• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظلم کے خلاف خاموشی جرم ہے!( zafar iqbal zafar)

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
ظلم کے خلاف خاموشی جرم ہے!( zafar iqbal zafar)
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم:
آیت:اذن للذین یقاتلون بانّھم ظلموا وان اللہ علی نصرھم لقدیر (حج:39)
حدیث: عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( من رأى منكم منكرا فليغيره بيده ، فإن لم يستطع فبلسانه ، فإن لم يستطع فبقلبه ، وذلك أضعف الإيمان ) رواه مسلم .
وضاحت:ترتبط خيرية هذه الأمة ارتباطا وثيقا بدعوتها للحق ، وحمايتها للدين ، ومحاربتها للباطل ؛ ذلك أن قيامها بهذا الواجب يحقق لها التمكين في الأرض ، ورفع راية التوحيد ، وتحكيم شرع الله ودينه ، وهذا هو ما يميزها عن غيرها من الأمم ، ويجعل لها من المكانة ما ليس لغيرها ، ولذلك امتدحها الله تعالى في كتابه العزيز حين قال : { كنتم خير أمة أخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنهون عن المنكر وتؤمنون بالله} ( آل عمران : 110)
وعلاوة على ذلك فإن في أداء هذا الواجب الرباني حماية لسفينة المجتمع من الغرق ، وحماية لصرحه من التصدع ، وحماية لهويته من الانحلال ، وإبقاء لسموه ورفعته ، وسببا للنصر على الأعداء والتمكين في الأرض ، والنجاة من عذاب الله وعقابه .
ولخطورة هذه القضية وأهميتها ؛ ينبغي علينا أن نعرف طبيعة الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر ، ونعرف شروطه ومسائله المتعلقة به ؛ ومن هنا جاء هذا الحديث ليسهم في تكوين التصور الواضح تجاه هذه القضية ، ويبين لنا كيفية التعامل مع المنكر حين رؤيته .
لقد بين الحديث أن إنكار المنكر على مراتب ثلاث : التغيير باليد ، والتغيير باللسان ، والتغيير بالقلب ، وهذه المراتب متعلقة بطبيعة هذا المنكر ونوعه ، وطبيعة القائم بالإنكار وشخصه ، فمن المنكرات ما يمكن تغييره مباشرة باليد ، ومن المنكرات ما يعجز المرء عن تغييره بيده دون لسانه ، وثالثة لا يُمكن تغييرها إلا بالقلب فحسب .
فيجب إنكار المنكر باليد على كل من تمكّن من ذلك ، ولم يُؤدّ إنكاره إلى مفسدةٍ أكبر، وعليه : يجب على الوالي أن يغير المنكر إذا صدر من الرعيّة ، ويجب مثل ذلك على الأب في أهل بيته، والمعلم في مدرسته ، والموظف في عمله ، وإذا قصّر أحدٌ في واجبه هذا فإنه مضيّع للأمانة ، ومن ضيّع الأمانة فقد أثم ، ولذلك جاءت نصوص كثيرة تنبّه المؤمنين على وجوب قيامهم بمسؤوليتهم الكاملة تجاه رعيتهم - والتي يدخل فيها إنكار المنكر - ، فقد روى الإمامالبخاري ومسلم عن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، أنه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : ( كلكم راع ومسؤول عن رعيته ، فالإمام راع وهو مسؤول عن رعيته ، والرجل في أهله راع وهو مسؤول عن رعيته ، والمرأة في بيت زوجها راعية وهي مسؤولة عن رعيتها ، والخادم في مال سيده راع وهو مسؤول عن رعيته ، فكلكم راع وكلكم مسؤول عن رعيّته ) ، بل إن النبي صلى الله عليه وسلم قد بيّن عاقبة الذين يفرطون في هذه الأمانة فقال : ( ما من عبد يسترعيه الله رعية فلم يحطها بنصحه إلا لم يجد رائحة الجنة ) فإذا عجز عن التغيير باليد ، فإنه ينتقل إلى الإنكار باللسان ، كما قال النبي صلى الله عليه وسلم : ( فإن لم يستطع فبلسانه ) ، فيذكّر العاصي بالله ، ويخوّفه من عقابه ، على الوجه الذي يراه مناسبا لطبيعة هذه المعصية وطبيعة صاحبها .
