• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عاشقانِ رسولﷺ یاکہ محبانِ رسولﷺ

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436



بسم اللہ الرحمن الرحیم



برئے صغیر پاک و ہند میں اسلامی حلقوں میں ایک لفظ بہت پایا جاتا ہے کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں اور اس فقرے کو بہت اہمیت بھی دی جاتی ہے جس کی وجہ سے سب خاص و عام یہی دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم عاشقِ رسول ﷺ ہیں۔ آج اسی فقرے کے بارے میں دلائل سے بات ہوگی ان شاءاللہ۔
اس سلسلے میں میری کافی دفعہ بات چیت ہوچکی ہے کیونکہ کبھی میں بھی یہی نظریہ رکھتا تھا اور آج بھی میرے عزیز رشتہ دار اور دوست ایسے بہت ہیں جو یہی فقرہ استعمال کرتے ہیں اس لیے ان سے بات چیت ہوتی رہتی ہے، میرا ان سب سے یہی سوال ہوتا ہے کہ آپ وہ الفاظ استعمال کیوں نہیں کرتے جو اللہ نے کہے اور نبیﷺ نے ادا کیئے ہیں؟ آپ لوگ اللہ اور نبیﷺ کی بات کو چھوڑ کر وہ بات کیوں کرتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے میں بھی بہت غلط تصور کی جاتی ہے؟مگر مجھے آج تک کسی مولوی صاحب یا کسی دوست عزیز نے اس کی دلیل نہیں دی ہے اور جو وجوہات پیش کی ہیں وہ آپ کے سامنے بھی رکھوں گا ان شاءاللہ، اس سے پہلے ہم اس لفظ عشق، عاشق اور معشوق پر بات کریں گے۔
عشق :۔گو کہ المنجد عربی اور درسی اردو لغت وغیرہ میں عشق کا معنی محبت کی انتہا لکھا گیا ہے مگر ہم نے دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس لفظ کا استعمال قرآن و حدیث میں کس لحاظ سے کیا گیا ہے؟اب اس معنی کے مطابق جو بندہ نبیﷺ سے محبت بہت زیادہ رکھتا ہے اس کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ جی نبیﷺسے عشق کرتا ہے جیسے ایک شاعر نے کہا کہ
دل میں عشقِ نبی کی ہو ایسی لگن

اور جب کہ قرآن میں اللہ نے ایسا کوئی بھی فقرہ استعمال نہیں کیا ہے جس سے محبت کی انتہا عشق کا مفہوم لیا جائے بلکہ عشق کا لفظ پورے قرآن میں ہے ہی نہیں ہے۔ ایک آیت میں اللہ کا ارشاد مبارک ہے کہ
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْدَادًا يُّحِبُّوْنَهُمْ كَحُبِّ اللّٰهِ ۭ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓااَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِ ۭ وَلَوْ يَرَى الَّذِيْنَ ظَلَمُوْٓا اِذْ يَرَوْنَ الْعَذَابَ ۙ اَنَّ الْقُوَّةَ لِلّٰهِ جَمِيْعًا ۙ وَّاَنَّ اللّٰهَ شَدِيْدُ الْعَذَابِ ١٦٥؁
بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر (جان لیں گے) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ سخت عذاب دینے والا ہے (تو ہرگز شرک نہ کرتے)۔البقرہ: ۱۶۵
اس آیت مبارکہ میں اللہ نے لفظ حب استعمال کیا ہے جو کہ اردو میں لفظ محبت کا معنی پیش کرتا ہے اور اس لفظ محبت سے پہلے شدید کا اضافہ فرمایا یعنی جو اللہ سے بہت زیادہ محبت کی انتہا سے محبت کرتے ہیں، اب اس آیت سے بات واضح ہوتی ہے کہ اگر محبت شدید بھی ہو تو بھی لفظ محبت ہی استعمال کرنا ہے نہ کہ اس کی جگہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جائے جو اپنے معنی اور مفہوم میں کچھ ایسے مفاہم بھی رکھتا ہو جس سے سوچ کا رخ بدل جائے۔ اللہ کا ارشاد ہے کہ
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ ۭوَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ 31؀
کہہ دیجئے! اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری تابعداری کرو خود اللہ تعالٰی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا اور اللہ تعالٰی بڑا بخشنے والا مہربان ہے۔ آلِ عمران: ۳۱
اس طرح قرآن مجید میں کافی زیادہ آیات مل جائیں گی جن میں لفظ محب، حب استعمال ہوا ہے اور اس آیت کو بھی اگر غور سے پڑھا جائے تو یہی سبق ملتا ہے کہ اگر سے محبت کا دعویٰ ہے تو صرف اور صرف محمدﷺ کی اتباع و پیروی کرو، یعنی کسی کا دعویٰ کرنا اپنی جگہ مگر محبت کی پہچان اتباع محمدﷺ میں ہے اب ہر معاملے میں آپﷺ کی ہی پیروی کرنے کا حکم ہےاور اگر عشق کا لفظ محمدﷺ نے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی آپﷺ کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے کبھی ایسا کہا کہ ہم نبیﷺ سے عشق کرتے ہیں تو

