صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
صِراط مستقیم یا باطل نظریات…؟وثیقۃالترشیدکے باطل افکار کا رد قرآن وحدیث اور سلف صالحین کے فہم کی روشنی میں
مصنف ۔ الشیخ ابویحيٰ اللیبی رحمہ اللہ حسن قائد
مترجم ۔ ابواوّاب سلفی حفظہ اللہ
’’وثیقہ‘‘ میں بیان کئے گئے شرعی مسائل کا ایک جائزہ
مرشد (خودساختہ ہدایت دینے والا )اپنے ’’وثیقہ‘‘ میں کہتا ہے :’’جب خلافت عثمانیہ انیسویں صدی کے اختتام پر کمزور پڑگئی توبہت سارے مسلمان ممالک کو یورپی حکومتوں نے اپنے کنٹرول میں لے لیا اور انہیں تقسیم کردیا اور کمزور کرنا شروع کردیا ان کے مال ودولت کو لوٹ لیا اور صنعتی ترقیاں روک دیں لوگوں کو مختلف انداز سے جدائیاں پیدا کیں اور ایسے حالات پیدا کئے جس سے غربت میں اضافہ ہوااور مزید یورپ نے اپنی ثقافت رائج کردی اور فوج کشی کرکے اپنے قوانین نافذ کردیئے پھر ان یورپی حکومتوں نے یہودیوں کے لئے ایک نئی مملکت عالم اسلام کے دل میں قائم کردی تاکہ مسلمانوں کو ذلیل ورسوا کیا جائے ۔اس میں شک نہیں کہ یہ سب مسلمانوں کے گناہوں کی وجہ سے ہوا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔
وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ ۔’’تمہیں جو کچھ بھی پہنچتا ہے توتمہارے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے ہے ‘‘(شوری:30)۔اور ان کی یہ دشمنانہ کاروائیاں جاری رہیں تنزلی کی نوبت انتہائی شدید ہوگئی یہاں تک کہ اللہ کے اس قول کا مصداق بن گئی ۔
وَ لَنْ تَرْضٰی عَنْکَ الْیَہُوْدُ وَ لَا النَّصٰرٰی حَتّٰی تَتَّبِعَ مِلَّتَہُمْ’’آپ سے یہود اور نصاریٰ ہرگز راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ ان کی ملت کی اتباع شروع نہ کردیں ‘‘(بقرہ:120)ان حالات کو دیکھ کر بعض اسلامی جماعتوں نے اپنے ملک کی قابض حکومتوں کے خلاف یا بڑی حکومت کے خلاف جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر تصادم کی راہ اپنالی تاکہ اسلام کی عظمت بلند کی جاسکے ۔مختلف علاقوں میں تصادم پھیل گیا اور اس تصادم میں بہت سارے شریعت کے مخالفین بھی شامل ہوگئے (انتہی)
اس میں شک نہیں کہ جس دور سے امت مسلمہ گزررہی ہے یہ اس کا مختصر سا بیان ہے اور اس میں اس بات کی صراحت کی گئی ہے کہ چند بڑے ممالک نے مسلمان شہروں پر قبضہ کرلیا اور خلافت عثمانیہ کے وارث بنے یہاں انہوں نے اپنے قوانین لاگو کئے اور ان ممالک کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ دیا اور یہاں کی تمام دولت لوٹ لی اور ایک یہودی ریاست قائم کرکے اس کی پشت پناہی بھی کی اور اس کی سیاسی ،اقتصادی عسکری مدد بھی کی مگر ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ یہ حکومتیں ڈکٹیٹر حکومتوں کی پشت پناہی اور ان کی حمایت کرتی رہی ہیں اور ان کومضبوط کرنے میں لگی رہیں تاکہ ان کے ذریعے اپنے ایجنڈہ کی تکمیل کرسکیں آج اسلامی ممالک کا یہی حال ہے اگر یہ کہا جائے توبے جانہیں ہوگا کہ تمام اسلامی ممالک پر ان لوگوں کا قبضہ ہے کہیں زبردستی قبضہ اور کہیں ان کی مرضی سے اگرچہ وہاں ظاہری طور پر حکومتیں مقامی ہیں مگر حقیقت میں اصل حکومت ان یورپی ممالک کی ہی ہیں اور مقامی حکومتوں کی کوئی حیثیت نہیں سوائے اس کے کہ یہ ان کی انتہائی ذلیل طریقے سے آلہ کار ہیں وہ یورپی ممالک ان کی مدد صرف اس وجہ سے کررہی ہیں کہ وہ ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ان لوگوں نے پہلے ہمارے ممالک پر عسکری قبضہ کیا پھر ان کو ایسے لوگوں کے قبضہ میں دے دیا جو ان کے ایجنٹ بن کر ان کے ایجنڈے پر کام کرسکیں کیونکہ اس طرح وہ جتنا کام کرسکتے تھے اتنا اپنے قبضے سے ناممکن تھا لہٰذا آج یہ دعویٰ کرنا کہ ہم آزاد ممالک ہیں یہ محض دھوکہ بازی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ایسے لوگ ہم پر مسلط کردیئے جن کے نام کا حصہ حسن ،حسنی ،حسین ،عبداللہ یا زین العابدین جیسے الفاظ ہوں یا باقاعدہ مغرب کے نصرانی نیلی آنکھوں والے مسلط کردیئے ان ہی وجوہات کی بناء پر مجاہدین نے ان کے خلاف جہاد کا علم بلند کیا ہے تاکہ ملک کو ایسے قبضہ گروپ لوگوں سے نجات دلائی جائے۔
ایسی صور ت میں قاری کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ اگر ہم کم سے کم بھی تبصرہ کریں تو یہ بات سامنے آئے گی کہ آج ہمارے ملکوں پر حقیقی قبضہ یورپ کا ہے اور ان ہی لوگوں کے قوانین ،ایجنڈے پر کام ہورہا ہے اور ان کی پالیسیوں کے نتائج ان کی سوچ سے بھی زیادہ نکل رہے ہیں دین خداوندی ان کی سیاست کی بیخ کنی کرتا ہے اور عقائد اسلامیہ ان کی اخلاقی برائیوں کو رد کرتا ہے اسلامی اخلاق ان کی برائیوں کو واضح کرتا ہے ان کے قوانین کا اصل مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان ممالک کی دولت پر قبضہ کیاجائے یہی وجہ ہے کفر کے آئمہ اپنے خودساختہ نظام کو ان ممالک میں رائج کرنے اور اس کی پشت پناہی میں اپنی قوت لگارہے ہیں خاص طور پر خودساختہ آزادی اور جمہوری نظام کو رائج کرنے میں ۔اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ان کے مددگاروں کے ہاتھوں پریشانیاں اٹھارہے ہیں ،پورے ملک میں کفارکے چھوڑے ہوئے لوگ سیاست چمکا رہے ہیں تاکہ کفارکی سازشو ں کی تکمیل کریں اور مسلمانوں کی نوجوان نسل ان کی فرمانبرداری پر لگی ہوئی ہے او رکفار کی تہذیب وتمدن دل میں جگہ کررہی ہے اور ان کے نقش قدم پر چلنا کامیابی سمجھاجارہاہے جبکہ مرتد آئمہ اور ان معاونین بلاچوں چراں اور شریعت کی مخالفت کی پرواہ کئے بغیر کفا رکی جانب سے جو مطالبہ آتاہے پورا کئے جارہے ہیں اگر اس کے نتیجہ میں قوم کتنا ہی نقصان برداشت کرے ۔اب مجھے بتاؤ کیا جب مغربی استعمار کے بحری جہاز سمندروں میں دندناتے پھر رہے ہیں اور اس کے طیارے فضاؤں میں گردش کررہے ہیں اور ان کے ٹینک صحراؤں میں گھوم رہے ہیں تو کیا یہ مسلمانوں کی موجودہ حالت دیکھ کر واپس جائیں گے حالانکہ ان کے مکر وفریب سے ایک لمحہ برابر بھی بے خوفی محسوس نہیں ہوتی بلکہ یہ مسلمانوں پر ذلتیں رسوائیاں مسلط کرنے میں کوئی دقیقہ بھی ضائع کرنے کو تیار نہیں ہیں خاص طور پر جبکہ ان کی پشت پر ایک یہودی حکومت جس کو عرف عام میں قابض ڈکٹیٹر حکومت کہاجاتا ہے مگر انتہائی افسوس ہے کہ ان حالات کو دیکھنے کے باوجود بھی لوگ مخالفت کریں تو اس کا کیا علاج ہونا چاہیے ؟ہمیں اس میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے کہ آج مسلمانوں پر جو ان کے دشمنوں کو زبردستی مسلط کردیاگیاہے ان کے شہروں میں جو تفرقہ بازی عام کردی گئی ہے اور ایسے حالات پیدا کردیئے گئے ہیںا س سے وہ رب کی شریعت سے محروم ہوچکے ہیں تو اس کا سبب ان کے گناہ او ران کے اعمال ہیں مگر ان کے لئے علاج تجویز کرنے والے اس بات سے آگے نہیں بڑھتے کہ اصل مرض کیا ہے صرف وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا سبب مسلمانوں کے گناہ ہیں مثلاً سود ،زنا، بے پردگی ،شراب نوشی ،موسیقی ،وغیرہ مگرکسی کے دل میں ذرہ برابر یہ خیال نہیں آتا کہ ان گناہوں سے بھی خطرناک چیز ہے جو ان تمام پریشانیوں کا اصلی سبب ہے اور وہ ترک جہاد ہے انتہائی افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بہت سے لوگ ترک جہاد کو مشکلات وپریشانیوں کا سبب نہیںسمجھتے مگر بہت سے لوگ ان تمام پریشانیوں کا حل جہاد فی سبیل اللہ ہی میں تلاش کرتے ہیں اوربیان کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا مَا لَکُمْ اِذَا قِیْلَ لَکُمُ انْفِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ اثَّاقَلْتُمْ اِلَی الْاَرْضِ اَرَضِیْتُمْ بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا مِنَ الْاٰخِرَۃِ فَمَا مَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا قَلِیْل، اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔(توبۃ:39-38)
’’اے ایمان والو!تمہیں کیا ہوگیا ہے جب تم کو کہا جاتا ہے اللہ کی راہ میں نکلو توزمین پر بوجھل ہوجاتے ہو کیا تم نے حیات دنیاکو حیات آخرت کے مقابلے میں پسند کرلیا ہے پس حیاتِ دنیا حیاتِ آخرت کے مقابلے میں تھوڑی ہے اگر تم نہ نکلے تو وہ تم کو المناک عذاب دے گا تم اس کو کچھ تکلیف نہ دے سکو گے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
امام ابن العربی مالکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :اس آیت میں دومسئلے بیان ہوئے ہیں :
پہلا مسئلہ اس میں شدید ڈانٹ اور سخت وعید ان کے لئے بیان ہوئی ہے جو جہاد کے لئے نہیں نکلتے کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ جب امر ایسے واقع ہو کہ اس کا اقتضاء زیادہ نہ ہو تو صرف امر مراد ہوگا اس کے ترک پر عذاب کا حکم نہیں لگایاجائے گا ایسی صورت میں عذاب کا حکم جب لگے گا جب کہ اس پر عذاب خبر کی صورت میں بیان کیا گیا ہو جیساکہ کوئی کہے ان لم تفعل کذا عذبتک اگر تم نے یہ کام نہ کیا تومیں سزا دوں گا جیسا کہ آیت میں بھی اسی طرح وارد ہوا ہے لہٰذا جہاد کے لئے نکلنا اس آیت سے واجب ٹھہرتا ہے تاکہ کفار سے لڑا جائے اور اللہ کاکلمہ بلند ہوجائے ۔
