• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طاق راتوں میں شب بیداری کا مسنون طریقہ : عطاء اللہ حنیف بھوجیانی

ابو عکاشہ

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 30، 2011
پیغامات
412
ری ایکشن اسکور
1,491
پوائنٹ
150
طاق راتوں میں شب بیداری کا مسنون طریقہ

علامہ محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ
(مولانا رحمہ اللہ جید عالم دین تھے اور اُن کے تعارف کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ
حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے شاگرد تھے اور سید داؤد غزنوی رحمہ اللہ
کے ساتھیوں میں سے تھے آپ کا یہ مضمون
{ہفت روزہ اعتصام لاہور ،
جلد نمبر :47 ، شمارہ نمبر :07 ، صفحہ :11- 12 } میں شائع ہوا)


رمضان المبارک کے آخری عشرے میں پانچ طاق راتیں آتی ہیں 21، ،23 ،25 ، 27 ، 29 ویں شب ان پانچ راتوں میں سے کسی میں شب قدر کا احتمال غالب ہے جس کو اللہ تعالی نے اس لئے مبہم رکھا ہے کہ مسلمان اس کی تلاش و جستجو کے شوق میں پانچ راتوں میں خصوصا اللہ تعالی کی عبادت میں منہمک ہوں ، نوافل پڑھیں ، تلاوت کریں استغفار اور ذکر الہی میں مصروف رہیں ۔

چنانچہ صحابہ و تابعین کے دور خیر القرون میں ان پانچوں راتوں میں مسلمان کثرت سے عبادت و ذکر الہی کا اہتمام کرتے کہ شاید وہ اس شب قدر سے حصہ پاسکیں جس کی عبادت ہزار مہینوں [83 سال سے زائد مدت ] سے افضل ، " لیلۃ القدر خیر من الف شھر " { القدر } ۔

یہ عبادت و ذکر اور شب بیداری کا اہتمام انفرادی طور پر ہوتا تھا یعنی فردا فردا ہر شخص اپنے طور پر قیام اور تلاوت کرتا مگر شب بیداری کی مروجہ اجتماعی صورتیں خیر القرون میں نہیں تھیں ، یعنی ان طاق راتوں میں وعظ و تقریر کا اہتمام ، شبینوں کے بعض علاقوں میں ہوتا ہے ، بالخصوص اس رات کو وعظ کا اہتمام کیا جاتا ہے جس رات میں قرآن مجید ختم ہوتا ہے ، افسوس کہ ہم اہلحدیثوں میں بھی ختم قرآن کے ساتھ ساتھ وعظ کے ذریعہ شب کا رواج بڑھتا جارہا ہے حالانکہ صحابہ وتابعین کےدور میں ایسی چیزوں کا وجود نہیں تھا ، چنانچہ چھٹی صدی ہجری کے مالکی امام ابو بکر محمد بن الولید طرطوشی {متوفی 520ھ } لکھتے ہیں :

" لم یرووا فی شیئ من ذلک احدثہ الناس من ھذہ البدع من نصب المنابر عند ختم القرآن و القصص و الدعاء بل قد حفظ النھی عن ذلک

{ کتاب الحوادث و البدع ،ص:52 }

" محدثین نے {صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث میں } ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی کہ رمضان میں ختم قرآن کے موقع پر وعظ کئے جائیں اور اس کے بعد بلند آواز سے لمبی لمبی دعائیں کی جائیں بلکہ ائمہ سلف سے تو ان چیزوں کی ممانعت منقول ہے پھر امام مالک کے متعلق یہ لکھ کر انہوں نے ان چیزوں کو ناپسند کیا اور اس سے روکا ہے ، لکھتے ہیں :

ان الامر المعمول بہ فی المدینۃ انما ھو الصلاۃ من غیر قصص و لا دعا ء ۔

کہ مدینہ میں بغیر وعظ اور مروجہ دعا­ؤں کے صرف نماز کا معمول تھا " ۔

امام مالک کا یہ فتوی الموونۃ الکبری ،ص:194 ، طبع مصر سن1312ھ ، میں موجود ہے ، ان کے شاگرد امام ابن القاسم لکھتے ہیں :

