• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طائفہ ممتنعہ کے احکام

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
"سِلْسِلَةٌ عِلْمِيَّةٌ فِيْ بَيَانِ مَسَائِلَ مَنْهَجِيَّةٍ"
منہجی مسائل کے بیان میں علمی سلسلہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدُ للهِ ربِّ العالمين، وَ لَا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ، وَ اَشْهَدُ اَنْ لاَاِلهَ اِلاَّ اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ الْمَلِكُ الْحَقُّ اْلمُبِيْنَ، وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ إِمَامُ الْأَوَّلِيْنَ وَ الْآٰخِرِيْنَ، أَمَّا بَعْدُ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، اور اچھا انجام پرہیز گاروں کے لیے ہے، اور ظالموں کے سوا کسی سے کوئی دشمنی نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور وہی بادشاہ، حق اور مبین ہے، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں، جو کہ پہلوں اور بعد والوں کے امام ہیں، اما بعد:


اس حصے میں ہم اللہ تعالیٰ کے حکم سے طائفہ ممتنعہ (یعنی اسلام کے شرعی احکام میں آڑے آنے والی جماعت) کے حکم بابت پیش آنے والے تنازعے کے بارے میں بعض مسائل پر بات کریں گے۔

اس جماعت کے موضوع کو شروع کرنے سے پہلے ہم ایک آسان فہم تمہید سے ابتداء کرنا چاہیں گے۔

سو ہم کہتے ہیں کہ اس بات پر اہل سنت والجماعت کا اتفاق ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے اور اس بات پر ایک سے زیادہ اہل علم نے ان کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔

اور اس قول کی تفصیل وہ ہے جسے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بیان فرمایا ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:

"ومن أصول أهل السنة أن الدين والإيمان قولٌ وعمل؛ قول القلب واللسان وعمل القلب واللسان والجوارح"

اور اہل سنت کے اصولوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ دین و ایمان، قول و عمل کا نام ہے، قول، دل اور زبان کا ہوتا ہے جبکہ عمل، دل، زبان اور اعضاء کا ہوتا ہے۔

[مجموع الفتاویٰ : ۳/۱۵۱]


اور اس بات کی وضاحت یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے کسی چیز کا حکم فرما دیا ہے جیسا کہ نماز اور زکوٰۃ وغیرہ، تو اللہ تعالیٰ کے حکم پر ایمان لانے کا رکن یہ ہے کہ اس کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا جائے، اور یہ قلبی عمل ہے، پس جس کا دل اللہ تعالیٰ کے حکم کے سامنے نا جھکے تو وہ کافر ہے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا :

ومعلوم أن الإيمان هو الإقرار لا مجرد التصديق، والإقرار ضمن قول القلب الذي هو التصديق وعملِ القلب الذي هو الانقياد

یہ بات بہر صورت معلوم ہے کہ ایمان محض تصدیق ہی نہیں بلکہ اقرار کا بھی نام ہے، اور اقرار دل کے قول کے ضمن میں آتا ہے، جبکہ دل کا قول تصدیق ہے، اور دل کا عمل حکم کے سامنے سرِتسلیم خم کر دینا ہے۔

یہاں تک کہ آپ نے فرمایا:

فمن لم يحصل في قلبه التَّصديق والانقياد فهو كافر
جس کے دل میں تصدیق اور حکم کی تابعداری پیدا نا ہوئی تو وہ کافر ہے۔

[مجموع الفتاویٰ: ۷/۶۳۸]


اہم تنبیہ

اور ایک اہم بات پر تنبیہ کرنا بھی ضروری ہے، وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر دل کے سرنگوں ہو جانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا اثر اعضاء پر بھی ظاہر ہو، پس جو کوئی عمل سے رک جائے تو اس کا یہ رک جانا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یا تو اس کا ایمان اور تابعداری ہے ہی نہیں، یا یہ کہ اس کا ایمان اور تابعداری کمزور ہے، پس عمل سے رکنے والا یا تو کافر ہوگا یا پھر فاسق ہوگا، اور یہ عمل سے رک جانے کی صورتوں کے اختلاف کے حساب سے مختلف ہوگا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

فأصل الإيمان في القلب؛ وهو قول القلب وعملُه، وهو إقرارٌ بالتصديق والحب والانقياد، وما كان في القلب فلا بدَّ أن يظهر موجبُه ومقتضاه على الجوارح، وإذا لم يعمل بموجبه ومقتضاه دل على عدمه أو ضعفه

ایمان کی جڑ دل میں ہے، اور وہ دل کا قول اور اس کا عمل ہے جو کہ تصدیق، محبت اور تابعداری سے عبارت ہے، اور جو چیز دل میں ہے تو ضروری ہے کہ اس کے واجبات اور تقاضوں کا اثر اعضاء پر بھی ظاہر ہو، اور اگر یہ اس کے واجبات اور تقاضوں پر عمل پیرا نا ہو تو یہ چیز اس کے نا ہونے پر یا اس کے کمزور ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

