- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,773
- ری ایکشن اسکور
- 8,476
- پوائنٹ
- 964
سعودی عرب کے شہر طائف میں ایک جگہ سے کچھ درخت وغیرہ ہٹائے گئے ہیں ، وجہ یہ بتلائی گئی ہے کہ لوگ وہاں بہ کثرت شرکیات و غیر مشروع کاموں میں مبتلا ہونا شروع ہوگئے تھے ۔
اس پر کچھ ملحد بھی چیخے ہیں (حالانکہ ان کا بھونکنا سمجھ سے باہر ہے) ، اور کچھ سنی بھی شکوہ کناں ہوئے ہیں ، جو سعودیہ میں رائج دین کی تعبیر سے اختلاف رکھتے ہیں ، میں ان دنوں چونکہ ایک اور معاملے میں مصروف ہوں ، اس لیے اس حوالے سے زیادہ پوسٹیں اور ویڈیوز باوجود سامنے آنے کے پڑھ یا سن نہیں سکا ، سنا ہے ، بعض حضرات اسے بہت سنگیں مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ، خیر سعودیہ سے ہمیں نظریاتی طور پر اتفاق ہے ، لیکن اختلافی نوٹ بھی ہم ڈٹ کر لگاتے ہیں ، الحمد للہ . لیکن اس قسم کے معاملوں میں سعودیہ کا طرز عمل مجموعی طور پر درست ہے ، سعودیہ نے جو کیا ، وہ درست سمجھ کر کیا ، اور جو اس پر تنقید کر رہے ہیں ، یہ ان کا حق ہے ، انہیں کرنا چاہیے ، اسی ضمن میں آکسفورڈ میں مقیم ایک عالم دین کی پوسٹ نظر سےگزری ، جس میں انہوں نے ایک تو عرب لوگوں کی عیاشیوں پر تنقید کی ، دوسرا آثار قدیمہ سے متعلق ان کے رویے پر تنقید کی ، بلکہ ایک مباحثے کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح ایک ’ عرب عالم دین ‘ کو لاجواب کردیا ، میں چونکہ ایک عرصے سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں ، لہذا ان چیزوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ، اس لیے موقعہ مل جائے تو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرتا ، ان محترم عالم دین کی پوسٹ پر کیا ہوا ، اپنا کمنٹ یہان نقل کرتا ہوں ، اور ساتھ یہ بھی عرض کرتا ہوں ، میں عربی عالم دین ہوں نہ مجھے علامہ فہامہ ہونے کا کوئی زعم ہے ، پاکستانی ہوں ، دین کا طالبعلم ہون ، اگر کوئی صاحب مدینہ منورہ میں آکر یا آن لائن کسی طریقے سے ایسےمسائل پر افہام و تفیہم کرنا چاہیں ، تو میں حاضر ہوں .اب وہ کمنٹ ملاحظہ کیجیے۔
-----------------------------------------
آپ نے عربیوں کی جس بے راہ روی کا ذکر کیا ہے ، یہ تنقید درست ہے ، جبکہ دوسری بات درست نہیں ، میں الحمد للہ ایک عرصے سے یہاں رہتا ہوں ، یہاں آثار قدیمہ مکمل حفاظت کے ساتھ موجود ہیں ، البتہ جن چیزوں کی کوئی تاریخی یا اثری حیثیت نہیں ، یہ اگر لوگوں کی گمراہی کا باعث بن رہی ہوں ، تو یہ بعض دفعہ اسے ختم کردیتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی تاریخی مقام پر بھی لوگ مغالطوں کا شکار ہورہے ہوں ، تو وہاں بھی ان چیزوں کو روکنے کا بندو بست کرتے ہیں .... کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شرک نہیں کرتے ، لیکن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے برآمد ہونے والے مختلف زبانوں میں خطوط اور پرچیاں اس دعوی کی تردید کرتی ہیں ، خود میں یہاں ہوتا ہوں ، روز دیکھتاہوں ، اور باوجود منع کرنے کے لوگ نہیں رکتے ، یہاں قرآن ، حدیث اور تاریخ سے متعارف کروانے کے لیے بہترین نمائشیں اور میوزیمز قائم کیے گئے ہیں ، جن میں سے کچھ فری ہیں ، اور کچھ تھوڑا معاوضہ ادا کرکے ، ان میں موجود چیزیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اگر انہیں واقعتا آثار سے اتنی دشمنی ہوتی تو آج مدینہ منورہ میں زیارتیں موجود نہ ہوتیں ۔