فقد يكون التلميح كافيا - أحيانا - في هذا الباب ، كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يقول: ( ما بال أقوام يفعلون كذا وكذا ؟ ) ، وقد يقتضي المقام التصريح والتعنيف ، ولهذا جاءت في السنة أحداث ومواقف كان الإنكار فيها علناً ، كإنكار النبي صلى الله عليه وسلم على أسامة بن زيد - رضي الله عنه - شفاعته في حد من حدود الله ، وإنكاره على من لبس خاتم الذهب من الرجال ، وغير ذلك مما تقتضي المصلحة إظهاره أمام الملأ.
وإن عجز القائم بالإنكار عن إبداء نكيره فعلا وقولا ، فلا أقل من إنكار المنكر بالقلب ، وهذه هي المرتبة الثالثة ، وهي واجبة على كل أحد ، ولا يُعذر شخص بتركها ؛ لأنها مسألة قلبيّة لا يُتصوّر الإكراه على تركها ، أو العجز عن فعلها ، يقول علي بن أبي طالب رضي الله عنه : " إن أول ما تغلبون عليه من الجهاد : جهادٌ بأيديكم ، ثم الجهاد بألسنتكم ، ثم الجهاد بقلوبكم ، فمتى لم يعرف قلبه المعروف وينكر قلبه المنكر انتكس " .
وإذا ضيعت الأمة هذا الواجب بالكلية ، وأهملت العمل به ، عمت المنكرات في المجتمعات ، وشاع الفساد فيها ، وعندها تكون الأمة مهددة بنزول العقوبة الإلهية عليها ، واستحقاق الغضب والمقت من الله تعالى .والمتأمل في أحوال الأمم الغابرة ، يجد أن بقاءها كان مرهونا بأداء هذه الأمانة ، وقد جاء في القرآن الكريم ذكر شيء من أخبار تلك الأمم ، ومن أبرزها أمة بني إسرائيل التي قال الله فيها : { لعن الذين كفروا من بني إسرائيل على لسان داود وعيسى ابن مريم ذلك بما عصوا وكانوا يعتدون ، كانوا لا يتناهون عن منكر فعلوه لبئس ما كانوا يفعلون } ( المائدة : 78 - 79 ) .
وتكمن خطورة التفريط في هذا الواجب ، أن يألف الناس المنكر ، ويزول في قلوبهم بغضه ، ثم ينتشر ويسري فيهم ، وتغرق سفينة المجتمع ، وينهدم صرحها ، وفي ذلك يضرب لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم مثلا رائعا يوضح هذه الحقيقة ، فعن النعمان بن بشير رضي الله عنهما أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( مثل القائم على حدود الله والواقع فيها ، كمثل قوم استهموا على سفينة ، فأصاب بعضهم أعلاها وبعضهم أسفلها ، فكان الذين في أسفلها إذا استقوا من الماء مرّوا على من فوقهم ، فقالوا : لو أنا خرقنا في نصيبنا خرقا ولم نؤذ من فوقنا ، فإن يتركوهم وما أرادوا هلكوا جميعا ، وإن أخذوا على أيديهم نجوا ونجوا جميعا ) رواه البخاري .
قارئین کرام !جب تک ظلم کی غرض و غایت کا علم نہ ہو اس وقت تک اس کے بارے میں گفتگو بے فائدہ و بے معنی ہوا کرتی ہے اور اس وقت تک بات کو سمجھنا خاصہ مشکل ہوا کرتا ہے ۔ظلم کس چیز کا نام ہے اور اس کی کئی ایک جہتیں ہیں مگر اس کی غرض و غایت اور تعریف تما م جہات کو اپنی گرفت میں لیلتی ہے کیونکہ ظلم کا مطلب ہے (وضع الشیء فی غیر محل )دوسرے الفاظ میں عدل کی ضد ہے اور عدل کا معنی ہے برابر کرنا کیونکہ عدل ‘افراط و تفریط کے درمیان ایک نقطہ مساوات ہے جو اطراف کو برابر رکھتا ہوا حق پر آکر رک جاتا ہے ‘اور عدل کی اہمیت کی طرف قرآن ان الفاظ میں اشارہ کرتا ہے ۔
آیت:یایّھا الذین اٰمنوا کونوا قوّامین بالقسط شھداء للہ ولوعلی ٰ انفسکم اوالوالدین والاقربین...الخ (النساء :135)
