آزاد
مشہور رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 363
- ری ایکشن اسکور
- 919
- پوائنٹ
- 125
طریقہ تبلیغ کیسا ہونا چاہیے؟
ڈاکٹر فرحت ہاشمی حفظہا اللہ
جہاد کا یہاں مزید مفہوم واضح ہورہا ہے۔ کفار سے جہاد تو آپﷺ نے قتال کی شکل میں کیا لیکن منافقین سے آپﷺ نے کوئی جنگ نہیں کی تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہوگا کہ منافقین سے جہاد کیجئے؟ یہاں جہاد جنگ کے معنوں میں استعمال نہیں ہورہا۔ اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، تفسیر قرطبی میں آتی ہے کہ :يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ (التوبة : 73)
اے نبی ﷺ! کفار اور منافقین دونوں سےپوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ ۔
اورسختی کا مطلب یہ نہیں کہ بہت غصہ اور اس طرح کی بد اخلاقی، نبی ﷺ نے کبھی منافقین سے بھی بد اخلاقی نہیں کی تھی۔ آپﷺ کسی اصول پر پکے ہوسکتے ہیں بد اخلاق ہوئے بغیر اور یہی اخلاق ہم سب کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ یعنی اپنے پرنسپلز، اپنے اصولوں کے ساتھ آپ جم جائیے، firm ہوجائیے لیکن بداخلاقی سے پرہیز کیجئے۔ کیونکہ مؤمن جو ہے، وہ طعّان اور لعّان نہیں ہوتا، فحش گفتگو کرنے والا نہیں ہوتا۔ کہیں بھی نہیں پتہ چلتا کہ آپﷺ نے جب منافقین سے جہادکیا لسان کا یا وعظ ونصیحت کا تو اس میں ایسی سختی کی ہو کہ نعوذ باللہ بداخلاقی لازم آتی ہو۔ ’’ وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ‘‘ (القلم : 4)یہی سنت جب تک ہم نہیں اپنائیں گے، تب تک دین کو ترقی نہیں ہوسکتی۔’’ أمر بالجہاد مع المنافقین باللسان وشدۃ الزجر والتغلیظ‘‘ کہ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو منافقین کے ساتھ جس جہاد کا حکم دیا ہے، وہ زبان کے ساتھ ہے یعنی ان کو وعظ و نصیحت اور ان کو سمجھانا۔’’ وشدۃ الزجر والتغلیظ‘‘ اور فرملی firmly بات کرنا ان کے ساتھ، یعنی زجر ہوتا ہے: ڈانٹ ڈپٹ اور تغلیظ یعنی سختی
آج کے دور میں بہت سے دین کی تبلیغ کرنے والے یہیں سے ناکام ہوجاتے ہیں۔ اچھا، دور نہ جائیں، ہم اپنی مثال لیتے ہیں، گھر وں میں جب ہم اپنے بچوں کو وعظ و تلقین کرتے ہیں تو اس وقت ہم کتنے اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بعض اوقات ہم نصیحت کے شوق میں، دوسرے کو وعظ وتبلیغ کے شوق میں سخت زبان استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ یہ آپﷺ کا طریقہ نہیں تھا۔
ڈاؤنلوڈ ان آڈیو فارمیٹاور ’’ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ‘‘ کا مطلب کیا ہے؟ فرم firm رہیے۔ کیونکہ منافقین کیا چاہتے ہیں؟کہ ہم اپنے دین پر قائم نہ رہیں۔ ان کی باتوں میں آکر، ان کے طعنوں میں آکر ، ان کے پھسلانے میں آکر پھسلنا نہیں ، اپنے موقف پر قائم رہنا ہے’’ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ‘‘ اور ان کا ٹھکانا تو جہنم ہے ’’ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ‘‘اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