سازشی مفروضوں کا شرک
http://dawatehaq.net/?p=8650
ہم جب کس چیز کا ارادہ کرتے ہیں تو صرف ہمارا یہ کہہ دینا کافی ہوتاہے کہ ہو جا، پس وہ ہو جاتی ہے” (النحل: 40)
“وہ زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے والا ہے، وہ جس کام کو کرنا چاہے کہہ دیتا ہے کہ ہو جا، پس وہی ہو جاتا ہے” (البقرۃ: 117)
“اور وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو برحق پیدا کیا، اور جس وقت وہ فرماتا ہے ہو جا تو وہ ہو جاتا ہے،اسی کا قول حق ہے اور اسی کا ملک ہے جس دن صور پھونکا جائے گا، اللہ ہی کوپوشیدہ اورظاہر کا علم ہے اور وہی حکمتوں والا اور خبرداری رکھنے والا ہے” (الانعام: 73)
“وہ جب بھی کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تواتنا فرما دینا (کافی ہے) کہ ہو جا، تو وہ اسی وقت ہو جاتی ہے” (یٰس:82)۔
“غیب کی کنجیاں صرف اسی کے پاس ہیں جنہیں اسکے سوا کوئی نہیں جانتا۔ وہ تری خشکی کی ہر چیز کا علم رکھتاہے، جو پتا بھی جھڑے اسکا بھی علم اسے ہے۔ زمین کے اندھیروں میں کوئی دانہ اور کوئی تری اور خشکی ایسی نہیں جو کھلی کتاب میں نہ ہو” (الانعام: 59)
“آپ کہہ دیجئے کہ میں خود اپنی ذاتِ خاص کیلئے کسی نفع کا اختیار نہیں رکھتا اور نہ کسی ضرر کا، مگر اتنا ہی کہ جتنا اللہ نے چاہاہو، اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو میں بہت سا منافع حاصل کر لیتا اور کوئی ضرر مجھے چھو نہ سکتا” (الاعراف: 188)
“آپ کہہ دیجئےکہ جتنی مخلوقات آسمانوں اور زمین (یعنی تمام عالم) میں ہیں ان میں سے کوئی بھی غیب کی بات نہیں جانتا بجز اللہ تعالیٰ کے” (النمل: 65)
” آپ فرما دیجئے کہ کیوں نہیں، قسم ہے اپنے پروردگار غیب کا علم جاننے والے کی، وہ (قیامت) تم پر ضرور آئے گی، اسکے علم سے کوئی ذرہ برابر بھی غائب نہیں، نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں، اور نہ کوئی چیز اس (مقدارِ مذکور) سے چھوٹی ہے اورنہ کوئی چیز (اس سے) بڑی، مگر سب کتابِ مبین میں (مرقوم) ہے” (سبا: 3)
“کیا ان کے پاس غیب (کا علم) ہے کہ یہ لکھ لیا کرتے ہیں۔ کیا یہ لوگ کچھ برائی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، سو یہ کافر خود ہی (اس) برائی میں گرفتار ہوں گے” (الطور: 41-42)
“آپ کہہ دیجئے کہ نہ تو میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میرے پاس اللہ تعالیٰ کے خزانے ہیں اور نہ میں تمام غیبوں کو جانتا ہوں،اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں، میں تو صرف جو کچھ میرے پاس وحی آتی ہے اس کی اتباع کرتا ہوں” (الانعام: 50)
“آپ فرما دیجئے کہ اگر تم لوگ میرے رب کی رحمت کے خزانوں کے مختار ہوتے تو اس صورت میں تم اسکے خرچ کرنے کے اندیشہ سے ضرور ہاتھ روک لیتے، اور آدمی ہے ہی بڑا تنگ دل” (بنی اسرائیل: 100)۔ “کیا ان لوگوں کے پاس تمہارے رب کے خزانے ہیں یا یہ لوگ (ان پر) حاکم ہیں” (الطور 37)
