• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

طلاق طلاق

غازی

رکن
شمولیت
فروری 24، 2013
پیغامات
117
ری ایکشن اسکور
183
پوائنٹ
90
طلاق طلاق

۔
تحریر :رفیق رئیس سلفی علی گڑھ

فقہ اسلامی کے جن مسائل کو حددرجہ پیچیدہ بنادیا گیا ہے ،ان میں ایک مسئلہ طلاق کا بھی ہے۔فقہی مسالک کے مختلف نقطہائے نظر نے ایک سیدھے سادے مسئلے کو الجھا دیا ہے۔کہاں قرآن کریم کا اعلان یہ ہے کہ وہ واضح ہے،صاف ہے،اس میں کوئی کجی نہیں ہے ،اس کی محکم آیات اپنے مفہوم کی ادائیگی میں واضح اور دوٹوک ہیںاور کہاں طلاق سے متعلق مختلف آیات کی تاویل وتفسیر جس نے مسئلے کو واضح کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ کردیا ہے۔اتفاق سے اس کے ایک جزئیے میں مسالک اربعہ کا اتفاق بتایا جاتا ہے اور پھر اسے قطعیت کی شکل دے دی جاتی ہے اور کہا یہ جاتا ہے کہ حق چوں کہ مسالک اربعہ میں دائر اور محصور ہے ،اس لیے اس سے خروج جائز نہیں ہے۔جب کہ اس کے حق میں کتاب وسنت کی کوئی دلیل نہیں ہے۔چاروں مسالک مل کر رسالت کا منصب جلیل حاصل نہیں کرسکتے کہ ان سے اختلاف اسلام سے بغاوت قرار پائے یا یہ فرض کرلیا جائے کہ چاروں مل کر معصومیت کے درجے میں پہنچ جاتے ہیں۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم آج تک افراد امت کی طلاق کے معاملے میں تربیت نہیں کرپائے اورانھیں یہ بتانے میں ناکام ہیں کہ اسلام میں طلاق دینے کا طریقہ کیا ہے۔اپنے دین سے ناواقف مسلمان غصے میں آکر خلاف اسلام کام کربیٹھتا ہے اور ہم خدائی فوجدار بن کر اسے سزا دینے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔خطااور نسیان تو وہ ذات بھی معاف کرتی ہے جس نے یہ سارا بزم عالم سجایا ہے اور جس نے انسان کو وجود بخشا ہے لیکن فقہائے کرام کے یہاں خطا ونسیان کی معافی کا کوئی خانہ نہیں ہے ۔حالات وزمانہ کی رعایت سے فتوی دینے کا دعوی کرنے والے فقہائے کرام اس مسئلے میں کیوں اس کی رعایت نہیں کرتے ۔عربوں میں عورت کی شادی بہت آسانی سے ہوتی ہے ،مطلقہ اور بیوہ عورت کے لیے آج بھی اتنے پیغامات ہوتے ہیں کہ اسے ان کے درمیان بہتر سے بہتر رشتے کے انتخاب کی سہولت موجود ہوتی ہے۔لیکن ہمارے ملک میں کنواری بچیوں کی شادی آسانی سے نہیں ہوتی ،مطلقہ اور بیوہ عورت تو بہت دور کی بات ہے۔ممکن ہے ایک عرب شوہر کو بیوی سے محروم ہوکر سزا مل جاتی ہو لیکن ہمارے ملک میں طلاق کی سزا صرف عورت کو ملتی ہے ۔یہاں بھی تاویلات ہوں گی لیکن جن حضرات کی معاشرے پر گہری نظر ہے اور وہ بلاوجہ کسی فقہی تعصب میں گرفتار نہیں ہیں،وہ اس سچائی کا اعتراف کریں گے۔ذیل کی سطور میں قرآن کی روشنی میں اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کی گئی ہے اور احادیث نبویہ سے استشہاد کرکے قرآن کے مفہوم کو متعین کیا گیا ہے۔