[ مجموع الفتاویٰ: ۷/۶۴۴]


اور اس سے مقصود یہ ہے کہ جب انسان اسلام کے اعمال میں سے کسی عمل سے انکار و تکبر کرتے ہوئے رک جائے تو وہ عدم ِتابعداری کی وجہ سے کافر شمار ہوگا، اور اس کا کفر ابلیس کے کفر کی طرح ہے کہ جو وجوب کے اقرار کے باوجود آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے رک گیا۔

اب ہم طائفہ ممتنعہ کے مسئلے کی طرف آتے ہیں، پس ہم کہتے ہیں:

طائفہ ممتنعہ کیا ہے؟

تو جواب ہے:

هي جماعة تنتسب إلى الإسلام ثم تمتنع بالقوة والقتال عن التزام شريعة من شرائع الإسلام الظاهرة المتواترة، ولو أقرت بوجوبها.

یہ وہ جماعت ہے جو اسلام سے نسبت رکھے اور پھر اسلام کے ظاہری اور متواتر شرعی احکام میں سے کسی حکم سے بزور قوت اور جنگ کے ساتھ رک جائے، اگرچہ وہ اس کے وجوب کا اقرار ہی کرتی ہو۔


اس کی مثال ایسے ہے، جیسے کوئی گروہ زکوٰۃ کو ادا کرنے یا روزہ رکھنے یا اس کے علاؤہ اسلام کے دیگر شرعی احکام میں سے کسی حکم سے رک جائے، اگرچہ وہ لوگ اس کے وجوب کا اقرار ہی کرتے ہوں، یا یہ کہ وہ ظاہری حرام چیزوں سے باز نہ آئیں جیسا کہ سود، شراب اور زنا وغیرہ، اگرچہ وہ ان کے حرام ہونے کا اقرار ہی کرتے ہوں، بایں طورکہ جنگ کے سوا ہم انہیں اس پر عمل پیرا نہ کر سکیں، یا یہ کہ وہ کوئی ایسا طاقتور طبقہ ہو جو طاقت کے بل بوتے پر ظاہری شرعی احکام سے رک جائے، چاہے وہ عملی طور پر براہ راست قتال نا بھی کرے۔

پھر ہم کہتے ہیں:

طائفہ ممتنعہ کا حکم کیا ہے؟

تو جواب ہے:

حكم الطائفة الممتنعة على الصحيح من قولي العلماء هو الردة، والخروج عن الإسلام،
وذلك بناءً على ما سبق ذكره في المقدمة عن مسمى الإيمان، وأنه قول وعمل، وأنه لا بدّ من الانقياد لأوامر الله تعالى. والدليل على ذلك: إجماع الصحابة -رضي الله عنهم- المستند إلى الدليل فقد سموا مانعي الزكاة بالمرتدين.

علماء کے دو اقوال میں سے صحیح قول کے مطابق طائفہ ممتنعہ کا حکم ارتداد اور اسلام سے خروج کا ہے۔
اور اس حکم کی بنیاد ایمان کے بارے میں ذکر کی گئی مذکورہ بالا تمہید پر ہے، وہ یہ کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری کے سوا کوئی چارہ نہیں، اور اس بات پر دلیل صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا مدلل اجماع ہے کہ بلاشبہ انہوں نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کو مرتدین کہا تھا۔

ابو عبید القاسم بن سلام رحمہ اللہ نے فرمایا:

والمصدق لهذا جهادُ أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- بالمهاجرين والأنصار على منع العرب الزكاة، كجهاد رسول الله صلى الله عليه وسلم أهل الشرك سواءا، لا فرق بينهما في سفك الدماء، وسبي الذرية، واغتنام المال، فإنما كانوا مانعين لها غير جاحدين بها

اس بات کی تصدیق ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جہاد سے ہوتی ہے، کہ جو آپ نے مہاجرین و انصار کے ساتھ مل کر زکوٰۃ نہ دینے والے عربوں سے کیا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے بغیر کسی فرق کے اہل شرک کے ساتھ جہاد کیا، کہ جس میں خون بہانے، نسلوں کو غلام بنانے اور مال کو غنیمت بنانے میں آپ نے ان کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا، وہ تو بس زکوٰۃ کو ادا نہیں کرتے تھے جبکہ اس کا انکار تو انہوں نے کیا ہی نہیں تھا۔

[الایمان : ۱۷]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

وقد اتفق الصحابة والأئمة بعدهم على قتال مانعي الزكاة وإن كانوا يُصلون الخمس، ويصومون شهر رمضان، وهؤلاء لم يكن لهم شبهة سائغة، فلهذا كانوا مرتدين، وهم يقاتَلون على منعها، وإن أقرّوا بالوجوب كما أمر الله