قارئین کرام جس طرح عدل کی کئی ایک جہات ہیں اس طرح ظلم کی بھی کئی ایک جہات ہیں جن میں سے ’’ظلم الناس‘‘ظلم ذوالقربیٰ‘ظلم النفس ‘ظلم الزوجہ ‘ظلم الحیوان ہے وغیرہ مگر میں صرف ظلم الناس کے متعلق کچھ وضاحت کرنا چاہتا ہو‘ کیونکہ باقی تمام اقسام اس کی ذیلی شکلیں ہیں ‘اور میرے اس موضوع کو زیرے بحث لانے کا مقصد بھی حالات کی نزاکت اوراس موضوع کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرنا ہے کیونکہ آج انسانیت کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اور ہوتا رہا ہے اور اگر یہی حالت رہی تو جو ہوتا رہے گا اس مرض لا علاج کی دواء کیا ہے ؟آخر کب تک انسانیت کے ساتھ یہ خونی کھیل کھیلا جائے گا ؟کیا کوئی فکرو نظر رکھنے والا اور انسانیت کے دکھ درد کو محسوس کرنے والا غیرت مند طبیب اس مرض لا علاج کی تشخیص کرنے والا ہے ؟جو امت کے جلتے جسمو ں اور بڑھتے زخموں پہ مرحم رکھ سکے ۔کوئی ہے جو اس امت کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو ساحل پہ لے جائے ؟کوئی ہے جو انسانیت پر ترس کھانے والا ہو؟کوئی ہے جو امت کی معصوم بیٹیوں پر ترس کھانے والا ہو ؟ کوئی ہے جو امت کی بیٹیوں کی آبرو ریزی اور عصمت دری کے تحفظ کے لیے اٹھ کھڑا ہو ؟ کوئی ہے جو ماؤں ‘بیٹیوں ‘بہنوں ‘بیویوں کی آبرو کی چوکیداری کرنے والا ہو جو ماؤں کے سروں سے آنچل کو نہ چھننے دے ‘جو بیواؤں سے ہمدردی کرنے والا ہو ‘جو یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھنے والا ہو ؟ارے کوئی ہے جو محمد بن قاسم بن کر فلسطینی اور کشمیر ی بہن اور بیٹی پر اٹھنے والے ہاتھ ‘برمی ماؤں کی طرف اٹھنے والے قدم‘شام و مصر کے مظلوم مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے والی زبان کاٹنےاور سعودی سلامتی کی طرف اٹھنے والی ناپاک نگاہو ں میں گرم سلاخیں اور افغانستان وپاکستان اور تمام عالم سلام کے خلاف ناپاک عزائم کی قبل از تکمیل خاک میں میلانے کی قوت ایمانی رکھنے والا ہو ؟
قارئین کرام!ظلم و بر بریت کی جو تاریخ رقم ہوئی اس سے کون واقف نہیں؟یہ سب کچھ کیوں ہوا ‘کس نے کب کیا؟اس کی کس کو خبر نہیں ؟مگر ہم مسلمان ابھی خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں ‘کوئی نہیں جو دل میں درد محسوس کرتا ہو‘آنکھیں کیو ں حقائق کو چھپا لیتی ہیں ؟کون ہے جو صلاح الدین ایوبی اور نور الدین زنگی کی سیرت و کردار کو دہرانے والا ہو ‘جو ابو بکر کی غیرت بن کر عمر کی شجاعت بن کر ‘عثمان کا حیا بن کر ‘علی کا عدل بن کر انسانیت کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئےمیدان میں اترے اور ظالم کے ہاتھ کو زنجیریں ‘پاؤں کو بیڑیا ں‘زبان کو لگام دے سکے ؟ارے کب تک مسلمان مسلمان پر ظلم کرتا رہے گا ؟کب تک مسلمان مسلمان کی جان ومال سے کھیلتا رہے گا؟کب تک مسلمانوں کو مسلمان سے خوف رہے گا ؟کب تک بقول شاعر:
مفلس شہر کو دھن مان سے ڈر لگتا ہے .........پر نہ دھن مان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے
اب کہا ں اخوت وہ مدینے والی .................اب تو مسلمان کو ڈر مسلمان سے ڈر لگتا ہے
