• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظالم غنی سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ظالم غنی سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( وَالثَّـلَاثَۃُ الَّذِیْنَ یُبْغِضُھُمُ اللّٰہُ: اَلشَّیْخُ الزَّانِيْ، وَالْفَقِیْرُ الْمُخْتَالُ، وَالْغَنِيُّ الظَّلُوْمُ۔ ))1
’’ وہ تین آدمی کہ جنہیں اللہ تعالیٰ دشمن رکھتا ہے (وہ یہ ہیں:) بوڑھا زانی، متکبر فقیر اور ظالم غنی ہے۔ ‘‘
شرح…: ظالم غنی سے وہ انسان مراد ہے جسے اللہ تعالیٰ نے مال و دولت کی نعمت سے نوازا لیکن وہ ظلم کرنے پر اتر آیا۔ ایسا انسان اپنے اوپر فرض ہونے والی زکوٰۃ، فقراء سے روک لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے اور یہ کام بخیلی، کمینگی اور طمع و حرص کی بناء پر کرتا ہے چنانچہ ایسے لوگوں کے متعلق رب کائنات کا ارشاد ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْأَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ لَیَأْکُلُوْنَ أَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَالْفِضَّۃَ وَلَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ أَلِیْمٍ o یَّوْمَ یُحْمٰی عَلَیْھَا فِیْ نَارِ جَھَنَّمَ فَتُکْوٰی بِھَا جِبَاھُھُمْ وَجُنُوْبُھُمْ وَظُھُوْرُھُمْ ھٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِأَنْفُسِکُمْ فَذُوْقُوْا مَا کُنْتُمْ تَکْنِزُوْنَ o}[التوبہ: ۳۴۔ ۳۵]
’’اے ایمان والو! بے شک بہت سے علماء، درویش البتہ کھاجاتے ہیں لوگوں کا مال ناحق اور وہ لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔ اور جو لوگ سونے چاندی کا خزانہ رکھتے ہیں اور اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذابوں کی خبر پہنچا دیجیے۔ جس دن اس خزانے کو آتش دوزخ میں تپایا جائے گا پھر اس سے ان کی پیشانیاں، پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم نے اپنے لیے خزانہ بنا کر رکھا تھا پس اپنے خزانوں کا مزا چکھو۔ ‘‘
یہ اس فرد کی سزا ہے جو مال و دولت پر سانپ بن کر بیٹھ جاتا ہے اور زکوٰۃ ادا نہیں کرتا۔ یہ غایت درجے کا انصاف ہے کیونکہ جو انسان اپنی من پسند چیز کو رب العالمین کی اطاعت و فرمانبرداری سے مقدم رکھتا ہے تو اسی چیز کے ساتھ عذاب میں مبتلا کیا جائے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- مسند أحمد، رقم: ۲۱۴۲۲، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ صحیح۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( مَا مِنْ صَاحِبِ ذَہَبٍ وَّلَا فِضَّۃٍ لَا یُؤَدِّی مِنْہَا حَقَّہَا إِلَّا إِذَا کَانَ یَوْمُ الْقِیَامَۃِ صُفِّحَتْ لَہٗ صَفَائِحُ مِنْ نَّارٍ فَأُحْمِیَ عَلَیْہَا فِی نَارِ جَہَنَّمَ فَیُکْوٰی بِہَا جَنْبُہٗ وَجَبِینُہٗ وَظَہْرُہٗ کُلَّمَا بَرَدَتْ أُعِیدَتْ لَہٗ فِی یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِینَ أَلْفَ سَنَۃٍ حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ الْعِبَادِ فَیَرٰی سَبِیلَہٗ إِمَّا إِلَی الْجَنَّۃِ وَإِمَّا إِلَی النَّارِ۔ ))1
’’ کوئی سونے اور چاندی کا مالک کہ زکوٰۃ ادا نہ کرتا ہو مگر قیامت کے دن اس کے لیے آگ سے تختیاں تیار کی جائیں گی انہیں آگ میں گرم کیا جائے گا تو ان کے ساتھ اس انسان کا پہلو، پیشانی اور پشت کو داغا جائے گا جب بھی تختیاں ٹھنڈی ہوں گی پھر (گرم کرکے) لائیں جائیں گی (یہ عذاب ایسے) دن میں ہوگا جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے یہاں تک کہ لوگوں کا فیصلہ کردیا جائے گا اور یہ انسان (پھر) یا تو جنت کی راہ دیکھے گا یا جہنم کی۔ ‘‘
نیز فرمایا:
(( عَنْ أَبِی ذَرٍّ قَالَ: أَنْتَہَیْتُ إِلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَہُوَ جَالِسٌ فِی ظِلِّ الْکَعْبَۃِ فَلَمَّا رَآنِی، قَالَ: (( ہُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ )) فَقُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِدَاکَ أَبِی وَأُمِّیْ مَنْ ہُمْ؟ قَالَ: (( ہُمُ الْأَکْثَرُونَ أَمْوَالًا إِلَّا مَنْ قَالَ ہٰکَذَا وَہٰکَذَا وَہٰکَذَا [مِنْ بَیْنَ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ وَعَنْ یَّمِینِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ] وَقَلِیلٌ مَا ہُمْ مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا یُؤَدّٰی زَکٰوتَہَا إِلَّا جَآئَتْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ أَعْظَمُ مَا کَانَتْ وَأَسْمَنُہٗ تَنْطَحُہٗ بِقُرُونِہَا وَتَطَؤُہٗ بِأَظْلَافِہَا کُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاہَا عَادَتْ عَلَیْہِ أُولَاہَا حَتّٰی یُقْضٰی بَیْنَ النَّاسِ۔ ))2
