عبد الرشید
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 5,401
- ری ایکشن اسکور
- 9,990
- پوائنٹ
- 667
خطبہ جمعہ مسجد نبوی........30 ربیع الثانی 1433ھ
مترجم: عمران اسلم
خطیب : عبدالمحسن القاسم
خطیب : عبدالمحسن القاسم
پہلاخطبہ:
إن الحمد لله، نحمده ونستعينه ونستغفره، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيئات أعمالنا، من يهدِه الله فلا مُضِلَّ له، ومن يُضلِل فلا هادي له، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله، صلَّى الله عليه وعلى آله وأصحابه وسلَّم تسليمًا كثيرًا.
خطبہ مسنونہ کے بعد !
اللہ کے بندو! اللہ سے ڈر جاؤ یقیناً تقویٰ ہدایت کا راستہ اور اس کی مخالفت برا راستہ اختیار کرنے کانام ہے۔
اے مسلمانو!
اللہ نے انسان پر اپنا فضل و کرم کیا اور اسے اطمینان قلب عطا کیا تاکہ وہ یکسوئی کے ساتھ رب تعالیٰ کی عبادت کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں کی معیشت میں استحکام اور اخروی کامیابی صرف دین کے ساتھ وابستہ ہے۔نبی کریمﷺ دعا فرمایا کرتے:
دین کی بنیاد بندوں اور خالق کے مابین عدل کا نام ہے، کہ بندے اس کی عبادت میں تو حید کوملحوظ رکھیں۔ اسی طرح مخلوق او ربندوں کے درمیان ایک دوسرے کے خلاف سرکشی نہ کرنے میں بھی عدل کریں۔ بلا شبہ ظلم ہر بُرائی کی جڑ اور دین و دنیا کی تباہی کا باعث ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کو ظلم سے مبریٰ اور بندوں کے درمیان بھی اس کو حرام کیاہے۔ حدیث قدسی میں ہے:«اللهمَّ أصلِح لي ديني الذي هو عصمةُ أمري، وأصلِح لي دُنيايَ التي فيها معاشي، وأصلِح لي آخرتي التي فيها معادي»؛ رواه مسلم.
’’اے اللہ! میرے دین کی اصلاح کر جو میرے معاملات کی عصمت ہے اور میری دنیا کی اصلاح کر جس میں میری معیشت ہے اور میری آخرت کی اصلاح کر جس میں میرا ٹھکانہ ہے۔‘‘
ابوادریس خولانی نے جب یہ حدیث بیان کی تو گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے۔«يا عبادي! إني حرَّمتُ الظلمَ على نفسي، وجعلتُه بينكم مُحرَّمًا؛ فلا تَظَالَموا»؛ رواه مسلم.
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے آپ پر ظلم حرام قرار دیا ہے اور تم پر بھی ظلم حرام ٹھہرایا ہے۔ فلہذا ظلم نہ کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ وہ ظالم کو پسند نہیں کرتا ، اس کی دارین میں کامیابی ناممکن ہے او راس کی کبھی مدد نہیں کی جائے گی۔ فرمایا:
بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اس سے بڑا ظالم مسلط کردیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ [البقرة: 270]
’’اور ظالموں کاکوئی مدد گارنہیں۔‘‘
امام ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں کہ:وَكَذَلِكَ نُوَلِّي بَعْضَ الظَّالِمِينَ بَعْضًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ [الأنعام: 129]
’’اور اسی طرح ہم بعض ظالموں کو بعض کے قریب رکھیں گے۔‘‘
اور ایسے لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بُرے انجام کا وعدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:’’یعنی ہم ظالموں کو ظالموں پرمسلط کردیتے ہیں، ظالموں کے ذریعے ظالموں کو ہلاک اور ظالموں کے ذریعے ظالموں سے انتقام لیتے ہیں۔ ان کے ظلم اور سرکشی کی یہی سزا ہے۔‘‘
قاضی شریح کہتے ہیں :وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ [الشعراء: 227]
’’جنہوں نے ظلم کیا ہے وہ بھی ابھی جان لیں گے کہ کس کروٹ الٹتے ہیں۔‘‘
