• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عالم اسلام کی قیادت کے لیے دنیا کواب ’غیر بنیاد پرست ‘قابل قبول کیوں؟

توحید

مبتدی
شمولیت
نومبر 25، 2012
پیغامات
16
ری ایکشن اسکور
36
پوائنٹ
13
عالم اسلام کی قیادت کے لیے دنیا کواب ’غیر بنیاد پرست ‘قابل قبول کیوں؟


(علی زیدی)​

باطل ہمیشہ اُن حق پرستوں سے خوف کھاتا ہے جو اُس کی حقیقت کو جانتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو باطل کا ہر زاویے اور پہلو سے کفر کرتے ہیں ،اُس کے نظاموں کا انکار کرتے ہیں ،اور کسی صورت باطل کا حصہ نہیں بنتے ۔یہ طائفہ منصورہ کے وہ سپاہی ہوتے ہیں جن پر کفر کا کوئی وار کار گر نہیں ہوتا ،وہ اُس کے کسی جھانسے میں نہیں آتے ۔کفر اپنے اوپر اسلا م کا کتنا ہی لیپ کیوں نہ مل لے ،اسلام سے کتنی ہی ہمدردی کیوں نہ ظاہر کرتا پھرے ،جاہلیت کی حقیقت سے جاہل کتنے جبہ ودستار کے مالک اُس کے ہمنوا اور کاسہ نشین کیوں نہ بن جائیں یہ اللہ والے کفر کو فوراً پہچانتے اوراسکا انکار کرتے ہیں۔باطل کو یہ لوگ ہر دور بڑے ہی برے لگتے ہیں ،وہ ہمیشہ ایسوں پر ہی غضبناک ہوا کرتا ہے ،ایسوں کو ختم کرنا ہی اُس کی اولین ترجیح ہوتا ہے ۔یہ کفر کو اتنے کھٹکتے ہیں کہ کبھی وہ اصحاب الاخدود کی طرح انہیں خندقیں کھود کر جلاتا ہے تو کبھی اصحاب کہف کی طرح انہیں روپوش ہونے پر مجبور کرتا ہے ،کبھی ابراہیم علیہ السلام کی طرح آگ کے بھڑکتے آلائو میں پھینکتا ہے تو کبھی محمد ﷺ کی طرح انہیں قتل کرنے کی سازشیں کرتا ہے ۔کبھی سمیہ کی طرح دوٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے تو کبھی سیدنابلال کی طرح عرب کے تپتے صحراء پر گھسیٹتا ہے ،کبھی خباب کی طرح انگاروں پر لٹاتا ہے تو کبھی عمار ویاسر کی طرح تشدد کا نشانہ بناتا ہے ۔

ہل حق کٹ جاتے ہیں،جل جاتے ہیں ،دوٹکڑے ہوجاتے ہیں ،جلا وطن ہوجاتے ہیں ،اہل عیال چھوڑ دیتے ہیں ،مال و زر کی قربانی دے ڈالتے ہیں مگر باطل سے مصالحت و مفاہمت کا راستہ اختیار نہیں کرتے ،باطل کی ہمنوائی نہیں کرتے ،باطل کے انکار سے باز نہیں آتے ،لا الہ الا اللہ کی صدا بلند

کرنے سےنہیں رکتے ۔

باطل ہمیشہ انہیں اس لب و لہجہ میں مخاطب کرتا ہے۔

قَالَ آمَنتُمْ لَہُ قَبْلَ أَنْ آذَنَ لَکُمْ إِنَّہُ لَکَبِیْرُکُمُ الَّذِیْ عَلَّمَکُمُ السِّحْرَ فَلَأُقَطِّعَنَّ أَیْْدِیَکُمْ وَأَرْجُلَکُم مِّنْ خِلَافٍ وَلَأُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوعِ النَّخْلِ وَلَتَعْلَمُنَّ أَیُّنَا أَشَدُّ عَذَاباً وَأَبْقَی
فرعون بولاتم میری اجازت کے بغیر اس پر ایمان لے آئے ہو یقینا موسیٰ تمہارا گرو ہے جس نے تمہیں سحر سکھلایا ہے میں تمہارے ہاتھ اور پائوں مخالف سمتوں سے کٹوائوں گا اور تمہیں سولی چڑھائوں گا اور تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ ہم میں سے کس کی سزا شدید تر اور دیر پا ہے ۔