اور تحقیق صحابہ اور ان کے بعد أئمہ، زکوٰۃ نہ دینے والوں سے قتال کرنے پر متفق ہیں، اگر چہ وہ پانچ نمازیں پڑھتے ہوں اور رمضان کے روزے بھی رکھتے ہوں۔ اور اُن لوگوں کے پاس تو کوئی اصولی شبہ بھی نہ تھا، لہذا وہ مرتدین تھے اور ان سے زکوٰۃ سے رکے رہنے کی وجہ سے قتال کیا جا رہا تھا، اگر چہ وہ اس کے وجوب کا اقرار کرتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔

[مجموع الفتاویٰ : ۲۸/۵۱۹]

شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے شیخ الاسلام رحمہ اللہ کی بات کو نقل کرنے کے بعد فرمایا:

فتأمل كلامه وتصريحه بأن الطائفة الممتنعة عن أداء الزكاة إلى الإمام أنهم يقاتلون، ويحكم عليهم بالكفر، والردة عن الإسلام، وتسبى ذراريُّهم، وتغنم أموالهم، وإن أقروا بوجوب الزكاة، وصلوا الصلوات الخمس، وفعلوا جميع شرائع الإسلام غير أداء الزكاة، وأن ذلك ليس بمسقط للقتال لهم، والحكم عليهم بالكفر، والردة، وأن ذلك قد ثبت بالكتاب والسنة، واتفاق الصحابة رضي الله عنهم، والله أعلم

پس آپ کی اس بات پر اور اس کی صراحت پر ذرا غور کرو کہ امام کو زکوٰۃ ادا نہ کرنے والی طائفہ ممتنعہ سے قتال کیا جائے گا اور ان پر کفر اور اسلام میں سے ارتداد کا حکم لگایا جائے گا، ان کی نسلوں کو غلام بنایا جائے گا اور ان کے اموال کو غنیمت بنایا جائے گا، اگرچہ وہ زکوٰۃ کے وجوب کا اقرار کریں اور پانچ نمازیں پڑھیں، اور زکوٰۃ ادا کرنے کے سوا اسلام کے دیگر تمام شرعی احکام کو بجا لائیں، لیکن یہ چیز ان سے قتال کو اور ان پر سے کفر و ارتداد کے حکم کو ساقط نہیں کرے گی، اور یہ کتاب و سنت سے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اتفاق سے ثابت ہے، واللہ اعلم۔

[الدرر السنیۃ : ۱۰/۱۷۹]


  • طائفہ ممتنعہ سے قتال کا حکم:
تحقیق کتاب و سنت اور اجماع، طائفہ ممتنعہ سے قتال کے وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ چناچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لاَ تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّه۔
ترجمہ: اور ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور سارے کا سارا دین اللہ ہی کے لیے ہوجائے۔

[الانفال: ۳۹]


پس، جب دین کا کچھ حصہ اللہ کے لیے ہو اور اس کا دیگر حصہ غیر اللہ کے لیے ہو، تو قتال واجب ہو جائے گا یہاں تک کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔ صحیحین میں ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

أُمِرْتُ أَن أُقاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَن لا إِلهَ إِلاَّ اللَّه وأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، ويُقِيمُوا الصَّلاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكاةَ، فَإِذا فَعَلوا ذلكَ، عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وأَمْوَالَهم إِلاَّ بحَقِّ الإِسلامِ، وحِسابُهُمْ عَلى اللَّهِ

ترجمہ: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور وہ نماز قائم کرنے لگیں اور زکوٰۃ ادا کرنے لگیں، پس اگر وہ یہ سب کریں تو ان کا خون اور ان کے مال میری طرف سے محفوظ ہو گئے، سوائے اسلام کے حق کے ساتھ، جبکہ ان کا باقی حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔

[رواه البخاري و مسلم]

اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:


الزكاة حق المال، والله لو منعوني عَناقًا كانوا يؤدونها إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعها

زکوٰۃ مال کا حق ہے، اللہ کی قسم! اگر یہ لوگ مجھے یہ ایک رسی دینے سے بھی رک جائیں کہ جو یہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں اس رک جانے پر ان سے قتال کروں گا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

وأجمع العلماء على أن كل طائفة ممتنعة عن شريعة متواترة من شرائع الإسلام، فإنه يجب قتالها حتى يكون الدين كله لله، كالمحاربين وأَولى

علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اسلام کے شرعی احکام میں سے کسی بھی متواتر حکم سے رک جانے والی جماعت سے حربی دشمنوں کی طرح، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر قتال کرنا واجب ہے، یہاں تک کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے۔

[الفتاویٰ الکبریٰ : ۵/۵۲۹]