مطلق طاقت، علم اور ملکیت جیسی صفات صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص ہیں۔ یہ بات مسلمانوں کے ایمان کا حصہ رہی ہے، انسانوں کے جدِِابجدحضرت آدمؑ سے لے کر قیامت سے پہلے آخری مسلمان کے گزر جانے تک صرف اللہ تعالیٰ ہر معاملے کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل سے واقف ہے، وہی تمام معاملات کو چلانے والا ہے، اور ہر بڑی چھوٹی چیز کا مالک ہے۔ جزیرۃ نما عرب کے جاہل بدّووں کو بھی اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ مطلق علم، طاقت اور ملکیت کا مالک صرف اللہ ہے، ہاں مگر وہ بہت سے طریقوں سے شرک میں مبتلا تھے جیسےیہ اعتقاد رکھنا کہ غیب کا کچھ علم نجومیوں کے پاس بھی ہے، یا اپنی فصلوں کی پیداوار اور مویشیوں کا کچھ حصہ بتوں کیلئے وقف کرنا اس اعتقاد پر کہ یہ بت اللہ کے ہاں سفارش کا کچھ اختیار رکھتے ہیں۔ اورجہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ انکے بت، نجومی اور بادشاہ مطلق (یا اس سے قریب) طاقت، علم اور ملکیت رکھتے ہیں، تو اسکا دعوہ تو ان بھٹکے ہوئے جاہلوں نے بھی کبھی نہیں کیا تھا۔
لیکن بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ شرک سے لبریز رویہ بہت سے نام نہاد اسلامی لیڈرز، علماء اور پہلے لوگوں کی طرح عرب قومیت کی طرف دعوت دینے والوں کے دل و دماغ میں سرائیت کر چکا ہے۔ انہوں نے دشمنانِ اسلام کیلئے ربوبیت کی ایسی صفات بیان کرنا شروع کر دی ہیں جوصرف اللہ تعالیٰ کیلئے مخصوص ہیں۔ انکے نزدیک کفار کے پاس مطلق طاقت، علم اور ملکیت ہے جسکے ذریعے وہ اپنی خواہشات کے مطابق کوئی بھی سازش گھڑنے کے بعد اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کی قدرت بھی رکھتے ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح ہے جیسے انکے پاس اللہ تعالیٰ کی طرح “کُن (ہو جا)” کی صفت ہو۔ انکا شر اور برائی جہاد کے معاملے میں اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی مسلمان جہاد کا ارادہ کرتا ہے تو یہ لیڈرز اور علماء فوراً اسے خبردار کرتے ہیں کہ جہاد ایک ایسی سازش ہے جسکے ذریعے مخلص مسلمان نوجوانوں کا خاتمہ مقصود ہے تا کہ اسلامی دنیا صرف سیکولرازم کے حامیوں کیلئے رہ جائے۔ اگر کوئی جہادی جماعت میں شمولیت کا سوچے تو یہ فوراً اسے خبردار کرتے ہیں کہ یہ جہادی گروپ کفار کے بنائے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد کفار کے مفادات اور عظائم کی تکمیل میں مدد کرناہے۔ اگر کفار کے خلاف کوئی جہادی حملہ کیا جائے، جیسا کہ 11 ستمبر کا حملہ تھا، تو یہ اسے بھی کفار کی سازش قرار دیتے ہیں، جسکا بہانہ بنا کر کفار کا اسلامی علاقوں پرجنگ کے ذریعے قبضہ کرنے کا پلان ہے۔ اگر کوئی مجاہد لیڈر شہادت حاصل کرتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ کفار نے اسے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بعد راستے سے ہٹا دیا تا کہ کہیں یہ کفار کی سازشوں کو بے نقاب نہ کر دے۔ اگر مجاہدین کفار کے قبضے سے کوئی علاقہ آزاد کروا لیں تو یہ کہتے ہیں کہ کفار نے خود ہی یہ علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں جانے دیا کیونکہ ایک لمبی جنگ کفار کے مفاد میں ہے۔ اگر مجاہدین نے اسلامی ریاست کا اعلان کیا تو یہ کہیں گے کہ کفار نے اس سلسلے میں ان مجاہدین کی مدد کی جسے بعد میں وہ مسلمانوں کے امور میں اپنی مداخلت کا جواز بناسکیں گے۔ پس ان نظریہ سازوں کے مطابق دنیا میں ہونے والے تمام واقعات کے تانے بانے ان کفار، انکی خفیہ ایجنسیوں، انکی تحقیق، انکی صنعت و حرفت(ٹیکنالوجی)،اور سازشوں میں انکے مددگاروں کے ہاتھوں میں ہیں۔
سازشوں کے بارے میں نظریات اب ایک بہانہ بن گئے ہیں، ایسے بہانے جو جہاد بند کرنے، کفار کی ہیبت کو اپنے اوپر طاری کرنے، بیعت کے فرض کو ساقط کرنے اور دنیا کے پیچھے بھاگنے کا جواز بنا لئے گئے ہیں،اور یہ سب “سیاسی آگاہی” کے نام پر کیا جا رہا ہے۔
ان سازشی نظریات کا سب سے بدترین پہلو یہ ہے کہ ان نظریات کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی، صرف بے وقوفانہ نتائج اخذ کرنا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پر طرہ یہ کہ ان سازشوں کے دعویدار خود کفر کی حقیقی سازشوں میں شامل ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ عراق میں عراقی صحواۃ عراقی افواج کے شانہ بشانہ لڑ رہی ہیں اور انکی کھلم کھلا پشت پناہی ایران کر رہا ہے، پھر بھی مجاہدین کو ایران کا ایجنٹ قرار دیا جاتا ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ صحواۃ کے گروہ شامی حکومت کو علاقوں کا قبضہ کھلے عام دے رہے ہیں، ساتھ ہی مجاہدین پر شامی حکومت سے تعاون کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔ آپکو مختلف صحوۃ گروپس کھلم کھلا قطر، ترکی، السلول (سعودیہ) اور امریکیوں سے ملاقاتیں کرتے اور اسلامی ریاست کے خلاف تعاون کے منصوبے پیش کرتے نظر آئیں گے، لیکن وہ دعوہ یہ کریں گے کہ مہاجرین اور انصار کفر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں۔ آپکو Syrian National Coalition جنیوا میں شامی حکومت سے ملاقات پر غور و فکر کرتی نظر آئے گی، مگر کہنا ان کا یہ ہے کہ اسلامی ریاست شامی حکومت کے مفادات کے تحفظ کیلئے کوشاں ہے۔