ان کا جواب ایک ہی ہوتا ہے

قَالُوا لَن نُّؤْثِرَکَ عَلَی مَا جَاء نَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالَّذِیْ فَطَرَنَا فَاقْضِ مَا أَنتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِیْ ہَذِہِ الْحَیَاۃَ الدُّنْیَا٭ إِنَّا آمَنَّا بِرَبِّنَا لِیَغْفِرَ لَنَا خَطَایَانَا وَمَا أَکْرَہْتَنَا عَلَیْْہِ مِنَ السِّحْرِ وَاللَّہُ خَیْْرٌ وَأَبْقَی٭ إِنَّہُ مَن یَأْتِ رَبَّہُ مُجْرِماً فَإِنَّ لَہُ جَہَنَّمَ لَا یَمُوتُ فِیْہَا وَلَا یَحْیْی٭ وَمَنْ یَأْتِہِ مُؤْمِناً قَدْ عَمِلَ الصَّالِحَاتِ فَأُوْلَئِکَ لَہُمُ الدَّرَجَاتُ الْعُلَی٭ جَنَّاتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الْأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا وَذَلِکَ جَزَاء مَن تَزَکَّی
کہنے لگے جس ذات نے ہمیں پیدا کیا ہے اور جو کچھ ہمارے پاس واضح دلائل آچکے ہیں ان پر ہم تجھے کبھی ترجیح نہیں دے سکتے لہذا جو تو کرنا چاہتا ہے کر گزر تو تو بس اس دنیا کی زندگی کا ہی خاتمہ کر سکتا ہے ۔بلا شبہ ہم اپنے رب پر ایمان لا چکے ہیں تاکہ وہ ہماری خطائیں معاف کر دے اور سحر بھی جس پر تو نے ہمیں مجبور کیا تھا اور اللہ ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے ۔بے شک جو مجرم بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ نہ مرے گا اور نہ جئے گا ۔اور جو مومن بن کر اپنے رب کے پاس آئے گا اور نیک اعمال بھی کیے ہوں گے تو ایسے ہی لوگوں کے لیے بلند درجات ہیں اور سدا بہار باغات جن میں نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یہ اس شخص کے لئے جزا ہے جو گناہوں سے پاک رہا ۔

اللہ پر ایسا توکل اور اعتماد ،جنت پر ایسا یقین ،مخالف کے باطل ہونے اور اُس کے راستے کے جہنم میں جانے پر ایسا ایمان یہ سب اللہ کے لیے کھڑے ہونے کاثمرہ ہے ۔یہ ہیں وہ بنیاد پرست جو کل بھی دشمن کی نگاہوں میں کھٹکتے تھے اور آج بھی ،یہ ہیں وہ توحیدی جن کی توحید سے کل کے فرعون و نمرود کو اپنی سلطنت و بادشاہت کو خطرہ تھا اور آج کے ہامان و قارون بھی اپنے نظاموں کو ٹوٹتا دیکھ رہے ہیں ،ان کا قرآن پڑھنا اندھیروں کو مٹاتا ،اللہ کے نور کو پھیلاتا ہے ،ان کا جہاد دنیا سے انسانوں کی حاکمیت ختم اور اللہ کی حاکمیت کو قائم کرتا ہے ،ان کی تکبیریں دنیا سے غیر اللہ کی پکار ،نذر ونیاز ،قربانی و ذبیحہ کو نیست و نابود کرتی ہیں ،ان کی تسبیح و تہلیل سے درباری نظام گرتے ہیں جہاں دن رات اللہ کے ساتھ شرک ہوتا ہے ،ان کی دعوت سے دنیا میں اللہ کی وحدانیت کا پرچم لہراتا ہے ،شرک کے ایوانوں میں زلزلہ طاری ہوتا ہے ،جمہوریت کی عمارت میں دراڑیں پڑتی ہیں ،وطنیت کے بت گرتے ہیں ،قومیت کی جڑ کٹتی ہے ۔یہی لوگ خلافت کے قیام کی بنیاد ہیں ،یہی مہدی کے ساتھی ،عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے سپاہی ہوں گے ۔اللہ ہمیں انہی لوگوں میں شامل فرمائے ۔

