• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالمی یوم حجاب

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
پردہ قید نہیں، آزادی ہے
عائشہ نصرت / ترجمہ: عمران ظہور غازی​

عائشہ نصرت کا تعلق دہلی سے ہے۔ وہ ۲۳سال کی ہیں۔ انھوں نے انسانی حقوق میں ایم اے اور نفسیات میں گریجویشن کیا ہے۔ عائشہ نے اپنی آزاد مرضی سے پردہ کرنا شروع کردیا۔ ان کا یہ مضمون ۱۳جولائی ۲۰۱۲ء کو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا۔ 4 ستمبر ’عالمی یومِ حجاب‘ کے موقع پر پیش خدمت ہے۔(ی ث)
دو ماہ سے زائد ہوگئے ہیں کہ میں نے پردہ کرنے اور مناسب لباس پہننے کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے کہ آپ مجھ پر جلدی سے دنیا بھر کی مظلوم خواتین کی نمایندہ اشتہاری خاتون کا لیبل لگا دیں، میں ایک عورت کی حیثیت سے یہ واضح کرنا چاہتی ہوں کہ پردہ میرے لیے سب سے زیادہ آزادی دلانے کا تجربہ ثابت ہوا ہے۔
پردہ شروع کرنے سے پہلے میں نے اپنے آپ سے کبھی یہ توقع نہ کی تھی کہ میں یہ راستہ اختیار کروں گی۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ میرے ایمان اور تہذیب میں حیا کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہ کی اور نہ اس کے اسباب معلوم کرنے کا موقع ملا۔
ٹونی بلیئر فیتھ فاؤنڈیشن میں بطور فیتھزایکٹ فیلو کام کرنے اور سماجی سرگرمیوں کے لیے مختلف مذاہب کے افراد سے معاملہ کرنے سے مختلف مذاہب کے بارے میں میرے فہم میں اضافہ ہوا۔ مختلف بین المذاہب سرگرمیوں میں حصہ لینے سے میرے اپنے مذہب کے ذاتی فہم میں اضافہ ہوا۔ اس حوالے سے جو سوال اور چیلنج میرے سامنے آئے اس سے میرے اندر اسلام کے مختلف بنیادی پہلوؤں کے بارے میں تجسس اور کوشش میں اضافہ ہوا۔ اس طرح میں ’سلطنتِ حجاب‘ میں داخل ہوئی۔
میں بہت اچھی طرح جانتی تھی کہ عورت کے سر کو ڈھانکنے والے چند گز کپڑے، یعنی حجاب کو ہم کس طرح تشویش اور تنازعات کا موضوع بنا کر اُسے عورتوں کی تعلیم، تحفظ، انسانی حقوق، حتیٰ کہ ان کے مذہب کو عالمی خطرہ قرار دیا جارہا ہے۔ مجھے یہ معلوم تھا کہ دنیا بھر میں میڈیا پردہ کرنے والی خواتین کو مظلوم اور مجبور بناکر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ پردہ ان خواتین پرزن بیزار مُلّاؤں اور رشتہ دار مردوں کی طرف سے مسلط کیا گیا ہے جو انھیں گرمی سے بے حال کرنے والے کپڑوں میں زبردستی قید کردیتے ہیں۔