کسی سازش کو اخذ کرنے کیلئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں، صرف خواہش اور بےوقوفانہ اندازِ فکر کافی ہیں۔ پھر جب انکا کفار کے ساتھ گٹھ جوڑ سب کے سامنے عیاں ہو جاتا ہے تو یہ اچانک “مصالح” کی شکل اختیار کر لیتا ہے یعنی ایسی صورتحال جس میں امت کی بہتری کی نگہداشت کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے۔ اسلامی ریاست کے خلاف امریکیوں سے تعاون کرنا مصالح ہے، کفر کی سازش اور دغابازی نہیں۔ ایسے گروہوں کے ساتھ تعاون کرنا جنکی پشت پناہی طاغوتی طاقتیں اور صلیبی کر رہے ہیں مصالح کے زمرے میں آتا ہے، ارتداد اور انحراف کے زمرے میں نہیں۔ مرتدین اور صلیبیوں کے لڑاکا طیاروں کے سائے میں اسلامی ریاست کے خلاف پیش قدمی کرنا مصالح ہے ناکہ دوزخ کے دروازے کا راستہ۔ سول قانون، سول ریاست اور حقِ خودارادیت جیسے الفاظ کا استعمال مصالح ہے، صلیبی اور مرتد قوتوں کے مطالبات کے آگے ہتھیار ڈالنا نہیں۔
سازشی مفروضوں پر اعتقاد کی شدت شرکِ اصغر اور شرکِ اکبرکے درمیان ہوتی ہے اور اسکا دارومدار ان نظریات کے حاملین کی طرف سے کفار کی قوت، علم اور ملکیت کی صفات کو دی جانے والی اہمیت کے تناسب پر ہے۔
اگر کوئی ان نظریات کو پیش کرنے والوں کےسازشی مفروضوں کے مطابق مسلمانوں کی تاریخ کی تشریح کرے تو وہ اصل تاریخ سے بہت زیادہ انحراف کر جائے گا۔ کوئی ان نظریات کے پیش کاروں سے یہ پوچھے کہ کیا مسلمانوں نے ریاست بنانے اور پھر اسے پھلانے کیلئے روم اور فارس کی سلطنتوں سے اجازت لی تھی؟ کیا جب مسلمانوں نے رومیوں سے جنگ کی تو وہ اس وقت فارس کے ایجنٹ تھے؟ یا فارس کے خلاف جنگ میں وہ روم کے ایجنٹ تھے؟ کیا اہل فارس رومیوں سے دکھاوے کی جنگ کر رہے تھے، جبکہ در حقیقت وہ ایک دوسرے کے مددگار اور ساتھی تھے؟ کیا مسلمان ان دونوں دشمن سلطنتوں میں سے ایک کے ساتھ دکھاوے کی نقلی جنگ کر رہے تھے؟کیا جھوٹے پیغمبر اور منکرینِ زکوٰۃ پوشیدہ طور پر عجمی نسل سے تھے؟ ان تمام سوالوں کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ کیا دنیا اسقدر تبدیل ہو چکی ہے کی ان عظیم سازشوں کو پنپنے اور دنیا پر قابو پانے کا موقع مل گیا ہے؟ جواب ہے: نہیں۔
“سو آپ اللہ کے (اس) دستور کو کبھی بدلتا ہوا نہ پائیں گے، اور آپ اللہ کے دستور کو منتقل ہوتا ہوا نہ پائیں گے” (فاطر 43)۔
اورہم ان سازشی مفروضوں کے حاملین سے یہ پوچھتے ہیں کہ انکے عظیم سازشی مفروضوں کی روشنی میں مندرجہ ذیل آیات کو کیسے سمجھا جائے؟
” یہ لوگ (تو) سب مل کر بھی تم سے نہ لڑیں گے، مگر حفاظت والی بستیوں میں یا دیوار (قلعہ و شہر پناہ) کی آڑ میں،اُن کی لڑائی آپس (ہی) میں بڑی سخت ہے، تُو ان کو (ظاہر میں) متفق خیال کرتا ہے حالانکہ اُن کے قلوب غیر متفق ہیں، یہ اس وجہ سے ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو عقل نہیں رکھتے” (الحشر: 14)
یہ آیت وضاحت کر رہی ہے کہ کفار بظاہراکٹھے نظر آتے ہیں مگر انکے دل ایک دوسرے کیلئے نفرت اور کینے سے بھرے ہوئے ہیں۔اور یہ نفرت کبھی کبھار ان کے اعمال سے ظاہر بھی ہوتی ہے۔ تو اتنی بڑی بڑی سازشیں کیسے کامیاب ہونگی اگر ان سازشوں کو بنانے والے ہی انتشار کا شکار ہوں؟