دوسرا مسئلہ عذاب کی وہ نوعیت بیان ہوئی ہے ابن عباس tنے فرمایا عذاب سے مراد بارش کا رکناہے اگر ان کا قول صحیح ہے تو وہ زیاد جانتے ہیں کہ انہوں نے یہ قول کہاں سے لیا ہے ورنہ عذاب الیم دنیا میں یہ ہے کہ دشمن ان پر غالب آجائے گا اور آخرت میں جہنم ہے اورمزید یہ کہ تمہارے علاوہ لوگ تمہارے بدلے آجائیں گے جیسا اللہ نے بھی کہا ہے :’’وان تتولوا‘‘اگر تم منہ پھیروگے توتمہارے بدلے دوسری قوم آجائے گی ۔(احکام القرآن:286/6)
علامہ طاہر بن عاشوررحمہ اللہ فرماتے ہیں:دنیاوی سزائیں ایسی مصیبت ہے کہ جس سے کامیابی کے ذارئع مہمل ہوجاتے ہیں خاص کررسولﷺکی نصیحتوں سے فائدہ اٹھانا جیسا کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواحدوالے دن نقصان ہوا تھا۔اس کا مقصدان کو خبردارکرنا تھا کہ اگریہ لوگ دشمن سے جنگ کے لئے نہیں نکلیں گے تو دشمن ان پر حملہ کرکے ان کو جڑسے اکھاڑدے گا۔اوراﷲتعالیٰ ان کی جگہ کوئی اورقوم لے آئے گا ۔(التحریر والتنویر:301/4)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے جس عذاب الیم کا ذکرکیا ہے اور اس بات کا ذکرحدیث میں بھی ہے کہ قومیں ہم پر حملہ آورہوں گی اورایک دوسری کو اس طرح ہمارے خلاف اکھٹی کریں گی جس طرح کھانے کے دسترخوان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔آج یہی حال ہے کہ جہاد ترک کردیاگیا ہے دشمن کو چھوڑدیاگیا ہے اور قوم سستی اور بے توجہی کی طرف مائل ہے اورآرام اور سکون پرقناعت کرچکی ہے۔دنیامیںمشغول ہوگئی ہے اوردنیا کو اپنا سب سے بڑامقصدبنارکھا ہے۔اﷲتعالیٰ کسی پرظلم نہیں کرتا مگریہ خوداپنے پرظلم کرتے ہیں۔
نبی ﷺنے فرمایا :’’جب تم عینہ بیع کرنے لگو او رگائے کی دم پکڑ لوگے اور زراعت پر خوش ہوجاؤ گے جہا دکو چھوڑ دوگے تو اللہ تم پر ذلت مسلط کردے گا جو تم سے دورنہیں ہوگی جب تک تم اپنے دین کی طرف نہ لوٹ آؤ‘‘۔(ابوداؤد عن ابن عمررضی اللہ عنہما)
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے فرمایا ’’قریب ہے قومیں تمہارے خلاف ایک دوسرے کو اس طرح دعوت دیں گی جیسے کھانے کی دعوت دی جاتی ہے توکسی نے پوچھا کیا ہم اس دن تھوڑے ہوں گے آپ ﷺنے فرمایا:تم بہت زیادہ ہوگے لیکن پانی پر آنے والے کوڑا کرکٹ کی طرح ہوگے اللہ دشمن کے دل سے تمہاری ہیبت نکال دے گا اور تمہارے دلوں میں الوہن پیدا کردے گا توکسی نے پوچھا الوہن کیا ہے تو آپ ﷺنے فرمایادنیا کی محبت اور موت کی کراہیت ۔(ابوداؤد ، البھیقی فی شعب الایمان)
ابوبکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :’’جب کوئی قوم جہاد چھوڑ دیتی ہے تو اللہ ان میں عذاب عام کردیتا ہے ‘‘۔(طبرانی وحسنہ الالبانی)
جب امت دنیا کو ترجیح دینے لگے اور اسے دین سے زیادہ اہم سمجھنے لگے اور تمام توجہ حصول دنیا پر لگادے تویہ اللہ کے عذاب وناراضگی کا سبب ہے اور جولوگ جہاد کو تمام چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں اور جہاد پر معاونت کرتے ہیں تو یہ اللہ اور اس کے رسول اور شریعت سے محبت کی سب سے بڑی اورواضح دلیل ہے آپ نے آیات کو پڑھ کر اندازہ لگایا ہوگا کہ جب اللہ نے جہاد کے لئے نکلنے کاحکم دیا توزمین پر بوجھل بننے اور دنیا کو جہاد پر ترجیح دینے سے اللہ نے متنبہ فرمایا اور یہ بھی واضح کردیا کہ دوہی باتیں ہیں یا توجہاد ،ایثار ،قربانی اور اللہ سے جو بیعت کی ہے اس کی وفاداری ہے یا پھر اس کے علاوہ دھوکہ ،رسوائی، بخیلی ،بزدلی جس کے نتیجے میں عذاب ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ ٰابَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوَانُکُمْ وَ اَزْوَاجُکُمْ وَ عَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُنِاقْتَرَفْتُمُوْہَا وَ تِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَ مَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ جِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَ اﷲُ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۔(توبۃ:24)
’’کہہ دیجئے اگر تمہارے باپ ،بھائی ،بیویاں ،خاندان ،اور وہ مال جسے تم نے جمع کیا ہے اور وہ تجارت جس کے نقصان پر تم ڈرتے ہو اور وہ گھرجنہیں تم پسند کرتے ہو اللہ اور ا س کے رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے زیادہ محبوب ہوگئے تو تم انتظار کرو یہاں تک اللہ لے آئے اپنا حکم اور اللہ فاسق قوم کو ہدایت نہیں دیتا ‘‘۔
علامہ خازن رحمہ اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ دنیا میں ان تمام چیزوں سے ایک فاصلہ پر رہنا ضروری ہے جو دین میں نقصان کا ذریعہ بنتی ہیں تاکہ دین محفوظ رہے اور یہ بات بھی بتائی گئی ہے دنیاوی مفادات کو ترجیح دینا عذاب کے آنے کا سبب ہے اوراس میں یہ بات بھی واضح ہوئی جب دنیاوی اور دینی مفادات کا ٹکراؤہو تو دینی مصالح کو ترجیح دینا مسلمانوں پر واجب ہے ‘‘۔(لباب التاویل فی معانی التنزیل : 242/3)
توجو شخص امت کی بیماریاں بتائے اور جہاد کو ہماری بیماری کا سبب نہ بتائے اور جہاد کی اہمیت کو کم کرے تو ایسے شخص کی مثال یوں ہے جیسے ایک شخص انتہائی پیاس کے عالم میں جارہا ہے انتہائی شدید گرمی کاموسم ہے سورج آگ برسارہا ہے پانی اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہے مگر اس میں اس تک پہنچنے کی استطاعت نہیں سوائے اس کے کہ کوئی سہارا دے کر لے جائے ایسے میںکوئی شخص اسے آکریہ نصیحت شروع کردے کہ تمہیں یہ پیاس اس وجہ سے لگی ہے کہ تم نے سایہ چھوڑ کر اس سورج کی دھوپ میں چلنا شروع کردیا ا ب نصیحت کرنے والے کی یہ بات اس حد تک تو صحیح ہے کہ پیاس کے اسباب میں سے ایک سبب سورج اور اس کی حدت بھی ہے مگر یہ کہنا کہ اگر اور کسی ٹھنڈی جگہ چلاجاتا تو اس کی پیاس زائل ہوجاتی تویہ غلط ہے حالانکہ کوئی عقل مند انسان کسی کو اس حالت میں دیکھ کر فوراً پانی کی طرف رہنمائی کرتا تاکہ اس کی پیاس بجھ جائے اس کے بعد وہ نصیحت کرتا کہ وہ کس طرح باقی پیاس کے اسباب سے بچے ۔
آج امت کا جہاد کے ساتھ یہی حال ہے حالانکہ امت کو زبوں حالی سے بچانے کا واحد راستہ جہاد کا راستہ ہے اگر ہم نے اس کو ترک کردیا توہم اپنے مقاصد کے حصول سے انتہائی دور ہوجائیں گے کیونکہ ہماری ذمہ داری میں دین کی اقامت شامل ہے اور یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ معاشرہ سے ہر قسم کے شرک کا خاتمہ کیا جائے خاص طور پر شرکیہ نظام کا اور معاشرہ سے ایسے تمام طواغیت کا خاتمہ کیا جائے جو ہمارے اور رب کی عبادت میں حائل ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے یہ بات واضح کردی ہے کہ تمام مصائب خواہ وہ ہماری جانوں میں ہوں یا اہل وعیال میں یا مالوں میں ان کی اصل وجہ ہماری معصیت اور بداعمالیاں ہیں جیسا کہ فرمایا:
وَ مَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَ یَعْفُو عَنْ کَثِیْرٍ۔
(شوری:30)
’’تمہیں جو مصیبت پہنچنے والی پہنچتی ہے توجو تمہارے ہاتھ نے کمایااور و ہ درگزرکردیتا ہے بہت سے کاموں سے ‘‘ ۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔’’اے لوگو تمہیں دنیا میں جو مصیبت پہنچتی ہے چاہے تمہاری جانوں میں یا مالوں میں تو اس وجہ سے کہ تمہارے ہاتھوں نے جو کمایا یعنی وہ اللہ کی طر ف سے تمہارے اعمال کی سزا ہے اور اللہ تمہارے بہت سے جرائم سے درگزر فرمادیتا ہے اور اس کی سزا نہیں دیتا ‘‘۔(تفسیر طبری : 538/12)
یہ ایک عام قضیہ اور حقیقت مسلمہ ہے مگر جہاد ایسی عبادت ہے جس کے ترک پر فوراً اللہ کی طرف سے سزاملنا شروع ہوجاتی ہے جیسا کہ بہت ساری آیات واحادیث سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ ترک جہاد پر توبہ واستغفار سے معافی مل جاتی ہے جس طرح باقی گناہوں کی معافی توبہ سے مل جاتی ہے اور اس مسئلہ کو دیگر جرائم سے خلط ملط کردیا گیا حالانکہ ایسا نہیں ہے کیونکہ جہاد چھوڑنے پر اس کی سزا ذلت کی صورت میں شروع ہوجاتی ہے اس کا واحد حل جہاد کی طرف لوٹنا ہے نہ کہ زبانی توبہ کرنا ۔جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
اِلَّا تَنْفِرُوْا یُعَذِّبْکُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا وَّ یَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَ لَا تَضُرُّوْہُ شَیْئًا وَ اﷲُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔(توبۃ:39)
اگر تم جہا دکو نہ نکلے تو اللہ تم کو المناک عذاب دے گا اور تمہارے بدلے دوسری قوم لے آئے گا او رتم اس کو کچھ نقصان نہ پہنچاسکوگے اللہ ہر چیز پر قادر ہے ‘‘۔
اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ترک جہاد کے علاوہ باقی گناہوں کوکم اہمیت دیتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ شریعت ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے او روہ ایک جسم کی مانند ہے جس کی قوت ایک دوسرے سے مل کر بڑھتی اورکمزور ہوتی ہے اور ہم پر اللہ کی رحمتیں اورمدد اللہ اور اس کے رسول کی مکمل اطاعت کرنے پر نازل ہوں گی اورپھراللہ ہماری طرف سے ہمارا دفاع بھی کرے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْآ اِنْ تَنْصُرُوا اﷲَ یَنْصُرْکُمْ وَ یُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ۔(محمد:7)
’’اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کروگے تواللہ تمہاری مدد کرے گا اور ثابت قدمی عطاکرے گا ‘‘۔
دوسری جگہ فرمایا:
اِنَّ اﷲَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا اِنَّ اﷲَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ۔(حج:38)
’’بے شک اللہ دفاع کرتا ہے مومنین کی طرف سے بے شک اللہ بہت زیادہ خائن اور انکاری کو ناپسند کرتا ہے ‘‘۔
قرآن مجید میں جہاد کی اجازت والی آیت اس آیت کے بعد مذکور ہوئی ہے شاید واللہ اعلم اس میںیہ حکمت ہوکہ اللہ کی طرف سے مومنین کی مدافعت جہاد سے ساقط ہوجاتی ہے یعنی جہاد تمام مسلمانوں کی تکلیفوں مشکلات سے نکلنے کا سبب ہے لہٰذا اب وہ خود اپنا دفاع جہاد سے کرسکتے ہیں تو اس آیت میں اللہ پر توکل کا بھی بیان ہے اور اسباب کو استعمال کرنے کا جواز بھی ہے جیسا کہ فرمایا:
اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقَاتَلُوْنَ بِاَنَّہُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اﷲَ عَلٰی نَصْرِہِمْ لَقَدِیْرُ۔(حج:39)
’’اجازت دے دی گئی ہے ان لوگوں کو جن پر ظلم کیا گیا اور بے شک اللہ ان کی مدد پر قادر ہے ‘‘۔
سید قطب رحمہ اللہ نے بھی اس کی بہترین تفسیر بیان کی ہے جس کا مجھے بعد میں علم ہوا چنانچہ وہ فرماتے ہیں : ’’جب اللہ نے مومنین کے دفاع کی ذمہ داری لے لی تو وہ دشمن سے حتمی طور پر محفوظ ہوگئے پھر ان کو قتال کی کیوں اجازت دی اورجہاد کیوں فرض کیا جس میں قتل بھی ہوتے ہیں زخمی بھی اور بڑی مشقتیں اٹھانی پرتی ہیں قربانی دینی پڑتی ہیں جبکہ وہ تمام فوائد ونتائج انہیں بغیر قتال کے حاصل ہورہے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ کی حکمت بالغہ یہ ہے کہ جو ہمیں اپنی سوچ و فکر سے حاصل ہوئی ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ اس دین کے حاملین سست وکمزور نہ ہوں جو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اللہ کی مدد کا انتظار کرتے رہیں اور وہ انہیں بغیر محنت کے حاصل ہوتی رہے اور وہ صرف نماز پڑھتے رہیں یا زیادہ سے زیادہ قرآن کی تلاوت کرتے رہیں اور زیادہ یہ کہ جب کوئی مصیبت آجائے یا دشمن حملہ آور ہو جائے تو اللہ سے دعائیں مانگتے رہیں اگر نماز پڑھنا تلاوت کرنا دعائیں مانگنا بھی ضروری ہے لیکن یہ صرف عبادات انہیں دین قائم کرنے کا اہل نہیں بناتی ہیں یہ تو زاد راہ کی حیثیت رکھتی ہیں مگر وہ اسلحہ جس سے دشمن کے خلاف معرکہ میں کام لیاجاتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ دشمن کے مقابلے کیلئے وہی ہتھیار استعمال کریں جو وہ آپ کے خلاف استعمال کررہا ہے اور اضافی قوت کے طور پر تقویٰ ،ایمان اور اللہ پر مکمل اعتماد کا ہتھیار استعمال کریں تو پھر اللہ کی مشیت بھی یہی ہے کہ اللہ ان مومنین کا دفاع کرے گا جوان طریقوں پر چلیں گے ‘‘۔(فی ظلال القرآن : 199/5)
میں تمام مجاہدین کو نصیحت کرتاہوں بلکہ تمام مسلمانوں کو کہ وہ سید قطب رحمہ اللہ کی تحریروں کی طرف رجوع کریں کیونکہ ان کی تحریر میں ایسے موتی او رخزانے ہیں جو ہر شخص کی ضرورت ہے ۔اس کی نظیر سورۃ انفال میں موجود ہے کہ اللہ نے مومنین کو دشمن کے خلاف قوت میں تیاری کا حکم دیا اس سے قبل آیت یوں ہے:
وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَبَقُوْا اِنَّہُمْ لَا یُعْجِزُوْنَ۔(انفال:59)
’’اور نہ خیال کریں کفار جو سبقت لے گئے ہیں کہ وہ عاجز نہیں کیے جائیں گے ‘‘۔
تاکہ وہ ان اسباب کو حاصل کرنے میں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے کوئی کسر نہ چھوڑیں اور صرف اس بات پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں کہ ہمیں اللہ کی اس بات کی قدرت کا علم ہے کہ وہ کفار سے انتقام لینے پر قادر ہے ۔
علامہ الطاہر بن عاشوررحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ اس لئے کہ اللہ کا یہ فرمان
’’وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘کفار کی کمزوری کی نشان دہی کررہا ہے اس کے بعد اللہ نے ان کے خلاف تیاری کا حکم دیا تاکہ مسلمان یہ نہ سمجھ لیں کہ مشرکین توہمارے سامنے مغلوب ہوچکے ہیں اس طرح ہمیں پتہ چلا کہ دشمن کے مقابلے میں تیاری کرنا یہ ایک سبب ہے جس کی وجہ سے دشمن اللہ اور اس کے رسول کو عاجز نہیں کرسکتے کیونکہ اللہ نے مومنین کو ظاہر اور باطنی طور دونوں اسباب مہیا کردیئے ۔(التحریر والتنویر:183/6)
غو رکرو کہ ترشید نے کس طرح جہاد کے مجرم حکام کے خلاف لڑنے کو (الصدام مع السلطات الحاکمہ)کا نام دیا اور یہ کہ وہ یہ سب جہادکے نام پر کرتے رہے ہیں اور کہا ((بعض اسلامی جماعتوں نے اس چیز میں عافیت جانی کہ ان حکومتوں یا ان کی پشت پناہ بڑی حکومتوں سے اور ان کی رعایا کے خلاف تصادم جہاد کے نام پر اختیار کیا جائے اور لوگوں کو یہ تاثر دیاجائے کہ یہ ہم اسلام کی سربلندی کے لئے کررہے ہیں اور تصادم پھیل گیا ))سمجھ نہیں آتی کہ مصنف لفظ جہاد سے کیوں راہ فرار اختیار کرنا چاہتاہے کہیں اس کو ڈکٹیٹر حکومت کی طرف سے یا خاص جگہ سے ڈکٹیشن تونہیں مل رہی ہے کہ وہ مجاہدین سے شرعی اصطلاحات علیحدہ کرنے کی کوشش کریں کیونکہ ان اصطلاحات کا لوگوں کے دلوں میں ایک خاص اثر پڑتا ہے جیسا کہ لفظ جہاد ،لفظ احلال جیسے الفاظ ان کی بجائے ’’الصدام‘‘لفظ استعمال کرنا شروع کردیا ان کی اہمیت کو کم کرنے کے لئے ان کے نزدیک یہ لفظ زیادہ مناسب قرار پایا ہے ۔
مرشد اپنے ’’وثیقہ‘‘ میں لکھتا ہے کہ ’’تصادم اورٹکراؤ مختلف شہر وں میں پھیل گیا اور اس میں شریعت کے خلاف کتنے ہی سارے امور شامل ہوگئے مثال کے طو رپر جنس کی بنیاد پر قتل ،رنگ کی وجہ سے قتل ،بالوں کا رنگ دیکھ کر قتل ،مذہب کی بنیاد پر قتل اورکئی ایسے مسلمانوں کا قتل جن کا قتل جائز نہیں تھااور کئی غیر مسلموں کا قتل وغیرہ اور قتل کے دائرہ کار کو وسیع کرنے اور معصوم لوگوں کے مال کو ناجائز طریقے سے حلال بنانے کے لئے اور مملکت میں تخریب کاری پھیلانے کے لئے کسی مسئلہ کو آڑ بناکر اس سے غلط استدلال کیا گیا ہے اور وہ تمام کام کئے گئے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب تھے جیسا کہ خون بہانا لوگوں کے مال کو ضائع کرنا وغیرہ اور ان کے تدارک کا کوئی انتظام نہیں کیا گیا چانچہ یہی دنیا اور آخرت کی رسوائی کا سبب بن گیا ۔(انتہی)
’’وثیقہ‘‘ کی اس عبارت کو جس میں یہ تہمتیں باندھی گئی ہیں جو بھی پڑھے گا وہ اس چیز کی حقیقت سے انکار نہیں کرے گا کہ یہ جماعت اور اس کے اصحاب مجرمین قاتلوں چوروں اور مفسدین کی ایک جماعت تھی جو حرمت وحلت کا خیال نہیں رکھتی تھی اور نہ حدوں کی حفاظت کرتی تھی اورنہ کسی رکاوٹ کا خیال کرتی تھی تو ان کا قرآن کی آیت کے مصداق اورکیا حکم ہوسکتا ہے :
اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْآ اَوْ یُصَلَّبُوْآ اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْہِمْ وَاَرْجُلُہُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ ذٰلِکَ لَہُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنیَا وَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.(مائدۃ:33)
’’بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کو قتل کردیا جائے یا سولی دیدی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ایک دوسرے سے خلاف کاٹ دیئے جائیں یا انہیں جلاوطن کردیا جائے ان کے لئے دنیا میں رسوائی اور آخرت میں عذاب عظیم ہے‘‘۔
مرشد کہتا ہے کہ :’’وانتشرت الصدامات‘‘ تصادم بڑھ گیا ‘‘یعنی وہ قابض ڈکٹیٹر حکومت کے خلاف جدوجہد کو جہاد کہنے کو تیار نہیں حالانکہ انہوں نے خود یہ کہا کہ اس تصادم میں کچھ غیر شرعی امور بھی شامل ہوگئے اس سے وہ یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ انہیں تصادم پر اعتراض نہیں بلکہ غیر شرعی امور کے شامل ہونے پر اعتراض ہے ڈکٹیٹروں کے خلاف تصادم غیر شرعی امرنہیں ہے تو ان کا شرعی نام جہاد کیوں نہیں استعمال کیا تاکہ لوگ اس پر اعتماد کرتے اور ا س میں اپنا حصہ ملاتے مگر انہوں نے ایسانہیں کیا شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس قلم سے یہ سب لکھا گیا ہے وہ قلم شرعی اصطلاحات سے ناواقف ہے اور صاحب قلم کا نفس بھی شرعی اصطلاحات سے ناواقف ہے کیونکہ برتن میں جوکچھ ہوتا ہے وہی اس سے گرتا ہے۔رہی بات ان تہمتوں کی جن سے صاحب ال’’وثیقہ‘‘ والوں نے اوراق کالے کردیئے توان تہمتوں کے سب سے زیادہ یہ خود مستحق قرار پاتے ہیں اور یہ بات کسی دلیل کی محتاج بھی نہیں ہے کیوں کہ یہ ایسی حقیقت ہے جو روز روشن کی طرح عیاں ہے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کاش اس بات کی وضاحت کردی ہوتی کہ وہ لوگ جنسیات کی بنیاد پر قتل کرتے تھے حالانکہ اسلامی نظریات رکھنے والے لوگ تو انسانی جان کا احترام ،توقیر کرتے ہیں اور اس کے خون بہانے کو مکمل طور پر حرام سمجھتے ہیں توشاید صاحب ’’وثیقہ‘‘ یہ تاثر دینا چاہتاہے کہ مجاہدین ان لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں جن کا تعلق معروف مذاہب سے تھا مثلاً حنفی ،مالکی ،شافعی، حنبلی وغیرہم حالانکہ یہ بات ہر لحاظ سے غلط ہے کہ مجاہدین مسلمانوں کا مذہب معروفہ کی بنیاد پر قتل جائز سمجھتے تھے اگرصاحب’’وثیقہ‘‘ کا مقصد یہی تاثر دینا نہ ہوتا تو وہ اپنی اس بات کو واضح کرکے بیان کرتا لیکن چونکہ اس کا مقصد صرف مجاہدین کو بدنام کرنا تھا لہٰذا بات بھی مبہم رکھی ۔