ارباب علم و فضل !ظلم کی تاریک راتوں کو جب میں( میانمار)کے مسلمانوں پر کالی گٹائیں کیے دیکھتا ہو ں تو میں خود کو آزاد خیا ل کرنے لگتا ہوں مگر جب میں پشاور اسکول کے معصوم بچوں پر ٹوٹنے والی قیامت صغریٰ کو دیکھتا ہو ں تو مجھے محسوس ہوتا ہے ‘کہ ظلم کی راتیں کتنی تاریک ہوتی ہیں ۔ارے جب میں قبائلی علاقوں پہ ہونے والے ڈرون حملوں میں بےگناہ مسلمانوں کا بہتا خون دیکھتا ہوں تو مجھ سوچنے لگتا ہو ں کے ظلم کس چیز کا نام ہے ‘جب میں فلسطین کے معصوم بچوں پر اسرائیلی مظالم دیکھتا ہوں تو میں خود کو محفوظ خیال کرتا ہو ںمگر جب میں لال مسجد پہ اپنی ہی مسلمان افواج کے ہاتھوں معصوم بچیوں پہ چلتی ’گولیاں اور سوات اپریشن میں آپنی فوج کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام دیکھتا ہو ں تو میں سوچنے پہ مجبور ہو تا ہوں کہ’’ ظالم کا کوئی نام ہونا چاہیے‘‘ ؟
بقول شاعر :میں کس کے ہاتھ پہ اپنا لہو تلاش کرو ........تمام شہر نے پہن رکھتے ہیں دستانے
جب میں برما کے بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیواں دیکھتا ہوں تو میں خود کو محفوظ خیال کرنے لگتا ہوں مگر جب میں دیوانہ وار عقابی نظریں کشمیر کی ان بہنوں اور ماؤں کی طرف دوڑاتا ہوں تو میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ان کی لٹتی ہوئیں آبروئیں اور کٹتی ہوئیں چھاتیاں دیکھتا ہوں تو بے ساختہ کہنے پہ مجبور ہو تا ہوں کہ ‘
تلواریں بیچ کر مصلے خرید لیے ہم نے ........عزتیں لٹتی رہیں ہم دعا کرتے رہے
جب میں بے حس مسلمان حکمرانوں اور الیکٹرونک و پرینٹ میڈیا پہ بیٹھ کر تبصرے اور تجزیے کرنے والے صحافیوں کی مکاری اور اغیار کی نوازشات کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے والے دانشمندوں کی زبانوں سے سعودی عرب میں پاکستانی فوجی امداد کے خلاف زہر اگلتے ہوئے سنتا ہوں تو یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ پاکستان کا سعودی عرب میں فوجی امداد بھیجنا خطرے کو مول لینے کے مترادف ہے کیونکہ پاکستان خود حالت جنگ میں ہے ‘‘جیسے الفاظ سنتا ہوں تو بےساختہ میری زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں کہ‘
اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبہے کانٹا جو کابل میں .......تو ہندوستان کا ہر پیرو جواں بے تاب ہو جائے
جب میں سوڈان ‘عراق ‘مصر اور شام اور افغانستان کے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے لیے تاریخ کی ورق گرادانی کرتا ہوں‘ تو مجھے بے گناہ مسلمانوں کے لہو سے بہتے دریا ؤں اور سمندروں کے پانیوں کو میں ‘خون مسلم کی شکل میں بہتے دیکھتا ہوں مگر میں خو د کوآزاد اور پرامن خیال کرنے لگتا ہو ں ‘مگر جب میں اخبار ات کی ورق گردانی کرتا ہوں تو میں کراچی کے بلدیہ ٹاؤن میں 250 سے زائد بے گناہ مزدوروں کی خون آلود لاشوں کو دیکھتا ہوں تو آنکھیں نم اور دل خون کے آنسوں رونے لگتا ہے ہے ‘ یک لخط کہہ اٹھتا ہوں ۔
کسی دشمن نے یہ عزت مجھےآج تک نہیں بخشی .............ہمیشہ دوست ہی ہاتھ پہنچا ہے گریبان تک