“یہود کہنے لگے کہ نصاریٰ (کا مذہب) کسی بنیاد پر قائم نہیں اور اسی طرح نصاریٰ کہنے لگے کہ یہود کسی بنیاد پر نہیں، حالانکہ یہ سب (لوگ) آسمانی کتابیں پڑھتے ہیں۔پس اسی طرح یہ لوگ بھی جو کہ محض بے علم ہیں (یعنی مشرک) اُن کا سا قول کہنے لگے” (البقرۃ: 113)
یہ آیت واضح کر رہی ہے اس آپس کی دشمنی اور عداوت کو جو مختلف ادیان کو ماننے والے کفار کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔
“کیا آپ نے ان منافقین کی حالت نہیں دیکھی کہ اپنے (ہم مذہب) بھائیوں سے (جو کہ) کافر اہلِ کتاب (میں سےہیں) کہتے ہیں کہ اگر تم نکالے گئے تو ہم تمہارے ساتھ نکل جائیں گے، اور تمھارے معاملے میں ہم کسی کا کبھی کہنا نہ مانیں گے۔اور اگر تم سے کسی کی لڑائی ہوئی تو ہم تمہاری مدد کریں گے۔ مگر اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ بالکل جھوٹے ہیں، اگر اہلِ کتاب نکالے گئے تو یہ (منافقین) اُن کے ساتھ نہیں نکلیں گے، اور اگر ان سے لڑائی ہوئی تو یہ ان کی مدد نہ کریں گے۔ اور اگر (بفرضِ محال) انکی مدد بھی کی تو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے، پھر انکی کوئی مدد نہ ہو گی” (الحشر: 11-12)
یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ کفار کے منافق حمایتی کفار کے احکامات پر عمل درآمد کرنے کیلئے بالکل ناقابلِ اعتماد ہیں۔ تو پھر انکی عظیم سازشیں دہائیوں بلکہ صدیوں سے کیسے چل رہی ہیں؟
“اور جو کہتے ہیں کہ ہم نصاریٰ ہیں ہم نے اُن سے بھی ان کا عہد لیا تھا سو وہ بھی جو کچھ اُن کو نصحیت کی گئی تھی اس میں سے اپنا ایک بڑا حصہ فوت کر بیٹھے، تو ہم نے اُن میں باہم قیامت تک کیلئے بغض و عداوت ڈال دی، اور ان کو اللہ تعالیٰ ان کا کیا ہوا جتلا دے گا” (المائدہ: 14)
یہ آیت عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے درمیان پائی جانے والی نفرت کا واضح بیان ہے۔
“اور جو آپ کے پاس آپ کے پروردگار کی طرف سے بھیجا جاتا ہے وہ ان میں سے بہتوں کی (یعنی یہود کی) سرکشی اور کفر میں ترقی کا سبب بنتا ہے، اور ہم نے ان میں باہم قیامت تک عداوت اور بغض ڈال دیا، وہ جب کبھی لڑائی کی آگ بھڑکانا چاہتے ہیں تو حق تعالیٰ اس کو فرو کر دیتا ہے۔۔۔” (المائدہ: 64)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کے مختلف فرقوں میں پائی جانے والی نفرت و عداوت کو واضح کر دیا۔
“اور اہلِ کتاب نے جو اختلاف کیا (کہ اسلام کو باطل کہا) تو ایسی حالت کے بعد کہ ان کو دلیل پہنچ چکی تھی، محض آپس کی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے۔۔۔” (اٰلِ عمران: 19)
“اور نہیں فرقوں میں بٹے لوگ مگر اسکے بعد کہ آ چکا تھا ان کے پاس صحیح علم، اور ہوئی یہ فرقہ بندی ایک دوسرے کی ضد میں” (الشوریٰ: 14)
یہ دونوں آیات یہود و نصاریٰ اور انکے فرقوں میں پائے جانے والے اختلاف اور تقسیم کو بیان کر رہی ہیں۔