سمعت مالکا یقول الامر فی رمضان الصلاۃ ولیس بالقصص بالدعاء لکن الصلاۃ ۔ انتہی ۔

آگے چل کر وہ سوال و جواب کی صورت میں لکھتے ہیں : فان قیل فھل یا ثم فاعل ذلک " ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا ؟ فالجواب ان یقال اما ان کان ذلک علی وجد السلامۃ من اللغط ولم یکن الا الرجال آگے چل کر وہ سوال و جواب کی صورت میں لکھتے ہیں : فان قیل فھل یا ثم فاعل ذلک " ۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا ؟ فالجواب ان یقال اما ان کان ذلک علی وجد السلامۃ من اللغط ولم یکن الا الرجال أو الرجال و النساء منفردین بعضھم عن بعض یستمعون الذکر ولم ینتھک فیہ شعائر الرحمن فھذہ البدعۃ التی کرھھا مالک {ص:68 } ۔

تو " اس کا جواب یہ ہے کہ ایسی مجلسیں شور وشغب اور مرد وزن کے بے پردہ اجتماع سے پاک ہوں اور شعائر اللہ کی بے حرمتی بھی ان میں نہ ہو تو اس بدعت کو امام مالک نے مکروہ جانا ہے ۔

چھٹی صدی ہجری یعنی آج سے آٹھ سو سال قبل { اندلس کے } قیرون شہر میں ایسا ہوتا تھا تو اس وقت محقق علماء نے اس فعل پر نکیر اور اسے بدعت قرار دیا ، چنانچہ شیخ ابو شامہ شافعی { متوفی 665 } انہی امام طرطوشی کی نکیر اہل قیروان کے متعلق نقل کرتے ہیں ۔

" وقد انکر الامام الطرطوشی علی أھل القیروان اجتماعھم لیلۃ الختم فی صلوۃ التراویح فی شھر رمضان ونصب المنابر وبین أنہ بدعۃ ومنکر و أن مالکا رحمہ اللہ تعالی کرھہ

{ الباعث علی انکار البدع و الحوادث ،ص:25 ، مطبع مصر } ۔


" امام طرطوشی نے اہل قیروان کی اس بات پر سخت نکیر کی کہ وہ رمضان میں ختم قرآن والی رات میں وعظ و تقریر کے لئے جمع ہوتے ہیں اور اسے انہوں نے بدعت قرار دیا " ۔

بہر حال شب بیداری کے مروجہ طریقے صحابہ وتابعین کے دور میں نہیں تھے ، لہذا ان طریقوں سے اجتناب کرنا ضروری ہے ، اہلحدیث مساجد میں خصوصا اس رواج کو بند ہونا چاہئے کہ اس سے بدعات کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے ، البتہ انفرادی طور پر ان راتوں میں تلاوت قرآن { نفلوں میں یا ویسے } کا اہتمام کیا جائے اور شب قدر کی فضیلت و سعادت حاصل کرنے کی پوری سعی کی جائے ۔

(بشکریہ ہفت روزہ اعتصام و خان سلفی )
۔۔۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
بہت اہم موضوع ہے۔ اجتماعی عبادت کے تصور نے ریاکاری اور مذہبی تجارت کو بہت فروغ دیا ہے۔