یہی وجہ ہے کہ اس نے یہ کہاکہ ’’یہ لوگ انہیں بھی قتل کرنا جائز سمجھتے تھے جن کا قتل ناجائز تھا چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم اور یہ لوگوں کے مال کو لوٹنے کیلئے غلط استدلال کرتے تھے وغیرہ‘‘حالانکہ یہ سب باطل تہمتیں جو انہوں نے خود تراشی ہیں حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس کے جواب میں ہم صرف یہی کہتے ہیں ’’
ھاتوا برھانکم ان کنتم صادقین‘‘اگر تم سچے ہو تودلیل لاؤ۔کسی بات کو دلیل سے بیان کرنا اور ہے اور بلا دلیل صفحات کالے کرنا آسان ہے۔
مرشد کہتا ہے:’’ اس ’’وثیقہ‘‘ کو پڑھنے والے جب ان مجاہدین کی غیر شرعی حرکتوں کو دیکھ کر اپنی عدم رضامندی کا اظہار کرتے ہیں تو پھر اس ’’وثیقہ‘‘ کی طرف توجہ کرتے ہیں کیونکہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کی غلطیوں کے نتائج اچھے نہیں ہیں اور’’وثیقہ‘‘ میں بیان کردہ ضوابط کو وہ اپنے لئے اہم قرار دیتے ہیں اور غیر مسلموں کے لئے بیان کئے گئے اصولوں کو بھی ضروری سمجھتے ہیں او روہ سمجھتے ہیں اگرہم نے ان اصولوں کی پابندی نہ کی توہم بھی ان غیر شرعی باتوں میں لگ جائیں گے جس میں یہ مجاہدین لگ چکے ہیں جن کے پاس نہ دین ہے اور نہ دنیا ‘‘
اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے بقول لوگ ان کی غیر شرعی حرکتوں سے اتفاق نہیں کرتے توپہلے آپ ان کی غیر شرعی غلطیاں ثابت کریں آیا یہ غلطیاں ان میںواقعتا موجود بھی تھیں یا محض ان پر الزام تراشی ہے اور یہ کہنا کہ انہوں نے نہ دین قائم کیا نہ دنیا باقی رہی یہ صرف نوجوان نسل کو گمراہ کرنے کا ایک حیلہ ہے اور یہ کہنا کہ ترشید میں اصول ضابطے بیان کئے گئے ہیں جبکہ ان کی حیثیت دھوکہ بازی کے سوا کچھ بھی نہیں تاکہ جہاد اور مجاہدین ختم ہوجائیں او روہ لوگ جو حقیقت میں سرکش اور جرائم پیشہ لوگ ہیں باقی رہیں تاکہ وہ کھل کر معاشرہ میں فسادپھیلاسکیں اور ترشید انہیں اس لئے سہار افراہم کررہا ہے تاکہ اپنی من مانیاں کرتے رہیں اورانہیں کوئی روکنے والا نہ ہو اللہ نے سچ کہا :
وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ قَالُوْآ اِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُوْن،اَلَآ اِنَّہُمْ ہُمُ الْمُفْسِدُوْنَ وَ ٰلکِنْ لَّا یَشْعُرُوْنَ۔(بقرۃ:12)
’’اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ فساد فی الارض نہ کرو تووہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرتے ہیں خبردار یہی لوگ فسادی ہیں مگر یہ شعور نہیں رکھتے ‘‘۔
اللہ کی قسم اگر آج جہاد نہ ہورہا ہوتا اورنہ مجاہدین ہوتے جنہوں نے دین کی خاطر اپنا خون بہادیا ہر قسم کی تکالیف برداشت کیں تو یہ ’’وثیقہ‘‘ نامی کتاب وجود میں نہ آتی اورنہ ہی انہیں ان میں امت کی خیر خواہی کا جذبہ پیدا ہوتا نہ ان کی نصیحت کی باتیں سامنے آتی ،یہ ساری تکلیف انہیں جہاد سے پیدا ہورہی ہے ۔جسے روکنے کے لئے انہوں نے اپنے تمام وسائل خیر خواہی کے نام پر ضائع کرناشروع کردیئے ۔ قوم کی یہ اجتماعی قبریں جس کے داخلی وخارجی راستے کئی سالوں سے مسدود ہوچکے تھے لوگ تاریکیوں میں زندگی گزاررہے تھے ان کی نمازیں زندگی سے عاری تھیں اس وقت جب پورا معاشرہ قبر کی تاریکیوں میں پہنچ چکا تھا نہ کسی کو ترشید کا خیال آیا مگر جب فرعون اور اس کے لشکر کو اپنا اقتدار جاتا نظر آیا تو پھر اسے بچانے کے لئے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کردیئے جیسا کہ انہوں نے مجاہدین کے خلاف شروع کردیا مگر جب انہیں یہ معلوم ہوگیا کہ ان کی مجرمانہ سیاست مجاہدین کو نقصان نہیں پہنچاسکتی تو انہوں نے اپنی اجتماعی قبر سے اس صاحب’’وثیقہ‘‘ کے ذریعے الزامات کی بوچھاڑ کردی۔
اگر مجاہدین کی کاوشوں کا نتیجہ مسلمانوں کی غلامی میں توسیع کی صورت میں نکلتا پھرتوبات بنتی تھی مگر معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ مجاہدین کے جہاد اور صبر سے بفضل اللہ نتیجہ لوگوں کے خیال سے بھی بڑھ کر حاصل ہوا ہے اور ا س حقیقت کا دشمنوں نے بھی نہ چاہتے ہوئے اعتراف کیا ہے اور یہ حقیقت صرف ان لوگوں سے اوجھل رہی جو اقامت دین کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور جن کا رویہ معاندانہ ہے اسی قسم کے لوگ دینی معاملات میں دھوکہ دہی کا ذریعہ بنتے ہیں مجاہدین نے جو اقامت دین کا فریضہ ادا کیا ہے اس کی تفصیل کا اگرچہ یہ موقع نہیں ہے مختصراً یوں کہہ دینا کافی ہے کہ وہ اس آیت کا مصداق ہیں :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ۔
(انفال:24)
’’اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت کو قبول کرو جب وہ تمہیں دعوت دیں اس لئے کہ وہ تمہیں حیات نو عطا فرماتے ہیں ‘‘۔
جیسا کہ بعض سلف نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ وہ تمہیں جنگ کے لئے بلائیں جس میں تمہارے لئے ذلت سے عزت کی طرف جانے کا راستہ ہے اور کمزوری سے طاقت کی طرف اور اس سے اللہ تمہیں دشمن کے قہر سے حفاظت عطا فرماتا ہے ۔(تفسیر طبری:465/13)
مگر ان چند خدمات کا ذکرمناسب ہے جو مجاہدین نے بطور اقامت دین انجام دیں اور دین کو زندہ کردیا جسے اہل مشرق اور اہل مغرب نے لوگوں کے دلوں سے نکال دیاتھا سوائے ان چند لوگوں کے جن پر اللہ کی رحمت ہوئی وہ خدمات درج ذیل ہیں :
اول۔فریضۂ جہاد قولاً ،عملاً زندہ کیا او رلوگوں کو اس کی حقیقت سمجھائی اور یہ بات واضح کی کہ امت مسلمہ ظالموں ،سرکشوں سے اور ان کے احکامات سے صرف جہاد ہی کے ذریعے نجات پاسکتے ہیں انہوں نے اس حق پر مبنی پیغام کو لوگوں تک پہنچایا اگرچہ ناقص صور ت میں کیونکہ معاملہ آسان نہیں تھا بلکہ اس کی راہ میں بڑی تکلیفیں اٹھانی پڑیں جس کا علم صرف اللہ کو ہے مگر آج اللہ کے فضل اور مجاہدین کی قربانیوں کی بدولت جہاد کے احکام جو دفن کردیئے گئے تھے لوگوں کے سامنے آچکے ہیں فتاویٰ ،بحث ،تقریر ،مناظرہ کی صورت میں اور آج جبکہ یہ اپنی اصلی صورت میں جلوہ گر ہے تویہ صاحب’’وثیقہ‘‘ کسی بھی لحاظ سے اس کا راستہ روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا ۔
ثانی۔ دوسری خدمت جو مجاہدین نے سرانجام دی وہ یہ ہے کہ انہوں نے طاغوت مجرمین کو رسواکرکے رکھ دیا اور وہ جو لوگوں کو دھوکہ دیتے تھے کھول کر رکھ دیا اور ان کی اسلام دشمنی اور کفا رسے دوستی جیسی حرکات لوگوں کے سامنے واضح کی ہیں اور لوگوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ جس طرح باقی کفار کے خلاف جہاد ضروری ہے ان کے خلاف بھی ضروری ہے اور یہ کہ ان کی ہم وطن ہم قوم اور ہم نام ہونے کے باوجود قوم کے خیرخواہ نہیں ہیں چنانچہ ہر انصاف کرنے والا سمجھ لیتا ہے کہ ان حکام اور لوگوں میں بڑی دوریاں پیدا ہوچکی ہیں کیونکہ انہوں نے قوم کو رسوا کرنے اور شکست سے دوچار کرنے کو مدد وفتح کا نام دے دیا ہے اور یہ قوم سے انتقام لینے پر تلے ہوئے ہیں قوم سے ان کی دوری کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قوم ان کی کرپشن ،جھوٹ ،دھوکہ دہی ،جھوٹے وعدے اور اسلام دشمنی سے واقف ہوچکی ہے ۔یہ تبدیلی زندگی کے مختلف شعبوں میں آچکی ہے اگرچہ اس کا تناسب ہر ملک میں جداجدا ہے بلکہ ایک ملک میں بھی مختلف تناسب ہے مگر یہ تبدیلی عام ہوچکی ہے چنانچہ طاغوت کو حقیقی خطرہ نظر آنے لگا ہے جو ان کو خوفزدہ کررہا ہے چنانچہ یہ ان کی عوامی مقبولیت کم ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ ان سے علیحدگی اور دوری اختیار کرنے لگے ہیں چنانچہ ان کے امریکی سردار ان کا حقیقی متبادل تلاش کرنے لگے ہیں جن میں یہ دوباتیں جمع ہوں پہلی کہ قوم ان سے راضی ہو اور یہ ان کے مطالبات حقوق دیتے رہیں اور مغربی کفار کی آواز پر لبیک کہتے رہیں تاکہ وہ مسلمانوں کے قیمتی وسائل ومعدنیات خصوصاً پٹرول وغیرہ اسی طرح لوٹتے رہیں ۔
ثالث۔ مجاہدین کی تیسری خدمت یہ ہے کہ انہوں نے الولاء والبراء (دوستی دشمنی)کا عقیدہ لوگوں میں راسخ کیا فریضہ جہاد سے اس عقیدہ کا سب سے زیادہ احیاء ہوا ہے کیونکہ یہ اسلامی عقائد میں اہم ترین عقیدہ بلکہ ایمان کی تکمیل کا باعث ہے اور اسی سے زمین پر تمکن حاصل ہوتا ہے جیسا کہ نبی uنے ارشاد فرمایا:’’جس نے اللہ کیلئے محبت کی اور اللہ کیلئے غصہ کیا اللہ کے لئے دیا اور اللہ کے لئے منع کیا اس نے اپنا ایمان مکمل کرلیا ‘‘(ابوداؤد،طبرانی وغیرھما عن ابی امامۃ t)۔
رابع۔چوتھی صورت یہ ہے کہ انہوں نے مغربی کفار ممالک کی دعوت کی حقیقت لوگوں کے سامنے کھول کر رکھ دی ہے کہ ان کی آزادی ،مساوات مذہبی رواداری وغیرہ کی اصل حقیقت آشکارہ کی اور قرآن کی بیان کردہ رہنمائی بھی لوگوں کو بتائی جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لَا یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالًا وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآء مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَکْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ، ہٰٓاَنْتُمْ اُوْلَآء تُحِبُّوْنَہُمْ وَ لَا یُحِبُّوْنَکُمْ وَتُؤْمِنُوْنَ بِالْکِتٰبِ کُلِّہٖ وَ اِذَا لَقُوْکُمْ قَالُوْآ ٰامَنَّا وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَیْکُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الغَیْظِ قُلْ مُوْتُوْا بِغَیْظِکُمْ اِنَّ اﷲَ عَلِیْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ، اِنْ تَمْسَسْکُمْ حَسَنَۃٌ تَسُؤْہُمْ وَ اِنْ تُصِبْکُمْ سَیِّئَۃٌ یَّفْرَحُوْا بِہَا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا لَا یَضُرُّکُمْ کَیْدُہُمْ شَیْئًا اِنَّ اﷲَ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ۔(آل عمران:120-118)