ظالم کے دنیا میں دن گنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن اللہ اس کومہلت دیتا ہے ۔’’ظالم انجام کا او رمظلوم امداد کامنتظر ہوتا ہے۔‘‘
قرآن میں ارشاد ہے کہ :
جس کا ظلم وعدوان طول پکڑ جائے اس کی تباہی کا سامان کردیا جاتاہے۔ فرمایا:فَلَا تَعْجَلْ عَلَيْهِمْ إِنَّمَا نَعُدُّ لَهُمْ عَدًّا [مريم: 84]
’’تو ان کے بارے میں جلدی نہ کر، ہم تو خو دان کے لیے مدت شماری کررہے ہیں۔‘‘
ابن قیمرقمطراز ہیں:وَكَمْ قَصَمْنَا مِنْ قَرْيَةٍ كَانَتْ ظَالِمَةً وَأَنْشَأْنَا بَعْدَهَا قَوْمًا آخَرِينَ [الأنبياء: 11]
’’یقیناً ہم نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لیے ذکر ہے، کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ظالموں او ران کے انجام کا تذکرہ کیا ہے اور دوسرے لوگوں کے لیے انہیں عبرت قرار دیا ہے۔ فرمایا:’’جب اللہ اپنے دشمنوں کی ہلاکت کا ارادہ کرتا ہے تو ان کو ایسے اسباب فراہم کرتا ہے جو ان کی بربادی کا باعث بن جاتے ہیں۔مثلاً بغاوت و سرکشی، دوسروں کو ایذاء رسانی او رلڑائی جھگڑا ان کا شیوہ بن جاتا ہے۔‘‘
فرعون رب کا انکار کرکےخود رب بن بیٹھا او رکہنے لگا:إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ [القصص: 4]
’’یقیناً فرعون نے سرکشی کررکھی تھی اور وہاں کے لوگوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا اور ان میں سے ایک فرقہ کو کمزور کررکھا تھا او ران کے لڑکوں کو تو ذبح کر ڈالا تھا او ران کی لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا۔بے شک و شبہ وہ تھا ہی مفسدوں میں سے۔‘‘
اسے اپنے قدموں تلے بہتے پانی پر بہت فخر تھا۔ وہ کہتا تھا:أَنَا رَبُّكُمُ الْأَعْلَى [النازعات: 24]
’’میں تمہارا بلند و برتر رب ہوں۔‘‘
جب اس کی مہلت ختم ہوئی تو پانی اس کے اوپر تھا اور وہ اس میں غرق ہوا پڑا تھا۔پھر اللہ نے فرمایا:أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَهَذِهِ الْأَنْهَارُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِي [الزخرف: 51]
’’کیا مصر کا ملک میرا نہیں؟ اور میرے (محلوں کے)نیچے یہ نہریں بہہ رہی ہیں۔‘‘
مزید فرمایا:فَالْيَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً [يونس: 92]
’’سو آج ہم صرف تیری لاش کو نجات دیں گے تاکہ تو ان کےلیے نشان عبرت ہو۔‘‘
حضرت شعیب نے بھی اپنی قوم کو سلامتی کی طرف بلایا او رانہیں لوگوں پرظلم کرنے سے منع کیا او رکہا:فَأَخَذَهُ اللَّهُ نَكَالَ الْآخِرَةِ وَالْأُولَى (25) إِنَّ فِي ذَلِكَ لَعِبْرَةً لِمَنْ يَخْشَى [النازعات: 25، 26]
’’تو (اس سے بلند و بالا) اللہ نے بھی اسےآخرت کے اور دنیا کے عذاب میں گرفتار کرلیا ۔بے شک اس میں اس کے لیےعبرت ہے جو ڈر ے۔‘‘
قوم نے آگے سے مذاق اُڑایا او رکہا:أَوْفُوا الْمِكْيَالَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ وَلَا تَبْخَسُوا النَّاسَ أَشْيَاءَهُمْ وَلَا تَعْثَوْا فِي الْأَرْضِ مُفْسِدِينَ [هود: 85]
’’اے میری قوم! ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کرو لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دو اور زمین میں فساد او رخرابی نہ مچاؤ۔‘‘
پھر اللہ نے ان پر آگ کوبھیجا جس نے ان کو اور ان کےظلم سےحاصل کیے ہوئے مال کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔أَصَلَاتُكَ تَأْمُرُكَ أَنْ نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَنْ نَفْعَلَ فِي أَمْوَالِنَا مَا نَشَاءُ إِنَّكَ لَأَنْتَ الْحَلِيمُ الرَّشِيدُ [هود: 87]
