وامان سے حکومت کرتا رہے اور اس کو کسی قسم کی روک ٹوک کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
چنانچہ مرشّد (خودساختہ رہنما)لکھتا ہے کہ:’’جہاد جو کہ اس صاحب ’’وثیقہ‘‘ کا موضوع ہے یہ بھی دیگر ان امور دینیہ کی طرح ہے جس میں قدرت رکھنا ضروری ہے لہٰذا جہاد تب واجب ہوتا ہے جب آپ اس کی قدرت رکھتے ہوں مگر قدرت سے مراد مالی وبدنی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد حالات ومقام ہے کہ موافق ہیں یا مخالف ہیں اسی بناء پر اللہ نے اصحابِ کہف کی اسی طرح تعریف کی جس طرح مجاہدین کی تعریف کی ہے حالانکہ وہ اپنی قوم سے علیحدہ ہوگئے تھے اسی طرح اللہ نے اس مومن کی تعریف کی جو موسیٰ uپر ایمان لایا تھا مگر اپنا ایمان چھپارکھاتھا اب آپ ان تینوں کا جائزہ لیں یعنی مجاہدفی سبیل اللہ کا دوسرا اصحابِ کہف تیسرا وہ مومن جس نے اپنا ایمان مخفی رکھا تینوں دیندار ہیں مگر تینوں کا عمل مختلف ہے اس کے باوجود تینوں قابل تعریف ہیں کیونکہ ان تینوں نے وہ عمل کیا جو ان پر شرعاً اس وقت اور جگہ کے لحاظ سے اور اس کی استطاعت ے مطابق واجب تھا ‘‘۔انتہی
جو بھی شخص یہ ’’وثیقہ‘‘ پڑھتا تووہ بغیر کسی شک وشبہ کے یہ گواہی دیتا ہے کہ اس کا مقصد اول یہ ہے کہ مجاہدین اور قابض حکومت اور اس کے صلیبی سرپرستوں کے درمیان یہ کتاب حائل ہوجائے اور اس نے اپنی بساط کے مطابق حائل ہونے کی کوشش بھی کی کبھی کہا کہ جہاد کی اقامت کے راستے بندہیں کبھی مجاہدین کے خلاف شکوک وشبہات کھڑے کئے کہ یہ جہاد نہیں کرسکتے کبھی کہا کہ جہاد ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ لوگ عاجز کمزور ہیں اورکسی حکم کے مکلف ہونے کی شرط قدرت واستطاعت ہے پھرصاحب’’وثیقہ‘‘ نے مکلف ہونے کی شرائط تفصیل سے ان مقاصد کے تحت ہی بیان کیں اور ان میں سے علم کو شرط اول قراردیا پھر بڑے خفیہ طریقہ سے علم میں بحث میں دھوکہ دینے کی کوشش کی اور اس علم کو جو مکلف ہونے کے لئے ضروری ہے اور ا س علم کو جس کا حصول تکلیف کے نتیجہ کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے دونوں کو خلط ملط کرکے بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب علم اور قدرت دونوں موجود نہیں ہیں جبکہ یہ دونوں مکلف ہونے کے لئے شرط ہیں تو لہٰذا اس حکم تک پہنچنا بھی ضروری نہیں ہے یعنی جہاد ضروری نہیں ہے اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح امت مسلمہ سے جہاد کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے کیونکہ جہاد کی تمام شروط ان کے خیال کے مطابق مفقود ہیں چنانچہ اس تکلیف کے اٹھ جانے اور اس کے گناہ کے اٹھ جانے کے بعد مسلمان بڑے آرام سے زندگی بسر کرسکیں اور یہ طاغوتی حکمران اور ان کے طاغوتی سرپرست خوب نعمتوں سے ممتع ہوں اور یہ قبضہ گروپ ڈکٹیٹر حکمران ہمیشہ حکمرانی کرتے رہیں ان کے لئے کسی قسم کی روک ٹوک ،رکاوٹ نہ ہو۔
یہاں چند امور پر تنبیہ کرنا ضروری ہے:
پہلی بات: اگر بالفرض جہاد عدم قدرت وعدم استطاعت کی بناء پر فرض نہ بھی ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امت کو جہاد کی رغبت دلانا اور اس کا احیاء کرنا بھی ساقط ہوگیاہے لہٰذا جہاد کی وہ حقیقت بیان کرنا جو دشمن کی تیار کردہ ہے اور امت کو دشمن کی تدبیروں اور سازشوں سے خوف زدہ کرنا اور یہ کہنا کہ امت عاجز وکمزوری سے علم کے ذریعے نکل سکتی ہے اور یہ کہنا کہ امت کے لئے کامیابی کا یہی طریقہ ہے حالانکہ امت کو کمزوری کی یہ تعلیم دینا اور اس عاجزی وکمزوری سے مفاہمت کا درس دینااور ان حالات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی تعلیم دینا دراصل شریعت کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ اللہ کا حکم یہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ۔(انفال:65)
’’اے نبی آپ (e)مومنین کو قتال کی رغبت دلائیں‘‘۔
دوسراحکم یہ ہے کہ :
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلًا۔(نساء:84)
’’(اے نبی)اللہ کی راہ میں قتال کیجئے نہیں مکلف بنایاجارہا ہے مگر آپ کو اور مومنین کو قتال کی رغبت دلائیں قریب ہے اللہ ان لوگوں کی پکڑ کو روک دے جو کافر ہوئے اور اللہ سخت پکڑ اور سزا دینے والا ہے‘‘۔
رازی کہتے ہیں :’’(حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ)معنی یہ ہے کہ رسول پر جہاد اور لوگوں کو اس کی رغبت دلانا واجب ہے جب وہ یہ دونوں کام سرانجام دیدے تو اس نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرلی لہٰذا رسول کے اس کے علاوہ چھوڑنے پر تارک جہادنہیں کہاجائے گا‘‘۔(تفسیر الرازی : 308/5)
امام السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’(حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ)کہ قتال پر مومنین کو رغبت دلائیں اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس سے مومنین میں نئی جان پیدا ہواور ان کے دل مضبوط ہوں لہٰذا اس میں یہ بھی شامل ہے کہ دشمنوں کے بارے میں ایسی خبریں دی جائیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ بزدل ہیں اور جہاد کا اجر وثواب واضح کرنابھی اور ترک جہاد کی وعید بھی واضح کرنا اس میں شامل ہے ‘‘۔ٰتفسیر السعدی:190/1)
بلکہ مزے کی بات تویہ ہے کہ شیخ عبدالقادر نے خود یہ کہا ہے کہ ’’جو جہاد سے عاجز ہے اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو جہاد کی رغبت دلائے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے :( فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلًا۔(نساء:84))’’اے نبی اللہ کی راہ میں قتال کریں نہیں مکلف بنایاجارہا مگر آپ کے نفس کو اورمومنین کو جہاد کی رغبت دلائیں ‘‘دوسری جگہ ارشاد ہے :’’اے نبیeمومنین کو جہاد کی رغبت دلائیں ‘‘یہ قدرت رکھنے والے اور عاجز دونوں پر واجب ہے اور تمام مسلمانوں پر کہ وہ اپنے بھائیوں کو مشرکین کے خلاف قتال کی رغبت دلائیں اورا س زمانہ میںہمیں اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ان آیات پر عمل کرکے یہ اجر عظیم حاصل کرسکیں نبی علیہ السلام نے فرمایا’’جو شخص کسی بھلائی کی دلالت کرتا ہے تو اس کو اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو (رواہ مسلم)‘‘۔(العمدۃ:40)
مگرصاحب ’’وثیقہ‘‘ جس چیز کا علمبردار ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بالکل خلاف ہے یہ امت کے دشمنوں کی حالت سے ہمیں خوف زدہ کررہے ہیں اور ہم میں مایوسیاں پھیلارہے ہیں اور دشمن کو بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہیں اور مجاہدین کی انتہاء درجے کی تشنیع کررہے ہیں بلکہ مجاہدین کو مفسدین کی صورت میں پیش کررہے ہیں بلکہ یہ امت کو عاجزی ذلت رسوائی کا درس دے رہے ہیں کہاں شرعی احکامات اورکہاں ان کی یہ بزدلانہ تعلیمات؟؟
دوسری بات: جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قدرت وجوب جہاد کے لئے شرط ہے تو اس کی کوئی حد بھی ہونی چاہیے کہ قدرت سے کیا اور کتنی مراد ہے جس کو حاصل کرکے ہم پر جہاد فرض ہوتا ہے اورکتنی کم قدرت سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوتی ہے اور یہ کہ یہ قدرت شریعت سے ثابت ہوگی یا عرف عام سے ؟حالانکہ ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی جس سے ہم کسی حکم کے وجوب اور اسقاط پر فیصلہ کرسکیں جیسا کہ نبی علیہ السلام نے نماز کے لئے حکم دیا کہ ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے توبیٹھ کر اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو کروٹ کے بل ۔(بخاری)‘‘اس کی سعی کو استطاعت کے سپرد کردیا اور یہ استطاعت ایسی نہیں ہے کہ جس پر وجوب موقوف ہو بلکہ یہ ایساامر ہے کہ جو نہ تو مسلمانوں کی حد پر موقوف ہے اور نہ اس کی مقدار پر اکتفاء کیاجائے گا بلکہ مسلمانوں پر یہ ضروری ہے کہ ہمیشہ اس کو حاصل کرنے کی سعی کرتے رہیں بلکہ اس میں اضافہ کرتے رہیں پس ہر قسم کا اسلحہ سازی یا جنگ کی تیاری یا ٹیکنالوجی کا حصول یا جدید قسم کی ایجادات کا حصول مسلمانوں کے لئے شرعی حکم ہے اسی بات کا حکم اس آیت میں دیاگیا ہے :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ ٰاخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اَﷲُ یَعْلَمُہُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.(انفال:60)
’’اور ان کے خلاف جتنا ہو سکے طاقت تیار کرو گھوڑے دوڑانے کی تیاری کرو جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوف زدہ کرو اور ان دوسروں کو بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے اور جو بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تمہیں پورا پورا مل جائے گا تم پر ظلم نہیں کیاجائے گا‘‘۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’پھر اللہ نے جنگی آلات کی تیاری کاحکم دیا تاکہ کفار سے مقابلہ کیا جاسکے اپنی طاقت وسعت کے مطابق ( وَ اَعِدُّوْا لَہُم)یعنی جس قدر ممکن ہوسکے ان کے خلاف تیاری کرو‘‘۔(تفسیر ابن کثیر : 80/4)