“جب کہااللہ نے اے عیسیٰ بے شک میں واپس لے لوں گا تمہیں اور اٹھا لوں گا تم کو اپنی طرف اور پاک کر دوں گا تم کو اُن لوگوں کے (گندے ماحول سے) جو کافر ہیں، اور کروں گا غالب اُن لوگوں کو جنہوں نے اتباع کی تمہاری اُن لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا، قیامت کے دن تک۔۔۔” (اٰلِ عمران: 55)
ابنِ زیدؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
” کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں عیسائیوں میں سے کوئی شخص آباد ہو، چاہے مشرق ہو یا مغرب، اور اسکا درجہ یہود سے افضل نہ ہو۔ یہودی ہر علاقے میں ذلیل و خوار ہی ہیں” (تفسیر طبری)
اوریہود پر یہ افضلیت عیسائیوں کے کفر کے باوجود ہے، کیونکہ انھوں نے حضرت عیسیٰؑ کو لعنت و ملامت نہیں کی اورنا ہی انکی والدہ پر گناہ کا الزام لگایا، اور انھوں نے یہودیوں کو ذلیل و خوار کیا کیونکہ یہودی حضرت عیسیٰؑ پر لعنت اور حضرت مریمؑ پر بہتان باندھتے تھے۔
“پڑ گئی مار ان (یہود) پر ذلّت کی جہاں بھی پائے جائیں گے الّا یہ کہ پناہ میں آ جائیں اللہ کی یا پناہ میں آ جائیں انسانوں میں سے کسی کی، اورگھر گئے وہ غضب میں اللہ کے۔۔۔” (اٰلِ عمران: 112)
الحسنؒ نے اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
“امت نے یہودیوں پر اس حالت میں غلبہ حاصل کیا کہ مجوسی ان یہودیوں سے جزیہ وصول کیا کرتے تھے”(تفسیر طبری)
یہ آیت واضح کر رہی ہے کہ یہود ہمیشہ ہی ذلت کی حالت میں رہتے ہیں اور ہمیشہ کسی دوسری قوم کے مطیع رہتے ہیں۔ بنیادی طور پر اسرائیل کی یہودی ریاست بھی برطانیہ نے یہودیوں کیلئے بنائی تھی۔ اور یہود کا عرب طواغیت پر برتری کی وجہ یہود اور صلیبیوں کا گٹھ جوڑ اور عرب منافقین کی کے ہاتھوں امت کی رسوائی اور تنزلی تھی۔
پس اس تمام بحث کے بعد ہمیں تاریخ اور حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے وقت مندرجہ ذیل باتوں کو اچھے طریقے سے سمجھ لینا چاہئے:
کفار کا علم، طاقت اور ملکیت کمزور اور محدود ہے۔ وہ سب کچھ دیکھنے والے، سب کچھ سننے والے، سب کچھ جاننے والے، ہر چیز کنٹرول کرنے والے یا ہر چیز کے مالک نہیں، جیسا کہ کچھ لوگ ہمیں باور کروانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ جس کسی نے بھی ان چیزوں پر یقین کیا، وہ شرک میں مبتلا ہو گیا۔
قرآن میں صرف ایک ہی قدیم سازش کا بیان آیا ہی اور وہ ہے شیطان مردود کے متعلق۔ اللہ تعالیٰ اس سازش کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
“بے شک، شیطان کی چالیں نہایت کمزور ہیں” (النساء: 76)
پس شیطان کے حواریوں کی چالیں تو شیطان کی چالوں سے بھی کمزور ہیں۔ بلکہ یہ چالیں تو ان کے خلاف اللہ کی چالوں کا سبب بن گئی ہیں۔
