فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
يہ بات خاصی حيران کن ہے کہ ان گنت شواہد اور نا قابل ترديد ثبوتوں کے باوجود اب بھی ايسے راۓ دہندگان موجود ہيں جو بدستور طالبان اور ديگر دہشت گرد تنظيموں کے ذرائع آمدنی کے حوالے سے حقائق کو تسليم کرنے سے انکاری ہيں۔
جہاں تک اس سوچ کا تعلق ہے جس کے مطابق اس بات کی تشہير کی جاتی ہے کہ طالبان نے منشيات کے کاروبار کا خاتمہ کر ديا تھا، کچھ حقائق درست کرنے کی ضرورت ہے۔
منشيات کے حوالے سے طالبان کی پاليسی يہ تھی کہ اس کی روک تھام صرف اسی صورت ميں ممکن ہے جب اقوام متحدہ نہ صرف طالبان کی حکومت کو سياسی سطح پر تسليم کرے بلکہ جن علاقوں ميں پوست کی کاشت کی جاتی ہے وہاں کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے مناسب فنڈز مہيا کيے جائيں۔ حالانکہ اس سے قبل طالبان کی جانب سے يہ اعلان کيا جا چکا تھا کہ منشيات کا استعمال اور اس کی پيداوار سے منسلک تمام کاروبار اسلام اور شريعت کے قوانين کے خلاف ہيں۔
سال 1997 ميں يو – اين – ڈی – سی – پی کے ڈائريکٹر آرلاچی نے طالبان کے ليڈر ملا عمر کے نام ايک خط لکھا تھا جس ميں ان سے يہ مطالبہ کيا گيا تھا کہ جن علاقوں ميں کسانوں کو متبادل کاروبار کی سہوليات فراہم کی گئ ہيں وہاں منشيات کی پيداوار کی روک تھام کو يقينی بنايا جاۓ۔ اس کے علاوہ ان سے يہ اجازت بھی مانگی گئ کہ يو – اين – ڈی – سی – پی کو ان علاقوں تک رسائ دی جاۓ جہاں طالبان کے بقول منشيات کے کاروبار پر بين لگا ديا گيا ہے۔ طالبان سے يہ مطالبہ بھی کيا گيا کہ منشيات کے کاروبار کو جڑ سے ختم کرنے کے ليے ضروری ہے نہ صرف ہيروئين کی تياری کی ليبارٹريوں کو ختم کيا جاۓ بلکہ ان گروہوں کا بھی خاتمہ کيا جاۓ جو منشيات کی تقسيم کے کاروبار ميں ملوث ہيں۔ طالبان کی جانب سے ان مطالبات کو اسی شرط پر تسليم کيا گيا کہ کسانوں کو متبادل کاروبار کے ليے فنڈز کی فراہمی کو يقينی بنايا جاۓ۔
http://query.nytimes.com/gst/fullpage.html?res=9507E1D9133CF932A25754C0A96F958260
http://www.un.org/ga/20special/featur/crop.htm
ليکن تمام تر يقين دہانيوں کے باوجود سال 2000 تک منشيات کی کاشت نہ صرف جاری رہی بلکہ کچھ نۓ علاقے بھی اس کاروبار ميں شامل ہوگۓ۔ 1998 ميں مئ کے مہينے ميں پوست کی کاشت کے موقع پر يو – اين – ڈی – سی – پی کی جانب سے طالبان کو مطلع کيا گيا کہ لغمان، لوگار اور ننگرہار کے صوبوں کے کچھ نۓعلاقوں ميں پوست کی کاشت کا کام شروع ہو گيا ہے۔
http://www.nytimes.com/2000/09/18/world/18AFGH.html?ex=1215748800&en=f470637e39d1c243&ei=5070
اور پھر سال 2012 ميں پاکستان کے سابق وزير داخلہ رحمان ملک کا بيان بھی ريکارڈ پر موجود ہے جس ميں انھوں نے کہا تھا کہ طالبان کی ستر فيصد کاروائيوں کے ليے معاشی وسائل منشيات کے غير قانونی کاروبار سے حاصل کيے جاتے ہيں۔
https://tribune.com.pk/story/465463/taliban-generate-70-of-their-
income-off-drug-taxes-malik/
کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ افغانستان اور پاکستان کی حکومتوں کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ اور دنيا بھر کے درجنوں ادارے اور تنظيميں حقائق کو
مسخ کر رہی ہيں؟
اور اب حاليہ رپورٹ کے مطابق دنيا کی بدنام زمانہ تنظيم داعش جو کہ خود بے شمار جرائم ميں ملوث ہے اور اس وقت افغانستان ميں طالبان کے خلاف سرگرم عمل ہے، اس تنظيم کی جانب سے بھی طالبان کے خلاف يہی الزام سامنے آيا ہے کہ ان کی خود ساختہ آزادی کی تحريک کے ليے سارے
معاشی وسائل منشيات کے کاروبار سے ہی حاصل کيے جاتے ہيں۔
http://www.elyomnew.com/news/24hours/107491/بالصورة-جنود-حركة-طالبان-الإرهابية-يتعاطون-الحشيش-في-أفغانستان
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu
http://www.facebook.com/USDOTUrdu