اس سے معلوم ہوا شریعت نے استطاعت کی کوئی حد مقرر نہیں کی کہ جس سے جہاد پر مکلف بنایا جاسکے یا جس کے نہ ہونے یاکمی پر جہاد کو ساقط قراردیا جاسکے اور یہ بات بھی ہمارے علم میں رہنی چاہیے کہ شریعت نے ہمیں ان امور کا مکلف نہیں بنایا جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے لہٰذا اب ایک ایسی جہت متعین ہونی چاہیے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ امت جہاد کی مکلف ہے یا نہیں اور وہ جہت کیا ہے جس سے ہم یہ معلوم کرسکیں ؟؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
قیدی کو قیادت نہیں دی جاسکتی

مرشد نے کہا :’’اوّلاً میں کہتاہوں کہ یہ عبارت کہ (قیدی کی امارت جائزنہیں )مطلق صحیح نہیں ہے الاحکام السلطانیہ کے اصحاب الماوردی اور ابویعلیٰ نے ذکرکیا ہے کہ اگر مسلمانوں کا امام دشمن کی قید میں چلاجائے تو اس کی امامت باقی رہے گی اس کو امامت سے علیحدہ اس وقت تک نہیں کیاجائے گا جب تک اس کی خلاصی سے مایوس نہ ہوجائیں ‘‘۔
اوّلاً تویہ ہے کہ کس نے کہا ہے کہ یہ عبارت (لاولایۃ للأسیر)مطلق ہے جس کو دیکھ کر فوراً کاتب کو امام الماوردی اورابویعلیٰ کا سہارا لے کر باطل کرنا پڑا۔اور اس عبارت کو انہوں نے شبہ کیسے قرار دیدیا؟اور پھر’’وثیقہ‘‘لکھنے سے قبل ہی اس کا رد کرنے کی جستجو شروع کردی تاکہ اپنے افکار کو ثابت کرسکیں اور اس قول سے جو چیز سامنے آتی ہے ہرممکن طریقے سے اس کو رد کرسکیں اسی وجہ سے مرشد نے میرا قول نقل کرنے کے بعد کہا کہ ’’جن لوگوں نے یہ مسئلہ اٹھایاہے ان لوگوں کو خود اس بات میں شبہ ہے کہ مجبور شخص کا اقرار غیر صحیح ہے اور اس کا اثر مرتب نہیں ہوتا‘‘۔
ہم اس کا جواب یہ دیں گے کہہ صاحب’’وثیقہ‘‘ اس لئے منظر عام پر لایا گیا ہے تاکہ صلیب کے علم برداروں کا ایجنڈہ مکمل کیا جائے اور جن کا مقصد یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں پر طعن وتشنیع اور ذلیل ورسوا کیاجائے لہٰذا اگرالمرشد (جو کہ خود اسی قبیل سے تعلق رکھتا ہے)اپنے ایمان کو بھی گواہ بناکر لے آئے کہ ہم اس ڈکٹیٹر حکومت سے بری ہیں اور یہ کہ یہ صاحب’’وثیقہ‘‘ ہم نے حکومت کے کہنے پر نہیں لکھا (حالانکہ اس میں انہیں کے اغراض ومقاصد کی تکمیل کی گئی ہے)توہم پھر بھی ان کی تصدیق نہیں کریں گے اس کی چند وجوہات ہیں :
پہلی وجہ : شیخ عبدالقادر ایک لمبی مدت مجاہدین میں رہے ہیں اس وقت ان کا قلم وقرطاس ان کے ہاتھ کا فرماں بردار تھا یعنی وہ لکھنے میں آزاد تھے اس وقت ان کو واضح نصیحت اور واضح تنقید کی کوئی ممانعت نہیں تھی وہ تھی اصل ترشید ورہنمائی لیکن اب جو انہوں نے وثیقۃ الترشیدکے نام سے لکھنا شروع کیا ہے جس میں انہوں نے تمام مجاہدین پر یا اکثر پر تنقید کی ہے توکیا وجہ ہے جب وہ آزاد تھے تو تنقید نہیں کی مگر جب و ہ آج اسلام کے سب سے بڑے دشمن مصر کی قید میں ہیں تو تنقید کررہے ہیں؟؟
اگرچہ ہم اس بات سے ہرگز انکار نہیں کرتے کہ بعض مسائل ایسے بھی ہیں جو انہوں نے صاحب ’’وثیقہ‘‘ سے پہلے بھی اپنی کتب میں بیان کئے تھے جیسے مسئلہ تاشیرۃ ہے مگر اس کتاب میں ایسی چھلانگ لگائی ہے کہ اپنے لکھے ہوئے مسئلوں کے خلاف بہت کچھ لکھ ڈالا ہے بلکہ ایسے مسائل ثابت کردیئے ہیں پہلے وہ خود ان کا رد کرتے تھے بلکہ اگر کوئی اس کی مخالفت کرتا تو اس کے رد میں لمبی بحثیں کرتے تھے ۔چنانچہ جب ان دونوں چیزوں کو دیکھاجاتا ہے کہ پہلے کیا تھے اور اب جبکہ وہ مصری حکومت کی قید میں ہیں جہاں حکومت کی نگرانی میں لکھوایاجاتا ہے اور ایک ایک حرف ان کی منشاء کے مطابق لکھاجاتا ہے توحقیقت حال کھل کر سامنے آجاتی ہے اورصاحب’’وثیقہ‘‘ کی حقیقت بھی واضح ہوجاتی ہے اور یہ کہ اس کا فائدہ کس کو ہورہاہے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے اور ہمیں یہ بات بھی مکمل طور پر سمجھ آجاتی ہے کہ قیدی (لاولایۃ لہ)کو اختیارات حاصل ہوتے ۔
دوسری وجہ: یہ بات سب کو معلوم ہے کہ مصری حکومت خاص طور پر اور دیگر عرب حکومتیں عموماً اسلام کے خلاف واضح طورپر لڑنے میں مصروف ہیں اور اسلام کی طرف دعوت دینے والوں اور اسلام کے لئے جہاد کرنے والوں پر ان لوگوں نے زمین تنگ کردی ہے کہ جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی ۔اور ان پٹھوحکومتوں نے اپنے آلہ کاروں کی مدد کے لئے تمام وسائل استعمال کرنا شروع کردیئے چاہے اس کا انجام کتنا ہی برانکلے آج کے واقعات اس حقیقت کی نقاب کشائی کررہے ہیں اور آنے والا ہر لمحہ اسی بات کی غمازی کررہا ہے۔جب ان حکومتوں کی حقیقت حال یہ ہے توہمیں اچھی طرح طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وثیقۃ الترشید( جس کا موضوع ہے جہادی عمل کے لئے مصر اور پورے عالم کے لئے رہنمائی)کا اصل غرض ومقصود کیا ہوسکتا ہے کیونکہ یہ تو دومتناقض چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے کیونکہ ایک طرف تو وہ جہاد اوراسلام کو ختم کرنا چاہتے ہیں دوسری طرف جہاد کی رہنمائی کررہے ہیں لہٰذا آپ سمجھ لیں کہ وہ کیا رہنمائی کریں گے ؟چونکہ ان کے دماغ میںخاص طور پر کاتب صاحب ال’’وثیقہ‘‘ کے دفاع میں جہاد کا یہ مفہوم موجود ہے کہ جہاد کفار کے خلاف اس لئے قتال کرنے کانام تاکہ اللہ کا کلمہ بلند ہوجائے اوران لوگوں اور مرتد حاکموں کے خلاف اور ان کا ساتھ دینے والوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف قتال کرنے کا نام ہے لہٰذا صاحب ’’وثیقہ‘‘ اب جہاد کے اس مفہوم کو دراصل یہ معنی دینا چاہتا ہے کہ ایسا جہاد جو مصری حکومت کی مرضی سے ہو اور تمام عالم کفار کی مرضی سے وہ جہاد صحیح ہے ۔اس کی مزید وضاحت یوں ہے کہ مصری حکومت نہیں چاہتی کہ ان کی جیلوں سے ان کے مرضی وعلم کے خلاف کوئی چیز نکلے لہٰذا جیل سے برآمد شدہ صاحب’’وثیقہ‘‘ ہی اصل رہنمائی کرے گا اور مجاہدین کے دو تمنائیں اسی سے پوری ہوسکتی ہیں حصول ثواب اور ڈکٹیٹر حکومت کو گرا کر اسلامی حکومت کا قیام۔
اگر اس ڈکٹیٹر حکومت کی یہی مرضی ہے توپھر وہ مجاہدین کے خلاف اپنی سختیاں بند کیوں نہیں کردیتی ان کے خون قوت کی حفاطت کیوں نہیں کرتی اورحکومت مجاہدین کے سپرد کیوں نہیں کردیتی تاکہ صحیح اسلامی حکومت قائم ہوجائے اور ان کا مقصد پورا ہوجائے جیل میں لکھی گئی وہ وثیقۃ الترشیدجس میں مسئلہ (لا ولایۃ لأسر)پر فضول حواشی لکھ کر وقت ضائع کیاگیا اس کی بھی تمنا پوری ہوجائے ۔
تیسری وجہ : اگر کلام اس حد تک ہوتا کہ یہ شبہ غلط ہے کہ شیخ عبدالقادر کا کلام ایسے ولی کاکلام نہیں ہے جو امر اورنہی کا اختیار نہیں رکھتا تواس کے رد کے لئے یہی عبارت کافی تھی کہ (میں نے کسی کی ولایت کا دعویٰ نہیں کیا اور نہ میں کسی کے لئے لازم سمجھتاہوں کہ اس کی اطاعت کی جائے اور سناجائے قیادت میں سے اس کا کوئی وجود نہیں ہے میں توصرف ایک ناصح ہوں اور علم کا ناقل ہوں)مگر اس عبارت کو نقل کرنے کے بعد لمبی بحث کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی حالانکہ شبہ رفع کرنے کے لیے یہی عبارت کافی تھی خاص طور پر جبکہ تقریباً تمام مجاہدین یہ جانتے ہیں کہ شیخ عبدالقادر نہ توکبھی کسی جماعت کے امیر مقرر ہوئے اورنہ کوئی ایسی بات ہوئی پھر بھی تاکیداً اس کی تردید کرنا یہ تحصیل حاصل ہے ہمیں جو چیز سمجھ آرہی ہے کہ یہ مسئلہ اس موقع پر اور مقام پر کیوں اٹھایا جارہا ہے اسی بناء پر میں سمجھتا ہوں کہ اس مسئلہ کو (لاولایۃ لأسیر)اسیر کی ولایت جائزنہیں اس طرح اٹھانا اور اس کے لئے جدوجہد کرنا خود شکوک وشبہات کو جنم دے رہا ہے ۔اگر اس مسئلہ سے تاثر یہ دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ ان لوگوں کے متعلق بات ہے جو جیلوں کے وثیقے تسلیم نہیں کرتے مگر اصل مقصد ایسے شخص کی ولایت ثابت کرنا مقصود ہے جس کو قید کرلیاگیا اور اپنے سابقہ نظریات سے رجوع کرلیا تاکہ اس کی ولایت ثابت کرکے اس کے متبعین پر اس کی اطاعت لازم کردی جائے خواہ وہ شخص مصر میں ہو دنیاکے کسی بھی حصے میں خاص طور پر جبکہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیاکہ تمام ممالک اب اسینہجپر چل رہے ہیں چنانچہ صاحب ’’وثیقہ‘‘ یہی بات باور کرانا چاہتا ہے کہ (لا ولایۃ لأسیر)کا اطلاق ہر قیدی پر نہیں ہوتا بلکہ ممکن ہے کوئی شخص جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھ کر سابقہ نظریات سے رجوع کرے کوئی امر یا نہی کرے تو اس کی اطاعت کرنی چاہیے اور اس کے حق سے انحراف کے بعد احکام بھی قبول کے جائیں ۔وثیقۃ الترشید مجاہدین کو کہتی ہے کہ یہ عبارت (لا ولایۃ لأسیر)مطلق مراد نہیں لی جائے گی بلکہ ممکن ہے کہ کوئی اسیر اپنی ولایت پر باقی رہے اور وہ امر ونہی کرتا رہے لہٰذا ان کی جماعت اورمتبعین پر ضروری ہوگا کہ وہ اس کی اطاعت کریں ۔
چوتھی وجہ: اگر ولایت الاسیر مطلق نفی نہیں کی جاتی تو اس کایہ مطلب بھی نہیں ہے کہ اسیر کی طرف سے جو بھی بات آئے اور ہر اسیر کی بات کو قبول کرلیاجائے بغیر کسی استثناء کے اوربغیر مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے بلکہ مصالح امور کا خیال رکھاجائے گا اور حالات واقعات دیکھ کر فیصلہ کیاجائے گا اب رہی مثال وثیقۃ الترشید کی تواگرچہ قید کی سختی کی وجہ سے یہ نہ بھی لکھی گئی ہو پھر بھی شبہات سے خالی اس لئے نہیںہے کہ اس میں جو کچھ بیان کیاگیا وہ سب ان کی سابقہ کتب کے خلاف ہے اور یہ بات شواہد قطعیہ سے ثابت ہوچکی ہے لہٰذا جو شخص قید کی حالت میں کچھ لکھ رہا ہے اور آزادی کی حالت میں کچھ اور دونوں ایک دوسرے کے مناقض باتیں ہیں اور خاص طور قید کی حالت میں لکھی گئی باتیں شرع کے خلاف ہیں تو ان کاکیسے اعتبار کیا جاسکتاہے اسی وجہ سے جناب عمررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’آدمی اپنے نفس کا اس وقت امین نہیں ہوتا جب وہ قید میں ہو یا باندھ دیا گیا ہو یا اس کو تکلیف دی جارہی ہو‘‘۔
ہمارے کلام (لا ولایۃ لأسیر)کا تعلق ایسی ولایت سے جس میں وہ امر ونہی کرتا ہو یعنی اس کے احکامات نافذ ہوتے ہوں اس کی اطاعت ہوتی ہو نہ کہ ایسا کوئی مسلمان شخص جو قید کرلیاگیا ہو اس کا کلام منقول ہوتا ہو مگر اس کی حیثیت امر ونہی کی نہ ہو تو وہ اس عبارت سے مراد نہیں ہے۔مگر یوسف علیہ السلام کی دعوت جو انہوں نے جیل میں دی وہ کچھ اور چیزہے اورصاحب ’’وثیقہ‘‘ کی روش کچھ اور ہے بلکہ عبث ہے مرشد نے یوسف علیہ السلامکے واقعہ سے استدلال کیاہے کہ انہوں نے جیل میں وعظ کیا تھا کیا ان کاجیل میں وعظ کرنا حق کو چھوڑنے کی دلیل بن سکتی ہے؟
یہی حال ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام سرخسی رحمہ اللہ کا ہے یہ دونوں بھی جیل میں تھے حالانکہ ان کا اس مقام پر ذکر اور دلیل پکڑنا دھوکہ بازی ہے کیونکہ یہ بات کسی نے بھی نہیں کی کہ جو کچھ بھی جیلوں میں آئے گا وہ مردود ہوگابلکہ میں نے توصاحب’’وثیقہ‘‘ کے صدور سے کئی ماہ قبل اس بات کی تصریح کی تھی کہ ’’ممکن ہے کہ میں آپ کے سامنے اپنی نظر کے مطابق طریقہ صحیحہ کا خلاصہ پیش کرسکوں اس خطرناک قضیہ میں جو نقاط میں واقع ہوا ہے پہلایہ کہ قیدی بھائی جن کی طرف رجعت کی نسبت کردی گئی وہ زبردستی وقہر کی حالت میں ہیں لہٰذا ان سے زبردستی اقوال نقل کرائے جارہے ہیں اور ان پر سختی کرکے ایسا منہج تیار کرایاگیاہے جس کو دیکھ کر ایک ادنیٰ فہم رکھنے والا شخص بھی جان لیتا ہے کہ اس منہج کا شرعی دلائل سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہے لہٰذا ان جدید افکار سے توقف اختیارکرنا ضروری ہے کیونکہ یہ افکار جدید ہونے کے ساتھ مطروحہ بھی ہیں یعنی قبول ہونے کے قابل نہیں ہیں صرف مخصوص لوگوں کے خیال سے مطابقت رکھتے ہیں اور یہ توقف اس وقت تک اختیار نہ کیاجائے گا جب تک وہ آزاد ہو کر اس کی وضاحت نہیں کردیتے اور وہ بااختیار ہوکر اس کی وضاحت کریں ۔
جب شریعت نے کلمہ کفرکہنے تک کی رخصت دی بحالت اکراہ بشرطیکہ ایمان موجود ہو اور دل اس پرمطمئن ہو تو جو کفر کم درجے کی باتیںہیں ان کی تو بدرجہ اولیٰ رخصت ہے کہ اگر وہ بحالت جبر کردی جائیں ان کی پکڑ نہیں ہے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ کَفَرَ بِاﷲِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَٰلکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اﷲِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْم۔(النحل:106)
’’جس شخص نے ایمان لانے کے بعد اللہ کا انکار کیا مگر الَّا وہ شخص جو مجبور کردیا گیا ہو اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو مگر جس نے اپنا سینہ کفر کے لئے کھول دیا ان پر اللہ کا غضب ہے اورعذاب عظیم ہے‘‘۔
دوسری بات: جو لوگ ان رجعت پسندوں کے معاملے کو دلیل بناکر کہتے ہیں کہ یہ بھی توتمہارے بھائی ہیں لہٰذا تم بھی ان جیسا طرزعمل اختیار کرو تو اس کے جواب میں ہم یہی کہیں گے کہ کسی کے تجربوں سے فائدہ اٹھانا اور چیز ہے اور ان تجربوں کو بنیاد بناکر فیصلہ کرنا اور اس کو قولِ فیصل قرار دینا اور چیز ہے لہٰذا ان دونوں میں فرق کرنا ضروری ہے اختلاف دور کرنے اور حکم قول فیصل کی حیثیت صرف کتاب وسنت کو حاصل ہے ان ہی دونوں کے ذریعے بندوں کے اقوال واعمال وزن کئے جاتے ہیں اور لوگوں کے تنازعات اسی سے حل کئے جاتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اﷲِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا۔(نساء:59)
’’اے ایمان والو اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اولی الامر کی اطاعت کرو اگرتم میں تنازع ہوجائے کسی چیز میں بھی تو اس کولوٹادو اللہ اور اس رسول کی طرف اگر تم یقین رکھتے ہو اللہ اور آخرت کے دن پر یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور احسن ہے انجام کے لحاظ سے‘‘۔
لہٰذا حق سے رجوع کرنا باطل کواختیار کرنے والوں کے تجربہ کو حجت شرعیہ بنانا کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہے کہ ہم اختلافی صورت میں ان کی طرف رجوع کریں اور یہ درست نہیں ہے کہ کوئی اگرہمیں کہے کہ تم جس مسلک ومنہج کو اختیارکئے ہوئے ہو اور اس پرمُصر ہو تمہارے فلاں فلاں ساتھی تو اس سے رجوع کرچکے ہیں حالانکہ وہ اہل علم اور دیگر معاملات میں تم سے آگے ہیں توہم ان کو یہ جواب دیتے ہیں کہ بے شک وہ علم میں ہم سے زیادہ ہیں مگر وہ ایسے مقدس نہیں ہیں کہ ان کے اقوال پر تنقید اعتراض نہیں ہوسکتے ہوں لہٰذا ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ شرعی اور اعتبار سے اور دیانت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ ہر رجوع کرنے والے کے قول کو شریعت کی میزان میں تولیں کیونکہ وہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتی اور ان کے اعمال واقوال کو دلائل کی عدالت میں لاکر فیصلہ کرائیں لہٰذا دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا اور حق کا وباطل کا فیصلہ ہوجائے گا کہ کون سی فکر صحیح او رکون سی غلط ہے مگر کسی کے تجارب کو مطلق قول تسلیم وقبول کرلینا بغیر کتاب وسنت پر پیش کئے یہ گمراہی کا سبب ہے اور ایسے شخص کا دین محفوظ رہنا مشکل ہے اور کسی طالب حق کے لئے یہ قطعاً جائزنہیں ہے۔
بعینہ یہی معاملہ ہمارا وثیقۃ الترشید کے ساتھ بحث ومناقشہ کے موقع پر ہوتا ہے حالانکہ ہمیں کامل یقین ہے کہ یہ صرف مجاہدین کے خلاف اور جہاد میں تحریف کرنے کے لئے لکھی گئی ہے اور سب سے بڑا مقصد یہ کہ زبردستی مسلط شدہ حکمرانوں کی حکمرانی باقی رہے اور وہ خوب فائدے اٹھاتے رہیں اور یہ بات وقتاً فوقتاً ہم اپنے مناقشات اور بحوث میں ذکر کرتے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے ذہنوں سے حقیقت حال اوجھل نہ ہوجائے اور طویل مناقشات کی وجہ سے اصل صورتحال غائب نہ ہوجائے لہٰذا کہاں صاحب ال’’وثیقہ‘‘ کی دین میں تحریفات اورکہاں مجاہدین کی وہ کاوشیں جس کے ذریعے انہوں نے ان کی مجرمانہ سرگرمیاں بے نقاب کیں کہاں یہ لوگ اورکہاں یوسف علیہ السلام کی نصیحت جو انہوں نے جیل میں لوگوں کو کیں یا ابن تیمیہ اور سرخسیH کی جدوجہد؟؟یوسف uنے جو جیل میں دعوت دی اس میں انہوں نے ایک کلمہ بھی ایسا استعمال نہیں کیا جس سے بادشاہ کی حمایت جھلکتی ہو یا اس کے دین کی حمایت ہوتی ہو بلکہ جو دعوت دی وہ مکمل طور پر اس کے دین کے خلاف تھی کیونکہ آپ نے کہا :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ ءَ اَرْبَابٌ مُّتَفَرِّقُوْنَ خَیْرٌ اَمِ اﷲُ الْوَاحِدُ الْقَہَّارُ، مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلَّآ اَسْمَآئً سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَ ٰابَآؤُکُمْ مَّآ اَنْزَلَ اﷲُ بِہَا مِنْ سُلْطٰنٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ اَمَرَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلَّآ اِیَّاہُ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ ٰلکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ۔(یوسف:40-39)
’’اے جیل کے ساتھیو! کیا مختلف رب بہتر ہوتے ہیں یا ایک اللہ زبردست جن کی تم عبادت کرتے ہو اللہ کے مقابلے میں وہ تونام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباء نے رکھ لئے ہیں اللہ نے اس بارے میں کوئی دلیل نہیں نازل کی حکم اللہ کا چلتا ہے اس نے حکم دیا ہے کہ تم نہ عبادت کرو مگر اسی کی یہی دین ہے جو قائم رہنے والا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔
لہٰذا جیل میں یوسف علیہ السلام کی دعوت تو صرف توحیدکی اور دین قیم کی دعوت تھی نہ کہ ارباب اختیار اور ان کے پیروکاروں کے مفادات کی ۔جیسا کہ امام ابن جریر aنے کہا ہے کہ :’’آپ کا یہ فرمان (ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ)اس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ میں جس چیز کی تمہیں دعوت دے رہاہوں وہ یہ ہے کہ تم ماسویٰ اللہ سے بیزار ہوجاؤ یعنی بتوں سے اور خالصتاً واحد القہار کی عبادت اختیار کرو کیونکہ یہی قائم رہنے والا دین ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں ہے اور یہی وہ حق ہے جس میں کوئی شک نہیں ہے ‘‘۔(تفسیر طبری :106/16)
استاذ سید قطب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’یوسف علیہ السلام نے دین کی علامات کو پختہ کردیا اپنے ان تھوڑے سے کلمات منیرہ سے اور دین کے عقائد واضح کردیئے اور شرک ،جاہلیت اور طاغوت کی بنیادیں شدید ہلاکر رکھ دیں‘‘۔(فی ظلال القرآن : 311/4)
یوسف uکی یہ دعوت کسی ڈکٹیٹر حکمران کے تحت نہیں تھی اورنہ کسی حکمران نے اس کی ترویج کی اورنہ کسی حکمران کے کہنے پردی بلکہ یہ دعوت توان کی مصلحتوں کے بھی خلاف تھی لہٰذایہ کہاں اور وہ کہاں ؟؟بلکہ جب آپ علیہ السلام کو جیل سے آزادی کی خوشخبری دی گئی تو آپ علیہ السلامنے انکار کردیا تھا جب تک سب کو یہ علم نہ ہوجائے کہ وہ الزام سے بری ہیں جو ان پر عائد کیا گیاتھا جیساکہ اللہ فرماتا ہے:
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوْنِیْ بِہٖ فَلَمَّا جَآئَہُ الرَّسُوْلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْئَلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیْ قَطَّعْنَ اَیْدِیَہُنَّ اِنَّ رَبِّیْ بِکَیْدِہِنَّ عَلِیْمٌ. (یوسف:50)
’’اور کہابادشاہ نے اس کو میرے پاس لاؤ جب قاصد ان کے پاس آیا تو آپ علیہ السلام نے کہا تم اپنے مالک کے پاس واپس جاؤ اور اس سے ان عورتوں کے بارے میں پوچھو جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے بے شک میرا رب ان کے مکروفریب سے واقف ہے‘‘۔
علامہ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اللہ فرماتا ہے کہ بادشاہ نے کہا ان لوگوں کو جو اس کے پاس تھے میرے پاس یوسف uکو لاؤ یعنی اس کو جیل سے نکالو میرے پاس حاضر کرو جب قاصد یوسف علیہ السلامکے پاس آیا اور اس نے حکم دیا کہ وہ بادشاہ کے پاس حاضر ہوجائیں توفوراً انہوں نے منع کردیا اس وقت تک کہ ان کی مکمل براء ت ظاہر ہوجائے یہ ان کے صبر ،عقل مندی ،کامل ذہانت کی دلیل ہے۔(تفسیر السعدی:400/1)
اور نبی علیہ السلام نے ان کے اس صبر کو آپعلیہ السلام کے مناقب میں یوں بیان کیا ’’اگر میں جیل میں ہوتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے تومیں بلانے والے کی دعوت قبول کرلیتا ‘‘۔(متفق علیہ)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’آپ علیہ السلام کی مدح میں حدیث وارد ہوئی ہے جو آپ کے فضل وشرف پر اور علو مرتبت وصبر پر دلالت کرتی ہے ‘‘پھر آپ رحمہ اللہ نے حدیث بیان کی ۔(تفسیر ابن کثیر:393/4)
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اس حدیث کا مطلب کہ اگر میں اتنی لمبی مدت جیل میں رہتا جتنی یوسف علیہ السلام رہے اور پھر بلانے والا آتا تومیں فوراً قبول کرلیتا یہ ہے کہ اس بات کوقبول کرنے میں جلد بازی کرتا آپeنے یوسف uکے صبر کو واضح کیاہے کہ انہوں نے نکلنے میں جلدی نہیںکی اور آپ eنے اپنے بارے میں جو بات کہی وہ بطور تواضح کہی ہے اور تواضح سے کسی بڑے میں کمی واقع ہونے کی بجائے اس کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے بعض نے کہا کہ یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح آپ eنے فرمایا’’ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دینا ‘‘بعض نے کہا ہے کہ آپ کی یہ بات اس وقت کی ہے جب آپ ﷺکو یہ معلوم نہ تھا کہ آپ eتمام انبیاء سے افضل ہیں ‘‘۔(فتح الباری:413/6)
لہٰذا بحث اس میں نہیں تھی کہ جیل سے جو کچھ بھی ٓئے اس کو رد کیاجائے گا بلکہ بات اس میں تھی کہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ چونکہ جیل میں لکھی گئی ہے اور چونکہ یہ حکمرانوں اور ان کے صلیبی علم بردار سرپرستوں کے حکم اور منشاء کے مطابق لکھی گئی ہے لہٰذا اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور یہ بات ہر شخص جانتا ہے کہ جو شخص جیل میں ہو اور اس کی سختیوں میں ہووہ اس کی مرضی کے مطابق ہی چلتا ہے لہٰذا ہم یہی کہیں گے کہ یہ کتاب بھی ان طاغوتی قوتوں کے اشارے اورحکم پر لکھی گئی ہے اور مقصود یہ ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو جہاد کے راستے روکے جائیں اور مجاہدین کو اپنے عظیم مقاصد سے ہٹاکر ان مقاصد پر لگادیاجائے جوصاحب ’’وثیقہ‘‘ کا ہدف ہے اس طرح مجاہدین سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور یہ طاغوتی قوتیں اور اس زمانہ کا’’ قیصر ‘‘امن وامان سے حکومت کرتا رہے اور اس کو کسی قسم کی روک ٹوک کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
چنانچہ مرشّد (خودساختہ رہنما)لکھتا ہے کہ:’’جہاد جو کہ اس صاحب ’’وثیقہ‘‘ کا موضوع ہے یہ بھی دیگر ان امور دینیہ کی طرح ہے جس میں قدرت رکھنا ضروری ہے لہٰذا جہاد تب واجب ہوتا ہے جب آپ اس کی قدرت رکھتے ہوں مگر قدرت سے مراد مالی وبدنی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد حالات ومقام ہے کہ موافق ہیں یا مخالف ہیں اسی بناء پر اللہ نے اصحابِ کہف کی اسی طرح تعریف کی جس طرح مجاہدین کی تعریف کی ہے حالانکہ وہ اپنی قوم سے علیحدہ ہوگئے تھے اسی طرح اللہ نے اس مومن کی تعریف کی جو موسیٰ uپر ایمان لایا تھا مگر اپنا ایمان چھپارکھاتھا اب آپ ان تینوں کا جائزہ لیں یعنی مجاہدفی سبیل اللہ کا دوسرا اصحابِ کہف تیسرا وہ مومن جس نے اپنا ایمان مخفی رکھا تینوں دیندار ہیں مگر تینوں کا عمل مختلف ہے اس کے باوجود تینوں قابل تعریف ہیں کیونکہ ان تینوں نے وہ عمل کیا جو ان پر شرعاً اس وقت اور جگہ کے لحاظ سے اور اس کی استطاعت ے مطابق واجب تھا ‘‘۔انتہی
جو بھی شخص یہ ’’وثیقہ‘‘ پڑھتا تووہ بغیر کسی شک وشبہ کے یہ گواہی دیتا ہے کہ اس کا مقصد اول یہ ہے کہ مجاہدین اور قابض حکومت اور اس کے صلیبی سرپرستوں کے درمیان یہ کتاب حائل ہوجائے اور اس نے اپنی بساط کے مطابق حائل ہونے کی کوشش بھی کی کبھی کہا کہ جہاد کی اقامت کے راستے بندہیں کبھی مجاہدین کے خلاف شکوک وشبہات کھڑے کئے کہ یہ جہاد نہیں کرسکتے کبھی کہا کہ جہاد ترک کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہے کیونکہ لوگ عاجز کمزور ہیں اورکسی حکم کے مکلف ہونے کی شرط قدرت واستطاعت ہے پھرصاحب’’وثیقہ‘‘ نے مکلف ہونے کی شرائط تفصیل سے ان مقاصد کے تحت ہی بیان کیں اور ان میں سے علم کو شرط اول قراردیا پھر بڑے خفیہ طریقہ سے علم میں بحث میں دھوکہ دینے کی کوشش کی اور اس علم کو جو مکلف ہونے کے لئے ضروری ہے اور ا س علم کو جس کا حصول تکلیف کے نتیجہ کو حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے دونوں کو خلط ملط کرکے بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ جب علم اور قدرت دونوں موجود نہیں ہیں جبکہ یہ دونوں مکلف ہونے کے لئے شرط ہیں تو لہٰذا اس حکم تک پہنچنا بھی ضروری نہیں ہے یعنی جہاد ضروری نہیں ہے اور مقصد صرف یہ تھا کہ کسی طرح امت مسلمہ سے جہاد کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا جائے کیونکہ جہاد کی تمام شروط ان کے خیال کے مطابق مفقود ہیں چنانچہ اس تکلیف کے اٹھ جانے اور اس کے گناہ کے اٹھ جانے کے بعد مسلمان بڑے آرام سے زندگی بسر کرسکیں اور یہ طاغوتی حکمران اور ان کے طاغوتی سرپرست خوب نعمتوں سے ممتع ہوں اور یہ قبضہ گروپ ڈکٹیٹر حکمران ہمیشہ حکمرانی کرتے رہیں ان کے لئے کسی قسم کی روک ٹوک ،رکاوٹ نہ ہو۔
یہاں چند امور پر تنبیہ کرنا ضروری ہے:
پہلی بات: اگر بالفرض جہاد عدم قدرت وعدم استطاعت کی بناء پر فرض نہ بھی ہو تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ امت کو جہاد کی رغبت دلانا اور اس کا احیاء کرنا بھی ساقط ہوگیاہے لہٰذا جہاد کی وہ حقیقت بیان کرنا جو دشمن کی تیار کردہ ہے اور امت کو دشمن کی تدبیروں اور سازشوں سے خوف زدہ کرنا اور یہ کہنا کہ امت عاجز وکمزوری سے علم کے ذریعے نکل سکتی ہے اور یہ کہنا کہ امت کے لئے کامیابی کا یہی طریقہ ہے حالانکہ امت کو کمزوری کی یہ تعلیم دینا اور اس عاجزی وکمزوری سے مفاہمت کا درس دینااور ان حالات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی تعلیم دینا دراصل شریعت کے احکامات کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے کیونکہ اللہ کا حکم یہ ہے:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَلَی الْقِتَالِ۔(انفال:65)
’’اے نبی آپ (e)مومنین کو قتال کی رغبت دلائیں‘‘۔
دوسراحکم یہ ہے کہ :
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلًا۔(نساء:84)
’’(اے نبی)اللہ کی راہ میں قتال کیجئے نہیں مکلف بنایاجارہا ہے مگر آپ کو اور مومنین کو قتال کی رغبت دلائیں قریب ہے اللہ ان لوگوں کی پکڑ کو روک دے جو کافر ہوئے اور اللہ سخت پکڑ اور سزا دینے والا ہے‘‘۔
رازی کہتے ہیں :’’(حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ)معنی یہ ہے کہ رسول پر جہاد اور لوگوں کو اس کی رغبت دلانا واجب ہے جب وہ یہ دونوں کام سرانجام دیدے تو اس نے اللہ کے حکم کی تعمیل کرلی لہٰذا رسول کے اس کے علاوہ چھوڑنے پر تارک جہادنہیں کہاجائے گا‘‘۔(تفسیر الرازی : 308/5)
امام السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’(حَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ)کہ قتال پر مومنین کو رغبت دلائیں اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جس سے مومنین میں نئی جان پیدا ہواور ان کے دل مضبوط ہوں لہٰذا اس میں یہ بھی شامل ہے کہ دشمنوں کے بارے میں ایسی خبریں دی جائیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ وہ بزدل ہیں اور جہاد کا اجر وثواب واضح کرنابھی اور ترک جہاد کی وعید بھی واضح کرنا اس میں شامل ہے ‘‘۔ٰتفسیر السعدی:190/1)
بلکہ مزے کی بات تویہ ہے کہ شیخ عبدالقادر نے خود یہ کہا ہے کہ ’’جو جہاد سے عاجز ہے اسے چاہیے کہ وہ لوگوں کو جہاد کی رغبت دلائے کیونکہ اللہ کا فرمان ہے :( فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلًا۔(نساء:84))’’اے نبی اللہ کی راہ میں قتال کریں نہیں مکلف بنایاجارہا مگر آپ کے نفس کو اورمومنین کو جہاد کی رغبت دلائیں ‘‘دوسری جگہ ارشاد ہے :’’اے نبیeمومنین کو جہاد کی رغبت دلائیں ‘‘یہ قدرت رکھنے والے اور عاجز دونوں پر واجب ہے اور تمام مسلمانوں پر کہ وہ اپنے بھائیوں کو مشرکین کے خلاف قتال کی رغبت دلائیں اورا س زمانہ میںہمیں اس بات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ان آیات پر عمل کرکے یہ اجر عظیم حاصل کرسکیں نبی علیہ السلام نے فرمایا’’جو شخص کسی بھلائی کی دلالت کرتا ہے تو اس کو اتنا ہی اجر ملتا ہے جتنا کرنے والے کو (رواہ مسلم)‘‘۔(العمدۃ:40)