’’انہوں نے جواب دیا کہ اے شعیب ! کیا تیری صلاۃ تجھے یہی حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں اور ہم اپنےمالوں میں جوکچھ چاہیں اس کا کرنا بھی چھوڑ دیں تو تو بڑا ہی باوقار اور نیک چلن آدمی ہے۔‘‘
اور قوم ثمود کا انجام بھی سامنے رکھیے۔ جن کا گناہ یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ شرک کرتے اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی اونٹنی کی کونچیں کاٹ دیں پھر اللہ نے ان کو ہوا کے ذریعے تباہ و برباد کردیا۔
امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ مؤمنوں پر نازل ہونے والے مصائب و مشکلات سے بخوبی واقف ہوتا ہے اور وہ اپنےبندوں کی مدد پر قدرت بھی رکھتا ہے لیکن اس کی حکمت کاتقاضا ہوتا ہے کہ وہ اپنے بندوں کوآزمائے۔’’جو شخص اللہ کے محارم کا انکار کردے، اس کے اوامر و نواہی کو اہمیت نہ دے، لوگوں کو زخمی کرے اور ان کا خوف بہائے اسے شدید عذاب کا سامنا کرنا پڑےگا۔‘‘
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا، اس کی دارین میں کامیابی ممکن ہے اور نہ ہی کبھی ا س کی مدد کی جائے گی۔ذَلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ [محمد: 4]
’’یہی حکم ہے اور اگر اللہ چاہتا تو خود ہی ان سے بدلہ لے لیتا لیکن (اس کا منشا یہ ہے) کہ تم میں سے ایک کا امتحان دوسرے کے ذریعے سےلے لے۔‘‘
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا دفاع کرنے میں، بہت قوی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں:إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا [الحج: 38]
’’سن رکھو سچے مومنوں کے دشمنوں کو خود اللہ تعالیٰ ہٹا دیتا ہے۔‘‘
مسلمان کو چاہیے کہ وہ اللہ پر حسن ظن رکھتے ہوئے ظلم و عدوان کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرے او راس کے اسماء و صفات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ عقیدہ رکھے کہ وہ قوت ، قدرت ، عظمت اور عزت کا حامل ہے۔’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کا دفاع کرتے ہیں جواس پر توکل کرتے، شریروں کی شرارتوں اور فجار کی تنگیوں پراس کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پھر اللہ ان کی حفاظت بھی کرتا ہے اور ان کی مدد بھی۔‘‘
مسلمان کو چاہیےکہ وہ یقین محکم رکھے کہ اللہ پر توکل مدد و نصرت کی بنیاد ہے۔
کلمہ حق پراکٹھے ہوجانا او رباہمی نزاع کو ترک کردینا دشمنوں پر برتری کی علامت ہے:إِنْ يَنْصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ وَإِنْ يَخْذُلْكُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِي يَنْصُرُكُمْ مِنْ بَعْدِهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ [آل عمران: 160]
’’اگر اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے تو تم پرکوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہےجو تمہاری مدد کرے؟ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔‘‘
فرمان باری تعالیٰ ہے:
صبر و تحمل کشادگی کی کنجی ہے او رمصائب و مشکلات کے وقت اس کی بہت زیادہ تاکید ہے۔ علاوہ بریں دعا دشمنوں کے مقابلے میں ایک زبردست ہتھیار ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا:وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ [الأنفال: 46]
’’آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ بزدل ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوااکھڑا جائے گی۔‘‘
«واتَّقِ دعوةَ المظلوم فإنه ليس بينها وبين الله حِجابٌ»؛ متفق عليه.