اور آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

فعُلم أن مجرد الاعتصام بالإسلام مع عدم التزام شرائعه ليس بمسقط للقتال، فالقتال واجب حتى يكون الدين كله لله، وحتى لا تكون فتنة، فمتى كان الدين لغير الله فالقتال واجب، فأيُّما طائفة امتنعت من بعض الصلوات المفروضات أو الصيام أو الحج أو عن التزام تحريم الدماء، والأموال، والخمر، والزنا، والميسر أو عن نكاح ذوات المحارم أو عن التزام جهاد الكفار أو ضرب الجزية على أهل الكتاب، وغير ذلك من واجبات الدين، ومحرماته التي لا عذر لأحد في جحودها وتركها، التي يكفر الجاحد لوجوبها، فإن الطائفة الممتنعة تقاتَل عليها، وإن كانت مقرة بها، وهذا مالا أعلم فيه خلافا بين العلماء

اسلام کے شرعی احکام کو لازم پکڑے بغیر محض اسلام کو خالی اختیار کرلینے سے قتال ساقط نہیں ہو جاتا، بلکہ قتال واجب رہتا ہے یہاں تک کہ سارے کا سارا دین اللہ ہی کے لیے ہو جائے اور یہاں تک کہ فتنے کا وجود باقی نہ رہے، چنانچہ جب بھی دین غیر اللہ کے لیے ہوگا تو قتال واجب ہو جائے گا، پس جب بھی کوئی جماعت فرض نمازوں میں سے کسی نماز سے یا روزے سے یا حج سے یا خون، مال، شراب، زنا، جوا اور محرموں سے نکاح کی حرمت کے التزام سے، یا کفار سے جہاد اور اہل کتاب پر جزیہ لاگو کرنے کے التزام سے، یا اس کے علاوہ دین کے ان دیگر واجبات اور محرمات سے رک جائے کہ جن میں کسی کے پاس بھی انہیں چھوڑنے یا ان کا انکار کرنے کا کوئی عذر نہیں ہے، اور ان کے وجوب کا انکار کرنے والا کافر ہو جاتا ہے، تو اس طائفہ ممتنعہ سے اس پر قتال کیا جائے گا، اگرچہ وہ اس کا اقرار ہی کرتی ہو، اور جہاں تک میں جانتا ہوں تو اس بات پر علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے۔

[مجموع الفتاویٰ : ۲۸/۵۰۲]


پس اسلام کے شرعی احکام میں سے کسی ایک حکم سے رک جانے والی جماعت کا جب یہ حکم ہے تو ایک سے زیادہ احکام سے رک جانے والی جماعت کا کیا حکم ہوگا؟ بلکہ اس شخص کا کیا حکم ہوگا جو کھلے عام اللہ کی شریعت کو چھوڑنے کا اعلان کرے، بایں طور کہ اسے جمہوری قوانین اور خود ساختہ اصولوں سے بدل ڈالے؟

بہرحال، جب یہ بات ثابت ہو گئی تو اب کچھ مسائل پر تنبیہ کرنا ضروری ہے۔
  • پہلا مسئلہ:
طائفہ ممتنعہ کی تکفیر کے بارے میں علماءِ صحابہ کرام یعنی ابو بکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے مابین ہونے والا اختلاف۔

بےشک معاملے کی ابتداء میں زکوٰۃ نہ دینے والوں کی تکفیر کے بارے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مابین پیش آنے والا اختلاف اس حدیث کی نص سے ثابت ہے جسے شیخین نے ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے۔ چنانچہ آپ نے فرمایا:

لما توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم، واُستُخلف أبو بكر بعده، وكفر من كفر من العرب، قال عمر لأبي بكر: كيف تقاتل الناس وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (أُمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله، فمن قال لا إله إلا الله عصم مني ماله، ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله)، فقال: والله لأقاتلن من فرَّق بين الصلاة والزكاة، فإن الزكاة حق المال، والله لو منعوني عِقالاً كانوا يؤدونه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم لقاتلتهم على منعه، فقال عمر: فوالله ما هو إلا أن رأيت الله قد شرح صدر أبي بكر للقتال فعرفت أنه الحق

جب رسول اللہ ﷺ وفات پا گئے اور آپ کے بعد ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ بنا لیا گیا اور عرب میں سے کچھ لوگ کافر ہو گئے، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ "آپ لوگوں سے کیونکر قتال کرتے ہیں؟ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہنے لگیں، پس جس نے لا الہ الااللہ کہہ دیا تو اس کا مال اور جان مجھ سے محفوظ ہو گئے سوائے اس کے حق کے اور اس کا باقی حساب اللہ تعالیٰ پر ہے۔" تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: "اللہ کی قسم میں ہر اس شخص سے قتال کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ کے درمیان کوئی فرق کرے، بےشک زکوٰۃ مال کا حق ہے، اللہ کی قسم ! اگر وہ مجھے اس ایک رسی دینے سے بھی رک جائیں گے جو وہ رسول اللہ ﷺ کو دیا کرتے تھے تو میں ان سے اس رک جانے پر قتال کروں گا"، تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: "پس اللہ کی قسم! میں نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے قتال کے لیے ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سینہ کھول دیا ہے تو میں نے جان لیا کہ یہی حق ہے۔"


ان کے لا الہ الا اللہ کہنے کی وجہ سے عمر رضی اللہ عنہ کا قتال کی حرمت پر استدلال کرنا یہ واضح دلیل ہے کہ آپ نے ان کو کافر نہیں سمجھا تھا۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان پیش آنے والے اس اختلاف کو امام ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب "المغنی" میں ذکر کیا ہے، چنانچہ زکوٰۃ نہ دینے والے کی تکفیر کے بارے میں دو روایات کو ذکر کرنے کے بعد آپ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ووجه الأول أن عمر وغيره من الصحابة امتنعوا من القتال في بدء الأمر، ولو اعتقدوا كفرهم لما توقفوا عنه...