’’اے ایمان والو! تم ایمان والوں کو چھوڑ کر دوسروں کو اپنا ولی دوست نہ بنانا وہ تمہاری تباہی میں کوئی کسرنہیں چھوڑیں گے وہ چاہتے ہیں کہ تم تکلیف میں مبتلا ہو ان کی عداوت ان کی زبان سے بھی ظاہر ہوچکی ہے جو ان کے سینے میں پوشیدہ ہے وہ زیادہ ہے ہم نے تمہارے لئے آیتیں بیان کردیں اگر تم عقل مند ہو ۔تم توانہیں چاہتے ہو لیکن وہ تم سے محبت نہیں رکھتے تم پوری کتاب کو مانتے ہو یہ تمہارے سامنے تو اپنے ایمان کا اقرارکرتے ہیں لیکن تنہائی میں غصہ کی وجہ سے انگلیاں چباتے ہیں کہدو اپنے غصہ میں مرجاؤ اللہ تعالیٰ دلوں کے راز بخوبی جانتا ہے اگر تمہیں بھلائی ملے تو یہ ناخوش ہوتے ہیں اگر برائی پہنچے تو خوش ہوتے ہیں تم اگر صبر کرو اور پرہیز گاری کرو تو ان کا مکر تمہیں نقصان نہ دے گا اللہ نے ان کے اعمال کا احاطہ کررکھاہے ‘‘۔
انہوں نے اپنی بری زبانوں اور ہاتھوں کو پھیلادیا اور ا ن کی حکومتوں نے بے وقوفوں کو دین اسلام سے استہزاء اور دھوکہ دینے کی سند عطاء کردی اور اپنے طے کردہ بدترین اصول کے حصول کو مقصد بنالیا ان کی دھوکہ بازیاں بڑھ گئی تھیں او رلوگ اسلام کے بارے میں جو کہتے رہیں کوئی حکومت ان کو نہ روکتی تھی چاہے وہ اسلام کے کتنے مقدس اصول اور چیزوں کو پامال کردیں یہ توجہاد کی برکت سے اس چیز کا خاتمہ ممکن ہوا ہے یہ وہ حقیقت ہے جو لوگوں کو اب معلوم ہوئی ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ پر ڈٹ جانا اور سبیل المومنین کو سبیل المجرمین سے ممتاز حیثیت میں بیان کرنا ہی امت کی کامیابی کی راہ ہے ۔مجاہدین کی کاوشوں سے ہی یہ بات لوگوں کے سامنے واضح ہوئی کہ کفار اور دین دشمن لوگوں کی دشمنی نہ تو زمین کی وجہ سے ہے اورنہ مال اور سیاست کی وجہ سے ہے بلکہ ان کی دشمنی دین کی بناء پر ہے جس سے ان مجرمین نے لوگوں کو ایک زمانہ طویل سے غفلت او ردھوکہ میں رکھا کیونکہ وہ ان کی حقیقت کو نہ سمجھتے تھے بلکہ وہ اپنے جمہوری ڈیموکریسی نظام سے دھوکہ دیتے رہے جب ان طاغوتی قوتوں کو مکمل یقین ہوگیا کہ ہم نے ان لوگوں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے تواپنے خودساختہ قوانین آہستہ آہستہ نافذ کرناشروع کردیئے اور ان کی آزادی فکر آہستہ آہستہ چھین لی پھر واضح طور پر اسلام دشمنی شروع کردی اور ایسے قوانین لاگو کئے جس کے ذریعے لوگوں کو اپنا قیدی بنالیا اور جو دعوت دینے والوں کو قیدخانوں میں ڈال دیا ان کی یہ اسلام دشمنی ہر شخص کو سمجھ میں آگئی سوائے ان لوگوں کے جو انتہائی بے وقوف بے عقل ناسمجھ لوگ ہیں۔
خامس۔ پانچویں خدمت مجاہدین نے اپنے مضبوط عقیدے اور عمل سے بڑی بڑی سلطنتوں کے غرور خاک میں ملادیئے تب لوگوں کو پتہ لگا کہ یہ تو ریت کی دیوار تھی یہ امریکہ کل تک اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اہل مشرق اور اہل مغرب دم ہلاتے پھرتے تھے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ ایسی قوت ہے جس کو زیر نہیں کیا جاسکتا مگر اب جبکہ اس کے غبارے سے ہوا نکل گئی ہے اس کی معیشت بظاہر مضبوط ہے مگر اس کی حیثیت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں یہی وجہ ہے کہ آج کمزور ممالک نے بھی امریکہ کو آنکھیں دکھانا شروع کردی ہیں کل تک اس کی فوج دنیا کی طاقت ور ترین سمجھی جاتی تھی مگر آج وہ جن ممالک میں داخل ہوئی وہاں سے نکلنے کا راستہ تلاش کرتی پھررہی ہے مگر راستہ نہیں مل رہا مجاہدین کی کاوشوں سے آج امریکہ اورمغربی ممالک اس حالت کو پہنچے ہیں جہاں مجاہدین کی کاوشیں ہیں وہاں امریکہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے خود بھی تباہی وبربادی کے گڑھے میں گرپڑا ہے اور اپنے پیروکاروں کو بھی تباہی کا حصہ دار بنادیاہے۔
سادس۔ چھٹی خدمت یہ ہے کہ مجاہدین نے مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات پختہ کردی ہے کہ ان کے پاس ایسی طاقت وقوت ہے جس کے سامنے کھڑے ہونے کی کسی میں جراء ت نہیں ہے چاہے وہ بظاہر کتنا ہی مضبوط کیوں نہ نظر آرہا ہو اور وہ ایمان کی اور یقین کی طاقت ہے اور یہ کہ اللہ ان کے ساتھ ہے کیونکہ تاریخ یہ ثابت کرچکی ہے کہ کتنی ہی چھوٹی جماعتوں نے اپنے سے بڑی جماعتوں کو اپنے صبر اور ایمان کے ذریعے شکست سے دوچار کردیا یہی چیز آج مجاہدین نے ثابت کردی کہ میدان جہاد میں مدمقابل بڑی بڑی طاقتیں تھیں اور اس کے مقابلے میں مجاہدین کی تعداد بہت کم ہونے کے باوجود دشمن کے دانت کھٹے کردیئے اورمیدان بد ر کی یاد تازہ کردی جس میں اللہ نے یہ بات واضح کردی تھی کہ یہ دین اللہ کا دین ہے اور اللہ کی مدد صرف مادی اسباب کے ساتھ ضروری نہیں ہے جیسا کہ فرمایا:
وَ لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّۃٌ فَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.(آل عمران :123)
’’اللہ نے تمہاری بدر میں مدد کی جبکہ تم کمزور تھے اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن سکو‘‘۔
اللہ کے دین کے دشمن کل بھی مادی وسائل پر اعتماد کرتے تھے آج بھی اسی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھتے ہیں مگر مجاہدین کا اعتماد ایمان اور صبر پر رہا ہے اور آج بھی کررہے ہیں جو کہ ان نام نہاد سلطنتوں میں مفقود ہے اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی تدبیر وتوفیق سے ہی ممکن ہوا ہے جیسا کہ ارشاد ربانی ہے :
لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَ یُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَ لَوْ کَرِہَ الْمُجْرِمُوْنَ.(انفال:8)
’’تاکہ اللہ حق کو سچ ثابت کردے اور باطل کو باطل ثابت کردے اگرچہ مجرمین اس سے کراہیت کریں‘‘۔
ساتویں۔ خدمت یہ ہے کہ انہوں نے جہاں کفار ومشرکین کو بدترین شکست سے دوچار کیا ساتھ ساتھ منافقین اور ان لوگوں کو جن کے دلوں میں مختلف بیماریاں ہیں کو بھی ذلت ورسوائی سے دوچار کیا قرآن نے ایسے منافقین کی مختلف صفات بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ شکوک وشبہات پیداکرتے رہتے ہیں مجاہدین نے زندیقوں کے چہرے سے بھی نقاب اتاردی ہے جس سے وہ اب لوگوں کے سامنے بے نقاب ہوگئے ہیں وہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے میں مصروف تھے اس کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی بے نقاب ہوگئے جو سنی سنائی باتیں آگے نقل کرکے شبہات پیدا کررہے تھے چنانچہ جہاد کی یہی توخاصیت ہے کہ وہ منافقین اور مسلمانوں میں تمیز کرتا ہے جب جہاد کا علم بلند ہوتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کون لبیک کہتا ہے او رکون معذرتیں پیش کرتا ہے اور ایسی جگہوں میں پناہ تلاش کرتاہے جہاں ان جیسے ہی لوگ ہوتے ہیں لہٰذا آج کے منافقین بھی قدیم منافقین کی زبان بول رہے ہیں جیساکہ اللہ واضح فرماتا ہے :
وَ اِذْ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اﷲُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اِلَّا غُرُوْرًا،وَاِذْ قَالَتْ طَّآئِفَۃٌ مِّنْہُمْ یٰٓاَہْلَ یَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَکُمْ فَارْجِعُوْا وَ یَسْتَاْذِنُ فَرِیْقٌ مِّنْہُمُ النَّبِیَّ یَقُوْلُوْنَ اِنَّ بُیُوْتَنَا عَوْرَۃٌ وَ مَا ہِیَ بِعَوْرَۃٍ اِنْ یُّرِیْدُوْنَ اِلَّا فِرَارًا۔(احزاب:13)
’’اور جب منافقین کہہ رہے تھے اور وہ لوگ بھی جن کے دلوںمیں مرض ہے ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا ہے وہ دھوکہ ہے اورجب ان میں سے ایک جماعت نے کہا اے مدینہ والو تمہارے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے چلو واپس لوٹ جاؤ اور ان کی ایک جماعت اجازت مانگنے لگی کہ ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں حالانکہ وہ غیر محفوظ نہیں تھے لیکن ان کا پختہ ارادہ بھاگنے کا تھا‘‘۔
اور آج بھی آپ کو ایسے لوگ مل جائیں گے جو بظاہر تو نصیحت کرتے نظر آئیں گے مگر حقیقت میں وہ لوگوں کی ہمت توڑنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’لَا تَنْفِرُوْا فِی الْحَرِّ۔نہ نکلو گرمی میں(توبہ:81)‘‘ان کی عادتیں قرآن میں بیان کردہ منافقین کی عادات کے عین مطابق ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
اَشِحَّۃً عَلَیْکُمْ فَاِذَا جَآء الْخَوْفُ رَاَیْتَہُمْ یَنْظُرُوْنَ اِلَیْکَ تَدُوْرُ اَعْیُنُہُمْ کَالَّذِیْ یُغْشٰی عَلَیْہِ مِنَ الْمَوْتِ فَاِذَا ذَہَبَ الْخَوْفُ سَلَقُوْکُمْ بِاَلْسِنَۃٍ حِدَادٍ اَشِحَّۃً عَلَی الْخَیْرِ اُولٰٓئِکَ لَمْ یُؤْمِنُوْا فَاَحْبَطَ اﷲُ اَعْمَالَہُمْ وَکَانَ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ یَسِیْرًا۔(احزاب:19)
