• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ظہر کی قضاء ادا کرنے والے امام کے پیچھے عصر کی نماز

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ایک بھائی کا سوال:
السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ آج ہماری ظہر کی نماز قضا ہو گی ہم دو آدمی تھے اس وقت عصر کا وقت شروع ہو گیا تھا. ہم پہلے ظہر کی نماز دو بندوں کی جماعت سے ادا کر رہے تھے اتنے میں نماز عصر ادا کرنے والے نمازی بھی آ گئے ہم ظہر کی آخری رکعت میں تھے عصر کے نمازیوں نے سمجھا ہم عصر کی نماز ادا کر رہے ہیں حالانکہ ہم ظہر کی نماز کی قضا کی ادائیگی پر تھے انہوں نے مقتیدی پچھلی صف پر لے لیا اور نماز عصر کی نیت سے نماز ادا کرنے لگے سلام پھرتے ہی جب ہم نے ظہر کی نماز کا ذکر کیا تو شور مچ گیا اب کچھ کہنے لگے کہ نہ عصر کی نماز ہوئی نہ ظہر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قضا ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے تھے؟
اور جہنوں نے ظہر پڑھنے والوں کے ساتھ نماز عصرادا کی کیا ان کی نماز عصر ادا ہوئی؟
کیا ظہر کی قضا نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے تھے؟
کیا ظہر ادا کرنے کے بعد عصر کی جماعت جو ادا ہوئی وہ ادا کر سکتے تھے؟
اب ہم پر یہ حنفی اعتراض کر رہے ہیں کہ دو نمازیں آپ کیسے ادا کر سکتے تھے؟
صحیح حدیث کے ساتھ حوالے پیش کریں ہو سکتا ہے کچھ لوگ ان احادیث کی وجہ سے ہدایت پکڑ لیں جزاک اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
نماز عصر کی جماعت کے ساتھ ظہر کی نماز
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

ایک بھائی کا سوال:
السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ آج ہماری ظہر کی نماز قضا ہو گی ہم دو آدمی تھے اس وقت عصر کا وقت شروع ہو گیا تھا. ہم پہلے ظہر کی نماز دو بندوں کی جماعت سے ادا کر رہے تھے اتنے میں نماز عصر ادا کرنے والے نمازی بھی آ گئے ہم ظہر کی آخری رکعت میں تھے عصر کے نمازیوں نے سمجھا ہم عصر کی نماز ادا کر رہے ہیں حالانکہ ہم ظہر کی نماز کی قضا کی ادائیگی پر تھے انہوں نے مقتیدی پچھلی صف پر لے لیا اور نماز عصر کی نیت سے نماز ادا کرنے لگے سلام پھرتے ہی جب ہم نے ظہر کی نماز کا ذکر کیا تو شور مچ گیا اب کچھ کہنے لگے کہ نہ عصر کی نماز ہوئی نہ ظہر اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم قضا ظہر کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کر سکتے تھے؟
اور جہنوں نے ظہر پڑھنے والوں کے ساتھ نماز عصرادا کی کیا ان کی نماز عصر ادا ہوئی؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
فوری طور ایک جواب پیش ہے ؛
مزید تفصیل اور دلائل اگر مل گئے تو وقت ملتے ہی پیش کردوں گا ،ان شاء اللہ تعالی
مشہور سعودی محقق عالم علامہ محمد بن صالح العثیمین ؒ سے یہی سوال کیا گیا تو انہوں نے فتوی دیا کہ :
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلاة الظهر خلف إمام يصلي العصر (نماز عصر پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز ظہر ادا کرنا )
منذ 2006-12-28
السؤال: إذا أخر الإنسان صلاة الظهر إلى صلاة العصر ودخل المسجد فهل يصلي معهم العصر بنية الظهر؟
سوال : اگر کسی کی ظہر کی نماز مؤخر ہوجائے اور عصر کا وقت آجائے اور وہ عصر کی جماعت کے وقت مسجد پہنچے ،تو کیا نماز عصر پڑھنے والوں کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھ سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الإجابة:
لم يتبين في السؤال سبب تأخير صلاة الظهر إلى العصر، فإن كان السبب عذراً شرعياً فإن له حكماً، وإن كان السبب غير شرعي فإن صلاة الظهر لا تجزئ إذا أخرها عن وقتها بدون عذر شرعي، وعليه أن يتوب إلى الله عز وجل مما وقع منه، ولا تنفعه الصلاة حينئذ، لأنه تعمد تأخيرها عن وقتها. أما إذا كان السبب شرعياً وأتى إلى المسجد وهم يصلون العصر فهو بالخيار إن شاء صلى معهم بنية العصر، فإذا فرغوا صلى الظهر،
ويسقط الترتيب حينئذ لئلا تفوت الجماعة، وإن شاء صلى معهم العصر بنية الظهر، ولا يضر اختلاف النية لأن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إنما جعل الإمام ليؤتم به، فلا تختلفوا عليه فإذا كبر فكبروا"، فبين النبي صلى الله عليه وسلم معنى الاختلاف عليه ولهذا جاءت: "لا تختلفوا عليه"، ولم يقل: "لا تختلفوا عنه" بل قال: "عليه" مما يدل على أن المراد المخالفة في الأفعال وقد فسر ذلك في نفس الحديث فقال: "فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فأركعوا..." إلخ، أما النية فإنها عمل باطن لا يظهر فيها الاختلاف على الإمام ولو اختلفت، وعلى هذا فإنه يدخل معهم بنية الظهر وإن كانوا يصلون العصر ثم إذا انتهوا من الصلاة يأتي بصلاة العصر، وهذا عندي أولى من الوجه الذي قبله. ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مجموع فتاوى و رسائل الشيخ محمد صالح العثيمين المجلد الثاني عشر - باب النية.
محمد بن صالح العثيمين كان رحمه الله عضواً في هيئة كبار العلماء وأستاذا بجامعة الإمام محمد بن سعود الإسلامية