رہی بات یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں وہ لوگوں کو اپنی رائے اور موقف کا پابند بناتے ہیں ، تو نظام کو منظم و مرتب رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ، ہم بعض دفعہ چار صفوں کی اپنی مسجد میں کسی دوسرا موقف رکھنے والے مولوی کی تقریر برداشت نہیں کرتے ، بعض لوگوں نے مساجد کے باہر بورڈ لکھ کر لگائے ہوئے ہیں کہ فلاں فرقے والے یہاں نمازنہ پڑھیں ، یا نماز میں فلاں فلاں کام نہ کریں کہ یہاں ڈسپلن خراب ہوتا ہے ، تو یہاں اتنی بڑی جگہ پر بھی انہیں کچھ انتظامی فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں ۔.. اور یہ کام صرف سعودی حکومت نے ہی نہیں کیا ، جب اس سے پہلے دوسرے لوگ تھے ، ان کے رویے بھی دوسروں کے لیے بعض دفعہ سمجھنا مشکل ہوجاتے تھے ۔
میرے خیال میں عوام کو گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے ، عوام یہاں آکر وہ وہ کام کرتے ہیں ، جو خود ان کے علما کے نزدیک بھی جائز نہیں ، وسیلے کی بحث سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مانگنا ، یہ تمام سنی فرقوں کے علما کے نزدی جائز نہیں ، لیکن عوام یہاں آکر یہ سب کچھ کرنے پر مصر رہتی ہے ۔
آپ نے یہ پوسٹ شاید طائف میں ایک جگہ پر گرائے جانے والے درختوں کے پس منظر میں کی ہے ، اسی قسم کا کام خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں کروا چکے ہیں ۔ حالانکہ وہ بیعت رضوان والا درخت تھا ، جبکہ جو درخت اب گرائے گئے ہیں ، ایسی چیزیں تو خود بخود لوگ ایجاد کرلیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس لنک پر موجود تصویریں، ہمارے اس دعوی کی دلیل ہے کہ لوگ یہاں تعظیم کی حدوں کو پھلانگ کر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں ، کہنے کو وسیلہ کہتے ہیں ، جبکہ عملا صریح شرکیہ افعال ، جو کسی بھی فرقہ کے عالم دین کے نزدیک جائز نہیں )
اس پر کچھ ملحد بھی چیخے ہیں (حالانکہ ان کا بھونکنا سمجھ سے باہر ہے) ، اور کچھ سنی بھی شکوہ کناں ہوئے ہیں ، جو سعودیہ میں رائج دین کی تعبیر سے اختلاف رکھتے ہیں ، میں ان دنوں چونکہ ایک اور معاملے میں مصروف ہوں ، اس لیے اس حوالے سے زیادہ پوسٹیں اور ویڈیوز باوجود سامنے آنے کے پڑھ یا سن نہیں سکا ، سنا ہے ، بعض حضرات اسے بہت سنگیں مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں ، خیر سعودیہ سے ہمیں نظریاتی طور پر اتفاق ہے ، لیکن اختلافی نوٹ بھی ہم ڈٹ کر لگاتے ہیں ، الحمد للہ . لیکن اس قسم کے معاملوں میں سعودیہ کا طرز عمل مجموعی طور پر درست ہے ، سعودیہ نے جو کیا ، وہ درست سمجھ کر کیا ، اور جو اس پر تنقید کر رہے ہیں ، یہ ان کا حق ہے ، انہیں کرنا چاہیے ، اسی ضمن میں آکسفورڈ میں مقیم ایک عالم دین کی پوسٹ نظر سےگزری ، جس میں انہوں نے ایک تو عرب لوگوں کی عیاشیوں پر تنقید کی ، دوسرا آثار قدیمہ سے متعلق ان کے رویے پر تنقید کی ، بلکہ ایک مباحثے کا بھی ذکر کیا کہ انہوں نے کس طرح ایک ’ عرب عالم دین ‘ کو لاجواب کردیا ، میں چونکہ ایک عرصے سے مدینہ منورہ میں مقیم ہوں ، لہذا ان چیزوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے ، اس لیے موقعہ مل جائے تو اپنی رائے کے اظہار کا موقع ضائع نہیں کرتا ، ان محترم عالم دین کی پوسٹ پر کیا ہوا ، اپنا کمنٹ یہان نقل کرتا ہوں ، اور ساتھ یہ بھی عرض کرتا ہوں ، میں عربی عالم دین ہوں نہ مجھے علامہ فہامہ ہونے کا کوئی زعم ہے ، پاکستانی ہوں ، دین کا طالبعلم ہون ، اگر کوئی صاحب مدینہ منورہ میں آکر یا آن لائن کسی طریقے سے ایسےمسائل پر افہام و تفیہم کرنا چاہیں ، تو میں حاضر ہوں .اب وہ کمنٹ ملاحظہ کیجیے۔
