وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ
ایک سوال کہ اگر ضعیف احادیث قابل عمل نہیں، اور محدیثین کی یہی رائے ہے، تو یہ احادیث جمع کیوں کی گئی؟
حدیث جمع کرنے والوں نے ضعیف احدیث ”جمع“ نہیں کیں۔ بلکہ انہوں نے دستیاب وسائل کی مدد سے بہت احتیاط اور چھان پھٹک کے بعد احادیث جمع کیں۔ جیسے امام بخاری رحمۃ اللہ نے لاکھوں حدیث کو “یکجا“ کیا اور ان میں سے چھان پھٹک کر صرف چند ہزار احادیث کو اپنے کتاب میں شامل کیا۔ دیگر لوگوں نے بھی ایسی ہی احتیاط کی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ”ضعیف احادیث“ ان کتب میں کیسے آگئیں۔ بات یہ ہے کہ ہر محدث نے انفرادی کاوشوں سے احادیث کے مجموعے ترتیب دئے۔ جب یہ مجموعے مرتب ہوگئے تو ”محققین“ نے ان مجموعوں میں شامل حدیثوں کو ”پرکھنے“ کے لئے اصول وضوابط مرتب کئے اور ان اصول و ضوابط کے تحت ہر ہر جمعشدہ حدیث کو پرکھا تب معلوم ہوا کہ فلاں فلاں احادیث ضعیف ہیں اور فلاں فلاں موضوع یعنی من گھڑت۔ یہ موضوع احادیث وہ ہیں جنہیں منافقین نے جان بوجھ کر حدیث کے طور پر مشہور کردیں تھیں۔ حدیثیں جمع کرنے والوں نے تو اپنی اپنی ”کتاب“ کے لئے حدیثیں جمع کیں۔ جبکہ تحقیق کرنے والوں کے سامنے تمام ”تالیفات“ مرتب شدہ موجود تھیں۔ لہٰذا ان کے لئے ”تحقیق“ کرنا آسان ہوا۔ اور محققین نے مل کر اجتماعی طور پر یہ ”ثابت“ کردیا کہ جمع شدہ احادیث میں کون کون سی احادیث ضعیف اور موضوع ہیں۔
ایک اور سوال یہ کے محدثین نے ضعیف احادیث جمع کی تو وہ ٹھیک، مگر آج کے دور میں اگر کوئی کتاب جیسے "فضاعل اعمال" (تبلیغی نصاب) یا اس کے جیسی اور بھی کتابیں ہیں جن میں ضیعف احادیث لکھتے ہیں، یا پہر کوئی مقرر بیان کرتا ہے،اور ضعیف احادیث بیان کرتا ہے تو اسے غلط سمجھا جاتا ہے، ایسا کیوں؟
صحاح ستہ یا احادیث کے دیگر مجموعوں میں اولین طور پر جن احادیث کو جمع کیا گیا ہے، انہیں بعد میں کسی نے نہیں چھیڑا۔ اھادیث کے یہ مجموعے ہو بہو آج بھی ری۔پرنٹ ہوتے ہیں۔ البتہ ان احادیث کی شرحیں لکھی گئیں، اور ہر ہر حدیث کی حیثیت بتلا دی گئی کہ کون کون سی حدیث کس ”مقام“ پر ہے۔ بعد ازاں ان مجموعوں کا ”مختصر ایڈیشن“ بھی مرتب کیا گیا جن میں تکرار والی احادیث اور ضعیف یا موضوع احادیث کو حزف کردیا گیا۔ یہ کام بہت سے لوگوں نے کیا ہے اور ابھی تک جاری ہے۔ پھر ”ضعیف و موضوع احادیث“ کے الگ سے مجموعے بھی شائع کئے گئے ہیں۔
یاد رکھئے احادیث کے اولین مجموعے جن جن محدثین نے جمع کئے، وہ تو جوں کے توں آج بھی موجود ہیں۔ اور انہیں آج بھی ”تبدیل“ نہیں کیا جاتا۔ ان ان اولین مجموعوں پر کی گئی تحقیق اور شروحات بھی مسلسل چھپ رہی ہیں۔ اب احادیث کے ان دونوں ”کیٹیگریز“ کا اتنا وسیع ذخیرہ ہے کہ اسے ایک عام مسلمان مکمل طور پر پڑھ بھی نہیں سکتا، الا یہ کہ انہیں پوری طرح سمجھ کر ان پر عمل بھی کر سکے۔ یہ کام ان علمائے کرام کا ہے جو اپنی پوری زندگی صرف حدیث کی تعلیم و تدریس میں کھپا دیتے ہیں۔
لہٰزا عوام الناس کے لئے تیار کردہ احادیث کے مختصر کتب ہوں، یا دیگر ”اسلامی کتب“ یا ”عوامی بیانات و لکچرز“، ان میں ضعیف یا موضوع احادیث کو شامل کرنے کا کوئی ”جواز“ نہیں بنتا۔ عوام کو تقریر و تحریر کے ذریعہ صرف صحیح احادیث ہی پہنچانی چاہئے ۔
اس بات کو آپ اس طرح بھی سمجھ لیجئے کہ ڈاکٹری کے ایم بی بی ایس کے نصاب کے لئے جو کتب تحریر کی جاتی ہیں، وہ بہت وسیع ہوتی ہیں۔ ان میں وہ طبی اصول بھی درج ہوتے ہیں جو تحقیق کے بعد غلط ثابت ہوچکے ہیں۔ اور ان ادویات کا ذکر بھی ہوتا ہے جن کا مختلف امراض میں فائدہ نہیں بلکہ نقصان دہ ہونا اب ثابت ہوچکا ہے۔ اس کے برعکس عوام الناس کے لئے شائع شدہ کتب اور میڈیکل لکچرز میں صرف ”صحیح طبی اصول“ اور صحیح ادویات و علاج کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ تاکہ پڑھے لکھے عوام ان پر عمل کرکے اپنی صحت برقرار رکھ سکیں یا عام امراض کا علاج کرسکیں۔
اہل علم سے درخواست ہے کہ میرے اس بیان میں کوئی کمی یاخامی ہو تو اسے درست کردیں۔
@خضر حیات
@سرفراز فیضی