السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
محترم شیوخ اس روایت کی تحقیق درکار ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک شخص نے کہا: کہ ظالم کسی کا کیا بگاڑتا ہے اپنا ہی نقصان کرتا ہے تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بگاڑتا کیوں نہیں، قسم ہے اللہ تعالی کی چڑیا بھی اپنے گھونسلے میں ظالم کے ظلم کے سبب سوکھ کر مرجاتی ہے.
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ظالم کے ظلم سے دیگر مخلوق پر مصائب
جس روایت کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے وہ امام أبو بكر عبد الله بن محمد المعروف بابن أبي الدنيا (المتوفى: 281هـ) نے اپنی کتاب ( العقوبات 269) میں اور امام بیہقیؒ نے شعب الایمان (7075 )جلد 9 ص544 ،میں روایت کی ہے : ؛
https://archive.org/stream/FP62379/gse09#page/n544/mode/2up
اور یہ روایت مشکوٰۃ المصابیح ،باب الظلم میں بھی موجود ہے ،
عن أبي هريرة أنه سمع رجلا يقول: إن الظالم لا يضر إلا نفسه فقال أبو هريرة: بلى والله حتى الحبارى لتموت في وكرها هزلا لظلم الظالم. رواہ البيهقي في «شعب الإيمان»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو یہ کہتے سنا کہ ظالم صرف اپنے آپ کو ہی نقصان پہنچاتا ہے ،کسی اور کا کچھ نہیں بگاڑتا،تو سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (یہ غلط ہے کہ ظالم کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا ) بلکہ ظالم کے ظلم کے نتیجہ میں سرخاب اپنے آشیانہ میں بھوک پیاس سے سوکھ کر تڑپ تڑپ کر مرجاتے ہیں ،
شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ اس حدیث کی تعلیق میں لکھتے ہیں :
اسنادہ ضعیف ،رواه البيهقي في شعب الايمان *عمر بن جابر الحنفي مقبول أي مجهول ،وثقه ابن حبان وحده ، واسماعيل بن حكيم الخزاعي لم اجد من وثقه،
(دیکھئے مشکاۃ بتحقیق الشیخ ،جلد 3 ص152 )
یعنی اس کی اسناد ضعیف ہے ،اس کا راوی عمر بن جابر مجہول ہے ،امام ابن حبان ؒ کے علاوہ کسی محدث نے اس کی توثیق نہیں کی ،اور دوسرا راوی اسماعیل بن حکیم کی توثیق بھی مجھے نہیں مل سکی "
شعب الایمان میں اسناد کے ساتھ مکمل روایت یوں ہے :
أخبرنا أبو الحسن العلوي، أنا أبو الفضل عبدوس بن الحسين السمسار، نا أبو حاتم الرازي، نا نعيم بن حماد، نا إسماعيل بن حكيم الخزاعي، عن عمر بن جابر الحنفي، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، عن أبي هريرة، أنه سمع رجلا يقول: إن الظالم لا يضر إلا نفسه، فقال أبو هريرة: " بلى والله، حتى الحبارى لتموت في وكرها هزالا لظلم الظالم "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس روایت کا معنی مرفوع صحیح حدیث سے ثابت ہے
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث شریف ہے :
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ: «مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا المُسْتَرِيحُ وَالمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟ قَالَ: «العَبْدُ المُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ، وَالعَبْدُ الفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ العِبَادُ وَالبِلاَدُ، وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ»
ترجمہ :
ابو قتادہ بن ربعی انصاری رضی اللہ عنہ نے ، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” مستریح یامستراح “ ہے ۔ یعنی اسے آرام مل گیا ، یا اس (کے مرنے ) سے دوسروں کو آرام و سکون مل گیا ۔ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! ” المستریح او المستراح منہ “ کا کیا مطلب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پاجاتا ہے وہ مستریح ہے اورمستراح منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے ، شہر ، درخت اور چوپائے سب آرام پاجاتے ہیں۔
تشریح : بندے اس طرح آرام پاتے ہیں کہ اس کے ظلم وستم اور برائیوں سے چھوٹ جاتے ہیں خس کم جہاں پاک ہوا۔ ایماندارتکالیف دنیا سے آرام پا کر داخل جنت ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