عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,402
- ری ایکشن اسکور
- 9,991
- پوائنٹ
- 667
ضیاء الحق کے جرائم
ہفت روزہ جرار
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ جنوبی پنجاب کے علاقہ حاصل پور میں 2 دین دار، انتہائی نیک اور شریف شہریوں کو مقامی مذہبی جنونیوں نے شہید کروا ڈالا۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ شہید ہونے والے لوگوں کے مخالفین نے انہیں اخبارات اور ردی کے کاغذات جلاتا دیکھ لیا اور پھر شور مچا دیا کہ یہ لوگ قرآن جلا رہے ہیں۔ پھر کیا تھا… لوگ مشتعل ہو گئے کہ قرآن کی بے حرمتی… اور ہم برداشت کر لیں… کسی نے نہ آئو دیکھا نہ تائو… نہ کسی نے یہ پوچھنا یا دیکھنا گوارا کیا کہ جلنے والے قرآن یا اوراق کہاں ہیں جس وجہ سے ہم دو انسانوں کی جان لینے لگے ہیں۔ اس کا کچھ ثبوت بھی تو ہونا چاہئے لیکن انہیں کسی بھی چیز کی پروا کئے بغیر بازاروں میں گھسیٹا گیا، کپڑے پھاڑے گئے، پتھر مارے گئے، سر اور جسم کچلے گئے۔ قرآن جلانے کی محض افواہ پر دو دین داروں، نیکی کے پرستاروں کو شہید کرنے والوں میں بھاری اکثریت ان کی تھی جن کے چہرے محمدی نہیں بلکہ انگریزی یعنی داڑھی منڈے تھے۔ ان کی بھاری اکثریت نماز کے قریب بھی نہ پھٹکتی تھی۔ قرآن سمجھنا تو کجا انہیں قرآن پڑھنا تک نہ آتا تھا اور شاید بے شمار نے تو کبھی قرآن کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو گا لیکن دو معصوم اور نہتے بے بس و بے کس مسلمان ان کے ہتھے چڑھ گئے تو انہوں نے یہیں سے جنت ’’پکی‘‘ کرنے کا سوچ لیا اور پھر وہ کر گزرے کہ جس سے جنت نہیں جہنم ہی پکی ہو سکتی ہے۔
یہ واقعہ ہمیں گزشتہ دنوں ایک بڑے مذہی رہنما کے ضیاء الحق کے خلاف بیان پڑھ کر یاد آیا جنہوں نے کہا کہ قوم ہمیں ضیاء الحق کا ساتھ دینے پر معاف کر دے۔ ضیاء الحق کی حیثیت بھی تقریباً حاصل پور کے انہی 2 شہداء جیسی ہے جن پر لوگ چڑھ دوڑے تھے کیونکہ اس وقت ہمارے ہاں جمہوریت کی دیوی کی پوجا کی جا رہی ہے اور ہر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اسے جمہوریت کو پوج کر اقتدار مل سکتا ہے۔ جمہوریت سے وفاداری اور وفا شعاری کا پہلا سرٹیفکیٹ اس وقت ملتا ہے جب ضیاء الحق کی مخالفت کھلے بندوں اور ننگے لفظوں سے کی جائے، حالانکہ جو لوگ اسلام کا نام لے کر سیاست چمکانا چاہتے ہیں اور اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں، انہیں یقینا یہ پتہ ہے کہ اس راستے سے اسلام کبھی غالب آیا ہے اور نہ آئے گا کیونکہ جو راستہ ہی غلط ہو اس کی منزل کیسے صحیح ہو سکتی ہے۔
1992ء کا سال ہر کسی کو یاد ہے جب الجزائر کی مسلم تحریک نے 2 تہائی سے بھی کہیں زیادہ ووٹ لے کر جمہوریت کے عالمی رائج نظام کے ذریعے کامیابی حاصل کی تھی لیکن اسے حکومت نہ دی گئی اور پھر ان لوگوں کا قتل عام شروع کر دیا گیا جو اسلام چاہتے تھے، 18سال سے نافذ ا یمر جنسی گزشتہ دنوں ہی ختم کی گئی ہے۔ اس دوران دسیوں ہزار مسلمان قتل ہو گئے لیکن افغانستان، عراق اور دیگر خطوں کے لاکھوں مسلمانوں کو شہید کرنے والے امریکہ کو یہ سب کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ یہی کچھ 2007ء میں غزہ میں ہوا، جہاں حماس نے انتخابات جیتے تو 16 لاکھ فلسطینی دنیا کی سب سے بڑی کھلی جیل میں بند کر دیئے گئے، جو اب بھی وہیں سسک سسک کر مر رہے ہیں لیکن ساری دنیا تماشائی ہے اور جمہوریت کے چمپئن یہاں سب کچھ بھول چکے ہیں۔ یہی حال ترکی میں نجم الدین کے ساتھ ہوا حالانکہ اربکان تو معمولی سے ہی دین دار تھے لیکن جمہوریت کے پجاریوں کو پھر بھی سمجھ نہ آئے تو کیا کریں۔ ضیاء الحق کی مخالفت اور اس سے لاتعلقی ظاہر کرنے والے آخر کسے خوش کرنا اور کس کی رضا مندی چاہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کے جواب کی تلاش کی ضرورت نہیں، بس تھوڑا سا غور کیجئے…