اب تو اہل حدیث میں بھی ایسے خوش الحان واعظین کی ایک جماعت وجود میں آ چکی ہے جو بریلوی نعت خواں حضرات کی طرح ایڈوانس رقم طے کرتی ہے اور اس سے کمی کی صورت میں ٹائم دینے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک ایک رات میں یہ واعظین کئی کئی مساجد بھگتاتے ہیں۔ عموما کسی مسجد میں وعظ کے دوران بار بار گھڑی کو دیکھتے ہیں اور جیسے ہی گھنٹا پورا ہوا تو وعظ ختم کیونکہ مسجد والوں نے واعظ صاحب کو صرف ایک گھنٹے کا کرایہ دیا تھا۔ مزید گھنٹوں کے لیے نئے معاہدے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ایسے واعظین عموما رٹے رٹائے قصے کہانیاں سناتے ہیں، مدرسے سے چوتھی یا پانچویں کلاس کے بھگوڑے ہوتے ہیں یا مدرسہ کی تاریخ میں ان کا علمی ریکارڈ کوئی قابل ذکر چیز نہیں ہوتا۔ ہیکیں لگاتے ہیں، بعض تو لطائف اور چٹکلے بھی چھوڑتے ہیں اور بعض شعر و شاعری میں وقت پاس کرتے ہیں۔ یہ واعظین ٹائم پاس کرنے یا انٹرٹینمنٹ کا ایک بہترین ذریعہ بن چکے ہیں۔ عموما طاق راتوں میں ٹائم پاس کرنے کا کام دیتے ہیں۔ بعضوں کا تو کھا کھا کر پیٹ اس قدر باہر آیا ہوتا ہے کہ کرتہ پھٹنے کو آیا ہوتا ہے۔ اپنی چاپلوسی کو پسند کرتے ہیں۔ دو چار طالب علم انہوں نے اپنے آگے پیچھے لگائے ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی جوتیاں سیدھا کرے تو عجیب خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وعظ کے لیے آتے اور جاتے وقت مسجد کے حجرہ میں ان کی خوب خاطر مدارت ہوتی ہے۔ ان کے وعظ میں اصلاح اور تربیت نام کی چیز نہیں ہوتی، بیان کیا ہوتا ہے بس قصے کہانیوں، شعر و شاعری، ہیکوں، مخالف مکتبہ فکر پر پھبتیاں کسنے کا معجون مرکب ہوتا ہے۔

یہی حال کچھ قاریوں کا بھی بن چکا ہے جو ایک ایک رات میں کئی کئی مساجد بھگتا لیتے ہیں۔ دو چار طالب علموں کے جلو میں تشریف لاتے ہیں۔ آدھی نماز ان کی سر پر رکھے سعودی رومال کو سنبھالنے میں ہی گزر جاتی ہے۔ بعضے تو خوب گلا پھاڑتے ہیں اور بعض بتکلف رونے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود بھی روتے ہیں اور لوگوں کو بھی رلانے میں پورا زور لگاتے ہیں۔ پورا سال خلوت میں جنہیں اپنے رب کے سامنے دو آنسو بہانے کی توفیق نصیب نہیں ہوتی وہ طاق راتوں میں مجمعوں کو رلاتے ہیں۔

ہمیں اپنی طاق راتوں کو اللہ کی عبادت، طویل قیام، لمبے رکوع و سجود، ذکر و اذکار، تلاوت قرآن، ترجمہ و تفسیر قرآن کے مطالعہ، محاسبہ نفس اور کائنات میں غور و فکر کے ساتھ مزین کرنا چاہیے اور ان معاصر مداریوں اور دین کے بیوپاریوں کی صحبت سے حتی الامکان بچنا چاہیے۔

یہ واضح رہے کہ ہماری اس پوسٹ کا مقصد طاق راتوں میں کسی وعظ و بیان یا قیام اللیل کی نفی نہیں ہے بلکہ انفرادی عبادت کی ترغیب و تشویق دلانا ہے اور علمائے سوء کی پہچان کروانا ہے تا کہ ان کی صحبت سے اجتناب کیا جائے۔
 