کفار اکٹھے نہیں ہیں، ایک دوسرے کیلئے نفرت اور دشمنی رکھتے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف پر تشدد کاروائیاں کرتے ہیں، ایک دوسرے کو ذلیل و رسوا کرنے میں لگے رہتے ہیں،مگر اپنے مشترکہ دشمن یعنی مسلمانوں کے خلاف وہ اکٹھے ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“اے ایمان والو،نہ بناؤ یہود و نصاریٰ کو اپنا دوست، وہ باہم دوست ہیں ایک دوسرے کے۔۔۔” (المائدہ: 51)
اور فرمایا:
“اور منکرِ حق آپس میں ایک دوسرے کے رفیق اور مددگار ہیں” (الانفال: 73)
پس کفار کا اتحاد سطحی اور بہت کمزور ہے۔ وہ اکثر اتحاد کے بعد تقسیم ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کفار سازشوں کا جال بننے میں ہمیشہ منہمک رہتے ہیں مگر انکی سازشیں کمزور ہوتی ہیں جسکی وجہ کفار کے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ کمزور تعلقات، انکے بزدل اور منافق ایجنٹس کا ناقابلِ اعتماد ہونا، انکے دل میں اللہ کے خوف کی بجائے مسلمانوں کا زیادہ خوف، اور ان میں موت کا بے انتہا خوف اور دنیا سے بے انتہا پیار ہے۔
کفار کی حقیقی سازشوں کا ہمیشہ ٹھوس ثبوت ہوتا ہے اور یہ بغیر دلیل کے اخذ شدہ نتائج پر مبنی نہیں ہوتیں۔
“یہ لوگ بے تحقیق غیب کی بات کو ہانک رہے ہیں” (الکھف: 22)
حلانکہ نہیں ہے انہیں اسکے بارے میں کچھ علم، نہیں پیروی کرتے وہ مگر گمان کی، اور بلاشبہ گمان کام نہیں دے سکتا حق کی جگہ ذرا بھی ” (النجم: 28)
ایک مشترکہ دشمن اور باہمی فوائد اس بات کی دلیل نہیں کہ مجاہدین دو کافر کیمپوں میں سے ایک کی ایجنٹ ہے، (خاص طور سے اس صورت میں جب مجاہدین دونوں جانب لڑنے میں مصروف ہوں اور دونوں کفر کیمپ بھی مجاہدین سے لڑ رہے ہوں)۔ اشتراکی روس کے خلاف لڑنے والے مجاہدین امریکی صلیبیوں کے ایجنٹ نہیں تھے بالکل اسی طرح جیسے فارس کے خلاف جنگ کرنے والے مسلمان روم کے ایجنٹ نہیں تھے۔ حالیہ تاریخ پر ایک نظر دوڑانے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اسلامی علاقوں میں قوم پرستی کے نام پر جنگیں لڑنے والے منافقین کے ہمیشہ اپنے کافر ساتھیوں کے ساتھ مضبوط روابط رہے ہیں۔ اصل سازشیں کبھی بھی انسانوں کیلئے راز نہ تھیں۔ عراقی صحوۃ کے کھلے عام بش، عراقی حکومت اور رافضی لیڈروں سے رابطے تھے۔ عراق کے “اسلامی” صحوۃ گروپس کھل کر قبائلی صحوۃ کے ساتھ اسلامی ریاست کے خلاف لڑتے رہے، اور انہوں نے عراقی طاغوتی حکومت کے زیرِ سایہ سیاسی نمائندگی حاصل کی۔ شامی صحوۃ کی قطر، ترکی اور سعودیہ سے ملاقاتیں کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ امریکہ کھلے عام اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ وہ شامی صحوۃ کی پشت پناہی کرتا ہے اور امریکی اتحادی یعنی قطر، ترکی اور السلول شام میں “اسلامی” گروپوں کی امداد کر رہے ہیں۔ اور کچھ عرصہ پہلے ہی کی بات ہے جب “عرب بغاوت” کے ایجنٹ راہنما یورپ، مصر، جزیرہ نما عرب، شام اور عراق میں برطانیہ کے صلیبیوں سے کھلے عام ملاقاتیں کرتے تھے۔