ان کے مد مقابل ایک دوسرا گروہ جو ہمیشہ باطل کو محبوب رہا ہے ،یہ وہ بے علم وعمل اور کم ہمت لوگ ہیں، جن کے دلوں میں توحید کا نور قوت نہیں پکڑ پاتا ،جو اللہ پر یقین میں کمزور رہتے ہیں ،جنہیں واحد راہ نجات کی حیثیت سے اسلام پر ایمان نصیب نہیں ہوتا ،جو حالات کے بدلنے پر اللہ پر عجیب عجیب گمان کرتے ہیں ،ہر مصیبت کو اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں ۔خوف مومن کو لاحق ہو سکتا ہے مگر وہ کبھی خوف کی بنیاد پر اپنی راہیں نہیں بدلتا ،اور پھر اس راہ بدلنے کو اسلام کا نام دے کر بطور منہج نہیں اپناتا ۔ یہ لوگ باطل کی حقیقت سے ناواقف ہوتے ہیں ،باطل سے مفاہمت میں ہی اسلام کی عافیت تلاش کرتے ہیں ،باطل سے ٹکرانا انہیں بے وقوفی نظر آتا ہے ،کفر سے بغض و عداوت ،دشمنی و بیر ان کی نظر میں نا صرف ناممکن بلکہ تنگ نظری قرار پاتا ہے ۔یہ لوگ ہر دورمیں لوگوں کو کفر کی طاقتوں سے ڈراتے ہیں ،کفر سے خود بھی مرعوب اور لوگوں کو بھی مرعوب کرتے ہیں ،اللہ والوں کو یہ ہمیشہ بے وقوف اور جذباتی ہونے کا طعنہ دیتے ہیں ۔قرآن کریم کی ان آیات مبارکہ میں ایسے ہی بزدلوں کا ذکر کیا گیا ہے

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَکُونُواْ کَالَّذِیْنَ کَفَرُواْ وَقَالُواْ لإِخْوَانِہِمْ إِذَا ضَرَبُواْ فِیْ الأَرْضِ أَوْ کَانُواْ غُزًّی لَّوْ کَانُواْ عِندَنَا مَا مَاتُواْ وَمَا قُتِلُواْ لِیَجْعَلَ اللّہُ ذَلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوبِہِمْ وَاللّہُ یُحْیِـیْ وَیُمِیْتُ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیْرٌ٭ وَلَئِن قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّہِ وَرَحْمَۃٌ خَیْْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ٭ وَلَئِن مُّتُّمْ أَوْ قُتِلْتُمْ لإِلَی اللہ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو! ان منافقوں کی طرح نہ ہو جانا کہ جب ان کی بھائی زمین میں سفر پر یا جہاد پر نکلتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ قتل کیے جاتے اللہ تعالیٰ ان کی اس قسم کی باتوں کو ان کے دلوں میں حسرت کا سبب بنا دیتا ہے اور اللہ ہی زندہ رکھتا اور مارتا ہے اور جو کام تم کر رہے ہو اللہ انہیں دیکھ رہا ہے ۔اگر تم اللہ کی راہ میں مارے جائو یا خود خود مرجائو ،بہرحال اللہ کی بخشش اور رحمت ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنہیں یہ لوگ جمع کر رہے ہیں ۔اور اگر تم مر جائو یا مارے جائو بہرحال تم سب اللہ کی طرف اکٹھے کیے جائو گے ۔

اس طبقہ کا ظہور آزمائش کے وقت ہوا کرتا ہے۔مصیبت اور تنگی سے پہلے یہ بڑے دعوے کرتے ہیں مگر جب مشکل گھڑی آتی ہے کہ جہاں پنے مفادات کی قربانی دینی پڑتی ہے وہاں ان کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے ۔یہ مفاد فرد کا ہوں یا کسی گروہ ،معاشرہ اورملک کا ۔نفاق میں ڈوبا یہ ٹولہ ہمیشہ توحید اور دین پر اپنے مفادات کو مقدم کرتا ہے ۔رب تعالیٰ اس حقیقت کو یوں کھولتا ہے:

وَمَا أَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ فَبِإِذْنِ اللّہِ وَلِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَ٭ وَلْیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُواْ وَقِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْاْ قَاتِلُواْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ أَوِ ادْفَعُواْ قَالُواْ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالاً لاَّتَّبَعْنَاکُمْ ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ أَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلإِیْمَانِ یَقُولُونَ بِأَفْوَاہِہِم مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوبِہِمْ وَاللّہُ أَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُونَ٭ الَّذِیْنَ قَالُواْ لإِخْوَانِہِمْ وَقَعَدُواْ لَوْ أَطَاعُونَا مَا قُتِلُوا قُلْ فَادْرَؤُوا عَنْ أَنفُسِکُمُ الْمَوْتَ إِن کُنتُمْ صَادِقِیْن
دونوں لشکروں کے ٹکرائو کے دن تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اللہ کے حکم سے تھی اور اس لیے کہ اللہ مومنوں کے جانچ لے ۔اور منافقوں کو بھی جب ان سے کہا گیا کہ آئو اللہ کی راہ میں جہاد کرویا دفاع ہی کروتو کہنے لگے اگر ہم لڑنا جانتے ہوتے تو ضرور تمہاری اتباع کرتے اور روز وہ ایمان کی نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے وہ اپنی زبان سے ایسی باتیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہوتیں حالانکہ جو وہ چھپاتے ہیں اللہ انہیں جانتا ہے ۔یہ وہ لوگ ہیں جو خود پیچھے بیٹھ رہے اور اپنے بھائی بندوں سے کہنے لگے اگر ہمارا کہا مانتے تو نہ مارے جاتے ۔کہہ دیجئے اگر تم اپنی اس بات میں سچے ہو تو اپنے آپ سے موت کو ٹال کر دکھائو ۔

ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ عزت ویقین کا ،توکل و ایمان کا سبق یوں پڑھاتا ہے ،یہی ان کا علاج ہے اگر یہ غور کریں ۔

وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ أَنْ تَمُوتَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللہ کِتَاباً مُّؤَجَّلاً وَمَن یُرِدْ ثَوَابَ الدُّنْیَا نُؤْتِہِ مِنْہَا وَمَن یُرِدْ ثَوَابَ الآخِرَۃِ نُؤْتِہِ مِنْہَا وَسَنَجْزِیْ الشَّاکِرِیْنَ٭ وَکَأَیِّن مِّن نَّبِیٍّ قَاتَلَ مَعَہُ رِبِّیُّونَ کَثِیْرٌ فَمَا وَہَنُواْ لِمَا أَصَابَہُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَمَا ضَعُفُواْ وَمَا اسْتَکَانُواْ وَاللّہُ یُحِبُّ الصَّابِرِیْنَ٭وَمَا کَانَ قَوْلَہُمْ إِلاَّ أَن قَالُواْ ربَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِیْ أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ٭ فَآتَاہُمُ اللّہُ ثَوَابَ الدُّنْیَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الآخِرَۃِ وَاللّہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ٭ یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوَاْ إِن تُطِیْعُواْ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ یَرُدُّوکُمْ عَلَی أَعْقَابِکُمْ فَتَنقَلِبُواْ خَاسِرِیْن٭ بَلِ اللّہُ مَوْلاَکُمْ وَہُوَ خَیْْرُ النَّاصِرِیْنَ٭ سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوبِ الَّذِیْنَ کَفَرُواْ الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَکُواْ بِاللّہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہِ سُلْطَاناً وَمَأْوَاہُمُ النَّارُ وَبِئْسَ مَثْوَی الظَّالِمِیْنَ
کوئی جان اللہ کے اذن کے بغیر کبھی نہیں مر سکتی ،موت کا وقت لکھا ہوا ہے ،جو شخص دنیا میں ہی بدلہ کی نیت سے کام کرے گا تو اسے ہم دنیا میں ہی دے دیتے ہیں اور جو آخرت کا بدلہ چاہتا ہو اسے ہم آخرت میں بدلہ دیں گے اور شکر گزاروں کو عنقریب ہم جزا دیں گے ۔کتنے ہی نبی گزر چکے ہیں جن کہ ساتھ بہت سے اللہ والوں نے قتال کیا ،ان کو اللہ کی راہ میں جو مصائب درپیش ہوئے ان میں نہ انہوں نے ہمت ہاری ،نہ کمزوری دکھائی اور نہ ہی سرنگوں ہوئے ایسے ہی ثابت قدم رہنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے ۔اُن کی دعابس یہی تھی کہ اے ہمارے رب !ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمارے کام میں اگر زیادتی ہو گئی ہو تو اسے معاف فرما ،ہمیں ثابت قدم رکھ اور کافروں کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما ۔تو اللہ نے انہیں دنیا کا بدلہ بھی دیا اور آخرت کا ثواب تو بہت ہی خوب ہے اور اللہ ایسے ہی نیک عمل کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے ۔اے ایمان والو ! اگر تم کافروں کا کہا مانوگے تو وہ تمہیں الٹے پائوں (اسلام سے ) پھیر دیں گے اور تم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائو گے ۔اللہ ہی تمہارا مولیٰ ہے اور وہ سب سے اچھا مددگار ہے ۔عنقریب ہم کافروں کے دلوں میں تمہارا رعب ڈال دیں گے کیونکہ انہوں نے اللہ کے ساتھ شرک کیا جس کی اللہ نے کوئی دلیل نازل نہیں اتاری ،ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور ظالموں کا ٹھکانہ بہت برا ہے ۔