(۱) بعض ناگزیر حالات میں اسلام نے طلاق دینے کو جائز قرار دیا ہے اوراس طرح اس نے ازدواجی زندگی کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں آنے والی رکاوٹ کو دور کیا ہے۔اسلام کا یہ قانون زوجین کے لیے رحمت اور باعث سکون واطمینان ہے۔اسے جو حضرات زحمت قرار دیتے ہیں انھیں انسانی احتیاجات اور اس کی نفسیات کا وسیع اور گہرامطالعہ کرنا چاہئے۔زوجین کی عفت وپاک دامنی اور ایک دوسرے کے تئیں اعتماد ازدواجی زندگی کو پرکیف ہی نہیں اسے عظیم بھی بناتی ہے۔فرایڈ کے نظریہ جنس سے جو حضرات متاثر ہیں،انھیں یہ بات شاید کبھی سمجھ میں نہ آئے۔اسلام ایسے لوگوں کی کوئی پروا ہ بھی نہیں کرتا۔وہ اپنی دنیا میں مگن رہیں ،دارالامتحان میں انھیں اس کی کھلی آزادی حاصل ہے لیکن اپنے نظریے پر اصرار اور دوسروں پر زبردستی اسے تھوپنے کی کوشش

اس آزادی کے خلاف ہے جس کی یہ حضرات خود وکالت کرتے ہیں۔لکم دینکم ولی دین،آخری وحی کا وہ اعلان ہے جو اس دنیا میں سب کو اپنے نظریے کے مطابق زندگی گزارنے کی آزادی دیتا ہے۔

(۲) طلاق دینے کی ضرورت آن پڑے تو اس کا طریقہ اسلام یہ بتاتا ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق نہ دے ،حالت طہر میں طلاق دے اور اس طہر میں جس میں اس نے اپنی بیوی سے جماع نہ کیا ہو۔اس میں حکمت یہ ہے کہ حالت حیض میں عورت بسااوقات ذہنی تناؤ کا شکار ہوتی ہے ،وہ اس تناؤ کی حالت میں اپنے شوہر کی کسی بات کا ایسا جواب دے سکتی ہے جو اسے ناراض کردے اور مجامعت کی صورت میں امکان اس بات کا ہے کہ اسے حمل قرار پاجائے جس کا اسے بھی بعد میں افسوس ہو۔حالت طہر میں بھی ایک طلاق دے اور بیوی کو اپنے گھر سے باہر نہ نکالے۔ازدواجی زندگی کی مسرتیں جن کو میسر آچکی ہیں ،ان کے لیے ایک دوسرے سے زیادہ دنوں تک جدا رہنا مشکل ہے۔بیوی سامنے ہوگی تو اسے بھی اس جدائی کا افسوس ہوگا اور شوہر بھی اس رشتے کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنے سے گھبرائے گا،اسے بیوی پر ترس بھی آئے گا اور وہ اپنے کیے پر نادم بھی ہوگا۔وقتی طور پر جن جذبات سے مغلوب ہوکر شوہر نے بیوی کو طلاق دی تھی ،ان کا نشہ اترتے ہی وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے گا۔یہی وہ تمام حکمتیں ہیں جن کی وجہ سے اللہ نے شوہروں کو حکم دیا ہے کہ ایک طلاق کے بعد وہ بیوی کو اپنے گھر سے نہ نکالے اور بیوی کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی غصے میں آکر شوہر کا گھر نہ چھوڑے۔ہمارے علمائے کرام اس حکم کی حکمت اور افادیت بتانے سے بھی ابھی تک عاجز ہیں ،کم ہی جوڑے ایسے ہوں گے جو اس قرآنی حکم پر عمل کرتے ہوں۔علمائے کرام کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہماری کتب فقہ میں اگرچہ اس قرآنی حکم کو قانون کا درجہ نہیں دیا گیا ہے لیکن زمانے کی ضرورت اور بے عمل اور بدعمل شوہروں کے ظلم وزیادتی کو روکنے کے لیے اگر اسے قانون کا درجہ مل جائے تو اس میں حرج کیا ہے۔اللہ نے اس طریقۂ کار کو نفلی کام یا مستحب سمجھ کر تو بیان نہیں کیا ہے کہ ہمیں اس پر عمل کرنے اور نہ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

