غزنوی
رکن
- شمولیت
- جون 21، 2011
- پیغامات
- 177
- ری ایکشن اسکور
- 659
- پوائنٹ
- 76
طلاق کا شرعی فلسفہ
ممکن ہے کہ کوئی شخص طلاق کے شرعی ہونے کے بارے میں اعتراض کرے اور یہ کہے: اگر طلاق کا قانون بنانے والا اسے ناپسند کرتا تھا تو اس نے اسے حرام کیوں نہیں کیا ہے۔؟ یعنی حلال ہونا اور ناپسند ہونا دونوں ایک ساتھ کس طرح جمع ہو سکتے ہیں ؟ تو پھر اسلام نے طلاق کو کیوں جائز قرار دیا اور اس کا فلسفہ کیا ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اگرچہ طلاق ایک ناپسندیدہ کام ہے لیکن بعض مواقع پر اس کی واقعاً ضرورت پڑتی ہے اور ہم اسے روک نہیں سکتے ہیں جیسے : انسان کے اعضاءبدن کا بدن سے جدا ہونا ایک دردناک اور ناپسندیدہ کام ہے لیکن بعض صورتوں میں ان اعضاءکو کاٹنا بھی ضروری ہو جاتا ہے کیونکہ انسان کی بھلائی اسی میں ہے۔ لہٰذا اگر مشترکہ زندگی کو جاری رکھنا شوہر اور بیوی کے لئے بے حد تکلیف دہ اور دردناک یا ناقابل تحمل ہو اور طلاق کے علاوہ کوئی دوسری راہ موجود نہ ہو تو طلاق اس کا بہترین راہ حل ہے۔
مثال کے طور پر میاں بیوی کے عشق و محبت کی آگ بالکل ٹھنڈی ہو جائے، شوہر اپنی بیوی کو پسند نہ کرے اور عورت بھی اپنی جاذبیت اور کشش کو اپنے ہاتھ سے دے دے۔ ان کی مشترکہ زندگی بالکل کھوکھلی ہو چکی ہو۔ مختصر یہ کہ وہ گھر جس میں پیار و محبت نہ ہو، وہ ایک تاریک اور وحشت ناک کوٹھری ہے نہ یہ کہ شوہر اور بیوی کے آسائش اور آرام کی جگہ : در حقیقت یہ ایک قید خانہ اور بھٹی ہے جو پورے گھر کو جھلسا کر راکھ کردے گی زوجہ اور شوہر کا رشتہ ایک فطری رشتہ ہے جو شوہر اور بیوی کے درمیان قائم ہوتا ہے اور یہ دوسرے سماجی معاہدہ مثلاً بیع، اجارہ، رہن اور صلح وغیرہ سے بالکل جدا ہے۔ کیونکہ یہ سب ایسے معاہدے ہیں جو صرف سماجی اور قانونی ہیں اور ان میں فطرت ، دل اورجذبات کا کوئی دخل نہیں ہے اس کے برخلاف شادی ایک فطری رشتہ ہے اور اس کی جڑیں انسانی فطرت اور شوہر و بیوی کے قلبی جذبات اور فطری خواہشوں میں پیوست ہیں ۔
شادی درحقیقت شوہر اور بیوی کے درمیان ایک طرح کی اندرونی کشش ہے جس سے وہ اتحاد کی طرف راغب ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی قربت اور ہم دلی ہی اس کا بہترین نتیجہ ہے، یہ جاذبیت اور کشش مختلف میاں بیویوں کے درمیان الگ الگ انداز میں پائی جاتی ہے۔ مرد کی طرف سے عشق اور پسند کرنے کی صورت میں چاہنا اور عورت کو اپنے اختیار میں لینے کی خواہش کی صورت میں بیوی کو چاہنا او ر عورت کی طرف سے خود کو سجانا، پرکشش ہونا، دل کو تسخیر کرنا اور مرد کے دل کو ہاتھ میں لینا ہے۔ لہٰذا مرد چاہتا ہے اپنی محبوبہ کو قبضہ میں لے لے ، لیکن عورت چاہتی ہے شوہر کی محبوبہ بنی رہے اور اس کے دل کو اپنی مٹھی میں لئے رہے۔
گھر کی بنیاد ان دوستونوں پر رکھی ہے اور اگر زوجہ اور شوہر اپنی اندرونی خواہش تک پہنچ جائیں تو گھر کا ماحول گرم، بے تکلف اور خوبصورت بن جائے گا، مرد گھر کی طرف دل گرم اور پر امید رہے گا اور ان کے آرام اور سکون کو فراہم کرنے کے لئے کوشش اور فداکاری کرے گا، عورت بھی اپنے کو کامیاب اور خوش بخت سمجھے گی اور شوہر داری ، گھر داری اور بچہ داری میں اپنی کوشش بھرفداکاری کرے گی۔