ترجمہ :
جواب : ظہر کی نماز میں اتنی تاخیر اگر شرعی عذر کے سبب ہوئی ،اور یہ مسجد اس وقت پہنچا جب عصر کی جماعت ہو رہی ہو ،تو اسے اختیار ہے کہ اس جماعت کے عصر کی نیت سے نماز عصر ادا کرے پھر جب اس سے فارغ ہو تو نماز ظہر ادا کرلے ، اور اس صورت میں نمازوں کی واجب ترتیب اس سے موجودہ جماعت پانے کی غرض سے ساقط ہوجائے گی ، (یعنی ظہر سے پہلے عصر پڑھ سکتا ہے )
اور ایسے نمازی کو یہ بھی اختیار ہے کہ وہ عصر کی اس جماعت کے ساتھ ظہر کی نیت سےنماز ادا کرلے ،اور امام و مقتدی کی نیت کا یہ اختلاف مضر نہ ہوگا ، کیونکہ امام و مقتدی کا اس صورت نیت کا مختلف ہونا اسلئے مضر نہیں کہسیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ : امام اس لیے ہوتا ہے تاکہ اس کی پیروی کی جائے، اس لیے تم اس سے اختلاف نہ کرو۔ جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم ربنا لک الحمد کہو اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو۔(صحیح بخاری 722)
تو اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ امام و مقتدی کے ممنوع اختلاف کی وضاحت کردی ، کہ نماز کی داخلی ہیئت اور ارکان نماز کی ترتیب میں مقتدی مختلف نہ ہوں ،بلکہ جب امام تکبیر کہے مقتدی بھی اس کے پیچھے پیچھے تکبیر کہے جب وہ رکوع کرے تم بھی اس کی اقتدا میں رکوع کرو ۔ الی آخرہ ۔۔
اور اسی لئے (لا تختلفوا علیہ )فرمایا یعنی اس پر اختلاف نہ کرو ، اور (علیہ ) کا صلہ استعمال کیا جو افعال میں مخالفت کے معنی دیتا ہے ،یعنی نماز کے ارکان و ہیئت کی ترتیب و ادائیگی میں اس سے مختلف نہ ہو ،اور (لا تختلفوا عنہ ) نہیں فرمایا ،یعنی نیت اور ارادے میں مختلف ہونے سے نہیں روکا ،کیونکہ نیت و اردہ تو باطن کا عمل یعنی مخفی چیز ہے ، اس میں مقتدی کا امام سے مختلف ہونا ظاہر نہیں ہوتا ،
تو اس تفصیل سے واضح ہے کہ ایسا مقتدی عصر کی جماعت سے نماز پڑھنے والوں کے ساتھ ظہر کی نیت سے جماعت میں ہو جائے ، جب عصر کی جماعت ہوجائے تو یہ ا ان کے بعد اپنی عصر کی نماز ادا کرلے ،
میرے نزدیک یہ صورت پہلے مذکور صورت سے بہتر ہے ؛انتہی
رابط المادة: http://iswy.co/e3ohb
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ؒ بھی اس سوال کا مختصراً یہی جواب دیتے ہیں ؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صلاة العصر خلف إمام يصلي الظهر
كنت مسافراً ووجبت صلاة العصر، ولم أكن قد صليت الظهر بعد، فعندما قابلني مسجد بالطريق توضأت وصليت الظهر ونويت لها، وصليت الركعة الأولى وكنت بمفردي، وفي حالة القيام للركعة الثانية حضر أخوان مسلمان وصليا خلفي صلاة العصر، وحينئذ فكروا أنني أصلي صلاة العصر، وأنا أصلي الظهر، فهل صلاتهما خلفي صحيحة؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :
نعم، صلاتهم صحيحة، لهم نيتهم وأنت لك نيتك، هذا هو الصحيح، هذا هو الصواب، أنت لك نيته الظهر، وهم لهم نيتهم العصر والحمد لله