بہرحال میں سمجھتی ہوں کہ میرے حجاب نے مجھے آزادی (liberate) دی ہے۔ میں ایسے بہت سوں کو جانتی ہوں جو حجاب کو زبردستی کی خاموشی یا بنیاد پرست حکومتوں کا اشتہار سمجھتے ہیں لیکن ذاتی طور پر میں نے ان میں سے کوئی بات بھی نہ پائی۔ ایک ایسی خاتون کی حیثیت سے جس نے انسانی حقوق کا بہت شوق سے مطالعہ کیا ہو اور ان کے لیے خصوصاً خواتین کے اختیارات (empowerment) کے لیے کام کر رہی ہو، میں نے محسوس کیا کہ ان مقاصد کے لیے حجاب کرتے ہوئے کام کرنے سے یہ غلط تاثر ختم ہوگا کہ مسلم خواتین خود اپنی اصلاح اور اپنے حقوق کے حصول اور ان کے لیے کام کا جذبہ، حوصلہ اور احساس نہیں رکھتی ہیں۔ یہ احساس وہ آخری دھکا تھا جس کی مجھے ضرورت تھی، تاکہ میں دنیا کے سامنے اس سال اپنی سالگرہ پر اعلان کردوں کہ آج کے بعد میں ’پردہ دار خاتون‘ یا ’حجابی‘ ہوں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں بے پردہ رہنا پسند کیا جاتا ہو، وہاں اگر میں حجاب اختیار کرتی ہوں تو اسے کیوں ظالمانہ و جابرانہ قرار دیا جاتا ہے؟ میں تو حجاب کو ’میرا جسم، میرا مسئلہ‘ قرار دینے کی آزادی سمجھتی ہوں اور ایک ایسی دنیا میں جہاں عورت کو ایک شے بنا کر پیش کیا جاتا ہے، اسے اپنی ذاتی آزادی کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتی ہوں۔
میں کسی عورت کی اہمیت کو اس کے ظاہری حُسن اور پہنے جانے والے کپڑوں سے ناپے جانے کو مسترد کرتی ہوں۔ مجھے مکمل یقین ہے کہ عورت کی مساوات کا بگڑا ہوا تصور کہ اسے مجمعِ عام میں چھاتیاں عریاں کرنے کا حق حاصل ہے، خود آپ ہمیں ایک شے تصور کرنے میں حصہ ادا کرتا ہے۔ میں ایک ایسے نئے دن کے انتظار میں ہوں جب عورتوں کو حقیقی مساوات حاصل ہوگی، اور انھیں اس کی ضرورت نہ ہوگی کہ توجہ حاصل کرنے کے لیے اپنی نمایش کریں، نہ اس کی ضرورت ہوگی کہ اپنے جسم کو اپنے جسم تک رکھنے کے فیصلے کا دفاع کریں۔ ایک ایسی دنیا جس میں عورت کی آزادی، جسم کی نمایش اور اس کی جنس نے ہوش اُڑا رکھے ہوں، عورت کا حجاب اختیار کرنا عورت کی جانب سے اس کی منفرد نسائیت اور حقوق کا جارحانہ اظہار ہے۔ میرا حجاب دراصل یہ پیغام دیتا ہے کہ ’’تم کیا دیکھو گے، اس پر میرا کنٹرول ہے، کیا یہ عورت کو اختیار دینا نہیں؟‘‘ یہ اظہار بہت زیادہ اتھارٹی کے ساتھ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ یہ دعویٰ ہے کہ ’’میرا جسم، میرا مسئلہ ہے‘‘۔
میں یقین رکھتی ہوں کہ میرا حجاب مجھ کو یہ حق دیتا ہے کہ اپنے جسم، اپنی نسائیت، اور روحانیت پر جو صرف میری ہے اور میری اتھارٹی میں ہے اس پر زور دوں۔ میں جانتی ہوں کہ بہت سے مجھ سے اتفاق کریں گے جب میں یہ کہتی ہوں کہ حجاب بنیادی طور پر روحانیت کا اظہار ہے اور اپنے خالق سے ایک ذاتی تعلق ہے ، ایک ایسی محسوس کی جانے والی مذہبی علامت جو روزمرہ زندگی میں رہنمائی کرتی ہے۔
