- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,582
- ری ایکشن اسکور
- 6,748
- پوائنٹ
- 1,207
کائنات میں موجود طبعی قوانین کو ملحدین نے اتنا بڑھایا کہ اسے خدا سمجھ لیا، طبیعی اصولوں کے کسی نظام کے پائے جانے کی وجہ سے خدا کی ضرورت کا ہی انکار کر بیٹھے ، انکی دلیل یہ ہے کہ جب ہر واقعہ کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت انجام پارہا ہے تو خدا کا ارادہ ہرواقعے کے پیچھے تو کارفرما نہ ہوا!
یہاں جو واقعات ہو رہے ہیں وہ ایک متعین قانون فطرت کے مطابق ہو رہے ہیں اس لئے ان کی توجیہہ کرنے کیلئے کسی نامعلوم خدا کا وجود فرض کرنے کی ضرورت نہیں، کیونکہ معلوم قوانین خود اس کی توجیہہ کیلئے موجود ہیں۔
سٹیون ہاکنگ اپنی نئی کتاب ’ دی گرینڈ ڈیزائین` میں اپنے نظریے کی دلالت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
آفاق میں موجود کشش ثقل کے قانون کے مطابق دنیا بغیر کسی مصمم ارادے یا منصوبے کے وجود میں آسکتی ہے۔ کائنات کی تخلیق میں کسی ’ان دیکھے تخلیق کار‘ کا تصور سائنس کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا۔حوالہ
http://www.bbc.com/…/2…/09/100902_universe_without_god.shtml
ان دلائل کا جواب ہم یہاں 'قوانین فطرت اور خدا کی ضرورت' کی بحث میں دے چکے ہیں۔
http://ilhaad.com/2015/06/phylosphy/
سٹیفن ہاکنگ کے علاوہ ملاحدہ کی ایک اور قسم بھی ہے جو کائنات میں ڈیزائن اور ربط کے پائے جانے سے ہی انکاری ہے۔ کیونکہ کائنات میں ربط مان لینے کے بعد ' کسی ربط والے ' کو ماننا ربط کے خودبخود وجود میں آنے کے مقابلے میں زیادہ قرین قیاس معلوم ہوتا ہے ۔۔۔!
لہذا یہ لوگ ایڑھی چوٹی کا زور لگاتے ہیں یہ ثابت کرنے کے لیے کہ ربط یا تو نہیں اور اگر ہے بھی تو کامل نہیں ، کائنات میں امپرفیکشن کی مثالیں دینے لگتے ہیں مثلا مخلوق میں نقص ہے، زلزے آرہے ہیں، تباہی ، بیماری ہے وغیرہ۔جیسا کہ رچرڈ ڈاکنز کے آرگیومنٹ سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں پر ڈیزائن ہوگا وہاں پر پرفیکشن ہونا ضروری ہے... حالانکہ یہ ضروری نہیں ۔کائنات میں کسی جگہ مصلحت کے تحت کمی کا ہونا اور کاملیت کا نا ہونا سرے سے ربط کے ہی نا ہونے کی نشانی نہیں .. پھر اہل مذہب کا دعوی کائنات میں پرفکیشن کا نہیں ڈیزائن اور ربط کا ہے ، پرفیکشن وہ اس جہاں میں صرف خدا میں ہی مانتے ہیں۔۔!
اسی طرح کچھ (مذہبی )لوگ بھی موجود ہیں جو طبیعی اصولوں کے کسی نظام میں پائے جانے کو تسلیم کرلینے کو ہر ایک واقعہ میں ارادہ خداوندی کے الگ سے موجود ہونے کا انکار سمجھ بیٹھتے ہیں۔ یعنی جب ہر واقعہ کچھ لگے بندھے اصولوں کے تحت انجام پارہا ہے تو خدا کا ارادہ ہرواقعے کے پیچھے تو کارفرما نہ ہوا! چنانچہ ایک کو دوسرے کا نقیص سمجھتے ہوئے انہیں ان اصولوں کے کائنات میں پنہاں ہونے کا ہی انکار کرنا پڑجاتا ہے۔..
جب ایسے کوئی اصول موجود ہی نہیں تو اشیاءوواقعات کے ہونے اور عمل کرنے میں ان کا باہمی کوئی ربط اور تعلق نہیں! کیونکہ اس ربط وتعلق سے ہی تو یہ اصول وجود پاتے ہیں اور اس تعلق کی وضاحت کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں یہ ماننا پڑجاتا ہے کہ ہر ایک انفرادی وقوعہ تنہا ارادۂ خداوندی کا نتیجہ ہونے کے ناتے گردوپیش کے باقی تمام واقعات واشیاء سے آزاد اور لاتعلق ہوکر انجام پاتا ہے۔ یوں مشیئت الٰہی نے جب وقوعات کے درمیان کوئی طبیعی ربط نہیں رکھا تو حوادث کے وقوع پذیر ہونے کے طبیعی اصول نام کی کسی شے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی۔ جب یہ اصول فطرت میں پائے ہی نہیں جاتے تو ان کو ضبط میں لانا چہ معنی دارد؟ یوں انکار کا یہ سلسلہ دراز ہوتے ہوتے بالآخر سائنسی طریقۂ علم ہی کے انکار پر جامنتج ہوتا ہے۔
اسی طرح انکے مطابق واقعات میں ربط اور تسلسل ، اور ان کے رُو پذیر ہونے کے طبیعی اصولوں کو تسلیم کرلینے سے یہ ماننا لازم آسکتا ہے کہ خدا نے اس کائنات اور اس کے نظام کو کچھ مخصوص اصولوں کے تحت بناکر چھوڑدیا ہے۔اور اب کائنات کا نظام خود بخود خالق کی منشا سے لاتعلق ہوکر ان اصولوں کے تحت چلا جارہا ہے، جس طرح گھڑی ساز گھڑی کو بناکر چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنے تیار کرنے والے سے آزاد طور پر چلتی رہتی ہے۔۔ ظاہر اس طرح کی سوچ رکھنا سراسر الحاد وکفر ہے لیکن ان کے حق میں جو پہلے سے ہی ملحد ہیں۔ مسلمانوں پر یہ کفر تو تب لازم آئے جب ان طبیعی اصولوں کے وجود اور اثر پذیری کو ماننے سے واقعی خالق کائنات کے ہمہ وقت کارفرما ارادے سے بالاتر ی اور بے نیازی کا تصور لازم آتا ہو۔۔۔