ان لوگوں صرف موت کا خوف نہیں ہوتا بلکہ دنیا میں اکیلے رہ جانے کا خوف ،عزت و شہرت کے چھن جانے کا ڈر ،معاشروں میں تنہائی کاشکار ہونے کے اندیشے ،یہی باتیں انہیں مشرکوں سے مفاہمت و اطاعت پر ابھارتی ہیں ،انہی وجوہات کی بنیاد پر یہ اللہ کی الوہیت اور غیر اللہ کی عبادت کے باطل ہونے کے اعلان سے رکتے ہیں ۔یہی خوف انہیں دنیا کے ہر فورم اور ہر سطح پر جہاں تک ان کی رسائی ہو اس بات کے اظہار سے روکتا ہے کہ لوگوں اللہ کے سوا کوئی مشکل کشا حاجت روا نہیں ،کوئی داتادستگیر نہیں ،کوئی گنج بخش غوث اعظم نہیں ،کوئی اولاد دینے والا مقدمات سے بری کرنے والا نہیں ،کوئی قانون ساز حلال وحرام مقرر کرنے والا نہیں ،اللہ کے سوا کوئی نہیں کہ جس کی خاطر دوستی دشمنی ،محبت نفرت کی جائے ،جس کے دین کے سوا کسی اور کے دین میں نجات ،عزت اور کامیابی ہو۔توحیدکا یہ اعلان کہ لوگوں جو رب کائنات کے سوا کسی اور کو پکارتاہے وہ مسلمان نہیں ،وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ،جو کسی ولی ،بزرگ ،پیر کے نام پرنذر و نیاز دیتا ہے ،اُس کے در پے سجدے کرتا ہے ،اس کی قبر کی مٹی میں شفا سمجھتاہے ،اس کے نام پر جانور قربان کرتا ہے وہ یا د رکھے کہ وہ اللہ کے ساتھ وہی کفر کر رہا ہے جو مشرکین مکہ نے کیا تھا ،جو خدا اور کائنات کو ایک ہی شے ء جانتا ہے ،جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ ہر چیز ہی خدا ہے، ،انسان ،جانور ،غلاظت سب خدا کے مظاہر ہیں یا یہ عقیدہ رکھے کہ خدا بعض نیک لوگوں کی ذات میں حلول کر جاتا ہے اور وہ عبادت کرتے کرتے خدائی کے درجہ پر فائز ہو جاتے ہیں وہ یہود و نصاریٰ سے بڑھ کر کفر کرنے والا ہے ،اس آسمان تلے اللہ کا اس بڑھ کر کوئی گستاخ اور باغی نہیں ۔حق کی اس گواہی سے آخر کیا چیز ہے جو بہت سوں کو روکتی ہے ،وہ کیا مصیبت ہے جس کی وجہ سے ایسے باغیان خدا سے محبت و دوستی کی پینگیں بڑھائی جاتی ہیں ،ان سے اتحاد کیا جاتا ہے ۔یقین مانیے یہ سوائے حب الدنیا وکراہیۃ الموت کے سوا اور کچھ نہیں ۔