پہلی وجہ یہ تھی کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور آپ کے سوا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معاملے کی ابتداء میں قتال سے رک گئے تھے، اور اگر وہ ان کا کفر گردانتے ہوتے تو وہ اس میں کچھ توقف نہ کرتے۔

[المغنی الابن قدامۃ : ۲/۴۲۹]

  • دوسرا مسئلہ:
جو کہ اس مسئلے میں علماء کر درمیان ہونے والے اختلاف کا ذکر ہے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اختلاف کی بنا پر طائفہ ممتنعہ کے کفر کے حکم میں علمائے اہلِ سنت نے بھی اختلاف کیا ہے۔ چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے زکوٰۃ نہ دینے والوں کی تکفیر نہ کرنے کے مذہب کو اختیار کیا ہے، اور انہوں نے ارتداد کے طرف ان کی نسبت کو لغوی نسبت قرار دیا ہے نہ کہ شرعی، چنانچہ آپ رحمہ الله نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ان سے قتال کرنے میں اختلاف تھا، جبکہ وہ ان کی تکفیر نہ کرنے پر متفق تھے، اور انہیں تاویل کرتے ہوئے اس وصف سے متصف کیا گیا کیونکہ وہ امام کو حق یعنی زکوٰۃ ادا کرنے والے نہ تھے۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

وأهل الردة بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم ضربان؛ منهم قوم أغروا بعد الإسلام مثل طليحة ومسيلمة والعنسي وأصحابِهم، ومنهم قوم تمسكوا بالإسلام ومنعوا الصدقات، فإن قال قائل: ما دلَّ على ذلك والعامة تقول لهم: أهلَ الردة؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مرتد ہوجانے والے لوگ دو طرح کے تھے، ان میں سے کچھ لوگ وہ تھے جو اسلام لانے کے بعد گمراہ ہو گئے تھے، مثلاً: طلیحہ، مسیلمہ، عنسی اور ان کے ساتھی وغیرہ، اور ان میں سے کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے اسلام کو تو مضبوطی سے پکڑے رکھا تھا لیکن انہوں نے صدقات کا انکار کیا تھا۔
پس اگر کوئی کہے کہ اس پر کیا دلیل ہے؟ کیونکہ عام لوگ تو انہیں اہل ارتداد کہتے ہیں۔


امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

فهذا لسان عربي؛ فالردة الارتداد عما كانوا عليه بالكفر، والارتداد بمنع الحق

پس یہ عربی زبان ہے، پس جہاں تک ارتداد کا تعلق ہے تو ایک ارتداد وہ ہے جو کسی چیز کو اختیار کرنے کے بعد کفر کے ساتھ ہوتا ہے اور ایک ارتداد وہ ہےجو کہ حق کی ادائیگی سے رک جانے کے ساتھ ہوتا ہے۔

اور آپ رحمہ الله نے کہا:

ومن رجع عن شيء جاز أن يقال ارتدّ عن كذا
جو کوئی کسی چیز سے پلٹ آئے تو اسے کہا جا سکتا ہے کہ وہ اس سے مرتد ہوا۔

[الام للشافعی : ۴/۲۲۷]

وذهب الإمام أحمد إلى ذلك في رواية عنه، فنقل الأثرم عنه فيمن ترك صوم رمضان: هو مثل تارك الصلاة؟ فقال: الصلاة آكد ليس هي كغيرها. فقيل له: تارك الزكاة؟ فقال: قد جاء عن عبد الله: ما تارك الزكاة بمسلم، وقد قاتل أبو بكر عليها والحديث في الصلاة

اور امام احمد رحمہ اللہ نے بھی آپ سے ایک روایت میں اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔

پس اثرم نے رمضان کے روزے کو چھوڑنے والے کے بارے میں آپ سے نقل کیا ہے کہ (جب آپ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ) کیا وہ نماز کو چھوڑنے والے کی طرح ہے؟
تو آپ نے فرمایا: نماز تو ایسی تاکیدی چیز ہے کہ جس کا کوئی ہم پلہ نہیں۔
تو آپ سے عرض کیا گیا: کیا زکوٰۃ کو چھوڑنے والا بھی نہیں؟