حجاب میری ذاتی و اجتماعی زندگی میں دکھائی دینے والی واضح علامت ہے جس سے کسی بھی اجتماع اور ہجوم میں کوئی بھی ایک الگ وجود کی حیثیت سے مجھے پہچان سکتا ہے، ایک خاص مذہب سے وابستگی اور نمایندگی کے ساتھ۔ یہ اصل وجہ ہے کہ اجتماعی زندگی میں ’حجابی‘ بن جانا ایک ایسی طاقت بن جاتا ہے جو ان کاموں میں مجھے آگے بڑھاتا ہے جن کے ذریعے میں ان تعصبات اور رکاوٹوں کو دُور کرسکوں جن سے میرے مذہب اسلام کو مسلسل لیکن غیرمعقول انداز سے وابستہ کیا جاتا ہے۔ حجاب دراصل میری شخصیت کی توسیع اور شناخت ہے، اور یہ مجھے اُبھارتا ہے کہ اس غلط تصور کو چیلنج کروں کہ مسلمان عورت میں اُس بہادری، دانش اور استقامت کی کمی ہے جو اتھارٹی کو چیلنج کرے اور اپنے حقوق کے لیے لڑے۔
میں جب آئینے میں اپنا عکس دیکھتی ہوں تو ایک ایسی عورت کو دیکھتی ہوں جس نے حقوق کے لیے سرگرمِ عمل ہونے کا انتخاب کیا، جو اتفاقاً مسلمان ہے اور ضمناً اپنے سر کو ڈھانکتی ہے۔ میرا عکس مجھے یاد دلاتا ہے کہ میں نے کیا عہد کیے تھے جن کی وجہ سے حجاب اختیار کرنے کا سوچا؟ ایک ایسی دنیا کے لیے کام کروں جہاں عورت کے بارے میں فیصلہ اس بنیاد پر نہیں کیا جاتا کہ وہ کیسی دِکھتی ہے؟ کیا پہنتی ہے؟ایک ایسی دنیا جس میں اُسے اپنے جسم کے بارے میں فیصلہ کرنے کے حق کی لڑائی نہیں لڑنا پڑتی، جس میں وہ کچھ ہوسکے جو وہ چاہتی ہے، جہاں اُسے اپنے مذہب اور حقوق کے درمیان انتخاب نہ کرنا پڑے۔ (اختتام)
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
(از: یوسف ثانی)
کسی ریاست میں حجاب کرنے کی پابندی اور حجاب نہ کرنے کی پابندی ، یہ دونوں ”پابندیاں“ یکساں ہرگز نہیں ہیں۔ حجاب نہ کرنے کی پابندی ایک عورت کے بنیادی انسانی حق کی خلاف ورزی ہے۔ جبکہ حجاب کرنے کی پابندی کی مثال ٹریفک کے سُرخ اشاروں پر لازماً رکنےکی پابندی جیسی ہے کہ اس ”پابندی“ سے کسی کے بنیادی انسانی حقوق ”سلب“ نہیں ہوتے۔ کیونکہ اگر ہر ایک کو ٹریفک کے سُرخ اشارے پر ”اپنی مرضی“ سے رکنے یا نہ رکنے کی ”آزادی“ ہو تو اس سے سڑکوں پرنہ صرف یہ کہ حادثات میں اضافہ ہوگا بلکہ اس نام نہاد آزادی سے دوسرے بہت سے ڈرائیورز کے بنیادی حقوق بھی سلب ہوں گے کیونکہ وہ انہی سڑکوں پر ڈرائیو کرتے ہوئے خود کو حادثات سے محفوظ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

حجاب کرنے یا نہ کرنے کی ”انفرادی آزادی“ دینے والا معاشرہ در اصل سماج دشمن عناصر یعنی عیاش طبع بدمعاش مردوں کو ایسی خواتین کی آبروریزی کے ”کھلے مواقع“ فراہم کرکے خواتین کے حق تحفظ عزت کو مجروح کرتا ہے۔ اس کے برخلاف سماج کی تمام خواتین کو حجاب کی پابندی کے دائرہ میں لانے سے کسی بھی خاتوں کا کوئی بنیادی انسانی حق متاثر نہیں ہوتا۔ اور سماج بھی سکھ کا سانس لیتا ہے۔