سرفراز فیضی

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 22، 2011
پیغامات
1,091
ری ایکشن اسکور
3,807
پوائنٹ
376
چوتھا کراؤڈ قدر کی طاق راتوں میں علماء کا بیان سننے کے لیے امڈتا ہے۔ یہ اس کراؤڈ سے بہت کم ہوتا ہے جو بڑے بڑے میدانوں میں منعقد کیے جانے والے جلسوں میں شریک ہوتا ہے۔شہر ہو یا گاؤں، عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جلسے کی خبر ملتے ہی جو سب سے پہلا سوال کیا جاتا ہے وہ بالکل یہ نہیں ہوتا کہ کن موضوعات پر تقریریں ہوں گی؟ دین کی کون کون سی باتیں بتائی جائیں گی؟ بلکہ سب سے پہلا سوال یہ ہوتا ہے کہ کون کون خطیب آرہا ہے؟ فلاں مقرر آرہے ہیں کہ نہیں؟
افسوس کی بات یہ ہے کہ علماء حضرات نے اس ذہنیت کو پروان چڑھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اور آج حال یہ ہے کہ زیادہ تر سامعین جو جلسوں میں آتے ہیں وہ بڑی پابندی کے ساتھ غیر اسلامی مجلسوں میں بھی شرکت کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں مئی کے مہینے میں گاؤں جانے کا اتفاق ہوا ۔چونکہ اس مہینے میں وہاں کے کسان بڑی فرصت میں ہوتے ہیں اس لیے بڑی دھوم دھام سے جلسے کرائے جاتے ہیں۔ یہ جان کر بڑا ہی تعجب ہوا کہ جلسوں میں شریک ہوکر اور اسٹیج کے بالکل سامنے ہی بیٹھ کر تقریریں سننے والے ناچ اور آرکیسٹرا بھی اتنے ہی جوش وخروش سے دیکھتے ہیں۔
اگر ہمارا کراؤڈ ایسا ہے جس کے لیے ہم نے کامیاب مقررین کے نام پر دوچار بندر پال رکھے ہیں اور مسلسل ان کو بڑھاوا بھی دے رہے ہیں تو تبلیغ دین کے لیے منعقد ہونے والے جلسوں کا حاصل کیا ہے؟ ۔۔۔اگر ایسے کراؤڈ میں سے کوئی نکل کے آتا ہے اور آپ سے پوچھتا ہے کہ میں ناپاک ہوں، مٹی دے سکتا ہوں کہ نہیں؟۔۔۔تو آپ کیا جواب دیں گے؟۔۔۔ کیا ان جلسوں سے ابھی اتنی بھی تربیت نہیں ہوپائی ہے کہ لوگوں کو سوال کرنے کا سلیقہ ہی آتا۔ گاؤں یا علاقے میں کسی کی میت ہوجائے تو اس کراؤڈ کا ایک مسلمان اتنا بھی نہیں کرسکتا کہ غسل کرے، نماز جنازہ ادا کرے اور پھر مٹی دے؟؟؟
Welcome to Freelancer.co.in Mumbai
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
ابوالحسن علوی
کفایت اللہ

آپ کی اوپر درج کی گئی باتوں میں اور یہاں ایک سوال کے جواب میں کی گئی وضاحت میں اختلاف معلوم ہو رہا ہے۔۔