تو آپ نے فرمایا: عبداللہ سے روایت ہے کہ زکوٰۃ کو چھوڑنے والا مسلمان نہیں۔ اور ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی وجہ سے قتال کیا جبکہ حدیثِ پاک تو نماز کے بارے میں ہے۔ (انتهى كلامه)

قاضی ابو یعلیٰ رحمہ اللہ نے فرمایا:

فظاهر هذا أنه حكى قول عبد الله، وفعل أبي بكر، ولم يقطع به لأنه قال: الحديث في الصلاة، يعني الحديث الوارد بالكفر لينظر هو في الصلاة، وقول النبي صلى الله عليه وسلم: (بينَ العبدِ وبينَ الْكفرِ ترْكُ الصَّلاةِ فمَن ترَكَ الصَّلاةَ فقَد كفَرَ)، ولأن الزكاة حق في المال فلم يكفر بمنعه، والقتال عليه كالكفارات وحقوق الآدميين

پس اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے عبداللہ کا قول اور ابو بکر رضی اللہ عنہ کے فعل کو بیان کیا ہے اور اس پر کوئی حتمی رائے اختیار نہیں کی ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا: "حدیث تو نماز کے بارے میں ہے" یعنی کفر کے حکم کے ساتھ جو حدیث وارد ہوئی ہے اسے دیکھا جائے تو وہ نماز کے بارے میں ہے۔
جبکہ نبی کریم ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے:

بَيْنَ الْعَبْدِ وَبَيْنَ الْكُفْرِ ترك الصَّلَاة
ترجمہ: بندے اور کفر کے درمیان نماز کو چھوڑنے کا فاصلہ ہے۔ [ رواه مسلم ]

فمَنْ تَرَكَ الصَّلاَةُ فَقَدْ كَفَرَ
ترجمہ: پس جس نے نماز کو چھوڑ دیا تو اس نے تحقیق کفر کیا۔ [ رواه أحمد ]

اور اس لیے بھی کہ زکوٰۃ تو مال کا حق ہے پس اس سے رک جانے پر وہ کافر نہیں ہوگا، جبکہ اس پر قتال تو دیگر کفارات اور انسانی حقوق کی طرح ہے۔

[المسائل الفقھیۃ من کتاب الروایتین والوجھین : ۱/۲۲۱]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

ثم تَنازع الفقهاءُ في كفر من منعها، وقاتل الإمام عليها مع إقراره بالوجوب على قولين، هما روايتان عن أحمد كالروايتين عنه في تكفير الخوارج

پھر جو کوئی اس سے رک گیا اور امام نے اس کے وجوب کے اقرار کے باوجود اس پر اس سے قتال کیا، تو ایسے شخص کے کفر کے بارے میں فقہا کے درمیان اختلاف ہے۔ اس میں دو قول ہیں اور وہ دونوں روایتیں امام احمد رحمہ اللہ سے ہیں، جیسا کہ آپ سے خوارج کی تکفیر کے بارے میں بھی دو روایتیں ہیں۔

[مجموع الفتاویٰ : ۳۵/۵۷]

  • تیسرا مسئلہ:
کیا طائفہ ممتنعہ کے کفر میں اختلاف کرنے والا بدعتی ہے یا سنت پر عمل کرنے والا ہے؟

ہم کہتے ہیں کہ جو کوئی طائفہ ممتنعہ کو کافر نہ کہے اور اس کی اس بات کی بنیاد یہ قول ہو کہ "ایمان عمل کے بغیر محض قول کا نام ہے" تو ایسا شخص مرجئی ہے۔

اور وہ شخص جو یہ کہے کہ "ایمان قول اور عمل کا نام ہے" اور پھر بھی طائفہ ممتنعہ کی تکفیر نہ کرے تو ایسا شخص بدعتی نہیں ہے بلکہ وہ محض خطاکار مجتہد ہے، اور امام شافعی رحمہ اللہ اسی قسم میں سے ہیں، پس آپ نے اہل سنت والجماعت کے عام أئمہ کی طرح اسی بات کو قرار دیا ہے کہ ایمان قول اور عمل کا نام ہے۔

امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:

وكان الإجماع من الصحابة والتابعين من بعدهم ممن أدركناهم، أن الإيمان قول وعمل ونية، لا يجزئ واحد من الثلاثة إلا بالآخر

صحابہ کرام کا اور ان کے بعد ان تابعین کا کہ جنہیں ہم نے پایا اس بات پر اجماع ہے کہ ایمان قول، عمل اور نیت کا نام ہے، ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی دوسرے کی جگہ کفایت نہیں کرتا۔

[شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ : ۵/۹۵۶/۱۵۹۴]


اور یہ معاملہ نماز چھوڑنے والے کے کفر کے بارے میں اختلاف سے ملتا جلتا ہے، چنانچہ کچھ علماء نے اس قول کو اختیار کرنے کے باوجود کہ ایمان قول و عمل کا نام ہے، نماز چھوڑنے والے کی تکفیر نہ کرنے کے مؤقف کو اختیار کیا ہے، تو یہ بھی سنت کی اتباع کرنے والے ہی ہیں اور بدعتی نہیں ہیں۔