(۳) اگر کسی مسلمان نے اپنی بیوی کو قرآن اور حدیث کے بتائے ہوئے طریقے کے خلاف حالت حیض میں یا جس طہرمیں اس نے بیوی سے جماع کیا ہے ،اس میں طلاق دے دی یا ایک طلاق دینے کی بجائے تین طلاق ایک ساتھ دے دی تو اب کیا ہوگا؟یہی وہ نقطہ ہے جہاں فقہائے کرام کا اور مسالک اربعہ کا اختلاف ہوا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شوہر نے جب طلاق دے دی تو اب وہ واقع ہوگی چاہے جس طرح دی ہو۔مسالک اربعہ کے اس نقطۂ نظر کے خلاف سب سے پہلے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور ان کے تلمیذ رشید امام ابن قیم الجوزیہ نے آواز بلند کی اور شرعی نصوص سے یہ ثابت کیا کہ تین طلاق ایک ساتھ کبھی بھی نافذ نہیں ہوسکتی کیوں کہ اگر طلاق دینے والا اپنی بیوی سے یہ کہتا ہے کہ میں نے تجھے تین طلاق دی تو وہ صرف ایک تسلیم کی جائے گی کیوں کہ قرآن یکے بعد دیگرے طلاق دینے کا حکم دیتا ہے۔طلاق کے ساتھ صرف تین کا عدد استعمال کرنے سے تین طلاق نہیں ہوسکتی۔شریعت میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں جیسے سجدے میں ایک نمازی کو حکم ہے کہ تین بار سبحان ربی الأعلی کہے۔اس حکم کی تعمیل تین مرتبہ سبحان ربی الاعلی الگ الگ کہنے سے ہوگی۔اگر کوئی نمازی یہ کہے کہ تین بار سبحان ربی الاعلی تو اسے صرف ایک شمار کیا جائے گا۔اسی طرح نماز کے بعد کی تسبیحات میں اگر کوئی شخص کہے کہ تینتیس بار سبحان اللہ،تینتیس بار الحمد للہ اور چونتیس بار اللہ اکبر تو یہ تسبیحات صرف ایک ایک بار شمار ہوں گی۔تعداد پوری کرنے کے لیے اسے ان تسبیحات کو مذکورہ تعداد کے مطابق دہرانا ہوگا۔
اسی طرح شوہر کا بیوی سے یہ کہنا کہ میں نے تجھے طلاق دی،میں نے تجھے طلاق دی،میں نے تجھے طلاق دی،اس سے بھی صرف
ایک رجعی طلاق ہواقع ہوگی کیوں کہ جب پہلا جملہ اس نے استعمال کیا تو بیوی مطلقہ ہوگئی ۔اب وہ اس کی بیوی ہی نہیں رہی ،بیوی اس وقت بنے گی جب وہ رجوع کرے گا۔لہذا بعد کے دونوں جملے لغو قرار پائیں گے۔

یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے نے حالت حیض میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور نبی اکرم ﷺ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا:کیا میری موجودگی میں کتاب الٰہی سے کھلواڑ کیا جائے گا۔آپ نے رجوع کرنے کا حکم دیا اور پھر طلاق دینے کا صحیح طریقہ بتایا۔حدیث رکانہ میں بھی آتا ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دیں تو نبی اکرم ﷺ نے انھیں رجوع کرنے کی اجازت دی۔صحیح مسلم میں سیدنا ابن عباس کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اور صدیق اکبر کے عہد میں اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسالوں میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتا تھا۔بعد میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے تعزیری قانون بناکر عورتوں کو راحت پہنچائی اور وہ اس لیے کہ ایک شوہر طلاق دے کر دو مہینے اٹھائیس دن بیوی کو تنگ کرتا اور پھر ایک دن پہلے رجوع کرلیتا ۔قانون کا غلط استعمال روکنے کی یہ ایک وقتی تدبیر تھی جسے بعض فقہائے کرام نے اسلام کے دائمی قانون کی حیثیت دے دی۔اسلام نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں مکمل ہوچکا ہے ۔کوئی اجتہاد اور اجماع اسی وقت تک قابل عمل ہوگا جب اس کی معنویت موجود ہوگی ،معنویت ختم ہوجائے تو دوسرے دور کے علمائے اسلام کے لیے جدید اجتہادکرنے کا حق حاصل ہوگا۔
طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں اس وقت جو مسئلہ زیر بحث ہے اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ عدالت اور عوام کے سامنے اس مسئلے کو جس اندازمیں اٹھا رہا ہے ،وہ ہمارے مسئلے کا حل نہیں ہے۔کوئی مظلوم عورت جب عدالت کا درازہ کھٹکھٹاتی ہے ،اسی وقت کیوں ہمیں اسلام کے اصول اور ضابطے یاد آتے ہیں۔ایک مسلمان شوہر جس وقت اپنی بیوی پر ظلم کررہا ہوتا ہے،اس کے بھائی اسے جائیداد سے محروم کررہے ہوتے ہیں اور وہ اپنے معصوم بچوں کو گود میں اٹھائے در در کی ٹھوکریں کھارہی ہوتی ہے،اس وقت بیداری کی مہم کیوں نہیں چلائی جاتی۔جس حلالہ کو بعض فقہی مکاتب فکر نے کارثواب لکھ کر فقہی جواز عطا کیا ہے اور جس حلالہ کے لیے بڑے بڑیــ’’ زہاد اور اتقیاء‘‘ اپنی خدمات پیش فرماتے ہیں،اگر یہ اسلام کا قانون ہے تو ایسے اسلام سے دنیا کو کیا دل چسپی ہوسکتی ہے۔طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں بعض حضرات حکم فاروقی کا حوالہ دیتے ہیں اور اسے اسلام کا آخری فیصلہ سمجھتے ہیں ۔انھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ دین اسلام نبی اکرم ﷺ کے ہاتھوں مکمل ہوگیا۔بعد کے ادوار میں اگر کسی فیصلے کے تحت قانون کے غلط استعمال کو روکا گیا ہے تو وہ ایک وقتی مسئلہ ہے،اسلام کا دائمی قانون ہرگز نہیں ہے۔حلالہ کے مسئلے میں ان حضرات کو حکم فاروقی کیوں یاد نہیں ہے ۔فاروق اعظم نے فرمایا تھا کہ اگر میری عدالت میں سازباز کے ذریعے کوئی حلالہ کرنے والا یا کرانے والا لایا گیا تو میں اسے رجم کرادوں گا۔طلاق ثلاثہ اور حلالہ کے مسئلے میں جوحضرات اپنی ضد پر اڑے ہوئے ہیں وہ مسلمانوں کو یہ کہہ کر خوف زدہ کررہے ہیں کہ اس سے ہمارے پرسنل لا میں حکومتوں کے لیے مداخلت کی راہ ہموار ہوجائے گی ،انھیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا اسلام اتنا کمزور نہیں ہے کہ کوئی اس میں مداخلت کرسکے یا کسی کی مداخلت سے اس پر آنچ آجائے اور اس کی بنیادیں متزلزل ہوجائیں ۔بہتر ہوگا کہ اسلامی قوانین کے ماہر علمائے کرام ،مسلمان وکلاء،عدلیہ کے ذمہ دار جج صاحبان اور حکومت کے نمایندے بیٹھ کر اس مسئلے کو حل کریں ۔ایک ایسا قانون بن جائے جس میں عورتوں کو تحفظ حاصل ہو اور قرآن اور سنت کی روح سے وہ متصادم نہ ہو۔رہے فقہی مکاتب فکر کے وہ جزئی مسائل جو حالات اور زمانہ کی پیداوار ہیں اور جو یقیناً قرآن اور سنت کی روح سے متصادم ہیں،انھیں چھوڑ دیا جائے،ان پر اصرار کرنے سے ممکن ہے ،آپ کے فقہی مکتبۂ فکر کی واہ واہ ہوجائے لیکن اسلام دنیا میں رسوا ہوجائے گا اور مسلمان عورت کی مظلومیت کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا اور نہ اس کے دکھوں کا مداوا ہوسکے گا۔
 
Top