رمضان المبارك كى راتوں ميں رات كو قيام اور دوسرى عبادات كرنا مستحب ہے، اور خاص كر آخرى عشرہ كو مزيد عبادت و تہجد كے ليے مخصوص كرنا چاہيے تا كہ اللہ كى مغفرت و بخشش اور رحمت طلب كى جا سكے، اور ليلۃ القدر كا حصول بھى ہو جو كہ ايك ہزار راتوں سے افضل ہے.
پھر نماز تراويح تو قيام الليل ميں شمار ہوتى ہيں اور اسے تراويح اس ليے كہا جاتا ہے كہ ركعات كے درميان كچھ راحت كرنے كے ليے بيٹھا جاتا ہے، اس ليے اس ميں وسعت پائى جاتى ہے، اور آدمى كے ليے رات كے وقت جتنى چاہے ركعات ادا كرنى جائز ہيں اور جس وقت چاہے ادا كر سكتا ہے.
الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" رمضان المبارك كى راتوں ميں قيام كرنے كے مسنون ہونے ميں كوئى اختلاف نہيں، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جس نے بھى رمضان المبارك ميں ايمان اور اجروثواب كى نيت سے قيام كيا اس كے پچھلے سارے گناہ بخش ديے جاتے ہيں "
اور فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ: تراويح قيام رمضان ہيں؛ اس ليے افضل و بہتر يہى ہے كہ رات كا اكثر حصہ اسع بادت ميں بسر كيا جائے؛ كيونكہ يہ قيام الليل ہے " انتہى
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 34 / 123 ).
آج كل خاص كر آخرى عشرہ ميں جو اكثر امام عشاء كى نماز كے بعد لوگوں كوتراويح پڑھاتے ہيں اور پھر رات كےآخرى حصہ ميں دوبارہ مسجد آ كر قيام كرتے ہيں يہ مشروع ہے ممنوع نہيں، اور اس كے ليے كوئى ايسى دليل نہيں جو منع كرتى ہو.
مقصود يہ ہے كہ آخرى عشرہ ميں حسب استطاعت جدوجھد كى جائے اور رات كو بيدار رہا جائے، اور اگر انسان رات كو دو حصوں ميں تقسيم كرے كہ كچھ رات كى ابتدا ميں عشاء كے بعد كچھ قيام كر لے اور پھر سو جائے اور رات كے آخرى حصہ ميں اٹھ كردوبارہ قيام كرے يا قرآن مجيد كى تلاوت كرے تو يہ بہتر اور افضل ہے.
شيخ عبد اللہ بابطين كہتے ہيں:
" مسئلۃ:
رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں عادت سے زيادہ قيام كرنے كا بعض لوگ انكار كرتے ہيں اس كا جواب يہ ہے كہ:
اس كے انكار كا سبب يہ ہے كہ اغلب طور پر عادت نہيں اور پھر سنت سے جہالت ہے كہ جس پر صحابہ كرام اورتابعين عظام اور آئمہ كرام تھے اس كا لوگوں كو علم نہيں.
اس كے بارہ ميں ہم يہى كہيں گے كہ: احاديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے رمضان المبارك ميں قيام كى ترغيب ثابت ہے، اور خاص كرآخرى عشرہ ميں تو اس كى اور بھى تاكيد آتى ہے.
جب يہ واضح ہوگيا كہ تراويح كى ركعات كى تحديد نہيں اور سب علماء كے ہاں اس كا وقت نماز عشاء كى سنتوں كے بعد سے لے كرطلوع فجر تك ہے، اور آخرى عشرہ كى راتوں كو بيدار رہنا سنت مؤكدہ ہے، اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے كئى راتيں باجماعت تراويح پڑھائيں تو پھر پہلے عشرہ ميں ايسا كرنے والے شخص آخرى عشرہ ميں كرنے والے پراعتراض كيسے كرتا ہے.
رات كى ابتدا ميں نماز ادا كرتا ہے جس طرح وہ رمضان كى ابتدا ميں ليكن وتر نہيں پڑھتا اور پھر بعد ميں جتنى آسانى ہو ادا كرتا ہے اس سب كو قيام كہا جائيگا.
اور ہو سكتا ہے انكار كرنے والے كوفقھاء كے اس قول سے دھوكہ ہوا ہو كہ مستحب يہ ہے كہ قرآن مجيد ايك بار قرآن مجيد ختم كرنے سےزائد نہ پڑھے، ليكن مقتديوں پر زيادہ پر ترجيح ديتے ہوں.
اس كى علت انہوں نے يہ بيان كى ہے تا كہ ايك بار سے زائد بار قرآن ختم كرنے ميں مقتديوں كو مشقت نہ ہو، يہ نہيں كہ شرعى طور پر زيادہ مشروع نہيں، ان كى كلام اس پر دلالت كرتى ہے كہ اگر مقتدى ايك بار ختم كرنے سے زيادہ كو ترجيح ديتے ہوں تو مستحب ہے، اور اس كى تصريح علماء كے اس قول ميں ہےكہ: الا يہ كہ مقتدى زيادہ كو ترجيح ديتے ہوں.