بیشتر”مسلم ممالک“ کے ملکی قوانین میں خواتین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو حجاب کرے اور چاہے تو حجاب نہ کرے۔ واضح رہے کہ ”حجاب“ اور ” زنانہ لباس“ میں فرق ہے۔ کسی مسلم معاشرے میں حجاب نہ کرنے کا ”حق“ مانگ کر وینا ملک اینڈ کمپنی کی طرح اس ”حق“ کونارمل نسوانی لباس کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ”حجاب“ میں صرف چہرے کا نقاب، بالوں اور سر کو ڈھکنا اور نارمل پرکشش نسوانی ڈریس کے اوپر جلباب (چادر، عبایا، اوور کوٹ وغیرہ) کا استعمال شامل ہے۔ جس طرح میری ”آزادی کی حدود“ وہاں ختم ہوجاتی ہیں، جہاں سے کسی دوسرے کی ناک شروع ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک عورت کی ”آزادی“ بھی وہاں ختم ہوجاتی ہے، جہاں سے اس کی سیکسی ڈریسنگ یا اَن ڈریسنگ معاشرے میں جنسی اشتعال اور فساد کا سبب بننے کا سبب بنے۔ دنیا کی ہر ریاست کو اس قسم کی قانون سازی کا حق ہوتا ہے کہ وہ ”متوقع سماجی فساد“ کے سد باب کے لئے اپنے شہریوں پر پیشگی چند پابندیاں لگائے۔ گویا کسی ریاست کواپنے ریاستی حدود میں اس قسم کی پابندیاں لگانے کا حق تو حاصل ہے کہ ہر خاتون لازماً حجاب کرے۔ لیکن اس کے برعکس کسی بھی ریاست کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خواتین پر حجاب نہ کرنے کی پابندی لگائے کیونکہ حجاب کرنے کی پابندی سے حجاب کرنے والی خواتین کو عملاً کوئی نقصان نہیں ہوتا ۔ جبکہ حجاب نہ کرنے کی پابندی یا اپنے جسم کی نمائش کرنے کی آزادی سے خود ایسا کرنے والی خواتین کو بھی سماج دشمن عناصر سے نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور پورے معاشرے میں بھی جنسی انارکی پھیلنے کا سبب بن سکتا ہے۔ مثلاً امریکہ میں ہر عورت کو یہ آزادی حاصل ہے کہ وہ اپنے جسم کو جتنا چاہے نمایاں اور پر کشش بنا کر سر بازار پیش کرے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ امریکہ ہی کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں سیکس سرعام اور ہر ایک کی دسترس میں ہونے کے باوجود دنیا میں سب سے زیادہ زنا بالجبر اسی سرزمین پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس سعودیہ میں حجاب کرنے کی قانونی پابندی کے نتیجہ میں یہاں جنسی جرائم دنیا بھر کے مقابلہ میں سب سے کم یا نہ ہونے کے برابر ہیں۔
 

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139
جزاک اللہ خیر محترمین ۔
انکے خیالات پڑھکر اچھا لگا۔
اور اک بات یہ بھی علم میں لاتا چلوں کہ آج کے معاشرے میں جہاں عریانیت کا رواج عام ہوتا جارہا ہے اور دین سے دوری ہوتی جارہی ہے وہیں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ کئی ایسی نوجوان لڑکیاں کو خود کو حجاب میں رکھنا پسند کر رہی ہیں اور اکثر نوجوان لڑکوں میں جہیز سے پاک شادی کرنے کا رجحان دیکھا جارہا ہے اور دین کا علم حاصل کرنے کی جستجو انمیں بڑھ رہی ہے۔یہ ہمارے لئے اک خوش آئند بات ہے۔اور اسکے مستحق دینی اسکالرس اور وہ علماء ہیں جو لوگوں تک دین اسلام کا صحیح لٹریچر نوجوان نسل تک پہنچارہے ہیں۔جزاک اللہ خیرا و احسن الجزاء
 
Top