اس لیے اس طبقہ کو شرک کے داعیوں کو معاشروں میں ننگا کرنا تاکہ لوگ ان کی گمراہی سے بچ جائیں ،پوجی جانی والی قبروں کو ڈھانے کی بات کرنا ،وحدت الوجود و شہود کی جاہلانہ اور کفریہ تعبیروں کے حاملین کو معاشرے میں اُن کا حقیقی مقام دلانا ،جمہوریت کی نجاست میں امت کو برباد کرنے والوں سے لوگوں کو ڈرانا ،برداشت نہیں اوریہ ان حضرات کے ہاں جہالت و کم علمی کی دلیل ہے ۔

باطل ہمیشہ ایسوں کو پسند کرتا ہے ،انہیں اسلام کے حقیقی رہنما تسلیم کرتا ہے ،ان کے اسلام کو ماڈل کے طور پر پیش کرتا ہے ۔آخر قوم شعیب کو ایسوں ہی کے اسلام کی تلاش تو تھی:

قَالُواْ یَا شُعَیْبُ أَصَلاَتُکَ تَأْمُرُکَ أَن نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ آبَاؤُنَا أَوْ أَن نَّفْعَلَ فِیْ أَمْوَالِنَا مَا نَشَاء إِنَّکَ لَأَنتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ

وہ کہنے لگے شعیب ! کیا تمہاری نماز تمہیں یہی سکھاتی ہے کہ ہم ان معبودوں کو چھوڑ دیں جن کی ہمارے باپ دادا عبادت کرتے تھے یا جیسے ہم چاہتے ہیں اپنے اموال میں تصرف کرنا چھوڑ دیں ؟ تم تو بڑے برد بار و بھلے مانس ہو۔