بہرحال جنہوں نے نماز چھوڑنے والے کو کافر نہیں کہا ہے، یا یہ کہا ہے کہ اسے اس کی طرف دعوت دینے کے بعد قتل کیا جائے گا جبکہ وہ مسلمان ہونے کی حالت میں قتل ہوگا، تو دراصل وہ اس شبہ کا شکار ہوگئے کہ ایمان کے بارے میں جس شبہے کا شکار مرجئہ اور جہمیہ ہوئے تھے، اور پھر اسی اساس پر انہوں نے اس پر تکفیر نا کرنے کے قول کو اختیار کرلیا۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:

فهذا الموضع ينبغي تدبُّره؛ فمن عرف ارتباط الظاهر بالباطن زالت عنه الشبهة في هذا الباب، وعلِم أن من قال من الفقهاء أنه إذا أقرَّ بالوجوب وامتنع عن الفعل لا يُقتل، أو يقتَل مع إسلامه، فإنه دخلت عليه الشبهة التي دخلت على المُرجئة والجهمية، والتي دخلت على من جعل الإرادة الجازمة مع القدرة التامة لا يكون بها شيء من الفعل، ولهذا كان الممتنعون من قتل هذا من الفقهاء بنوه على قولهم في مسألة الإيمان، وأن الأعمال ليست من الإيمان

اس موضوع میں غور و فکر کرنا ضروری ہے، پس جس نے ظاہر کے باطن کے ساتھ جوڑ کو جان لیا تو اس سے اس باب میں شبہ زائل ہو جائے گا، اور جن فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اگر وہ وجوب کا اقرار کرے اور اس کی ادائیگی سے رک جائے تو اسے قتل نہیں کیا جائے گا، یا یہ کہ وہ اپنے اسلام کے ساتھ قتل ہوگا، تو وہ جان لے گا کہ وہ اسی شبہ کا شکار ہوئے ہیں جس کا شکار مرجئہ اور جہمیہ ہوئے تھے، اور وہ لوگ ہوئے تھے کہ جنہوں نے کہا کہ قدرتِ تامہ کے ہوتے ہوئے پختہ ارادے کے ساتھ عمل کی کوئی حیثیت نہیں، اور اسی لیے اس شخص کے قتل سے رک جانے والے فقہاء ان لوگوں می سے ہیں کہ جنہوں نے اس حکم کی بنیاد ایمان کے مسئلے کے بارے میں اپنے اس قول پر رکھی کہ اعمال ایمان میں سے نہیں ہیں۔

[مجموع الفتاویٰ : ۷/۶۱۶]


اور ہم اس بات پر ابن شہاب زہری رحمہ اللہ کی مثال بیان کرتے ہیں۔ چنانچہ مروزی رحمہ اللہ نے نماز کی قدر اور تعلیم کے بارے میں ابن شہاب زہری رحمہ اللہ سے روایت کی ہے:
آپ سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جو نماز چھوڑتا ہے، تو آپ نے فرمایا:

إن كان إنما تركها أنه ابتدع دينًا غير دين الإسلام قُتل، وإن كان إنما هو فاسق ضرب ضربًا مبرحًا وسجن

اگر اس نے اسے چھوڑ دیا ہے، اور دین اسلام کے علاوہ کسی دین کو ایجاد کیا ہے تو اسے قتل کیا جائے گا، اور اگر وہ صرف فاسق ہے تو اسے مناسب طریقے سے مارا جائے گا اور جیل میں ڈالا جائے گا۔


پس واضح ہے کہ ابن شہاب رحمہ اللہ نماز چھوڑنے والے کو کافر نہیں سمجھتے تھے۔

اور لالکائی نے معقل بن عبید اللہ العبسی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے غلام نافع سے کہا:

قلت إنهم يقولون نحن نُقر بالصلاة فريضة ولا نصلي، وإن الخمر حرام ونحن نشربها، وإن نكاح الأمهات حرام ونحن نريده، فنتر يده من يدي وقال: من فعل هذا فهو كافر

میں نے کہا، کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم نماز کی فرضیت کا اقرار کرتے ہیں جبکہ ہم نماز پڑھتے نہیں، اور یہ کہ شراب حرام ہے جبکہ ہم اسے پیتے بھی ہیں، اور یہ کہ ماؤں سے نکاح حرام ہے جبکہ ہم اسے کرتے بھی ہیں تو آپ نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا اور کہا: جس نے بھی یہ کیا تو وہ کافر ہے۔

معقل نے کہا:

فلقيت الزهري فأخبرته بقولهم فقال: سبحان الله؛ أوقد أخذ الناس في هذه الخصومات، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (لا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ، وَلا يَشْرَبُ الشَّارِبُ الْخَمْرَ حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ).

