• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ضعفاء الصغیر میں امام بخاری کا منھج

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,114
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
از شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ
جناب ڈیروی صاحب لکھتے ہیں:
’’مقسم عن ابن عباس کی سند سے امام بخاری نے صحیح بخاری میں روایت لی ہے لیکن اس کے باوجود امام بخاری نے ضعفاء راویوں میں بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ علامہ ذہبی فرماتے ہیں تعجب کی بات ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ مقسم سے صحیح بخاری میں روایت لیتے ہیں اور اس کو کتاب الضعفاء میں بھی ذکر کرتے ہیں۔‘‘ (ملخصاً ، ہدایہ علماء کی عدالت میں، ص۱۰۳،۱۰۲)
امام بخاری رحمہ اللہ پر یہ اعتراض بھی درست نہیں۔ا مام بخاری رحمہ اللہ نے بلا شبہ اسے ’’الضعفاء‘‘ میں ذکر کیا ہے جیسا کہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے صراحت کی ہے ’’لم یذکر فیہ قدھا‘‘ اس میں کوئی حرج نہیں کی۔ مگر سوال یہ ہے کہ جب اس پر انہوں نے جرح نہیں کی تو الضعفاء میں اسے ذکر کیوں کیا؟ اس کی وضاحت خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ نے بھی یہ بیان کی ہے کہ امام صاحب سنگی لگانے کے بارے میں مقسم کے ترجمہ ’’شعبة عن الحکم عن مقسم‘‘ کے طریق سے ایک حدیث لائے ہیں اور پھر کہا ہے کہ حکم نے مقسم سے سماع نہیں کیا۔ (تہذیب ، ج۱۰، ص۲۸۹، میزان ، ج۴،ص۱۷۷)
اس کا جواب یہ ہے
الضعفاء الصغیر میں امام بخاری رحمہ اللہ کا اسلوب یہ ہے کہ بسا اوقات راوی کو خارجی علت کی بناء پر الضعفاء میں ذکر کرتے ہیں، حالانکہ وہ انہیں صدوق سمجھتے ہیں۔ مثلاً ایوب بن عائذ، طلق بن حبیب، الصلت بن مہران کو محض ’’ارجاء‘‘ کی بناء پر الضعفاء میں ذکر کیا ہے یا جیسے خالد بن رباح کو ’’قدر‘‘ کی بناء پر ذکر کیا یا جیسے عبدالوارث بن سعید ابو عبیدہ کو ’’قدر‘‘ سے متہم ہونے کی بناء پر حالانکہ خود انہوں نے اس کی نفی بھی نقل کی ہے اور محض اس بناء پر ذکر کیا ہے کہ عمرو بن عبید کے بارے میں وہ کلمہ خیر کہتے تھے۔ اب آپ ہی انصاف فرمائیں کہ یہ امور موجب ضعف ہیں؟ اسی طرح عبداللہ بن حکیم الجہنی کو محض اس لیے ذکر کیا کہ ان کا نبی کریم ﷺ سے سماع صحیح نہیں۔ البتہ آپ ﷺ کا زمانہ پایا ہے۔ صحابی رسول عبداللہ بن سنان رضی اللہ عنہ کو صرف اس لیے ذکر کیا کہ اس کی ایک حدیث کی سند صحیح نہیں اور محض اسی بناء پر ایک اور صحابی عبداللہ بن ابان (جن کا صحیح نام عبداللہ بن ثابت خود انہوں نے بیان کیا ہے) کو بھی الضعفاء میں ذکر کیا ہے کہ اس کی حدیث کی سند صحیح نہیں۔

بتلایئے کہ ان صحابہ کرام کو بھی الضعفاء میں محض ذکر کی بناء پر معاذاللہ ضعیف سمجھ لیا جائے؟ ہر گز ہر گز نہیں، بالکل اسی طرح مقسم کو الضعفاء میں صرف اس لیے ذکر کیا ہے تا کہ بتایا جائے کہ الحکم عن مقسم عن ابن عباس کی سند سے جو سنگی لگانے کے بارے میں حدیث ہے وہ معلول ہے کیونکہ حکم کا مقسم سے سماع نہیں۔ یہ نہیں کہ مقسم کو انہوں نے ضعیف قرار دیا تھا اور نہ ہی انہوں نے الحکم عن مقسم سے الصحیح میں کوئی روایت لی ہے۔ اس لیے علامہ ذہبی اور انہی کی تقلید میں ڈیروی صاحب کا امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض بے جا اور غلط ہے اور ان کے اسلوب پر غور و فکر نہ کرنے کا نتیجہ ہے
 
Top