’’ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے، میں آپ کی طرف گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: رب کعبہ کی قسم! وہ گھاٹے میں ہیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان، کون گھاٹے میں ہیں؟ فرمایا: وہ لوگ جو بہت مال والے ہیں مگر وہ نہیں جس نے ادھر ادھر خرچ کیا، سامنے اور پیچھے سے خیرات کی، دائیں اور بائیں سے خرچ کیا اور ایسے انسان قلیل ہی ہیں۔ جو بھی (صاحب مال) اونٹوں، گائیوں اور بکریوں والا ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن وہ جانور پہلے سے زیادہ موٹے ہوکر آئیں گے اور اسے سینگ ماریں گے اور کھروں سے روندیں گے جب ان کا آخری جانور گزر جائے گا تو پہلا پھر لوٹ آئے گا (یہ عذاب ہوتا رہے گا) یہاں تک کہ لوگوں کا حساب مکمل کردیا جائے گا۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- أخرجہ مسلم في کتاب الزکاۃ، باب: إثم مانع الزکاۃ، رقم: ۲۲۹۰۔
2- أخرجہ مسلم في کتاب الزکاۃ، باب تغلیظ عقوبۃ من لا یؤدی الزکاۃ؍حدیث:۲۳۰۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
ایسے شخص کو آپ دیکھیں گے کہ دن رات اپنے گھر اور بنک میں مال کے انبار لگاتا رہتا ہے۔ حرام اور حلال کی کوئی تمیز اور فکر نہیں رہتی، اپنے مال کو بڑھانے کے لیے سودی لین دین میں کوئی تردد نہیں کرتا، موجودہ کثیر مال پر کبھی بھی قناعت نہیں کرے گا، بلکہ جب بھی مال اکٹھا کرے گا تو اس کی طمع اور حرص بڑھتی جائے گی۔ حبیب کبریا علیہ السلام نے فرمایا تھا:
(( لَوْ کَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِیَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی ثَالِثًا وَلَا یَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ وَیَتُوبُ اللَّہُ عَلَی مَنْ تَابَ۔ ))1
’’ اگر ابن آدم کی دو وادیاں مال کی ہوں تو وہ تیسری بھی تلاش کرے گا، ابن آدم کے پیٹ کو سوائے مٹی کے اور کوئی چیز نہیں بھرتی اور جو توبہ کرے اللہ اس کی توبہ قبول کرتا ہے۔‘‘
اس کی عمر جتنی زیادہ ہوتی جائے گی تو مال کی محبت بھی اتنی ہی بڑھتی جائے گی، چنانچہ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَکْبَرُ ابْنُ آدَمَ وَیَکْبَرُ مَعَہٗ اثْنَتَانِ: حُبُّ الْمَالِ، وَطُوْلُ الْعُمُرِ۔ ))2
’’ ابن آدم بڑا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ دو چیزیں بھی بڑھتی ہیں مال اور لمبی عمر کی محبت۔‘‘
مالدار انسان کا ظلم ایسے بھی ہوتا ہے کہ جب کسی سے قرضہ لیتا ہے تو اس کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرتا ہے، بڑی مشقت اور محنت کے بعد جاکر کہیں قرضہ واپس کرتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ۔ ))3
’’ کہ مالدار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔ ‘‘
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: ما یُتقی من فتنۃ المال، رقم: ۶۴۳۶۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب الرقاق، باب: من بلغ ستین سنۃ فقد أعذر اللّٰہ إلیہ في العمر، رقم: ۶۴۲۱۔
3- أخرجہ البخاري في کتاب الاستقراض، باب: مطل الغني ظلم، رقم: ۲۴۰۰۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مطل کا لغوی معنی لمبا کرنا ہوتا ہے۔ بعض لوگ اس کا معنی مدافعت کرتے ہیں۔ اس حدیث میں بغیر عذر کے اپنے ذمہ حق کی ادائیگی میں تاخیر مراد ہے۔
اپنے ملازموں اور خادموں وغیرہ کی تنخواہ اور اجرت لیٹ کرنے کی وجہ سے بھی ظلم کا مرتکب ہوجاتا ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أُعْطُوْا الْأَجِیْرَ أَجْرَہُ، قَبْلَ أَنْ یَجِفَّ عَرَقُہُ۔ ))1
’’ مزدور کو اس کی اجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ ‘‘