سوال :
سفر میں نماز عصر کا وقت ہوگیا جبکہ ابھی میں نے ظہر کی نماز بھی نہ پڑھی تھی،
وہیں رستے میں میں ایک مسجد پہنچا وضوء کیا ،اور اپنی رہ جانے والی ظہر کی نماز نیت سے تنہا نماز پڑھنا شروع کردی ،
دوسرے رکعت کے قیام میں تھا کہ دو مسلمان بھائی آگئے ، اور میرے پیچھے جماعت کی نیت سےکھڑے ہوگئے اور اس طرح عصر کی نماز پڑھ لی ، اس وقت وہ سمجھے کہ میں عصر کی نماز پڑھ رہا ہوں ، جبکہ حقیقت میں ظہر کی نماز ادا کر رہاتھا ،
تو سوال یہ ہے کہ میرے پیچھے ان دونوں کی نماز صحیح ہے یا نہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب :جی ہاں آپ کے پیچھے ان کی نماز درست ہے ، ان کی نیت ان کیلئے اور آپ کی نیت آپ کیلئے ،یہی صحیح اور درست بات ہے ،آپ کی نیت نماز ظہر کی تھی اسلئے آپ کی ظہر درست اور ادا ۔۔ اور ان کی نیت عصر کیلئے تھی ان کی نماز عصر صحیح ۔
اور سب تعریفیں اللہ رب العزت کیلئے ۔۔
https://binbaz.org.sa/old/31217
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
امام اور مقتدى كى نيت مختلف ہونا

دخل مع الإمام بنيةٍ غير نيةِ إمامه

السؤال :
إذا كانت جماعة المصلين تصلي العصر ، ودخل أحد المسلمين معهم الصلاة ظانا أنها صلاة الظهر ، لكنه أدرك أثناء الصلاة أنها العصر ، فماذا عليه أن يفعل عندما تتغير نيته في أثناء الصلاة ؟ هل عليه أن يقطع صلاته حينها ويكبر للإحرام مرة أخرى ؟.
نص الجواب
الحمد لله

هذا السائل لايخلو من أحد حالين :

الحالة الأولى : أن يكون السائل قد أدى صلاة الظهر ثم دخل معهم في صلاة العصر بنية الظهر ناسيا ثم تذكر في أثناء الصلاة أن هذه صلاة العصر ففي هذه الحالة لا يصح أن يغيّر نيّته بأن ينويها عصراً بل يقطع الصلاة ، ثم يكبر ويدخل مع الإمام مرّة أخرى بنّية العصر . لأن النية شرط في صحة الصلاة . والقاعدة في هذا الباب ( أي في باب النية في الصلاة ) أن من انتقل بنيته من صلاة معينة سواء كانت فرضا أو نفلا إلى صلاة معينة أخرى بطلت الصلاة التي هو فيها ، ولم تنعقد الصلاة الأخرى ، وإنما تنعقد بأن ينوي قطع الصلاة التي نواها اولاً ، ثم يكبر تكبيرة الإحرام ناويا الصلاة الأخرى . والله أعلم . انظر ( الشرح الممتع 2 /296 ) .