مگرصاحب ’’وثیقہ‘‘ جس چیز کا علمبردار ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے بالکل خلاف ہے یہ امت کے دشمنوں کی حالت سے ہمیں خوف زدہ کررہے ہیں اور ہم میں مایوسیاں پھیلارہے ہیں اور دشمن کو بڑھا چڑھا کر بیان کررہے ہیں اور مجاہدین کی انتہاء درجے کی تشنیع کررہے ہیں بلکہ مجاہدین کو مفسدین کی صورت میں پیش کررہے ہیں بلکہ یہ امت کو عاجزی ذلت رسوائی کا درس دے رہے ہیں کہاں شرعی احکامات اورکہاں ان کی یہ بزدلانہ تعلیمات؟؟
دوسری بات: جب ہم یہ کہتے ہیں کہ قدرت وجوب جہاد کے لئے شرط ہے تو اس کی کوئی حد بھی ہونی چاہیے کہ قدرت سے کیا اور کتنی مراد ہے جس کو حاصل کرکے ہم پر جہاد فرض ہوتا ہے اورکتنی کم قدرت سے جہاد کی فرضیت ساقط ہوتی ہے اور یہ کہ یہ قدرت شریعت سے ثابت ہوگی یا عرف عام سے ؟حالانکہ ہمیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ شریعت نے کوئی حد مقررنہیں کی جس سے ہم کسی حکم کے وجوب اور اسقاط پر فیصلہ کرسکیں جیسا کہ نبی علیہ السلام نے نماز کے لئے حکم دیا کہ ’’کھڑے ہوکر نماز پڑھو اگر تم اس کی استطاعت نہیں رکھتے توبیٹھ کر اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو کروٹ کے بل ۔(بخاری)‘‘اس کی سعی کو استطاعت کے سپرد کردیا اور یہ استطاعت ایسی نہیں ہے کہ جس پر وجوب موقوف ہو بلکہ یہ ایساامر ہے کہ جو نہ تو مسلمانوں کی حد پر موقوف ہے اور نہ اس کی مقدار پر اکتفاء کیاجائے گا بلکہ مسلمانوں پر یہ ضروری ہے کہ ہمیشہ اس کو حاصل کرنے کی سعی کرتے رہیں بلکہ اس میں اضافہ کرتے رہیں پس ہر قسم کا اسلحہ سازی یا جنگ کی تیاری یا ٹیکنالوجی کا حصول یا جدید قسم کی ایجادات کا حصول مسلمانوں کے لئے شرعی حکم ہے اسی بات کا حکم اس آیت میں دیاگیا ہے :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ ٰاخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اَﷲُ یَعْلَمُہُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.(انفال:60)
’’اور ان کے خلاف جتنا ہو سکے طاقت تیار کرو گھوڑے دوڑانے کی تیاری کرو جس سے تم اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوف زدہ کرو اور ان دوسروں کو بھی جن کو تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے اور جو بھی تم اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تمہیں پورا پورا مل جائے گا تم پر ظلم نہیں کیاجائے گا‘‘۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’پھر اللہ نے جنگی آلات کی تیاری کاحکم دیا تاکہ کفار سے مقابلہ کیا جاسکے اپنی طاقت وسعت کے مطابق ( وَ اَعِدُّوْا لَہُم)یعنی جس قدر ممکن ہوسکے ان کے خلاف تیاری کرو‘‘۔(تفسیر ابن کثیر : 80/4)
اس سے معلوم ہوا شریعت نے استطاعت کی کوئی حد مقرر نہیں کی کہ جس سے جہاد پر مکلف بنایا جاسکے یا جس کے نہ ہونے یاکمی پر جہاد کو ساقط قراردیا جاسکے اور یہ بات بھی ہمارے علم میں رہنی چاہیے کہ شریعت نے ہمیں ان امور کا مکلف نہیں بنایا جن کی ہم طاقت نہیں رکھتے لہٰذا اب ایک ایسی جہت متعین ہونی چاہیے جس سے ہم یہ جان سکیں کہ امت جہاد کی مکلف ہے یا نہیں اور وہ جہت کیا ہے جس سے ہم یہ معلوم کرسکیں ؟؟
 
شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
تیسری بات: یہ سابقہ بات سے تعلق رکھتی ہے اور یہ جواب ہے سابقہ سوال کا کہ ہر وہ شخص جو جہاد کی طرف توجہ کرتا ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ جہاد کی استطاعت رکھتا ہے مگرجب جہاد کے میدان میں جاتا ہے تو راہ فرار اختیار کرلیتا ہے اگر آدمی کی استطاعت اس کی اپنی نظر سے معتبر ہوتی تو پھر جب وہ جہاد کے میدان سے فرار اختیار کرتا تومواخذہ کیوں ہوتا جبکہ مواخذہ تو فرع ہے تکلیف کی اور عدم قدرت واستطاعت پر تکلیف نہیں دی جاسکتی لہٰذا جب استطاعت اور قدرت موقوف ہے توایک شخص کے اپنے اندازے سے یہ رائے قائم کرنا کہ وہ استطاعت نہیں رکھتا مگر پھر بھی اس کا مواخذہ کیوں ہوا؟
یہ بات بھی معلوم ہے کہ شریعت میں اس قسم کی مثالیں نہیں دی جاتیں منافقین نے بھی اپنی عدم استطاعت کوجواز بناکر جہاد سے دور رہنے کی کوشش کی مگر اللہ نے ان کو جھوٹا قرار دیدیاچنانچہ ارشاد باری ہے:
وَسَیَحْلِفُوْنَ بِاﷲِ لَوِاسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ۔(توبۃ:42)
’’عنقریب وہ آپ کے پاس قسمیں کھاتے ہوئے آئیں گے اگر ہم استطاعت رکھتے تو تمہارے ساتھ ضرور نکلتے وہ اپنے آپ کو ہلاک کررہے ہیں اللہ جانتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ‘‘۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اللہ فرماتا ہے اے محمد ﷺیہ آپ کے پاس قسمیں کھائیں گے جو آپ سے جہاد میں نہ جانے کی اجازت طلب کررہے تھے اپنے عذر پیش کریں گے مگر باطل عذر تاکہ آپ ان کا عذر قبول کرلیں اور انہیں جہاد سے پیچھے رہنے کی اجازت دے دیں اور قسمیں بھی جھوٹی کھائیں گے (لَوِاسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَکُمْ)اللہ فرماتا ہے کہ وہ کہیں گے اگر ہم طاقت رکھتے تو ضرور نکلتے اگر وسعت ہوتی اگر ہمارے پاس سواری ہوتی وہ ضروریات ہوتی جو مسافر کے لئے ضروری ہے یا صحت بدن یا طاقت بدن ہوتی توضرور نکلتے (یُہْلِکُوْنَ اَنْفُسَہُمْ)وہ اپنے لئے ہلاکت کو واجب کررہے ہیں جھوٹی قسمیں کھاکر ۔کیونکہ جھوٹی قسمیں اللہ کے غضب کو دعوت دیتی ہیں (وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ)اللہ جانتا ہے کہ یہ اپنی قسموں میں جھوٹے ہیں کیونکہ یہ نکلنے کی طاقت رکھتے ہیں اس لئے ان کے پاس مال بھی ہے اوروہ تمام اسباب موجود ہیں جن کی مسافر کو ضرورت پڑتی ہے اور ان کا بدن صحت مند بھی ہے اور جسم قوی بھی ہے ‘‘۔(تفسیر طبری : 271/14)
علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ۔’’استطاعت سے مراد قدرت ہے یعنی ہم نکلنے کی استطاعت نہیں رکھتے یہ ان کا عذر تھا اور اپنے عذر کی تاکید کررہے تھے ‘‘۔(التحریر والتنویر : 293/6)
چنانچہ ہمیں یہ بات معلوم ہوئی کہ عدم استطاعت کو جہاد پر نہ جانے کی دلیل بنانا آج کی بات نہیں ہے بلکہ یہ نبوت کے زمانہ میں بھی موجود تھی جیسا کہ آیت میں اس بات کا اشار ہ ہے کہ ان کے اس عذر کو قبول نہیں کیا گیا بلکہ کبھی عاجزی کا دعویٰ کرنے والا اپنے دعوے میں جھوٹا ہوتا ہے اگرچہ وہ ایمان مغلظ بھی گواہ بنالے جیسا کہ اللہ نے کہا (وَاﷲُ یَعْلَمُ اِنَّہُمْ لَکٰذِبُوْنَ)اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس چیز کا فیصلہ سچے مجاہدین ہی کریں گے کہ امت جہاد کی استطاعت رکھتی ہے یا نہیں یا پھر وہ علماء جو ربانی (رب کے حکم پر چلنے والے )،ایماندار ،باخبر،تجربہ کارہیں جو فقہ کے ساتھ ساتھ دین کی معرفت اور مہارت رکھتے ہیں اوردین کی ضروریات کو سمجھتے ہیں اور جہاد جیسی عبادت کی مہارت رکھتے ہیں اور دشمن کی طاقت کا اپنے تجربے اور مہارت سے ادراک رکھتے ہوں اگر ان صفات کے حاملین علماء عجز (کمزوری ) کا دعویٰ کریں تو ان کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہے کہ وہ اپنے اس دعویٰ میں سچے ہیں یا جھوٹے ہیں کیونکہ جہاد کا واقع ہونا ان کے دعویٰ کی تکذیب کررہا ہے اور ان کے خیال کی نفی کررہا ہے ۔
صلیبی جنگوںمیں جس طرح یہ کفار ایک دوسرے کی مدد کررہے تھے اور جس طرح انہوں نے اپنی طاقت قوت کو جمع کیا اور خطرناک پلاننگ کی اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی مگر اس کے باوجود اللہ کے فضل سے امت نے اللہ پر توکل کرکے دشمن کی طاقت وشوکت کو جس طرح توڑا یہ ایک حقیقت ہے اور یہ سب اسی وجہ سے ممکن ہوا کہ امت نے لوگوں کے اس دعویٰ کو مسترد کردیا کہ وہ کمزور ہیں بلکہ انہوں نے اپنے نوجوانوں کی ایسی لازوال قربانیاں دیں جس سے دشمن کے پیر اکھڑ گئے اور وہ رسوا ہوکر بھاگ کھڑا ہوا اوریہ کل ہی کی بات ہے زیادہ دور کی نہیں ہے :
خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآء النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اﷲِ. (انفال:47)
’’جو لوگ نکلے اتراتے ہوئے لوگوں کو دکھانے کے لئے اور وہ اللہ کے راستے سے روکتے تھے ‘‘۔
جب امت اپنے تفرقات اوراختلافات وانتشار کے باوجود صلیبی سیلاب کو روک سکتے ہیں او ران کی قوت کو پاش پاس کرسکتے ہیں جو کہ اس ڈکٹیٹر قبضہ گروپ حکومت کے مقابلے میں کئی گنازیادہ بڑی طاقت تھی تو کیا آج یہ اس طاغوتی نظام او را س کے لئے کام کرنے والی حکومتوں کو جڑ سے نہیں اکھاڑسکتے بالکل اکھاڑ سکتے ہیں ایک دن آئے گا جب یہ باطل اور ظالم حکومتیں اور اس کی پشت پناہی کرنے والی صلیبی حکومتیں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھائیں گے کیونکہ یہ حکومت صرف ان صلیبی ممالک کے وجود پر قائم ہیں اب یہ خود کمزور ہوچکی لہٰذا جو ان کی پروردہ حکومتیں ہیں وہ بھی بفضل اللہ ختم ہونے والی ہیں ۔