ارے قلم و قرطاس سے وابسطہ ارباب علم و فضل !جب میں 14اگست اور 23 مارچ کے دن فوجی پریڈاور توپوں کی سلامی دیکھتا ہو تو میں خوشی سے سرشار اور میرا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے کہ اس دن ہماری آزادی کا فیصلہ ہوا اور ہم نےغلامی کے طوق کو ہمیشہ کے لیے اتار کر خود مختاری کے لیے جان و مال غرض کسی قسم کی قربانی سےگریز نہ کیا ۔ ماؤں نے اپنےلخت جگر پیش کر کے آزادی کو حاصل کیا ‘ہمیں ہما ری آزادی اور قربانیوں کا صلہ مل گیا ۔مگر میں اپنوں کی طرف سے قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اغیار کے ہاتھوں فروخت ہوتے دیکھتا ہوں‘ توسوچنے لگتا ہوں‘ کہ کیا ہم آزاد ہیں؟ مگر زبان سے یک لخط یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ۔
شعر:بے وقار آزادی ہم غریب لوگوں کی ......سر پہ تاج رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں
ارباب دانش:جب میں چیچنیا پرروس ‘فلسطین پر اسرائیل ‘کشمیر پر بھارت ‘افغانستان پر اتحادی افواج (نیٹو)کے ہاتھوں مسلمانوں پہ ظلم کی شب تاریک دیکھتا ہوں‘ تو میں تاریخ سے اس کے اسباب و محرکات کو تلاش کرنے لگتا ہوں‘ کہ آخر کیا وجہ ہےکہ ’’برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمان پہ‘‘تو تاریخ مجھے ماضی کی ایک جھلک دکھلاتی ہے ‘کہ امریکہ کے ہاتھوں (میانمار ) کے 200کشتی میں سوار مسلمانوں کو غرق کر دیا جاتا ہے اور جب میں تاریخ کے اور اق کو پلٹتے ہوئے اپنو ں کی بے حسی اور بے شرمی کی داستان المناک کی ورق گردانی کرتا ہوں تو مجھے انہی دنوں امریکہ کے صدر کی دعوت پہ گئے( میانمار)کے صدر کو امریکی صدر کے ہاتھ کو بو سہ دیتے ہوئے دیکھتا ہوں ‘جب میں جموں کشمیر کے ہوٹل میں مقیم (کشمیر ٹائمز کے ہندو اڈیٹر (مسٹر جے کے ریڈی )سے پوچھتا ہوں‘ کہ وہا ں مسلمانو ں کے ساتھ کیا ہوا ؟تو اس نے کہا میں جمو ں کے 24 گاؤں کو ایک ہی رات میں جلتے ہوئے دیکھتا ہوں ۔جب میں ’’سٹیٹس مین‘‘ کے اڈیٹر (آئن سٹیفن )کی کتاب ’’herned moon‘‘ کی ورق گردانی کرتا ہو ں ‘تو میں 1947 ءکو جموںمیں 5لاکھ مسلمانوں کے قتل سے بہنے والے ندی نالوں کی طغیانی کو کناروں سے اچھلتے دیکھتا ہوں ۔ارے جب میں(سید رکن عالم)سے لنگر پورہ کے مسلمانوں پہ ڈوگرہ فوج کے ہاتھوں ہونے والے مظالم کی داستان سنانے کو کہتا ہوں‘ تو وہ درد بری آواز میں کہتے ہیں ‘میں بچوں کو قتل ‘عورتوں کو برہنہ ‘مردو کے عضوء کٹتے دیکھتا ہوں ‘میں جب ہندووں اور سکھو ں کی قید میں 18 مسلمان لڑکیوں میں سے رحمت بی بی سے ان کی آپ بیتی کے بارے پوچھتا ہوں تو وہ ’’گھان فوجی جرنیل ‘‘کے ہاتھوں اپنی(آبروریزی )کی داستان المناک سناتی ہے‘ تو زبان لرز‘ آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں ‘میں کہنے لگتا ہوں ‘کیا تو نے کسی کو نہیں بتایا ؟تو کہتی ہے جب میں نے اپنی دردبری کہانی اپنے مسلمان وزیر اعظم (شیخ عبد اللہ)کو سنائی تو اس نے کہا ‘جا میری آ نکھوں سے دور ہو جا تیرے جیسی کتیاں بہت آوارہ پھرتی ہیں ۔