الباکستانی
مبتدی
- شمولیت
- ستمبر 06، 2013
- پیغامات
- 44
- ری ایکشن اسکور
- 47
- پوائنٹ
- 20
(۱)
تقلید شخصی پر اجماع؟!!!
آپ لوگ شائد اجماع سے واقف ہی نہیں کہ اجماع کسے کہتے ہیں؟؟؟
یہ حادثہ کب ہوا؟؟؟
صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دور میں؟
تابعین رحمہم اللہ کے دور میں ؟
ائمہ کرام رحمۃ اللہ علیہم کے دور میں؟
یا
ان سب کے بعد؟؟؟
اپنے دعوے کو بیان بازی اور لفاظی سے نہیں بلکہ باقاعدہ ریفرنس سے ثابت کریں!
نیز یہ بھی بتا دیجئے کہ کیا آیات کریمہ اور احادیث مبارکہ کے صریح خلاف اجماع ہو سکتا ہے؟
اور اگر ایک مسئلہ میں متقدمین صراحت سے کہہ چکے ہوں کہ ہماری تقلید نہ کرنا، کیا اس کے خلاف بھی بعد میں اجماع ہو سکتا ہے؟؟!!!
علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ، (التحریر في اصول الفقہ: ۵۵۲)
(۲) علامہ ابن نجیم مصری (الأشباہ: ۱۳۱)
(۳) محدث ابن حجر مکی رحمہ اللہ (فتح المبین ۱۶۶)
(۴) امام ابراہیم سرخسی مالکی رحمہ اللہ (الفتوحات الوہبیہ: ۱۹۹)
(۵) مشہو رمحدث ومفسر قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (تفسیر مظہری:۲/۶۴)
(۶) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (حجة اللہ البالغہ: ۱/۳۶۱)
(۷)شارح مسلم شریف علامہ نووی (نور الہدایہ: ۱/۱۰)
ان تمام علماء کرام نے فرمایا ہے کہ اجماع ہو گیا ہے،اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ جب اجماع ہورہا تھا ہمارا اس دنیا میں وجود نہیں تھا اس لئے ان کی بات پر اعتبا رکرنا پڑے گا اسی کا نام پیروی ہے اور اسی میں عافیت ہے ۔فقط واللہ اعلم بالصواب
تقلیدِ شخصی
تقلید کی دوسری قسم تقلید شخصی ہے، یعنی کسی ناواقف عامی (غیر عالم شخص) کا کسی متعین شخص کے علم و کمال پر بھروسہ کر کے اسی کے بتائے ہوئے طریقہ کار پر عمل کرنے کو تقلید شخصی کہتے ہیں.
مولانا اس بارے ميں آپ کا کيا خیال ہے ؟ ابن ہمام کا تقليد شخصی کے متعلق کيا مؤقف ہے ؟