لیکن اگر امت کے مجاہدین صادقین حیلوں کی توجیہات کو قبول کرناشروع کردیں اور ان کے وثائق پر جو بقول ان کے رہنمائی کرتی ہے پر نظریں جمالیں اور جو وہ امت کے بارے میں کہیں اس کو من وعن قبول کرلیں ایسے وقت میں جبکہ صلیب کے علمبردار اسلامی ممالک اور شہروں میں ڈیرے ڈال چکے ہیں اور یہ لوگ ان کے مشوروں پر عمل پیرا ہیں توکیاان کی رہنمائی قبول کرکے امت دشمن کے مقابلے کے قابل رہے گی یا عاجز آئے گی ؟؟اگر امت ان کے مشوروں اور رہنمائی پر عمل پیرا ہوجائے تونتیجہ اس سے بھی بدتر نکلے گا جس کا عقل تصور بھی نہیں کرسکتی اور اسلامی ممالک کا نقشہ ہی تبدیل ہوجائے گا چونکہ ان وثائق کو جیل سے باہر لانے کامقصد ہی منفی ہے اور جبکہ طاقت ،اقتدار،غلبہ سب کچھ ان کے پاس ہے اور ان کامقابلہ کرنے کی کسی میں سکت نہ ہوتی تویہ اپنے ان زہریلے اور بدبخت وثائق سے امت کو تباہی وبربادی کی ایسی گہرائیوں میں دھکیل دیتے جس سے نکلنا ان کے لئے ناممکن ہوتا اور اس طرح ان کے مذموم مقاصد پورے ہوجاتے مگر مجاہدین نے ان کے تمام عزائم ناکام بناکر امت کو بڑی تباہی سے بچالیا واللہ اکبر یہاں ایک سوال یہ پیداہوتا ہے جب افغانستان جیسے چھوٹے اورکمزور ملک پر سرخ انقلاب کے علمبردار کمیونسٹوں نے حملہ کردیا اس وقت روس انتہائی سرکش خبیث ترین ملک تھا اور افغانستان اس وقت مادی ،مالی ،معاشی ہر لحاظ سے اس سے کمزور ملک تھا مگر وہ اپنی محدود قوت کے باوجود اپنے سے کئی گناطاقتور دشمن کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہوگئے اور یہ خارجی مدد سے ان کے خلاف لڑنا شروع ہوگئے اور روز بروز ان کی قوت میں اضافہ ہوتا چلاگیا اس وقت ہم نے کسی عالم سے یہ نہیں سنا کہ اس افغانستان یا اس کے باہر فتویٰ دیا ہو چونکہ مقابلے کی استطاعت نہیں ہے لہٰذا جہاد ساقط ہے بلکہ جیسے ہی افغانستان پر حملہ ہوا پورے عالم اسلام میں افغانستان جانے کا اعلان کردیاگیا اور جہاد کبیر سے پہلے لوگ جہاد صغیر کے لئے اڑنا شروع ہوگئے اور امت نے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے اور امت کے بہترین لوگ افغانستان امڈ چلے آئے مشکلات ومصائب جھیلے حتی کہ ظلم کو انہوں نے واپس دھکیل دیا اور الحاد کی فوج شکست کھاگئی اور اہل فساد وعناد کی شان وشوکت ٹوٹ کر رہ گئی ۔اس وقت مجاہدین جو کہ تھوڑی تعداد میں تھے اور لوگوں میں بھی ناپسندیدہ تھے اگر وہ جیلوں میں جمع ہوکر لوگوں کو کمزوری کا درس دینا شروع کردیتے اور لوگ بھی ان کے دلائل سن کر بوجھل بن کر بیٹھ جاتے اور الحاد وکفر کے ٹینکوں کو اپنی بندوقوں اور کمزور اسلحہ سے نہ روکتے توکیا امت بیدار ہوتی اور اپنی غفلت ترک کرتی او رکیا امت ان کی مدد اور سرپرستی کے لئے آگے بڑھتی ؟؟
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ ہم کن کمزوروں کی بات مانیں کیا ان کی جو افغانستان کی مدد کرنے آگے بڑھے اورایسا افغانستان جو کہ فقیر کمزور ناتواں تھا یا ان لوگوں کی جن کے پاس معلومات کے خزانے مال ودولت کے انبار بھرپور طاقت تمام قسم کے وسائل موجود ہیں ۔اور کس دشمن کو ہم زیادہ کمزور سمجھیں کیا وہ جیش جرار جس کے پاس انتہائی تباہ کن اسلحہ تھا اور جن کے کارخانے مسلسل اسلحہ فراہم کرتے رہے حتی کہ اہل مغرب بھی ان کے اسلحہ سے خوف زدہ تھے یا وہ دشمن زیادہ کمزور ہے جس نے اپنے ہی ملک پر زبردستی قبضہ کرلیاہے اور جو صرف اپنے ملک کے باشندوں کے خلاف لڑنے کی سکت رکھتی ہے اور جو شاعر کے اس قول کے مصداق ہیں ؎
میرے لئے شیر ہے اور جنگ میں بھیڑ ہے​
جب اس وقت کمزوری اتنے بڑے دشمن کے مقابلے میں جہا د کے ساقط ہونے کی دلیل نہیں بن سکی توآج کیا وجہ ہے کہ یہ دلیل منکشف ہورہی ہے او راچانک ہمیں یہ اطلاع دی جارہی ہے کہ امت میں دشمن کا سامنا کرنے کی طاقت نہیں ہے اوریہ کہاجارہا ہے کہ اگر ان طاغوتی طاقتوں کے خلاف جہاد ترک کردیا جائے تو اس میں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے اور دلیل یہ دی جارہی ہے کہ انسان کسی حکم کا مکلف جب ہوتا ہے جب وہ اس کی قدرت واستطاعت رکھتا ہے جب استطاعت نہ ہو توحکم کا مکلف بھی نہیں ہے چنانچہ صاحب’’وثیقہ‘‘ نے امت کی عاجزی ثابت کردی جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ انہوں نے کہہ دیا کہ (ہم ڈکٹیٹروں کے خلاف تصادم کو جہاد کے نام پر مسلمان ملکوں میں ناجائز سمجھتے ہیں لہٰذا ہاتھ سے اور تصادم سے تبدیلی کو ہم غیر ضروری سمجھتے ہیں کیونکہ یہ شرعی اختیارات میں سے نہیں ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ صرف اچھائی کی دعوت دی جائے ۔انتہی)
چوتھی بات: چلو اگر ہم یہ بات تسلیم بھی کرلیں کہ امت عاجز ہے اور اس میں استطاعت جہاد کا فقدان ہے اورمنکر کو ہاتھ سے روکنا شرعی اختیارات میں سے نہیں ہے جو ہمارے اوپر واجب نہیں ہے توکیاوجہ ہے کہ مرشد نے فوراً دعوت حسنٰی پر زور دیا اور جہاد کی عدم استطاعت کی صورت میں جو چیز ضروری اور اس کامتبادل ہے یعنی جہاد کی تیاری اس سے غفلت اختیار کی اس کی کیا وجہ ہے؟؟کیا دعوت سے عاجزی اور ضعف ختم ہوسکتاہے او رکیااس سے امت میں قوت ،قدرت واستطاعت پیدا ہوسکتی ہے ؟اس کا جواب وہ ہے جو خود شیخ عبدالقادر نے دیا ہے کہ ’’جب مسلمان اپنی وسعت کے مطابق تیاری کرلیں یعنی جب انہیں کامیابی کا امکان نظر آنے لگے تو جہاد شرعی کرناواجب ہوجاتا ہے او رایمانی تیاری کے لئے جہاد کو مؤخر نہیں کیا جائے گا اورمعنی ہے اس بات کا کہ جب عاجزی ہو تو مادی اور ایمانی تیاری واجب ہوتی ہے لہٰذا جس نے ایمانی تیاری شرو ع کی اور مادی تیاری ترک کردی یا دونوں ترک کردیں تو وہ ایسے حکم کے ترک کی بناء پر گناہ گار ہے جس کا اس کو حکم دیاگیا تھا جیسا کہ حکم ہے : وَاَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ ۔’’ان کے خلاف تیاری کرو جتنی طاقت ممکن ہوسکے ‘‘۔(العمدۃ:395)
اگر امت واقعی کمزور اور عاجز ہوتی جیسا کہ وثیقۃ الترشید کا خیال ہے تو اس کمزوری سے نکلنے کا طریقہ وہ ہرگز نہیں ہے جو ان لوگوں نے متعین کیاہے یعنی انہوں نے دعوتِ حسنیٰ پر اکتفاء کیا ہے تاکہ امت پر ظلمتوں کے بادل چھائے رہیں اور صرف الفاظ کی محفلیں جمتی رہیں اورتلواریں ہمیشہ کے لئے نیام میں چلی جائیں یا ٹوٹ جائیںحالانکہ امت کے اس کمزوری وعاجزی سے نکلنے کا راستہ مادی تیاری کے ساتھ ساتھ ایمانی تیاری ہے لہٰذا ضروری ہے کہ اسلحہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور خوب اسلحہ جمع کیا جائے اور اس کو چلانے کی تربیت حاصل کی جائے او رعسکری مہارت کے حامل افراد سے روابط بڑھا کر عسکری قوت میں اضافہ کیاجائے تاکہ امت کے جوان اسلحہ کا مقابلہ اسلحہ سے کرسکیں اور ظلم کو بزور قوت رد کرسکیں اورکفرکا شدت قوت سے مقابلہ کرسکیں اور قوت کا قوت کے ذریعے مقابلہ کرسکیں شریعت کے واجبات میں سے یہ ہی واجب ہے جس سے صاحب’’وثیقہ‘‘ ناواقف ہے ۔لوگوںکو ذبح کیا جارہا ہو ان کی جڑیں کاٹی جارہی ہو ں اور اس کے مقدس مقامات کو پامال کیا جارہا ہو ان کی آزادی سلب کی جارہی ہو اور امت کا مال ومتاع لوٹاجارہا ہو اور یہ اس کا حل دعوت حسنیٰ پیش کررہے ہوں کیا تعجب خیز بات ہے ؟؟
سید قطب شہید رحمہ اللہ نے کیا خوب صورت بات کہی ہے :’’اسلام لاہوتی نظام نہیں ہے جو محض دل میں اقرار کرلینے سے یا دل میں عقیدہ رکھنے یا اس کے شعائر کو اپنانے کے بعد اس کی انتہاء ہوجائے بلکہ اسلام تو عملی منہج اور ایک حقیقت ثابتہ کا نام ہے جس پر اس کی حکومت قائم ہوتی ہے اور اس میں مادی ترقی کا بڑا عمل دخل ہے لہٰذا اس منہج ربانی سے فرار ممکن نہیں جس میں اس نے مادی طاقت کے حصول کو ضروری قراردیا ہے اور ایسی قوتوں کو پاش پاش کرنے کا بھی حکم دیا ہے جو اس سے ہٹ کر دوسرے مناہج اپناتے ہیں اورانہیں ربانی منہج کی جگہ دیتے ہیں ‘‘۔(فی ظلال القرآن : 432/3)
اگر امت پر عدم قدر ت کی بناء پر جہاد فرض نہیں ہے تو بھی اس کا کوئی مطلب نہیں ہے کہ خیار امت اور امت جہاد راحت سے بیٹھی رہے یا صرف دعوت ہی پر اکتفاء کرے بلکہ ایسی صورت میں اسے جہاد کی تیاری فرض عین قرار پاتی ہے کیونکہ اس سے ہی قدرت حاصل ہوگی جیسا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے نے فرمایا:’’جیسا کہ جہاد کے لئے طاقت تیار کرنا اورگھوٹے تیار کرنا اس وقت واجب ہے جبکہ امت جہاد سے عاجز ہو کیونکہ جس چیز سے واجب چیز اداہوتی ہے تو وہ چیز واجب ہی ہوتی ہے ‘‘۔
جہاں تک تیاری کرنے کاحکم دیاگیاہے تو یہ محض عقیدہ رکھنے تک نہیں ہے بلکہ حقیقی تیاری مراد ہے کیونکہ اس کے ذریعے جہاد قائم ہونے کے امکانات بہت زیادہ پیداہوجاتے ہیں او رمسلمان اس بات سے عاجز نہیں رہ سکتا ہے کہ اس کا بعض حصہ اس کے ناممکن ہے اس لئے کہ آج وہ حالات نہیں جو چند سال قبل تھے مجاہدین کی تیاری کے اعتبار سے بھی او رجہاد کے میدان کھلنے کے اعتبار سے بھی کیونکہ مختلف علاقوں میں جہاں جہاد بپاء ہوچکا ہے مثلاً الجزائر ،افغانستان،چیچنیا ،عراق،صومالیہ ،فلسطین میں اور عسکری اعتبارسے جو آج صورتحال مجاہدین کو حاصل ہے وہ چند سال پہلے نہیں تھی کیونکہ ان کی عسکری تیاریاں اور ان کے ماضی کے وسائل ماضی کے مقابلے میں کہیں بہترہیں اوریہ دعوت حسنیٰ کے نتیجہ میں ممکن نہیں ہوا اورنہ ہی یہ تصادم سے اجتناب کا نتیجہ ہے بلکہ یہ ان کی مسلسل محنت ومشقت ،عملی کاوشوں اورلازوال قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے مجاہدین کو عزت عطا فرمائی اوران پر احسان فرمایااورانہیں بہترین راستے پر گامزن کیا جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