’’مظلوم کی بددعا سے بچو! بلاشبہ اس کے اور اللہ کے درمیان پردہ نہیں ہوتا۔‘‘
مسلمان اللہ کی مدد پرکامل ایمان رکھتا ہے اس پر ظالموں کی طرف مائل ہونا حرام ہے۔’’فأل‘‘ ہمارے نبی کریمﷺ کا عطا کردہ تحفہ ہے۔ آپﷺ کو زندگی میں بےشمار مشکلات کا سامنا ہوا۔ آپﷺ کے ساتھ جنگیں کی گئیں، آپﷺ محصور کیے گئے، زخمی ہوئے۔ اپنے شہر سے نکالے گئے، زہرملا ہوا کھانا اور جادو کیا گیا لیکن پھر بھی آپﷺ فرمایا کرتے : ’’مجھے فأل پسند ہے‘‘ آپﷺسے پوچھا گیا’’فأل‘‘ کیا چیز ہے؟ آپ ﷺنے کہا: ’’اچھی بات۔‘‘
کمزور پر جس قدر بھی سختیاں آجائیں اللہ اس کی مدد کرتا ہے:وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ [هود: 113]
’’دیکھو ظالموں کی طرف ہرگز نہ جھکنا ورنہ تمہیں بھی (دوزخ کی ) آگ لگ جائے گی۔‘‘
مؤمنین کے لیے مدد ان کے ایمان اور تقویٰ کے ساتھ خاص ہے۔ اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے چاہے ان کی تعداد تھوڑی ہو اور وہ سازوسامان سےبھی عاری ہوں۔وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ [يوسف: 21]
’’اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔‘‘
بلکہ اللہ تعالیٰ تو لڑے بغیر بھی مؤمنین کی مدد فرما دیتا ہے ، جیسا کہ غزوہ احزاب کے موقع پر ہوا۔كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّهِ [البقرة: 249].
’’بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی او ربہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پالیتی ہیں۔‘‘
اسی طرح دشمنوں کے دلوں میں رعب کے ذریعے بھی مدد الٰہی اترتی ہے، جیسا کہ بنو نضیر کے یہود کے ساتھ ہوا:وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا [الأحزاب: 25]
’’او راللہ نےکافروں کو غصے میں بھرے ہوئے ہی لوٹا دیا انہوں نے کوئی فائدہ نہیں پایا او راس جنگ میں اللہ تعالیٰ خود ہی مومنوں کو کافی ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ بڑی قوتوں والا او رغالب ہے۔‘‘
اسی طرح اللہ تعالیٰ نےدشمنوں کی ہلاکت کے لیے اپنے لشکروں کوبھیجا۔ ابرہہ ایک بڑے لشکر سمیت کعبہ کے انہدام کے لیے آیا۔ہاتھیوں جیسے بڑے جانور اس کے لشکر کا حصہ تھے۔لیکن اللہ نے چڑیوں کے ذریعے ان پر اپنے عذاب کا کوڑا برسایا او ران کی چال کوبیکار کردیا۔مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ [الحشر: 2].
’’تمہارا گمان بھی نہیں تھاکہ وہ نکلیں گے او روہ خود (بھی) سمجھ رہے تھے کہ ان کے (سنگین)قلعے انہیں اللہ (کے عذاب) سے بچا لیں گے پس ان پر اللہ ایسی جگہ سے آن پڑا جہاں سے ان کا گمان بھی نہ تھا اور ان کے دلوں میں اللہ نے رعب ڈال دیا۔‘‘
او رجب مسلمانوں کو قتل اور زخموں کا سامنا کرنا پڑے، جیسا کہ اُحد میں ہوا، تو اس صورت میں ان کے لیے خوبصورت عاقبت ہے۔
اے مسلمانان گرامی !
اگر مسلمان ستائے گئے تو وہو ضرور مدد کیے جائیں گے، اگر وہ قتل کیے گئے تو وہی غالب ہوں گے اور جس کا بھی اللہ کے ساتھ تعلق ہوتا ہے اس کو مشکل ضرور پہنچتی ہے پھر جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے اللہ اس کی مدد کرتا ہے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: وَنُرِيدُ أَنْ نَمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِثِينَ (5) وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَنُرِيَ فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا يَحْذَرُونَ [القصص: 5، 6].
