• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عادل مسلمان حکمران

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
عادل مسلمان حکمران

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنَّ أَحَبَّ النَّاسِ إِلَی اللّٰہِ عَزَّوَجَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ، وَأَقْرَبَھُمْ مِنْہُ مَجْلِسًا إِمَامٌ عَادِلٌ۔ ))1
'' اللہ تعالیٰ کو قیامت کے دن سب سے زیادہ محبوب اور مجلس کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب عادل امام ہوگا۔ ''
تشریح...: اس سے ہر وہ انسان مراد ہے جسے مسلمانوں کے انتظامی شعبہ کا نگران بنایا گیا ہو اور وہ انصاف سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری کرتا ہے۔ اس حیثیت سے کہ ہر چیز کو بغیر افراط و تفریط کے اس کے مقام پر رکھتا ہے، اللہ کے بندوں کی ہمیشہ خیر خواہی کرتا اور ان پر جو دینی اور دنیوی حقوق لاگو ہوتے ہیں، وہ بھی بتاتا ہے۔ ان کی شریعت کی حفاظت کرتا اور ان کے دشمنوں سے لڑائی اور مفسدین کو ان سے دور رکھتا ہے نیز اس کے ساتھ ساتھ ان میں اسلامی حدود کو قائم کرتا ہے۔ عادل امام کے لیے آخرت میں بلند و بالا درجات و مراتب ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امام کے لیے کہ جو اپنے ماتحتوں اور فیصلوں میں انصاف سے کام لیتا ہے، اچھے انجام کی نوید سنائی ہے، چنانچہ فرمایا:
(( إِنَّ الْمُقْسِطِیْنَ عِنْدَاللّٰہِ عَلیٰ مَنَابِرَ مِنْ نُّوْرٍ عَنْ یَمِیْنِ الرَّحْمٰنِ عَزَّوَجَلَّ وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ، أَلَّذِیْنَ یَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِھِمْ وَأَھْلِیْھِمْ وَمَا وَلُوْا۔ ))2
'' انصاف کرنے والے اللہ تعالیٰ کی دائیں طرف نور کے منبروں پر ہوں گے اور اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے میں (وہ لوگ مراد ہیں) جو اپنے فیصلوں، اپنے گھر والوں اور جن کے وہ نگران ہیں، ان میں میں عدل کرتے ہیں۔ ''
یہ فضیلت اس انسان کو ملے گی جسے خلافت، امارت یا قضاء یا احتساب کمیٹی کا منصب دیا گیا یا یتیم کا نگران یا صدقہ وغیرہ کا نگران بنایا گیا اور ان میں انصاف سے کام لیا، نیز اس کے ساتھ ساتھ اپنے اہل و عیال کے حقوق بھی انصاف سے نبھاتا رہا۔
عادل امام ان سات آدمیوں میں سے ایک ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنا سایہ نصیب کرے گا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 مسند أحمد، رقم: ۱۱۱۷، وقال حمزۃ أحمد الزین: إسنادہ حسن۔
2 أخرجہ مسلم في کتاب الإمارۃ، باب: فضیلۃ الأمیر العادل وعقوبۃ الجائر والحث علی الرفق، رقم: ۴۷۲۱۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
(( سَبْعَۃٌ یُّظِلُّھُمُ اللّٰہُ فِيْ ظِلِّہِ یَوْمَ لَا ظِلَّ إِلاَّ ظِلُّہُ اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ وَشَابٌ نَشَأَ فِیْ عِبَادَۃِ رَبِّہٖ؛ وَرَجُلٌ قَلْبُہٗ مُعَلَّقٌ فِیْ الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَانَ تَحَابًّا فِیْ اللّٰہِ اجْتَمَحَا عَلیٰ ذٰلِکَ وَتَفَرَّقَا عَلَیْہِ؛ وَرَجُلٌ طَلَبَتْہُ [اِمْرَأْۃٌ] ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ فَقَالَ: إِنِّيْ أَخَافُ اللّٰہَ؛ وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفٰی حَتّٰی لَا تَعْلَمَ شِمَالُہُ مَا تُنْفِقُ یَمِیْنُہُ؛ وَرَجُلٌ ذَکَرَ اللّٰہَ خَالِیًا فَفَاضَتْ عَیْنَاہُ۔ ))1
'' رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: سات آدمی ایسے ہیں کہ اللہ انہیں اس دن سایہ نصیب کرے گا جس دن سوائے اس کے سائے کے اور کوئی سایہ نہیں ہوگا (ان میں سے ایک) عادل امام ہے۔ ''
اس حدیث میں سب سے پہلے عادل امام کا تذکرہ اس لیے کیا گیا ہے کہ اس کا نفع عام اور زیادہ ہوتا ہے۔ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے عادل امام کو ایک رتبہ یہ بھی بخشا ہے کہ اس کی مانگی ہوئی دعا ہرگز ردّ نہیں ہوتی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( ثَـلَاثٌ لَا یُرَدُّ دَعْوَتُھُمْ: اَلْاِمَامُ الْعَادِلُ، وَالصَّائِمُ حِیْنَ یُفْطِرُ، وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ یَرْفَعُھَا فَوْقَ الْغَمَامِ وَیَفْتَحُ لَھَا أَبْوَابَ السَّمَآئِ وَیَقُوْلُ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالیٰ: وَعَزَّتِيْ لَأَنْصُرَنَّکَ وَلَوْ بَعْدَ حِیْنٍ۔ ))2
'' تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کی دعا رد نہیں کی جاتی: (۱) عادل امام، (۲) روزہ دار کی افطار کے وقت اور (۳) مظلوم کی بددعا تو بادلوں سے اوپر چڑھ جاتی ہے اور اس کے لیے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور رب تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں: مجھے میری عزت کی قسم! میں ضرور ہی اس کی مدد کروں گا اگرچہ کچھ دیر بعد ہی کروں۔''
اس حدیث میں بھی مذکورہ وجہ سے امام عادل کا تذکرہ پہلے کیا گیا ہے۔3
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ البخاري في کتاب الأذان، باب: من جلس في المسجد ینتظر الصلاۃ، وفضل المساجد، رقم: ۶۶۰۔
2 صحیح سنن الترمذي، رقم: ۲۰۵۰۔
3 شرح مسلم للنووی ص ۱۲۱، ۷/ ص ۲۱۲، ۱۲/ فتح الباری ص ۱۴۵/۲۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 

کیلانی

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 24، 2013
پیغامات
347
ری ایکشن اسکور
1,110
پوائنٹ
127
اسلام ایک عدل و انصاف پر مبنی دین ہے جس میں ہر کام کی جزا عمل کے مطابق ملتی ہے۔اگر کوئی کام زیادہ ذمہ داری کا تقاضہ کرتا ہے تو ا س کی جزا بھی زیادہ ہے۔ اور ایسے ہی کسی کام میں محنت کم لگتی ہے تو اس کی صلہ بھی اسی حساب سے ہے۔البتہ اللہ کی رحمت کی کوئی انتہاء نہیں۔اور کبھی کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ انسان کے کسی چھوٹے کام میں اخلاص کی وجہ سے اللہ کی طرف سے بے حساب جزا مل جاتی ہے۔
 
Top