’’تمہاری مدد میں بخیل ہیں پھر جب خوف کا موقع آجائے تو آپ انہیں دیکھیں گے کہ آپ کی طرف نظریں جمادیتے ہیں اور ان کی آنکھیں اس طرح گھومتی ہیں جیسے اس شخص کی جس پر موت کی غشی طاری ہو پھر جب خوف جاتا رہتا ہے تو تم پر اپنی تیز زبانوں سے باتیں بناتے ہیں مال کے بڑے ہی حریص ہیں یہ ایمان لائے ہی نہیں ہیں اللہ نے ان کے تمام اعمال نابود کردیئے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر یہ بہت ہی آسان ہے‘‘۔
آج بھی اسی قسم کے لوگ ظاہر ہوچکے ہیں اور لوگوں نے بھی ان کے خطرات محسوس کرنا شروع کردیئے ہیں اللہ ہم سب کو ان کے مکر وفریب تمام قسم کے شر وفساد اور گمراہی سے محفوظ رکھے ۔یہ وہ چند خدمات ہیں جو مجاہدین نے انجام دی ہیں اور اسی سے دین کی اقامت اور مضبوطی ممکن ہے اگر یہ جہادی کوششیں نہ ہوتی تو یہ سب ناممکن تھا اگر مسلمان’’وثیقۃ الترشید‘‘میں بیان کئے گئے قواعد وضوابط پر عمل کرناشروع کردیتے اور اپنے آپ کواسی میں مقید کرلیتے اور جہاد کی بجائے اسی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیتے اور کمزور ثقافت کو جدید مفہوم دے کر اپنا لیتے تو اسلام پر ایسی مصیبتیں نازل ہونا شروع ہوجاتیں جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا اور پھر ’’وثیقۃ الترشید‘‘لکھنے کی بھی ضرورت نہ پڑتی اور نہ ہی اس کو پھیلانے کا کسی میں شوق پیدا ہوتا کیونکہ ایسی صورت میں یہ لوگ بڑے امن وامان سے رہ رہے ہوتے کیونکہ کوئی چیز ان کی زندگی میں رکاوٹ پیدا نہ کررہی ہوتی اور نہ ان کے غاصبانہ حکومت کو ہلارہا ہوتا لہٰذا انہیں جب کوئی پریشانی ہورہی ہوتی تو ’’وثیقۃ الترشید‘‘ جیسی نشہ آور چیزوں کی ضرورت ہی نہ پڑتی مگر مجاہدین کی کوششوں نے امت میں برائیوں کے خلاف ہلچل مچادی جس کی وجہ سے ان کی پریشانیاں بڑھ گئیں جس کی بناء پر یہ نشہ کرنا پڑا۔
اقامت دین کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ ایک مکمل اسلامی ریاست قائم کردی جائے اگرچہ یہ اقامت دین کا تتمہ کہلائے گا مگر اقامت دین کے لئے کی جانے والی کوشش اور ہر عمل جو اس مقصد کے لئے کیاجائے وہ اقامت دین کا ہی حصہ کہلائے گا بلکہ کسی بھی عمل کا احیاء جس کا تعلق شریعت سے ہو یا جس کا شریعت نے حکم دیا ہو اور جس کے کرنے پر اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہو وہ بھی اقامت دین میں شمار کیا جائے گا اسی وجہ سے اقامت دین کا سب سے عظیم کام توحید کو قرار دیا گیا ہے کیونکہ تمام انبیاء ورسل کی یہی دعوت تھی جیسا کہ ارشاد ہے:
شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّ الَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَ مَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرَاہِیْمَ وَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْہُمْ اِلَیْہِ اَﷲُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآء وَ یَہْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ۔(شوریٰ:13)
’’اللہ نے تمہارے لئے وہی دین مقرر کیا جس کے قائم کرنے کا اس نے نوح کو حکم دیا تھا اور جو بذریعہ وحی ہم نے تیری طرف بھیج دی ہے اور جس کا تاکیدی حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ ،عیسیٰ (o)کو دیا تھا کہ اس دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا جس چیز کی طرف آپ انہیں بلارہے ہیں وہ تو مشرکین پر گراں گزرتی ہے اللہ جسے چاہتا ہے اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور جو بھی اس کی طرف رجوع کرتا ہے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے ‘‘۔
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ ‘‘یعنی تمہیں حکم دیاہے کہ تم دین کے تمام احکامات اصول ،فروع قائم کرو اور اس کی اقامت کے لئے جدوجہد کرو اورنیکی تقویٰ کے کام پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ وزیادتی پر تعاون نہ کرو’’ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہ‘‘یعنی تاکہ تمہیں اصول دین اور اس کے فروع پر اتفاق حاصل ہوجائے اور مسائل میں تفرقہ بازی سے گریز کرو تاکہ تم ایک دوسرے کے دشمن نہ بن جاؤ اصل دین پر اتفاق کے بعد۔اور دین ہر اجتماع اور عدم تفریق کی مختلف قسمیں ہیں پہلی وہ جس کا شارع نے اجتماع کا حکم دیا جیسا کہ حج ،عید ین کے اجتماعات پانچ نمازوں کا اجتماع ،جہاد کا اجتماع وغیرہ یہ وہ عبادات ہیں جن میں جمع ہوئے بغیر پوری نہیں ہوتی ۔(تفسیر السعدی:754/1)
قال المرشدصاحب ’’وثیقہ‘‘ کہتا ہے:’’مخالفت کے مختلف درجات ہیں پس جو اپنی خواہش کو اپنے رب کے حکم پر مقدم کرلے چھوٹے معاملات میں تو ایسا شخص مرتکب صغیرہ (چھوٹے گناہوں کا مرتکب) کہلائے گا جن کو عصیان کہا جاتا ہے ۔اور جو اپنی خواہش بڑے معاملات میں اپنے رب کے حکم پر مقدم کرے تو یہ مرتکب کبیرہ کہلائے گا جس کو (فسق)کہا جاتا ہے اور جو اپنی خواہش عظیم معاملات میں اپنے رب کے حکم پر مقدم کرے تو یہ کفر ہے ‘‘۔
اگرچہ یہ اجمالی کلام ہے اور اس میں تفصیل سے شرعی دلائل کی ضرورت ہے مگر ہم کہتے ہیں کہ واقعی اللہ کے احکامات کی مخالفت کے مختلف درجات ہیں مگر یہ مجرم حکومتیں کس درجہ میں شامل ہیں جنہوں نے اللہ کی شریعت کی مخالفت میں حد کردی اجمالاً اور تفصیلاً بھی ۔جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ان ڈکٹیٹر حکومتوں نے ’’وثیقہ‘‘ کو شائع صرف اس لئے کرایا تاکہ مجاہدین جو حق کی دعوت دیتے ہیں ان کو باندھا جاسکے اور انہوں نے شریعت کے اصول ،فروع کو توڑا اور دین کی مدد کرنے والوں کوسزائیں دیں اور دعوت دین کی تمام راہیں بند کرنے کی کوشش کی اور اپنی خواہشات کو رب تعالیٰ کے احکامات پر مقدم سمجھتے ہوئے اس کی تکمیل کی تمام معاملات میں یہی طرز اپنایا خواہشات میں سیاست رائے میں غرض چھوٹے معاملات میں اور بڑے معاملات میں بھی رب کی نافرمانی کی تو ان کایہ طرز عمل کیا انہیں کفر میں مبتلا نہیں کررہا اور اب یہ ڈکٹیٹر حکومت کہلانے کے ساتھ ساتھ کافر اور مرتد حکومت نہیں کہلائے گی؟؟ خاص طور پر جبکہ انہوں نے لوگوں کو غیر شرعی امور کی اطاعت پر مجبور کردیا ہے اور لوگوں کو غیر اسلام کی طرف دعوت دینا شروع کردی ہے اور وہ دین جس کی طرف وہ دعوت دے رہے ہیں یہ ہیں ڈیموکریسی جمہوریت ،وطنیت ،قومیت،لادینی سیکولر نظام جس نے بھی ان کی مخالفت کی کوشش کی ان کے خلاف جنگ شروع کردی اور جن لوگوں نے ان کی دعوت قبول نہ کی انہیں دھتکار دیا خاص طور پر مصری حکومت جو دراصل فرعون کے وارث ہیں اورانہوں نے ان ہی کے طرز وانداز کو اپنایا اور اس کو مضبوط کیا اور یہ کفر اور دین کے خلاف جنگ کرنے میں تمام حکومتوں سے آگے بڑھ گئی ہے اور اپنے احکامات کو اللہ کے احکامات پر ترجیح دینے ،شریعت محمدی کی مخالفت میں ،مومنین کو تکالیف پہنچانے میں سب سے آگے ہے صاحب’’وثیقہ‘‘ نے جو شیخ الاسلام کے قول سے اشتہاد کیا ہے وہ قول سب سے زیادہ مصری حکومت پر منطبق ہوتا ہے وہ یہ قول ہے ’’یہ بات سب کو جان لینی چاہیے کہ اس پر مسلمانوں کے دین کا اور مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ جو دین اسلام کو چھوڑ کر اور دین اختیار کرتا ہے یا کوئی کسی کو دین اسلام چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے یا شریعت محمدیہ کو چھوڑ کر کسی اور کی اتباع کرتا ہے تو وہ کافر ہے او رو ہ اس طرح کافر ہے جیسے کوئی کتاب کے بعض حصے پر ایمان لائے اور بعض کا انکار کرے ‘‘۔(مجموع الفتاوی:524/28)
یہ مصری حکومت اور اس کے علاوہ شریعت سے ہٹ کر فیصلے کرنے والی حکومتیں مرشد کے اس قول کے بموجب کہ (شریعت کے مطابق فیصلے کرنا تمام مسلمانوں پر ایمان کے تقاضوں کے مطابق واجب ہے اس کے ترک پر گناہ گار ہے اور اس کا ایمان ختم ہوجاتا ہے ،لہٰذا یہ حکومت بھی گناہ گارہے اور اس کا ایمان ختم ہوچکا ہے۔اگرچہ صاحب ترشید اپنی دوسری کتاب ’’الجامع فی طلب العلم الشریف‘‘میں وہ یہ اقرار کرچکے ہیں کہ کسی ایک فیصلے میں بھی اللہ کے فیصلے کو چھوڑ کر غیر اللہ کے مطابق فیصلہ کرنا کفر ہے ۔ اس حکومت نے مکمل طو ر پر شریعت کو چھوڑ کر اپنی خواہشات اپنی رائے ۔اور کم عقلی کی اتباع کی اور لوگوں کو بھی اس بات پر مجبور کیا کہ وہ شریعت سے دور رہیں اور باطل نظام کی اتباع کریں اور اس حکومت کی فوج نے بھی حکومت کا اس معاملے میں مکمل ساتھ دیا ان کے نشر واشاعت کے اداروں نے اس چیز کو قابل تحسین قرار دیکر اس کی دعوت دینی شروع کردی اور اس کی مخالفت کرنے والوں کو ان کے سیکورٹی اداروں نے کچل دینے کی پالیسی اپنائی آج کوئی مسلمان کسی بھی ملک یا شہر میں جس کے بارے میں وہ گمان کرتا ہے کہ یہ اسلامی ملک ہے اپنے وہ حقوق حاصل نہیں کرسکتا جو اسے شریعت نے دیئے ہیں اور اگر ظلم ہوجائے تو شریعت کے مطابق انصاف کو سوچ بھی نہیں سکتا بلکہ اسے لوگوں کے خودساختہ قوانین کا سامنا کرنا پڑتا ہے اب چاہے حقوق ملیں یا کچھ ملیں یا بالکل نہ مل سکیں یہ سب سے بڑا شر ہے اوربڑا فساد ہے او ریہی سب سے بڑی مصیبت ہے اور اس طاغوت حکومت ،فوج ،ان کے قوانین اور ان کے اداروں نے لوگوں کے دین اور دنیا کا بہت خوب نقصان کیا ہے اسی وجہ سے شیخ عبدالقادر نے خود یہ اقرار کیا ہے کہ زندہ طاغوت مردہ طاغوتوں سے زیادہ خطرناک ہیں او رمزید کہامیں نے جس بات پر تنبیہ کی ہے اس کی اہمیت یہ ہے کہ زندہ طاغوتوں کافساد لوگوں کے دین کو برباد کردے کبھی انہیں مرتد کرکے کبھی دین سے بے رغبت کرکے اورکبھی مکر اوردھوکے سے یہ وہ فساد ہے کہ مردہ طاغوت کے بارے میں یہ خطرہ نہیں ہوتا۔لوگوں پر تعجب ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اہل علم ودین کہلواتے ہیں اور مذہب سلف کے اپنے آپ کو پیروکار سمجھتے ہیں او راپنے قلم کو مردہ طاغوتوں کے خلاف لکھنے میں مصروف کررکھا ہے مگر زندہ طاغوت کے بارے میں خواب غفلت میں پڑے ہوئے ہیں اور آپ انہیں دیکھتے ہو کہ ایک طرف تو وہ مردہ طاغوت کے خلاف لکھنے میں مصروف ہیںدوسری طرف خود کفریہ جمہوری نظام اور قوانین کے مطابق زندگی بس کررہے ہیں اور اس کافرانہ نظام سے تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں اس کی خرابیوں سے صرفِ نظر کیاہوا ہے یہ عجیب دوہرا معیار ہے اللہ فرماتا ہے :