آج کہ جب دنیا میں کفر و اسلام کا معرکہ اپنے عروج پر ہے ،حزب اللہ علم و عمل سے اپنا آپ منوا چکی ہے ،نوجوان اہل حق کو جاننے لگے ہیں ،توحید کفریہ نظاموں پر زلزلہ طاری کیے ہوئے ہے ،مرنے والے غلبہ توحید کے عنوان کے سوا کسی عنوان پر جان نہیں دے رہے ،باطل کی ہر سازش اُن پر ناکام ہو چکی ،مسلمان لادین نظاموں کے حقیقت سے آشنا ہونے لگے ہیں ،خلافت کا آوازہ ہر سو گونجنے لگا ہے ،مجاوروں کو اپنے درباروں کی فکر لاحق ہے ،صحابہ کے دشمنوں کو اپنا مستقبل تاریک دِکھنے لگا ہے ،جادوگروں کو اپنی گردنیں اترتی نظر آرہی ہیں ،مغرب کو اپنے نظام سمٹتے دکھائی درہے ہیں ،لوگ جمہوریت نہیں خلافت کی بات کرنے لگے ہیں ،وطن کے بتوں کو سجدے کرنے کی بجائے دارالاسلام کی چھائوں کی تلاش کرنے لگے ہیں۔ اس ساری پریشان کن صورت حال میں کفراب صرف اُس طبقہ سے امید لگائے ہوئے ہیں جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ،کفر کی امیدوں کا محور وہ لوگ ہیں جو کفر سے مفاہمت اور باطل کی ہمنوائی کو بطور منہج اپنائے ہوئے ہیں ،جن کے سب سے بڑے دشمن اللہ کے باغی طواغیت نہیں بلکہ وہ موحد ہیں جو باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرحق کی گواہی دے رہے ہیں ،جنہیں غیر اللہ کی پکار لگانے والوں سے تکلیف نہیں بلکہ ’اللہ کی زمین پراللہ کا نظا م ‘کا آوازہ بلند کرنے والوں سے بیر ودشمنی ہے ،جن کے دراوزے مشرکوں اورمرتدوںکے لئے تو کھلے ہیں مگر قومی بت توڑنے والوں کے لیے بند ،جو قرآنی آیات میں ان باطل نظاموں کو واجب الاطاعت قرار دینے کے لئے تحریف کرتے ہیں جبکہ قرآن باطل کو گرانے اور حق کو قائم کرنے کے سوا کوئی بات نہیں کرتا ،جو مسلکی مفادات پر امت کے مفاد کو قربان کرنے والے ہیں ،امت میں فقہی مسائل کی بنیاد پر جنگ و تفریق قائم کر کے غیر شعوری یا شعوری طور پر جہاد کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا چاہتے ہیں۔ان حالات میں ہماری سب سے پہلی ذمہ داری تمام اسلامی تحریکوں اور مخلص نوجوانوں کو باطل کی ہمنوائی کے اس جرم سے خبردار کرنا ہے ۔انہیں بتلانا ہے کہ عزت وذلت کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ،فتح و شکست اللہ کے ہاتھ میںہے لہٰذا اللہ کی توحید کا خیال کرو اللہ تمہاری نصرت کرے گا ،اور یاد رکھو اگر تم نے اللہ کی توحید پر سمجھوتے کیے ،اس کے دشمنوں سے یاریاں لگائیں ،توحید کے بیان اور شرک کے رد سے خاموش رہے تو پھر اللہ کے عذاب سے بچانے والا کوئی نہیں ۔لہٰذا اپنے رب کی عزت کا خیال کرو وہ تمہاری عزت کا خیال کرے گا ،اُس کے وقار کا خیال کرو وہ تمہیں بخش دے گا ۔یا د رکھو دنیا و آخرت کی کامیابی لا الہ الا اللہ کے اعلان میں مضمر ہے ۔دو سری بات وہ لوگ جو شعوری یا غیر شعوری طور پر اس بیمار منہج پر گامزن ہیں اُنہیں پہچاننا اور اُن سے دور رہنا ہماری فلاح کے لیے ضروری ہے ۔آج عالم عرب میں جس طرح اخوان المسلمین کو کامیابیاں مل رہی ہیں ،اور ان شخصیات کو جس طرح امت کے قیادت کے طورپر سامنے لایا جارہا ہے جن کی بے شمار قربانیوں اور حسنات کے باوجود راستہ اور منہج اُسی بیماری کا شکار ہے جس کا ہم نے ذکر کیا ہے،یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے جو کفر اخوان کے ساتھ اور پھر امت کے ساتھ کھیل رہا ہے ۔اخوان کو عرب کی اصول پرست ،ٹھیٹ تنظیموں کے اور یوسف القرضاوی جیسی شخصیات کوعلمائے حقہ کے متبادل کے طور پر امت کے سامنے پیش کرنا یقینا ایک بہت بڑی چال ہے ۔اخوان کی قربانیاں بجا مگر دین کے اصولوں پر سمجھوتوں سے اس تنظیم کی تاریخ اور حال بھرا پڑا ہے جس کا تفصیلی ذکر الگ مقالہ کا محتاج ہے ،اسی طرح شیخ یوسف القرضاوی کی بدعتی آراء کی لسٹ بہت طویل ہے ۔حال ہی میں موصوف نے شاہ عبداللہ فرمانروا سعودی عرب کو ایک خط بھیجا جس میں انہوں نے سعودیہ میں عورتوں کی مجلس شوریٰ میں رکنیت اور شرکت کو جائز قرار دینے پر شاہ عبداللہ کی مدح سرائی کی ،جس پر مدینہ منورہ کے نہایت بزرگ عالم الشیخ عبدالمحسن بن حمد العباد حفظہ اللہ نے شیخ یوسف القرضاوی کے ایک نصیحت آمیر خط لکھا اور انہیں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت فرمائی ،اسی طرح علامہ عبدالرحمن بن ناصر البراک حفظہ اللہ نے بھی قرضاوی صاحب کے اس خط پر رد فرمایا ہے جس کی علامہ صالح الفوزان حفظہ اللہ نے بھی تائید فرمائی ہے ۔

شیخ یوسف قرضاوی کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں :
لقد ابتسمت ثغور المسلمین ،وانشرحت صدور المؤمنین ،وسعدنا وسعد الکثیرون بتصریحکم الحکیم ،ورأیکم الرشید حول السماح للمرأۃبالترشح في کل من المجالس البلدیۃ والمحلیۃ ،ومجلس الشوریٰ
مسلمان خوشی سے جھوم اٹھے ،مومنوں کو انشراح صدر نصیب ہوا،ہم اور دیگر بہت سے لوگ آپ کا عورتوں کے بارے میں فرمان اور وضاحت کو پڑھ بے حد محظوظ ہوئے ۔ آپ کی یہ رائے کہ عورتوں کو بلدیاتی ،۔۔۔ ، مجلس شوریٰ کے انتخاب ( ووٹ ڈالنے )کی اجازت ہے ایک دانشمندانہ رائے ہے‘‘۔