لیکن اگر مرد اپنی بیوی کو پسند نہ کرے اور وہ اسے دیکھنا بھی نہ چاہے اور عورت کو بھی یہ احساس ہو کہ وہ اس کی نظروں سے گر چکی ہے اور اس کا شوہر اسے پسند نہیں کرتا ہے تو پھر گھر کے دو بنیادی ستون بالکل منہدم ہو جائیں گے جس سے پورا گھر ویران ہو سکتا ہے۔ ایسے گھروں میں زندگی بالکل بے مزہ اور شوہر بیوی کے لئے بہت دشوار اور درد سر بن جاتی ہے اور اسی شکل میں اسے جاری رکھنا دونوں میں سے کسی ایک کے حق میں بھی بہتر نہیں ہے ، ایسی صورت میں اگرچہ اسلام طلاق کو ناپسند کرتا ہے لیکن ایسی مشکلات میں اسے بہترین راہ حل جانتا ہے اور ایسے ہی مواقع کے لئے اس نے طلاق کا قانون بنایا ہے۔
دوسرا موقع وہ ہے کہ جب شوہر اور بیوی کا اخلاق ایک جیسا نہ ہو بلکہ دونوں کے اوپر دو طرح کی فکریں مسلط ہوں جیسے : دونوں خود خواہ، کینہ پرور اور ضدی ہوں دن رات لڑائی ، جھگڑا کرتے رہتے ہوں ، کسی کی نصیحت کو نہ سنتے ہوں اور اپنی اصلاح کے لئے کسی بھی طرح راضی نہ ہوتے ہوں ، تو ایسے گھر میں زندگی گزارنا بہت سخت اور مشکل ہے اور ان کا ایک ساتھ رہنا نہ عورت کے فائدہ میں ہے اور نہ ہی مرد کے لئے مفید ہے ایسی صورت کا بہترین راہ حل طلاق ہے اور اسلام نے اسی راہ حل کو تجویز کیا ہے۔
اسی بناءپر بعض اوقات طلاق سماج کی ضرورت اور ان کا بہترین راہ حل ہے جس کا کوئی انکار نہیں کر سکتا ہے۔ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ اگرچہ بعض مواقع کے لئے طلاق کو تجویز کیا گیا ہے لیکن طلاق کا قانون تو عام ہے اور یہ بعض ہوسباز مردوں کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی بھی چھوٹے سے چھوٹے بہانے کی وجہ سے اپنی مظلوم بیوی کو طلاق دے دیں کہ جس نے اپنی جوانی، طاقت، صحت اور شادابی کو اس بے وفا مرد کے گھر میں قربان کردیا اور اس کے بعد وہ مرد اس کے مانوس گھر سے اسے جدا کردے اور کچھ دنوں بعد دوسری شادی کرلے۔ کیا ایسی طلاق کا جائز ہونا اس عورت پر ظلم نہیں ہے۔
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے: اسلام بھی ہوس بازی اور اس طرح کی نامردوں جیسی طلاق کا مخالف ہے۔ اس نے اس کے اسباب کا بہت سختی سے مقابلہ کیا ہے۔ اسی لئے اس نے طلاق کے کچھ شرائط اور قوانین بنائے ہیں اور اسے روکنے کے لئے حتی الامکان رکاوٹیں کھڑی کی ہیں ۔
لیکن اگر کسی بناءپر بھی عورت اپنی محبوبیت، جاذبیت اور پیار و محبت کو گنوادے اور مرد کے لئے قابل نفرت بن جائے تو اس کے لئے کیا کیا جائے اور اس کا راہ حل کیا ہے؟ کیونکہ عورت یہ احساس کرتی ہے کہ وہ مرد کی من پسند بیوی اور اس کے گھر کی آئیڈیل خاتون نہیں ہے اور اس کا شوہر اس سے نفرت کرتا ہے اور اس طرح کا دردناک اختلاف عورت کی بہت بڑی ذلت اور توہین ہے تو پھر کیا یہ مصلحت ہو سکتی ہے کہ ایسی عورت کو قانون مجبوراً گھر میں قید رکھے اور دونوں کو جدا ہونے سے منع کردے؟
یقینا قانون کے زور پر عورت کو گھر میں رہنے اور مرد کو نفقہ دینے پر تو مجبور کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے درمیان پیار و محبت کا رشتہ پیدا نہیں کیا جاسکتا جو ایک گھریلو زندگی کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اس جگہ پر بھی اسلام اگرچہ طلاق کو ناپسند کرتا ہے مگر اس نے اس کے لئے طلاق کو بہترین راہ حل قرار دیا ہے۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے طلاق بعض جگہوں پر ضروری اور بہترین راہ حل ہے تو اس کا حق فقط مردوں کے لئے کیوں ہے؟ کیونکہ بالکل اسی طرح کے احتمالات عورت کے لئے بھی پائے جاتے ہیں ممکن ہے کوئی عورت اپنے شوہر کو پسند نہ کرے اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے سے بیزار ہو۔ کیا ایسے مواقع کے لئے بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر انس و محبت نہ ہو تو مشترک گھریلو زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے عورتوں کو بھی یہ حق دینا چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کو طلاق دے دیں اور شادی کے اختتام کا اعلان کردیں۔
اس کے جواب میں ہم کہیں گے عورت کی بے رغبتی کو ہم گھریلو زندگی کے خاتمہ کا سبب نہیں سمجھ سکتے بلکہ یہ مرد کی تقصیر یا ازدواجی زندگی میں بیوی کے حقوق کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ عورت کے انس و محبت کی کنجی درحقیقت مرد کے اختیار میں ہوتی ہے اگر مرد واقعاً اپنی بیوی کو چاہے ، اسے بے حد پسند کرے ، اس کے حقوق کو بھی ادا کرتا رہے اور اپنے اخلاق و کردار کو سنوارلے تو بیوی بھی عام طور سے اس سے مانوس رہتی ہے اور اسے پسند کرنے لگتی ہے اور وہ بھی یہ کوشش کرتی ہے کہ مرد کے دل کو اسی طرح اپنا گرویدہ بنائے رکھے۔مختصر یہ کہ اگر کوئی عورت اپنی مشترکہ زندگی یا اپنے شوہر کو پسند نہیں کرتی تو یہ مرد کے قصوروار ہونے کی علامت ہے۔
ایسے موقع پر طلاق کی ضرورت نہیں ہے بلکہ مرد کو اس کے شرعی فرائض اور عورت سے متعلق ان حقوق سے واقف کرائیں جن کا ادا کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اپنی رفتار و گفتار اور اخلاق کے بارے میں نئے سرے سے غور و فکر کرے اور ہر ممکنہ طریقہ سے اپنی بیوی کا دل جیتنے کی کوشش کرے اور اسے ناامیدی سے نجات دلادے۔
ممکن ہے کوئی سوال کرے اگر مرد اپنی بیوی کو مارتا ہو، اس کا نفقہ ادا نہ کرتا ہو، اس کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہو، اس کو اس کے حق ہم بستری سے محروم کردے یا اس کی جنسی خواہش کو پورا نہ کرتا ہو، اسے اذیت دیتا ہو یا اسے گالیاں دیتا ہو اور پھر طلاق بھی نہ دیتا ہو تو ایسی صورت میں عورت کا کیا حق ہے؟ کیا یہ کہا جائے کہ وہ صبر کرے اور شوہر کے مظالم کی آگ میں اسی طرح جلتی رہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے اور ایسے مواقع پر اپنی آزادی کے لئے عورت کو طلاق کا حق کیوں نہیں دیا گیا ہے؟
اس کے جواب میں ہم یہ کہیں گے کہ اسلام کی بنیاد عدل و انصاف اور لوگوں کے حقوق کو ادا کرنے پر قائم ہے اور کبھی بھی وہ مرد کی ناشائستہ حرکتوں یا اس کے ظلم کو بیوی کے حق میں تجویز نہیں کرتا، بلکہ وہ شدت سے اس کا مخالف ہے اور عورت کے حقوق کا دفاع کرتا ہے۔
عورت ایسے مواقع پر فیصلہ کرنے والے لوگوں سے رابطہ کرے گی اور ان سے یہ تقاضہ کرے گی کہ اس کے شوہر کو نصیحت کریں اور اسے عدل و انصاف اور اپنے فریضہ پر عمل کرنے کے لئے مجبور کریں ، اگر وہ اس میں کامیابی حاصل کرلے تو اپنی ازدواجی زندگی کو آگے بڑھائے گی، اور اگر وہ حق ادا کرنے سے منع کرے تو وہ اپنی شکایت کو حاکم شرع اسلامی یا گھریلو کورٹ میں لے جائے گی، اسلامی حاکم شرع ظلم کرنے والے مرد کو بلائے گا اور اس سے کہے گا کہ ظلم و ستم نہ کرے اور اپنے فریضہ پر عمل کرے۔ اگر مرد اس بات کو قبول نہ کرے تو اسے طلاق دینے پر مجبور کرے گا اور منع کرنے کی صورت میں حاکم شرع خود اس عورت کو طلاق دے دے گا اور اس کے حقوق بھی مرد سے لے گا۔
لنک