وَ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَ اِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (عنکبوت:69)
’’جو لوگ ہمارے لئے جہاد کرتے ہیں توہم انہیں اپنے راستے کی ہدایت دے دیتے ہیں اور بے شک اللہ محسنین کے ساتھ ہے ‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اﷲُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ وَ لاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اﷲِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اﷲُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔(مائدہ:54)
’’اے ایمان والو! جو شخص اپنے دین سے مرتد ہوا تو اللہ عنقریب ایسی قوم لے آئے گا جن سے وہ محبت کر ے گا اور وہ اس سے محبت کریں گے مومنوں کے لئے نرم کفار کے سخت وہ اللہ کے راستے میں جہاد کریں گے اورکسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوف زدہ نہیں ہوںگے یہ اللہ کا فضل ہے جو وہ ان کو دیتا ہے جن کو وہ چاہتا ہے اور اللہ وسیع علم والا ہے‘‘۔
مگر یہ کام اولاً توکل علی اللہ کامعاملہ یہ اس کے بعد ہمت وعزم کا اورجہد مسلسل اور صدق ارادہ کا ۔ہمیں ان مجاہدین سے نصیحت پکڑنی چاہیے جو انتہائی خطرناک دشمنوں کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں جب فلسطین میں مجاہدین نے انتفاضہ کی تحریک شروع کی تو ان کے پاس اسلحہ کی جگہ پتھر تھے او روہ بھی تھوڑی مقدارمیں پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے غلیل سے پتھر پھینکنے اور چھریوں ، کی جگہ بندوقیں استعمال کرنی شرو ع کیں اور پھر بارودی سرنگیں اورلانچر تک نوبت آچکی ہے چنانچہ یہ سب کچھ اللہ کے اس فرمان کا بعینہ مصداق ہے : وَ الَّذِیْنَ جٰہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا۔’’جو لوگ ہماری راہ میں جہاد کرتے ہیں توہم ان کے لئے اپنی راہیں کھول دیتے ہیں ‘‘۔
پانچویں بات: اگر بالفرض ہم یہ تسلیم کرلیں کہ امت واقعی کمزور ہوچکی ہے اور وہ عاجز آگئی ہے اور ان سے وجوب جہاد کاحکم ساقط ہوچکا ہے تو پھر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس شخص سے بھی جہاد ساقط ہوگیا جو انفرادی طور پر جہاد کی رغبت رکھتا ہے خواہ وہ بالفعل یا بالقول کرے بلکہ اس کو اس کے ارادہ کا بھی ان شاء اللہ ثواب ملے گا اگرچہ اس کی غرض صرف شہادت کی ہو لیکن جب ایک شخص کے انفرادی ارادے پر کوئی روک ٹوک نہیں اور وہ اس ارادہ پر اجر کا مستحق ہے تو اگروہ مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کو جراء ت دلانے اور باطل کو روکنے کے لئے وہ اپنے ایمان کو مضبوط کرکے مسلمانوں کے دلوں میں عقیدہ ایمان راسخ کرلے اور باطل نظام کو توڑنے کے لئے جدوجہد کرنے لگے اور وہ طاغوتی نظام کا انکار کردے تویہ انفرادی عمل بھی بڑی اہمیت کاحامل ہے بلکہ بہت سارے مسلمانوں کے ہیرو یہ کام سرانجام دے چکے ہیں خاص طو ر پر اس کی اہمیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب کوئی عالم دین اس پیغام کو لے کر باطل کو للکارنے کھڑاہوجائے ۔
اللہ فرماتا ہے :
فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ وَحَرِّضِ الْمُؤْمِنِیْنَ عَسَی اﷲُ اَنْ یَّکُفَّ بَاْسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ اﷲُ اَشَدُّ بَاْسًا وَّ اَشَدُّ تَنْکِیْلًا۔(نساء:84)
’’(اے نبی)اللہ کی راہ میں قتال کرنہیں ہے مکلف مگر آپ کا نفس اورمومنین کو رغبت دلائیں قریب ہے کہ اللہ ان لوگوں کی پکڑ کو دور کرے جو کافر ہیں اور اللہ سخت پکڑ اور سزا دینے والاہے‘‘۔
امام ابن عطیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔’’اس آیت کے ظاہری الفاظ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صرف نبی علیہ السلام کو ہے مگر ہمیں کوئی ایسی خبر نہیں ملی جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ قتال صرف آپ ﷺپر فرض تھا امت پر نہیں اگرچہ یہاں لفظاً تو آپ ﷺکو خطاب ہے مگر اس میں امت کے ہر ہر فرد کو انفرادی خطاب ہے اور یہ مثال ہے کہ جہاں ایک ایک فرد کو حکم دیا گیاہو معنی یہ ہوا کہ اے محمدﷺآپ اور آپ کی امت کے ہر ہر فرد کو حکم ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں قتال کرے اسی آیت کے پیش نظر ہرمسلمان پر ضروری ہے کہ وہ سمجھ لے کہ اس نے جہادکرنا ہے اگرچہ اکیلے کرنا پڑے اسی بیان کی تصدیق آپ eکے اس فرمان سے ہوتی ہے جس میں آپ ﷺنے فرمایا:’’اللہ کی قسم میں ان کے خلاف اکیلالڑوں گا اور ابوبکر صد یق رضی اللہ عنہ کا قول بھی اسی طرح کا ہے انہوں نے مرتدین کے بارے میں کہااگر میرا دایاں ہاتھ میری مخالفت کرے گا تومیں بائیں ہاتھ سے قتال کروں گا‘‘۔(المحرز الوجیز: 203/2)
طبری رحمہ اللہ نے اپنی سند سے روایت بیان کی ہے کہ ابواسحاقرحمہ اللہ کہتے ہیں میں نے براء بن عازبt کو کہا اے ابوعمارہ ایک شخص ایک ہزار دشمن سے ملتا ہے اور وہ ان پر حملہ کردیتا ہے تو کیا وہ ولا تلقوا بایدیکُم اِلٰی التھلکۃ۔’’اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو‘‘کے زمرے میں آئے گا یا نہیں انہوں نے کہا نہیں اس کو چاہیے وہ اس وقت تک قتال کرتا رہے جب تک کہ وہ شہید نہ ہوجائے کیونکہ اللہ نے اپنے نبی کوکہا ہے :( فَقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ لَا تُکَلَّفُ اِلَّا نَفْسَکَ)’’قتال کر اللہ کی راہ میں نہیں مکلف بنایا جاتا مگر تیرا نفس‘‘۔(تفسیر طبری : 203/2)
عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ جنہیں آپ ﷺنے قیادت کے لئے منتخب فرمایا تھا مؤتہ والے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیا آپ کا لشکر تین ہزار افراد پر مشتمل تھا جبکہ مدمقابل کی تعداد دولاکھ کی ہے تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا’’جس چیز سے کراہت کرتے ہو(یعنی تعدادکافرق)تم اس کے لئے نکلے ہو تاکہ شہادت حاصل کروہم تعداد اور قوت سے قتال نہیں کرتے ہم صرف اس دین کی خاطر قتال کرتے ہیں چلو تمہیں دوبہترین چیزوں میں سے لازمی ایک ملے گی یا تو فتح یا شہادت ۔نبی ﷺکو یہ سب معلوم تھا مگر آپ ﷺنے انکار نہیں کیا اور یہ نہیں کہا کہ تم اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈال رہے ہواوریہ نہیں کہا کہ تمہاری تعداد بہت تھوڑی ہے اور تمہارے مقابلے میں ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے اس سے قبل ہم عبداللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان کرچکے اور ان کے علاوہ بھی بہت سارے واقعات اس بارے میں موجود ہیں ۔
مقصد یہ ہے کہ جہاد کی واجبیت ساقط ہونے سے جہاد کا جواز ساقط نہیں ہوتا خاص طور پر علماء ربانیین کا کلمہ حق کہنا کیونکہ یہ امت میں احیاء اور جراء ت پید کرنے کا سب سے بہترین ذریعہ ہے اور اسی سے امت کی عاجزی لاچارگی ختم ہوگی اسی کلمہ کے کہنے پر صاحب کلمہ شہداء کا سردار قرار پایا سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ اورایک شخص نے ظالم امام کے سامنے کھڑے ہوکر حکم دیا اور منع کیا تو اس پر ا س کو قتل کردیا۔(رواہ الترمذی، والحاکم عن جابرt)
اور نبی علیہ السلام نے فرمایا:’’جو شخص ظالم حکمران کے سامنے حق بات کہتا ہے اگر اس کی پاداش میں قتل کردیا گیا تو وہ مجاہد کہلائے گا اور اس کے قتل میں اللہ کے دین کی مصلحت ہے(دین کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے)‘‘۔(الفتاوی الکبریٰ : 182/26)
چھٹی بات: ہم کہتے ہیں کہ وہ استطاعت جو وجوب جہاد کا سبب ہے امت میں نہیں ہے توہمیں وہ اسباب بھی تلاش کرنے چاہئیں کہ وہ استطاعت مفقود کیوں ہوئی ہے؟اور اسباب پر خوب بحث کریں خالی ان کا تذکرہ کردینا اور سرسری نگاہ ڈال لینا کافی نہیں ہے کیونکہ اس امت کو امتِ جہاد قرارد یا گیا ہے توہمیں چاہیے کہ ہم ہر وقت جہاد کی تیاری رکھیں آج ہمیں اس حال میں کس چیز نے پہنچادیا کہ کمزور وعاجزی کی بناء پر ہم سے جہاد کے ساقط ہونے کی باتیں عام ہیں اگر اس کی وجہ دیگر شرعی امور کی طرح امت کی کوتاہی ہے جن کو امت اداکرنے میں کوتاہی کررہی ہے ضائع کررہی ہے تو ایسے بہت سارے شرعی امور جمع ہیں جن کی ادائیگی میں امت کوتاہ ہے مگر ان کی کوتاہی سے وہ فرض ساقط نہیں ہوتا لیکن اگر یہ کہیں کہ اس کا سبب امرقہری کونی ہے (یعنی قدرتی امر ایسا ہے )اس کی ان میں طاقت نہیں ہوسکتی اور اس کو زائل کرنا ناممکن ہے تواسی بناء پر ہم جہاد سے معذور ہیں جبکہ شیخ عبدالقادر نے خود اس امت کو امتِ جہاد قرار دیا اور ثابت کیا اور امت کا اسلام کا باقی امتوں سے تعلق قتال وحرب کا ہے نہ کہ صلح کا لہٰذا یہ حکم حالت عجز میں بھی مستثنیٰ نہیں ہوسکتاجیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’العمدۃ‘‘میں کہا کہ :’’مسلمانوں کو جہاد سے کوئی چیز روک نہیں سکتی سوائے عاجزی کے اور ایسی حالت میں جہاد کی تیاری کرنا واجب ہوتی ہے‘‘اور یہ اللہ کے اس قول کی وجہ سے ہے :(فلا تھنوا وتدعوا الی السلم وانتم الاعلون)’’نہ کمزور پڑواور نہ صلح کی دعوت دو تم ہی غالب رہوگے‘‘جب تک مسلمان طاقت میں رہے تو وہ اپنے دشمن سے اعلیٰ رہے نہ صلح کی اوران سے امن کی درخواست کی بلکہ فتنہ کے خاتمے تک قتال چلتا رہا تاکہ دین اللہ کے لئے ہوجائے۔اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جہاد کی آخری آیت یہ نازل ہوئی :
فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْہُمْ وَخُذُوْہُمْ وَ احْصُرُوْہُمْ وَ اقْعُدُوْا لَہُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ ٰاتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَہُمْ اِنَّ اﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔(توبۃ:5)
’’تم مشرکین سے قتال کرو جہاں کہیں بھی ان کو پاؤ ان کو پکڑو ان کو محصور کردو اوران کے لئے ہرگھات کی جگہ پر بیٹھو اگر وہ توبہ کرلیں نماز قائم کریں زکوٰۃ دیں تو اس کا راستہ چھوڑدیں بے شک اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
اس آیت اورجزیہ والی آیت میں قتال کاعام حکم دیا گیا اور یہ قرآن کریم کی آخری نازل ہونے والی آیات میں سے ہیں اور ان آیات کے لئے کوئی ناسخ بھی نہیں ہے ۔بخاری رحمہ اللہ نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:’’ سب سے آخری سورۃ براء ت نازل ہوئی ‘‘۔چنانچہ نبی علیہ السلام اور خلفاء راشدین نے مشرکین اور اہل کتاب کے خلاف اسی طرح قتال کیا جس طرح اس میں حکم دیا گیا ہے اور اس سے مانع صرف کمزوری ہے لہٰذا کیاوجہ ہے کہ تم کفار کو بڑا کوشاں دیکھوگے کہ وہ مسلمانوں سے صلح وسلامتی سے منع کرتے ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
وَدَّ الَّذِینَ کَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَاَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَیْلَۃً وَاحِدِۃً۔
’’کفار چاہتے ہیں کہ تم اگر اپنے اسلحہ سے غافل ہوجاؤ اوراپنے سامان سے تو وہ تمہاری طرف ایک ہی دفعہ متوجہ ہوں‘‘۔
اس رسالہ میں یہ بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ اگر جہاد میں عجز وضعف مانع ہوتو اس کی تیاری واجب ہوگی ( وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ)کے تحت ورنہ امت عاجزی کی بناء پر گناہ گار رہے گی اور عاجزی اختلاف وانتشار کا نتیجہ ہے اور اس کے نتیجہ میں چونکہ انسان جہاد سے بھی دور ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
وَ اَطِیْعُوا اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْہَبَ رِیْحُکُمْ وَاصْبِرُوْا اِنَّ اﷲَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔(انفال:46)
اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور تنازع نہ کرو ورنہ تم بزدل ہوجاؤگے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے‘‘۔
امت کو متفق رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ جہاد فی سبیل اللہ ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھی امت جہاد سے دور ہوئی اور میدان جہاد چھوڑا ان میں اختلاف پیدا ہونے شروع ہوگئے لہٰذا ان کو رفع کرنے کی جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ کوئی تدبیر نہیں ہے کیونکہ جہاد فی سبیل اللہ کا ثمرۂ کاملہ اتفاق کی صورت میں نکلتا ہے لہٰذا ان دونوں میں باہمی تلازم ہے جیسا کہ شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے فرمایا:’’جب لوگ جہاد چھوڑ دیں گے تو ان پر یہ آزمائش آنا شروع ہوجائیں گی کہ ان میں باہمی عداوت پیداہوجائے گی جس کے نتیجے میں فتنے واقع ہوں گے جیسا کہ آج واقع ہورہے ہیں اور جب لوگ جہاد فی سبیل اللہ میں مشغول ہوجائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کے دلوں کوملادے گا اوران میں الفت پیداکردے گا اور ان کو اللہ کے دشمن اور خود ان کے دشمنوں پر غلبہ عطاکردے گا اور جب یہ جہاد کے لئے نہیں نکلیں گے تو اللہ ان کوعذاب سے دوچار کردے گا وہ اس طرح کہ انہیں مختلف گروہوں میں بانٹ دے گا وہ ایک دوسرے کو سخت سزائیں دیں گے ‘‘۔(مجموع الفتاویٰ :44/15)
دوسرا ذریعہ: مسلمانوں کو متفق رکھنے کا دوسرا ذریعہ جہاد کی تیاری ہے اور تیاری سے مراد ہر قسم کی تیاری ہے مادی بھی ایمانی بھی کیونکہ جب امت نے اس امر الٰہی کے نافذ کرنے میں سستی کی تو ان میں کمزوری واقع ہونا شروع ہوگئی اس مسئلے پر ہم پہلے بھی لمبی بحث کرچکے ہیں کہ جب عاجزی کمزوری کی بناء پر جہاد ساقط ہوجائے تو اس کا بدل جو کہ جہاد کی تیاری ہے وہ واجب ہوجاتا ہے مگر آج جو امت کی حالت ہے کہ وہ جہاد کی استطاعت نہیں رکھتے جس کی طرف صاحب ’’وثیقہ‘‘ نے اشارہ کیاہے وہ دراصل امت کی اوامر شرعیہ میں تفریط کی وجہ سے پیدا ہوا ہے کیونکہ آج امت اس دین پر عمل پیرا ہونے میں کوتاہ ہے جو اللہ نے نازل کیا اور جو ہمیں نبی علیہ السلام نے عطا فرمایااس ضعف کاسبب امر قہری نہیں ہے چنانچہ جہاد کی تیاری کی اہمیت واضح ہونے کے بعد امت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمہ وقت جہاد کے لئے تیار رہے تاکہ امت اور اس کے اثاثے محفوظ رہیں اور دشمن ان پر بری نگاہ نہ ڈال سکے اور مسلمانوں کو مکمل غلبہ حاصل ہوجائے اسی بناء پر نبی علیہ السلامنے ارشاد فرمایا:’’عنقریب تمہارے لئے زمینیں کھول دی جائیں گی اور تمہیں اللہ کافی ہوگا اور تم میں سے کوئی اپنا حصہ حاصل کرنے سے عاجز نہیں رہے گا ‘‘۔(مسلم)
تیسرا ذریعہ: امت کی کمزوری کاایک سبب ان کا دنیاوی امور میں مشغول ہونا اور دین سے بے رغبتی بھی ہے امت آج جتنی توجہ دنیا پر دیتی ہے اگر وہ اس کا آدھا حصہ دین پر دیتی خصوصاً دعوت دین ،اسلامی تعلیمات سیکھنے سکھانے ،جہاد کی تیاری ،انفاق فی سبیل اللہ ،جہاد کی رغبت دلانا،امر بالمعروف ونہی عن المنکر،اور جہاد فی سبیل اللہ وغیرہ تو امت کی جو حالت ہے وہ یقینا نہ ہوتی اورکمزوری پیدا ہونے کا سوال ہی نہیں تھا چنانچہ ابن عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’نبی علیہ السلام نے فرمایا جب تم بیع عینہ کرنے لگو اور تم گائے کی دمیں پکڑ لو اور زراعت کو پسند کرلو اور جہاد فی سبیل اللہ ترک کردو تو اللہ تم پرذلت مسلط کردے گا وہ تم سے اس وقت تک جدانہیں ہوگی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ‘‘۔(ابوداؤد)
علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’زراعت پسند کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب جہاد کا وقت متعین ہوجائے اور وہ اس وقت جہاد کی بجائے زراعت پسند کرے تو اللہ ذلت مسلط کردے گا ۔ ذُلّا ذال کی ضمہ اور کسرہ دونوں سے منقول ہے جس کا معنی ہے ذلت ورسوائی کی ایک قسم وہ ٹیکس بھی ہے جو وہ زمین کا اداکرتے ہیں اور اس ذلت کا سبب واللہ اعلم جہاد فی سبیل اللہ کاترک کرنا ہے کیونکہ جہاد ہی سے اسلام کا دیگر مذاہب پر غالب آنا ممکن ہے اور اگر اس کے برعکس چلیں گے توہم پر ذلت مسلط ہوجائے گی اور وہ گائے کی دم کے پیچھے چلنا شروع کردیں گے جبکہ پہلے یہ گھوڑے کی پیٹھ پر سوار تھے جو کہ عزت مکانی کی علامت تھا ‘‘۔(عون المعبود : 241/9)
علامہ ابن رجب رحمہ اللہفرماتے ہیں :’’ذلت ورسوائی کا سب سے بڑا سبب نبی علیہ السلامکے احکامات کی خلاف ورزی اور اللہ کے دشمن کے خلاف جہاد ترک کرنا لہٰذا جو رسول علیہ السلام کے طریقہ پر چلتے ہیں ان کو عزت ملتی ہے اور جو قدرت کے باوجود جہاد ترک کرتے ہیں ذلیل ہوتے ہیںجیسا کہ پہلے حدیث (اذا تبایعتم العینۃ)گزرچکی ہے تو آپ ﷺنے ہل دیکھا تو فرمایا کہ جس گھر میں یہ داخل ہوا اس میں ذلت داخل ہوگئی جس نے وہ جہاد ترک کیا جو رسول علیہ السلام کرتے تھے باوجود قدرت کے اور وہ حصول دنیا میں لگارہا اگرچہ وہ دنیا کو مباح طریقے سے حاصل کرتا رہا پھر بھی اس کو ذلت کا سامنا کرنا پڑے گالیکن اگر وہ جہاد ترک کرکے دنیا حرام طریقے سے حاصل کرتا رہا تو اس کی کیا حالت ہوسکتی ہے آپ خود اندازہ کریں ‘‘۔(الحکم الجدیرہ بالاذاعۃ : 21/1)
چوتھاسبب: گناہوں معصیات کاعام ہونااور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا کمزور پڑنا ۔یہ وہ اسباب ہیں جو اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں اور عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ کے دشمن امتِ اسلامیہ پر مسلط ہوگئے ہیں اسی لئے اللہ فرماتا ہے:
وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ۔(شوریٰ:30)
’’اور تمہیں جو چیز بھی پہنچتی ہے وہ تمہارے اعمال کا سبب ہے وہ بہت سے معاملات سے درگزر کردیتا ہے‘‘۔
اس پوری بحث کا مقصد وخلاصہ یہ ہے کہ اگرچہ ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آج امت ضعف وکمزوری کی حالت میں زندگی بسر کررہی ہے اور وہ کمزوری حقیقی ہے جس سے فریضہ جہاد ساقط ہوچکا ہے مگر اس کمزوری کا سبب خود امت مسلمہ ہے اور ان سے اللہ تعالیٰ اس بارے میں ضرور سوال کرے گا اور حساب لے گا کیونکہ یہ بات حتمی طورپر ثابت ہوچکی ہے کہ یہ کمزوری اللہ کے احکامات کی مخالفت اورمنہیات سے عدم اجتناب کا نتیجہ ہے اس صورت میں امت کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور ان کے فرائض منصبی میں دوگنا اضافہ ہوجاتا ہے جن کو ادا کرنا امت کی اصل ضرورت ہے ۔
(واللہ المستعان)
اگر اللہ نے مہلت دی تو گفتگو جاری رہے گی
الحمد ﷲ اولا وآخرا
بشکریہ:مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان​
 
Top