لوگوں كى زبان پر رات كى ابتدا ميں كيے جانےوالے قيام كو تراويح كا نام چلنا اور اسے تراويح كہنا اور بعد ميں كيے جانے والے قيام كو تہجد كہنا يہ عوامى تفريق ہے، حالانكہ يہ سب قيام ہى ہے.
بلكہ اسے قيام رمضان كو تراويح كا نام اس ليے ديا گيا ہے كہ ہر چار ركعت كے بعد لوگ تھوڑا آرام كرتے تھے كيونكہ وہ نماز لمبى ادا كرتے تھے، ( يعنى سنت كے مطابق آٹھ ركعت ) اس كا انكار كرنےوالے كا سبب يہ ہے كہ وہ جہاں رہتا ہے اس علاقے كےلوگ ايسا نہيں كرتے اور يہ ان كى عادت كى مخالفت ہے، اور اس دور كے اكثر لوگوں كى بھى عادت نہيں اور اسى طرح وہ سنت نبويہ سے بھى جاہل ہے اور آثار كا بھى علم نہيں.
اور اسى طرح صحابہ كرام اور تابعين عظام جس طريقہ پر تھے اس سے بھى جاہل ہے، اور كچھ لوگ جو يہ گمان كرتے ہيں آخرى عشرہ ميں جو ہمارى بعد والى نماز ہے اسے بعض علماء نے ناپسند كيا ہے، حالانكہ ايسا نہيں كيونكہ تعقيب والى نماز تو وہ كہلاتى ہے جو نماز تراويح اور وتر سے فارغ ہو كر باجماعت ادا كى جائے.
نماز تعقيب كى تعريف ميں سب فقھاء كى كلام يہى ہے كہ وہ تراويح اور نماز وتر كے بعد باجماعت نفلى نماز ہے، اس طرح ان كى كلام سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ نماز وتر سے قبل نماز تعقيب نہيں كہلائيگى " انتہى مختصرا
ديكھيں: الدرر السنيۃ ( 4 / 364 ).
اور شيخ صالح الفوزان اپنى كتاب " اتحاف اہل الايمان بمجالس شھر رمضان " ميں رقطراز ہيں:
" رمضان المبارك كے آخرى عشرہ ميں مسلمان نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اقتدا اور پيروى كرتےہوئے اپنى جدوجھد اور عبادت زيادہ كر ديتے ہيں، تا كہ ليلۃ القدر كا حصول ہو كيونكہ يہ رات ايك ہزار مہينوں سے بہتر ہے.
اس ليے جو لوگ ابتدا رمضان ميں تئيس ركعات ادا كرتے ہيں وہ آخرى عشرہ ميں اسے تقسيم كر ديتے ہيں اس طرح وہ رات كى ابتدا ميں دس ركعات ادا كرتے ہيں جسے وہ تراويح كا نام ديتے ہيں، اور رات كےآخرى حصہ ميں دس ركعات اور وتر ادا كرتے ہيں اور يہ ركعات پہلى ركعتوں سے عموما لبمى ہوتى ہيں اور اسے قيام يا تہجد كا نام ديتے ہيں.
يہ صرف نام كا اختلاف ہے وگرنہ سارى ركعات كو تراويح يا قيام كہنا جائز ہے، اور جو شخص ماہ كے ابتدا ميں گيارہ يا تيرہ ركعات ادا كرتا تھا اور آخرى عشرہ ميں دس ركعات كا اضافہ كر كے رات كے آخرى حصہ ميں لمبى كركے ادا كرتا ہے تا كہ آخرى عشرہ كى فضيلت كو پا سكے اور خير و بھلائى ميں زيادہ جدوجھد كر سكے تو جائز ہے،
اور اس كى دليل سلف صحابہ كرام ہيں اور اس كے علاوہ دوسرے علماء بھى ايسا كرتےتھے جيسا كہ اوپر بيان كيا گيا ہے اس طرح انہوں نے دونوں قول جمع كر لے پہلے بيس دن تو تيرہ ركعات اور دوسرا قول تئيس ركعات والا آخرى عشرہ ميں " انتہى
مزيد آپ سوال نمبر ( 82152 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
يہاں يہ بات ضرورى ہے كہ تراويح ميں سنت گيارہ ركعات ہى ہيں كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے يہى ثابت ہيں.
واللہ اعلم .
http://www.islam-qa.com/ur/109768
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
یہ واضح رہے کہ ہماری اس پوسٹ کا مقصد طاق راتوں میں کسی وعظ و بیان یا قیام اللیل کی نفی نہیں ہے۔
اہل حدیث علماء کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ رمضان کی راتوں میں تراویح کے علاوہ قیام اللیل جائز ہے۔ امام احمد، امام ابن تیمیہ، شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین، شیخ ابن جبرین، علامہ البانی اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ سے اس کا جواز منقول ہے۔ یہاں بات جواز اور عدم جواز کی نہیں تھی یعنی قانونی نہیں تھی بلکہ اخلاقی پہلو کی تھی کہ عبادت تو مشروع ہے لیکن اس میں جو ریاکاری، دکھلاوے، کاروبار کا جو پہلو ہے اس کی نفی کی گئی ہے۔
 