ملازموں سے کام پورا لیتا ہے مگر انہیں تنخواہ کی ادائیگی نہیں کرتا۔ لوگ قیامت کے دن ایسے انسان سے اللہ تعالیٰ کے ہاں جھگڑا کریں گے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( قَالَ اللَّہُ ثَـلَاثَۃٌ أَنَا خَصْمُہُمْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ ، رَجُلٌ أَعْطِیَ بِیْ ثُمَّ غَدَرَ ، وَرَجُلٌ بَاعَ حُرًّا فَأَکَلَ ثَمَنَہُ ، وَرَجُلٌ اسْتَأْجَرَ أَجِیرًا فَاسْتَوْفٰی مِنْہُ وَلَمْ یُعْطِ أَجْرَہُ۔ ))2
’’ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: قیامت کے دن تین آدمیوں سے میں جھگڑوں گا، ایک وہ آدمی جس نے میرا نام لے کر عہد کیا (مگر) پھر توڑ دیا دوسرا وہ جس نے آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی تیسرا جس نے مزدور سے کام پورا لیا مگر اسے اجرت ادا نہیں کی۔ ‘‘
اپنے آپ پر ایسے بھی ظلم کرتا ہے کہ فقراء سے تکبر کی بناء پر بات نہیں کرتا، حتیٰ کہ سلام بھی نہیں کہتا۔ اگر وہ سلام کہیں تو یہ وعلیکم السلام نہیں کہتا یا کہتا تو ہے مگر بہت ہی آہستہ صرف ایک یا دو حرف ہی سنے جاتے ہیں۔ ان کی حقارت اس طرح بھی کرتا ہے کہ باجماعت نماز میں اس لیے حاضر نہیں ہوتا تاکہ کہیں اس کے دائیں یا بائیں کوئی فقیر کھڑا نہ ہوجائے۔ اسے اتنا علم ہی نہیں:
{إِِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ أَتْقَاکُمْ ط} [الحجرات:۱۳]
’’ کہ تم میں سے سے اللہ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا تم سب سے زیادہ متقی ہے۔ ‘‘
اپنے آپ پر اور رشتہ داروں پر ظلم، قطع رحمی کرکے بھی کرتا ہے حالانکہ رب تعالیٰ نے اسے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ رشتہ داروں کو مسکین و فقیر سمجھ کر، مالی اور اجتماعی اعتبار سے ہم پلہ نہ ہونے کی وجہ سے پیچھے دھکیلتا ہے
اور تعلق داری قائم نہیں رکھتا۔ اور اگر وہ اس سے صلہ رحمی کریں یا اس کی زیارت کریں یا مال کے متعلق پوچھیں تو ان کے متعلق بدگمانی شروع کردیتا ہے کہ میرے مال میں لالچ رکھتے ہیں۔
ظالم مالدار ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی رکھتا ہے نیز یہ اپنے برے عمل کے ساتھ ایک اور بدعمل ملا دیتا ہے بلکہ شرک کے بعد اللہ تعالیٰ کو جو عمل سب سے زیادہ برا لگتا ہے اسے ملا دیتا ہے یعنی ناطہ توڑنا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1-صحیح سنن ابن ماجہ، رقم: ۱۹۸۰۔
2- أخرجہ البخاري في کتاب البیوع، باب: إثم من باع حرًا، رقم: ۲۲۲۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
(( أَبْغَضُ الْأَعْمَالِ إِلَی اللّٰہِ أَ لْاِشْرَاکُ بِاللّٰہِ، ثُمَّ قَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ۔ ))1
’’ سب سے برا عمل اللہ تعالیٰ کے ہاں شرک کرنا پھر قطع رحمی ہے۔ ‘‘
اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے رزق کو نافرمانی کے کاموں میں خرچ کرکے بھی اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ کی عطاء کردہ کثیر نعمتوں کے جواب میں اس کا شکریہ ادا کرتا، نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کی ادائیگی کرتا، فقراء پر شفقت کرتے ہوئے صدقہ و خیرات کرتا اگر یہ کام کرتا تو اللہ تعالیٰ اسے اور فضل سے نوازتے جیسا کہ فرمایا:
{لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَأَزٍیْدَنَّکُمْ o} [ابراہیم:۷]
’’ اگر تم نے شکر کیا تو میں تمہیں مزید عطا کروں گا۔ ‘‘
لیکن اس کی بجائے اپنا مال اللہ کی بغاوت اور نافرمانی میں مال صرف کرتے ہوئے آپ دیکھیں گے کہ بسا اوقات زنا، شراب نوشی اور دیگر حرام کاموں کے لیے دار الکفر کی طرف سفر کرتا ہے یہ انسان مذکورہ آیت کے نصف اول پر عمل نہیں کرتا بلکہ نصف آخر پر عمل پیرا ہے یعنی :
{وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ o} [ابراہیم:۷]
’’ اور اگر تم نے ناشکری کی تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔ ‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ آخرت میں یا دنیا اور آخرت دونوں جگہ اسے عذاب سے دو چار کرے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1- صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۱۶۶۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top