الحالة الثانية : أن يكون لم يصل الظهر أصلاً ودخل المسجد وهم يصلون العصر :

فقد سئل الشيخ ابن باز رحمه الله : إذا كان على شخص فائتة كالظهر فذكرها وقد أقيمت صلاة العصر .

فأجاب : المشروع لمن ذكر في السؤال أن يصلي مع الجماعة الحاضرة صلاة الظهر بالنية(أي بنية الظهر ) ثم يصلي العصر بعد ذلك لوجوب الترتيب ، ولا يسقط الترتيب خشية فوات الجماعة ... أ.هـ .

وقال في موضع آخر : ولا يضر اختلاف النية بين الإمام والمأموم على الصحيح من أقوال أهل العلم ... والله أعلم .

فتاوى الشيخ ابن باز رحمه الله (ج/ 12-ص /190- 191).

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ :
امام اور مقتدى كى نيت ميں اختلاف

سوال :
اگر عصر كى جماعت ہو رہى ہو اور كوئى نماز اسے ظہر كى نماز سمجھ كر جماعت كے ساتھ شامل ہو جائے، ليكن دوران نماز اسے ادراك ہو كہ يہ تو عصر كى نماز ہے، چنانچہ وہ دوران نماز نيت تبديل كرنے كے ليے كيا كرے، كيا وہ اسى وقت نماز توڑ كر دوبارہ تكبير تحريمہ كہے گا ؟
جواب کا متن
الحمد للہ:

اس سائل كى دو حالتيں ہو سكتى ہيں:

پہلى حالت:

سائل نماز ظہر ادا كر چكا ہو، اور بھول كر ظہر كى نيت سے جماعت كے ساتھ شامل ہو جائے، اور دوران نماز اسے ياد آئے كہ يہ تو عصر كى نماز ہے تو اس حالت ميں اس كا نيت تبديل كرنا صحيح نہيں، بلكہ وہ نماز توڑ كر دوبارہ تكبير تحريمہ كہہ كر عصر كى نيت سے جماعت كے ساتھ شامل ہوگا.

كيونكہ نماز صحيح ہونے كے ليے نيت شرط ہے، اور اس ميں ( يعنى نماز ميں نيت كے متعلق ) قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ:

جو بھى اپنى نيت نماز ميں كسى دوسرى معين نماز كے ليے تبديل كرے چاہے نماز فرضى ہو يا نفلى جس نماز ميں وہ ہو گا وہ نماز باطل ہو جائيگى اور دوسرى نماز بھى نہيں ہو گى، بلكہ نماز اس طرح ہو گى كہ اس نے جس نماز كى نيت كى تھى وہ توڑ كر دوسرى نماز كى نيت كے ساتھ تكبير تحريمہ كہے. واللہ اعلم.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 2 / 296 ).

دوسرى حالت:
اس نے ظہر كى نماز ادا ہى نہ كى ہو، اور مسجد ميں داخل ہوا تو عصر كى جماعت ہو رہى ہو.

شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
اگر كسى شخص كى كوئى نماز رہتى ہو مثلا ظہر اسے ياد آئے تو عصر كى جماعت كھڑى ہو چكى تھى ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
" سوال ميں مذكورہ شخص كے ليے مشروع يہ ہے كہ وہ موجودہ جماعت كے ساتھ ظہر كى نيت سے نماز ادا كر لے، پھر وہ اس كے بعد عصر كى نماز ادا كرے، كيونكہ ترتيب واجب ہے، اور جماعت رہ جانے كے خدشہ سے ترتيب ساقط نہيں ہو گى.. " اھـ.

اور ايك دوسرى جگہ پر يہ كہتے ہيں:
" اہل علم كے صحيح قول كے مطابق امام اور مقتدى كى نيت مختلف ہونا كوئى نقصان نہيں دےگا... واللہ اعلم.
ديكھيں: فتاوى الشيخ ابن باز رحمہ اللہ ( 12 / 190 - 191 ).

واللہ اعلم .
ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Last edited:
Top