جب میں 2جنوری 1492ءکی تاریخی حثیت جاننے کے لیے تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرتا ہوں ‘تو مجھے اندلس کے مسلمانوں کی شکست اور ان پر ہونے والے مظالم کی داستان المناک کو پاتا ہوں اور 1611ءمیں صلح کےنام پر 19 شرائط کو ختم ہوتے اور ملکہ ازابیلا اور فرڈٹینڈکے ہاتھوں اندلس میں مسلمانوں کی لاشوں پہ فخر سے چلتے اندلسی کمانڈروں کو دیکھتا ہو ں ‘ بچ جانے والے مسلمانوں کو ہجرت پہ مجور دیکھتا ہوں ‘اور دوسری طرف اندلس کے مسلمان حکمران (ابو عبد اللہ )کو قصر الحمراء کی چابیاں ‘ملکہ ازابیلا اور فرڈٹینڈ کے ہاتھوں میں تھماتے اور ان کو بو سہ دیتے ہوئے دیکھتا ہو ں‘ تو میں سوچنے لگتا ہو ں کہ دشمن کون ہے ؟اور یک لخط زبان سے یہ الفاظ نکل جاتے ہیں ۔
شعر:عشق قاتل سے مقتول سے ہمدردی بھی ........یہ بتا کس سے محبت کی جزا ء مانگے گا ؟
سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی........حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
دنیا کے جس خطے میں بھی مسلمانوں پہ ظلم ہوتے دیکھتا ہوں‘ تو مسلمان دانش مندوں کو بے شرمی سے یہ کہتے ہوئے سنتا ہوں ‘کہ ہمیں ان کے سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے ‘جیسا کہ ماضی قریب ہی میں یمنی باغیوں کی سر کوبی کے لیے سعودی عرب میں پاکستانی فوجی امداد بھیجتے پاکستانی وزیر اعظم کو دیکھتا ہو ں تو خوشی سے جھوم اٹھتا ہوں اور یہ کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہو ں کہ‘
شعر :اخوت اس کو کہتے ہیں کہ چبہے کانٹا جو کابل میں ......تو ہندوستان کا ہر پیروجواں بے تاب ہو جائے۔
مگر جب اپنے بے حس اور غیر ملکی ڈالرو پہ پلنے اور غیرمسلموں کے اشارو ں پہ رقص کرنے والے دانشمندو ں کی زبانوں سے یہ سنتا ہو ں‘ کہ پاکستان خود حالت جنگ میں ہے ‘سعودی عرب ہمارا فوجی امداد بھیجنا خطر ےکو مول لینے کے مترادف ہے۔ تو اس وقت میں پکار اٹھتا ہو ں کہ’’
شعر : کتنی زلفیں کٹیں‘کتنے آنچل اڑے چاند کو کیا خبر ....کتنا ماتم ہوا کتنے آنسوبہے چاند کو کیا خبر ؟
اس کو دعوی ٰ بہت میٹھے پن کا ظفر چاندنی سے کہو ں....اس کی کرنوں سے کتنے گھر جلے چاند کو کیا خبر ؟
جب پاکستانی مسلمانوں کی آزادی کی طرف نظریں اٹھاتا ہو ں تو میں 1947ء میں تقسیم ہند کےوقت بھارت ‘پاکستانی سر حد و ں پہ اٹھنے والے فسادات میں 5 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام دیکھتا ہوں اور جب میں 1948ءکی ہونے والی صبح میں 40 ہزار مسلمانوں کی لاشوں کے ڈھیر ‘ ان پہ رقص کرتی ہندو طوائفوں کو دیکھتا ہوں اور جب میں بھارتی اخبار (انڈیا ٹو ڈے )کی رپورٹ اٹھاتا ہوں ‘تو میں‘ حیدر آباد کے مسلمانوں کی خود مختاری کو بھارتی غنڈو کے پاؤں تلے پھول کی پتیوں کی طرح مسلتے دیکھتا ہو ں ‘تو میں غم سے جھکی گردن اوپر اٹھاتا ہو ں‘ تو 2 لاکھ مسلمانوں کی گردنوں کو تن سے جدا پاتا ہوں ‘ میں کہنے پہ مجبور ہو جاتا ہو ں کہ‘
شعر: جمہور کے ابلیس ہیں ارباب سیاست.....باقی نہیں اب میری ضرورت تہہ افلاک۔