علامہ البراک حفظہ اللہ رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

واِنک یا شیخ یوسف ھداک اللہ بھذا الخطاب لتضم صوتک اِلی صوت الھیئات والاتحادات الغربیۃ ،فانھم قد أیدوا ھذا القرار ،وصفقوا لہ بحرارۃ ،واِنھم واللہ اکثرفرحاً وسروراًبہ ممن فرح بہ من المسلمین ،من الذین ھم اتباع لھم ،أو ھم مخدعون بدعایاتھم ،واِن معنیٰ خطابک یا شیخ یوسف لیؤیدہ الرئیس الامریکي أوباما ،فأنت حري أن یکتب لک شکراً علی ھذا الخطاب أما علمت أنک بخطابک ھذا تصادم فتاویٰ علماء البلاد الذین ھم أعلم بحال بلادھم ومجتمعھم ،وبمآلات الأمور،وھم أنصح لولاۃِ امورھم
اے شیخ یوسف !اللہ آپکو ہدایت دے ،آپ نے اپنے اس بیان کے ذریعہ حقیقت میں یورپی اداروں اوران کے مشترکہ پلیٹ فارمز کی آواز میں آواز ملائی ہے ۔انہوں نے ہی (شاہ عبداللہ )کے اس فیصلہ کی حمایت کی اور اس کا بڑی گرمجوشی سے استقبال کیا ۔اللہ کی قسم ! وہ اُن مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر خوش و خرم ہوئے کہ جو ان کے پیروکار ہیں ،یا ان کے دعووں کے دھوکہ میں ہیں ۔آپ کے بیان کے مضمون کی حمایت امریکی صدر اوباما بھی کرے گا بلکہ آپ اس بات کے حق دار ہیں کہ وہ یہ بیان دینے پر آپ کاشکریہ ادا کرے ۔ آپ کے اس بیان کا ایک نتیجہ علماء کے درمیان اختلاف و افتراق کی صورت میں بھی ظاہر ہوا ہے ،ہمارے علماء اپنے ملکوں اور معاشروں کے حالات کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں ،وہ معاملات کے انجام پر زیادہ گہری نظر رکھتے ہیں اور وہ آپ سے زیادہ حکمرانوں کو نصیحت کرنے والے ہیں ‘‘۔

شیخ یوسف قرضاوی کی اسلامی قوتوں سے یہ کوئی پہلی غداری نہیں وہ پہلے بھی کئی مرتبہ اسی قسم کا رویہ رکھتے رہے ہیں اللہ انہیں ہدایت نصیب فرمائے ۔شیخ قرضاوی کی طرح ہمارے ہاں بھی جن تحریکوں اور شخصیات کو سامنے لایا جا رہا ہے وہ بھی توحید کی غیرت اور ملت کی حمیت سے خالی ہیں ، وطنی ،قومی ، مسلکی اور ذاتی مفاد ان کا بھی بنیادی مسئلہ ہے ۔ا لغرض اس قسم کے بیمار لوگوں کو امت کا قائد بنانا سوائے امت کو ہلاکت میں ڈالنے کے کچھ نہیں لہٰذا ان سے خبردار رہنا ہر اسلامی جماعت و کارکن کا فرض ہے ۔اس امت کی کشتی پار لگانے والے وہی قائدین و علماء ہیں جو اپنے علم و عمل میں سچائی کا ثبوت دیتے ہوئے آج کفر کے مدمقابل کھڑے ہیں اللہ ان کی حفاظت فرمائے ،آمین۔جو توحید کا ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرتے ہیں ،جو اللہ کے باغیوں سے عداوت رکھتے ہیں ،جو شرک و کفر کے بارے میں کوئی نرم پہلو نہیں رکھتے ،جو ہدایت ورہنمائی اللہ کے قرآن سے لیتے ہیں ،جن کا منہج پیارے پیغمبر محمد ﷺ کی سیرت سے معطر ہے ،جو سلف صالحین کی اتباع کرنے والے ہیں ،امام الدعوۃمحمد بن عبدالوہاب اور ان جیسے علمائے امت و مجددین ملت کے راستے پر ہیںجن کا راستہ و منہج نبوی تھا ۔اللہ سے دعا ہے ہمیں ہر قسم کی گمراہی سے محفوظ فرمائے ،ہمیں اپنے نور میں چلائے ،نفس کی شرارت سے بچائے ،آمین یا رب العالمین ۔
 
Top