• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عاصمہ جہانگیر فوت ہوگئی

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
خبریں گردش کر رہی ہیں کہ مشہور اسلام بیزار سماج دشمن کارکن عاصمہ جہانگیر فوت ہوگئی ہے ۔
ہمارے ایک فیس بک دوست لکھتے ہیں :
"انا للہ" پڑھ کر مرنے والی کی روح کو تکلیف نہ پہنچائیں۔ انھیں زندگی مین بھی اسلام اور مسلمانوں سے جڑے ہر لفظ اور رواج سے تکلیف ہوتی تھی ظاہر ہے مرنے کے بعد بھی ہوگی۔ اظہار افسوس کرنے والے ذرا منہ ٹیڑھا اور ہونٹ سکیڑ کر 'سو سیڈ' کہ دیں۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
کیا اسلام دشمنوں کی موت پر خوش ہونا چاہیے ؟
سوال اور جواب یہاں ملاحظہ کریں ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اسلام کو نقصان پہنچانے والوں کی موت پر خوش ہونے میں حرج نہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک خارجی کے قتل پر سجدہ شکر ادا کیا ، فتنہ خلق قرآن کے مشہور منفی کردار ابن ابی داود کی بیماری پر مسلمانوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ وغیرہ ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
اس موضوع پر تعلیم نبوت کی ایک کرن :

عن أبي قتادة بن ربعي الأنصاري، أنه كان يحدث: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم مر عليه بجنازة، فقال: «مستريح ومستراح منه» قالوا: يا رسول الله، ما المستريح والمستراح منه؟ قال: «العبد المؤمن يستريح من نصب الدنيا وأذاها إلى رحمة الله، والعبد الفاجر يستريح منه العباد والبلاد، والشجر والدواب»
(رواه البخاري 6512 )
ترجمہ ( جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب سے لوگ ایک جنازہ لے کر گزرے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ «مستريح» یا «مستراح» ہے یعنی اسے آرام مل گیا، یا اس سے آرام مل گیا۔
صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ”المستریح او المستراح منہ“ کا کیا مطلب ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن بندہ دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے اللہ کی رحمت میں نجات پا جاتا ہے وہ «مستريح» ہے اور «مستراح» منہ وہ ہے کہ فاجر بندہ سے اللہ کے بندے، شہر، درخت اور چوپائے سب آرام پا جاتے ہیں۔ ))

نیز دیکھئے صحیح مسلم ،مؤطا امام مالکؒ ، مسند احمد ، السنن الکبریٰ للنسائیؒ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ـــــــــــــــــــــــــــــ
شرح :
حديث: (مستريح ، ومستراح منه).
[مَالِكٍ عَنْ أَبِي قَتَادَةَ بْنِ رِبْعِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ
أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مُرَّ عَلَيْهِ بِجِنَازَةٍ ، فَقَالَ: مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ !
قَالُوا : يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْمُسْتَرِيحُ وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ؟
قَالَ : الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَأَذَاهَا إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ ، وَالْعَبْدُ الْفَاجِرُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ ].
رواه البخاري ومسلم ومالك وأحمد والنسائي والبيهقي في السنن الكبرى وشعب الإيمان .
وفي رواية للنسائي : [الْمُؤْمِنُ يَمُوتُ فَيَسْتَرِيحُ مِنْ أَوْصَابِ الدُّنْيَا وَنَصَبِهَا وَأَذَاهَا].
وفي رواية لأحمد : [ الْعَبْدُ الصَّالِحُ يَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا ].
وفي رواية للبيهقي في " شعب الإيمان " : [والعبد الكافر يستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب ].
وعند ابن حبان : [المؤمن يموت ويستريح من أوصاب الدنيا وبلائها ومصيباتها ، والكافر يموت فيستريح منه العباد والبلاد والشجر والدواب ].
قال أبو الوليد الباجي في " المنتقى شرح الموطأ " :
[ قَوْلُهُ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم- لَمَّا رَأَى الْجِنَازَةَ- :
(مُسْتَرِيحٌ وَمُسْتَرَاحٌ مِنْهُ) ، يُرِيدُ أَنَّ مَنْ تُوُفِّيَ مِنْ النَّاسِ عَلَى ضَرْبَيْنِ : ضَرْبٌ يَسْتَرِيحُ ، وَضَرْبٌ يُسْتَرَاحُ مِنْهُ ؛ فَسَأَلُوهُ عَنْ تَفْسِيرِ مُرَادِهِ بِذَلِكَ ، فَأَخْبَرَ أَنَّ الْمُسْتَرِيحَ هُوَ الْعَبْدُ الْمُؤْمِنُ يَصِيرُ إِلَى رَحْمَةِ اللَّهِ ، وَمَا أَعَدَّ لَهُ مِنْ الْجَنَّةِ وَالنِّعْمَةِ ، وَيَسْتَرِيحُ مِنْ نَصَبِ الدُّنْيَا وَتَعَبِهَا وَأَذَاهَا.
وَالْمُسْتَرَاحُ مِنْهُ هُوَ الْعَبْدُ الْفَاجِرُ ، فَإِنَّهُ يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ وَالْبِلَادُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ أَذَاهُ لِلْعِبَادِ بِظُلْمِهِمْ ، وَأَذَاهُ لِلْأَرْضِ وَالشَّجَرِ بِغَصْبِهَا مِنْ حَقِّهَا وَصَرْفِهَا إِلَى غَيْرِ وَجْهِهَا ، وَإِتْعَابِ الدَّوَابِّ بِمَا لَا يَجُوزُ لَهُ مِنْ ذَلِكَ فَهَذَا مُسْتَرَاحٌ مِنْهُ ، وَقَالَ الدَّاوُدِيُّ مَعْنَى يَسْتَرِيحُ مِنْهُ الْعِبَادُ أَنَّهُمْ يَسْتَرِيحُونَ مِمَّا يَأْتِي بِهِ مِنْ الْمُنْكَرِ ، فَإِنْ أَنْكَرُوا عَلَيْهِ نَالَهُمْ أَذَاهُ ، وَإِنْ تَرَكُوهُ أَثِمُوا ؛ وَاسْتِرَاحَةُ الْبِلَادِ أَنَّهُ بِمَا يَأْتِي مِنْ الْمَعَاصِي تَخْرُبُ الْأَرْضُ فَيَهْلِكُ لِذَلِكَ الْحَرْثُ وَالنَّسْلُ ؛ وَهَذَا الَّذِي ذَكَرَهُ فِيهِ نَظَرٌ ؛ لِأَنَّ مَنْ نَالَهُ الْأَذَى مِنْ أَهْلِ الْمُنْكَرِ لَا يَأْثَمُ بِتَرْكِ الْإِنْكَارِ عَلَيْهِمْ وَيَكْفِيه أَنْ يُنْكِرَهُ بِقَلْبِهِ أَوْ بِوَجْهٍ لَا يَنَالُهُ بِهِ أَذَاهُ ؛

ــــــــــــــــــــــــــــــ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عاصمہ جہانگیر کون تھیں؟

ایک فرد کی حیثیت سے وہ جو کچھ بھی تھیں ان کا اور ان کے رب کا معاملہ ہے لیکن لبرل طبقہ ان کو جس طرح ہیرو بنا کے پیش کر رہا ہے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے چند حقائق پیش نظر رہیں
عاصمہ جہانگیر کا اصل تعارف ان کی اسلام بیزاری تھی۔وہ اسلامی احکامات کو برملا رجعت پسندی اور پسماندہ بیان کرتی۔تھیں۔
ان کی شادی ایک قادیانی جہانگیر سے ہوئی تھی یہاں تک ےو ان کا زاتی معاملہ تھا لیکن وہ ساری عمر قانون ختم نبوت کے خلاف بر سر پیکار رہیں۔اس قانون کو اور ائین کی دفعات باسٹھ تریسٹھ کے خلاف مہم جوئی کے دوران عاصمہ کی دلیل یہ ہوتی تھی کہ یہ ایک ڈکٹیٹر کا بنایا ہوا قامون ہے لیکن اسی عاصمہ نے ایک اور ڈکٹیٹر مشرف کی طرف سے قومی اسمبلی میں ستر خواتین کے اضافے کو کبھی ہدگ تنقید نہیں بنایا۔عاصمہ پاکستان میں تو دینی تعلیمات پر عمل کرنے کے مطالبے کو زاتی معاملات میں مداخلت سمجھتی رہی ہیں لیکن بھارت جا کر گانھی کے مجسمے کے چرنوں میں بیٹھ کر ہندوانہ عبادت کرنا اور اس کی تصاویر میڈیا پہ جاری کرنا نہیں بھولیں۔یوں تو وہ انسانی حقوق کی چمپئن بنتی تھیں لیکن یہ انسانی حقوق وہی ہوتے تھے جو اسلام اور پاکستان دشمنی پر مبنی ہو۔گستاخی کی مرتکب اسیہ پر مقدمہ چلایا گیا تو عاصمہ اس کے غم میں ہلکان ہو گئی لیکن ڈاکٹر عافیہ کو بیچنے سے لیکر امریکی تاریخ کی سب سے بڑی سزا دینے پہ عاصمہ کو سانپ سونگھ گیا تھا۔پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والے بلوچوں کے خلاف کاروایی ہوئی تو عاصمہ کو انسانی حقوق یاد ا گئے لیکن قبائلی عوام پر بمباری اور ہزاروں بے گناہوں کے قتل پر عاصمہ کو موم بتی جلانا یاد رہا نہ احتجاج کرنا۔گستاخ باگرز کو پکڑا گیا تو عاصمہ کو شہری حقوق یاد ا گئے لیکن پنجاب میں شریف برادران اور کراچی میں راو انوار اینڈ کمپنی کی طرف سے ماورائے عدالت قتل عام کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولیں۔ہر بات کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والی عاصمہ اس وقت گم ہو گئی جب عدالت نے قرار دیا کہ سوات میں لڑکی کو کوڑے مارنے کا واقعہ غلط تھا۔جب ممتاز قادری کو پھانسی کی سزا سنائی گئی تو عاصمہ روز کسی چینل پر جلوہ گر ہو کر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرتی لیکن اسیہ کی سزا اور زینب کے قاتل کی سزا کے خلاف ایک ہفتہ پہلے تک دلائل بکھیرتی رہیں۔زینب کے قاتل کو پھانسی دینے کی بات ہوئ تو کہا سزا اس مسئلے کا حل نہیں ہے ان حالات کا جائزہ لیا جائے جن میں واقعات ہوتے ہیں
مشال کے قاتلوں کی سزا کی بات ہوئ تو اسے عین وقت کی ضرورت قرار دیا۔کہا جاتا ہے وہ پاکستان کے طاقتور طبقات کے خلاف جرات سے اواز اٹھاتی تھیں
یہ سچ ہے لیکن یہ ادھا سچ ہے پورا سچ یہ ہے کہ وہ ان سے بھی زیادہ طاقتور عالمی اسٹبلشمنٹ کی الہ کار کی حیثیت سے اپنی ڈیوٹی نبھا رہی تھیں۔اسلامی اقدار تہزیب اور اسلام بطور نظام زندگی کے تصور کے خلاف ختم نبوت قانون اور اسلامائزیشن کے لیے ہونے والی لسی پیشرفت کے خلاف مہم جوئی ان کو یے گئے اہداف میں شامل تھا۔سوال کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کا قصاب مودی کون سی خدمات کے عوض ان کی بلائیں لیتا رہا۔
مجھے معلوم ہے کہ میری ان سطور پر کچھ ناصح فورن کہیں گے بعد از مرگ خامیاں بیان نہیں کرنی چاہیں لیکن کاش ملا عمر ملا منصور اور ممتاز قادری کی موت پر بھی اخلاقیات کا یہ درس سب کو یاد رہتا۔جب ایک متنازعہ ترین عورت کو میڈیا کے زور پر ہیرو بنانے کی سعی لا حاصل کی جائے گی تو خاموشی جرم بن جاتی ہے۔
سردار محمد حلیم خان
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
’ لبرلز سے شدید نفرت ‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
والے الفاظ کئی سالوں سے فیس بک تعارف میں موجود ہیں ، عاصمہ جہانگیر نے پچھلے سال انہیں دنوں جب ایک طنزیہ جملہ کہا تھا ، اس پر ایک مضمون بھی لکھا تھا ،’ مسجدوں میں امام اور عدالتوں میں قاضی ‘
ٹاک شوز اور اخبارات اور فیس بک سٹیٹس میں یہ جنگ اسی وقت سے شروع ہے ، جب سے یہ پلیٹ فارم موجود ہیں ، لہذا کوئی یہ نہ کہے کہ کسی کے مرنے کےبعد ہمیں اسلام پسندی کے اظہار یا اسلام بیزاروں سے بیزاری کا اظہار کرنا یاد آیا ہے ۔
دو دن پہلے ہی محترم ہشام الہی ظہیر صاحب نے جب ایک لبرل خاتون فرزانہ باری کے خوب لتے لیے تھے ، اور ٹاک شو میں موم بتی مافیان کی بینڈ بجائی تھی ، تو میں نے عرض کیا ، یہی باتیں ایک بار فلاں فلاں لبرلز کی موجودگی میں بھی ہوجانی چاہییں ، جن میں اس عاصمہ جہانگیر کا بھی نام موجود تھا۔
ماہنامہ محدث کے کاٹ دار لکھاری مولانا عطاء اللہ صدیقی مرحوم اس وقت سے اس کا پردہ چاک کرتے رہے ہیں ، جب سے یہ ان سرگرمیوں میں مبتلا ہے ۔ محدث فورم کا یہ ہیش ٹیگ ملاحظہ کریں :
http://forum.mohaddis.com/tags/yasm-ganr/
معاف کرنا ہے ، تو اپنے ذاتی / جماعتی / کاروباری دشمنوں کو معاف کرو ، صدقہ خیرات کرو ، لوگوں سے جوتے کھا کر انہیں دعائیں دو ، لیکن دین کے دشمنوں کے ساتھ ہمدردیاں ، اور دریا دلیاں کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے ۔
بہر صورت عاصمہ جہانگیر کی یہ کرامت ہی ہے کہ جس طبقے کو ساری عمر گالیاں دیتی رہی ، اسی طبقے میں سے اس کے ہمدرد اس کے حق میں احادیث نکال کر لا رہے ہیں ،
خیر ، اس ضمن میں جو حدیث پیش کی جاتی ہے ، اس کی شرح ملاحظہ کریں:
قال بدر الدين العيني – رحمه الله - :
فإن قيل : كيف يجوز ذكر شر الموتى مع ورود الحديث الصحيح عن زيد بن أرقم في النهي عن سب الموتى وذكرهم إلا بخير ؟ وأجيب : بأن النهي عن سب الأموات غير المنافق والكافر والمجاهر بالفسق أو بالبدعة ، فإن هؤلاء لا يحرُم ذكرُهم بالشر للحذر من طريقهم ومن الاقتداء بهم .

" عمدة القاري شرح صحيح البخاري " ( 8 / 195 ).
افسوس تو یہ ہے کہ ’ اسلام پسند طبقہ ‘ عاصمہ جانگیر کی خوبیوں سے تو واقف ہے ، لیکن اس قسم کے لوگوں کے مرنے پر صحابہ کرام اور اسلامی شخصیات کا کیا رد عمل تھا ، یہ باتیں ، یا تو انہیں معلوم نہیں ، یا پھر تجاہل عارفانہ سے کام لے رہے ہیں ۔
اسلاف نے تو یہاں تک کہا کہ بے نماز کو مسلمانوں کےقبرستان میں دفن نہ کرو ، لیکن کچھ لوگ اعداء اسلام سے نفرت کے اظہار پر بھی چیں بہ چیں ہوکر اسلاف کی تعلیمات سے بےبہرہ ہونے کا ثبوت دے رہے ہیں ۔
مثالیں بہت زیادہ ہیں ، لیکن صرف قبرستان میں دفن نہ کرنے والی بات پر ذرا دماغ کی کھڑکی کو کھولیں تو کافی افاقہ ہوجائے گا۔
عبد اللہ بن ابی کے جنازے والی مثال یاد ہے ، لیکن اس پر قرآن کریم میں زجر و توبیخ نظر انداز کی جارہی ہے ۔
اصولی بات عرض کر چکے کہ حکم ظاہر پر ہے ، اس کی اسلام دشمنی کی گواہیاں ہر جگہ پر ثبت ہیں ، رہی بات اللہ کی عدالت کی ، اگر واقعتا وہ اندر سے ’ رابعہ بصری ‘ تھی ، تو ’ علیم بذات الصدور ‘ فقط اللہ کی ذات ہے ۔
ہمارے نزدیک یہ بات شخصیات کی نہیں ، دو سوچوں کی جنگ ہے ، یہاں ہم نے ’ ممتازی قادری ‘ کو درست اور ’ سلمان تاثیر ‘کو غلط کہنا ہی کہنا ہے ۔
ابو جہل ، ابو لہب ، عبد اللہ بن ابی ، جہم بن صفوان ، بشر المریسی جیسے لوگوں کے لیے مرنے کے بعد ’ گنجائش ‘ نہیں نکلی ، تو اب بھی کسی کے لیے نہیں نکلے گی۔
رہی ان لوگوں کی بات ، جنہوں نے ہر کسی کے لیے گنجائش نکالنی ہوتی ہے ، تو ان کے نزدیک تو گنجائش کا معیار ہی اس قدر عجیب ہے کہ اس کے لیے مسلمان ہونا بھی ضروری نہیں ۔
ایک معصوم طبقہ وہ بھی ہے جو خود ’ بول کر ‘ دوسروں کو ’ خاموشی ‘ کی تلقین کر رہا ہے ۔
مطلب عاصمہ جہانگیر بڑی نڈر بے باک تھی ، اس کی فلاں فلاں خوبیاں تھیں ، جب یہ باتیں ہورہی ہوں ،تو وہ واقعتا خاموش رہتے ہیں ، اور جب اس کی مذمت بیان کی جائے تو پھر ’ خاموش کروانے ‘ میں لگ جاتے ہیں ۔
 

سجاد

رکن
شمولیت
جولائی 04، 2014
پیغامات
160
ری ایکشن اسکور
71
پوائنٹ
76
#عاصمہ_جہانگر
#اسلام_بیزار
اسلام بیزار کے مرنے پر اظہار دکھ یا ہمدردی میں کوئی خاص اسلامی لفظ نہ بولا جائے، ساری عمر جو اسلامی الفاظ و کلمات سے چڑتی رہی، اسلامی شعار کی دشمن بن کر رہی، اسلامی معاشرت کی تضحیک اڑاتی رھی ایسی عورت کے لیئے اسلامی کلمات ادا کرکے اس کی روح کو اذیت نہ دیں کہ آپ کے اچھے اسلامی کلمات سے کہیں اسکی روح بھی چِڑ نہ کھا جائے.
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا ؟


عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ 13فروری (2018) بروز منگل قذافی سٹیڈیم میں ادا کی جائے گی جبکہ خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی نماز جناز ہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے فرزند حیدر فاروق مودودی پڑھائیں گے۔ حیدر فاروق مودودی اور عاصمہ جہانگیر کے خاندانی مراسم تھے اور دونوں خاندان کئی دہائیوں کے ساتھ ایک دوسرے کے کافی قریب رہے ہیں اور عاصمہ جہانگیر اکثر و بیشتر حیدر فاروق مودودی کی رہائش گاہ پر دیکھی جاتی رہی ہیں ۔
(بحوالہ رزنامہ پاکستان )
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ کون پڑھائے گا ؟


عاصمہ جہانگیر کی نماز جنازہ 13فروری (2018) بروز منگل قذافی سٹیڈیم میں ادا کی جائے گی جبکہ خاندانی ذرائع کے مطابق ان کی نماز جناز ہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی کے فرزند حیدر فاروق مودودی پڑھائیں گے۔ حیدر فاروق مودودی اور عاصمہ جہانگیر کے خاندانی مراسم تھے اور دونوں خاندان کئی دہائیوں کے ساتھ ایک دوسرے کے کافی قریب رہے ہیں اور عاصمہ جہانگیر اکثر و بیشتر حیدر فاروق مودودی کی رہائش گاہ پر دیکھی جاتی رہی ہیں ۔
(بحوالہ رزنامہ پاکستان )
باپ کا عِلم نہ بیٹے کو اگر اَزبر ہو
پھر پِسر قابلِ میراثِ پدر کیونکر ہو!
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
عاصمہ جہانگیر کے بارے میں غور طلب امور

اللہ مالک الملک جس کو چاہے معاف کرے ، جسے چاہے عذاب دے ، یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ اخروی اور برزخی معاملات میں فیصلے کا اختیار مخلوق کے پاس نہیں ، خالق کے پاس ہے۔
لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ کسی کے غلط عقائد و نظریات سے صرف نظر کر لیا جائے۔ لہٰذا کسی بھی مرنے والے کے ظاہری اقوال و افعال کو مد نظر رکھتے ہوئے ، کسی فیصلے پر پہنچنا ضروری ہے ۔ اہل علم و دانش کی یہ ذمہ داری ہے کہ ظاہری قرائن کی روشنی میں حقائق کو واضح کرنے کے لیے رائے دیں ۔
چنانچہ عاصمہ جہانگیر کے عقائد و نظریات اور اسکی زندگی کی تگ و تاز کے مطالعہ کے بعد درج ذیل حقائق سامنے آتے ہیں کہ موصوفہ :
1۔ شریعت محمدی میں کھلم کھلا من مانی کرتی تھیں ، اور تاریخ شاہد ھے کہ انہوں نے عورت کی آدھی گواہی کے قرآنی قانون کے خلاف شور مچایا۔
2 ۔ کئی دفعہ اشاروں کنایوں میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کی ، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت اُمّی کا بھی استہزاء کیا۔ اسی طرح بلاگرز کے خلاف جسٹس صدیقی کے فیصلہ پر ناروا تنقید کی۔
3۔ اسلامی شعائر کا مذاق اڑانے والی تھیں ، سزائے موت کی منکر تھیں۔ یہاں تک کہ معصوم بچوں کی آبرو ریزی کرنے والوں اور سفاکی کے ساتھ قتل کرنے والوں کے قتل کی بھی مخالف تھیں اور عدلیہ میں مذہبی عناصر کا مذاق اڑاتی تھیں۔
4۔ اعلانیہ ایک قادیانی کی بیوی تھیں ، جبکہ.کوئی مسلم عورت کسی کافر سے نکاح نہیں کرسکتی ۔
5۔ گستاخان رسول کی پشت پناہی کی۔ جیسے کہ ملعونہ آسیہ کی حمایت کرنا سب کے سامنے ہے۔
6۔ بذات خود مذہب سے بیزاری کا اظہار کرتی رہیں کہ ’ میں تمام مذہبوں کو ایک جیسا سمجھتی ہوں ، میرا اپنا کوئی مذہب ہے ہی نہیں ‘ گویا یہ دین برحق اسلام اور دوسرے ادیان و مذاہب میں فرق نہیں سمجھتی تھیں ، سب کو ایک جیسا مانتی تھیں ۔
7۔عمر بھر توہین رسالت اور ختم نبوت اور دیگر اسلامی قوانین کے خلاف عملی جدو جہد کا حصہ رہیں۔ بلکہ امتناع قادیانیت آرڈیننس کے خلاف عدالت میں گئیں۔
8۔ پاکستان کے نظریہ کی نفی کرتی رہیں اور پاکستان کو سیکولر اسٹیٹ قرار دینے کی جدوجہد میں ملکی اداروں کی ، گالی کی حد تک مخالفت کرتی رہیں۔
9-مبینہ طور پر پاکستان توڑنے کی قرار داد شیخ مجیب نے ان کے والد کے گھر میں بیٹھ کر تیار کی تھی۔ اسی قسم کی کاوشوں کے تناظر میں بنگالی حکومت نے انہیں ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔
ان نو نکات کی روشنی میں ہر ایک مسلمان بخوبی فیصلہ کر سکتا ہے کہ
ایسی میّت کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے یا انکی موت سے عبرت حاصل کرنی چاہیے اور اس قسم کے عناصر سے کلی برات کا اظہار کرنا چاہیے ؟
ہر درد مند مسلمان کو اپنے ضمیر سے پوچھنا چاہیے کہ اللہ اور اسکے رسول کی اعلانیہ مخالفت اور پھر ملک و ملت سے غداری کرنے والے ہماری محبت کے حقدار ہیں یا ہمیں ان سے برات کا اظہار کرنا چاہیے۔
علامہ حافظ ابتسام الہی ظہیر
اس تحریر کی تائید کرنے والے علمائے کرام :
1. شیخ مفتی عبد الستار حماد ( میاں چنوں )
2. مولانا شاہ شفیق الرحمن دراوی ( مکہ مکرمہ )
3. شیخ مفتی مبشر احمد ربانی ( لاہور)
4. پروفیسر ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ ( لاہور)
5. علامہ حافظ ہشام الہی ظہیر ( لاہور)
6. مولانا انجینئر عبد القدوس سلفی (اسلام آباد)
7. قاری ابو انشاء خلیل الرحمن جاوید ( کراچی )
8. حافظ عابد الہی ( گوجرانوالہ )
9. مولانا حبیب الرحمن خلیق ( فیصل آباد )
10. مولانا یحیٰ عارفی ( لاہور)
11. ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ( لاہور )
12. ڈاکٹر فیض الابرار صدیقی ( کراچی )
13. حافظ ضیاء اللہ برنی روپڑی ( لاہور )
14. حافظ شاہد رفیق ( گوجرانوالہ )
15. حافظ ارشد محمود ( گوجرانوالہ )
16. حافظ عبد المنان ثاقب ( ماموں کانجن )
17. مولانا عبد الرحمن ثاقب ( سکھر )
18. مولانا عبد الحفیظ روپڑی ( کراچی )
19. مولانا ابوبکر قدوسی ( لاہور)
20. حافظ خضر حیات ( مدینہ منورہ)
21. مولانا محمد احمد صدیق ( حویلی لکھا)
22. مولانا رفیق طاہر ( ملتان )
23. مولانا عبد المنان راسخ ( فیصل آباد)
24. حافظ عبید اللہ ارشد ( لاہور)
25. مولانا شفقت الرحمن مغل ( مدینہ منورہ)
26. حافظ اظہارالحق ( مریدکے)
27. پروفیسر حافظ محمد اسلم ربانی ( ڈسکہ)
28. حافظ عبد القیوم عبد الغفور ( جدہ )
29. حافظ سیف اللہ ارشد ( لاہور)
30. مولانا ابو ذکوان عبد الستار مدنی ( مدینہ )
31. مولانا ابو محمد احسان اللہ ( جنوبی کوریا )
32. مولانا نوید شوکت ( برطانیہ)
33. مولانا حماد الحق نعیم ( لاہور)
34. مولانا غلام مصطفی فاروق ( سمبڑیال)
35. مولانا عبد اللطیف ( کراچی )
36. مولانا طاہر طیب بھٹوی ( گوجرانوالہ )
37. مولانا شفیع طاہر (چونیاں )
38. مولانا حمید اللہ خان عزیز (احمد پور شرقیہ )
39. حافظ معتصم الہی ظہیر ( لاہور )
40. ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی ( لاہور)
41 ابو معاذ حنیف ( سعودی عرب )
وضاحت : یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ تحریر انہیں لوگوں کے لیے ہے جو مسائل میں اہل علم اور علما کی رائے جاننے کی خواہش رکھتے ہیں ـ
جن کے نزدیک ایسے مسائل میں علما یا قرآن وسنت اور اسلامی روایات کی کوئی حیثیت نہیں ، وہ خود کو اس تحریر کا مخاطب نہ سمجھیں ۔​
 
Last edited:
Top