’ لبرلز سے شدید نفرت ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والے الفاظ کئی سالوں سے فیس بک تعارف میں موجود ہیں ، عاصمہ جہانگیر نے پچھلے سال انہیں دنوں جب ایک طنزیہ جملہ کہا تھا ، اس پر ایک مضمون بھی لکھا تھا ،
’ مسجدوں میں امام اور عدالتوں میں قاضی ‘
ٹاک شوز اور اخبارات اور فیس بک سٹیٹس میں یہ جنگ اسی وقت سے شروع ہے ، جب سے یہ پلیٹ فارم موجود ہیں ، لہذا کوئی یہ نہ کہے کہ کسی کے مرنے کےبعد ہمیں اسلام پسندی کے اظہار یا اسلام بیزاروں سے بیزاری کا اظہار کرنا یاد آیا ہے ۔
دو دن پہلے ہی محترم ہشام الہی ظہیر صاحب نے جب ایک لبرل خاتون فرزانہ باری کے خوب لتے لیے تھے ، اور
ٹاک شو میں موم بتی مافیان کی بینڈ بجائی تھی ، تو میں نے عرض کیا ، یہی باتیں ایک بار فلاں فلاں لبرلز کی موجودگی میں بھی ہوجانی چاہییں ، جن میں اس عاصمہ جہانگیر کا بھی نام موجود تھا۔
ماہنامہ محدث کے کاٹ دار لکھاری مولانا عطاء اللہ صدیقی مرحوم اس وقت سے اس کا پردہ چاک کرتے رہے ہیں ، جب سے یہ ان سرگرمیوں میں مبتلا ہے ۔ محدث فورم کا یہ ہیش ٹیگ ملاحظہ کریں :
http://forum.mohaddis.com/tags/yasm-ganr/
معاف کرنا ہے ، تو اپنے ذاتی / جماعتی / کاروباری دشمنوں کو معاف کرو ، صدقہ خیرات کرو ، لوگوں سے جوتے کھا کر انہیں دعائیں دو ، لیکن دین کے دشمنوں کے ساتھ ہمدردیاں ، اور دریا دلیاں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
بہر صورت عاصمہ جہانگیر کی یہ کرامت ہی ہے کہ جس طبقے کو ساری عمر گالیاں دیتی رہی ، اسی طبقے میں سے اس کے ہمدرد اس کے حق میں احادیث نکال کر لا رہے ہیں ،
خیر ، اس ضمن میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے ، اس کی شرح ملاحظہ کریں:
قال بدر الدين العيني – رحمه الله - :
فإن قيل : كيف يجوز ذكر شر الموتى مع ورود الحديث الصحيح عن زيد بن أرقم في النهي عن سب الموتى وذكرهم إلا بخير ؟ وأجيب : بأن النهي عن سب الأموات غير المنافق والكافر والمجاهر بالفسق أو بالبدعة ، فإن هؤلاء لا يحرُم ذكرُهم بالشر للحذر من طريقهم ومن الاقتداء بهم .
" عمدة القاري شرح صحيح البخاري " ( 8 / 195 ).
افسوس تو یہ ہے کہ ’ اسلام پسند طبقہ ‘ عاصمہ جانگیر کی خوبیوں سے تو واقف ہے ، لیکن اس قسم کے لوگوں کے مرنے پر صحابہ کرام اور اسلامی شخصیات کا کیا رد عمل تھا ، یہ باتیں ، یا تو انہیں معلوم نہیں ، یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔
اسلاف نے تو یہاں تک کہا کہ بے نماز کو مسلمانوں کےقبرستان میں دفن نہ کرو ، لیکن کچھ لوگ اعداء اسلام سے نفرت کے اظہار پر بھی چیں بہ چیں ہوکر اسلاف کی تعلیمات سے بےبہرہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ۔
مثالیں بہت زیادہ ہیں ، لیکن صرف قبرستان میں دفن نہ کرنے والی بات پر ذرا دماغ کی کھڑکی کو کھولیں تو کافی افاقہ ہوجائے گا۔
عبد اللہ بن ابی کے جنازے والی مثال یاد ہے ، لیکن اس پر قرآن کریم میں زجر و توبیخ نظر انداز کی جارہی ہے ۔
اصولی بات عرض کر چکے کہ حکم ظاہر پر ہے ، اس کی اسلام دشمنی کی گواہیاں ہر جگہ پر ثبت ہیں ، رہی بات اللہ کی عدالت کی ، اگر واقعتا وہ اندر سے ’ رابعہ بصری ‘ تھی ، تو ’ علیم بذات الصدور ‘ فقط اللہ کی ذات ہے ۔
ہمارے نزدیک یہ بات شخصیات کی نہیں ، دو سوچوں کی جنگ ہے ، یہاں ہم نے ’ ممتازی قادری ‘ کو درست اور ’ سلمان تاثیر ‘کو غلط کہنا ہی کہنا ہے ۔
ابو جہل ، ابو لہب ، عبد اللہ بن ابی ، جہم بن صفوان ، بشر المریسی جیسے لوگوں کے لیے مرنے کے بعد ’ گنجائش ‘ نہیں نکلی ، تو اب بھی کسی کے لیے نہیں نکلے گی۔
رہی ان لوگوں کی بات ، جنہوں نے ہر کسی کے لیے گنجائش نکالنی ہوتی ہے ، تو ان کے نزدیک تو گنجائش کا معیار ہی اس قدر عجیب ہے کہ اس کے لیے مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ۔
ایک معصوم طبقہ وہ بھی ہے جو خود ’ بول کر ‘ دوسروں کو ’ خاموشی ‘ کی تلقین کر رہا ہے ۔
مطلب عاصمہ جہانگیر بڑی نڈر بے باک تھی ، اس کی فلاں فلاں خوبیاں تھیں ، جب یہ باتیں ہورہی ہوں ،تو وہ واقعتا خاموش رہتے ہیں ، اور جب اس کی مذمت بیان کی جائے تو پھر ’ خاموش کروانے ‘ میں لگ جاتے ہیں ۔