قَالَ يٰٓـاِبْلِيْسُ مَا مَنَعَكَ اَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اَسْتَكْبَرْتَ اَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِيْنَ
(اللہ تعالیٰ نے) فرمایا اے ابلیس! تجھے اسے سجدہ کرنے سے کس چیز نے روکا جسے میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا کیا تو کچھ “گھمنڈ“ میں آگیا ہے؟ یا تو بڑے درجے والوں میں سے ہے۔
وَلِلّٰهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ مِنْ دَاۗبَّـةٍ وَّالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُوْنَ يَخَافُوْنَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ
اور آسمانوں میں اور زمین میں جتنے جاندار ہیں اور جتنے فرشتے ہیں (سب) اللہ کے آگے سر بسجود ہیں اور وہ سرکشی نہیں کرتے، اور اپنے رب سے جو ان کے اوپر ہے، کپکپاتے رہتے ہیں اور جو حکم مل جائے اس کی تعمیل کرتے ہیں۔
تو یہ “ممکن “ ہی نہیں کہ “فرشتے اللہ تعالی کی نافرمانی کریں“ کیونکہ وہ معصوم عن الخطاء ہیں اور “ اطاعت پر پیدا ہوئے ہیں“۔
اور ابلیس کا فرشتوں“ میں سے نہ ہونا کیونکہ اسے اطاعت پر مجبور نہیں کیاگیا بلکہ ہماری طرح اسے اختیار ہے“۔
اللہ عزوجل کا ارشاد ہے۔
اِنَّا هَدَيْنٰهُ السَّبِيْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّاِمَّا كَفُوْرًا
ہم نے اسے راہ دکھائی اب خواہ وہ شکر گزار بنے خواہ ناشکرا۔
اور ایسے ہی جنوں میں بھی“ کافر“ اور “مسلمان “ہیں سورۃ جن میں اس کا ذکر یوں آیا ہے۔
قُلْ اُوْحِيَ اِلَيَّ اَنَّهُ اسْتَـمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوْٓا اِنَّا سَمِعْنَا قُرْاٰنًا عَجَبًا يَّهْدِيْٓ اِلَى الرُّشْدِ فَاٰمَنَّا بِهٖ
آپ کہہ دیں کہ مجھے وحی کی گئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا اور کہا کہ ہم نے عجب قرآن سنا ہے جو راہ راست کی طرف راہنمائی کرتا ہے ہم اس پر ایمان لا چکے۔
ابن کثير رحمہ اللہ نے اس تفسیر میں کہا ہے ۔ (حسن بصری کا قول ہے۔ “ابلیس آنکھ جھپکنے کا وقت جتنا بھی فرشتوں میں سے نہیں تھا“ اور وہ اصلی “جن“ تھا جیسا کہ آدم علیہ السلام بشریت کی اصل ہیں۔) اسے طبری نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔
ابن کثیر ج3/89