ان بڑی بڑی عظیم سازشوں میں اتنے زیادہ عوامل ہوتے ہیں جنہیں صرف اللہ ہی کنٹرول کر سکتا ہے۔ ایسی ہی ایک سازشی تھیوری یہ ہے کہ 11 ستمبر کا حملہ امریکہ نے خود کروایا۔ اس کیلئے صلیبی حکومت کے کتنے ممبران کو مستقل نگرانی میں رکھنا پڑا ہو گا تاکہ اس منصوبے کی خبرحملے سے پہلے لیک نہ ہو جائے؟ پھر اس حملے کے بعد اس سازش کا پردہ چاک ہونے سے بچانے کیلئے ساری دنیا میں کتنی زبانوں کو بندکرنا پڑا ہو گا؟ دوسرے کتنے امور کی نگہداشت کی گئی ہو گی تاکہ اس سازش کو بے نقاب ہونے سے بچایا جا سکے؟ اس واقعے کے بارے میں اس طرح بڑھا چڑھا کر اندازے قائم کرنا، توحید کے عقیدے کی نفی کے ہی مترادف ہے۔ کیا امریکہ کو اتنے بہت سے عوامل پر اختیار حاصل ہے؟ حملہ خود امریکہ کے خلاف تھا، اور سازشی مفروضے کے حاملین کے مطابق، یہ حملہ بھی امریکہ نے خود کیا تھا۔ کتنے امریکی عہدیدار خود کو غداری کا مجرم سمجھتے ہونگے کیونکہ انہیں اس سازشی منصوبے کا علم تھا لیکن پھر بھی وہ خاموش رہے؟ اس حملے کی اصلیت صرف واضح حقیقت پرہی مبنی ہو سکتی ہے۔۔۔ قطعی سچ پر۔۔۔ اور سچ یہ ہے کہ شیخ اسامہ کی لیڈرشپ میں مجاہدین نے یہ مبارک حملہ کیا اور امریکہ کو ایسی ذلت سے روشناس کروایا جیسی ذلت اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
سازشی نظریوں کا مقصد کفار کی طاقت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان حالاتِ حاضرہ کا تجزیہ کر کے شَل ہو جائیں اور ان میں کفار کا خوف اللہ کے خوف سے بھی زیادہ ہو جائے۔ یہ ایک ایسا طریقہ ہے جس سے مسلمانوں کا اللہ تعالیٰ پر توکل تباہ و برباد ہو جاتا ہے، اور کچھ ہی عرصے میں وہ خود کو ان آیات کا مخاطب پاتے ہیں:
“خوشخبری دے دو منافقوں کو کہ ان کیلئے ہے دردناک عذاب۔ ایسے منافق جو بناتے ہیں کافروں کو دوست مومنوں کو چھوڑ کر، کیا ڈھونڈتے ہیں اُن کے ہاں عزت، سو بے شک ساری کی ساری عزت تو اللہ ہی کی ہے” (النساء: 138-139)
اس بیان کی روشنی میں ہمیں اس فرق کا احساس ہونا چاہئےجو کفار کے مختلف دشمن گروپوں کا اسلامی ریاست کے خلاف لڑنے کیلئے حقیقی اتحاد بنانے (جیسے صلیبی۔صفوی۔نصیری اتحاد، تاکہ وہ اپنے مشترکہ کفریہ ارادوں میں کامیاب ہو سکیں)، اور اس بات پر یقین کرنے کہ عیسائی، رافضہ، یہودی اور منافقین، سب ایک خفیہ سیاسی پارٹی کے یا ایک عظیم سازش کے حصے دار ہیں، جو ایک دوسرے کیلئے الفت و محبت ظاہر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کیلئے اپنا کینہ چھپا کر رکھتے ہیں، میں ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ کفار کی اصل سازشوں کا پردہ چاک کرے اور مسلمانوں کے قلوب کو مشرکانہ سازشی مفروضوں سے پاک رکھے۔
پی،ڈی،ایف فارمیٹ
ورڈ فارمیٹ
آرکائیو لنک