بارك الله لي ولكم في القرآن العظيم، ونفعني الله وإياكم بما فيه من الآياتِ والذكرِ الحكيم، أقول ما تسمعون، وأستغفر الله لي ولكم ولجميع المسلمين من كل ذنبٍ، فاستغفروه، إنه هو الغفور الرحيم.
دوسرا خطبہ
مسلمانان گرامی!
تاریخ بہت سے حوادث ، واقعات اور عبرتوں سےبھری پڑی ہے۔ ظلم اور ظالموں کے انجام سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل خرد کے لیے یہ بہت بڑی عبرت ہیں۔ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں ان کو چاہیے کہ وہ ظالموں او رمجرموں کے انجام بد سے خبردار رہیں۔ اللہ نےفرمایا:
ظالم کا ظلم جس حد تک بھی چلا جائے اس کا انجام کار ضرور ہوتا ہے۔ یقیناً مدد صبر کے ساتھ ہے، ہر کرب کے ساتھ کشادگی او رہرمشکل کے ساتھ آسانی ہے:فَكُلًّا أَخَذْنَا بِذَنْبِهِ فَمِنْهُمْ مَنْ أَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَمِنْهُمْ مَنْ خَسَفْنَا بِهِ الْأَرْضَ وَمِنْهُمْ مَنْ أَغْرَقْنَا وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيَظْلِمَهُمْ وَلَكِنْ كَانُوا أَنْفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ [العنكبوت: 40].
’’پھر تو ہر ایک کو ہم نے اس کے گناہ کے وبال میں گرفتار کرلیا، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کا مینہ برسایا او ران میں سے بعض کو زور دار سخت آواز نے دبوچ لیا او ران میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا، او ران میں سے بعض کو ہم نےڈبو دیا، اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پرظلم کرے بلکہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔‘‘
نبی کریمﷺپر درود شریف پڑھتے رہا کرو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا:فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا (5) إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا [الشرح: 5، 6]
’’پس یقیناً مشکل کے ساتھ آسانی ہے بے شک مشکل کے ساتھ آسانی ہے۔‘‘
إِنَّ اللهَ وَمَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الذِيْنَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيْمًا [الأحزاب: 56].
اللهم صلِّ وسلِّم وبارِك على نبيِّنا محمدٍ، وارضَ اللهم عن خلفائه الراشدين الذين قضَوا بالحق وبه كانوا يعدِلون: أبي بكرٍ، وعمر، وعُثمان، وعليٍّ، وعن سائر الصحابةِ، وعنَّا معهم بكرمِك يا أكرم الأكرمين.
اللهم أعِزَّ الإسلام والمسلمين، وأذِلَّ الشرك والمشركين، ودمِّر أعداء الدين، واجعل اللهم هذا البلد آمِنًا مُطمئنًّا رخاءً وسائر بلاد المسلمين.
اللهم انصُر المُستضعفين من المُؤمنين في الشام، اللهم كن لهم وليًّا ونصيرًا، ومُعينًا وظهيرًا، اللهم احقِن دماءَهم، واشفِ مرضاهم، وفُكَّ أسراهم، واستُر عوراتهم، وآمِن روعاتهم.
اللهم كن على من آذاهم، اللهم زلزِل الأرضَ من تحت أقدامهم، واجعلهم عِبرةً للمُعتبرين، وعِظةً للمُتَّعِظين.
اللهم أصلِح أحوال المسلمين في كل مكان، اللهم رُدَّهم إليك ردًّا جميلاً.
اللهم آتِنا في الدنيا حسنةً، وفي الآخرة حسنةً، وقِنا عذابَ النار.
اللهم وفِّق إمامنا لهُداك، واجعل عمله في رِضاك، ووفِّق جميع ولاة أمور المسلمين للعملِ بكتابك، وتحكيم شرعك يا ذا الجلال والإكرام.
عباد الله:
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ [النحل: 90].
فاذكروا الله العظيم الجليل يذكركم، واشكروه على آلائه ونعمه يزِدكم، ولذكر الله أكبر، والله يعلم ما تصنعون.
اس خطبہ کو سننے کے لیے یہاں کلک کریں