وَ اِذْ یَعِدُکُمُ اﷲُ اِحْدَی الطَّآئِفَتَیْنِ اَنَّہَا لَکُمْ وَ تَوَدُّوْنَ اَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَۃِ تَکُوْنُ لَکُمْ وَ یُرِیْدُ اﷲُ اَنْ یُّحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمٰتِہٖ وَ یَقْطَعَ دَابِرَ الْکٰفِرِیْنَ.(انفال:7)
’’اور(اے مسلمانوں!وہ وقت یاد کرو)جب اﷲتم دوجماعتوں میں سے ایک کا وعدہ کرتاتھا کہ وہ تمہارے لئے ہے اور تم یہ چاہتے تھے کہ بے لڑے تمہیں مل جائے اور اﷲچاہتا ہے کہ حق کواپنی باتوں سے ثابت کردے اورکافروں کی جڑکاٹ دے ‘‘
اس پر غور کرو توبعض ان اسباب کے بارے میں ہمیں علم ہوجائے گا جن کی وجہ سے آج ہم تکلیف ومشقت میں مبتلا ہیں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ آج ہمارا دین وعلم محفوظ ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ واقعی ہمارا دین محفوظ ہے مگر جو اس باطل نظام کو قبول کرچکا ہو اور اس پر راضی ہو تو اس کو کیا کہیں گے اور جو اس طاغوت پرشریعت کا اطلاق کرے اس کو کیا نام دیا جائے گااگر کوئی جہاد کے بارے میں بات کرتا ہے تو یہ فلسطین اور افغانستان کے جہاد کی باتیں تو کرتے ہیں جبکہ مرتد حاکموں کے خلاف کیے جانے والاجہاد فلسطین اور افغان جہاد سے زیادہ واجب ہے کیونکہ یہود بھی دشمن ہیں اور یہ بھی دین کے دشمن ہیں جو مسلمان ممالک میں گھس آئے ہیں مگر مرتد حکام کے خلاف جہاد دووجوہات کی بناء پر یہود کے خلاف جہاد سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ قریب ہیں اور مرتد ہیں اور یہ دواسباب ایسے ہیں کہ پہلے ان کے خلاف جہاد کیا جائے جیسا کہ یہ بات بھی واضح ہے کہ جو افغانستان اور فلسطین میں جہاد کررہے ہیں ان کو ہیرو اور شہید کہا جاتا ہے اور ان پر مال ودولت کی بارش کردی جاتی ہے اور کوئی اگر ان کے علاوہ جگہوں پر جہادکرے تو وہ مجرم اورغدار شریعت کا مخالف قرار دیا جاتا ہے ۔(العمدۃ فی اعداد العدۃ : 354)
میں کہتا ہوں :بلکہ آج جو لوگ افغانستان اور فلسطین میں قتل ہورہے ہیں وہ بھی شہید کا لقب نہیں پارہے بلکہ انہیں مجرمین اور غداروں کے زمرہ میں شامل کیا جارہاہے اورانہیں شریعت کامخالف قرار گردانا جاتا ہے وہ شریعت جس کو امریکا نے وضع کیاہے اور جس کی وہ دعوت دے رہا ہے اور جس کی پشت پناہی ڈکٹیٹر طاغوت عرب ممالک کررہے ہیں کتنی عاجزی کے دن آچکے ہیں ؟
مرشد کہتا ہے کہ :’’یہ جلیل القدر مقام جہاد کا مقام ہے بے شک مسلمان کی اپنے رب کے لئے عبودیت محقق ہوتی ہے جب وہ اپنے رب کی مراد اپنی مراد پر مقدم کرتا ہے اور وہ اس طرح کہ وہ مسلمان پہچان کرے ان واجبات کی جو اس پر اللہ نے اس وقت واجب کئے اور اپنی استطاعت کے مطابق تو وہ جتنا اس کے مطابق چلے گا اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا اور جس سے عاجز رہے گا اس کا گناہ اس سے ساقط رہے گا ‘‘۔
اس میں شک نہیں کہ آج مسلمان سے یہی مطلوب ہے کہ وہ اللہ کے واجبات کی پہچان کرے مگر حکم جہاد کی پہچان کو نہ تو ہم نوافل قرار دے سکتے ہیں اور نہ اعمال کی تکمیل کا ذریعہ بلکہ اس کی حیثیت آج واجبات میں سب سے زیادہ واجب کی ہے کیونکہ اس زمانے میں جہاد فرض ہوچکا ہے جیسا کہ ساری امت کے تمام علماء نے یہی فتویٰ دیا ہے جہاد کی پہچان اور اس کو لوگوں کے سامنے بیان کرنا اور حکم جہاد کی نشر واشاعت اوراس کی لوگوں کو تاکید کرنا اس کو زندہ کرنے کا علماً وعملاً پہلا قدم ہے اور یہی اولی الالباب والنہی علماء صادقین کی اہم ترین ذمہ داری ہے جو اللہ کے پیغام کو پہنچارہے ہیں اور اسی سے ڈرتے ہیں اور اس کے سوا کسی اور سے نہیں ڈرتے اگرچہ یہ آسان معاملہ نہیں ہے اورنہ ہی یہ معمولی کام ہے کیونکہ سب سے پہلے ان کا پالا ان کفر کے آئمہ اور مرتد حکام سے اور ان کے معانین سے پڑے گا اور ان کے اعصاب جتنے جہاد جیسی عبادت سے لرزتے ہیں اتنے کسی اور سے نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ جہادسے سب سے پہلے ان کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا پھر دوسروں کا ہوگا جیسا کہ نبی علیہ السلام کا فرمان ہے ’’سب سے افضل جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا ہے۔‘‘(ابوداؤد ،ترمذی،ابن ماجہ)
بلکہ جن لوگوں نے آپ ﷺکے سامنے جہاد میں جانے سے عذر پیش کیا تو آپ ﷺنے ا نکے لئے یہ شرط عائد کی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں جس شخص پر جہاد بالنفس اور جہاد بالمال ساقط ہوجاتا ہے تواس پر جہاد باللسان (زبانی جہاد)واجب رہتا ہے جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
لَیْسَ عَلَی الضُّعَفَآء وَ لَا عَلَی الْمَرْضٰی وَ لَا عَلَی الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ مَا یُنْفِقُوْنَ حَرَجٌ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ وَ اﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.(توبۃ:91)
’’کمزور بیماروں اور ان لوگوں پر جو خرچ کرنے کے لئے مال نہیںپاتے کوئی حرج نہیں جب وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں محسنین کے خلاف کوئی (عیب کی )راہ نہیں ہے اور اللہ غفور رحیم ہے‘‘۔
امام ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’:نصیحت کی شرط اس لئے عائد کی گئی ہے کہ اگر کوئی فساد کی نیت سے پیچھے رہتا ہے تو اس کی مذمت ہوجائے اور یہ نصیحت اللہ سے مسلمانوں کو جہاد کی رغبت دلائی گئی اور آپس میں اصلاح اور ان تمام کاموں کی جس سے دین میں استقامت آتی ہے‘‘ ۔(زادالمسیر:218/3)
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’ان لوگو ں پر کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کے لئے نصیحت کرتے رہیں یعنی وہ اپنے ایمان میں سچے رہیں اور نیت یہ رکھیں اگر قدرت ہوئی توجہاد ضرور کریں گے مگر جس چیز کی قدرت رکھتے ہیں یعنی لوگوں کو جہاد کی رغبت دلانا تو وہ کرتے رہیں گے ‘‘۔(تفسیر السعدی:347/1)
انس tسے روایت ہے کہ نبی uنے فرمایا:’’مشرکین کے خلاف اپنے مال ،جان،زبانوں سے جہاد کرو‘‘۔(احمد،ابوداؤد،نسائی،حاکم)
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے اپنے قصیدہ نونیہ میں فرمایا۔’’یہ دین کی مددکرنا فرض اور لازم ہے نہ کہ فرض کفایہ بلکہ تمام لوگوں پر ورنہ اگر عاجز آجائے تو زبان سے اور اگر اس سے بھی اماموں کو جہاد پر متوجہ کرے اور دل سے دعا کرے ‘‘۔
شیخ عبدالقادر بن عبدالعزیز نے اپنی کتاب العمدۃ میں ان لوگوں کے لئے جو جہاد میں جانے سے معذور ہیں ان کے لئے جہاد کی سات ممکنہ صورتیں بیان کی ہیں آخر میں انہوں نے فرمایا’’ان صورتوں میں تم نے دیکھا کہ ان لوگوں کے لئے جو جہاد میں جانے سے معذور ہیں ایسی صورتیں ہیں جس سے جہاد کو فائدہ پہنچتا ہے مثلاً دعاکرنا،مال خرچ کرنا ،لوگوں کو جہاد کی دعوت دینا اور مومنین کو قتال کی رغبت دلانا ،مسلمانوں کی خیر خواہی کرنا ،یہ تمام چیزیں واجب ہیں ان لوگوں پر جو عذر کی بناء پر جہاد میں جانے سے قاصر ہیں لہٰذا ان کے حرج کو مشروط اٹھالیاگیا جیسا کہ اللہ فرماتا ہے’’ اِذَا نَصَحُوْا لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ مَا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ مِنْ سَبِیْلٍ‘‘جب وہ نصیحت کریں اللہ اور اس کے رسول کے لئے محسنین کے خلاف کوئی سبیل نہیں ‘‘۔