ہمارے پاس کیا دلیل ہے جو ہم نبیﷺکے بارے میں کہیں کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں؟ اور دوسرا اگر یہ اتنا پاکیزہ لفظ ہے تو کوئی اس لفظ کو اپنی ماں اور بہن کے بارے میں استعمال کیوں نہیں کرتا؟کتنی حیران کن بات ہے کہ جو لفظ ہم اپنی ماں ، بہن کے ساتھ لگانا مناسب نہیں سمجھتے وہی لفظ ہم نبیﷺ کی ذات کے ساتھ استعمال کرتے ہیں؟ کیا یہ توہین نہیں ہے؟

کیا کبھی کسی بندے نے یہ بھی کہا ہے کہ میں اپنی ماں کا عاشق ہوں اوریا کہا کہ اپنی بہن کا عاشق ہوں؟ نہیں اور یقیناً نہیں کہا ہوگا کیونکہ ایسا کہنا معیوب سمجھا جائے گا اور لوگ اس کو پاگل کہیں گیں
،

کیا اس کی وجہ یہ ہوگی کہ وہ شخص اپنی ماں اور بہن سے انتہا درجہ کی محبت نہیں رکھتا ؟ نہیں ناں بلکہ سبھی بھائی بیٹے اپنے بہن اور ماں سے شدید محبت کرتے ہیں اور یہ محبت قدرتی امر ہے جو سبھی کو ہوتی ہے، تو

کیا وجہ ہے کہ وہ یہ لفظ عشق اپنی ماں بہن کے ساتھ نہیں لگاتا مگر وہ شخص یہی لفظ نبیﷺ کی ذات کے ساتھ لگاتا ہے؟اوریا پھر عشق مجازی کے ساتھ لگانا مناسب سمجھتا ہے اور اس بات کو سمجھانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عشق مجازی کیا چیز ہے۔


اور عشق کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس میں نفسیانی غلامی بھی شامل ہواسی لیے کسی غیر مرد کا کسی غیر عورت سے میل جول یا محبت کو اصل معنوں میں عشق کہا جاتا ہےکیونکہ وہ مرد یا عورت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات بھول کر اپنے نفس کے غلام اور اپنی نفسیانی خواہشات کے تابع ہوتے ہیں

عاشق:۔ عاشق اس شخص کو کہا جاتا ہے جو کسی عورت کے عشق میں مبتلا ہو ۔

معشوق:۔ معشوق اس کو کہا جاتا ہے جس عورت سے کوئی شخص عشق کرتا ہے وہ جس عورت سے عشق کرتا ہے کو معشوق کہا جاتا ہے، یہ تینوں لفظ عشق، عاشق اور معشوق عشق

مجازی کے زمرے میں آتے ہیں ان کو اللہ اور نبیﷺ کے لیئے استعمال کرنا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے کہ جس طرح کوئی یہ کہنا مناسب نہیں سمجھتا کہ وہ یہ کہے کہ میری بہن میری معشوق ہے یا کہ میں اپنی بہن کا عاشق ہوں یا اپنی بہن سے عشق کرتا ہوں تو انہی الفاظ کو نبیﷺکی ذاتِ اقدس کے ساتھ کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟ اگر ہم اثار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی رہنمائی لیں تو بھی ہمیں ایسا لفظ نہیں ملے گا کہ کسی صحابی رسولﷺنے آپﷺسے کہا ہو کہ میں آپﷺ سے عشق کرتا ہوں

بلکہ اس کے خلاف آپ کو ملے گا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ حَدَّثَنَا مَالِکٌ عَنْ إِسْحَقَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ أَعْرَابِيًّا قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتَی السَّاعَةُ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَعْدَدْتَ لَهَا قَالَ حُبَّ اللَّهِ وَرَسُولِهِ قَالَ أَنْتَ مَعَ مَنْ أَحْبَبْتَ
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ ﷺسے عرض کیا قیامت کب ہوگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے اس نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسولﷺ کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو انہیں کے ساتھ ہوگا جن سے محبت رکھتا ہے۔
صحیح مسلم:جلد سوم:باب:صلہ رحمی کا بیان :آدمی کا اسی کے ساتھ ہوگا جس سے وہ محبت رکھے گا کے بیان میں
اس کے علاوہ سینکڑوں حدیثیں مل جائیں گی جن میں لفظ حب یعنی محبت استعمال ہوا ہے مگر کوئی ایک بھی ایسی حدیث یا اثر نہیں ملے گا جس میں عشق کو نبیﷺکے ساتھ نسبت دی گئی ہو۔

اب کوئی بھائی یہ نہ کہے کہ عربی زبان میں لفظ عشق ہے ہی نہیں بلکہ یہ حب کا معنی ہے جو اردو عشق کہلاتا ہے تو اس پر بھی ایک حدیث پیش کر دیتا ہوں تاکہ یہ مغالطہ ہی دفع
ہو جائے


وعن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونة قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم " . رواه البيهقي في شعب الإيمان

حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھواہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرات سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی ، رزین)
مشکوۃ شریف:جلد دوم:باب:فضائل قرآن کا بیان :قرآن محض خوش آوازی کا نام نہیں

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ لفظ عشق عربی زبان کا بھی لفظ ہے اور اس کا وہی تصور جو اردو میں لیا جاتا ہے عربی میں بھی لیا جاتا ہے یعنی عشقِ مجازی اور دوسرا اس حدیث میں اہلِ عشق کے طریق سے قرآن پڑھنے کی ممانعت آئی ہے کہ جس طرح عشاق اور شعراء اپنی نظمیں وغزلیں اور اشعار آواز بنا کر اور ترنم و سر کے ساتھ پڑھتے ہیں اور موسیقی اور راگ کے قواعد کی رعایت کرتے ہیں تم اس طرح قرآن کریم نہ پڑھو۔
آخر میں ایک نبیﷺ کا ارشاد پیش کرتا ہوں کہ

قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ وَوَالِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص مومن نہ ہوگا جب تک وہ مجھ سے اپنی اولاد اور والدین اور سب لوگوں سے زیادہ محبت نہ کرئے ۔ متفق علیہ
صحیح مسلم:جلد اول:باب:ایمان کا بیان :اس بات کے بیان میں کہ مومن وہی ہے جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے گھر والوں والد اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبت ہو۔

اس حکمِ رسولﷺ میں جو بات واضح ہوئی وہ یہی ہے کہ اگر کبھی ایسا ہوجائے کہ آپ کی اولاد یا والدین یا کوئی تیسری ہستی آپ کو کچھ ایسا کام کرنے کو کہے جو نبیﷺ کے حکم کے خلاف جاتا ہو تو ایسے موقعہ پر نبیﷺسے محبت کا ثبوت دیں اور وہ کام نہ کریں یہیں سے معلوم ہوگا کہ کوئی کس سے زیادہ محبت کرتا ہے ۔اور ابھی جو بات پیش کی ہے کہ کبھی بھی یہ نہ کہیں کہ ہم عاشقِ رسولﷺ ہیں بلکہ یہ کہیں کہ ہم محبانِ رسولﷺ ہیں کیونکہ ایسا حکم عشق عاشق اور معشوق ہم کو نبیﷺنے تعلیم نہیں فرمایا اس لیے ہم ان لفظوں کو اللہ اور نبیﷺکی ذات کے ساتھ منسوب نہیں کریں گیں بلکہ وہیں لفظ کہیں گے جو قرآن اور حدیث میں وارد ہوئے ہیں یعنی محبانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں صحیح معنوں میں محبت کرنے والا دل اور نبیﷺکی اتباع کرنے والا جسم عطاء فرمائے آمین



 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436

باذوق

رکن
شمولیت
فروری 16، 2011
پیغامات
888
ری ایکشن اسکور
4,011
پوائنٹ
289
اس موضوع پر راقم نے بھی کافی مرتبہ کچھ فورمز پر لکھا ہے ۔۔۔۔ یہ دلچسپ بحث کا بھی مطالعہ کر لیجیے ۔۔۔۔ :)
عشق -- عشقِ الٰہی / عشقِ رسول یا محبت الٰہی/ٕمحبت رسول

اور میرے بلاگ سے یہ تحریر بھی (جو نعیم جاوید صاحب کا مضمون ہے) ۔۔۔
یہ عشق نہیں آساں ۔۔۔

نزولِ قرآن کے وقت دنیا کی نئی صورتگری کرنے کے لئے صاحبِ مہبطِ وحی (صلی اللہ علیہ وسلم) کو جو مطلوبہ ایثار کی ضرورت ان کے چاہنے والوں سے تھی ، یعنی صحابہ (رضوان اللہ عنہم اجمعین) کو جو درسِ فنا دیا جانا مطلوب تھا ، اس کے لیے قرآن اور صاحبِ قرآن نے اس لفظ "عشق" کو اپنی پوری توانائی کے علی الرغم ردّ کیا۔
اور کہیں بھی اپنے نصابِ دانش میں قربانیوں اور محبتوں کے ہزاروں واقعات کی ترسیل کے لیے اس لفظ کو نہیں برتا۔
کیونکہ اس لفظ نے اپنی ایک پوری دنیا تعمیر کر لی تھی۔ جہاں اس کے چشمہ صافی میں دیگر غیر محترم و مشکوک موضوعات کی گدلاہٹ شامل ہو چکی تھی۔
قرآن نے اپنے تمدنی تقاضے "محبت" کے لفظ سے پورے کئے ! جبکہ اس لفظ "عشق" کی دلکشی سے کم کشش لفظ "محبت" میں ہے۔ لیکن یہ موضوع کی ترسیل میں آبِ زمزم میں شراب کی آمیزش ہونے نہیں دیتا۔

علامہ اقبال نے اپنی فکر سے اپنی آرزوؤں کی ایک الگ دنیا تعمیر کی ہے۔ اس لیے اقبال کے ہاں عشق کا تصور بالکل مختلف ہے۔ جہاں خیال کی قوت اپنی شوکت کی جلوہ نمائی کے لئے بساطِ شعر میں آتی ہے تو لفظ اپنا حسب نسب بھول جاتے ہیں۔
جہاں روایت کی حیثیت بےشکل پتھر سے زیادہ کی نہیں ہوتی۔ بلکہ اس کی بدہئیتی ، تاج محل کے معمار کے ہاتھوں دائمی ہنروری کے تاریخ رقم کرواتی ہے۔
مثال کے طور پر اقبال نے "خودی" کے لفظ میں بجلیاں بھر دی ہیں۔ جبکہ ان سے پہلے یہ لفظ اپنی روح اور داخلی امراض کے سبب متعفن تھا۔ اور آج حسنِ ذات اور جوہرِ ذاتی کی آبرو اس لفظ کی معنوی جہت کی یافت میں پنہاں ہے۔
اس لیے ہمیں "عشق" کے موضوع پر اقبالیات کو ایک ایسے جہانِ نو کی طرح سمجھنا چاہئے جو سب سے الگ اور مکمل ہے۔ جہاں بدر و حنین ، صبرِ حسین (رضی اللہ عنہ) سب کچھ عشق ہے۔
ورنہ تو ۔۔۔۔۔

یہ "عشق" کا نعرہ مستانہ کانٹ چھانٹ کر جب پاکستان کا "جنون میوزیکل گروپ" گاتا ہے تو سننے والوں کو عشق کا وہ گداز نہیں ملتا جو اقبال کی نظم "ساقی نامہ" پڑھتے ہوئے دنیا بھر کو ملا۔
یعنی ۔۔۔۔ جنون گروپ نے یہ تو شامل کیا :
جوانوں کو سوزِ جگر بخش دے
میرا عشق میری نظر بخش دے
لیکن ہر اس مصرعے کو کاٹا ہے جہاں چل کر اقبال کا تصورِ عشق اس کی معنوی بےسمتی کو راہ پانے نہیں دیتا ، جیسے ۔۔۔
دلِ مرتضی (رض) سوزِ صدیق (رض) دے
وغیرہ۔

عشق کو ہوا دینے والوں میں ۔۔۔۔ اہم ترین دنیائے ادب کی جنون تاب شاعری ہے اور اس کی تصوراتی اچھل کود ، فلم اور آرٹ کے تراشے ہوئے رنگین خوابوں میں کھوئے ہوئے لوگ۔۔۔۔ اب اسی عکس و آواز کے آفریدہ گھرانوں کی ہلاکت خیزیاں لوگ دیکھ رہے ہیں۔
مشرقی تہذیب کے جیالے عشق کے نام پر پردۂ سیمیں کی طوفان بدتمیزیوں کو اپنے گھروں کی آخری چوکیاں بھی ہار کے لے آئے !

یاد رہے کہ لغت کے بکھیڑوں میں جذبات کی ہلاکت خیزیاں حدوں کا تعین نہیں کرتی۔ آج الفاظ کا وجود معنوی ارتداد کا شکار ہو چکا ہے۔
اس لیے مشکوک کو متروک ہی رہنے دو ۔۔۔ یا اس پر گہری نگاہ رکھو :

علامتیں ہیں نئے دور کی برہنہ سب
مگر مزاج غزل کا غلاف چاہتا ہے
(ظفر سنبھلی)
ایک لنک اور ۔۔۔۔۔ :)
Ishq -- عشق ، ایک گھٹیا جذبہ
 

حرب بن شداد

سینئر رکن
شمولیت
مئی 13، 2012
پیغامات
2,149
ری ایکشن اسکور
6,345
پوائنٹ
437
سلام بھائی ۔ میں نے یہ مضمون یہاں سے لیا ہے
سلام بھائی کیا ہوتا ہے؟؟؟۔۔۔ السلام علیکم کہنے کی عادت ڈالیں۔۔۔
وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى
اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157

وعن حذيفة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " اقرؤوا القرآن بلحون العرب وأصواتها وإياكم ولحون أهل العشق ولحون أهل الكتابين وسيجي بعدي قوم يرجعون بالقرآن ترجع الغناء والنوح لا يجاوز حناجرهم مفتونة قلوبهم وقلوب الذين يعجبهم شأنهم " . رواه البيهقي في شعب الإيمان
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔ تم قرآن کریم اہل عرب کی طرح اور ان کی آوازوں کے مطابق پڑھواہل عشق اور اہل کتاب کے طریق کے مطابق پڑھنے سے بچو میرے بعد ایک جماعت پیدا ہو گی جس کے افراد راگ اور نوحہ کی طرح آواز بنا کر قرآن پڑھیں گے۔ ان کا حال یہ ہو گا کہ قرآن ان کے حلق سے آگے نہیں بڑھے گا (یعنی ان کا پڑھنا قبول نہیں ہو گا) نیز ان کی قرات سن کر خوش ہونے والوں کے قلوب فتنہ میں مبتلا ہوں گے۔ (بیہقی ، رزین)
مشکوۃ شریف:جلد دوم:باب:فضائل قرآن کا بیان :قرآن محض خوش آوازی کا نام نہیں
بھائی جان کیا یہ روایت صحیح ہے۔۔۔مجھے یہاں تک علم ہے اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے ضعیف کہا ہے۔
 
Top