ارے مسلمانوں :جب میں پاکستانی تاریخ کے اوراق کو الٹتا ہو تو میں آزاد مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے 68سال سے آج تک پاتا ہوں۔ ارباب اقتدار کی ضمیر فروشی اور عہدے کے نشہ میں ’’سوات ‘لال مسجد‘وزیر ستان‘کراچی ‘اور دیگرجگہو ں پر ہونے والے ظلم و بر بریت کے جادو کو سر چڑھ کر بولتے ہوئےسنتاہوں ‘ جب میں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھارت کی آبی جارحیت اور سیکورٹی بارڈر پر جنگ بندی کی خلاف ورزیوں کو دیکھتا ہوں ‘تومیں سرحدی خلاف ورزی کو دیکھتا ہو ں ۔ارے جب میں 3بے گناہ مسلمانوں کے قاتل’’ ریمنڈیوس ‘‘کو باعزت بری ہوتے ‘ مسلمان بیٹی ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنوں کے ہاتھوں اغیار کے ہاں فروخت ہوتے دیکھتا ہوں تو میں آسمان کی طرف آنکھیں اٹھا کر خدا کی بارگاہ میں دست سوال رکھتا ہوں کہ ’’ہمارا دوست کون اور دشمن کون ہے؟ ‘‘آخر ان حکمرانوں سے کون پوچھے کہ تم نے الطاف حسین اور پرویز مشرف جیسے ملکی غدارو ں کو کیوں انجام کار تک نہیں پہنچایا؟کنیڈا سے تربیت یافتہ اور دارالحکومت کے امن کو تباہ کرنے والوں کا کیوں آج تک احتساب نہیں کیا گیا ؟ملکی خزانہ لوٹنے والے صدر زرداری کے بارے میں کیوں خاموشی اختیار کی گئی ؟
شعر: جان سے مال سے ہمیں انکار نہیں.....پھر بھی ہم پہ الزام ہے کہ ہم وفادار نہیں
سر فروشان وفا ‘ظلم کے بازاروں میں........سر لیے پھرتے ہیں پر کوئی خریدار نہیں
جس میں سرخی نہ ہو شامل ہمارے لہو کی .........ملک میں آج بھی کوئی ایسا اخبار نہیں ہم نے گر حق آزادی مانگ لیا تو مشکوک ٹھہرے .....اور تم نے ملک بیچ دیا تو بھی تم غدار نہیں ٭۔قلم و قرطاس سے وابسطہ ارباب دانش‘درس وتدریس سے وابسط مفکرو‘عسکری اور سیاسی ماہرین ‘میڈیا سے وابسطہ صحافی وتجزیہ نگارو‘دعوت و تبلیغ سے وابسطہ علماء و مشائخ غیور مسلمانوں آخر کب تک تم اس ظلم کی چکی میں پستے رہو گے ؟کب تک ان غدار حکمرانوں کے ہاتھوں اپنی ماؤں اور بہنوں کی آبرو ریزی ہوتی دیکھتے رہو گے ؟کب تک اپنی بہن بیٹیوں کو اغیار کے ہاتھوں فروخت ہوتیں دیکھتے رہو گمے؟کب تک اپنے لخطِ جگرو کے پشاور اسکول جیسے سانحات میں قتل کو برداشت اور معصوم جانوں کوضائع ہوتے اور ناحق خون کو بہتا دیکھتے رہو گے ؟
دعوت فکر:اے نوجوانوں ظلم کے خلاف اٹھو ‘وقت کی نزاکت کو سمجھو‘ دشمن کی مکاری کو جانوں‘ کب تک شہد نماء زہر کو اغیار کے ہاتھوں نوش کرتے رہو گے ؟جاگو کہیں یہ نہ ہو کہ تم خواب غفلت میں ہی سوئے رہو اور تمہارا ایمان لٹ جائے ‘تمہاری عزتو ں کو تار تار کیا جائے ‘تمہاری بیویوں کو بیوا‘ بچو کویتیم ‘تمہارے بوڑھے ماں باپ کاسایہ ہمیشہ کے لیے تم سے چھین لیا جائے ‘تمہاری غیرت و ہمیت کو پھول کی پتیو ں کی طرح پاؤں سےمسل دیا جائے اور تمہارے وقار کو خاک میں ملا دیا جائے ‘تمہارے عروج کا چمکتا ہوا سورج ظلم کی تاریک راتوں کی نظر ہو جائے‘تم خاموش تماشائی بنے رہو اور تمہیں خبر تک نہ ہو ۔
٭۔اے ارباب اقتدار :تم بھی ذرا ہوش کے ناخن لو آپنی ذمہ داریوں کو سمجھو‘ ظلم و بربریت سے تائب ہو کر امت مسلمہ کی ڈوبتی ہوئی اناؤ ں کو ساحل پہ لیچلو‘ محمد بن قاسم‘نور الدین زنگی ‘خالد بن ولید ‘اور صلاح الدین ایوبی کی طرح ظالم کے ہاتھوں کو زنجیریں ڈالو ‘صحابہ کے خلاف بکنے والی زبان کو مقفل کرو‘مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والے قدم کاٹ ڈالو۔ خدا راہ امت مسلمہ کی بقاء کے لیے جہاد علی منہاج النبوۃ کے پرچم کو بلند کرو کشمیری ‘فلسطینی ‘برمی ‘میانماری‘اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آبروکی چوکیداری کے لیے اپنے مال و جان ‘اولاد اور ٹیکنالوجی کو استعمال کرو اور غیرت مسلم کا ثبوت دو‘ یہ نہ ہوکہ اسی ڈرون حملو ں کی جلتی آگ میں تم خود ہی صدام کی طرح جلتے دکھائی دو۔ جیسے اس نے کویت کے مسلمانوں پہ امریکہ کے کہنے پہ حملہ کر کے قبضہ جمایا اور اسی امریکہ کے ہاتھوں چشم فلک نے سولی پہ لٹکتے دیکھا ۔ضیا ء الحق سے سبق حاصل کرو کہ‘ اسی کی جلائی ہوئی آتش نے جب اس کوہی اپنی لپیٹ میں لیا تو فضاؤ ںمیں اس کی لاش بمع اس کی کرسی اور پروٹو کول کوگردوغبارکی طرح تیز ہواؤ ں میں بکھرتے دیکھا ۔یہی پہ بس نہیں ملکی غدار بے نظیر بٹھوکو موت کی ابدی نیند سونا پڑا اورذوالفقار علی بٹھو کو تختہ دار پہ لٹکتے دنیا نے دیکھا ‘پرویز مشرف سے نصیحت حاصل کرو جس کو عدالتو ں کے چکر کاٹنے پڑےاورنواز شریف کو جیل کی ہوالاتوں میں بند ہونا پڑا ۔
٭۔ارے باز آ جاؤ ۔ورنہ جب مظلوم اٹھتا ہے تو شہزادو ں کو ان کے باپوں سمیت بمع تخت و تاج ان کے محلات سے اٹھا لیا جاتا ہے ‘جب مظلوم اٹھتا ہے تو سلمان تاثیر کو سیکورٹی کی مو جودگی میں موت سے ہمکنار ہونا پڑتا ہے۔ اسی پہ بس نہیں بلکہ جب مظلوم اٹھتا ہے تو اس کی دہشت ووحشت کے آگے حکمرانوں کو ہاتھوں میں ہتھکڑیاں پاؤ ں میں بیڑیاں آنکھوں پہ پٹیاں باندھے تختہ دار پہ لٹکتے پایا جاتا ہے ۔
٭۔ارےظالموانسانیت کے قاتلواوروحشی درندو‘اپنے ناپاک عزائم سے بازآجاؤ‘امریکی ‘اسرائیلی‘بھارتی غنڈو ‘ظلم و بربریت سے تائب ہو جاؤ ‘ورنہ ان مسلمانوں کی نصرت کے لیے بدر کی طرح آنے والے نورانی ملائکہ کو کوئی نہیں روک سکے گا ۔ ان مظلوم و معصوم بچوں کو اسامہ بن لادن ‘ملا محمد عمر ‘اور ان جیسے ہزارو جرنیل بننے سے کوئی نہیں رو ک سکے گا ۔تمہیں تمہاری ٹیکنالوجی سمیت افغانستان کی سر زمین برطانوی سامراج‘روس جیسی سپر پاور ‘امریکہ جیسی اتحادی افواج کی طرح معاف نہیں کرے گی۔ ذلت و رسوائی تمہارا مقدر بن جائے گی ۔ مجاہدین اسلام میدانوں میں اترنے کو بے تاب ‘دشمن پرعقابی نگاہیں جمائے انتظار میں پوزیشنیں لیےاور سینوں پہ بم باندھے ٹینکو ں کے سامنے لیٹنے کا انتظار کر رہے ہو نگے ۔ مسلمانوں کی یہ حالت دیکھ کر تمہارے فوجی لومڑی کی طرح دم پیٹھ میں لیے میدانوں سے بھاگتے دکھائی دیں گے ان شاء اللہ۔
شعر:ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف ..........گرجنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں ...........قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھتے ہیں کہ حق فتح یاب ہو ..............کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پر ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی ................ظالم کی کوئی ذات نہ مذہب نہ قوم
ظالم کے لب پہ ذکر بھی ان کا گناہ ہے................پھیلتی نہیں ہے شاخ تبسم اس زمین پر
تاریخ شاہد ہے زمانہ گواہ ہے ۔
شعر :سبھی تعریف کرتے ہیں میرے انداز تحریر کی ...........کوئی سنتا نہیں میرے لفظو ں کی سسکیاں
(تحریر :ظفر اقبال ظفر!متعلم:جامعہ لاہور الاسلامیہ‘لاہور)

 
Top