القول السدید
رکن
- شمولیت
- اگست 30، 2012
- پیغامات
- 348
- ری ایکشن اسکور
- 970
- پوائنٹ
- 91
حضرت سمیر صاحب یہ کیا ہے؟؟؟ ھممامام ابوحنیفہ کا مذہب ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف بغاوت کرنی چاہیے جیسا کہ ابواسحاق الفزاری نے امام ابوحنیفہ سے کہا کہ آپ کو اللہ کا ڈر نہیں ہے کہ میرے بھائی کو ابراہیم (ابراہیم بن عبداللہ بن الحسن ہیں )کی معیت میں بغاوت پر اکسایا ،آمادہ کیا؟امام صاحب نے کہا کہ اگر وہ بدر میں مارا جاتا تو؟اللہ کی قسم میرے نزدیک یہ بدر صغری ہے۔(شذرات الذہب:۱/۴۴،تاریخ بغداد:۱۳/۳۸۴)
جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں :امام ابوحنیفہ کا مذہب مشہور ہے کہ ظالم حکمرانوں کے خلاف قتال کرنا چاہیے ۔(احکام القرآن:۱/۸۶)
امام أبو حنیفہ کا خروج کے بارے نقطہ نظر
ظالم و فاسق مسلمان حکمران کے خلاف خروج کے بارے میں امام أبو حنیفہ کی رائے کیا تھی؟ اس بارے میں حنفیہ کا اختلاف ہے۔ امام طحاوی (٢٣٩ تا ٣٢١ھ) کی کتاب 'عقیدہ طحاویہ' سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب کا نقطہ نظر ظالم و فاسق حکمران کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ لکھتے ہیں:
'' ھذا ذکر بیان عقیدة أھل السنة والجماعة علی مذھب فقھاء الملة : أبی حنیفة النعمان بن ثابت الکوفی وأبی یوسف یعقوب بن براہیم الأنصاری وأبی عبد اللہ محمد بن الحسن الشیبانی رضوان اللہ علیھم أجمعین وما یعتقدون من أصول الدین ویدینون بہ رب العلمین۔۔۔ولا نری الخروج علی أئمتنا وولاة أمورنا وان جاروا ولا ندعوا علیھم ولا ننزع یدا من طاعتھم ونری طاعتھم من طاعة اللہ عز وجل فریضة ما لم یأمروا بمعصیة وندعوا لھم بالصلاح والمعافاة.''(العقیدة الطحاویة : ص ١'٤)
'' یہ فقہائے ملت' امام أبو حنیفہ' امام أبو یوسف اور امام محمد رحمہم اللہ أجمعین کے مذہب پر اہل سنت و الجماعت کے عقائد کا بیان ہے اور یہ أئمہ حضرات جن أصول دین کا اعتقاد رکھتے تھے اور ان کو رب العلمین کا دین قرار دیتے تھے' یہ (رسالہ) ان عقائد و اصولوں کا بیا ن ہے..اور ہم اپنے مسلمان حکمرانوں اور امراء کے خلاف خروج کو جائز نہیں سمجھتے اگرچہ وہ ظلم ہی کیوں نہ کریں۔اور ہم ایسے حکمرانوں کے خلاف بدعا بھی نہیں کرتے اور نہ ہی ان کی اطاعت سے ہاتھ کھینچتے ہیں اور ان کی اطاعت کو اللہ کی اطاعت میں شمار کرتے ہیں کہ جس کو اللہ نے فرض قرار دیا ہے جب تک کہ یہ حکمران کسی گناہ کا حکم نہ دیں اور ہم ان کی اصلاح اور معافی کی دعا کرتے ہیں۔''
اسی عقیدے کا اظہار ابن أبی العز الحنفی(٧٣١ تا ٧٩٢ھ)نے 'عقیدہ طحاویہ' کی شرح میں بھی کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
''وأما لزوم طاعتھم و ان جاروا' فلأنہ یترتب علی الخروج من طاعتھم من المفاسد أضعاف ما یحصل من جورھم' بل فی الصبر علی جورھم تکفیر السیئات ومضاعفة الأجور' فن اللہ تعالی ما سلط علینا الا لفساد أعمالنا' والجزاء من جنس العمل' فعلینا الاجتھاد بالاستغفار والتوبة وصلاح العمل۔ قال تعالی وما أصابکم من مصیبة فبما کسبت أیدیکم ویعفوا عن کثیر وقال تعالی أو لما أصابتکم مصیبة قد أصبتم مثلیھا قلتم أنی ھذا قل ھو من عندأنفسکم وقال تعالی ما أصابک من حسنة فمن اللہ وما أصابک من سیئة فمن نفسک. وقال تعالی وکذلک نولی بعض الظلمین بعضا بما کانوا یکسبون.فذا أراد الرعیة أن یتخلصوا من ظلم الأمیر الظالم.فلیترکوا الظلم.(شرح العقیدة الطحاویة : ص٣٧٣۔ ٣٧٤' الریاض)
'' اگرچہ وہ حکمران ظلم کریں' پھر بھی ان کی اطاعت لازم ہے' یہ اس وجہ سے ہے کہ ان کی اطاعت سے نکل جانے میں جو فساد و بگاڑ ہے وہ اس فساد سے کئی گناہ زیادہ ہے جو ان کے ظلم کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے۔اور اگر امت ان کے ظلم پر صبر کرے گی تو اس کے گناہ معاف ہوں گے اور اس کے درجات بلند ہوں گے کیونکہ اللہ تعالی نے اس ظالم حکمرانوں کو ہمارے اوپر ہمارے اعمال کے بگاڑ کی وجہ سے مسلط کیا ہے اور سزا' عمل کی جنس سے ہی ہے(یعنی امتیوں نے ایک دوسرے پر ظلم کیا تو اللہ نے ان پر ظالم حکمران بطور سزا مسلط کر دیے)۔ پس ہم پر لازم ہے کہ ہم توبہ و استغفار اور اصلاح عمل کی خوب کوشش کریں۔ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتے ہیں: جو بھی تم کوکوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے اور تمہارے بہت سے اعمال سے تو اللہ تعالی ایسے ہی در گزر فرمادیتے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: اور کیا جب تمہیں ایک بڑی مصیبت پہنچی (یعنی أحد میں) جبکہ تم اس سے دو گنا مصیبت (کفار کو بدر میں) پہنچا چکے تھے تو تم نے کہا: یہ مصیبت کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیں: یہ مصیبت تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے(یعنی تمہارے اعمال کا نتیجہ ہے)۔ اسی طرح اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: جو بھی تمہیں بھلائی پہنچتی ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جو بھی تمہیں برائی پہنچتی ہے تو وہ تمہاری اپنی جانوں کی طرف سے ہے۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا: اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کا حکمران بعض دوسرے ظالموں کو بنا دیتے ہیں' اس وجہ سے کہ جو وہ ظالم اعمال کرتے تھے۔پس اگر رعایا حکمران کے ظلم سے نجات چاہتی ہے تو وہ خود ظلم کرنا ترک کر دے۔''
بریلوی اور دیوبندی مدارس میں عموماً عقیدے کی جو کتاب پڑھائی جاتی ہے یا بطور نصاب مقرر ہے وہ 'شرح العقائد النسفیة' ہے۔ اس کتاب میں بھی علامہ سعدالدین تفتازانی (متوفی ٧٩٣ھ) نے ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج ہی کا عقیدہ بیان کیا ہے' جیسا کہ ہم 'شرح العقائد النسفیة' کا حوالہ اس مسئلے میں سابقہ صفحات میں نقل کر چکے ہیں۔
امام محمد(١٣٢ تا ١٨٩ھ) کی کتاب 'السیر الکبیر' سے بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کا موقف بھی ظالم و فاسق حکمرانوں کے خلاف عدم خروج کا تھا۔ وہ فرماتے ہیں:
''الا أن یأمرھم بأمر ظاھرلا یکاد یخفی علی أحد أنہ ھلکة أو أمرھم بمعصیة فحینئذ لا طاعة علیھم فی ذلک ولکن ینبغی أن یصبروا ولا یخرجوا علی أمیرھم لحدیث ابن عباس رضی اللہ عنھما أن النبیۖ قال من أتاہ من أمیرہ ما یکرھہ فلیصبر فن من خالف المسلمین قید شبرثم مات مات میتة الجاھلیة.''(السیر الکبیر مع شرحہ للسرخسی' باب مایجب من طاعة الوالی وما لایجب' جلد١' ص ١١٨' دار الکتب العلمیة' بیروت)
''سوائے اس کے کہ وہ حکمران کسی شخص کو ایسے کام کا حکم دے کہ جس کے بارے میں کسی ایک کو بھی اشتباہ نہ ہو کہ وہ ہلاکت ہے یا حکمران کسی شخص کو معصیت کا حکم دے تو اس وقت اس مسئلے میں حکمران کی اطاعت رعایا پر لازم نہیں ہے لیکن ان کے لیے یہبھی لازم ہے کہ وہ صبر کریں اور اپنے حکمران کے خلاف خروج نہ کریں جیساکہ حدیث ابن عباس میں ہے کہ آپ نے فرمایا:جو کوئی اپنے حکمران میں کوئی ناپسندیدہ امر دیکھے تو اس پر صبر کرے کیونکہ جس نے بالشت برابر بھی مسلمانوں کی اجتماعیت کی مخالفت کی اور اسی حالت میں وہ مر گیا تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔''
حنفیہ کے خاتمة المحققین علامہ ابن عابدین شامی(متوفی ١٢٥٢ھ)لکھتے ہیں:
وعند الحنفیة لیست العدالة شرطا للصحة فیصح تقلید الفاسق الامامة مع الکراھة' وذا قلد عدلا ثم جار وفسق لا ینعزل' ولکن یستحب العزل ان لم یستلزم فتنة' ویجب أن یدعی لہ' ولا یجب الخروج علیہ' کذا عن أبی حنیفة' وکلمتھم قاطبة فی توجیھہ ھو أن الصحابة صلواخلف بعض بنی أمیة وقبلوا الولایة عنھم.''(ردالمحتار علی در المختار ' کتاب الصلاة' باب الامامة)
''حنفیہ کے نزدیک عدالت' صحت ِ امامت کے لیے شرط نہیں ہے۔ پس فاسق امام کی تقلید کراہت کے ساتھ جائز ہے۔ پس اگر تو حالت عدل میں اس کو امامت دی گئی اور پھر وہ ظالم و فاسق بن گیا تو خود بخود معزول نہیں ہو گا لیکن اگر فتنے کا اندیشہ نہ ہو (یعنی اگر پر امن طریقے سے معزولی ممکن ہو) تو اس کو معزول کرنا لازم ہے۔ یہ بھی (امت پر) واجب ہے کہ ایسے امام کے لیے دعا کرے اور اس کے خلاف خروج واجب نہیں ہے۔ امام أبو حنیفہ کا موقف بھی یہی ہے۔ تمام حنفیہ نے اس مسئلے کی توجیہ یہ بیان کی ہے کہ صحابہ بنو أمیہ کے حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھ لیتے تھے اور صحابہ نے بنو أمیہ کے حکمرانوں کی ولایت قبول بھی کی تھی۔''