میں زہری رحمہ اللہ سے ملا اور آپ کو ان کے اس قول کے بارے میں خبر دی تو آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا لوگ ان جھگڑوں میں پڑ گئے ہیں؟ حالانکہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:

لَا يَزْنِي الزَّانِي حِينَ يَزْنِي وَهُوَ مُؤْمِنٌ وَلاَ يَشْرَبُ الْخَمْرَ شَارِبُهَا حِينَ يَشْرَبُهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ [ رواه النسائي]
ترجمہ: کوئی زانی زنا نہیں کرتا جبکہ وہ مومن ہوتا ہے، اور کوئی شرابی شراب نہیں پیتا جبکہ وہ مومن ہوتا ہے۔

(آپ رحمہ الله کی بات ختم ہوئی)

چنانچہ نماز چھوڑنے والے کی تکفیر نہ کرنے کے بارے میں آپ کے اس قول کو ذرا دیکھیں، باوجود اس کے کہ آپ نے ان مرجئہ کا انکار کیا ہے جو عمل کو ایمان سے نکال باہر کرتے ہیں۔

پس یہی وہ بات ہے کہ جس کی بنیاد پر ہم محض نماز چھوڑنے والے کی تکفیر نہ کرنے کی وجہ سے امام زہری رحمہ اللہ اور آپ جیسے دیگر لوگوں پر إرجاء کی تہمت نہیں لگا سکتے۔ پس اس مقام پر خوب غور و فکر کرو اور فساد برپا کرنے والوں کی کثرت سے اور غلو کرنے والوں کی باتوں سے دھوکہ نہ کھا جاؤ، اور اللہ ہی ہے جس سے مدد طلب کی جاسکتی ہے۔

اہم تنبیہ

اور آخر میں ایک اہم بات پر تنبیہ کرنا ضروری ہے، وہ یہ کہ آج ہم زیادہ تر کفر و ارتداد کے جن گروہوں سے قتال کر رہے ہیں تو وہ اس اختلاف کا محل ہی نہیں ہے جو کہ طائفہ ممتنعہ کے بارے میں اہل علم کے درمیان پیش آیا، لہذا طاغوتی ممالک کی افواج، ان کی پولیس اور ان کے مددگاران بالاتفاق کافر ہیں، اور انہیں زکوٰۃ نہ دینے والوں کی طرح قرار دینے کی بجائے وہ اس بات کے زیادہ قریب ہیں کہ انہیں مسیلمہ اور اَسوَد کے پیروکار قرار دیا جائے، چنانچہ طاغوت کا سپاہی اور اس کے راستے میں قتال کرنے والا ہر شخص قرآن کی نص کے ساتھ کافر ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۚ وَالَّذِيْنَ كَفَرُوْا يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِ الطَّاغُوْتِ فَقَاتِلُوْٓا اَوْلِيَاۗءَ الشَّيْطٰنِ ۚ اِنَّ كَيْدَ الشَّيْطٰنِ كَانَ ضَعِيْفًا ۔

ترجمہ: جو لوگ ایمان لائے وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں، اور جنہوں نے کفر کیا وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں، پس تم شیطان کے ساتھیوں سے لڑو، یقیناً شیطان کی چال بڑی کمزور ہے۔

[سورۃ النساء: ۷۶]


اور جس نے اللہ کے نازل کردہ دین کے علاوہ کسی حکمرانی کو قائم کرنے کے لیے اور اللہ کے ولیوں سے جنگ کرنے کے لیے طاغوت سے وفاداری کی تو وہ بھی اسی کی طرح کافر ہے، کیونکہ جس نے کفار سے یاری لگائی تو وہ انہی میں سے ہے۔
چونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْيَھُوْدَ وَالنَّصٰرٰٓى اَوْلِيَاۗءَ ۘبَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ ۭ وَمَنْ يَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظّٰلِمِيْنَ۔

ترجمہ: اے ایمان والو ! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ یہ ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں سے جو انہیں دوست بنائے گا تو یقیناً وہ انہی میں سے ہوگا، بیشک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔

[المائدہ: ۵۱]


اور تحقیق یہ پہلے گزر چکا کہ مشرکین سے برأت اور موحدین سے موالات اصل الدین میں سے ہے کہ جس میں کسی کو بھی جہالت یا تاویل کا عذر نہیں دیا جائے گا، اور یہی بالجملہ محلِ اتفاق ہے، الحمدللہ۔

فی الحال ہم اسی پر اکتفاء کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ اس نے جو کچھ ہمیں سکھایا اس سے ہمیں نفع پہنچائے، اور ہمارے کلمے کو حق پر جمع فرما دے اور ہمیں ہدایت یافتہ راہنما بنا دے، آمین۔

وَصَّلىَ اللهُ وَسَلَّمَ وَبَارَكَ عَلَى عَبْدِهِ وَرَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيْماً َكَثِيْراً....

وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ۔
 
Top