-----------------------------------------
آپ نے عربیوں کی جس بے راہ روی کا ذکر کیا ہے ، یہ تنقید درست ہے ، جبکہ دوسری بات درست نہیں ، میں الحمد للہ ایک عرصے سے یہاں رہتا ہوں ، یہاں آثار قدیمہ مکمل حفاظت کے ساتھ موجود ہیں ، البتہ جن چیزوں کی کوئی تاریخی یا اثری حیثیت نہیں ، یہ اگر لوگوں کی گمراہی کا باعث بن رہی ہوں ، تو یہ بعض دفعہ اسے ختم کردیتے ہیں ، اسی طرح اگر کوئی تاریخی مقام پر بھی لوگ مغالطوں کا شکار ہورہے ہوں ، تو وہاں بھی ان چیزوں کو روکنے کا بندو بست کرتے ہیں .... کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم شرک نہیں کرتے ، لیکن روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے برآمد ہونے والے مختلف زبانوں میں خطوط اور پرچیاں اس دعوی کی تردید کرتی ہیں ، خود میں یہاں ہوتا ہوں ، روز دیکھتاہوں ، اور باوجود منع کرنے کے لوگ نہیں رکتے ، یہاں قرآن ، حدیث اور تاریخ سے متعارف کروانے کے لیے بہترین نمائشیں اور میوزیمز قائم کیے گئے ہیں ، جن میں سے کچھ فری ہیں ، اور کچھ تھوڑا معاوضہ ادا کرکے ، ان میں موجود چیزیں آسانی سے دیکھی جاسکتی ہیں ۔ اگر انہیں واقعتا آثار سے اتنی دشمنی ہوتی تو آج مدینہ منورہ میں زیارتیں موجود نہ ہوتیں ۔
رہی بات یہ ہے کہ اختلافی مسائل میں وہ لوگوں کو اپنی رائے اور موقف کا پابند بناتے ہیں ، تو نظام کو منظم و مرتب رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے ، ہم بعض دفعہ چار صفوں کی اپنی مسجد میں کسی دوسرا موقف رکھنے والے مولوی کی تقریر برداشت نہیں کرتے ، بعض لوگوں نے مساجد کے باہر بورڈ لکھ کر لگائے ہوئے ہیں کہ فلاں فرقے والے یہاں نمازنہ پڑھیں ، یا نماز میں فلاں فلاں کام نہ کریں کہ یہاں ڈسپلن خراب ہوتا ہے ، تو یہاں اتنی بڑی جگہ پر بھی انہیں کچھ انتظامی فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں ۔.. اور یہ کام صرف سعودی حکومت نے ہی نہیں کیا ، جب اس سے پہلے دوسرے لوگ تھے ، ان کے رویے بھی دوسروں کے لیے بعض دفعہ سمجھنا مشکل ہوجاتے تھے ۔
میرے خیال میں عوام کو گائیڈ کرنے کی ضرورت ہے ، عوام یہاں آکر وہ وہ کام کرتے ہیں ، جو خود ان کے علما کے نزدیک بھی جائز نہیں ، وسیلے کی بحث سے ہٹ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست مانگنا ، یہ تمام سنی فرقوں کے علما کے نزدی جائز نہیں ، لیکن عوام یہاں آکر یہ سب کچھ کرنے پر مصر رہتی ہے ۔
آپ نے یہ پوسٹ شاید طائف میں ایک جگہ پر گرائے جانے والے درختوں کے پس منظر میں کی ہے ، اسی قسم کا کام خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے دور حکومت میں کروا چکے ہیں ۔ حالانکہ وہ بیعت رضوان والا درخت تھا ، جبکہ جو درخت اب گرائے گئے ہیں ، ایسی چیزیں تو خود بخود لوگ ایجاد کرلیتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اس لنک پر موجود تصویریں، ہمارے اس دعوی کی دلیل ہے کہ لوگ یہاں تعظیم کی حدوں کو پھلانگ کر شرک میں مبتلا ہوتے ہیں ، کہنے کو وسیلہ کہتے ہیں ، جبکہ عملا صریح شرکیہ افعال ، جو کسی بھی فرقہ کے عالم دین کے نزدیک جائز نہیں )
Last edited: