عافیہ جسے میں نے دیکھا:1
عافیہ.... تو آبروئے امتِ مرحوم ہے!
تحریر: ابو السبایا
عافیہ تو قید تھی ہی، یہ مضمون لکھنے والا ایک نہایت پیارا بھائی بھی اس وقت ”ٹیرر ازم“ کے گھناؤنے الزام کے تحت امریکہ کے اندر قید میں چلا گیا ہے۔ اِس کی رہائی کیلئے بھی اللہ سے دعا کریں۔ اللھم فک کید اسرانا وارجعھم الینا سالمین غانمین آمنین۔آمین
رسول اللہ کے زمانے میں اسلام قبول کرنے والے لوگ دو طرح کے ہوتے تھے: ایک وہ جو مسلمان ہونے کے باوجود اپنے علاقوں میں اپنے ہی لوگوں میں بستے رہتے اور دین کے بنیادی ارکان پر عمل پیرا رہتے۔ دوسرے وہ جو ہجرت کرتے اور رسول اللہ ﷺ کی مہمات اور جدوجہد کا حصہ بنتے۔ احادیث سے پتا چلتا ہے کہ آپ کا رویہ اور معاملہ دونوں گروہوں سے الگ الگ تھا۔ مثال کے طور پر امام مسلم اور امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی فوجی یونٹ کے کمانڈر کا تقرر کرتے، تو اسے دشمن کے جو لوگ مسلمان ہو جائیں انکے بارے میں ہدایات بھی کرتے۔ چنانچہ آپ فرماتے: ” اِنہیں اپنے علاقے چھوڑ کر مہاجرین کی سرزمین کی طرف ہجرت کی دعوت دینا، اِنہیں بتانا کہ اگر وہ ایسا کریں تو ان کے وہی حقوق اور فرائض ہونگے جو مہاجرین کے ہیں۔ اگر وہ ایسا نہ کریں ، تو اِنہیں بتانا کہ ان کی حیثیت اعرابیوں (بدوؤں) کی ہوگی، اور ان پر باقی مومنوں کی طرح اللہ کا قانون نافذ کیا جائے گا“ ۔
یہ تفریق صرف اس بنا پر تھی کہ ایک گروہ نے اپنے کاندھوں پر کچھ ذمہ داریاں اٹھا لی تھیں، جب کہ دوسرے فریق نے کم عملی کی وجہ سے اپنے آپ کو ایک بہت انفرادی، علاقائی اور بے ضرر مذہب تک محدود کر لیا تھا۔ خلاصہ کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رسول اللہ نے اس وقت کے مسلمانوں کے عمل کو دو طرز پر تقسیم کر دیا تھا: دین المھاجرین ( جس پر عمل پیرا لوگ اپنے کاندھوں پر اسلام کی نصرت اور فتح کی ذمہ داریاں اٹھائے ہوئے تھے) اور بدوؤں کا دین (دین الاعراب : جس پر عمل پیرا لوگ بنیادی چیزوں سے آگے نہ بڑھتے)
حالانکہ یہ صورت حال آج سے چودہ سو سال پہلے کی ہے ، مگر غور کیا جائے تو یہ ایک دائمی تفریق ہے جو مسلمانوں کو ہمیشہ انہی دو طبقوں میں ہر جگہ اور ہر وقت تقسیم کرتی ہے۔ اسی لئے آپ محسوس کریں گے کہ باعمل مسلمان بھی ، چاہے وہ مغرب میں ہوں یا مشرق میں، انہی دو طبقوں میں منقسم پائے جائیں گے۔ ماضی کا دین الاعراب آج کے اس اسلام کے مشابہ ہے جو کہ ارکان خمسہ، حلال گوشت اور محلے کی مسجد کو صاف رکھنے تک محدود ہے۔ مغرب میں تو ایسے مسلمان کا ملنا بھی مشکل ہے، تو ذرا آنکھوں اور دل کو ملنے والے اس سرور اور خوشی کا اندازہ کیجئے جو ان مسلمانوں کو دیکھ کر ملتی ہے جو ایک قدم آگے بڑھ کر دین المھاجرین تک پہنچ گئے ہیں، جن کو تمام امت کی فکر ہے اور جس فکر نے اسے کھڑا ہونے پر آمادہ کیا۔ چنانچہ یہ ہیں وہ لوگ جو اسلام کے فعال کارکن بن جاتے ہیں۔ یہ اپنا ہر پل اللہ کی بندگی میں صرف کرتے ہیں چاہے جیسے بھی کر پائیں، چاہے انکی زندگی میں اور کتنی ہی مصروفیات اور ذمہ داریاں ہوں۔ ان کے دل باقی مسلمانوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنے سروں کو بلند رکھتے ہوئے کرتے ہیں اور اپنے ارد گرد جانوروں کی طرح رہنے والے انسانوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ کسی عرب شاعر نے کیا خوب کہا تھا:
ہکذا الاحرار فی دنیا العبید
غلاموں کی دنیا میں آزاد لوگ اسی طرح رہا کرتے ہیں
حال ہی میں تمام دنیا ایک ایسی ہی شخصیت کے بارے میں بات کر رہی ہے ۔ ایک چھوٹے سے قد کی نحیف سی کالج کی طالبہ، جو ایک بیوی اور تین چھوٹے چھوٹے بچوں کی ماں بھی ہے۔ اس کا نام عافیہ صدیقی ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ بھی اس کہانی کی طرف میری طرح کھچے چلے آئیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس خاتون کی اسلام کے لئے تڑپ اور خلوص کو اسکو جاننے والوں کی طرح جان جائیں۔ یہ ایک ایسا خلوص تھا جو اسکے ایسے اعمال سے عیاں تھا جو دیکھنے میں توبہت آسان اور معمولی تھے، مگر جن کے کرنے کے یہ کام ہوتے ہیں وہ بہت ہی کم کرتے ہیں!
جو لوگ عافیہ کو جانتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ وہ ایک بہت چھوٹے قد کی، خاموش طبع، باتہذیب اور شرمیلی خاتون تھی، جسے محفل میں کوئی مشکل سے ہی نوٹ کرسکتا تھا۔ مگر یہی لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اگر موقع پر کچھ کہنے کی ضرورت پڑتی تو پیچھے بھی نہ ہٹتی تھی۔ ایک مرتبہ وہ مسجد میں بوسنیا کے یتیم بچوں کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کے لئے تقریر کر رہی تھی۔ تقریر کے دوران اس نے وہاں موجود مرد سامعین سے بھی گلا کر ڈالا : ” کہاں ہیں مرد؟ مجھے ہی کیوں یہاں کھڑے ہو کر یہ کام کرنا پڑ رہا ہے؟ اور بات بھی اسکی ٹھیک تھی۔ وہ مسلمان بھائیوں سے بھرے معاشرے میں ایک ماں، ایک بیوی اور ایک طالبہ ہی تو تھی۔ وہ بھائی جو اسلام کے کسی کام کے نہ تھے....
جب وہ MIT یونیورسٹی (امریکہ میں واقعہ دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک) میں طالبہ تھی تو اس نے مقامی جیلوں میں قید مسلمانوں تک قرآن کریم اور دیگر اسلامی مواد پہنچانے کا پروگرام مرتب کیا۔ وہ یہ مواد ایک مقامی مسجد تک پہنچانے کا بندوبست کرتی اور پھر خود ہی مسجد جا کر وہ بھاری بکسے تنہا اٹھا کر سیڑھیوں سے تین منزلیں نیچے رکھ کر آتی۔ سبحان اللہ ! دیکھئے اللہ نے اس کا کیا مقدر لکھا تھا : یہی عورت جو اتنا وقت اور توانائی مسلمان قیدیوں کے لئے صرف کرتی تھی آج وہ خود قید ہے! (یا اللہ اس کو رہائی دے دیں! )
یونیورسٹی کے اندر بھی اسکی اسلام سے لگن نمایاں تھی۔ 2004 ءمیں Boston Magazine (بوسٹن میگزین) میں شائع ہونے والا ایک مضمون کہتا ہے: ” جو ممبران دوسروں کو اسلامی تعلیم دینا چاہتے تھے، ان کے لئے عافیہ نے تین گائیڈ (معلوماتی کتابیں) لکھے۔ گروپ کی ویب سایٹ پر اس نے (اسلامی) دعوت ٹیبل چلانے کا طریقہ بیان کیا۔ یہ ٹیبل دراصل ایک معلوماتی اور استقبالیہ میز تھی جو کہ اسکولوں میں لگائی جاتی۔ اس میز پر موجود مسلمان غیر مسلموں کو اسلام کے بارے میں بتاتے اور انھیں مسلمان ہونے پر آمادہ کرتے“۔ مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ وہ گائیڈ جو عافیہ نے لکھے کیے تھے، ان میں سے ایک میں لکھا تھا:” ذرا سوچیں! ہمارا یہ حقیر مگر پر خلوص دعوتی کام اگر کل کو اس ملک کی ایک بڑی دعوتی تحریک بن جائے! بس ذرا سا تخیل کریں! اور ہم کتنا ثواب کما لیں گے ان تمام لوگوں کا جو ہماری اس تحریک کے ذریعے آنے والے سالوں میں مسلمان ہوں گے۔ بڑی سوچ رکھیں اور بڑے منصوبے بنائیں۔ اللہ ہمیں یہ قوت اور اخلاص عطا فرمائے کہ ہم اپنے مخلصانہ اور خاکسار کام کو جاری رکھیں اور اسے پھیلائیں یہاں تک کہ امریکہ ایک مسلمان ملک بن جائے“ !
اللہ اکبر.... دیکھئے اس ہمت اور عزم کو.... دیکھئے ان اونچے ارادوں اور مقاصد کو! بحیثیت ایک مرد کے ہمیں شرم آنی چاہیے کہ یہ سبق ہمیں ایک بہن سے سیکھنا پڑ رہا ہے۔
ہفتے میں ایک مرتبہ اتوار کے روز وہ اپنے راستے سے قدرے ہٹ کے مقامی مسلمان بچوں کو پڑھانے گاڑی چلا کے جاتی تھی۔ مجھے ایک مسلمان بہن نے بتایا جو کہ عافیہ کے حلقوں میں حاضر ہوا کرتی تھی کہ: ” عافیہ اپنے راستے سے دور اس لئے نہیں جایا کرتی تھیں کہ لوگ انھیں دیکھیں یا وہ کسی کی دوست بن جائیں بلکہ وہ محض اس لئے یہاں آتیں تھی کہ لوگوں کو اسلام کی تعلیم دیں، حالانکہ انگریزی انکی مادری زبان بھی نہ تھی“۔
ایک اور بہن جو عافیہ کے حلقے اٹینڈ کرتی تھی، کہتی ہے : وہ ہمیں کہا کرتی تھیں کہ کبھی اس بات پر ( پشیمان ہو کر) بہانے نہ بنانا کہ تم کون ہو( یعنی مسلمان ہونے پر) ۔ امریکی کمزور لوگوں کی کوئی عزت نہیں کرتے۔ امریکی صرف تب ہماری عزت کریں گے جب ہم کھڑے ہوں اور مضبوط ہوں۔
اللہ اکبر.. .یا اللہ اس بہن کو رہائی دے دیں!