محمد وقاص گل

سینئر رکن
شمولیت
اپریل 23، 2013
پیغامات
1,033
ری ایکشن اسکور
1,711
پوائنٹ
310
اہل حدیث علماء کا تقریبا اس بات پر اتفاق ہے کہ رمضان کی راتوں میں تراویح کے علاوہ قیام اللیل جائز ہے۔ امام احمد، امام ابن تیمیہ، شیخ بن باز، شیخ صالح العثیمین، شیخ ابن جبرین، علامہ البانی اور شیخ صالح الفوزان وغیرہ سے اس کا جواز منقول ہے۔ یہاں بات جواز اور عدم جواز کی نہیں تھی یعنی قانونی نہیں تھی بلکہ اخلاقی پہلو کی تھی کہ عبادت تو مشروع ہے
لیکن اس میں جو ریاکاری، دکھلاوے، کاروبار کا جو پہلو ہے اس کی نفی کی گئی ہے
۔

یہ معاملہ تو انسانوں سے متعلق نہیں محترم اس معاملے کو ہم اللہ کے سپرد کر دیں تب ہی عافیت ہے۔۔
قیام الیل میں لوگ مساجد کا رخ اسی وجہ سے کرتے ہیں کہ انکو قرآن یاد نہیں ہوتا جو وہ قیام میں انفرادی طور پر پڑھ سکیں لہذا وہ سہولت کیلئے اقتداء میں پڑھ لیتے ہیں۔ اور ویسے بھی لمبا قیام اور آخری عشرے میں عبادات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔


واللہ اعلم باالصواب
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
جس طرح سے ’’تراویح ‘‘کو راحت والی نماز اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں راحت لیکر نماز ادا کی جاتی ،راحت کیا ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ ان میں لمبا قیام ہوتا ہے اور رکعات بھی کافی ہوتی ہیں ۔اگر ان کو دوجگہ تقسیم کردیا جائے تو راحت کا مفہوم ختم ہوجاتا ہے۔تراویح کی نماز میں تسلسل ہے نہ کہ تقسیم، اگر کوئی ایسا امر اتفاقی طور پر پیش آجائے وہ دیگر ہے۔
اسی طرح سے ’’تہجد‘‘کو تہجد اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس میں ’’جہد‘‘یعنی مجاہدہ زیادہ کرناپڑتا ہے ۔یعنی سوکر اٹھنا یہ ایک بڑا مجاہدہ اور مشقت بھرا کام ہے۔
اور تراویح کے علاوہ نفلی نماز باجماعت پڑھنا (عندالاحناف مکروہ ہےجب کہ مقتدی دو سے زیادہ ہوں)
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
ایک سوال تمام دوستوں سے کہ اگر فرض کیجئے کہ کوئی شخص رات کو نیند نہیں کرسکا اور وہ جاگ رہا ہے اور مسجد میں تہجد کے لئے قیام ہو اور وہ اس میں شامل ہوجائے اور پوری نماز ادا کرے تو اس صورت میں اس کی تہجد تسلیم کی جائے گی یا نہیں؟؟؟۔۔۔
 
Top