مسلمانوں پر آج سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی مراد پر اللہ کی مراد کو مقدم سمجھے وہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو جہاد کی رغبت دلائے اور جہاد کی دعوت دے اور مجاہدین کے لئے دعاکرے اور جہاد کی ادائیگی کرے اپنے مال،زبان ،اپنی جان کے ذریعے اپنی استطاعت کے مطابق اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس سے جہادشرعی اسباب کی بناء پر ساقط ہوگیا ہے پھر بھی وہ جہاد کے میدانوں میں چلاجاتا ہے تو اس کو اس کی خلوص نیت پر اجر ضرور ملے گا اگر وہ مجاہدین پر بوجھ نہ بنے دین نے جس چیز کی معذور سے نفی کی ہے وہ گناہ اور حرج کی ہے مگرمرتبہ اور فضیلت حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔مگر اس صاحب ال’’وثیقہ‘‘ نے یہ مہم چلانی شروع کردی کہ مسلمان جہادی فریضہ کی ادائیگی سے معذور ہیں اور وہ اس کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ بڑا پر مشقت کام ہے اگر وہ اسے نصیحت سمجھ رہے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے کیونکہ یہ نصیحتیں قوم کوبزدل بنارہی ہیں بلکہ رسوائی کاباعث بن رہی ہیں اور اس کے ذریعے باطل کو حق میں خلط ملط کیا جارہا ہے ۔عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ایک نابینا شخص تھے اگرچہ وہ جہاد میں جانے سے معذور تھے پھر بھی جہاد کے لئے نکلتے تھے قادسیہ والے دن جھنڈا اٹھائے پھرتے تھے ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ شہادت حاصل ہوجائے مگر انہوں نے اپنے عذر کو اہمیت نہ دیتے ہوئے جہاد کی طرف نکلنے کو ترجیح دی اور صحابہ میں سے کسی نے ان کے اس عمل پر ہرگز نہیں ٹوکا بلکہ ان کے اس عمل کو ان کی فضیلت میں بیان کیا حالانکہ جہاد ان کے لئے فرض کفایہ تھا مگر انہوں نے پھر بھی عذر کے باوجود جہاد میں شمولیت کو ترجیح دی کیونکہ وہ اس کی افضیلت واہمیت سے واقف تھے ۔ذالک فضل اﷲ یوتیہ من یشاء واﷲ ذوالفضل العظیم۔یہ اللہ کا فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطا فرماتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے ۔
عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ قرآن مجید کی آیت ’’
لایستوی القاعدون من المومنین والمجاھدون فی سبیل اﷲ‘‘یعنی بیٹھے مومنین میں اور جہادمیں جانے والے برابر نہیں ہیں۔ اتریں تو عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نے کہا یا اللہ میرے عذر پر آیت نازل فرمادے تو اللہ نے یہ الفاظ نازل کئے غیر اولی الضررسوائے ان لوگوں کے جن کو کوئی تکلیف ہے ۔میں نے درمیانی راہ نکالی چنانچہ وہ غزوات میں شریک ہوتے اور کہتے کہ مجھے عَلَم (جھنڈا)پکڑا دو میں نابینا ہوں اور میں فرار ہونے کی استطاعت نہیں رکھتا اور مجھے دونوں لشکروں کے درمیان کھڑا کردو۔(الطبقات الکبری)
رازی اس آیت مذکورہ کی تفسیرمیں کہتے ہیں :’’مراد یہ ہے کہ ان کے لئے جہاد سے پیچھے رہنا جائز ہے اور کسی آیت میں یہ نہیں ہے کہ ان پر نکلنا حرام تھا اگر کوئی ان میں سے مجاہدین کی مدد کے لئے نکلا سامان کی حفاظت کے لئے یا اس لئے کہ ان کی تعداد زیادہ معلوم ہوبشرطیکہ وہ مجاہدین کے اوپروبال اور بوجھ نہ بن جائے تو یہ عمل اس کے لئے اطاعت گزاری کا سبب اورمقبولیت کا درجہ رکھتا ہے ۔(تفسیر رازی:119/8)
لہٰذا مرشد کا یہ کہنا کہ’’اس کے لئے ثواب ہے جتنا وہ اس پر قائم رہے گا اور اس سے عاجزی کا گناہ ساقط ہوجائے گا‘‘۔
گناہ ساقط ہونے کا کہنا خاص طور پرجہا د کے لئے درست نہیں ہے کیونکہ عاجزی کبھی کوتاہی سستی کی وجہ سے بھی ہوتی ہے تو ایسی صورت میں گناہ ساقط نہیں ہوگا جیسا کہ صاحب ال’’وثیقہ‘‘ نے اس جانب اشارہ تک نہیں کیا کیونکہ اس کا مقصد فرضیت جہاد کی اہمیت کو کم کرنا تھا حالانکہ صحیح بات یہ تھی جو ان کو کہنی چاہیے تھی کہ اس کا گناہ اس کی عاجزی کی وجہ سے ساقط ہوجائے گا بشرطیکہ وہ اپنی عاجزی کو زائل کرنے کی کوشش کرتا رہے یا یہ عاجزی سستی کوتاہی کے نتیجے میں نہ ہو لیکن اگر کوئی یہ دیکھتاہے کہ مسلمانوں کے گھر چھینے جارہے ہیں احکام شریعت معطل کیے جارہے ہیں اور کفار کی جیلیں مسلمانوں سے بھری جارہی ہیں اور مسلمان خواتین کی عزت رات دن کھلم کھلا پاما ل کی جارہی ہیں مسلمانوں کامال لوٹا جارہا ہے اورمسلمانوں کے دشمنوں کو مضبوط کیا جارہاہے او رپھر بھی وہ شخص دنیاوی امور میں مشغول رہے گویا اسلامی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اور اس کے بعد وہ ٹیک لگاکر کہے ہم تو عاجز ہیں کمزور ہیں ہم پر کوئی گناہ نہیں ہے اور ہم پر جہاد میں حصہ نہ لینے پر کوئی حرج نہیں ہے اور وہ کوئی حقیقی جدوجہد بھی نہ کرے تاکہ اس کی عاجزی دور ہوجائے اور وہ کمزوری نکل جائے تو یہ نفاق کی علامات ہیں گناہوں کے ساقط ہونے کی علامات واسباب نہیں ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے :
وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃً وَّ ٰلکِنْ کَرِہَ اﷲُ انْبِعَاثَہُمْ فَثَبَّطَہُمْ وَ قِیْلَ اقْعُدُوْا مَعَ الْقٰعِدِیْنَ۔(توبۃ:46)
’’اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کے لئے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ نے بھی ان کے جانے کو ناپسند کیاانہیں بزدل کردیا اور کہا گیا بیٹھ جاؤ بیٹھنے والوں کے ساتھ ‘‘۔
علامہ السعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ :’’اللہ فرمارہاہے کہ منافقین میں سے جہاد سے پیچھے رہنے والوں کی حالت سے ظاہر ہورہاہے کہ ان کانکلنے کا ارادہ تھاہی نہیں اور انہوں نے جو عذر پیش کیا وہ باطل تھا کیونکہ عذر تب مقبول ہوتا ہے جب وہ تمام کوششیں کرے مگرکسی شرعی مانع کی بناء پر نہ نکل سکے مگر ان منافقین کا اگر نکلنے کا ارادہ ہوتا تو وہ اس کی تیاری کرتے اور وہ ممکنہ اسباب تیار کرتے مگر چونکہ انہوں نے یہ کچھ نہیں کیا توپتہ چلا ان کا نکلنے کا ارادہ تھا ہی نہیں ۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ السلام نے فرمایا: ’’جو شخص اس حال میں فوت ہوا کہ نہ تو اس نے غزوہ کیا اورنہ اس نے دل میں اس کاارادہ کیا تو ایسا شخص نفاق کے ایک شعبہ پر مرا‘‘۔(احمد،مسلم،ابوداؤد، نسائی)
دل میں جہاد کے خیال وارادہ سے مقصود یہ نہیں کہ اچانک جہاد کا سوچ لیا یا کچھ لوگوں کے سامنے خواہش کا اظہارکردیا مقصد یہ ہے کہ اگر دل میں خیال آیا تو اس کی تیاری بھی شروع کردی اس کے لئے تگ ودو شروع کردی تواس زجر سے بچ سکتا ہے او رمنافقین میں شامل ہونے سے محفوظ رہ سکتا ہے ۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’اس کا معنی یہ ہے کہ اس نے جہاد کا پختہ عزم نہیں کیا اس کا یہ مقصد نہیں کہ وہ یہ کہے اے کاش میں مجاہد ہوتا ۔یہ بھی کہا گیا کہ اس کا معنی ہے کہ اس نے نکلنے کا ارادہ نہیں کیا کیونکہ اس کی علامات اس میں ظاہر نہیں ہوئیں او رعلامات تیاری ہے کیونکہ اللہ فرماتا ہے’’وَ لَوْ اَرَادُوا الْخُرُوْجَ لَاعَدُّوْا لَہٗ عُدَّۃ‘‘اگر ان کا نکلنے کا ارادہ ہوتا تو اس کی کچھ تیاری کرتے ۔اور اس قول کی تائید آپ eکے اس فرمان ’’مات علی شعبۃ من النفاق‘‘سے بھی ہوتی ہے یعنی نفاق کی ایک قسم پر مرا یعنی یہ منافقین کے مشابہ ہوگیا کیونکہ وہ بھی جہاد سے پیچھے رہے اور جو جن کی مشابہت کرتا ہے اس کا شمار ان ہی لوگوں میں ہوتا ہے ‘‘۔(مرقاۃ المفاتیح : 346/7)
لہٰذا جہاد کی تیاری کرنا ہر صورت میں ضروری اور واجب ہے عاجزی کے وقت فرضیت کی سقوط کا حکم بھی اسی شرط کے ساتھ مشروط ہے پس جو واجب چیز جس چیز سے مکمل ہوتی ہو تووہ چیز بھی واجب ہوتی ہے کیونکہ اللہ نے اس کا مستقل حکم دیا ہے :
وَ اَعِدُّوْا لَہُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّمِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْہِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اﷲِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ ٰاخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِہِمْ لَا تَعْلَمُوْنَہُمُ اَﷲُ یَعْلَمُہُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اﷲِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.(انفال:60)
’’اوران کے لئے جتنی تمہاری استطاعت ہے تیاری کرو یعنی قوت کی اور گھوڑے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کوخوف زدہ کرسکو اور ان کے سوا اوروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے اللہ انہیں خوب جانتا ہے جو کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کروگے تمہیں پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور تمہارا حق نہ مارا جائے گا‘‘۔
آج مسلمانوں پر دشمن کا تسلط کا بڑھنا اور مسلمانوں کا ذلت میں پڑنا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اس عبادت کو چھوڑدیا اور اس واجب سے غفلت اختیار کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کی ہیبت ختم ہوگئی ان کی طاقت کمزور پڑگئی اور آج یہ کمزوری پر قانع ہوکر بیٹھ گئے او رمسلمانوں کی اکثریت نے یہ سمجھ لیا کہ تمام مشکلات ختم ہوگئیں ہیں اور بعض لوگ مطمئن ہوکر بیٹھ گئے ہیں ان میں اصحاب ’’وثیقہ‘‘ بھی شامل ہیں جو مسلمانوں میں ایسی تہذیب رائج کرنا چاہتے ہیں جو انتہائی کمزور ہے اور وہ مسلمانوں کے لئے ایسی دوائیں تجویز کررہے ہیں جن کو استعمال کرکے سوائے نقصان کے اور کچھ حاصل نہیں ہوسکتا ۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ۔’’اگرچہ ان لوگوں کو ولی بنانا جو اس کے اہل نہیں ہیں ضرورت کے وقت جائز ہے جبکہ اس میں زیادہ صالحیت ہوتو ایسی صورت میں اصلاح احوال کی سعی کرنا واجب ہوتی ہے جب تک امور ولایت اور امارات لوگوں میں مکمل ہوجائیں جیسا کہ تنگی کی حالت میں بھی دین کے احکامات پورے کرنا ضروری ہوتے ہیں اگر اس کی یہ حالت ہے کہ اس سے اس قدر مطلوب ہے جس قدر وہ قدرت رکھتا ہے اور جس طرح جہاد کے لئے اپنی قوت بڑھانا گھوڑوں کو تیار رکھنا ضروری ہوتا ہے جبکہ عاجزی کی وجہ سے نہ کرنے پر گناہ ساقط ہواس لئے کہ اگر کوئی واجب جس چیز سے مکمل ہوتی ہے وہ بھی واجب ہوتی ہے بخلاف حج کی استطاعت حاصل کرنا اس لئے کہ یہ وہ امورہیں جن کا حصول ہی واجب ہے‘‘۔(مجموع الفتاوی : 259/28)